بصیرتِ قرآن - مولانا محمد آصف قاسمی
سورۃ الطلاق - تعارف
تعارف
تعارف سورة الطلاق سورة نمبر 65 کل رکوع 2 آیات 12 الفاظ و کلمات 298 حروف 1237 مقام نزول مدینہ منورہ ایمان والوں کو خطاب کرتے ہوئے فرمایا کہ اللہ نے تمہاری ہدایت کے لئے اپنا ایک ایسا کلام اپنے رسول پر نازل کیا ہے جس کی آیات نہایت واضح اور صاف صاف ہیں تاکہ ہر وہ شخص جو ایمان لا کر عمل صالح کی زندگی اختیار کرنا چاہتا ہے ہمارا رسول ان کو اندھیروں سے نکال کر علم کی روشنی میں لے آئے گا۔ فرمایا کہ بہت سی بستیاں تھیں کہ جب انہوں نے اللہ اور اس کے رسول کی نافرمانیاں کیں تو نہ صرف سختی کے ساتھ ان کا محاسبہ اور گھیراؤ کیا گیا بلکہ ان کی نافرمانیوں کی وجہ سے ان پر عذاب نازل کرکے ان کو سخت سزا دی گئی۔ اس طرح انہوں نے قدم قدم پر سخت نقصانات اٹھائے۔ فرمایا کہ ہر وہ شخص جس میں ذرا بھی عقل اور سمجھ ہے وہ کبھی اللہ کی نافرمانی نہیں کرے گا اور وہ اللہ کے خوف سے ڈرتا رہے گا۔ ٭عائلی یعنی گھریلو زندگی میں کبھی کبھی باہمی اختلافات یا مزاجوں میں ہم آہنگی نہ ہونے سے بات طلاق اور جدائی تک پہنچ جاتی ہے جو حلال ہونے کے باوجود اللہ اور اس کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے نزدیک انتہائی ناپسندیدہ فعل ہے۔ اس کے ضروری مسائل سورة بقرہ میں بیان کئے گئے تھے۔ اب اس سورة میں ان ہی مسائل میں سے بقیہ مسائل کو ارشاد فرمایا جا رہا ہے تاکہ ان مسائل کی تکمیل ہوجائے۔ خلاصہ یہ ہے۔ ٭ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) خو خطاب کرتے ہوئے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی امت سے فرمایا جا رہا ہے کہ اے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ! جب لوگ اپنی بیویوں کو طلاق دیں تو وہ ان کی عدت کا خیال کرکے طلاق دیا کریں اور پھر عدت کا بالکل صحیح شمار رکھا کریں یعنی ایسے دنوں میں طلاق نہ دیں جس سے عدت کی مدت طویل ہوجائے اور عدت کے دنوں کا شمار ٹھیک ٹھیک رکھا کریں تاکہ وقت سے پہلے یا بعد میں عدت نہ کھلے اسی لئے فرمایا کہ تم اپنے اللہ سے ڈرتے رہو جو تمہارا پروردگار ہے۔ ٭فرمایا کہ دوران عدت تم ان کو اپنے گھروں سے نہ نکالو اور نہ وہ خود نکلیں۔ البتہ اگر وہ کھلا ہوا گناہ (زنا، بدکاری، بدکلامی جس سے ہر شخص عاجز آجائے) کریں تو ان کو نکالا جاسکتا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ یہ اس کی مقرر کی ہوئی حدیں ہیں۔ ان حدود کو پھلانگنے کی کوشش نہ کریں۔ اگر ایسا کریں گے تو وہ اپنے ساتھ بڑی زیادتی اور ظلم کرنے والے ہوں گے۔ اللہ نے فرمایا کہ تمہیں کیا معلوم ممکن ہے اس کے بعد آپس میں دوبارہ مل جانے کا کوئی راستہ بن جائے۔ ٭فرمایا کہ وہ عورتیں جب اپنی عدت پوری کرلیں (اگر ایک یاد دو طلاقیں دی ہیں) یا تو ان کو بھلے طریقے سے روک لیں یعنی رجوع کرلیں یا بھلے اور نیک طریقے سے ان سے جدا ہوجائیں۔ ٭فرمایا کہ (بہت سے قانونی مسائل سے بچنے اور ٹھیک ٹھیک گوہی کے لئے اگر) عدل و انصاف والے دو گواہ بنا لیں تو بہتر ہے۔ گواہوں سے فرمایا گیا کہ اگر کوئی گواہی کا موقع آجائے تو وہ ٹھیک ٹھیک گواہی دیں۔ یہ وہ باتیں ہیں جن کی نصیحت ہر اس شخص کو کی جاتی ہے جو اللہ اور آخرت پر ایمان رکھتے ہوئے اس سے ڈرتا ہو۔ اللہ ایسے لوگوں کے لئے ہر طرح کی مشکلات سے نکلنے کا راستہ بنا دیتا ہے اور اسی کی ایسی جگہ سے مدد کی جاتی ہے جہاں اس کا گمان بھی نہیں پہنچ سکتا جو اللہ پر مکمل بھروسہ کرتا ہے تو اللہ اس کے لئے کافی ہے۔ اللہ اپنے ہر کام کو پورا کرکے چھوڑتا ہے کیونکہ اس نے ہر چیز کے لئے ایک مقدار (تقدیر) مقرر کر رکھی ہے۔ ٭فرمایا تمہاری عورتوں میں سے وہ جنہیں اب حیض آنے کی توقع نہ ہو یا جن کو ابھی حیض آیا ہی نہ ہو اس ان کے لئے (چاند کے حساب سے) تین مہینے کی مدت مقرر ہے۔ اسی طرح حاملہ عورتوں کی عدت بچہ پیدا ہونے تک ہے۔ جیسے ہی ولادت ہوجائے گی اس کی عدت بھی ختم ہوجائے گی۔ فرمایا کہ ان تمام معاملات میں اللہ سے ڈرتے رہنا چاہیے۔ کیونکہ جو لوگ اللہ کے احکامات کی پابندی کرتے ہیں اور اللہ سے ڈرتے ہیں اللہ نہ صرف ان کے گناہوں اور خطاؤں کو معاف کردیتا ہے بلکہ ان کو اجر عظیم عطا فرماتا ہے۔ ٭فرمایا کہ عورتوں کی عدت کے دوران جیسی جگہ پر بھی تم رہتے ہو اس میں ان کو رکھو اور ان کو تنگ نہ کرو نہ ستائو بلکہ حسن معاملہ کرو۔ ٭اگر وہ حاملہ ہوں تو ان کو اس وقت تک کھلائو پلائو جب تک بچہ پیدا نہ ہوجائے۔ پھر اگر وہ تمہارے بچے کو دودھ پلائیں تو ان کو اس کا معاوضہ دو ۔ اگر باہمی رضا مندی سے وہ دونوں کسی اور عورت سے دوچھ پلوانا چاہیں تو اس میں کوئی حرج نہیں ہے۔ لیکن اس کی شرط یہ ہے کہ جس عورت سے دودھ پلوایا جا رہا ہے اس کی اجرت اس کو دی جائے اور اس معاملہ میں کوئی زیادتی نہ کی جائے۔ ہر شخص اپنی حیثیت اور ہمت کے مطابق خرچ دیگا۔ اگر کوئی صاحب حیثیت ہے تو وہ اس کے مطابق دے اور جس کو کم رزق دیا گیا ہے وہ اپنی حیثیت کے مطابق خرچ دے گا۔ اللہ تعالیٰ کسی شخص پر اس کی ہمت سے زیادہ بوجھ نہیں ڈالتا۔ یہ تو اللہ کا نظام ہے کہ وہ جس کو جتنا دینا چاہیے دیت ا ہے اور یہ بھی ہوسکتا ہے کہ تنگ دستی کے باوجود اللہ اس کو فراخی عطا فرمادے۔ ٭آخر مین فرمایا کہ تمام احکامات میں اللہ کے حکم کی پوری تعمیل کی جائے۔ کیونکہ نہ جانے کتنی بستیاں ایسی تھیں کہ جب وہاں کے لوگوں نے اللہ کی نافرمانی اور رسول کی اطاعت سے انکار کیا تو نہ صرف ان کا سختی سے محاسبہ کیا گیا بلکہ ان کو سخت سزا دی گئی۔ اس طرح انہوں نے جو کچھ کیا تھا اس کا مزہ چکھا اور انہوں نے قدم قدم پر شدید نقصانات اٹھائے۔ اللہ نے فرمایا کہ اللہ نے ان کے لئے سخت عذاب تیار کر رکھا ہے۔ فرمایا کہ اے عقل رکھنے والو ! اللہ سے ڈرتے رہو۔ ٭ایمان والوں سے فرمایا کہ اللہ نے تمہاری ہدایت کے لئے اپنے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر ایسا کلام نازل کیا ہے جس کی آیات نہایت واضح اور صاف صاف بیان کی گئی ہیں جن کا مقصد یہ ہے کہ وہ لوگ جو ایمان اور عمل کی زندگی اختیار کئے ہوئے ہیں، اللہ کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) انہیں پوری طرح اندھیروں سے روشنی کی طرف لے آئیں۔ فرمایا کہ جو بھی اللہ پر ایمان رکھتے ہوئے عمل صالح اختیار کرے گا اس کو ایسی جنتوں میں داخل کیا جائے گا جن کے نیچے سے نہریں بہہ رہی ہوں گی۔ وہ اس میں ہمیشہ رہے گا اور اللہ نے اس کے لئے بہترین رزق تیار کر رکھا ہے۔ ٭اللہ نے اپنی قدرت سے سات آسمان اور اس جیسی زمین بھی بنائی ہے۔ ان سب میں اللہ کے احکامات نازل ہوتے رہتے ہیں تاکہ تم اس بات کو اچھی طرح سے جان لو کہ اللہ ہی ہر چیز پر پوری قدرت رکھتا ہے اور اس کے علم نے ہر چیز کو گھیر رکھا ہے یعنی کوئی چیز اس کے علم سے باہر نہیں ہے۔
Top