سنن الترمذی - نماز کا بیان - حدیث نمبر 165
حدیث نمبر: 165
حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ الْمَلِكِ بْنِ أَبِي الشَّوَارِبِ، حَدَّثَنَا أَبُو عَوَانَةَ، عَنْ أَبِي بِشْرٍ، عَنْ بَشِيرِ بْنِ ثَابِتٍ، عَنْ حَبِيبِ بْنِ سَالِمٍ، عَنْ النُّعْمَانِ بْنِ بَشِيرٍ، قَالَ:‏‏‏‏ أَنَا أَعْلَمُ النَّاسِ بِوَقْتِ هَذِهِ الصَّلَاةِ، ‏‏‏‏‏‏ كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يُصَلِّيهَا لِسُقُوطِ الْقَمَرِ لِثَالِثَةٍ .
عشاء کی نماز کا وقت
نعمان بن بشیر ؓ کہتے ہیں کہ اس نماز عشاء کے وقت کو لوگوں میں سب سے زیادہ میں جانتا ہوں، رسول اللہ اسے تیسری تاریخ کا چاند ڈوبنے کے وقت پڑھتے تھے ١ ؎۔
تخریج دارالدعوہ: سنن ابی داود/ الصلاة ٧ (٤١٩)، سنن النسائی/المواقیت ١٩ (٥٢٩)، ( تحفة الأشراف: ١١٦١٤)، مسند احمد (٤/٢٧٠، ٢٧٤) (صحیح)
وضاحت: ١ ؎: حدیث جبرائیل میں یہ بات آچکی ہے کہ عشاء کا وقت شفق غائب ہونے کے بعد شروع ہوتا ہے، یہ اجماعی مسئلہ ہے اس میں کسی کا اختلاف نہیں، رہی یہ بات کہ اس کا آخری وقت کیا ہے تو صحیح اور صریح احادیث سے جو بات ثابت ہے وہ یہی ہے کہ اس کا آخری وقت طلوع فجر تک ہے جن روایتوں میں آدھی رات تک کا ذکر ہے اس سے مراد اس کا افضل وقت ہے جو تیسری رات کے چاند ڈوبنے کے وقت سے شروع ہوتا ہے، اسی لیے رسول اللہ ﷺ عموماً اسی وقت نماز عشاء پڑھتے تھے، لیکن مشقت کے پیش نظر امت کو اس سے پہلے پڑھ لینے کی اجازت دے دی۔ ( دیکھئیے اگلی حدیث رقم ١٦٧)
قال الشيخ الألباني: صحيح، المشکاة (613)، صحيح أبي داود (445)
صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني: حديث نمبر 165
Sayyidina Numan ibn Bashir (RA) said, "I know more then all people the hour of this Salah. Allahs Messenger ﷺ used to observe it at the time of the setting of the moon on its third night.
Top