تدبرِ قرآن - مولانا امین احسن اصلاحی
سورۃ الطلاق - تعارف
تعارف
تدبر قرآن۔۔۔۔ ٦٥۔۔ الطلاق۔۔۔ بسم اللہ الرحمن الرحیم۔۔۔ ا۔ سورة کا عمود اور سابق و لا حق سے تعلق سابق سورة ۔۔۔ التغابن۔۔ کی آیات ١٤۔ ١٦ میں یہ تنبیہ فرمائی ہے کہ آدمی کے بیوی بچے اس کے لیے بڑی آزمائش ہیں اگر وہ چوکنا نہ رہے تو ان کی محبت میں گرفتار ہو کر وہ اللہ کی راہ میں جان و مال کی قربانی سے جی چرانے لگتا ہے یہاں تک کہ یہ چیز کو بالآخر نفاق میں مبتلا کردیتی ہے اور اس طرح ان کے ساتھ اس کی دوستی خود اپنے ساتھ دشمنی بن جاتی ہے۔ ساتھ ہی یہ تنبیہ بھی فرمائی ہے کہ ان سے چوکنے رہنے کے معنی یہ نہیں ہیں کہ بالکل ہی قطع تعلق کرلے بلکہ تاجدار مکان اس طرح عفو و در گزر کا معاملہ رکھے کہ ان کی اصلاح بھی ہو اور اپنے کو ان کے ضرر سے محفوظ بھی رکھے سکے۔ سورة تغابن کے بعد دو سورتوں الطلاق اور التحریم میں اسی نازک مسئلہ کی مزید وضاحت فرمائی اور نفرت و محبت دونوں طرح کے حالات کے اندر صحیح رویہ کے حدود معین کر دے تاکہ کسی بےاعتدالی کی گنجائش نہ باقی رہے۔ سورة طلاق میں یہ بتایا ہے کہ اگر بیوی سے کسی سبب سے نفرت پیدا ہوجائے تو اس کے معاملے میں کس طرح حدود الٰہی کی پابندی کا اہتمام کرے اور سورة تحریم میں یہ واضح فرمایا ہے کہ محبت میں کس طرح اپنے آپ کو اور ان کو حدود الٰہی کا پابند رزکھنے کی کوشش کرے۔ میاں بیوی کے رشتہ ہی پر تمام معاشرت کی بنیاد ہے اور ہر شخص کو اس سے سابقہ بھی پیش آتا ہے لیکن اس رشتہ کے نازک حدود وقیود کا اول تو سب کو علم نہیں ہوتا اور جن کو ہوتا بھی ہے وہ نفرت یا محبت کی ہلچل میں ان کو ٹھیک ٹھیک ملحوظ رکھنے میں ناکام ہوجاتے ہیں۔ کوئی سبب اگر اختلاف یا افتراق کا پیدا ہوگیا ہو تو وہ ایسی نفرت و عداوت کی شکل اختیار کرلیتا ہے کہ شریعت کے تمام حدود و احکام پس پشت ڈال دیے جاتے ہیں۔ اسی طرح اگر تعلقات محبت پر قائم ہیں، جیسا کہ ہونا چاہیے تو خدا کے حدود و آداب کا احترام اس محبت پر قربان کردیا جاتا ہے۔ یہ دونوں ہی حالتیں حدود الٰہی نے دو الگ الگ سورتوں میں تفصیل سے بتایا کہ نفرت اور محبت دونوں قسم کے حالات کے اندرآدمی کا معاملہ اپنے اہل و عیال کے ساتھ مجرو اندھے بہرے جذبات پر نہیں بلکہ خدا کے حدود پر مبنی ہونا چاہیے۔ اس سے معلوم ہوا کہ یہ دونوں سورتیں در حقیقت سورة تغابن ہی کے اجمال کی شرح کی حیثیت رکھتی ہیں۔ ان دونوں ہی میں خطاب نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے ہے اور یہ خطاب بغیر کسی تمہید کے شروع ہوگیا ہے جو اس بات کا قرینہ ہے کہ یہ سابق سورة ہی کا تکملہ و تتمہ ہیں۔ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے براہ راست خطاب شخصا ًنہیں بلکہ امت کے وکیل کی حیثیت سے ہے۔ اس طرح کے خطاب کی مثالیں قرآن مجید میں بہت ہیں۔ اس براہ راست خطاب سے ان احکام کی اہمیت دو چند ہوگئی ہے جو ان سورتوں میں بیان ہوئے ہیں۔ یہاں جن خرابیوں کی اصلاح کی گئی ہے وہ جاہلیت کی سوسائٹی میں عام رہی ہیں بلکہ شاید یہ کہنا بھی بےجا نہ ہو کہ اس تہذیب و تمدن کے دور میں بھی یہ عام ہیں۔ یہ صورت حال مقتضی ہوئی کہ ان کی اصلاح کے احکام براہ راست نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو خطاب کر کے دیے جائیں تاکہ لوگوں کے اندر یہ احساس پیدا ہو کہ جب پیغمبر (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو بھی ان باتوں کی پابندی کی ہدایت ہے توتابہ دیگراں چہ رسدا۔ ب۔ سورة کے مطالب کا تجزیہ سورة طلاق حسب ذیل حصوں میں منقسم ہے۔ (١۔ ٧) اس امر کی وضاحت کہ اگر کسی کو طلاق دینے کی نوبت آئے تو یہ جائز نہیں ہے کہ وہ بیوی کو طلاق کے دو کلمے کہہ کر فوراً گھر سے نکال باہر کرے بلکہ اس کے لیے اللہ کے مقرر کیے ہوئے متعین قاعدے اور ضابطے ہیں جن کی پابندی ہر امیر و غریب کے لیے ضروری ہے۔ جو لوگ اپنی مالی مشکلات کے باوجود اللہ کی رضا کے لیے اس کے مقرر کیے ہوئے حدود کی پابندی کریں گے اللہ ان کی مشکل آسان کرے گا اور ان کے مال میں برکت دے گا اور جو مال کی محبت میں اللہ کے حدود وقیود توڑیں گے تو وہ یاد رکھیں کہ وہ اللہ کا کچھ نہیں بگاڑیں گے بلکہ اپنی ہی جانوں پر ظلم ڈھانے والے بنیں گے۔ (٨۔ ١٢) مسلمانوں کو تنبیہ کہ جن قوموں نے اللہ اور اس کے رسولوں کی نافرمانی کی ہے اللہ نے ان کو ہمیشہ نہایت سخت سزا دی ہے۔ تاریخ میں اس کی مثالیں موجود ہیں۔ اللہ نے اس رسول کے ذریعہ سے مسلمانوں پر بہت بڑا احسان فرمایا ہے کہ ان کی تاریکی سے نکال کر روشنی میں کھڑا کیا ہے۔ اگر اس روشنی کی وہ قدر کریں گے تو اللہ ان کو جنت کی ابدی نعمتوں سے نوازے گا اور اگر انہوں نے اس کی ناقدری کی تو یاد رکھیں کہ آسمانوں اور زمین کی بادشاہی اسی کی ہے اور وہ ہر چیز پر قادر ہے۔
Top