سنن الترمذی - قربانی کا بیان - حدیث نمبر 1522
حدیث نمبر: 1522
حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ حُجْرٍ،‏‏‏‏ أَخْبَرَنَا عَلِيُّ بْنُ مُسْهِرٍ،‏‏‏‏ عَنْ إِسْمَاعِيل بْنِ مُسْلِمٍ،‏‏‏‏ عَنْ الْحَسَنِ،‏‏‏‏ عَنْ سَمُرَةَ،‏‏‏‏ قَالَ:‏‏‏‏ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:‏‏‏‏ الْغُلَامُ مُرْتَهَنٌ بِعَقِيقَتِهِ،‏‏‏‏ يُذْبَحُ عَنْهُ يَوْمَ السَّابِعِ،‏‏‏‏ وَيُسَمَّى وَيُحْلَقُ رَأْسُهُ .
سمرہ ؓ کہتے ہیں کہ رسول اللہ نے فرمایا: ہر بچہ عقیقہ کے بدلے گروی رکھا ہوا ہے ١ ؎، پیدائش کے ساتویں دن اس کا عقیقہ کیا جائے، اس کا نام رکھا جائے اور اس کے سر کے بال منڈائے جائیں ۔
تخریج دارالدعوہ: صحیح البخاری/العقیقة ٢ (٥٤٧٢)، (اشارة بعد حدیث سلمان الضبي) سنن ابی داود/ الضحایا ٢١ (٢٨٣٧)، سنن النسائی/العقیقة ٥ (٤٢٢٥)، سنن ابن ماجہ/الذبائح ١ (٣١٦٥)، (تحفة الأشراف: ٤٥٨١)، و مسند احمد (٥/٧، ٨، ١٢، ١٧، ١٨، ٢٢) وسنن الدارمی/الأضاحي ٩ (٢٠١٢) (صحیح )
وضاحت: ١ ؎: «مرتهن» کے مفہوم میں اختلاف ہے: سب سے عمدہ بات وہ ہے جو امام احمد بن حنبل (رح) نے فرمائی ہے کہ یہ شفاعت کے متعلق ہے، یعنی جب بچہ مرجائے اور اس کا عقیقہ نہ کیا گیا ہو تو قیامت کے دن وہ اپنے والدین کے حق میں شفاعت نہیں کرسکے گا، ایک قول یہ ہے کہ عقیقہ ضروری اور لازمی ہے اس کے بغیر چارہ کار نہیں، ایک قول یہ بھی ہے کہ وہ اپنے بالوں کی گندگی و ناپاکی میں مرہون ہے، اسی لیے حدیث میں آیا ہے کہ اس سے گندگی کو دور کرو۔ ٢ ؎: اس سلسلہ میں صحیح حدیث تو درکنار کوئی ضعیف حدیث بھی نہیں ملتی جس سے اس شرط کے قائلین کی تائید ہوتی ہو۔
قال الشيخ الألباني: صحيح، ابن ماجة (3165)
صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني: حديث نمبر 1522
Sayyidina Samurah reported that Allah’s Messenger said, “A boy is pledged to his aqiqah. Sacrifice is made for him on the seventh day and he is given a name, and his head is shaved.” [Ahmed 20104]
Top