تعارف
سورت نمبر 24
کل رکوع 9
آیات 64
الفاظ و کلمات 1420
حروف 6410
پردے کے احکام قرآن کریم کی دوسورتوں میں آئے ہیں سورة النور اور سورة الاحزاب میں بیشمار حدیثوں میں پردے کے احکامات دیئے گئے ہیں۔ بےپردگی اور بےحیائی کے کسی انداز کو اللہ اور اس کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے پسند نہیں فرمایا۔
اللہ تعالیٰ نے سورة النور میں آیات کو صاف صاف نازل فرما کر اس کے الفاظ اور احکام دونوں کو خود مقرر فرمایا ہے تاکہ ہر شخص اچھی طرح سمجھ لے اور اس پر عمل کرے۔
اس سورة میں جن احکام کو نازل فرمایا ہے ان کا خلاصہ یہ ہے۔
(١) اگر (غیر شادی شدہ) مرد یا عورت جو کہ عاقل و بالغ اور آزاد ہوں اور زنا کے مرتکب ہوں تو ان میں سے ہر ایک کو سو سو کوڑے مارے جائیں۔
(٢) زانیہ اور مشرکہ عورتوں سے مسلمانوں کو نکاح نہ کرنے کا حکم دیا گیا ہے۔
(٣) اگر کوئی شخص کسی پاک دامن عورت پر زنا کی تہمت لگائے اور اس پر چار گواہ بطور ثبوت پیش نہ کرسکے تو اس شخص کو (تہمت لگانے کے جرم میں) ٨٠ کوڑے مارے جائیں۔
(٤) اگر شوہر اپنی بیوی پر یا بیوی اپنے شوہر پر زنا کی تہمت لگائے اور اس کے پاس اپنے سوا اپنے دعوے کے ثبوت میں کوئی گواہ نہ ہو تو وہ چار مرتبہ قسم کھائے گا جس میں وہ یہ کہے گا کہ میں اپنے دعوے میں سچا ہوں اور پانچویں مرتبہ قسم کھا کر یہ کہے گا کہ اگر میں اس دعوے میں جھوٹا ہوں تو مجھ پر اللہ کی لعنت ہو۔ اسی طرح اگر اس کی بیوی اس الزام کو قبول نہیں کرتی تو وہ بھی چار قسم کھانے کے بعد پانچویں قسم میں کہے گی کہ اگر میں جھوٹی ہوں تو مجھ پر اللہ کی لعنت ہو اور اگر یہ مرد اپنے دعوے میں سچا ہے تو میرے اوپر اللہ کا غضب نازل ہو۔ اس کو شریعت میں ” لعان “ کہتے ہیں۔ اس قسم کے بعد وہ عورت اس مرد پر حرام ہوجائے گی۔
(٥) واقعہ افک کا بیان ہے۔ بعض منافقین نے ام المومنین حضرت عائشہ صدیقہ (رض) پر تہمت لگائی تھی۔ اللہ تعالیٰ نے حضرت عائشہ (رض) کی برائت و پاکیزگی کا اعلان فرمایا اور تہمت لگانے والوں کی سزا کا حکم ارشاد فرمایا۔
(٦) جو لوگ شیطان کے پیچھے چلتے ہیں ان سے کہا گیا ہے کہ شیطان یہ چاہتا ہے کہ معاشرہ میں بےغیرتی ‘ بےحیائی اور ہر طرح کی برائیاں فروغ پائیں۔ اہل امیان کو ان سے بچنے کی تاکید کی گئی ہے۔
(٧) فرمایا کہ جو لوگ کسی نیک کام اور کار خیر میں لگے ہوئے ہوں وہ بعض احمقوں کے اعتراضات کی وجہ سے نیکی نہ کرنے کی قسمیں نہ کھا بیٹھیں۔
(٨) کوئی شخص کسی کے گھر میں اس کی رضا مندی اور اجازت کے بغیر داخل نہ ہو۔
(٩) مسلمان مردوں کو حکم دیا گیا ہے کہ وہ اپنی نگاہیں نیچی رکھا کریں اور نامحرموں پر نظریں ڈالنے سے بچیں۔
(١٠) مومن عورتوں سے بھی کہا گیا ہے کہ وہ اپنی آنکھیں نیچی رکھا کریں۔ اپنی زینت کو غیر مردوں کے سامنے ظاہر نہ ہونے دیں۔
(١١) جو مرد اور خواتین نکاح کی ذمہ داریاں سنبھالنے اور حقوق زوجیت ادا کرنے کے قابل ہوں ان کے نکاح کردیئے جائیں۔ لیکن وہ لوگ جو اپنی مفلسی اور غربت کیوجہ سے نکاح کا بوجھ اٹھانے سے مجبور ہوں وہ اس وقت تک صبر کریں جب تک اللہ تعالیٰ ان کو اس ذمہ داری کو سنبھالنے کا راستہ اور صلاحیت عطا نہ کردے۔
سورة النور میں جہاں بڑے بڑے اور اہم قوانین اور ہدایات کو بیان کیا گیا ہے وہیں اللہ تعالیٰ نے منافقین اور مومنین کی وہ علامتیں بھی بیان فرمائی ہیں جن سے یہ معلوم کرنا بہت آسان ہوگیا ہے کہ کون مومن ہے اور کون منافق ہے۔ بتایا گیا ہے کہ نجات ان ہی لوگوں کی ہے جو ایمان پر قائم ہیں لیکن منافقین اپنی منافقتوں کو بہت دیر تک نہیں چھپاسکتے اور ان کے لیے نجات کا راستہ نہیں ہے۔
اس سورت میں زانی مرد اور زانیہ عورت اگر شادی شدہ نہ ہوں تو عدالت میں ثابت ہونے کے بعد ان کو سو سو کوڑے مارنے کا حکم دیا گیا ہے۔
(١٢) لونڈیاں اور غلام اگر کچھ رقم ادا کرکے اپنے مالک سے آزاد ہونا چاہیں تو ان کی مدد کی جائے (یہاں تک کہ اگر زکوۃ کی رقم دے کر آزاد کرایا جاسکتا ہو تو غلاموں اور باندیوں کو آزاد کرانے کی کوشش کریں)
(١٣) فرمایا کہ اپنی باندیوں سے حرام کاری کا پیشہ نہ کر ائو (جیسا کہ عرب میں دستور تھا) اس کو سختی سے روکنے کی ضرورت ہے۔
(١٤) فرمایا کہ اللہ نے اس پوری کائنات کو پیدا کیا ہے اس میں ہر آن انقلاب اور تبدیلیاں آتی رہتی ہیں ‘ بادلوں کا اٹھنا ‘ بارش اور اولوں کا برسنا ‘ بجلی کا چمکنا ‘ انسانی ضروریات کے لیے چو پائے اور مویشی جانوروں کا پیدا کرنا یہ سب اس کی قدرت کے نشانات ہیں ان میں غور و فکر کرنا چاہیے تاکہ اللہ کے بندے اللہ تک پہنچ سکیں اور اس کی ذات کو پہچان سکیں۔
(١٥) فرمایا کہ ہر شخص کی ذاتی زندگی میں کسی طرح کی دخل اندازی نہ کی جائے۔ خاص طور پر کچھ اوقات ایسے ہیں جن میں آدمی آزادی سے رہنا چاہتا ہے جیسے صبح کی نماز سے پہلے ‘ دوپہر کو آرام کے وقت ‘ اور رات کو عشاء کے بعد۔ ان اوقات میں گھر کے بچے اور نو کر چا کر بھی اجازت لے کر آیا کریں۔
(١٦ ض بوڑھی اور کمزور عورتوں کے ساتھ رعایت کی جائے اللہ نے ان کے پردے کے معاملے میں بھی کچھ تخفیف کی ہے۔
(١٧) اندھے ‘ لنگڑے ‘ لولے ‘ بیمار اور معذوروں کی دل جوئی کرنے کے لیے کبھی کبھی گھر لے جا کر کھانا کھلانے میں کوئی حرج نہیں ( بلکہ ان کو احساس تنہائی اور احساس محرومی سے نکالنا بھی ایک عبادت ہے) ۔
(١٨) جب لوگ گھروں میں داخل ہوں تو سلام کیا کریں اس سے بڑی برکت ہوتی ہے۔
(١٩) اس سورة کو اس مضمون پر ختم کیا گیا ہے کہ اس کائنات کی سب سے بڑی سعادت اور نیکی یہ ہے کہ نبی کریم خاتم الانبیاء احمد مجتبی حضرت محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی مکمل اطاعت وفرمانبرداری اور آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے محبت کی جائے۔ اس میں دونوں جہانوں کی خیر و فلاح ہے۔ اس کے برخلاف وہ لوگ جو اللہ اور اس کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی نافرمانی کرنے والے ہیں وہ ایسے بد نصیب لوگ ہیں جن کو دنیا اور آخرت میں سوائے گھاٹے اور نقصان کے کچھ بھی حاصل نہ ہوگا۔