سنن الترمذی - طہارت جو مروی ہیں رسول اللہ ﷺ سے - حدیث نمبر 7
حدیث نمبر: 7
حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ إِسْمَاعِيل، حَدَّثَنَا مَالِكُ بْنُ إِسْمَاعِيل، عَنْ إِسْرَائِيلَ بْنِ يُونُسَ، عَنْ يُوسُفَ بْنِ أَبِي بُرْدَةَ، عَنْأَبِيهِ، عَنْ عَائِشَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا،‏‏‏‏ قَالَتْ:‏‏‏‏ كَانَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِذَا خَرَجَ مِنَ الْخَلَاءِ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ غُفْرَانَكَ . قَالَ أَبُو عِيسَى:‏‏‏‏ هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ غَرِيبٌ، ‏‏‏‏‏‏لَا نَعْرِفُهُ إِلَّا مِنْ حَدِيثِ إِسْرَائِيلَ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ يُوسُفَ بْنِ أَبِي بُرْدَةَ، ‏‏‏‏‏‏وَأَبُو بُرْدَةَ بْنُ أَبِي مُوسَى اسْمُهُ:‏‏‏‏ عَامِرُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ قَيْسٍ الْأَشْعَرِيُّ، ‏‏‏‏‏‏وَلَا نَعْرِفُ فِي هَذَا الْبَابِ إِلَّا حَدِيثَ عَائِشَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا، ‏‏‏‏‏‏عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ.
بیت الخلاء سے نکلتے وقت کیا کہے
ام المؤمنین عائشہ ؓ کہتی ہیں کہ نبی اکرم قضائے حاجت کے بعد جب پاخانہ سے نکلتے تو فرماتے: «غفرانک‏» یعنی اے اللہ: میں تیری بخشش کا طلب گار ہوں ١ ؎۔
امام ترمذی کہتے ہیں: ١- یہ حدیث حسن غریب ہے ٢ ؎، ٢- اس باب میں عائشہ ؓ ہی کی حدیث معروف ہے ٣ ؎۔
تخریج دارالدعوہ: سنن ابی داود/ الطہارة ١٧ (٣٠) سنن ابن ماجہ/الطہارة ١٠ (٣٠٠) (تحفة الأشراف: ١٧٩٤) سنن الدارمی/الطہارة ١٧ (٧٠٧) (صحیح)
وضاحت: ١ ؎: ایسے موقع پر استغفار طلب کرنے کی وجہ یہ ہے کہ کھانا کھانے کے بعد اس کے فضلے کے نکلنے تک کی ساری باتیں اللہ تعالیٰ کے بےانتہا انعامات میں سے ہیں جن کا شکر ادا کرنے سے انسان قاصر ہے، اس لیے قضائے حاجت کے بعد انسان اس کوتاہی کا اعتراف کرے، اس موقع کی دوسری دعا سب تعریفیں اس اللہ کے لیے ہیں جس نے مجھ سے تکلیف دہ چیز کو دور کردیا اور مجھے عافیت دی کے معنی سے اس معنی کی تائید ہوتی ہے۔ ٢ ؎: یہ حدیث حسن غریب ہے، یہ ایک مشکل اصطلاح ہے کیونکہ حدیث حسن میں ایک سے زائد سند بھی ہوسکتی ہے جب کہ غریب سے مراد وہ روایت ہے جو صرف ایک سند سے آئی ہو، اس کا جواب یہ ہے کہ یہ حدیث اپنے رتبے کے لحاظ سے حسن ہے اور کسی خارجی تقویت و تائید کی محتاج نہیں، اس بات کو امام ترمذی نے غریب کے لفظ سے تعبیر کیا ہے یعنی اسے حسن لذاتہ بھی کہہ سکتے ہیں، واضح رہے کہ امام ترمذی حسن غریب کے ساتھ کبھی کبھی دو طرح کے جملے استعمال کرتے ہیں، ایک «لانعرفه إلامن هذا الوجه» ہے، اور دوسرا «وإسناده ليس بمتصل» پہلے جملہ سے یہ بتانا مقصود ہوتا ہے کہ یہ حدیث صرف ایک طریق سے وارد ہوئی ہے اور دوسرے سے یہ بتانا مقصود ہوتا ہے کہ یہ روایت ضعیف ہے، یہاں حسن سے مراد وہ حسن ہے جس میں راوی متہم بالکذب نہ ہو، اور غریب سے مراد یہاں اس کا ضعف ظاہر کرنا ہے اور «إسناده ليس بمتصل» کہہ کر اس بات کی طرف اشارہ کیا ہے کہ سند میں انقطاع ہے یعنی اس کا ضعف خفیف ہے۔ ٣ ؎: یعنی اس باب میں اگرچہ اور بھی احادیث آئی ہیں لیکن عائشہ ؓ کی مذکورہ بالا حدیث کے سوا کوئی حدیث قوی سند سے ثابت نہیں۔
قال الشيخ الألباني: صحيح، ابن ماجة (300)
صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني: حديث نمبر 7
Aisha narrated that when the Prophet ﷺ (Peace be upon him) came out of the toilet, he said: (O Allah! I seek Your forgiveness)
Top