سنن الترمذی - قرآن کی تفسیر کا بیان - حدیث نمبر 2965
حدیث نمبر: 2965
حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِي عُمَرَ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ، قَال:‏‏‏‏ سَمِعْتُ الزُّهْرِيَّ يُحَدِّثُ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ عُرْوَةَ، قَالَ:‏‏‏‏ قُلْتُ لِعَائِشَةَ:‏‏‏‏ مَا أَرَى عَلَى أَحَدٍ لَمْ يَطُفْ بَيْنَ الصَّفَا وَالْمَرْوَةِ شَيْئًا، ‏‏‏‏‏‏وَمَا أُبَالِي أَنْ لَا أَطُوفَ بَيْنَهُمَا، ‏‏‏‏‏‏فَقَالَتْ:‏‏‏‏ بِئْسَمَا، ‏‏‏‏‏‏قُلْتَ:‏‏‏‏ يَا ابْنَ أُخْتِي، ‏‏‏‏‏‏طَافَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، ‏‏‏‏‏‏وَطَافَ الْمُسْلِمُونَ، ‏‏‏‏‏‏وَإِنَّمَا كَانَ مَنْ أَهَلَّ لِمَنَاةَ الطَّاغِيَةِ الَّتِي بِالْمُشَلَّلِ لَا يَطُوفُونَ بَيْنَ الصَّفَا وَالْمَرْوَةِ، ‏‏‏‏‏‏فَأَنْزَلَ اللَّهُ تَبَارَكَ وَتَعَالَى:‏‏‏‏ فَمَنْ حَجَّ الْبَيْتَ أَوِ اعْتَمَرَ فَلا جُنَاحَ عَلَيْهِ أَنْ يَطَّوَّفَ بِهِمَا سورة البقرة آية 158 وَلَوْ كَانَتْ كَمَا تَقُولُ لَكَانَتْ فَلَا جُنَاحَ عَلَيْهِ أَنْ لَا يَطَّوَّفَ بِهِمَا ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ الزُّهْرِيُّ:‏‏‏‏ فَذَكَرْتُ ذَلِكَ لِأَبِي بَكْرِ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ الْحَارِثِ بْنِ هِشَامٍ، ‏‏‏‏‏‏فَأَعْجَبَهُ ذَلِكَ، ‏‏‏‏‏‏وَقَالَ إِنَّ هَذَا لَعِلْمٌ، ‏‏‏‏‏‏وَلَقَدْ سَمِعْتُ رِجَالًا مِنْ أَهْلِ الْعِلْمِ، ‏‏‏‏‏‏يَقُولُونَ:‏‏‏‏ إِنَّمَا كَانَ مَنْ لَا يَطُوفُ بَيْنَ الصَّفَا وَالْمَرْوَةِ مِنَ الْعَرَبِ، ‏‏‏‏‏‏يَقُولُونَ:‏‏‏‏ إِنَّ طَوَافَنَا بَيْنَ هَذَيْنِ الْحَجَرَيْنِ مِنْ أَمْرِ الْجَاهِلِيَّةِ، ‏‏‏‏‏‏وَقَالَ آخَرُونَ:‏‏‏‏ مِنَ الْأَنْصَارِ إِنَّمَا أُمِرْنَا بِالطَّوَافِ بِالْبَيْتِ وَلَمْ نُؤْمَرْ بِهِ بَيْنَ الصَّفَا وَالْمَرْوَةِ، ‏‏‏‏‏‏فَأَنْزَلَ اللَّهُ تَعَالَى:‏‏‏‏ إِنَّ الصَّفَا وَالْمَرْوَةَ مِنْ شَعَائِرِ اللَّهِ سورة البقرة آية 158، ‏‏‏‏‏‏قَالَ أَبُو بَكْرِ بْنُ عَبْدُ الرَّحْمَنِ فَأُرَاهَا قَدْ نَزَلَتْ فِي هَؤُلَاءِ وَهَؤُلَاءِ ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ أَبُو عِيسَى:‏‏‏‏ هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ.
سورت بقرہ کے متعلق
عروہ بن زبیر ؓ کہتے ہیں کہ میں نے ام المؤمنین عائشہ ؓ سے کہا: میں اس میں کوئی حرج نہیں سمجھتا کہ کوئی شخص صفا و مروہ کے درمیان طواف نہ کرے، اور میں خود اپنے لیے ان کے درمیان طواف نہ کرنے میں کوئی حرج نہیں پاتا۔ تو عائشہ نے کہا: اے میرے بھانجے! تم نے بری بات کہہ دی۔ رسول اللہ نے طواف کیا اور مسلمانوں نے بھی کیا ہے۔ ہاں ایسا زمانہ جاہلیت میں تھا کہ جو لوگ مناۃ (بت) کے نام پر جو مشلل ١ ؎ میں تھا احرام باندھتے تھے وہ صفا و مروہ کے درمیان طواف نہیں کرتے تھے، تو اللہ تبارک وتعالیٰ نے یہ آیت: «فمن حج البيت أو اعتمر فلا جناح عليه أن يطوف بهما» ٢ ؎ نازل فرمائی۔ اگر بات اس طرح ہوتی جس طرح تم کہہ رہے ہو تو آیت اس طرح ہوتی «فلا جناح عليه أن لا يطوف بهما» (یعنی اس پر صفا و مروہ کے درمیان طواف نہ کرنے میں کوئی حرج نہیں ہے) ۔ زہری کہتے ہیں: میں نے اس بات کا ذکر ابوبکر بن عبدالرحمٰن بن حارث بن ہشام سے کیا تو انہیں یہ بات بڑی پسند آئی۔ کہا: یہ ہے علم و دانائی کی بات۔ اور (بھئی) میں نے تو کئی اہل علم کو کہتے سنا ہے کہ جو عرب صفا و مروہ کے درمیان طواف نہ کرتے تھے وہ کہتے تھے کہ ہمارا طواف ان دونوں پتھروں کے درمیان جاہلیت کے کاموں میں سے ہے۔ اور کچھ دوسرے انصاری لوگوں نے کہا: ہمیں تو خانہ کعبہ کے طواف کا حکم ملا ہے نہ کہ صفا و مروہ کے درمیان طواف کا۔ (اسی موقع پر) اللہ تعالیٰ نے آیت: «إن الصفا والمروة من شعائر الله» نازل فرمائی ٣ ؎۔ ابوبکر بن عبدالرحمٰن کہتے ہیں: میں سمجھتا ہوں کہ یہ آیت انہیں لوگوں کے بارے میں نازل ہوئی ہے۔
امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث حسن صحیح ہے۔
تخریج دارالدعوہ: صحیح البخاری/الحج ٧٩ (١٦٤٣)، والعمرة ١٠ (١٧٩٠)، وتفسیر البقرة ٢١ (٤٤٩٥)، وتفسیر النجم ٣ (٤٨٦١)، صحیح مسلم/الحج ٤٣ (١٢٧٧)، سنن ابی داود/ الحج ٥٦ (١٩٠١)، سنن النسائی/الحج ٤٣ (٢٩٨٦) (تحفة الأشراف: ١٦٤٣٨)، وط/الحج ٤٢ (١٢٩)، و مسند احمد (٦/١٤٤، ١٦٢، ٢٢٧) (صحیح )
وضاحت: ١ ؎: مشلل مدینہ سے کچھ دوری پر ایک مقام کا نام ہے جو قدید کے پاس ہے۔ ٢ ؎: (صفا اور مروہ اللہ تعالیٰ کی نشانیوں میں سے ہیں) اس لیے بیت اللہ کا حج اور عمرہ کرنے والے پر ان کا طواف کرلینے میں بھی کوئی گناہ نہیں (البقرہ: ١٥٨ ٣ ؎: خلاصہ یہ ہے کہ آیت کے سیاق کا یہ انداز انصار کی ایک غلط فہمی کا ازالہ ہے جو اسلام لانے کے بعد حج و عمرہ میں صفا و مروہ کے درمیان سعی کو معیوب سمجھتے تھے کیونکہ صفا پر ایک بت اِساف نام کا تھا، اور مروہ پر نائلہ نام کا، اس پر اللہ نے فرمایا: ارے اب اسلام میں ان دونوں کو توڑ دیا گیا ہے، اب ان کے درمیان سعی کرنے میں شرک کا شائبہ نہیں رہ گیا، بلکہ اب تو یہ سعی فرض ہے، ارشاد نبوی ہے «اسعوا فإن اللہ کتب علیکم السعی» (احمد والحاکم بسند حسن) (یعنی: سعی کرو، کیونکہ اللہ نے اس کو تم پر فرض کردیا ہے)۔
قال الشيخ الألباني: صحيح، ابن ماجة (2986)
صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني: حديث نمبر 2965
Urwah narrated: I submitted to Sayyidah Aisha (RA), “I see no wrong in one who does not make the round of Safa and Marwah and I do not mind not making these rounds.” She said, ‘O nephew, how sad a thing you have spoken! Allah’s Messenger ﷺ had made the rounds and the Muslim s have been making the rounds. Only he who had called the Labbayk for Manah - the idol in Mushallal - did not make the rounds between Safa and Marwah; so Allah, the Blessed and the Exalted, revealed: “So if those who visit the House in the Season or at other times, should compass them round, it is no sin in them.” (2: 158) And, if it was as you say then it would have been: There is no blame on him if he does not go round them.(But it is not so). [Ahmed 25166,Bukhari 1643,Muslim 1277,Nisai 2967, Ibn e Majah 2986] --------------------------------------------------------------------------------
Top