سنن الترمذی - قیامت کا بیان - حدیث نمبر 2454
حدیث نمبر: 2454
حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ، حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ سَعِيدٍ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ أَبِي يَعْلَى، عَنْ الرَّبِيعِ بْنِ خُثَيْمٍ، عَنْعَبْدِ اللَّهِ بْنِ مَسْعُودٍ، قَالَ:‏‏‏‏ خَطَّ لَنَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ خَطًّا مُرَبَّعًا، ‏‏‏‏‏‏وَخَطَّ فِي وَسَطِ الْخَطِّ خَطًّا، ‏‏‏‏‏‏وَخَطَّ خَارِجًا مِنَ الْخَطِّ خَطًّا، ‏‏‏‏‏‏وَحَوْلَ الَّذِي فِي الْوَسَطِ خُطُوطًا، ‏‏‏‏‏‏فَقَالَ:‏‏‏‏ هَذَا ابْنُ آدَمَ، ‏‏‏‏‏‏وَهَذَا أَجَلُهُ مُحِيطٌ بِهِ، ‏‏‏‏‏‏وَهَذَا الَّذِي فِي الْوَسَطِ الْإِنْسَانُ، ‏‏‏‏‏‏وَهَذِهِ الْخُطُوطُ عُرُوضُهُ إِنْ نَجَا مِنْ هَذَا يَنْهَشُهُ هَذَا، ‏‏‏‏‏‏وَالْخَطُّ الْخَارِجُ الْأَمَلُ ،‏‏‏‏ هَذَا حَدِيثٌ صَحِيحٌ.
عبداللہ بن مسعود ؓ کہتے ہیں کہ رسول اللہ نے ایک مربع خط (یعنی چوکور) لکیر کھینچی اور ایک لکیر درمیان میں اس سے باہر نکلتا ہوا کھینچی، اور اس درمیانی لکیر کے بغل میں چند چھوٹی چھوٹی لکیریں اور کھینچی، پھر فرمایا: یہ ابن آدم ہے اور یہ لکیر اس کی موت کی ہے جو ہر طرف سے اسے گھیرے ہوئے ہے۔ اور یہ درمیان والی لکیر انسان ہے (یعنی اس کی آرزوئیں ہیں) اور یہ چھوٹی چھوٹی لکیریں انسان کو پیش آنے والے حوادث ہیں، اگر ایک حادثہ سے وہ بچ نکلا تو دوسرا اسے ڈس لے گا اور باہر نکلنے والا خط اس کی امید ہے ١ ؎۔
تخریج دارالدعوہ: صحیح البخاری/الرقاق ٤ (٦٤١٧)، سنن ابن ماجہ/الزہد ٢٧ (٤٢١٣) (تحفة الأشراف: ٩٢٠٠) (صحیح )
وضاحت: ١ ؎: اس حدیث کا مطلب یہ ہے کہ انسان کی زندگی اگر ایک طرف آرزؤں سے بھری ہوئی ہے تو دوسری جانب اسے چاروں طرف سے حوادث گھیرے ہوئے ہیں، وہ اپنی آرزؤں کی تکمیل میں حوادث سے نبرد آزما ہوتا ہے، لیکن اس کے پاس امیدوں اور آرزؤں کا ایک وسیع اور نہ ختم ہونے والا سلسلہ ہے، اس کی آرزوئیں ابھی ناتمام ہی ہوتی ہیں کہ موت کا آہنی پنجہ اسے اپنے شکنجے میں کس لیتا ہے، گویا موت انسان سے سب سے زیادہ قریب ہے، اس لیے انسان کو اس سے غافل نہیں رہنا چاہیئے۔
قال الشيخ الألباني: صحيح
صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني: حديث نمبر 2454
Sayyidina Abdullah ibn Masud narrated: Allah’s Messenger drew a line for us then he made it into a square and sketched a line within it and another outside it. Around the one within the square, he drew some lines. He said, “This is the son of Adam and this is his term (death) surrounding him. This in the centre is (again) mankind and these lines around are trials and calamities. If he saves himself from this, the other afflicts him. The line inside is his hopes.” [Bukhari 6417, Ibn e Majah 4231, Ahmed 3652]
Top