سنن الترمذی - علم کا بیان - حدیث نمبر 2653
حدیث نمبر: 2653
حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ عَبْدِ الرَّحْمَنِ، أَخْبَرَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ صَالِحٍ، حَدَّثَنِي مُعَاوِيَةُ بْنُ صَالِحٍ، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ جُبَيْرِ بْنِ نُفَيْرٍ، عَنْ أَبِيهِ جُبَيْرِ بْنِ نُفَيْرٍ، عَنْ أَبِي الدَّرْدَاءِ، قَالَ:‏‏‏‏ كُنَّا مَعَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، ‏‏‏‏‏‏فَشَخَصَ بِبَصَرِهِ إِلَى السَّمَاءِ ثُمَّ قَالَ:‏‏‏‏ هَذَا أَوَانُ يُخْتَلَسُ الْعِلْمُ مِنَ النَّاسِ حَتَّى لَا يَقْدِرُوا مِنْهُ عَلَى شَيْءٍ ، ‏‏‏‏‏‏فَقَالَ زِيَادُ بْنُ لَبِيدٍ الْأَنْصَارِيُّ:‏‏‏‏ كَيْفَ يُخْتَلَسُ مِنَّا وَقَدْ قَرَأْنَا الْقُرْآنَ ؟ فَوَاللَّهِ لَنَقْرَأَنَّهُ، ‏‏‏‏‏‏وَلَنُقْرِئَنَّهُ نِسَاءَنَا، ‏‏‏‏‏‏وَأَبْنَاءَنَا، ‏‏‏‏‏‏فَقَالَ:‏‏‏‏ ثَكِلَتْكَ أُمُّكَ يَا زِيَادُ إِنْ كُنْتُ لَأَعُدُّكَ مِنْ فُقَهَاءِ أَهْلِ الْمَدِينَةِ، ‏‏‏‏‏‏هَذِهِ التَّوْرَاةُ وَالْإِنْجِيلُ عِنْدَ الْيَهُودِ،‏‏‏‏ وَالنَّصَارَى فَمَاذَا تُغْنِي عَنْهُمْ ،‏‏‏‏ قَالَ جُبَيْرٌ:‏‏‏‏ فَلَقِيتُ عُبَادَةَ بْنَ الصَّامِتِ، قُلْتُ:‏‏‏‏ أَلَا تَسْمَعُ إِلَى مَا يَقُولُ أَخُوكَ أَبُو الدَّرْدَاءِ ؟ فَأَخْبَرْتُهُ بِالَّذِي قَالَ أَبُو الدَّرْدَاءِ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ صَدَقَ أَبُو الدَّرْدَاءِ إِنْ شِئْتَ لَأُحَدِّثَنَّكَ بِأَوَّلِ عِلْمٍ يُرْفَعُ مِنَ النَّاسِ الْخُشُوعُ يُوشِكُ أَنْ تَدْخُلَ مَسْجِدَ جَمَاعَةٍ فَلَا تَرَى فِيهِ رَجُلًا خَاشِعًا ،‏‏‏‏ قَالَ أَبُو عِيسَى:‏‏‏‏ هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ غَرِيبٌ، ‏‏‏‏‏‏وَمُعَاوِيَةُ بْنُ صَالِحٍ ثِقَةٌ عِنْدَ أَهْلِ الْحَدِيثِ، ‏‏‏‏‏‏وَلَا نَعْلَمُ أَحَدًا تَكَلَّمَ فِيهِ غَيْرَ يَحْيَى بْنِ سَعِيدٍ الْقَطَّانِ، ‏‏‏‏‏‏وَقَدْ رُوِيَ عَنْ مُعَاوِيَةَ بْنِ صَالِحٍ نَحْوُ هَذَا، ‏‏‏‏‏‏وَرَوَى بَعْضُهُمْ هَذَا الْحَدِيثَ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ جُبَيْرِ بْنِ نُفَيْرٍ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ عَوْفِ بْنِ مَالِكٍ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ.
دنیا سے علم کے اٹھ جانے کے متعلق
ابو الدرداء ؓ کہتے ہیں کہ ہم رسول اللہ کے ساتھ تھے، اچانک آپ نے اپنی نظریں آسمان پر گاڑ دیں، پھر فرمایا: ایسا وقت (آ گیا) ہے کہ جس میں لوگوں کے سینوں سے علم اچک لیا جائے گا۔ یہاں تک کہ لوگوں کے پاس کچھ بھی علم نہیں ہوگا، زیاد بن لبید انصاری نے کہا: (اللہ کے رسول! ) علم ہم سے کس طرح چھین لیا جائے گا جب کہ ہم قرآن پڑھتے ہوں گے۔ قسم اللہ کی! ہم ضرور اسے پڑھیں گے اور ہم ضرور اپنی عورتوں کو اسے پڑھائیں گے اور اپنے بچوں کو سکھائیں گے۔ آپ نے فرمایا: اے زیاد تمہاری ماں تمہیں کھو دے! میں تو تمہیں اہل مدینہ کے فقہاء میں سے شمار کرتا تھا۔ یہ تورات اور انجیل بھی تو پاس ہے یہود و نصاریٰ کے کیا کام آئی ان کے؟ ١ ؎ (کیا فائدہ پہنچایا تورات اور انجیل نے ان کو؟ ) ۔ جبیر (راوی) کہتے ہیں: میری ملاقات عبادہ بن صامت ؓ سے ہوئی تو میں نے ان سے کہا: کیا آپ نہیں سنتے کہ آپ کے بھائی ابوالدرداء ؓ کیا کہتے ہیں؟ پھر ابوالدرداء ؓ نے جو کہا تھا وہ میں نے انہیں بتادیا۔ انہوں نے کہا: ابوالدرداء ؓ نے سچ کہا۔ اور اگر تم (مزید) جاننا چاہو تو میں تمہیں بتاسکتا ہوں کہ پہلے پہل لوگوں سے اٹھا لیا جانے والا علم، خشوع ہے۔ عنقریب ایسا وقت آئے گا کہ تم جامع مسجد کے اندر جاؤ گے لیکن وہاں تمہیں کوئی (صحیح معنوں میں) خشوع خضوع اپنانے والا شخص دکھائی نہ دے گا۔
امام ترمذی کہتے ہیں: ١ - یہ حدیث حسن غریب ہے، ٢ - معاویہ بن صالح محدثین کے نزدیک ثقہ ہیں۔ اور یحییٰ بن سعید قطان کے سوا ہم کسی کو نہیں جانتے کہ اس نے ان کے متعلق کچھ کلام کیا ہو، ٣ - معاویہ بن صالح سے بھی اسی طرح کی حدیث مروی ہے، ٤ - بعضوں نے یہ حدیث عبدالرحمٰن بن جبیر بن نفیر سے، عبدالرحمٰن نے اپنے والد جبیر سے، جبیر نے عوف بن مالک سے اور عوف بن مالک نے بنی اکرم سے روایت کی ہے۔
تخریج دارالدعوہ: تفرد بہ المؤلف (تحفة الأشراف: ١٠٩٢٨) (صحیح )
وضاحت: ١ ؎: یعنی ان کتابوں نے انہیں کیا فائدہ پہنچایا؟ جس طرح یہود و نصاریٰ تورات و انجیل کو پا کر اس سے فائدہ نہ اٹھا سکے، قرب قیامت میں یہی حال تم مسلمانوں کا بھی ہوگا، کیونکہ تمہارے اچھے علماء ختم ہوجائیں گے، اور قرآن تمہارے پاس ہوگا، پھر بھی تم اس کے فیض سے محروم رہو گے۔
قال الشيخ الألباني: صحيح تخريج اقتضاء العلم العمل (89)
صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني: حديث نمبر 2653
Sayyidina Abu Darda (RA) narrated: We were with the Prophet ﷺ when he turned his sight towards the heaven and said, This is the time when knowledge is being withdrawn from the people till they will have no control over anything of it.” So, Ziyad ibn Labit Ansari (RA) said, ‘How will it be withdrawn from us while we have read the Qur’an and, by Allah, we do read it, as our women do read it, as also our children?’ He said, “O Ziyad! May your mother weep over you! I took you for a learned man of Madinah! There is the Torah and the Injil with the Jews and the Christians, but how do they benefit from it?” Jubayr reported that he then met Ubadahh ibn Samit and said to him, “Did you hear what your brother Abu Darda said?’ And he informed him of what Abu Darda (RA) had said. He said, “Abu Darda has spoken the truth. If you like, I will tell you of the first (kind of) knowledge that will be taken away from the people humbleness! Soon, you will enter a Jami Masjid and not find even one man observing humbleness.” [Ahmed 24045]
Top