صحيح البخاری
باب: ذبیحوں اور شکار کا بیان
شکار پر بسم اللہ پڑھنے کا بیان اور اللہ تعالیٰ کا قول کہ تم پر مردار حرام کیا گیا فلاتخشوھم واخشون تک اور اللہ تعالیٰ کا قول کہ اے ایمان والو ! اللہ تعالیٰ تمہیں شکار کے ذریعہ آزمائے گا، جہاں تک تمہارے ہاتھ اور تمہارے نیزے پہنچ سکیں گے تا آخر آیت اور اللہ تعالیٰ کا قول کہ احلت لکم بھیمہ الانعام الاما یتلی علیکم آخر آیت فلاتخشوھم واخشون تک اور ابن عباس ؓ نے کہا کہ العقود سے مراد وہ عہد ہیں جو حلال وحرام سے متعلق کیے جائیں اور الامایتلی علیکم سے مراد سور ہے اور یجرمنکم کے معنی یحملنکم (تمہیں ابھارے) کے ہیں اور شنآن سے مراد دشمنی ہے اور منخنقہ سے مراد وہ جانور ہے جس کا گلا گھونٹ کر مارا جائے، موقوذہ سے مراد وہ ہے جس کو لاٹھی سے مارا جائے (چنانچہ عرب بولتے ہیں) یوقذھا فتموت اور متردیہ پہاڑ سے گر کر مر جانے والے کو اور نطیحہ وہ ہے جس کو بکری اپنے سینگوں سے مارے، اگر تو اس کو دم ہلاتا ہوا یا آنکھ پھڑکاتا ہوا پائے تو اسے ذبح کرکے کھالے
5475
اللہ تعالیٰ کا قول کہ دریا کا شکار تمہارے لئے حلال ہے اور حضرت عمر نے فرمایا کہ صید سے مراد وہ ہے جو جال سے شکار کیا جائے اور طعام سے مراد وہ ہے جس کو دریا پھینک دے، حضرت ابوبکر ؓ نے فرمایا کہ طافی (دریا میں خود مر کر تیرنے والا) حلال ہے، اور ابن عباس نے فرمایا کہ طعام سے مراد دریا میں مرا ہوا جانور ہے مگر وہ جو تجھے مکروہ معلوم ہو اور جریث کو یہودی نہیں کھاتے، لیکن ہم کھاتے ہیں، آپ ﷺ کے صحابی شریح نے فرمایا کہ دریا کی تمام چیزیں مذبوح کے حکم میں ہیں، عطاء نے کہا کہ پرندے (جو پانی پر اترتے ہیں) کا ذبح کرنا میں مناسب سمجھتا ہوں اور ابن جریج نے کہا کہ میں نے عطاء سے نہروں اور پہاڑوں کی چوٹیوں پر جو پانی جمع ہوگیا، اسے کے شکار کے متعلق پوچھا کہ کیا یہ بھی دریائی شکار کے حکم میں ہے، انہوں نے کہا ہاں ! پھر یہ آیت تلاوت کی ھذا عذب فرات سائغ شرابہ وھذا ملح اجاج ومن کل تأکلون لحما طریا، اور حسن ؓ دریائی کتوں کی کھال سے بنی ہوئی زین پر سوار ہوتے تھے اور شعبی نے کہا کہ اگر میرے گھر کے لوگ مینڈک کھاتے تو میں ان کو کھلا دیتا ، اور حسن بصری نے کچھوے میں کچھ حرج نہیں سمجھا اور ابن عباس ؓ نے فرمایا کہ دریا کا شکار کھاؤ، اگرچہ اس کو یہودی، نصری یا مجوسی نے شکار کیا ہو، ابوالدرداء نے مری کے متعلق فرمایا کہ دھوپ اور مچھلیوں نے شراب کو ذبح کردیا (حلال کردیا ہے)
5493
اللہ تعالیٰ کا قول کہ دریا کا شکار تمہارے لئے حلال ہے اور حضرت عمر نے فرمایا کہ صید سے مراد وہ ہے جو جال سے شکار کیا جائے اور طعام سے مراد وہ ہے جس کو دریا پھینک دے، حضرت ابوبکر ؓ نے فرمایا کہ طافی (دریا میں خود مر کر تیرنے والا) حلال ہے، اور ابن عباس نے فرمایا کہ طعام سے مراد دریا میں مرا ہوا جانور ہے مگر وہ جو تجھے مکروہ معلوم ہو اور جریث کو یہودی نہیں کھاتے، لیکن ہم کھاتے ہیں، آپ ﷺ کے صحابی شریح نے فرمایا کہ دریا کی تمام چیزیں مذبوح کے حکم میں ہیں، عطاء نے کہا کہ پرندے (جو پانی پر اترتے ہیں) کا ذبح کرنا میں مناسب سمجھتا ہوں اور ابن جریج نے کہا کہ میں نے عطاء سے نہروں اور پہاڑوں کی چوٹیوں پر جو پانی جمع ہوگیا، اسے کے شکار کے متعلق پوچھا کہ کیا یہ بھی دریائی شکار کے حکم میں ہے، انہوں نے کہا ہاں ! پھر یہ آیت تلاوت کی ھذا عذب فرات سائغ شرابہ وھذا ملح اجاج ومن کل تائکلون لحما طریا، اور حسن ؓ دریائی کتوں کی کھال سے بنی ہوئی زین پر سوار ہوتے تھے اور شعبی نے کہا کہ اگر میرے گھر کے لوگ مینڈک کھاتے تو میں ان کو کھلا دیتا ، اور حسن بصری نے کچھوے میں کچھ حرج نہیں سمجھا اور ابن عباس ؓ نے فرمایا کہ دریا کا شکار کھاؤ، اگرچہ اس کو یہودی، نصری یا مجوسی نے شکار کیا ہو، ابوالدرداء نے مری کے متعلق فرمایا کہ دھوپ اور مچھلیوں نے شراب کو ذبح کردیا (حلال کردیا ہے)
5494
نحر اور ذبح کا بیان اور ابن جریج نے عطاء کا قول نقل کیا ہے کہ ذبح (حلق پر چھری پھیرنا) اور نحر (سینے پر برچھا مارنا) حلق کی جگہ اور نحر کی جگہ پر ہی ہوتا ہے، میں نے پوچھا کہ اگر ذبح ہونے والے جانور کو نحر کرودں تو کیا یہ جائز ہے، انہوں نے کہا ہاں، اللہ تعالیٰ نے گائے کا ذبح کرنا بیان کیا، اگر نحر کیے جانے والے جانور کو ذبح کردیا تو جائز ہے، اور نحر میرے نزدیک زیادہ پسندیدہ ہے، اور ذبح رگوں کا کاٹنا ہے، میں نے پوچھا کیا رگیں پیچھے چھوڑ دی جائیں، یہاں حرام مغز کاٹ دیا جائے، انہوں نے فرمایا میں اسے ٹھیک نہیں سمجھتا، اور نافع نے مجھ سے بیان کیا کہ ابن عمر نے حرام مغز کاٹنے سے منع فرمایا ہے، وہ کہتے تھے کہ ہڈی تک پہنچا کر چھوڑ دیں، یہاں تک مرجائے، اور اللہ تعالیٰ کا قول کہ جب موسیٰ (علیہ السلام) نے اپنی قوم سے کہا کہ اللہ تعالیٰ تمہیں حکم دیتا ہے کہ گائے ذبح کرو اور بیان کیا کہ ان لوگوں نے اس کو ذبح کیا اور وہ ایسا کرنے والے نہیں تھے، اور سعید نے ابن عباس ؓ سے نقل کیا کہ ذبح حلق اور لبہ (دونوں) میں ہوجاتا ہے، حضرت ابن عمر، ابن عباس اور انس نے فرمایا کہ اگر سرکٹ جائے تو کوئی حرج نہیں
5510
نحر اور ذبح کا بیان اور ابن جریج نے عطاء کا قول نقل کیا ہے کہ ذبح (حلق پر چھری پھیرنا) اور نحر (سینے پر برچھا مارنا) حلق کی جگہ اور نحر کی جگہ پر ہی ہوتا ہے، میں نے پوچھا کہ اگر ذبح ہونے والے جانور کو نحر کرودں تو کیا یہ جائز ہے، انہوں نے کہا ہاں، اللہ تعالیٰ نے گائے کا ذبح کرنا بیان کیا، اگر نحر کیے جانے والے جانور کو ذبح کردیا تو جائز ہے، اور نحر میرے نزدیک زیادہ پسندیدہ ہے، اور ذبح رگوں کا کاٹنا ہے، میں نے پوچھا کیا رگیں پیچھے چھوڑ دی جائیں، یہاں حرام مغز کاٹ دیا جائے، انہوں نے فرمایا میں اسے ٹھیک نہیں سمجھتا، اور نافع نے مجھ سے بیان کیا کہ ابن عمر نے حرام مغز کاٹنے سے منع فرمایا ہے، وہ کہتے تھے کہ ہڈی تک پہنچا کر چھوڑ دیں، یہاں تک مرجائے، اور اللہ تعالیٰ کا قول کہ جب موسیٰ (علیہ السلام) نے اپنی قوم سے کہا کہ اللہ تعالیٰ تمہیں حکم دیتا ہے کہ گائے ذبح کرو اور بیان کیا کہ ان لوگوں نے اس کو ذبح کیا اور وہ ایسا کرنے والے نہیں تھے، اور سعید نے ابن عباس ؓ سے نقل کیا کہ ذبح حلق اور لبہ (دونوں) میں ہوجاتا ہے، حضرت ابن عمر، ابن عباس اور انس نے فرمایا کہ اگر سرکٹ جائے تو کوئی حرج نہیں
5511
نحر اور ذبح کا بیان اور ابن جریج نے عطاء کا قول نقل کیا ہے کہ ذبح (حلق پر چھری پھیرنا) اور نحر (سینے پر برچھا مارنا) حلق کی جگہ اور نحر کی جگہ پر ہی ہوتا ہے، میں نے پوچھا کہ اگر ذبح ہونے والے جانور کو نحر کرودں تو کیا یہ جائز ہے، انہوں نے کہا ہاں، اللہ تعالیٰ نے گائے کا ذبح کرنا بیان کیا، اگر نحر کیے جانے والے جانور کو ذبح کردیا تو جائز ہے، اور نحر میرے نزدیک زیادہ پسندیدہ ہے، اور ذبح رگوں کا کاٹنا ہے، میں نے پوچھا کیا رگیں پیچھے چھوڑ دی جائیں، یہاں حرام مغز کاٹ دیا جائے، انہوں نے فرمایا میں اسے ٹھیک نہیں سمجھتا، اور نافع نے مجھ سے بیان کیا کہ ابن عمر نے حرام مغز کاٹنے سے منع فرمایا ہے، وہ کہتے تھے کہ ہڈی تک پہنچا کر چھوڑ دیں، یہاں تک مرجائے، اور اللہ تعالیٰ کا قول کہ جب موسیٰ (علیہ السلام) نے اپنی قوم سے کہا کہ اللہ تعالیٰ تمہیں حکم دیتا ہے کہ گائے ذبح کرو اور بیان کیا کہ ان لوگوں نے اس کو ذبح کیا اور وہ ایسا کرنے والے نہیں تھے، اور سعید نے ابن عباس ؓ سے نقل کیا کہ ذبح حلق اور لبہ (دونوں) میں ہوجاتا ہے، حضرت ابن عمر، ابن عباس اور انس نے فرمایا کہ اگر سرکٹ جائے تو کوئی حرج نہیں
5512
Top