سنن الترمذی - قرآن کی تفسیر کا بیان - حدیث نمبر 2972
حدیث نمبر: 2972
حَدَّثَنَا حَدَّثَنَا عَبْدُ بْنُ حُمَيْدٍ، حَدَّثَنَا الضَّحَّاكُ بْنُ مَخْلَدٍ، عَنْ حَيْوَةَ بْنِ شُرَيْحٍ، عَنْ يَزِيدَ بْنِ أَبِي حَبِيبٍ، عَنْ أَسْلَمَ أَبِي عِمْرَانَ التُّجِيبِيِّ، قَالَ:‏‏‏‏ كُنَّا بِمَدِينَةِ الرُّومِ فَأَخْرَجُوا إِلَيْنَا صَفًّا عَظِيمًا مِنْ الرُّومِ، ‏‏‏‏‏‏فَخَرَجَ إِلَيْهِمْ مِنَ الْمُسْلِمِينَ مِثْلُهُمْ أَوْ أَكْثَرُ، ‏‏‏‏‏‏وَعَلَى أَهْلِ مِصْرَ عُقْبَةُ بْنُ عَامِرٍ، ‏‏‏‏‏‏وَعَلَى الْجَمَاعَةِ فَضَالَةُ بْنُ عُبَيْدٍ، ‏‏‏‏‏‏فَحَمَلَ رَجُلٌ مِنَ الْمُسْلِمِينَ عَلَى صَفِّ الرُّومِ حَتَّى دَخَلَ فِيهِمْ، ‏‏‏‏‏‏فَصَاحَ النَّاسُ وَقَالُوا:‏‏‏‏ سُبْحَانَ اللَّهِ يُلْقِي بِيَدَيْهِ إِلَى التَّهْلُكَةِ، ‏‏‏‏‏‏فَقَامَ أَبُو أَيُّوبَ الْأَنْصَارِيُّ، فَقَالَ:‏‏‏‏ يَا أَيُّهَا النَّاسُ، ‏‏‏‏‏‏إِنَّكُمْ تَتَأَوَّلُونَ هَذِهِ الْآيَةَ هَذَا التَّأْوِيلَ، ‏‏‏‏‏‏وَإِنَّمَا أُنْزِلَتْ هَذِهِ الْآيَةَ فِينَا مَعْشَرَ الْأَنْصَارِ لَمَّا أَعَزَّ اللَّهُ الْإِسْلَامَ وَكَثُرَ نَاصِرُوهُ، ‏‏‏‏‏‏فَقَالَ:‏‏‏‏ بَعْضُنَا لِبَعْضٍ سِرًّا دُونَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:‏‏‏‏ إِنَّ أَمْوَالَنَا قَدْ ضَاعَتْ وَإِنَّ اللَّهَ قَدْ أَعَزَّ الْإِسْلَامَ وَكَثُرَ نَاصِرُوهُ فَلَوْ أَقَمْنَا فِي أَمْوَالِنَا فَأَصْلَحْنَا مَا ضَاعَ مِنْهَا، ‏‏‏‏‏‏فَأَنْزَلَ اللَّهُ عَلَى نَبِيِّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَرُدُّ عَلَيْنَا مَا قُلْنَا:‏‏‏‏ وَأَنْفِقُوا فِي سَبِيلِ اللَّهِ وَلا تُلْقُوا بِأَيْدِيكُمْ إِلَى التَّهْلُكَةِ سورة البقرة آية 195 فَكَانَتِ التَّهْلُكَةُ الْإِقَامَةَ عَلَى الْأَمْوَالِ وَإِصْلَاحِهَا وَتَرْكَنَا الْغَزْوَ فَمَا زَالَ أَبُو أَيُّوبَ شَاخِصًا فِي سَبِيلِ اللَّهِ حَتَّى دُفِنَ بِأَرْضِ الرُّومِ ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ أَبُو عِيسَى:‏‏‏‏ هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ غَرِيبٌ.
سورت بقرہ کے متعلق
اسلم ابوعمران تجیبی کہتے ہیں کہ ہم روم شہر میں تھے، رومیوں کی ایک بڑی جماعت ہم پر حملہ آور ہونے کے لیے نکلی تو مسلمان بھی انہی جیسی بلکہ ان سے بھی زیادہ تعداد میں ان کے مقابلے میں نکلے، عقبہ بن عامر ؓ اہل مصر کے گورنر تھے اور فضالہ بن عبید ؓ فوج کے سپہ سالار تھے۔ ایک مسلمان رومی صف پر حملہ آور ہوگیا اور اتنا زبردست حملہ کیا کہ ان کے اندر گھس گیا۔ لوگ چیخ پڑے، کہنے لگے: سبحان اللہ! اللہ پاک و برتر ہے اس نے تو خود ہی اپنے آپ کو ہلاکت میں جھونک دیا ہے۔ (یہ سن کر) ابوایوب انصاری ؓ کھڑے ہوئے اور کہا: لوگو! تم اس آیت کی یہ تاویل کرتے ہو، یہ آیت تو ہم انصار کے بارے میں اتری ہے، جب اللہ نے اسلام کو طاقت بخشی اور اس کے مددگار بڑھ گئے تو ہم میں سے بعض لوگوں نے رسول اللہ سے چھپا کر رازداری سے آپس میں کہا کہ ہمارے مال برباد ہوگئے ہیں (یعنی ہماری کھیتی باڑیاں تباہ ہوگئی ہیں) اللہ نے اسلام کو قوت و طاقت بخش دی۔ اس کے (حمایتی) و مددگار بڑھ گئے، اب اگر ہم اپنے کاروبار اور کھیتی باڑی کی طرف متوجہ ہوجاتے تو جو نقصان ہوگیا ہے اس کمی کو پورا کرلیتے، چناچہ ہم میں سے جن لوگوں نے یہ بات کہی تھی اس کے رد میں اللہ تعالیٰ نے اپنے نبی پر یہ آیت نازل فرمائی۔ اللہ نے فرمایا: «وأنفقوا في سبيل اللہ ولا تلقوا بأيديكم إلى التهلكة» اللہ تعالیٰ کی راہ میں خرچ کرو اور اپنے ہاتھوں کو ہلاکت میں نہ ڈالو (البقرہ: ١٩٥ ) ، تو ہلاکت یہ تھی کہ مالی حالت کو سدھار نے کی جدوجہد میں لگا جائے، اور جہاد کو چھوڑ دیا جائے (یہی وجہ تھی کہ) ابوایوب انصاری ؓ ہمیشہ اللہ کی راہ میں جہاد کی ایک علامت و ہدف کی حیثیت اختیار کر گئے تھے یہاں تک کہ سر زمین روم میں مدفون ہوئے۔
امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث حسن صحیح غریب ہے۔
تخریج دارالدعوہ: سنن ابی داود/ الجھاد ٢٣ (٢٥١٢) (تحفة الأشراف: ٣٤٥٢) (صحیح )
قال الشيخ الألباني: صحيح، الصحيحة (13)
صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني: حديث نمبر 2972
Aslam Abu Imran Tujibi (RA) narrated: We were in Rome and a mighty unit of their army advanced. So, a similar large number of the Muslim s - or a larger number - countered them. At the time the governor of Egypt was Uqbah ibn Aamir and the commander of the army was Fadalah ibn Ubayd. A man of the Muslim s penetrated the ranks of the army of the Romans. So the people shrieked. “Subhan Allah. He has thrown himself into ruin.” So, Abu Ayyub Ansari (RA) stood up and said, “O People! You interpret this verse as you say while, in fact, it was revealed about us, Ansars. When Allah gave honour to Islam and the supporters of Islam mutiplied, some of us said to some others, unknown to Allah’s Messenger ﷺ that our properties had been wasted after Allah had given honour to Islam and multiplied its supporters, we should repair our fields and properties that had been wasted. So Allah revealed to His Prophet ﷺ in answer to our fears: “And spend of your substance in the cause of Allah, and make not your own hands contribute to (your) destruction.” (2 :195) The destruction was that we should devote ourselves to repair of our properties and neglect the battles. Abu Ayyub did not cease to fight in Allah’s way till he was buried in the land of Rome. [Abu Dawud 2512]
Top