بصیرتِ قرآن - مولانا محمد آصف قاسمی
سورۃ العنكبوت - تعارف
تعارف
سورة نمر 29 کل رکوع 7 آیات 69 الفاظ و کلمات 990 حروف 4410 یہ سورة مکہ مکرمہ میں ہجرت حبشہ سے کچھ پہلے نازل ہوئی۔ یہ وہ وقت تھا جب کفار و مشرکین نے اہل ایمان پر ظلم و سلم کرکے مکہ کی سرزمین کو ان پر تنگ کردیا تھا اور وہ مکہ مکرمہ چھوڑے نے پر مجبور ہوگئے تھے۔ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے حکم سے صحابہ کرام (رض) حبشہ کی طرف ہجرت کرنے لگے۔ اہل ایمان کو تسلی دی گئی ہے کہ برائی کا انجام کبھی اچھا نہیں ہوتا۔ فرمایا تم صبر کرو بہتر نتیجہ تمہارے حق ہی میں نکلے گا اور تم کامیاب ہو گے۔ اس سورة میں متعدد انبیاء کرام (علیہ السلام) کا ذکر کرکے بتایا گیا ہے کہ انہوں نے اللہ کے دین کی سربلندی کے لیے صبر و تحمل سے کام لے کر دن رات جدوجہد کی۔ جو سعادت مند لوگ تھے انہوں نے دین کی سچائیوں کو قبول کر کے اپنی دنیا اور آخرت بہتر بنالی اور بد بخت لوگ نہ دنیا حاصل کرسکے نہ آخرت۔ اللہ تعالیٰ اپنے نیک ‘ متقی اور پرہیز گار بندوں کو دنیا اور آخرت میں بلند مقام عطا کرنے کے لیے طرح طرح سے آزماتا ہے۔ جو اس امتحان میں تکلیفیں ‘ مصیبتیں اور شدید تر مخالفتوں کے باوجود صبر و تحمل کا دامن تھامے رہتے ہیں ان کو دنیا اور آخرت کی تمام نعمتوں سے مالا مال کردیا جاتا ہے۔ اس کے برخلاف وہ لوگ جو انبیاء کرام (علیہ السلام) کے راستے کو چھوڑ کر کفر و شرک کا طریقہ اختیار کرلیتے ہیں وہ بظاہر عیش و آرام میں ہوتے ہیں لیکن ان کا انجم بڑا بھیانک ہوتا ہے۔ وہ مظلوم اہل ایمان پر ظلم و ستم اور بربریت کی انتہا کو اپنی کامیابی سمجھتے ہیں حالانکہ وہ دنیا کے بد ترین ناکام لوگوں میں سے ہیں۔ جب یہ سورت نازل ہوئی اس وقت کفار مکہ اور مشرکین عرب میں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی آواز خق و صداقت کو پابند کرنے کے لیے ہر وہ ظلم و ستم کررہے تھے کہ جس سے مکہ کی سرزمین نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور آپ کے ماننے والوں پر اس قدر تنگ ہوچکی تھی کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے حکم کے مطابق صحابہ کرام (رض) حق و صداقت کے لیے اپنا گھر بار چھوڑنے پر مجبور ہوگئے تھے۔ چناچہ صحابہ کرام (رض) نے حبشہ کی طرف ہجرت شروع کردی اور کچھ عرصہ بعد اللہ کے حکم سے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے بھی مکہ مکرمہ سے مدینہ منورہ کی طرف ہجرت فرمائی۔ ان حالات میں یہ سورة نازل ہوئی جس میں اللہ تعالیٰ نے اپنے رسول اور ان کے ماننے والوں کو یہ سمجھایا کہ اہل ایمان حق وصداقت کی راہوں کو روشن کرتے رہیں یہ کفار مکہ کا ظلم و ستم اور ان کا غرور تکبر مکڑی کے جالے سے زیادہ طاقت ور نہیں ہے۔ جس طرح مکڑی اپنے جال کو مضبوط سمجھ کر اس میں ہر ایک کو شکار کرنے کے لیے مضبوط تریسن سمجھتی ہے حالانکہ مکڑی کا گھر اتنا ہی کمزور ہوتا ہے۔ فرمایا کہ اہل ایمان نہ گھبرائیں بہت جلد وہ وقت آنے والا ہے جب ان کفار کی کمر ٹوٹ جائے گی اور ان کے لیے کوئی راہ نجات نہ ہوگی۔ اس بات کو سمجھانے کے لیے اللہ تعالیٰ نے گذشتہ انبیاء کرام (علیہ السلام) اور ان کی نافرمان قوموں کے حالات کو بتا کر یہ سمجھایا ہے کہ یہ کوئی نئی بات نہیں ہے۔ جب بھی اللہ نے اپنے کسی نبی کو بھیجا تو کفار و مشرکین نے اس سچائی کو جھٹلایا۔ انبیاء کرام کی بات نہ مان کر انہوں نے اپنی دنیا اور آخرت برباد کر ڈالی اور اللہ نے انبیاء کرام (علیہ السلام) اور ان کے ماننے والوں کو کامیاب و بامراد فرمایا اور انہیں دین و دنیا کی ساری نعمتوں سے مالا مال فرمایا۔ (١) اللہ تعالیٰ نے حضرت نوح (علیہ السلام) اور ان کی نافرمان قوم کا ذکر فرمایا۔ حضرت نوح (علیہ السلام) نے ساڑھے نو سو سال تک اپنی قوم اور نسلوں کو سمجھایا مگر انہوں نے اہل ایمان کا مذاق اڑایا۔ انہیں طرح طرح سے ستایا جس سے و ہے کفار خود ہی مشکلات میں پھنس گئے۔ جب وہ مسلسل نافرمانیاں کرتے رہے تو اللہ نے ان کو پانی میں غرق کردیا اور حضرت نوح (علیہ السلام) اور ان کے ماننے والوں کو نجات عطا فرما دی۔ (٢) حضرت ابراہیم (علیہ السلام) خلیل اللہ کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا کہ جب انہوں نے اپنی قوم کو حق و صداقت کی طرف بلایا تو ساری قوم نے کہا کہ ہمارے بتوں اور معبودوں کی توہین کرنے والے ابراہیم کو قتل کردو ‘ ماردو ‘ جلا ڈالو اور کڑی سے کڑی سزا دو ۔ چناچہ ان کو زندہ آگ میں پھینک دیا گیا۔ اللہ نے اس آگ کو ایسا گل و گلزار بنادیا کہ آگ ان پر سلامتی کے ساتھ ٹھنڈی ہوگئی۔ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) اپنی بیوی حضرت سارہ اور بھتیجے حضرت لوط (علیہ السلام) کو ساتھ لے کر فلسطین میں آباد ہوگئے اور کفار اپنے کیفر کردار کو پہنچ گئے۔ (٣) حضرت لوط (علیہ السلام) کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا کہ انہوں نے اپنی قوم کو غیر فطری گناہوں اور بد فعلیوں سے بچانے کے لیے ہر طرح سمجھایا مگر سوائے چند لوگوں کے سب نے حضرت لوط (علیہ السلام) کو جھٹلایا۔ ان کی بات سننے سے انکار کردیا۔ یہاں تک کہ حضرت لوط (علیہ السلام) کی بیوی بھی انبدکرداروں کے ساتھ مل گئی اور دولت ایمانی سے محروم ہوگئی۔ اللہ تعالیٰ نے حضرت لوط (علیہ السلام) ‘ ان کی مومن گھر والوں اور ماننے والوں کو نجات دے دی اور ان کفار پر پتھروں کی بارش کردی اور ان کی بستیوں کو ان پر الٹ کر ان کو صفحہ ہستی سے مٹادیا۔ (٤) حضرت شعیب (علیہ السلام) نے اپنی قوم تک دین کو پہنچایا۔ ان کو حق وصداقت پر لانے کی ہر ممکن کوشش کی۔ معاملات میں بددیانتی ‘ بےایمانی اور ماپ تول میں کمی سے منع فرمایا مگر ان کی قوم ان کا مذاق اڑاتی رہی۔ اللہ تعالیٰ نے حضرت شعیب (علیہ السلام) اور ان پر ایمان لانے والوں کو نجات عطا فرما دی اور نافرمانوں کو طوفانی ہواؤں اور پانی کے طوفان سے تہس نہس کرڈالا۔ (٥) حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کے واقعات کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا کہ انہوں نے بنی اسرائیل کو ہر طرح کے کفر و شرک سے بچانے اور قوم فرعون کے ظلم وستم سے نجات دلانے کی ہر ممکن کوشش کی ایک نئی زندگی دی لیکن انہوں نے نافرمانی کرنے کو اپنا مزاج بنا لیا تھا۔ اللہ تعالیٰ نے فرمانبرداروں کو نجات دی اور کفار و مشرکین کو عذاب میں مبتلا کردیا۔ (٦) قوم عاد اور قوم ثمود کا ذکر فرمایا جنہوں نے اللہ کے رسولوں کو جھٹلایا۔ ان کی نافرمانیاں کیں اللہ نے جو ان کو بےپناہ قوت و طاقت عطا کی تھی اس کا غلط استعمال کیا تب اللہ تعالیٰ نے حضرت ھود (علیہ السلام) اور حضرت صالح (علیہ السلام) کو اور ان کے ماننے والوں کو نجات دے دی اور ان قوموں کو تباہ و برباد کرڈالا۔ (٧) قارون کا واقعہ سنایا گیا جسے اللہ نے بےپناہ دولت عطا کی تھی مگر اس کی دولت نے اس کو ایسا سرکش ‘ ضدی اور ہٹ دھرم بنا دیا تھا کہ اس نے حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کو بھی جٹلانا شروع کردیا۔ اللہ نے قارون کو اس کے خزانوں سمیت زمین میں دھنسا دیا۔ اللہ تعالیٰ نے اہلامیان کو یہواقعات سنا کر ان کو تسلی دی ہے کہ آج اگر کفار مکہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے جاں نثاروں کو ستا رہے ہیں ایسے لوگ مذکورہ نبیوں اور لوگوں کی زندگی کا مطالعہ کریں کہ اللہ اور اس کے نبیوں کے انکار کا کس قدر بھیانک انجام ہوا اور اہل ایمان کو کس قدر عزت و سربلندی اور نجات نصیب ہوئی ہے۔ اللہ تعالیٰ نے اہل ایمان کو حکم دیا ہے کہ وہ اپنے کام میں لگے رہیں ‘ کسی کی پرواہ نہ کریں کیونکہ اللہ کا نظام اور طریقہ کبھی تبدیل نہیں ہوتا۔ اہل ایمان سے فرمایا کہ وہ (١) تلاوت کلام اللہ کرتے رہیں۔ (٢) نمازوں کی پابندی کریں۔ (٣) اور اہل کتاب سے گفتگو میں شائستگی کے پہلو کو نظر انداز نہ کریں۔ اس سورة میں چند اور اہم باتوں کا ذکر فرمایا گیا ہے۔ جو لوگ معجزات کا مطالبہ کررہے ہیں وہ اگر واقعی حق کی تلاش میں ہیں تو قرآن کریم ان کے سامنے ایک معجزہ کے طور پر ہے۔ اس کے مقابلے میں کسی اور معجزہ کا مطالبہ ایک عجیب سامطالبہ ہے۔ جو لوگ یہ کہتے ہیں کہ اللہ کا عذاب کیوں نہیں آتا فرمایا کہ ان سے کہہ دیاجائے اللہ کا اپنا ایک نظام ہے جب وہ کسی قوم پر عذاب نازل کرتا ہے تو پھر اس سے بچانے والا اور کوئی نہیں ہوتا۔ جب کوئی سرزمین اس حدتک تنگ کردی جائے کہ وہاں رہنا مشکل ہوجائے تو وہاں سے ہجرت کرجانا ہی بہتر ہے۔ اگر کوئی اللہ کی راہ میں گھر بار چھوڑتا ہے تو اس کو یہ سوچنا کہ ہم کھائیں گے کیا ؟ فرمایا کہ پرندے بھی روزانہ اپنا رزق تلاش کرتے ہیں اور رات کو پیٹ بھر کر سوتے ہیں فرمایا کہ حق و صداقت کے راستے میں چلنے والوں کا رزق اللہ کے ذمے ہے۔ فرمایا کہ جب یہ کفار کسی مصیبت میں پھنس جاتے ہیں تو اللہ کو یاد کرتے ہیں اور جب نجات پالیتے ہیں تو پھر شرک کرنے لگتے ہیں حالانکہ ان کے دل جانتے ہیں کہ ساری کائنات اللہ نے پیدا کی ہے وہی نجات دیتا ہے۔ فرمایا کہ جو لوگ اللہ کے راستے میں مشقت اور مصیبتیں اٹھاتے ہیں اللہ ان کے لیے زندگی کی راہیں آسان کردیتا ہے۔ دیانت وامانت اختیار کرنے والا اللہ کی مدد کا مستحق ہوتا ہے۔ ان سے اللہ کا سچا وعدہ ہے اور اہل ایمان کے لیے بڑی خوش خبری اور بشارت ہے۔
Top