سنن الترمذی - طہارت جو مروی ہیں رسول اللہ ﷺ سے - حدیث نمبر 69
حدیث نمبر: 69
حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ، عَنْ مَالِكٍ. ح وحَدَّثَنَا الْأَنْصَارِيُّ إِسْحَاق بْنُ مُوسَى، حَدَّثَنَا مَعْنٌ، حَدَّثَنَا مَالِكٌ، عَنْ صَفْوَانَ بْنِ سُلَيْمٍ، عَنْ سَعِيدِ بْنِ سَلَمَةَ مِنْ آلِ ابْنِ الْأَزْرَقِ، ‏‏‏‏‏‏أَنَّ الْمُغِيرَةَ بْنَ أَبِي بُرْدَةَ وَهُوَ مِنْ بَنِي عَبْدِ الدَّارِ أَخْبَرَهُ، ‏‏‏‏‏‏أَنَّهُ سَمِعَ أَبَا هُرَيْرَةَ، يَقُولُ:‏‏‏‏ سَأَلَ رَجُلٌ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقَالَ:‏‏‏‏ يَا رَسُولَ اللَّهِ إِنَّا نَرْكَبُ الْبَحْرَ وَنَحْمِلُ مَعَنَا الْقَلِيلَ مِنَ الْمَاءِ، ‏‏‏‏‏‏فَإِنْ تَوَضَّأْنَا بِهِ عَطِشْنَا، ‏‏‏‏‏‏أَفَنَتَوَضَّأُ مِنْ مَاءِ الْبَحْرِ ؟ فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:‏‏‏‏ هُوَ الطَّهُورُ مَاؤُهُ الْحِلُّ مَيْتَتُهُ . قال:‏‏‏‏ وَفِي الْبَاب عَنْ جَابِرٍ،‏‏‏‏ وَالْفِرَاسِيِّ. قال أبو عيسى:‏‏‏‏ هَذَا حَسَنٌ صَحِيحٌ، ‏‏‏‏‏‏وَهُوَ قَوْلُ أَكْثَرِ الْفُقَهَاءِ مِنْ أَصْحَابِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، ‏‏‏‏‏‏مِنْهُمْ أَبُو بَكْرٍ،‏‏‏‏ وَعُمَرُ،‏‏‏‏ وَابْنُ عَبَّاسٍ لَمْ يَرَوْا بَأْسًا بِمَاءِ الْبَحْرِ، ‏‏‏‏‏‏وَقَدْ كَرِهَ بَعْضُ أَصْحَابِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ الْوُضُوءَ بِمَاءِ الْبَحْرِ، ‏‏‏‏‏‏مِنْهُمْ ابْنُ عُمَرَ،‏‏‏‏ وَعَبْدُ اللَّهِ بْنُ عَمْرٍو، ‏‏‏‏‏‏وَقَالَ عَبْدُ اللَّهِ بْنُ عَمْرٍو:‏‏‏‏ هُوَ نَارٌ.
دریا کا پانی پاک ہونا
ابوہریرہ ؓ کہتے ہیں کہ ایک آدمی نے رسول اللہ سے عرض کیا: اللہ کے رسول! ہم سمندر کا سفر کرتے ہیں اور اپنے ساتھ تھوڑا پانی لے جاتے ہیں، اگر ہم اس سے وضو کرلیں تو پیاسے رہ جائیں گے، تو کیا ایسی صورت میں ہم سمندر کے پانی سے وضو کرسکتے ہیں؟ رسول اللہ نے فرمایا: سمندر کا پانی پاک ١ ؎ ہے، اور اس کا مردار حلال ہے ٢ ؎۔
امام ترمذی کہتے ہیں: ١- یہ حدیث حسن صحیح ہے، ٢- اس باب میں جابر بن عبداللہ اور فراسی ؓ سے بھی روایت ہے، ٣- اور یہی صحابہ کرام ؓ میں سے اکثر فقہاء کا قول ہے جن میں ابوبکر، عمر اور ابن عباس بھی ہیں کہ سمندر کے پانی سے وضو کرنے میں کوئی حرج نہیں، بعض صحابہ کرام نے سمندر کے پانی سے وضو کو مکروہ جانا ہے، انہیں میں ابن عمر اور عبداللہ بن عمرو ہیں عبداللہ بن عمرو کا کہنا ہے کہ سمندر کا پانی آگ ہے۔
تخریج دارالدعوہ: سنن ابی داود/ الطہارة ٤١ (٨٣) سنن النسائی/الطہارة ٤٧ (٥٩) والمیاہ ٥ (٣٣٣) والصید ٣٥ (٤٣٥٥) سنن ابن ماجہ/الطہارة ٣٩ (٣٨٦) (تحفة الأشراف: ١٤٦١٨) موطا امام مالک/الطہارة ٣ (١٢) مسند احمد (٢/٢٣٧، ٣٦١، ٣٧٨) سنن الدارمی/الطہارة ٥٣ (٧٥٦) (صحیح)
وضاحت: ١ ؎: یعنی «طاہر» (پاک ) اور «مطہر» (پاک کرنے والا ) دونوں ہے۔ ٢ ؎: سمندر کے مردار سے مراد وہ سمندری اور دریائی جانور ہے جو صرف پانی ہی میں زندہ رہتا ہو، نیز مردار کا لفظ عام ہے ہر طرح کے جانور جو پانی میں رہتے ہوں خواہ وہ کتے اور خنزیر کے شکل کے ہی کے کیوں نہ ہوں، بعض علماء نے کہا ہے کہ اس سے مراد صرف مچھلی ہے، کیونکہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا ہے: دو مردے حلال ہیں: مچھلی اور ٹڈی، اور بعض علماء کہتے ہیں کہ خشکی میں جس حیوان کے نظیر و مثال جانور کھائے جاتے وہی سمندری مردار حلال ہے، لیکن تحقیقی بات یہ ہے کہ سمندر کا ہر وہ جانور ( زندہ یا مردہ ) حلال ہے جو انسانی صحت کے لیے عمومی طور پر نقصان دہ نہ ہو، اور نہ ہی خبیث قسم کا ہو جیسے کچھوا، اور کیکڑا وغیرہ، یہ دونوں اصول ضابطہٰ سمندری غیر سمندری ہر طرح کے جانور کے لیے ہیں۔
قال الشيخ الألباني: صحيح، ابن ماجة (386 - 388)
صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني: حديث نمبر 69
Safwan inb Sulaym reported on the authority of Sa’eed ibn Salamah of the descendants of ibn al Azraq that Mughirah ibn Abu burdah Abdad Dar informed him that he heard Sayyidina Abu Hurraira say that a man said to Allah’s messenger ﷺ , “ O then we would go thirsty. May we make ablution with sea water?” He said ,” Its water is pure and its dead are lawful food”
Top