سنن الترمذی - مناقب کا بیان - حدیث نمبر 3901
حدیث نمبر: 3901
حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ، قَالَ:‏‏‏‏ حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ جَعْفَرٍ، حَدَّثَنَا شُعْبَةُ، قَال:‏‏‏‏ سَمِعْتُ قَتَادَةَ، عَنْ أَنَسٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ جَمَعَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ نَاسًا مِنَ الْأَنْصَارِ، ‏‏‏‏‏‏فَقَالَ:‏‏‏‏ هَلْ فِيكُمْ أَحَدٌ مِنْ غَيْرِكُمْ ؟ ، ‏‏‏‏‏‏قَالُوا:‏‏‏‏ لَا إِلَّا ابْنَ أُخْتٍ لَنَا، ‏‏‏‏‏‏فَقَالَ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:‏‏‏‏ إِنَّ ابْنَ أُخْتِ الْقَوْمِ مِنْهُمْ، ‏‏‏‏‏‏ثُمَّ قَالَ:‏‏‏‏ إِنَّ قُرَيْشًا حَدِيثٌ عَهْدُهُمْ بِجَاهِلِيَّةٍ،‏‏‏‏ وَمُصِيبَةٍ،‏‏‏‏ وَإِنِّي أَرَدْتُ أَنْ أَجْبُرَهُمْ،‏‏‏‏ وَأَتَأَلَّفَهُمْ أَمَا تَرْضَوْنَ أَنْ يَرْجِعَ النَّاسُ بِالدُّنْيَا وَتَرْجِعُونَ بِرَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِلَى بُيُوتِكُمْ ، ‏‏‏‏‏‏قَالُوا:‏‏‏‏ بَلَى، ‏‏‏‏‏‏فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:‏‏‏‏ لَوْ سَلَكَ النَّاسُ وَادِيًا أَوْ شِعْبًا وَسَلَكَتِ الْأَنْصَارُ وَادِيًا أَوْ شِعْبًا لَسَلَكْتُ وَادِيَ الْأَنْصَارِ أَوْ شِعْبَهُمْ . قَالَ أَبُو عِيسَى:‏‏‏‏ هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ.
قریش و انصار کی فضیلت
انس ؓ کہتے ہیں کہ رسول اللہ نے (فتح مکہ کے وقت) انصار کے کچھ لوگوں کو اکٹھا کیا ١ ؎ اور فرمایا: کیا تمہارے علاوہ تم میں کوئی اور ہے؟ لوگوں نے عرض کیا: نہیں سوائے ہمارے بھانجے کے، تو آپ نے فرمایا: قوم کا بھانجا تو قوم ہی میں داخل ہوتا ہے ، پھر آپ نے فرمایا: قریش اپنی جاہلیت اور (کفر کی) مصیبت سے نکل کر ابھی نئے نئے اسلام لائے ہیں۔ میں چاہتا ہوں کہ کچھ ان کی دلجوئی کروں اور انہیں مانوس کروں، (اسی لیے مال غنیمت میں سے انہیں دیا ہے) کیا تم یہ پسند نہیں کرتے کہ لوگ دنیا لے کر اپنے گھروں کو لوٹیں اور تم اللہ کے رسول کو لے کر اپنے گھر جاؤ، لوگوں نے عرض کیا: کیوں نہیں، ہم اس پر راضی ہیں، پھر رسول اللہ نے فرمایا: اگر لوگ ایک وادی یا گھاٹی میں چلیں اور انصار دوسری وادی یا گھاٹی میں چلیں تو میں انصار کی وادی و گھاٹی میں چلوں گا ۔
امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث حسن صحیح ہے۔
تخریج دارالدعوہ: صحیح البخاری/المناقب ١٤ (٣٥٢٨)، ومناقب الأنصار ١ (٣٧٧٨)، والمغازي ٥٦ (٤٣٣٤)، والفرائض ٢٤ (٦٧٢٢)، صحیح مسلم/الزکاة ٤٦ (١٠٥٩)، سنن النسائی/الزکاة ٩٦ (٢٦١١) (تحفة الأشراف: ١٢٤٤)، و مسند احمد (٣/٢٠١، ٢٤٦)، وسنن الدارمی/السیر ٨٢ (٢٥٣٠) (صحیح)
وضاحت: ١ ؎: یہ غزوہ حنین کے بعد کا واقعہ ہے، جس کے اندر آپ نے قریش کے نئے مسلمانوں کو مال غنیمت میں سے بطور تالیف قلب عطا فرمایا تو بعض نوجوان انصاری حضرات کی طرف سے کچھ ناپسندیدہ رنجیدگی کا اظہار کیا گیا تھا، اسی پر آپ نے انصار کو جمع کر کے یہ ارشاد فرمایا۔
قال الشيخ الألباني: صحيح، الصحيحة (1776)، الروض النضير (961)
صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني: حديث نمبر 3901
Sayyidina Anas (RA) reported that Allah’s Messenger ﷺ assembled some people of the ansar and asked, ‘Tell me is there among you, a stranger not one of you?’. They said, “No, except the son of a brother of ours.” He said, “A nephew belongs to the people.” Then he said, “The Quraysh are newly relieved of jahiliyah and difficulties. I intend to console them and show them affinity. Would it not please you that people return with worldly possessions while you return with Allah’s Messenger ﷺ to your homes?” They said, “Of Course!” So, Allah’s Messenger said i3 “If people trek through a valley or a pass and the ansar trek through another valley or pass then I will take the valley of the ansar or their pass.” [83146, Muslim 1059, Nisai 2606, Ahmed 139151
Top