سنن الترمذی - قیامت کا بیان - حدیث نمبر 2473
حدیث نمبر: 2473
حَدَّثَنَا حَدَّثَنَا هَنَّادٌ، حَدَّثَنَا يُونُسُ بْنُ بُكَيْرٍ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ إِسْحَاق، حَدَّثَنَا يَزِيدُ بْنُ زِيَادٍ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ كَعْبٍ الْقُرَظِيِّ، حَدَّثَنِي مَنْ،‏‏‏‏ سَمِعَ عَلِيَّ بْنَ أَبِي طَالِبٍ،‏‏‏‏ يَقُولُ:‏‏‏‏ خَرَجْتُ فِي يَوْمٍ شَاتٍ مِنْ بَيْتِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ،‏‏‏‏ وَقَدْ أَخَذْتُ إِهَابًا مَعْطُوبًا فَحَوَّلْتُ وَسَطَهُ فَأَدْخَلْتُهُ عُنُقِي وَشَدَدْتُ وَسَطِي، ‏‏‏‏‏‏فَحَزَمْتُهُ بِخُوصِ النَّخْلِ وَإِنِّي لَشَدِيدُ الْجُوعِ وَلَوْ كَانَ فِي بَيْتِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ طَعَامٌ لَطَعِمْتُ مِنْهُ، ‏‏‏‏‏‏فَخَرَجْتُ أَلْتَمِسُ شَيْئًا، ‏‏‏‏‏‏فَمَرَرْتُ بِيَهُودِيٍّ فِي مَالٍ لَهُ وَهُوَ يَسْقِي بِبَكَرَةٍ لَهُ فَاطَّلَعْتُ عَلَيْهِ مِنْ ثُلْمَةٍ فِي الْحَائِطِ، ‏‏‏‏‏‏فَقَالَ:‏‏‏‏ مَا لَكَ يَا أَعْرَابِيُّ، ‏‏‏‏‏‏هَلْ لَكَ فِي كُلِّ دَلْوٍ بِتَمْرَةٍ ؟ قُلْتُ:‏‏‏‏ نَعَمْ، ‏‏‏‏‏‏فَافْتَحْ الْبَابَ حَتَّى أَدْخُلَ، ‏‏‏‏‏‏فَفَتَحَ فَدَخَلْتُ فَأَعْطَانِي دَلْوَهُ، ‏‏‏‏‏‏فَكُلَّمَا نَزَعْتُ دَلْوًا أَعْطَانِي تَمْرَةً حَتَّى إِذَا امْتَلَأَتْ كَفِّي أَرْسَلْتُ دَلْوَهُ، ‏‏‏‏‏‏وَقُلْتُ:‏‏‏‏ حَسْبِي، ‏‏‏‏‏‏فَأَكَلْتُهَا ثُمَّ جَرَعْتُ مِنَ الْمَاءِ فَشَرِبْتُ، ‏‏‏‏‏‏ثُمَّ جِئْتُ الْمَسْجِدَ فَوَجَدْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِيهِ ،‏‏‏‏ قَالَ أَبُو عِيسَى:‏‏‏‏ هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ غَرِيبٌ.
علی بن ابی طالب کہتے ہیں کہ ایک ٹھنڈے دن میں رسول اللہ کے گھر سے میں نکلا اور ساتھ میں ایک بدبودار چمڑا لے لیا جس کے بال جھڑے ہوئے تھے، پھر بیچ سے میں نے اسے کاٹ کر اپنی گردن میں ڈال لیا اور اپنی کمر کو کھجور کی شاخ سے باندھ دیا، مجھے بہت سخت بھوک لگی ہوئی تھی، اگر رسول اللہ کے گھر میں کچھ کھانا ہوتا تو میں اس میں سے ضرور کھا لیتا، چناچہ میں کچھ کھانے کی تلاش میں نکلا، راستے میں ایک یہودی کے پاس سے گزرا جو اپنے باغ میں چرخی سے پانی دے رہا تھا، اس کو میں نے دیوار کی ایک سوراخ سے جھانکا تو اس نے کہا: اعرابی! کیا بات ہے؟ کیا تو ایک کھجور پر ایک ڈول پانی کھینچے گا؟ میں نے کہا: ہاں، اور اپنا دروازہ کھول دو تاکہ میں اندر آ جاؤں، اس نے دروازہ کھول دیا اور میں داخل ہوگیا، اس نے مجھے اپنا ڈول دیا، پھر جب بھی میں ایک ڈول پانی نکالتا تو وہ ایک کھجور مجھے دیتا یہاں تک کہ جب میری مٹھی بھر گئی تو میں نے اس کا ڈول چھوڑ دیا اور کہا کہ اتنا میرے لیے کافی ہے، چناچہ میں نے اسے کھایا اور دو تین گھونٹ پانی پیا، پھر میں مسجد میں آیا اور وہیں رسول اللہ کو موجود پایا ١ ؎۔
امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث حسن غریب ہے۔
تخریج دارالدعوہ: تفرد بہ المؤلف (تحفة الأشراف: ١٠٣٣٨) (ضعیف) (محمد بن کعب قرظی کے استاذ راوی مبہم ہیں )
وضاحت: ١ ؎: اس حدیث سے معلوم ہوا کہ صحابہ کرام کی زندگی کس قدر فقر و تنگ دستی سے دو چار تھی، یہاں تک کہ نبی اکرم کی بھی یہی حالت تھی، اس فقر و فاقہ کے باوجود کسب حلال کا راستہ اپناتے تھے، اور جو کچھ میسر ہوتا اسی پر قانع ہوتے تھے۔
قال الشيخ الألباني: ضعيف، التعليق الرغيب (3 / 109 - 110)
صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني: حديث نمبر 2473
Sayyidina Ali bin Abi Talib (RA) narrated: We were sitting with Allahs Messenger ﷺ in the mosque when Musab bin Umayr came to us. He had on him a cloak patched with fur. On seeing him, Allahs Messenger ﷺ wept recalling how he had lived in blessing and what hiscondition has become today. He said, "How will it be with you when one of you goes out tomorrow in a mantle and returns in a mantle and a dish is placed before him as another is removed, and you cover your homes as the Ka’bahh is covered." They said, "O Allahs Messenger, on that day, we shall be better than we are today having enough time to worship and enough of what we need." He said, "No, you are better today than you would be then." --------------------------------------------------------------------------------
Top