سنن الترمذی - نماز کا بیان - حدیث نمبر 168
حدیث نمبر: 168
حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ مَنِيعٍ، حَدَّثَنَا هُشَيْمٌ، أَخْبَرَنَا عَوْفٌ، قَالَ أَحْمَدُ:‏‏‏‏ وَحَدَّثَنَا عَبَّادُ بْنُ عَبَّادٍ هُوَ الْمُهَلَّبِيُّ، وَإِسْمَاعِيل ابْنُ علية جميعا، ‏‏‏‏‏‏عَنْ عَوْفٍ، عَنْ سَيَّارِ بْنِ سَلَامَةَ هُوَ أَبُو الْمِنْهَالِ الرِّيَاحِيُّ، عَنْ أَبِي بَرْزَةَ، قَالَ:‏‏‏‏ كَانَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَكْرَهُ النَّوْمَ قَبْلَ الْعِشَاءِ وَالْحَدِيثَ بَعْدَهَا . قَالَ:‏‏‏‏ وَفِي الْبَاب عَنْ عَائِشَةَ،‏‏‏‏ وَعَبْدِ اللَّهِ بْنِ مَسْعُودٍ،‏‏‏‏ وَأَنَسٍ. قَالَ أَبُو عِيسَى:‏‏‏‏ حَدِيثُ أَبِي بَرْزَةَ حَسَنٌ صَحِيحٌ، ‏‏‏‏‏‏وَقَدْ كَرِهَ أَكْثَرُ أَهْلِ الْعِلْمِ النَّوْمَ قَبْلَ صَلَاةِ الْعِشَاءِ وَالْحَدِيثَ بَعْدَهَا، ‏‏‏‏‏‏وَرَخَّصَ فِي ذَلِكَ بَعْضُهُمْ، ‏‏‏‏‏‏وقَالَ عَبْدُ اللَّهِ بْنُ الْمُبَارَكِ:‏‏‏‏ أَكْثَرُ الْأَحَادِيثِ عَلَى الْكَرَاهِيَةِ، ‏‏‏‏‏‏وَرَخَّصَ بَعْضُهُمْ فِي النَّوْمِ قَبْلَ صَلَاةِ الْعِشَاءِ فِي رَمَضَانَ، ‏‏‏‏‏‏وَسَيَّارُ بْنُ سَلَامَةَ هُوَ أَبُو الْمِنْهَالِ الرِّيَاحِيُّ.
عشاء سے پہلے سونا اور بعد میں باتیں کرنا مکروہ ہے
ابوبرزہ ؓ کہتے ہیں کہ نبی اکرم عشاء سے پہلے سونے اور اس کے بعد بات چیت کرنے کو ناپسند فرماتے تھے ١ ؎۔
امام ترمذی کہتے ہیں: ١- ابوبرزہ کی حدیث حسن صحیح ہے، ٢- اس باب میں عائشہ، عبداللہ بن مسعود اور انس ؓ سے بھی احادیث آئی ہیں، ٣- اور اکثر اہل علم نے نماز عشاء سے پہلے سونے اور اس کے بعد بات کرنے کو مکروہ کہا ہے، اور بعض نے اس کی اجازت دی ہے، عبداللہ بن مبارک کہتے ہیں: اکثر حدیثیں کراہت پر دلالت کرنے والی ہیں، اور بعض لوگوں نے رمضان میں عشاء سے پہلے سونے کی اجازت دی ہے۔
تخریج دارالدعوہ: صحیح البخاری/المواقیت ١١ (٥٤١)، و ١٣ (٥٤٧)، و ٢٣ (٥٦٨)، و ٣٨ (٥٩٨)، صحیح مسلم/المساجد ٤٠ (٦٤٧)، سنن ابی داود/ الصلاة ٣ (٣٩٨)، والأدب ٢٧ (٤٨٤٩)، سنن النسائی/المواقیت ٢ (٤٩٦)، و ١٦ (٥٢٦)، و ٢٠ (٥٣١)، والافتتاح ٤٢ (٩٤٩)، سنن ابن ماجہ/الصلاة ٣ (٦٧٤)، ( تحفة الأشراف: ١١٦٠٦)، مسند احمد (٤/٤٢٠، ٤٢١، ٤٢٣، ٤٢٤، ٤٢٥)، سنن الدارمی/الصلاة ٦٦ (١٣٣٨) (صحیح)
وضاحت: ١ ؎: عشاء سے پہلے سونے کی کراہت کی وجہ یہ ہے کہ اس سے عشاء فوت ہوجانے کا خدشہ رہتا ہے، اور عشاء کے بعد بات کرنا اس لیے ناپسندیدہ ہے کہ اس سے سونے میں تاخیر ہوتی ہے جس کی وجہ سے انسان کے لیے تہجد یا فجر کے لیے اٹھنا مشکل ہوجاتا ہے امام نووی نے علمی مذاکرہ وغیرہ کو جو جائز اور مستحب بتایا ہے تو یہ اس بات کے ساتھ مشروط ہے کہ نماز فجر وقت پر ادا کی جائے، اگر رات کو تعلیم و تعلم یا وعظ و تذکیر میں اتنا وقت صرف کردیا جائے کہ فجر کے وقت اٹھا نہ جاسکے تو یہ جواز و استحباب بھی محل نظر ہوگا۔ ( دیکھئیے اگلی حدیث اور اس کا حاشیہ
قال الشيخ الألباني: صحيح، ابن ماجة (701)
صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني: حديث نمبر 168
Sayyidina Abu Barzah (RA) narrated that the Prophet ﷺ disliked sleeping before Isha and talking after it.
Top