سنن الترمذی - نماز کا بیان - حدیث نمبر 282
حدیث نمبر: 282
حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ عَبْدِ الرَّحْمَنِ، أَخْبَرَنَا عُبَيْدُ اللَّهِ بْنُ مُوسَى، حَدَّثَنَا إِسْرَائِيلُ، عَنْ أَبِي إِسْحَاق، عَنْ الْحَارِثِ، عَنْ عَلِيٍّ، قَالَ:‏‏‏‏ قَالَ لِي رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:‏‏‏‏ يَا عَلِيُّ أُحِبُّ لَكَ مَا أُحِبُّ لِنَفْسِي وَأَكْرَهُ لَكَ مَا أَكْرَهُ لِنَفْسِي لَا تُقْعِ بَيْنَ السَّجْدَتَيْنِ . قَالَ أَبُو عِيسَى:‏‏‏‏ هَذَا حَدِيثٌ لَا نَعْرِفُهُ مِنْ حَدِيثِ عَلِيٍّ إِلَّا مِنْ حَدِيثِ أَبِي إِسْحَاق، ‏‏‏‏‏‏عَنْ الْحَارِثِ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ عَلِيٍّ، ‏‏‏‏‏‏وَقَدْ ضَعَّفَ بَعْضُ أَهْلِ الْعِلْمِ الْحَارِثَ الْأَعْوَرَ، ‏‏‏‏‏‏وَالْعَمَلُ عَلَى هَذَا الْحَدِيثِ عِنْدَ أَكْثَرِ أَهْلِ الْعِلْمِ يَكْرَهُونَ الْإِقْعَاءَ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ وَفِي الْبَاب عَنْ عَائِشَةَ، ‏‏‏‏‏‏وَأَنَسٍ، ‏‏‏‏‏‏وَأَبِي هُرَيْرَةَ.
سجدوں کے درمیان اقعاء مکروہ ہے
علی ؓ کہتے ہیں کہ مجھ سے رسول اللہ نے فرمایا: اے علی! میں تمہارے لیے وہی چیز پسند کرتا ہوں جو اپنے لیے کرتا ہوں، اور وہی چیز ناپسند کرتا ہوں جو اپنے لیے ناپسند کرتا ہوں۔ تم دونوں سجدوں کے درمیان اقعاء ١ ؎ نہ کرو ۔
امام ترمذی کہتے ہیں: ١- ہم اسے علی کی حدیث سے صرف ابواسحاق سبیعی ہی کی روایت سے جانتے ہیں، انہوں نے حارث سے اور حارث نے علی سے روایت کی ہے، ٢- بعض اہل علم نے حارث الاعور کو ضعیف قرار دیا ہے ٢ ؎، ٣- اس باب میں عائشہ، انس اور ابوہریرہ سے بھی احادیث آئی ہیں، ٤- اکثر اہل علم کا عمل اسی حدیث پر ہے کہ وہ اقعاء کو مکروہ قرار دیتے ہیں۔
تخریج دارالدعوہ: سنن ابن ماجہ/إقامة الصلاة ٢٢ (٨٩٤)، ( تحفة الأشراف: ١٠٠٤١) (ضعیف) (سند میں حارث اعور سخت ضعیف ہے)
وضاحت: ١ ؎: اقعاء کی دو قسمیں ہیں: پہلی قسم یہ ہے کہ دونوں سرین زمین سے چپکے ہوں اور دونوں رانیں کھڑی ہوں اور دونوں ہاتھ زمین پر ہوں یہی اقعاء کلب ہے اور یہی وہ اقعاء ہے جس کی ممانعت آئی ہے، دوسری قسم یہ ہے کہ دونوں سجدوں کے درمیان قدموں کو کھڑا کر کے سرین کو دونوں ایڑیوں پر رکھ کر بیٹھے، اس صورت کا ذکر ابن عباس کی حدیث میں ہے جس کی تخریج مسلم اور ابوداؤد نے بھی کی ہے، اور یہ صورت جائز ہے، بعض نے اسے بھی منسوخ شمار کرتے ہوئے کہا ہے کہ ہوسکتا ہے کہ ابن عباس کو اس نسخ کا علم نہ ہوسکا ہو، لیکن یہ قول درست نہیں کیونکہ دونوں حدیثوں کے درمیان تطبیق ممکن ہے، صحیح قول یہ ہے کہ اقعاء کی یہ صورت جائز ہے اور افضل سرین پر بیٹھنا ہے اس لیے کہ زیادہ تر آپ کا عمل اسی پر رہا ہے اور کبھی کبھی آپ نے جو اقعاء کیا وہ یا تو کسی عذر کی وجہ سے کیا ہوگا یا بیان جواز کے لیے کیا ہوگا۔ ٢ ؎: حارث اعور کی وجہ سے یہ روایت تو ضعیف ہے مگر اس باب کی دیگر احادیث صحیح ہیں جن کا ذکر مولف نے «وفی الباب» کر کے کیا ہے۔
قال الشيخ الألباني: ضعيف، ابن ماجة (894 و 895) // ضعيف الجامع الصغير (6400)، المشکاة (903) //
صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني: حديث نمبر 282
Sayyidina Ali (RA) narrated that Allah’s Messenger said to him, “Ali I like for you what I like for myself and I dislike for you what I dislike for myself. Do not observe iq’a between two prostrations.”
Top