سنن الترمذی - گواہیوں کا بیان - حدیث نمبر 2342
حدیث نمبر: 2342
حَدَّثَنَا مَحْمُودُ بْنُ غَيْلَانَ، حَدَّثَنَا وَهْبُ بْنُ جَرِيرٍ، حَدَّثَنَا شُعْبَةُ، عَنْ قَتَادَةَ، عَنْ مُطَرِّفٍ، عَنْ أَبِيهِ، أَنَّهُ انْتَهَى إِلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَهُوَ يَقُولُ:‏‏‏‏ أَلْهَاكُمُ التَّكَاثُرُ سورة التكاثر آية 1،‏‏‏‏ قَالَ:‏‏‏‏ يَقُولُ ابْنُ آدَمَ:‏‏‏‏ مَالِي مَالِي، ‏‏‏‏‏‏وَهَلْ لَكَ مِنْ مَالِكَ إِلَّا مَا تَصَدَّقْتَ فَأَمْضَيْتَ أَوْ أَكَلْتَ فَأَفْنَيْتَ، ‏‏‏‏‏‏أَوْ لَبِسْتَ فَأَبْلَيْتَ ،‏‏‏‏ قَالَ أَبُو عِيسَى:‏‏‏‏ هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ.
دنیا سے بے رغبتی کے بارے میں
عبداللہ بن شخیر ؓ سے روایت ہے کہ وہ نبی اکرم کی خدمت میں پہنچے اور آپ «ألهاكم التکاثر» کی تلاوت کر رہے تھے تو آپ نے فرمایا: ابن آدم کہتا ہے کہ میرا مال، میرا مال، حالانکہ تمہارا مال صرف وہ ہے جو تم نے صدقہ کردیا اور اسے آگے چلا دیا ١ ؎، اور کھایا اور اسے ختم کردیا یا پہنا اور اسے پرانا کردیا ۔
امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث حسن صحیح ہے۔
تخریج دارالدعوہ: صحیح مسلم/الزہد ١ (٢٩٥٩)، سنن النسائی/الوصایا ١ (٣٦٤٣)، ویأتي عند المؤلف في تفسیر " التکاثر " (٣٣٤٩) (تحفة الأشراف: ٥٣٤٦)، و مسند احمد (٤/٢٤، ٢٦) (صحیح )
وضاحت: ١ ؎: مطلب یہ ہے کہ آدمی اس مال کو اپنا مال سمجھتا ہے جو اس کے پاس ہے حالانکہ حقیقی مال وہ ہے جو حصول ثواب کی خاطر اس نے صدقہ کردیا، اور یوم جزاء کے لیے جسے اس نے باقی رکھ چھوڑا ہے، باقی مال کھا پی کر اسے ختم کردیا یا پہن کر اسے بوسیدا اور پرانا کردیا، صدقہ کئے ہوئے مال کے علاوہ کوئی مال آخرت میں اس کے کام نہیں آئے گا، اس حدیث میں مستحقین پر اور اللہ کی پسندیدہ راہوں پر خرچ کرنے کی ترغیب ہے۔
قال الشيخ الألباني: صحيح
صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني: حديث نمبر 2342
Mutarrif narrated: My father went to the Prophet ﷺ and he was reciting: (your rivalry for amassing riches distracts you) (102:1). He said, “The son of Aadam says, “My property, my property!” But, is there anything for you from your wealth except that which you gave in charity and advanced (to Allah for yourself), or consumed and finished, or put on (or donned) and wore off?” [Ahmed 16427, Muslim 2958]
Top