سنن الترمذی - مناقب کا بیان - حدیث نمبر 3660
حدیث نمبر: 3660
حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ الْحَسَنِ، حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ مَسْلَمَةَ، عَنْ مَالِكِ بْنِ أَنَسٍ،‏‏‏‏ عَنْ أَبِي النَّضْرِ،‏‏‏‏ عَنْ عُبَيْدِ بْنِ حُنَيْنٍ،‏‏‏‏ عَنْ أَبِي سَعِيدٍ الْخُدْرِيِّ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ جَلَسَ عَلَى الْمِنْبَرِ قَالَ:‏‏‏‏ إِنَّ عَبْدًا خَيَّرَهُ اللَّهُ بَيْنَ أَنْ يُؤْتِيَهُ مِنْ زَهْرَةِ الدُّنْيَا مَا شَاءَ وَبَيْنَ مَا عِنْدَهُ،‏‏‏‏ فَاخْتَارَ مَا عِنْدَهُ ،‏‏‏‏ فَقَالَ أَبُو بَكْرٍ:‏‏‏‏ فَدَيْنَاكَ يَا رَسُولَ اللَّهِ بِآبَائِنَا وَأُمَّهَاتِنَا،‏‏‏‏ قَالَ:‏‏‏‏ فَعَجِبْنَا،‏‏‏‏ فَقَالَ النَّاسُ:‏‏‏‏ انْظُرُوا إِلَى هَذَا الشَّيْخِ يُخْبِرُ رَسُولُ اللَّهِ عَنْ عَبْدٍ خَيَّرَهُ اللَّهُ بَيْنَ أَنْ يُؤْتِيَهُ مِنْ زَهْرَةِ الدُّنْيَا مَا شَاءَ وَبَيْنَ مَا عِنْدَ اللَّهِ،‏‏‏‏ وَهُوَ يَقُولُ:‏‏‏‏ فَدَيْنَاكَ بِآبَائِنَا وَأُمَّهَاتِنَا،‏‏‏‏ قَالَ:‏‏‏‏ فَكَانَ رَسُولُ اللَّهِ هُوَ الْمُخَيَّرُ وَكَانَ أَبُو بَكْرٍ هُوَ أَعْلَمَنَا بِهِ،‏‏‏‏ فَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:‏‏‏‏ إِنَّ مِنْ أَمَنِّ النَّاسِ عَلَيَّ فِي صُحْبَتِهِ وَمَالِهِ أَبُو بَكْرٍ،‏‏‏‏ وَلَوْ كُنْتُ مُتَّخِذًا خَلِيلًا لَاتَّخَذْتُ أَبَا بَكْرٍ خَلِيلًا،‏‏‏‏ وَلَكِنْ أُخُوَّةُ الْإِسْلَامِ لَا تُبْقَيَنَّ فِي الْمَسْجِدِ خَوْخَةٌ إِلَّا خَوْخَةُ أَبِي بَكْرٍ . قَالَ أَبُو عِيسَى:‏‏‏‏ هَذَا حَسَنٌ صَحِيحٌ.
ابو سعید خدری ؓ کہتے ہیں کہ رسول اللہ نے منبر پر بیٹھ کر فرمایا: ایک بندے کو اللہ نے اختیار دیا کہ وہ دنیا کی رنگینی کو پسند کرے یا ان چیزوں کو جو اللہ کے پاس ہیں ، تو اس نے ان چیزوں کو اختیار کیا جو اللہ کے پاس ہیں، اسے سنا تو ابوبکر ؓ نے کہا: اللہ کے رسول! ہم نے اپنے باپ دادا اور اپنی ماؤں کو آپ پر قربان کیا ١ ؎ ہمیں تعجب ہوا، لوگوں نے کہا: اس بوڑھے کو دیکھو! اللہ کے رسول ایک ایسے بندے کے بارے میں خبر دے رہے ہیں جسے اللہ نے یہ اختیار دیا کہ وہ یا تو دنیا کی رنگینی کو اپنا لے یا اللہ کے پاس جو کچھ ہے اسے اپنا لے، اور یہ کہہ رہے ہیں کہ ہم نے اپنے آباء و اجداد اور ماؤں کو آپ پر قربان کیا، جس بندے کو اللہ نے اختیار دیا وہ خود اللہ کے رسول تھے، اور ابوبکر ؓ اسے ہم میں سب سے زیادہ جاننے والے تھے، ابوبکر ؓ کی بات سن کر نبی اکرم نے فرمایا: سب سے بڑھ کر میرا حق صحبت ادا کرنے والے اور سب سے زیادہ میرے اوپر اپنا مال خرچ کرنے والے ابوبکر ہیں، اگر میں کسی کو خلیل (گہرا دوست) بناتا، تو ابوبکر کو بناتا لیکن اسلام کی اخوت ہی کافی ہے اور مسجد میں (یعنی مسجد کی طرف) کوئی کھڑکی باقی نہ رہے سوائے ابوبکر کی کھڑکی کے ٢ ؎۔
امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث حسن صحیح ہے۔
تخریج دارالدعوہ: صحیح البخاری/الصلاة ٨٠ (٤٦٦)، وفضائل الصحابة ٣ (٣٦٥٤)، ومناقب الأنصار ٤٥ (٣٩٠٤)، صحیح مسلم/فضائل الصحابة ١ (٢٣٨٢) (تحفة الأشراف: ٤١٤٥) (صحیح)
وضاحت: ١ ؎: یعنی: ہمارے ماں باپ کی عمریں آپ کو مل جائیں تاکہ آپ کا سایہ ہم پر تادیر اور مزید قائم رہے۔ ٢ ؎: یہ ابوبکر ؓ کی تمام صحابہ پر فضیلت کی دلیل ہے۔ مسجد نبوی میں یہ دروازہ آج بھی موجود ہے، محراب کی دائیں جانب پہلا دروازہ باب السلام ہے اور اور دوسرا خوخۃ ابی بکر ؓ۔
قال الشيخ الألباني: صحيح
صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني: حديث نمبر 3660
Sayyidina Abu Sa’eed reported that Allah’s Messenger ﷺ sat down on the pulpit and said, “Allah has given choice to a slave between receiving the pleasures of the world whatever he wishes and what is with Allah.” Abu Bakr (RA) said, “May we ransom to you, O Messenger of Allah, our fathers and our mothers!” The narrator said, “We were surprised and people said: Look at this shaykh Allah’s Messenger r.L informs us of a man whom Allah has given choice between the pleasures of this world as much as he wishes and what is with Allah, and he says may our parents be ransomed to you.” But, AlIah,s Messenger ﷺ was the one given the choice and Abu Bakr (RA) knew better than the others, The Prophet ﷺ said, “Surely, the most favouring one to me with his companionship and his wealth is Abu Bakr. And, if I were to pick a friend, I would take Abd Bakr as a friend, but Islamic fraternity (is enough). Let not there remain any window in the mosque, but the window of Abu Bakr.” [Bukhari 3904, Muslim 2382] --------------------------------------------------------------------------------
Top