سنن الترمذی - نیکی و صلہ رحمی کا بیان - حدیث نمبر 1926
حدیث نمبر: 1926
حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ، حَدَّثَنَا صَفْوَانُ بْنُ عِيسَى، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ عَجْلَانَ، عَنِ الْقَعْقَاعِ بْنِ حَكِيمٍ، عَنْ أَبِي صَالِحٍ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، قَالَ:‏‏‏‏ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:‏‏‏‏ الدِّينُ النَّصِيحَةُ ثَلَاثَ مِرَارٍ، ‏‏‏‏‏‏قَالُوا:‏‏‏‏ يَا رَسُولَ اللَّهِ، ‏‏‏‏‏‏لِمَنْ ؟ قَالَ:‏‏‏‏ لِلَّهِ، ‏‏‏‏‏‏وَلِكِتَابِهِ، ‏‏‏‏‏‏وَلِأَئِمَّةِ الْمُسْلِمِينَ، ‏‏‏‏‏‏وَعَامَّتِهِمْ ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ أَبُو عِيسَى:‏‏‏‏ هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ، ‏‏‏‏‏‏وَفِي الْبَابِ عَنْ ابْنِ عُمَرَ، ‏‏‏‏‏‏وَتَمِيمٍ الدَّارِيِّ، ‏‏‏‏‏‏وَجَرِيرٍ، ‏‏‏‏‏‏وَحَكِيمِ بْنِ أَبِي يَزِيدَ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ أَبِيهِ، ‏‏‏‏‏‏وَثَوْبَانَ.
نصیحت کے بارے میں
ابوہریرہ ؓ کہتے ہیں کہ رسول اللہ نے تین مرتبہ فرمایا: دین سراپا خیر خواہی ہے ، لوگوں نے پوچھا: اللہ کے رسول! کس کے لیے؟ فرمایا: اللہ کے لیے، اس کی کتاب کے لیے، مسلمانوں کے ائمہ (حکمرانوں) اور عام مسلمانوں کے لیے ١ ؎۔
امام ترمذی کہتے ہیں: ١ - یہ حدیث حسن صحیح ہے، ٢ - اس باب میں ابن عمر، تمیم داری، جریر، «حكيم بن أبي يزيد عن أبيه» اور ثوبان ؓ سے احادیث آئی ہیں۔
تخریج دارالدعوہ: تفرد بہ المؤلف (تحفة الأشراف: ١٢٨٦٣) (صحیح )
وضاحت: ١ ؎: اخلاص کے ساتھ اللہ کی عبادت کرنا اور اس کی ذات پر صحیح طور پر ایمان رکھنا یہ اللہ کے ساتھ خیر خواہی ہے، جس کا فائدہ انسان کو خود اپنی ذات کو پہنچتا ہے، ورنہ اللہ عزوجل کی خیر خواہی کون کرسکتا ہے، اس کا دوسرا معنی یہ بھی ہے کہ نصیحت اور خیر خواہی کا حق اللہ کے لیے ہے جو وہ اپنی مخلوق سے کرتا ہے، اور اس کی کتاب (قرآن) کے ساتھ خیر خواہی اس کے احکام پر عمل کرنا ہے، اس میں غور و فکر اور تدبر کرنا اس کی تعلیمات کو پھیلانا اس میں تحریف سے بچنا، اس کی تصدیق کرنے کے ساتھ اس کی تلاوت کا التزام کرنا ہے، رسول اللہ کی سنتوں کا پابند ہونا، اس کی رسالت کی تصدیق کرنا اور اس کی فرماں برداری کرنا یہ رسول کی خیر خواہی ہے، مسلمان حکمراں اور ائمہ کی خیر خواہی یہ ہے کہ حق اور غیر معصیت میں ان کی اعانت و اطاعت کی جائے، سیدھے راستے سے انحراف کرنے کی صورت میں ان کے خلاف خروج و بغاوت سے گریز کرتے ہوئے انہیں معروف کا حکم دیا جائے، سوائے اس کے کہ ان سے صریحاً کفر کا اظہار ہو تو ایسی صورت میں ترک اعانت ضروری ہے، عام مسلمانوں کی خیر خواہی یہ ہے کہ دنیا و آخرت سے متعلق جو بھی خیر اور بھلائی کے کام ہیں ان سے انہیں آگاہ کیا جائے، اور شر و فساد کے کاموں میں ان کی صحیح رہنمائی کی جائے، اور برائی سے روکا جائے۔
قال الشيخ الألباني: صحيح، الإرواء (26)، غاية المرام (332)
صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني: حديث نمبر 1926
Sayyidina Abu Hurayrah (RA) reported that Allah’s Messenger ﷺ said three times, “Religion is nasihah. “The sahabah (RA) asked, “O Messenger of Allah, for whom?” He said, “For Allah, for His Book, for the leaders of Muslims and their common men.” [Bukhari 57]
Top