سنن الترمذی - قربانی کا بیان - حدیث نمبر 1495
حدیث نمبر: 1495
حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عُبَيْدٍ الْمُحَارِبِيُّ الْكُوفِيُّ،‏‏‏‏ حَدَّثَنَا شَرِيكٌ،‏‏‏‏ عَنْ أَبِي الْحَسْنَاءِ، عَنْ الْحَكَمِ،‏‏‏‏ عَنْ حَنَشٍ،‏‏‏‏ عَنْ عَلِيٍّ أَنَّهُ كَانَ يُضَحِّي بِكَبْشَيْنِ،‏‏‏‏ أَحَدُهُمَا عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ،‏‏‏‏ وَالْآخَرُ عَنْ نَفْسِهِ ،‏‏‏‏ فَقِيلَ لَهُ:‏‏‏‏ فَقَالَ:‏‏‏‏ أَمَرَنِي بِهِ يَعْنِي:‏‏‏‏ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَلَا أَدَعُهُ أَبَدًا،‏‏‏‏ قَالَ أَبُو عِيسَى:‏‏‏‏ هَذَا حَدِيثٌ غَرِيبٌ لَا نَعْرِفُهُ إِلَّا مِنْ حَدِيثِ شَرِيكٍ،‏‏‏‏ وَقَدْ رَخَّصَ بَعْضُ أَهْلِ الْعِلْمِ أَنْ يُضَحَّى عَنِ الْمَيِّتِ،‏‏‏‏ وَلَمْ يَرَ بَعْضُهُمْ أَنْ يُضَحَّى عَنْهُ،‏‏‏‏ وقَالَ عَبْدُ اللَّهِ بْنُ الْمُبَارَكِ:‏‏‏‏ أَحَبُّ إِلَيَّ أَنْ يُتَصَدَّقَ عَنْهُ،‏‏‏‏ وَلَا يُضَحَّى عَنْهُ،‏‏‏‏ وَإِنْ ضَحَّى،‏‏‏‏ فَلَا يَأْكُلُ مِنْهَا شَيْئًا،‏‏‏‏ وَيَتَصَدَّقُ بِهَا كُلِّهَا ،‏‏‏‏ قَالَ مُحَمَّدٌ،‏‏‏‏ قَالَ عَلِيُّ بْنُ الْمَدِينِيِّ،‏‏‏‏ وَقَدْ رَوَاهُ غَيْرُ شَرِيكٍ،‏‏‏‏ قُلْتُ لَهُ:‏‏‏‏ أَبُو الْحَسْنَاءِ مَا اسْمُهُ،‏‏‏‏ فَلَمْ يَعْرِفْهُ،‏‏‏‏ قَالَ مُسْلِمٌ اسْمُهُ:‏‏‏‏ الْحَسَنُ.
دومینڈھوں کی قربانی۔
علی ؓ سے روایت ہے کہ وہ دو مینڈھوں کی قربانی کرتے تھے، ایک نبی اکرم کی طرف سے اور دوسرا اپنی طرف سے، تو ان سے اس بارے میں پوچھا گیا تو انہوں نے بتایا کہ مجھے اس کا حکم نبی اکرم نے دیا ہے، لہٰذا میں اس کو کبھی نہیں چھوڑوں گا ١ ؎۔
امام ترمذی کہتے ہیں: ١ - یہ حدیث غریب ہے، ہم اس کو صرف شریک کی روایت سے جانتے ہیں، ٢ - محمد بن اسماعیل بخاری کہتے ہیں: علی بن مدینی نے کہا: اس حدیث کو شریک کے علاوہ لوگوں نے بھی روایت کیا ہے، میں نے ان سے دریافت کیا: راوی ابوالحسناء کا کیا نام ہے؟ تو وہ اسے نہیں جان سکے، مسلم کہتے ہیں: اس کا نام حسن ہے، ٣ - بعض اہل علم نے میت کی طرف سے قربانی کی رخصت دی ہے اور بعض لوگ میت کی طرف سے قربانی درست نہیں سمجھتے ہیں، عبداللہ بن مبارک کہتے ہیں: مجھے یہ چیز زیادہ پسند ہے کہ میت کی طرف سے صدقہ کردیا جائے، قربانی نہ کی جائے، اور اگر کسی نے اس کی طرف سے قربانی کردی تو اس میں سے کچھ نہ کھائے بلکہ تمام کو صدقہ کر دے۔
تخریج دارالدعوہ: سنن ابی داود/ الأضاحي ٢ (٢٧٩٠)، (تحفة الأشراف: ١٠٠٨٢) (ضعیف) (سند میں " شریک " حافظے کے کمزور ہیں، اور ابو الحسنائ " مجہول، نیز " حنش " کے بارے میں بھی سخت اختلاف ہے )
وضاحت: ١ ؎: اس ضعیف حدیث، اور قربانی کرتے وقت نبی اکرم کی دعا: «اللهم تقبل من محمد وآل محمد ومن أمة محمد» سے استدلال کرتے ہوئے بعض علماء کہتے ہیں کہ میت کی جانب سے قربانی کی جاسکتی ہے، پھر اختلاف اس میں ہے کہ میت کی جانب سے قربانی افضل ہے یا صدقہ؟ حنابلہ اور اکثر فقہاء کے نزدیک قربانی افضل ہے، جب کہ بعض فقہاء کا کہنا ہے کہ قیمت صدقہ کرنا زیادہ افضل ہے۔ صحیح بات یہ ہے کہ قربانی دراصل دیگر عبادات (صوم و صلاۃ) کی طرح زندوں کی عبادت ہے، قربانی کے استثناء کی کوئی دلیل پختہ نہیں ہے، علی ؓ کی حدیث سخت ضعیف ہے، اور نبی اکرم کی قربانی کے وقت کی دعا سے استدلال زبردستی کا استدلال ہے جیسے بدعتیوں کا قبرستان کی دعا سے غیر اللہ کو پکارنے پر استدلال کرنا، جب کہ اس روایت کے بعض الفاظ یوں بھی ہیں «عمن لم يضح أمتي» (یعنی میری امت میں سے جو قربانی نہیں کرسکا ہے اس کی طرف سے قبول فرما) اس کا واضح مطلب یہ ہے کہ میری امت میں سے جو زندہ شخص قربانی کی استطاعت نہ رکھتا ہو اور اس کی وجہ سے قربانی نہ کرسکا ہو اس کی طرف سے یہ قربانی قبول فرما، نیز امت میں میت کی طرف سے قربانی کا تعامل بھی نہیں رہا ہے۔ «واللہ اعلم بالصواب »
قال الشيخ الألباني: **
صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني: حديث نمبر 1495
Sayyidina Ali (RA) always sacrificed two rams, one on behalf of the Prophet ﷺ and one on his own account. Someone asked him, Why do you do that? He said, ‘The Prophet ﷺ had commanded me to do it. So I will never neglect it.” [Abu Dawud 2790]
Top