صحيح البخاری
باب: طلاق کا بیان
زبردستی، نشہ اور جنون کی حالت میں طلاق دینے اور غلطی اور بھول کر طلاق دینے اور شرک وغیرہ کا بیان (اسکا حکم نیت پر ہے) اس لئے کہ آنحضرت ﷺ نے فرمایا کہ اعمال کا مدار نیت پر ہے اور ہر آدمی کو وہی ملے گا جس کی نیت کی ہو۔ شعبی نے یہ آیت تلاوت کی کہ اگر ہم بھول جائیں یا غلطی کریں تو ہمارا مواخذہ نہ کر اور اس امر کا بیان کہ وہمی شخص کا اقرار جائز نہیں اور آنحضرت ﷺ نے اس آدمی کو جس نے (زناکا) اقرار کیا تھا فرمایا کہ کیا تو دیوانہ ہوگیا ہے اور علی ؓ نے بیان کیا کہ حمزہ ؓ نے میری اونٹنیوں کے پہلو چیردئیے، آنحضرت ﷺ حمزہ کو ملامت کرنے لگے دیکھا کہ حمزہ ؓ کی آنکھیں سرخ ہیں اور نشہ میں چور ہیں، پھر حمزہ نے کہا کیا تم میرے باپ کے غلام نہیں ہو، آنحضرت ﷺ کو معلوم ہوا کہ وہ نشہ میں ہیں تو آپ وہاں سے روانہ ہوگئے اور ہم بھی آپ ﷺ کے ساتھ چل دئیے۔ عثمان ؓ نے کہا کہ مجنون اور مست کی طلاق نہیں ہوگی، ابن عباس نے کہا مست اور مجبور کی طلاق نہیں ہوتی اور عقبہ بن عامرنے کہا وہمی آدمی کی طلاق نہیں ہوتی، عطاء کا قول ہے اگر طلاق کے لفظ سے ابتدا کرے (اور اسکے بعد شرط بیان کرے) تو وقوع شرط کے بعد ہی طلاق ہوگی، نافع نے پوچھا کہ ایک شخص نے اپنی بیوی کو طلاق بتہ دی، اس شرط پر کہ وہ گھر سے باہر نکلے (تواسکا کیا حکم ہے) ابن عمر ؓ نے جواب دیا کہ اگر وہ عورت گھر سے باہر نکل گئی تو اس کو طلاق بتہ ہوجائے گی اگر باہر نہ نکلی تو کچھ بھی نہیں اور زہری نے کہا اگر کوئی شخص کہے کہ اگر میں ایسا ایسا نہ کروں تو میری بیوی کو تین طلاق ہے (اس صورت میں) اس سے پوچھا جائے گا کہ اس قول سے قائل کی نیت کیا تھی، اگر وہ کوئی مدت بیان کردے کہ قسم کھاتے وقت دل میں اسکی نیت یہ تھی تو دینداری اور امانت کی وجہ سے اسکا اعتبار کیا جائے گا۔ ابراہیم نے کہا اگر کوئی شخص اپنی بیوی سے کہے کہ مجھے تیری ضرورت نہیں تو اسکی نیت کا اعتبار ہوگا اور ہر قوم کی طلاق انکی زبان میں جائز ہے اگر کوئی شخص اپنی بیوی سے کہے کہ اگر تو حاملہ ہوجائے تو تجھ کو تین طلاق ہے، اس صورت میں قتادہ نے کہا اس کو ہر طہر میں ایک طلاق پڑے گی اور جب اسکا حمل ظاہر ہوجائے تو وہ اس سے جدا ہوجائے گی، اور اگر کوئی شخص اپنی بیوی سے کہے کہ اپنے گھروالوں کے پاس چلی جاتوحسن نے اس صورت میں کہا کہ اس کی نیت کا اعتبار کیا جائے گا، اور ابن عباس ؓ نے کہا کہ طلاق بوقت ضرورت جائز ہے اور آزاد کرنا اسی صورت میں بہتر ہے جب کہ اللہ کی خوشنودی پیش نظر ہو۔ زہری کہتے ہیں کہ اگر کوئی شخص اپنی بیوی سے کہے تو میری بیوی نہیں ہے تو اسکی نیت کا اعتبار ہوگا، اگر اس نے طلاق کی نیت کی ہے تو طلاق ہوگی ورنہ طلاق نہ ہوگی، حضرت علی ؓ نے فرمایا کیا تم نہیں جانتے کہ تین قسم کے آدمی مرفوع القلم ہیں، مجنون جب تک کہ وہ ہوش میں نہ آجائے، بچہ جب تک کہ بالغ نہ ہوجائے اور سونے والاجب تک کہ نیند سے بیدار نہ ہوجائے اور حضرت علی نے کہا کہ تمام طلاقیں سوا مجنون کی طلاق کے جائز ہیں
5269
زبردستی، نشہ اور جنون کی حالت میں طلاق دینے اور غلطی اور بھول کر طلاق دینے اور شرک وغیرہ کا بیان (اسکا حکم نیت پر ہے) اس لئے کہ آنحضرت ﷺ نے فرمایا کہ اعمال کا مدار نیت پر ہے اور ہر آدمی کو وہی ملے گا جس کی نیت کی ہو۔ شعبی نے یہ آیت تلاوت کی کہ اگر ہم بھول جائیں یا غلطی کریں تو ہمارا مواخذہ نہ کر اور اس امر کا بیان کہ وہمی شخص کا اقرار جائز نہیں اور آنحضرت ﷺ نے اس آدمی کو جس نے (زناکا) اقرار کیا تھا فرمایا کہ کیا تو دیوانہ ہوگیا ہے اور علی ؓ نے بیان کیا کہ حمزہ ؓ نے میری اونٹنیوں کے پہلوچیردئیے، آنحضرت ﷺ حمزہ کو ملامت کرنے لگے دیکھا کہ حمزہ ؓ کی آنکھیں سرخ ہیں اور نشہ میں چور ہیں، پھر حمزہ نے کہا کیا تم میرے باپ کے غلام نہیں ہو، آنحضرت ﷺ کو معلوم ہوا کہ وہ نشہ میں ہیں تو آپ وہاں سے روانہ ہوگئے اور ہم بھی آپ ﷺ کے ساتھ چل دئیے۔ عثمان ؓ نے کہا کہ مجنون اور مست کی () طلاق نہیں ہوگی، ابن عباس نے کہا مست اور مجبور کی طلاق نہیں ہوتی اور عقبہ بن عامرنے کہا وہمی آدمی کی طلاق نہیں ہوتی، عطاء کا قول ہے اگر طلاق کے لفظ سے ابتدا کرے (اور اسکے بعد شرط بیان کرے) تو وقوع شرط کے بعد ہی طلاق ہوگی، نافع نے پوچھا کہ ایک شخص نے اپنی بیوی کو طلاق بتہ دی، اس شرط پر کہ وہ گھر سے باہر نکلے (تواسکا کیا حکم ہے) ابن عمر ؓ نے جواب دیا کہ اگر وہ عورت گھر سے باہر نکل گئی تو اس کو طلاق بتہ ہوجائے گی اگر باہر نہ نکلی تو کچھ بھی نہیں اور زہری نے کہا اگر کوئی شخص کہے کہ اگر میں ایسا ایسا نہ کروں تو میری بیوی کو تین طلاق ہے (اس صورت میں) اس سے پوچھا جائے گا کہ اس قول سے قائل کی نیت کیا تھی، اگر وہ کوئی مدت بیان کردے کہ قسم کھاتے وقت دل میں اسکی نیت یہ تھی تو دینداری اور امانت کی وجہ سے اسکا اعتبار کیا جائے گا۔ ابراہیم نے کہا اگر کوئی شخص اپنی بیوی سے کہے کہ مجھے تیری ضرورت نہیں تو اسکی نیت کا اعتبار ہوگا اور ہر قوم کی طلاق انکی زبان میں جائز ہے اگر کوئی شخص اپنی بیوی سے کہے کہ اگر تو حاملہ ہوجائے تو تجھ کو تین طلاق ہے، اس صورت میں قتادہ نے کہا اس کو ہر طہر میں ایک طلاق پڑے گی اور جب اسکا حمل ظاہر ہوجائے تو وہ اس سے جدا ہوجائے گی، اور اگر کوئی شخص اپنی بیوی سے کہے کہ اپنے گھروالوں کے پاس چلی جاتوحسن نے اس صورت میں کہا کہ اس کی نیت کا اعتبار کیا جائے گا، اور ابن عباس ؓ نے کہا کہ طلاق بوقت ضرورت جائز ہے اور آزاد کرنا اسی صورت میں بہتر ہے جب کہ اللہ کی خوشنودی پیش نظر ہو۔ زہری کہتے ہیں کہ اگر کوئی شخص اپنی بیوی سے کہے تو میری بیوی نہیں ہے تو اسکی نیت کا اعتبار ہوگا، اگر اس نے طلاق کی نیت کی ہے تو طلاق ہوگی ورنہ طلاق نہ ہوگی، حضرت علی ؓ نے فرمایا کیا تم نہیں جانتے کہ تین قسم کے آدمی مرفوع القلم ہیں، مجنون جب تک کہ وہ ہوش میں نہ آجائے، بچہ جب تک کہ بالغ نہ ہوجائے اور سونے والا جب تک کہ نیند سے بیدار نہ ہوجائے اور حضرت علی نے کہا کہ تمام طلاقیں سوا مجنون کی طلاق کے جائز ہیں
5270
زبردستی، نشہ اور جنون کی حالت میں طلاق دینے اور غلطی اور بھول کر طلاق دینے اور شرک وغیرہ کا بیان (اسکا حکم نیت پر ہے) اس لئے کہ آنحضرت ﷺ نے فرمایا کہ اعمال کا مدار نیت پر ہے اور ہر آدمی کو وہی ملے گا جس کی نیت کی ہو۔ شعبی نے یہ آیت تلاوت کی کہ اگر ہم بھول جائیں یا غلطی کریں تو ہمارا مواخذہ نہ کر اور اس امر کا بیان کہ وہمی شخص کا اقرار جائز نہیں اور آنحضرت ﷺ نے اس آدمی کو جس نے (زناکا) اقرار کیا تھا فرمایا کہ کیا تو دیوانہ ہوگیا ہے اور علی ؓ نے بیان کیا کہ حمزہ ؓ نے میری اونٹنیوں کے پہلوچیردئیے، آنحضرت ﷺ حمزہ کو ملامت کرنے لگے دیکھا کہ حمزہ ؓ کی آنکھیں سرخ ہیں اور نشہ میں چور ہیں، پھر حمزہ نے کہا کیا تم میرے باپ کے غلام نہیں ہو، آنحضرت ﷺ کو معلوم ہوا کہ وہ نشہ میں ہیں تو آپ وہاں سے روانہ ہوگئے اور ہم بھی آپ ﷺ کے ساتھ چل دئیے۔ عثمان ؓ نے کہا کہ مجنون اور مست کی () طلاق نہیں ہوگی، ابن عباس نے کہا مست اور مجبور کی طلاق نہیں ہوتی اور عقبہ بن عامرنے کہا وہمی آدمی کی طلاق نہیں ہوتی، عطاء کا قول ہے اگر طلاق کے لفظ سے ابتدا کرے ( اور اسکے بعد شرط بیان کرے) تو وقوع شرط کے بعد ہی طلاق ہوگی، نافع نے پوچھا کہ ایک شخص نے اپنی بیوی کو طلاق بتہ دی، اس شرط پر کہ وہ گھر سے باہر نکلے (تواسکا کیا حکم ہے) ابن عمر ؓ نے جواب دیا کہ اگر وہ عورت گھر سے باہر نکل گئی تو اس کو طلاق بتہ ہوجائے گی اگر باہر نہ نکلی تو کچھ بھی نہیں اور زہری نے کہا اگر کوئی شخص کہے کہ اگر میں ایسا ایسا نہ کروں تو میری بیوی کو تین طلاق ہے (اس صورت میں) اس سے پوچھا جائے گا کہ اس قول سے قائل کی نیت کیا تھی، اگر وہ کوئی مدت بیان کردے کہ قسم کھاتے وقت دل میں اسکی نیت یہ تھی تو دینداری اور امانت کی وجہ سے اسکا اعتبار کیا جائے گا۔ ابراہیم نے کہا اگر کوئی شخص اپنی بیوی سے کہے کہ مجھے تیری ضرورت نہیں تو اسکی نیت کا اعتبار ہوگا اور ہر قوم کی طلاق انکی زبان میں جائز ہے اگر کوئی شخص اپنی بیوی سے کہے کہ اگر تو حاملہ ہوجائے تو تجھ کو تین طلاق ہے، اس صورت میں قتادہ نے کہا اس کو ہر طہر میں ایک طلاق پڑے گی اور جب اسکا حمل ظاہر ہوجائے تو وہ اس سے جدا ہوجائے گی، اور اگر کوئی شخص اپنی بیوی سے کہے کہ اپنے گھروالوں کے پاس چلی جاتوحسن نے اس صورت میں کہا کہ اس کی نیت کا اعتبار کیا جائے گا، اور ابن عباس ؓ نے کہا کہ طلاق بوقت ضرورت جائز ہے اور آزاد کرنا اسی صورت میں بہتر ہے جب کہ اللہ کی خوشنودی پیش نظر ہو۔ زہری کہتے ہیں کہ اگر کوئی شخص اپنی بیوی سے کہے تو میری بیوی نہیں ہے تو اسکی نیت کا اعتبار ہوگا، اگر اس نے طلاق کی نیت کی ہے تو طلاق ہوگی ورنہ طلاق نہ ہوگی، حضرت علی ؓ نے فرمایا کیا تم نہیں جانتے کہ تین قسم کے آدمی مرفوع القلم ہیں، مجنون جب تک کہ وہ ہوش میں نہ آجائے، بچہ جب تک کہ بالغ نہ ہوجائے اور سونے والا جب تک کہ نیند سے بیدار نہ ہوجائے اور حضرت علی نے کہا کہ تمام طلاقیں سوا مجنون کی طلاق کے جائز ہیں
5271
مشرک یا نصرانی عورت، ذمی یاحربی کے نکاح میں ہو اور وہ مسلمان ہوجائے، عبد الوارث نے بواسطہ خالد، عکرمہ، ابن عباس ؓ کا قول نقل کیا ہے کہ جو عورت اپنے شوہر سے ایک گھنٹہ پہلے مسلمان ہوجائے تو وہ اس پر حرام ہے، اور داؤد نے ابراہیم صائغ سے نقل کیا ہے کہ عطاء سے معاہد کی بیوی کے متعلق دریافت کیا گیا جو مسلمان ہوجائے تو کیا وہ اس کی بیوی رہی یا نہیں، انہوں نے کہا کہ نہیں، مگر یہ کہ وہ عورت چاہے تو جدید نکاح اور مہر کے عوض (اس کے پاس رہ سکتی ہے) اور مجاہد نے کہا کہ اگر وہ بیوی کی عدت میں مسلمان ہوجائے تو اس سے نکاح کرلے، اور اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ نہ وہ عورتیں ان مردوں کے حلال ہیں اور نہ وہ مرد ان عورتوں کے لئے حلال ہیں، اور حسن وقتادہ نے مجوسیوں کے متعلق کہا کہ اگر وہ دونوں مسلمان ہوجائیں تو وہ دونوں اپنے نکاح پر قائم رہیں گے، اور اگر ان دونوں میں سے کوئی پہلے مسلمان ہوجائے اور دوسرے نے انکار کیا تو وہ عورت بائنہ ہوجائے گی، شوہر کو اس پر کوئی حق نہیں، اور ابن جریج کا بیان ہے کہ میں نے عطاء سے پوچھا کہ اگر مشرکین میں سے کوئی عورت مسلمانوں کے پاس آجائے تو کیا اس کے شوہر کو معاوضہ دلایاجائے گا، اس لئے کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ان کو دے دو جو کچھ ان لوگوں نے خرچ کیا ہے، عطاء نے کہا نہیں یہ تو صرف نبی ﷺ اور معاہدین کے درمیان تھا، مجاہد کہتے ہیں کہ یہ ساری باتیں اس صلح میں تھیں جو آپ ﷺ اور قریش کے درمیان ہوئی تھی
5288
لعان کرنے کا بیان اور اللہ تعالیٰ کا قول والذین یرمون ازواجھم ولم یکن لھم شھداء الا انفسھم آخر آیت الصادقین تک (کہ جو لوگ اپنی بیویوں پر تہمت لگاتے ہیں، ان کے پاس ان کی ذات کے علاوہ کوئی گواہ نہ ہو تو الخ) اگر گونگا اپنی بیوی پر لکھ کر یا اشارے سے یا کسی خاص اشارے سے تہمت لگائے تو وہ گفتگو کرنے والے کی طرح ہے، اس لئے کہ نبی ﷺ نے فرائض میں اشارہ کو جائز کہا ہے اور بعض اہل حجاز اور اہل علم کا یہی مذھب ہے، اور اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ حضرت مریم علیہا السلام نے اس کی طرف اشارہ کیا تو ان لوگوں نے کہا کہ ہم اس بچے سے کیسے گفتگو کرسکتے ہیں، جو ابھی جھولے ہی میں ہو، اور ضحاک کہتے ہیں کہ الارمزا سے مراد اشارہ ہے، بعض لوگوں نے کہا کہ اس صورت میں نہ حد ہے نہ لعان ہے پھر کہا کہ لکھ کر یا کسی خاص اشارے سے طلاق دینا جائز ہے، حالانکہ طلاق اور قذف کے درمیان کوئی فرق نہیں، اگر کوئی شخص کہے کہ قذف تو صرف بولنے کے ساتھ ہوتی ہے تو اس کا جواب یہ ہے کہ اس طرح طلاق بھی بولنے کے ذریعہ واقع ہوتی ہے، ورنہ طلاق اور قذف باطل ہوجائے گا، اس طرح بہرے کا لعان کرنا جائز ہے، شعبی اور قتادہ نے کہا کہ اگر کوئی شخص کہے کہ تجھے طلاق ہے اور اپنی انگلیوں سے اشارہ کرے تو عورت بائن ہوجائے گی اور حماد نے کہا کہ گونگا اور بہرا اپنے سر سے اشارہ کردے تو جائز ہے، یعنی طلاق وغیرہ ہر چیز ثابت ہوجائے گی
5300
لعان کرنے کا بیان اور اللہ تعالیٰ کا قول والذین یرمون ازواجھم ولم یکن لھم شھداء الا انفسھم آخر آیت الصادقین تک (کہ جو لوگ اپنی بیویوں پر تہمت لگاتے ہیں، ان کے پاس ان کی ذات کے علاوہ کوئی گواہ نہ ہو تو الخ) اگر گونگا اپنی بیوی پر لکھ کر یا اشارے سے یا کسی خاص اشارے سے تہمت لگائے تو وہ گفتگو کرنے والے کی طرح ہے، اس لئے کہ نبی ﷺ نے فرائض میں اشارہ کو جائز کہا ہے اور بعض اہل حجاز اور اہل علم کا یہی مذھب ہے، اور اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ حضرت مریم علیہا السلام نے اس کی طرف اشارہ کیا تو ان لوگوں نے کہا کہ ہم اس بچے سے کیسے گفتگو کرسکتے ہیں، جو ابھی جھولے ہی میں ہو، اور ضحاک کہتے ہیں کہ الارمزا سے مراد اشارہ ہے، بعض لوگوں نے کہا کہ اس صورت میں نہ حد ہے نہ لعان ہے پھر کہا کہ لکھ کر یا کسی خاص اشارے سے طلاق دینا جائز ہے، حالانکہ طلاق اور قذف کے درمیان کوئی فرق نہیں، اگر کوئی شخص کہے کہ قذف تو صرف بولنے کے ساتھ ہوتی ہے تو اس کا جواب یہ ہے کہ اس طرح طلاق بھی بولنے کے ذریعہ واقع ہوتی ہے، ورنہ طلاق اور قذف باطل ہوجائے گا، اس طرح بہرے کا لعان کرنا جائز ہے، شعبی اور قتادہ نے کہا کہ اگر کوئی شخص کہے کہ تجھے طلاق ہے اور اپنی انگلیوں سے اشارہ کرے تو عورت بائن ہوجائے گی اور حماد نے کہا کہ گونگا اور بہرا اپنے سر سے اشارہ کردے تو جائز ہے، یعنی طلاق وغیرہ ہر چیز ثابت ہوجائے گی
5301
لعان کرنے کا بیان اور اللہ تعالیٰ کا قول والذین یرمون ازواجھم ولم یکن لھم شھداء الا انفسھم آخر آیت الصادقین تک (کہ جو لوگ اپنی بیویوں پر تہمت لگاتے ہیں، ان کے پاس ان کی ذات کے علاوہ کوئی گواہ نہ ہو تو الخ) اگر گونگا اپنی بیوی پر لکھ کر یا اشارے سے یا کسی خاص اشارے سے تہمت لگائے تو وہ گفتگو کرنے والے کی طرح ہے، اس لئے کہ نبی ﷺ نے فرائض میں اشارہ کو جائز کہا ہے اور بعض اہل حجاز اور اہل علم کا یہی مذھب ہے، اور اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ حضرت مریم علیہا السلام نے اس کی طرف اشارہ کیا تو ان لوگوں نے کہا کہ ہم اس بچے سے کیسے گفتگو کرسکتے ہیں، جو ابھی جھولے ہی میں ہو، اور ضحاک کہتے ہیں کہ الارمزا سے مراد اشارہ ہے، بعض لوگوں نے کہا کہ اس صورت میں نہ حد ہے نہ لعان ہے پھر کہا کہ لکھ کر یا کسی خاص اشارے سے طلاق دینا جائز ہے، حالانکہ طلاق اور قذف کے درمیان کوئی فرق نہیں، اگر کوئی شخص کہے کہ قذف تو صرف بولنے کے ساتھ ہوتی ہے تو اس کا جواب یہ ہے کہ اس طرح طلاق بھی بولنے کے ذریعہ واقع ہوتی ہے، ورنہ طلاق اور قذف باطل ہوجائے گا، اس طرح بہرے کا لعان کرنا جائز ہے، شعبی اور قتادہ نے کہا کہ اگر کوئی شخص کہے کہ تجھے طلاق ہے اور اپنی انگلیوں سے اشارہ کرے تو عورت بائن ہوجائے گی اور حماد نے کہا کہ گونگا اور بہرا اپنے سر سے اشارہ کردے تو جائز ہے، یعنی طلاق وغیرہ ہر چیز ثابت ہوجائے گی
5302
لعان کرنے کا بیان اور اللہ تعالیٰ کا قول والذین یرمون ازواجھم ولم یکن لھم شھداء الا انفسھم آخر آیت الصادقین تک (کہ جو لوگ اپنی بیویوں پر تہمت لگاتے ہیں، ان کے پاس ان کی ذات کے علاوہ کوئی گواہ نہ ہو تو الخ) اگر گونگا اپنی بیوی پر لکھ کر یا اشارے سے یا کسی خاص اشارے سے تہمت لگائے تو وہ گفتگو کرنے والے کی طرح ہے، اس لئے کہ نبی ﷺ نے فرائض میں اشارہ کو جائز کہا ہے اور بعض اہل حجاز اور اہل علم کا یہی مذھب ہے، اور اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ حضرت مریم علیہا السلام نے اس کی طرف اشارہ کیا تو ان لوگوں نے کہا کہ ہم اس بچے سے کیسے گفتگو کرسکتے ہیں، جو ابھی جھولے ہی میں ہو، اور ضحاک کہتے ہیں کہ الارمزا سے مراد اشارہ ہے، بعض لوگوں نے کہا کہ اس صورت میں نہ حد ہے نہ لعان ہے پھر کہا کہ لکھ کر یا کسی خاص اشارے سے طلاق دینا جائز ہے، حالانکہ طلاق اور قذف کے درمیان کوئی فرق نہیں، اگر کوئی شخص کہے کہ قذف تو صرف بولنے کے ساتھ ہوتی ہے تو اس کا جواب یہ ہے کہ اس طرح طلاق بھی بولنے کے ذریعہ واقع ہوتی ہے، ورنہ طلاق اور قذف باطل ہوجائے گا، اس طرح بہرے کا لعان کرنا جائز ہے، شعبی اور قتادہ نے کہا کہ اگر کوئی شخص کہے کہ تجھے طلاق ہے اور اپنی انگلیوں سے اشارہ کرے تو عورت بائن ہوجائے گی اور حماد نے کہا کہ گونگا اور بہرا اپنے سر سے اشارہ کردے تو جائز ہے، یعنی طلاق وغیرہ ہر چیز ثابت ہوجائے گی
5303
لعان کرنے کا بیان اور اللہ تعالیٰ کا قول والذین یرمون ازواجھم ولم یکن لھم شھداء الا انفسھم آخر آیت الصادقین تک (کہ جو لوگ اپنی بیویوں پر تہمت لگاتے ہیں، ان کے پاس ان کی ذات کے علاوہ کوئی گواہ نہ ہو تو الخ) اگر گونگا اپنی بیوی پر لکھ کر یا اشارے سے یا کسی خاص اشارے سے تہمت لگائے تو وہ گفتگو کرنے والے کی طرح ہے، اس لئے کہ نبی ﷺ نے فرائض میں اشارہ کو جائز کہا ہے اور بعض اہل حجاز اور اہل علم کا یہی مذھب ہے، اور اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ حضرت مریم علیہا السلام نے اس کی طرف اشارہ کیا تو ان لوگوں نے کہا کہ ہم اس بچے سے کیسے گفتگو کرسکتے ہیں، جو ابھی جھولے ہی میں ہو، اور ضحاک کہتے ہیں کہ الارمزا سے مراد اشارہ ہے، بعض لوگوں نے کہا کہ اس صورت میں نہ حد ہے نہ لعان ہے پھر کہا کہ لکھ کر یا کسی خاص اشارے سے طلاق دینا جائز ہے، حالانکہ طلاق اور قذف کے درمیان کوئی فرق نہیں، اگر کوئی شخص کہے کہ قذف تو صرف بولنے کے ساتھ ہوتی ہے تو اس کا جواب یہ ہے کہ اس طرح طلاق بھی بولنے کے ذریعہ واقع ہوتی ہے، ورنہ طلاق اور قذف باطل ہوجائے گا، اس طرح بہرے کا لعان کرنا جائز ہے، شعبی اور قتادہ نے کہا کہ اگر کوئی شخص کہے کہ تجھے طلاق ہے اور اپنی انگلیوں سے اشارہ کرے تو عورت بائن ہوجائے گی اور حماد نے کہا کہ گونگا اور بہرا اپنے سر سے اشارہ کردے تو جائز ہے، یعنی طلاق وغیرہ ہر چیز ثابت ہوجائے گی
5304
Top