سنن الترمذی - مناقب کا بیان - حدیث نمبر 3902
حدیث نمبر: 3902
حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ مَنِيعٍ، حَدَّثَنَا هُشَيْمٌ، أَخْبَرَنَا عَلِيُّ بْنُ زَيْدِ بْنِ جُدْعَانَ، حَدَّثَنَا النَّضْرُ بْنُ أَنَسٍ، عَنْ زَيْدِ بْنِ أَرْقَمَ، أَنَّهُ كَتَبَ إِلَى أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ يُعَزِّيهِ فِيمَنْ أُصِيبَ مِنْ أَهْلِهِ وَبَنِي عَمِّهِ يَوْمَ الْحَرَّةِ، ‏‏‏‏‏‏فَكَتَبَ إِلَيْهِ:‏‏‏‏ إِنِّي أُبَشِّرُكَ بِبُشْرَى مِنَ اللَّهِ، ‏‏‏‏‏‏إِنِّي سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ:‏‏‏‏ اللَّهُمَّ اغْفِرْ لِلْأَنْصَارِ،‏‏‏‏ وَلِذَرَارِيِّ الْأَنْصَارِ،‏‏‏‏ وَلِذَرَارِيِّ ذَرَارِيهِمْ . قَالَ أَبُو عِيسَى:‏‏‏‏ هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ، ‏‏‏‏‏‏حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ مَنِيعٍ، ‏‏‏‏‏‏حَدَثَنَا هُشَيْمٌ، ‏‏‏‏‏‏أَخْبَرَنَا عَلِيُّ بْنُ زَيْدِ بْنِ جُدْعَانَ، ‏‏‏‏‏‏حَدَّثَنَا النَّضْرُ بْنُ أَنَسٍ، ‏‏‏‏‏‏وَقَدْ رَوَاهُ قَتَادَةُ، عَنْ النَّضْرِ بْنِ أَنَسٍ، عَنْ زَيْدِ بْنِ أَرْقَمَ.
قریش و انصار کی فضیلت
زید بن ارقم ؓ سے روایت ہے کہ انہوں نے انس بن مالک ؓ کو خط لکھا اس خط میں وہ ان کی ان لوگوں کے سلسلہ میں تعزیت کر رہے تھے جو ان کے گھر والوں میں سے اور چچا کے بیٹوں میں سے حرّہ ١ ؎ کے دن کام آ گئے تھے تو انہوں نے (اس خط میں) انہیں لکھا: میں آپ کو اللہ کی طرف سے ایک خوشخبری سناتا ہوں، میں نے رسول اللہ سے سنا ہے آپ نے فرمایا: اے اللہ! انصار کو، ان کی اولاد کو، اور ان کی اولاد کے اولاد کو بخش دے ٢ ؎۔
امام ترمذی کہتے ہیں: ١- یہ حدیث حسن صحیح ہے، ٢- اسے قتادہ نے بھی نضر بن انس ؓ سے اور انہوں نے زید بن ارقم ؓ سے روایت کیا ہے۔
تخریج دارالدعوہ: صحیح مسلم/فضائل الصحابة ٤٣ (٢٥٠٦) (تحفة الأشراف: ٣٦٨٦) (صحیح)
وضاحت: ١ ؎: حرّہ کا دن اس واقعے کو کہا جاتا ہے جس میں یزید کی فوجوں نے مسلم بن قتیبہ مُرّی کی سرکردگی میں سنہ ٦٣ ھ میں مدینہ پر حملہ کر کے اہل مدینہ کو لوٹا تھا اور مدینہ کو تخت و تاراج کیا تھا، اس میں بہت سے صحابہ و تابعین کی جانیں چلی گئی تھیں، یہ فوج کشی اہل مدینہ کے یزید کی بیعت سے انکار پر کی گئی تھی، ( عفا اللہ عنہ ) یہ واقعہ چونکہ مدینہ کے ایک محلہ حرّہ میں ہوا تھا اس لیے اس کا نام یوم الحرّۃ پڑگیا۔ ٢ ؎: یعنی: اللہ تعالیٰ نے اس واقعہ کے کام آنے والے آپ کی اولاد کو نبی کی دعا کی برکت شامل ہے، اس لیے آپ کو ان کی موت پر رنجیدہ نہیں ہونا چاہیئے، ایک مومن کا منتہائے آرزو آخرت میں بخشش ہی تو ہے۔
قال الشيخ الألباني: صحيح
صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني: حديث نمبر 3902
Sayyidina Zayd ibn Arqam (RA) reported that he wrote to Sayyidina Anas ibn Maalik (RA) a condolence (letter) on what had afflicted his family and the children of his uncle in the Battel of al-Harrah. He wrote to him, “I give you glad tidings-tidings from Allah. I had heard Allah’s Messenger ﷺ pray: O Allah, forgive the ansar, the children of the ansar, and the children of their children.” [Ahmed 19362, Bukhari 4906, Muslim 2506]
Top