سنن الترمذی - قرآن کی تفسیر کا بیان - حدیث نمبر 3102
حدیث نمبر: 3102
حَدَّثَنَا عَبْدُ بْنُ حُمَيْدٍ، أَخْبَرَنَا عَبْدُ الرَّزَّاقِ، أَخْبَرَنَا مَعْمَرٌ، عَنِ الزُّهْرِيِّ، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ كَعْبِ بْنِ مَالِكٍ، عَنْ أَبِيهِ، قَالَ:‏‏‏‏ لَمْ أَتَخَلَّفْ عَنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي غَزْوَةٍ غَزَاهَا حَتَّى كَانَتْ غَزْوَةُ تَبُوكَ، ‏‏‏‏‏‏إِلَّا بَدْرًا وَلَمْ يُعَاتِبِ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَحَدًا تَخَلَّفَ عَنْ بَدْرٍ، ‏‏‏‏‏‏إِنَّمَا خَرَجَ يُرِيدُ الْعِيرَ فَخَرَجَتْ قُرَيْشٌ مُغْوثِينَ لِعِيرِهِمْ، ‏‏‏‏‏‏فَالْتَقَوْا عَنْ غَيْرِ مَوْعِدٍ، ‏‏‏‏‏‏كَمَا قَالَ اللَّهُ عَزَّ وَجَلَّ:‏‏‏‏ وَلَعَمْرِي إِنَّ أَشْرَفَ مَشَاهِدِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي النَّاسِ لَبَدْرٌ، ‏‏‏‏‏‏وَمَا أُحِبُّ أَنِّي كُنْتُ شَهِدْتُهَا مَكَانَ بَيْعَتِي لَيْلَةَ الْعَقَبَةِ حَيْثُ تَوَاثَقْنَا عَلَى الْإِسْلَامِ، ‏‏‏‏‏‏ثُمَّ لَمْ أَتَخَلَّفْ بَعْدُ عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، ‏‏‏‏‏‏حَتَّى كَانَتْ غَزْوَةُ تَبُوكَ وَهِيَ آخِرُ غَزْوَةٍ غَزَاهَا، ‏‏‏‏‏‏وَآذَنَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ النَّاسَ بِالرَّحِيلِ فَذَكَرَ الْحَدِيثَ بِطُولِهِ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ فَانْطَلَقْتُ إِلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَإِذَا هُوَ جَالِسٌ فِي الْمَسْجِدِ وَحَوْلَهُ الْمُسْلِمُونَ، ‏‏‏‏‏‏وَهُوَ يَسْتَنِيرُ كَاسْتِنَارَةِ الْقَمَرِ، ‏‏‏‏‏‏وَكَانَ إِذَا سُرَّ بِالْأَمْرِ اسْتَنَارَ فَجِئْتُ فَجَلَسْتُ بَيْنَ يَدَيْهِ، ‏‏‏‏‏‏فَقَالَ:‏‏‏‏ أَبْشِرْ يَا كَعْبُ بْنَ مَالِكٍ بِخَيْرِ يَوْمٍ أَتَى عَلَيْكَ مُنْذُ وَلَدَتْكَ أُمُّكَ ، ‏‏‏‏‏‏فَقُلْتُ:‏‏‏‏ يَا نَبِيَّ اللَّهِ، ‏‏‏‏‏‏أَمِنْ عِنْدِ اللَّهِ أَمْ مِنْ عِنْدِكَ ؟ قَالَ:‏‏‏‏ بَلْ مِنْ عِنْدِ اللَّهِ، ‏‏‏‏‏‏ثُمَّ تَلَا هَؤُلَاءِ الْآيَاتِ لَقَدْ تَابَ اللَّهُ عَلَى النَّبِيِّ وَالْمُهَاجِرِينَ وَالأَنْصَارِ الَّذِينَ اتَّبَعُوهُ فِي سَاعَةِ الْعُسْرَةِ مِنْ بَعْدِ مَا كَادَ يَزِيغُ قُلُوبُ فَرِيقٍ مِنْهُمْ ثُمَّ تَابَ عَلَيْهِمْ إِنَّهُ بِهِمْ رَءُوفٌ رَحِيمٌ سورة التوبة آية 117، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ وَفِينَا أُنْزِلَتْ أَيْضًا اتَّقُوا اللَّهَ وَكُونُوا مَعَ الصَّادِقِينَ سورة التوبة آية 119، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ قُلْتُ:‏‏‏‏ يَا نَبِيَّ اللَّهِ، ‏‏‏‏‏‏إِنَّ مِنْ تَوْبَتِي أَنْ لَا أُحَدِّثَ إِلَّا صِدْقًا وَأَنْ أَنْخَلِعَ مِنْ مَالِي كُلِّهِ صَدَقَةً إِلَى اللَّهِ وَإِلَى رَسُولِهِ، ‏‏‏‏‏‏فَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:‏‏‏‏ أَمْسِكْ عَلَيْكَ بَعْضَ مَالِكَ فَهُوَ خَيْرٌ لَكَ ، ‏‏‏‏‏‏فَقُلْتُ:‏‏‏‏ فَإِنِّي أُمْسِكُ سَهْمِيَ الَّذِي بِخَيْبَرَ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ فَمَا أَنْعَمَ اللَّهُ عَلَيَّ نِعْمَةً بَعْدَ الْإِسْلَامِ أَعْظَمَ فِي نَفْسِي مِنْ صِدْقِي رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ حِينَ صَدَقْتُهُ أَنَا وَصَاحِبَايَ لَا نَكُونُ كَذَبْنَا فَهَلَكْنَا كَمَا هَلَكُوا، ‏‏‏‏‏‏وَإِنِّي لَأَرْجُو أَنْ لَا يَكُونَ اللَّهُ أَبْلَى أَحَدًا فِي الصِّدْقِ مِثْلَ الَّذِي أَبْلَانِي، ‏‏‏‏‏‏مَا تَعَمَّدْتُ لِكَذِبَةٍ بَعْدُ وَإِنِّي لَأَرْجُو أَنْ يَحْفَظَنِي اللَّهُ فِيمَا بَقِيَ ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ وَقَدْ رُوِيَ عَنِ الزُّهْرِيِّ هَذَا الْحَدِيثُ بِخِلَافِ هَذَا الْإِسْنَادِ، ‏‏‏‏‏‏وَقَدْ قِيلَ:‏‏‏‏ عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ كَعْبِ بْنِ مَالِكٍ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ عَمِّهِ عُبَيْدِ اللَّهِ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ كَعْبٍ، ‏‏‏‏‏‏وَقَدْ قِيلَ غَيْرُ هَذَا، ‏‏‏‏‏‏وَرَوَى يُونُسُ بْنُ يَزِيدَ هَذَا الْحَدِيثَ عَنِ الزُّهْرِيِّ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ كَعْبِ بْنِ مَالِكٍ، ‏‏‏‏‏‏أَنَّ أَبَاهُ حَدَّثَهُ عَنْ كَعْبِ بْنِ مَالِكٍ.
تفسیر سورت التوبہ
کعب بن مالک کہتے ہیں کہ رسول اللہ نے جتنے بھی غزوے کیے ان میں سے غزوہ تبوک کو چھوڑ کر کوئی بھی غزوہ ایسا نہیں ہے کہ جس میں آپ کے ساتھ میں نہ رہا ہوں۔ رہا بدر کا معاملہ سو بدر میں جو لوگ پیچھے رہ گئے تھے ان میں سے کسی کی بھی آپ نے سرزنش نہیں کی تھی۔ کیونکہ آپ کا ارادہ (شام سے آ رہے) قافلے کو گھیرنے کا تھا، اور قریش اپنے قافلے کو بچانے کے لیے نکلے تھے، پھر دونوں قافلے بغیر پہلے سے طے کئے ہوئے جگہ میں جا ٹکرائے۔ جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے آیت: «إذ أنتم بالعدوة الدنيا وهم بالعدوة القصوی والرکب أسفل منکم ولو تواعدتم لاختلفتم في الميعاد ولکن ليقضي اللہ أمرا کان مفعولا» (الأنفال: ٤٢ ) ١ ؎ میں فرمایا ہے اور قسم اللہ کی، رسول اللہ کے غزوات میں سب سے بڑھ کر غزوہ بدر ہے۔ اور میں اس میں شرکت کو عقبہ کی رات میں اپنی بیعت کے مقابل میں قابل ترجیح نہیں سمجھتا۔ جب ہم نے اسلام پر عہد و میثاق لیا تھا۔ اس کے بعد نبی اکرم کو چھوڑ کر میں کبھی پیچھے نہیں ہوا یہاں تک کہ غزوہ تبوک کا واقعہ پیش آگیا۔ اور یہ آخری غزوہ تھا جس میں آپ تشریف لے گئے تھے، نبی اکرم نے لوگوں میں کوچ کا اعلان کردیا۔ پھر انہوں نے لمبی حدیث بیان کی، کہا (رسول اللہ کے غزوہ تبوک سے لوٹنے کے بعد) میں آپ کی خدمت میں حاضر ہوا۔ آپ مسجد میں تشریف فرما تھے اور مسلمان آپ کے اردگرد بیٹھے ہوئے تھے۔ اور چاند کی روشنی بکھرنے کی طرح آپ نور بکھیر رہے تھے۔ آپ جب کسی معاملے میں خوش ہوتے تو آپ کا چہرہ انور دمکنے لگتا تھا، میں پہنچ کر آپ کے سامنے بیٹھ گیا۔ آپ نے فرمایا: کعب بن مالک! اس بہترین دن کی بدولت خوش ہوجاؤ جو تمہیں جب سے تمہاری ماں نے جنا ہے اس دن سے آج تک میں اب حاصل ہوا ہے ۔ میں نے کہا: اللہ کے نبی! یہ دن مجھے اللہ کی طرف سے حاصل ہوا ہے یا آپ کی طرف سے؟ آپ نے فرمایا: نہیں بلکہ اللہ کی طرف سے حاصل ہوا ہے ۔ پھر آپ نے یہ آیات پڑھیں «لقد تاب اللہ علی النبي والمهاجرين والأنصار الذين اتبعوه في ساعة العسرة» یہاں تک کہ آپ تلاوت کرتے ہوئے «إن اللہ هو التواب الرحيم» ١ ؎ تک پہنچے۔ آیت «اتقوا اللہ وکونوا مع الصادقين» بھی ہمارے ہی متعلق نازل ہوئی ہے۔ میں نے کہا: اللہ کے نبی! میری توبہ کی قبولیت کا تقاضہ ہے کہ میں جب بھی بولوں سچی بات ہی بولوں، اور میری توبہ میں یہ بھی شامل ہے کہ میں اپنا سارا مال اللہ اور اس کے رسول کے حوالے کر کے خود خالی ہاتھ ہوجاؤں۔ آپ نے فرمایا: اپنا کچھ مال اپنے لیے روک لو۔ یہ تمہارے لیے بہتر ہے ۔ میں نے کہا: تو پھر میں اپنا وہ حصہ روک لیتا ہوں جو خیبر میں ہے، اسلام قبول کرنے کے بعد اللہ نے میری نظر میں اس سے بڑھ کر کوئی اور نعمت مجھے نہیں عطا کی کہ میں نے رسول اللہ سے سچ بولا اور جھوٹ نہ بولے کہ ہم ہلاک ہوجاتے جیسا کہ (جھوٹ بول کر) دوسرے ہلاک و برباد ہوگئے۔ اور میرا گمان غالب یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے سچائی کے معاملے میں جتنا مجھے آزمایا ہے کسی اور کو نہ آزمایا ہوگا، اس کے بعد تو میں نے کبھی جھوٹ بولنے کا قصد و ارادہ ہی نہیں کیا۔ اور میں اللہ کی ذات سے امید رکھتا ہوں کہ وہ باقی ماندہ زندگی میں بھی مجھے جھوٹ بولنے سے محفوظ رکھے گا۔
امام ترمذی کہتے ہیں: ١ - یہ حدیث زہری سے اس اسناد سے مختلف دوسری سندوں سے بھی آئی ہے، ٢ - یہ بھی کہا گیا ہے کہ یہ حدیث روایت کی گئی ہے عبدالرحمٰن بن عبداللہ بن کعب بن مالک سے اور وہ روایت کرتے ہیں اپنے چچا عبیداللہ سے اور وہ کعب سے، اور اس کے سوا اور بھی کچھ کہا گیا ہے، ٣ - یونس بن یزید نے یہ حدیث زہری سے روایت کی ہے، اور زہری نے عبدالرحمٰن بن عبداللہ بن کعب بن مالک سے کہ ان کے باپ نے کعب بن مالک سے سن کر بیان کیا۔
تخریج دارالدعوہ: تفرد بہ المؤلف بھذا السیاق الطویل، وأخرجہ مختصرا ومتفرقا کل من: صحیح البخاری/الجھاد ١٠١ (٢٩٤٧، ٢٩٤٨)، والمغازي ٧٩ (٤٤١٨)، و سنن ابی داود/ الجھاد ١٠١ (٢٦٣٧) (تحفة الأشراف: ١١١٥٣) (صحیح )
وضاحت: ١ ؎: اللہ تعالیٰ نے توجہ فرمائی اپنے نبی پر اور ان مہاجرین و انصار کی طرف جنہوں نے اس کی مدد کی کٹھن گھڑی میں جب کہ ان میں سے ایک فریق کے دلوں کے پلٹ جانے اور کج روی اختیار کرلینے کا ڈر موجود تھا، پھر اللہ نے ان کی توبہ قبول فرما لی۔ بیشک وہ ان پر نرمی والا اور مہر بان ہے (التوبہ: ١١٧
قال الشيخ الألباني: صحيح، صحيح أبي داود (1912)
صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني: حديث نمبر 3102
Sayyidina Ka’b ibn Maalik (RA) narrated: I did not stay behind from any battle of the Prophet ﷺ that he fought till the Battle of Tabuk, except the Battle of Badr. And the Prophet ﷺ had not questioned anyone who had stayed behind during the Battle of Badr, for, he had set out only with the caravan in mind. The Quraysh, however, came forward in response to the appeal of the caravan. So they contended one another without a previous declaration. This is as Allah, The Majestic, The Glorious said. (And Ka’b continued to say:) By my life, the noblest of experience with Allah’s Messenger ﷺ for the people was Badr but I would not love to have had that experience in place of the night of Aqabahh through which we pledged ourselves in Islam. Thereafter, I never stayed back from any battle till the Battle of anything, his face became bright. So, I came to him and sat down by him. He said, “Good news for you, O Ka’b ibn Maalik with the best day that has come to you since your mother gave birth to you.” I asked, “O Prophet ﷺ of Allah, is it is from you or from Allah?” He said, “Rather from Allah.” Then he recited these verses: "Surely, Allah has relented towards the Prophet ﷺ and the muhajirs (emigrants) and the Ansar (the supporters) who followed him in the hour of hardship after the hearts of a group of them were about to turn crooked, then He relented towards them. Surely, to them He is very Kind, very Merciful." (9: 117) He recited till he came to these words. "And (He relented) towards the three whose matter was deferred until when the earth was straitened for them despite all its vastness, and even their own souls were straitened for them, and they realised that there is no refuge from Allah, except in Him. Then He turned towards them, so that they may repent. Allah is the most-Relenting, the very Merciful." (9: 118) (Ka’b went on to day): It was about us that this was revealed: "Fear Allah, and be in the company of the truthful." (9:119) I said, “O Prophet ﷺ of Allah, my repentance includes (a pledge that) I will speak the truth always and give away all my property in charity in the path of Allah and His Messenger.” He said, “Retain with you some of your property, for, that is best for you.” I submitted, “I keep with me my share of (the booty from) Khaybar.” Allah did not bestow on me a blessing after (my) Islam greater in my sight than the truth I and my two colleagues spoke to Allah’s Messenger ﷺ and we did not lie and ruin ourselves as they ruined themselves. And I imagine that Allah has not tried anyone in speaking truth as He tried me. Never did I speak a lie after that and I hope that Allah will preserve me in what remains. [Ahmed 27245, Bukhari 4418, Muslim 2769, Abu Dawud 3320, Ibn e Majah 1393]
Top