سنن الترمذی - وترکا بیان - حدیث نمبر 452
حدیث نمبر: 452
حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ، حَدَّثَنَا اللَّيْثُ بْنُ سَعْدٍ، عَنْ يَزِيدَ بْنِ أَبِي حَبِيبٍ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ رَاشِدٍ الزَّوْفِيِّ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ أَبِي مُرَّةَ الزَّوْفِيِّ، عَنْ خَارِجَةَ بْنِ حُذَافَةَ، أَنَّهُ قَالَ:‏‏‏‏ خَرَجَ عَلَيْنَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، ‏‏‏‏‏‏فَقَالَ:‏‏‏‏ إِنَّ اللَّهَ أَمَدَّكُمْ بِصَلَاةٍ هِيَ خَيْرٌ لَكُمْ مِنْ حُمْرِ النَّعَمِ الْوِتْرُ، ‏‏‏‏‏‏جَعَلَهُ اللَّهُ لَكُمْ فِيمَا بَيْنَ صَلَاةِ الْعِشَاءِ إِلَى أَنْ يَطْلُعَ الْفَجْرُ قَالَ:‏‏‏‏ وَفِي الْبَاب عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ،‏‏‏‏ وَعَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَمْرٍ، ‏‏‏‏‏‏وَبُرَيْدَةَ وَأَبِي بَصْرَةَ الْغِفَارِيِّ صَاحِبِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ أَبُو عِيسَى:‏‏‏‏ حَدِيثُ خَارِجَةَ بْنِ حُذَافَةَ حَدِيثٌ غَرِيبٌ، ‏‏‏‏‏‏لَا نَعْرِفُهُ إِلَّا مِنْ حَدِيثِ يَزِيدَ بْنِ أَبِي حَبِيبٍ، ‏‏‏‏‏‏وَقَدْ وَهِمَ بَعْضُ الْمُحَدِّثِينَ فِي هَذَا الْحَدِيثِ، ‏‏‏‏‏‏فَقَالَ:‏‏‏‏ عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ رَاشِدٍ الزُّرَقِيِّ وَهُوَ وَهَمٌ فِي هَذَا، ‏‏‏‏‏‏وَأَبُو بَصْرَةَ الْغِفَارِيُّ اسْمُهُ حُمَيْلُ بْنُ بَصْرَةَ، ‏‏‏‏‏‏وقَالَ بَعْضُهُمْ:‏‏‏‏ جَمِيلُ بْنُ بَصْرَةَ وَلَا يَصِحُّ، ‏‏‏‏‏‏وَأَبُو بَصْرَةَ الْغِفَارِيُّ رَجُلٌ آخَرُ يَرْوِي عَنْ أَبِي ذَرٍّ وَهُوَ:‏‏‏‏ ابْنُ أَخِي أَبِي ذَرٍّ.
وتر کی فضلیت
خارجہ بن حذافہ ؓ کہتے ہیں کہ رسول اللہ (حجرے سے نکل کر) ہمارے پاس آئے اور فرمایا: اللہ تعالیٰ نے تمہارے لیے ایک ایسی نماز کا اضافہ کیا ہے ١ ؎، جو تمہارے لیے سرخ اونٹوں سے بہتر ہے، وہ وتر ہے، اللہ نے اس کا وقت تمہارے لیے نماز عشاء سے لے کر فجر کے طلوع ہونے تک رکھا ہے ۔
امام ترمذی کہتے ہیں: ١- خارجہ بن حذافہ کی حدیث غریب ہے، اسے ہم صرف یزید بن ابی حبیب ہی کی روایت سے جانتے ہیں، ٢- بعض محدثین کو اس حدیث میں وہم ہوا ہے، انہوں نے عبداللہ بن راشد زرقی کہا ہے، یہ وہم ہے (صحیح «زوفی» ہے) ٣- اس باب میں ابوہریرہ، عبداللہ بن عمرو، بریدہ، اور ابو بصرہ غفاری ؓ سے بھی احادیث آئی ہیں، ٤- ابو بصرہ غفاری کا نام حمیل بن بصرہ ہے، اور بعض لوگوں نے جمیل بن بصرہ کہا ہے، لیکن یہ صحیح نہیں، اور ابو بصرہ غفاری ایک دوسرے شخص ہیں جو ابوذر ؓ سے روایت کرتے ہیں اور وہ ابوذر کے بھتیجے ہیں۔
تخریج دارالدعوہ: سنن ابی داود/ الصلاة ٣٣٦ (١٤١٨)، سنن ابن ماجہ/الإقامة ١١٤ (١١٦٨)، ( تحفة الأشراف: ٣٤٥٠)، سنن الدارمی/الصلاة ٢٠٨ (١٦١٧) (صحیح) " ہی خیر من حمر النعم " ) کا فقرہ ثابت نہیں ہے (اس کے راوی " عبداللہ بن راشد " مجہول ہیں، لیکن پہلے ٹکڑے کے صحیح متابعات وشواہد موجود ہیں، نیز ملاحظہ ہو: تراجع الألبانی ٤٦٦)
وضاحت: ١ ؎: ایک روایت میں «زادکم» کا لفظ بھی آیا ہے، حنفیہ نے اس لفظ سے وتر کے واجب ہونے پر دلیل پکڑی ہے، کیونکہ زیادہ کی ہوئی چیز بھی اصل چیز کی جنس ہی سے ہوتی ہے، تو جب پانچ وقتوں کی نماز واجب ہے تو وتر بھی واجب ہوئی، علماء نے اس کا رد کئی طریقے سے کیا ہے، ان میں سے ایک یہ کہ فجر کی سنت کے بارے میں بھی یہ لفظ وارد ہوا ہے جب کہ کوئی بھی اس کو واجب نہیں مانتا، اسی طرح بدوی کی وہ حدیث جس میں وارد ہے کہ ان پانچ کے علاوہ بھی اللہ نے مجھ پر کوئی نماز فرض کی ہے؟ تو رسول اللہ نے جواب دیا کہ نہیں، نیز مزید کا مزید فیہ کے جنس سے ہونا ضروری نہیں ہے، ( مزید تفصیل کے لیے دیکھئیے: تحفۃ الأحوذی
قال الشيخ الألباني: صحيح دون قوله: هى خير لکم من حمر النعم، ابن ماجة (1168)
صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني: حديث نمبر 452
Sayyidina Kharijah ibn Huzafah reported that Allah’s Messenger ﷺ came their way. He said, ‘Surely, Allah has helped you with a salah that is better for you than red camels: the witr! Allah has assigned it for you between the salah of isha and the rise of dawn.”
Top