فہم القرآن - میاں محمد جمیل
سورۃ النور - تعارف
تعارف
سورة النّور کا تعارف ربط سورة : سورة المومنوں ان الفاظ پر ختم ہوئی کہ اپنے رب سے بخشش اور رحم مانگتے رہو۔ اس کا رحم اور بخشش ان لوگوں کو حاصل ہوگا جو اس کے ارشادات سے نصیحت حاصل کر کے اس پر عمل کرتے ہیں۔ یہ سورة 9 رکوع اور 64 آیات پر مشتمل ہے۔ عرب غیور اور خوددار ہونے کے باوجود اخلاقی بےراہ روی میں اس حد تک آگے بڑھ چکے تھے کہ بدکاری اور بےحیائی ان کے نزدیک عیب نہیں سمجھا جاتا تھا، خاندانی دشمنی کی بنا پر شاعر مجمع عام میں اپنی محبوبہ اور مخالف گروہ کی بہو، بیٹیوں پر تہمتیں لگاتے اور سننے والے ان سے لطف اندوز ہوتے، مکہ کی نسبت مدینہ کے لوگ پڑھے لکھے اور ترقی یافتہ تھے، مگر ان کی اخلاقی گرواٹ کا عالم یہ تھا کہ مدینہ میں باقاعدہ قحبہ خانے تھے۔ فاحشہ عورتوں نے ان کی مشہوری کے لیے چھتوں پر جھنڈے لہرا رکھے تھے، تاکہ برائی کے متلاشی لوگوں کو ان تک پہنچنے میں کوئی دقّت پیش نہ آئے، معاشرتی آداب اس قدر پامال ہوچکے تھے کہ ایک دوسرے کے گھروں میں بلا اجازت آنا، جانا بالخصوص مذہبی پوپ اور بڑے لوگ اپنا حق سمجھتے تھے، اس کا سبب تھا کہ اگر بڑے خاندان کا آدمی زنا یا کوئی جرم کرتا تو اس پر کوئی قانون لاگو نہیں ہوتا تھا، غریب یا کمزور خاندان کا آدمی جرم کرتا تو اس پر حد نافذ کی جاتی تھی۔ اخلاقی بےراہ روی اور ہر قسم کی بےحیائی ختم کرنے کے لیے یہ سورة مبارک نازل کی گئی۔ جس میں سوچ کی پاکیزگی اور کردار کی پختگی کے اصول بتلانے کے ساتھ ساتھ چوری، بدکاری اور تہمت کی سزا مقرر کی گئی ہے اور اس کے نفاذ پر کسی قسم کی نرمی روا رکھنے کو ایمان کی کمزوری قرار دیا گیا ہے۔ اس طرح چادر اور چار دیواری کے تحفظ کو یقینی بنایا گیا ہے۔ نتیجہ یہ نکلا کہ جونہی مسلمان مرد وزن نے اس سورة کی تعلیمات پر عمل کیا۔ معاشرہ امن وامان اور شرم وحیا کا گہوارہ ثابت ہوا۔ کیونکہ صدیوں سے جاری معاشرتی رسومات اور اطوار کا بدلنا انتہائی مشکل ہوا کرتا ہے اس لیے اس سورة اور اس کے احکام کے بارے میں ارشاد فرمایا ہے کہ اس سورة کو ہم نے نازل کیا ہم نے اس کے احکام کی تعمیل کو لازم قرار دیا اور ہم ہی نے اس کے ارشادات کو کھول کھول کر بیان کیا تاکہ تم انہیں یاد رکھو۔ لہٰذا غیر شادی شدہ زانی اور زانیہ کے لیے اسّی اسّی کوڑے ہیں۔ کوڑے مارتے ہوئے کسی قسم کی نرمی نہیں ہونا چاہیے اور اس وقت مومنوں میں کچھ لوگوں کا موجود ہونا بھی ضروری ہے۔ اب کے بعد زانی عورت کا نکاح زانی مرد کے ساتھ ہوگا، مشرکہ، مشرک کے ساتھ، بدکار عورت کا بدکار مرد سے اور مشرک کا نکاح مشرکہ کے ساتھ ہی ہوسکتا ہے۔ باکردار مسلمان مردوں پر یہ رشتے حرام ہیں۔ جو لوگ صالح کردار عورتوں پر تہمت لگاتے ہیں انہیں اسّی درّے مارے جائیں اور آئندہ کے لیے ان کی شہادت قبول نہ ہوگی، ان حدود کے بیان کرنے کے بعد اس سورة کے شان نزول کی طرف اشارہ کرتے ہوئے حضرت عائشہ صدیقہ (رض) کے سچے کردار کی گواہی دی گئی ہے۔ اور مومنوں کو سمجھایا ہے کہ کسی صالح کردار مردو زن پر تہمت لگے تو اس کے پاکیزہ ماضی کو سامنے رکھتے ہوئے اس تہمت کی فوراً تردید کر دینی چاہیے، کیونکہ صالح انسان کا ماضی بہت حد تک اس کے مستقبل کی ضمانت ہوتا ہے، پھر ایک دوسرے کے گھر میں داخل ہونے سے پہلے اجازت لینا اور گھر والوں کو سلام کرنے کی تعلیم دی گئی ہے۔ اس تعلیم کے ساتھ ہی مومن مرد اور مومن خواتین کو حکم دیا گیا ہے کہ وہ اپنی نگاہیں نیچے رکھا کریں، اور اپنی شرمگاہوں کی حفاظت کیا کریں، اس حکم کے ساتھ ان رشتوں کا ذکر کیا گیا ہے جن سے پردہ کرنا عورت کے لیے ضروری نہیں۔ سورة کے پانچویں رکوع میں اللہ تعالیٰ نے اپنی ذات کو زمین و آسمانوں کا نور قرار دیا ہے پھر اپنے نور کو ایک مثال کے ذریعے سمجھایا، جس میں یہ اشارہ موجود ہے کہ اللہ تعالیٰ کے احکام اور ارشادات نور کی حیثیت رکھتے ہیں جس سے معاشرے کی ہر قسم کی تاریکیاں دور ہوتی ہیں جو لوگ اللہ تعالیٰ کی نازل کردہ ہدایت کی روشنی میں نہیں آتے ان کی مثال ایسے شخص کی ہے جو گھٹا ٹوپ اندھیروں میں پھنسا ہوا ہے۔ وہ ان سے نکلنا چاہتا ہے لیکن نکل نہیں سکتا، جس کے لیے اللہ تعالیٰ روشنی نہ کرے وہ کہیں سے روشنی نہیں پاسکتا۔ اس کے بعد اللہ تعالیٰ نے ایسے لوگوں کی تعریف فرمائی ہے جنہیں لین، دین اور کاروبار ” اللہ “ کے ذکر سے غافل نہیں کرتا، وہ نماز کے وقت نماز ادا کرتے ہیں اور زکوٰۃ کے وقت زکوٰۃ ادا کرتے ہیں، ان کے دل قیامت کی ہولناکیوں سے لرزاں رہتے ہیں۔ ایسے لوگوں کو اللہ تعالیٰ نہ صرف پوری پوری جزا دے گا بلکہ اپنے فضل سے بہت کچھ عنایت فرمائے گا۔ اللہ تعالیٰ جب دینے پر آتا ہے تو بغیر حساب و کتاب کے عطا فرماتا ہے۔ مؤمنوں کی یہ صفت بیان کی گئی ہیں کہ جب بھی انہیں اللہ اور اس کے رسول کی طرف بلایا جائے وہ ہر قسم کی رکاوٹوں کو دور کرتے ہوئے اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت میں آجاتے ہیں۔ سورة کے آخر میں ان اوقات کا ذکر کیا گیا ہے جن اوقات میں گھریلوں ملازم اور نابالغ بچے بھی اجازت لے کر خلوت خانوں میں جایا کریں۔ اس میں مومنوں کی یہ بھی صفت بتلائی گئی ہے کہ یہ لوگ جب رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی خدمت میں مشاورت کے لیے بلائے جاتے ہیں تو اجازت لیے بغیر آپ کی مجلس سے نہیں جاتے۔ آخر میں یہ ادب سکھلایا گیا ہے کہ مسلمان اللہ کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو اس طرح نہ آواز دیا کریں جس طرح ایک دوسرے کو آواز دے کر بلاتے ہیں اگر لوگ رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی گستاخی سے باز نہ آئے تو انہیں یاد رکھنا چاہیے کہ بالآخر سب نے ” اللہ “ کی بارگاہ میں حاضر ہونا ہے وہ تمہیں بتلائے گا کہ تم کیا کچھ کر رہے تھے۔ یعنی رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی گستاخی کرنے پر تمہیں ٹھیک ٹھیک سزا دی جائے گی۔
Top