سنن الترمذی - قرآن کی تفسیر کا بیان - حدیث نمبر 3097
حدیث نمبر: 3097
حَدَّثَنَا عَبْدُ بْنُ حُمَيْدٍ، حَدَّثَنَا يَعْقُوبُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ بْنِ سَعْدٍ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ إِسْحَاق، عَنِ الزُّهْرِيِّ، عَنْعُبَيْدِ اللَّهِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عُتْبَةَ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ، قَال:‏‏‏‏ سَمِعْتُ عُمَرَ بْنَ الْخَطَّابِ، يَقُولُ:‏‏‏‏ لَمَّا تُوُفِّيَ عَبْدُ اللَّهِ بْنُ أُبَيٍّ، ‏‏‏‏‏‏دُعِيَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لِلصَّلَاةِ عَلَيْهِ، ‏‏‏‏‏‏فَقَامَ إِلَيْهِ فَلَمَّا وَقَفَ عَلَيْهِ يُرِيدُ الصَّلَاةَ تَحَوَّلْتُ حَتَّى قُمْتُ فِي صَدْرِهِ، ‏‏‏‏‏‏فَقُلْتُ:‏‏‏‏ يَا رَسُولَ اللَّهِ، ‏‏‏‏‏‏أَعَلَى عَدُوِّ اللَّهِ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ أُبَيٍّ الْقَائِلِ يَوْمَ كَذَا وَكَذَا كَذَا وَكَذَا يَعُدُّ أَيَّامَهُ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ وَرَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَتَبَسَّمُ، ‏‏‏‏‏‏حَتَّى إِذَا أَكْثَرْتُ عَلَيْهِ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ أَخِّرْ عَنِّي يَا عُمَرُ، ‏‏‏‏‏‏إِنِّي خُيِّرْتُ فَاخْتَرْتُ قَدْ قِيلَ لِي:‏‏‏‏ اسْتَغْفِرْ لَهُمْ أَوْ لا تَسْتَغْفِرْ لَهُمْ إِنْ تَسْتَغْفِرْ لَهُمْ سَبْعِينَ مَرَّةً فَلَنْ يَغْفِرَ اللَّهُ لَهُمْ سورة التوبة آية 80 لَوْ أَعْلَمُ أَنِّي لَوْ زِدْتُ عَلَى السَّبْعِينَ غُفِرَ لَهُ لَزِدْتُ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ ثُمَّ صَلَّى عَلَيْهِ وَمَشَى مَعَهُ فَقَامَ عَلَى قَبْرِهِ حَتَّى فُرِغَ مِنْهُ قَالَ:‏‏‏‏ فَعَجَبٌ لِي وَجُرْأَتِي عَلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، ‏‏‏‏‏‏وَاللَّهُ وَرَسُولُهُ أَعْلَمُ، ‏‏‏‏‏‏فَوَاللَّهِ مَا كَانَ إِلَّا يَسِيرًا حَتَّى نَزَلَتْ هَاتَانِ الْآيَتَانِ وَلا تُصَلِّ عَلَى أَحَدٍ مِنْهُمْ مَاتَ أَبَدًا وَلا تَقُمْ عَلَى قَبْرِهِ سورة التوبة آية 84 إِلَى آخِرِ الْآيَةِ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ فَمَا صَلَّى رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بَعْدَهُ عَلَى مُنَافِقٍ، ‏‏‏‏‏‏وَلَا قَامَ عَلَى قَبْرِهِ حَتَّى قَبَضَهُ اللَّهُ ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ أَبُو عِيسَى:‏‏‏‏ هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ غَرِيبٌ.
تفسیر سورت التوبہ
عبداللہ بن عباس ؓ کہتے ہیں کہ میں نے عمر بن خطاب ؓ کو کہتے ہوئے سنا کہ جب عبداللہ بن ابی (منافقوں کا سردار) مرا تو رسول اللہ اس کی نماز جنازہ پڑھنے کے لیے بلائے گئے، آپ کھڑے ہو کر اس کی طرف بڑھے اور اس کے سامنے کھڑے ہو کر نماز پڑھانے کا ارادہ کر ہی رہے تھے کہ میں لپک کر آپ کے سینے کے سامنے جا کھڑا ہوا، میں نے کہا: اللہ کے رسول! کیا آپ اللہ کے دشمن عبداللہ بن ابی کی نماز پڑھنے جا رہے ہیں جس نے فلاں فلاں دن ایسا اور ایسا کہا تھا؟ وہ اس کے بےادبی و بدتمیزی کے دن گن گن کر بیان کرنے لگے، رسول اللہ مسکراتے رہے یہاں تک کہ جب میں بہت کچھ کہہ گیا (حد سے تجاوز کر گیا) تو آپ نے فرمایا: (بس بس) مجھ سے ذرا پرے جاؤ عمر! مجھے اختیار دیا گیا ہے تو میں نے اس کے لیے مغفرت طلبی کو ترجیح دی ہے۔ کیونکہ مجھ سے کہا گیا ہے: «استغفر لهم أو لا تستغفر لهم إن تستغفر لهم سبعين مرة فلن يغفر اللہ لهم» ان (منافقوں) کے لیے مغفرت طلب کرو یا نہ کرو اگر تم ان کے لیے ستر بار بھی مغفرت طلب کرو گے تو بھی وہ انہیں معاف نہ کرے گا (التوبہ: ٨٠ ) ، اگر میں جانتا کہ ستر بار سے زیادہ مغفرت طلب کرنے سے وہ معاف کردیا جائے گا تو ستر بار سے بھی زیادہ میں اس کے لیے مغفرت مانگتا۔ پھر آپ نے عبداللہ بن ابی کی نماز جنازہ پڑھی اور جنازہ کے ساتھ چلے اور اس کی قبر پر کھڑے رہے، یہاں تک کہ اس کے کفن دفن سے فارغ ہوگئے۔ رسول اللہ کی شان میں اپنی جرات و جسارت پر مجھے حیرت ہوئی۔ اللہ اور اس کے رسول زیادہ بہتر جانتے ہیں ١ ؎، قسم اللہ کی! بس تھوڑی ہی دیر ہوئی تھی کہ یہ دونوں آیتیں نازل ہوئیں۔ «ولا تصل علی أحد منهم مات أبدا ولا تقم علی قبره» ان میں سے کسی (منافق) کی جو مرجائے نماز جنازہ کبھی بھی نہ پڑھو، اور نہ اس کی قبر پر کھڑے ہو (التوبہ: ٨٤ ) ، اس کے بعد رسول اللہ نے اپنے مرنے تک کبھی بھی کسی منافق کی نماز جنازہ نہیں پڑھی، اور نہ ہی اس کی قبر پر کھڑے ہو کر دعا فرمائی۔
امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث حسن صحیح غریب ہے۔
تخریج دارالدعوہ: صحیح البخاری/الجنائز ٨٤ (١٣٦٦)، وتفسیر التوبة ١٢ (٤٦٧١)، سنن النسائی/الجنائز ٦٩ (١٩٦٨) (تحفة الأشراف: ١٠٥٠٩)، و مسند احمد (١/١٦) (صحیح )
وضاحت: ١ ؎: یعنی کہ میری یہ جرأت حق کے خاطر تھی بےادبی کے لیے نہیں۔
قال الشيخ الألباني: صحيح أحكام الجنائز (93 - 95)
صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني: حديث نمبر 3097
Sayyidina Ibn Abbas (RA) reported that he heard Umar ibn Khattab say: “When Abdullah ibn Ubayy died, Allah’s Messenger ﷺ was invited to lead his funeral salah. So, he stood up to go and consented to it, intending the salah, I intervened till I stood directly opposite him and I said, “O Messenger ﷺ of Allah, over the enemy of Allah, Abdullah ibn Ubbayy who said on such-and-such day this and that, this and that?” and I counted his days. Allah’s Messenger ﷺ smiled till I exceeded much. He said, “Move away from me, 0Umar. I have been given choice, so I have chosen. It has been said to me: "Ask pardon for them or do not ask pardon for them-even if you ask pardon for them seventy times, Allah shall never pardon them." (9:80) And if I knew that exceeding over seventy would get him pardon them I would exceeed that.’ Then he prayed his funeral salah. Then he walked with the funeral and stood at his grave till it was over. I was surprised at my daring, but Allah and His Messenger ﷺ know better. By Allah, it was not easy till these two verses were revealed: "And never offer a prayer on any one of them who dies, and do not stand by his grave." (9: 84) [Ahmed 95, Bukhari 1366, Nisai 1965] --------------------------------------------------------------------------------
Top