تدبرِ قرآن - مولانا امین احسن اصلاحی
سورۃ التحريم - تعارف
تعارف
تدبر قرآن۔۔۔۔ ٦٦۔۔۔ التحریم۔۔۔۔ بسم اللہ الرحمن الرحیم۔۔۔ ا۔ سورة کا عمود اور سابق سورة سے تعلق سابق سورة کی تفسیر میں ہم یہ اشارہ کرچکے ہیں کہ یہ دونوں سورتیں الطلاق اور التحریم علی الترتیب یہ تعلیم دے رہی ہے کہ نفرت اور محبت دونوں طرح کے حالات کے اندر اللہ تعالیٰ کے حدود کی پابندی واجب ہے۔ چناچہ سابق سورة میں بتایا کہ نفرت کے اندر کس طرح حدود الٰہی کا احترام قائم رکھاجائے۔ اب اس سورة میں یہ بتایا جا رہا ہے کہ محبت کے اندر کس طرح اللہ کے حدود کی حفاظت کی جائے۔ نفرت کی طرح محبت کا جذبہ بھی انسان پر غالب ہوجائے تو اس کو بالکل یک رخانبا کے رکھ دیتا ہے اور وہ ان لوگوں کے ساتھ، حدود الٰہی کے معاملے میں نہایت بےحس اور مداہنت کرنے والا بن جاتا ہے جن سے اس کو محبت ہوتی ہے۔ بیوی بچوں کو وہ علانیہ دیکھتا ہے کہ ان کا رویہ شریعت سے ہٹا ہوا ہے لیکن یا تو اس کو ان کے انحراف کا احساس ہی نہیں ہوتا یا ہوتا ہے تو وہ یہ مرض کر کے نظر انداز کرجاتا ہے کہ آہستہ آہستہ خود بخود کی ان کی اصلاح ہوجائے گی۔ حدیہ ہے کہ بہت سے لوگ اپنے متعلقین کی کھلی ہوئی زیادتیوں پر بھی، ان کو ٹوکنے یا روکنے کے بجائے یہ کوشش کرتے ہیں کہ ان کی غلطی پر پردہ ڈالنے کے لیے کوئی عذر تلاش کریں۔ یہ کمزوری صرف عام لوگوں ہی کے اندر نہیں بلکہ ان لوگوں کے اندر بھی پائی جاتی ہے جو دوسروں کی اصلاح کے لیے خدائی فوجدار بنے پھرتے ہیں۔ اس کی وجہ صرف یہ ہے کہ اس طرح کے لوگوں پر یہ حقیقت واضح نہیں ہوئی کہ کسی کے ساتھ محبت کا صحیح تقاضا یہ نہیں ہے کہ اس کو اپنی مداہنت سے خدا کے غضب کے حوالہ کیا جائے بلکہ اسکا صحیح تقاضا یہ ہے کہ جس طرح بھی ممکن ہو اس کو خدا کی پکڑ سے بچایا جائے اگرچہ اس مقصد کی خاطر کچھ ناگواریاں بھی گوارا کرنی پڑیں۔ وہ شخص اپنے بیوی بچوں اور دوستوں کی خلاف شریعت باتوں سے چشم پوشی کرتا ہے وہدر حقیقت ان سے محبت نہیں کرتا ہے بلکہ ان کو نہایت بےدردی کے ساتھ خدا کے غضب کے حوالے کر رہا ہے لیکن اس کو اپنے اس فعل کے نتائج کا شعور نہیں ہے۔ ب۔ سورة کے مطالب کا تجزیہ (١۔ ٥) نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ایک ایسے فعل پر اللہ تعالیٰ کی طرف سے احتساب جو اگرچہ صادرہوا تو کمزوروں پر رافت اور بیویوں کی دلداری کے جذبہ سے لیکن اللہ تعالیٰ نے اس پر گرفت فرمائی کہ اللہ کا رسول تمام امت کے لیے نمونہ ہوتا ہے۔ اس کے لیے جائز نہیں ہے کہ وہ کسی ادنیٰ سے ادنیٰ معاملے میں بھی کوئی ایسی بات کرے جو اللہ کے حدود کے خلاف ہو، اگرچہ اس کا محرک نیک ہی ہو۔ اسی طرح ازواج نبی (رض) کی ایک بات پر گرفت فرمائی گئی جو ہرچند صادر ہوئی باہمی حسن ظن و اعتماد کی بنا پر لیکن اللہ تعالیٰ نے اس پر بھی احتساب فرمایا کہ ازواج نبی (رض) تمام امت کی خواتین کے لیے نمونہ ہیں۔ دوسروں کی نسبت وہ اس بات کی زیادہ ذمہ دار ہیں کہ ان سے کوئی ایسی بات صادر نہ ہو جو شریعت کے حدود سے ہٹی ہوئی ہو اگرچہ اس کا سبب باہمی اعتماد و حسن ظن ہی ہو۔ ساتھ ہی یہ تنبیہ کہ اللہ کے ہاں مسئولیت درجہ و مرتبہ کے اعتبار سے ہے جن کے درجے جتنے ہی اونچے ہیں ان کے مسئولیت اتنی ہی زیادہ ہے۔ (٦۔ ٨) نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور آپ کی ازواج (رض) کے احتساب کے بعد عام مسلمانوں کو یہ موعظت کہ آخرت کے عذاب سے بچنے کے لیے اپنا اور اپنے متعلقین کا برابر احتساب کرتے رہو اور اس بات کو یاد رکھو کہ اللہ نے دوزخ پر جو فرشتے مامور کیے ہیں وہ نہایت سخت گیر ہیں۔ کسی کے ساتھ بھی وہ کوئی نرمی یا مداہنت کرنے والے نہیں ہیں۔ اس دن کسی کا بھی کوئی عذر قبول نہیں ہوگا۔ ہر ایک کو صاف جواب ملے گا کہ آج ہر ایک کے سامنے اس کا عمل ہی آ رہا ہے، کسی کے ساتھ کوئی زیادتی نہیں ہو رہی ہے۔ اس دن فائز المرام صرف وہ ہوں گے جو مخلصانہ توبہ کے ذریعے سے اپنے کو اللہ تعالیٰ کی رحمت کا حق دار بنا لیں گے۔ وہ دن پیغمبر (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور اس کے مخلص ساتھیوں کی سرفرازی کا دن ہوگا اللہ تعالیٰ ان کے نور کو کامل کرے گا۔ باقی سب محروم و نامراد ہوں گے۔ (٩۔ ١٣) پیغمبر (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو پر زور الفاظ میں تاکید کہ کفارو منافقین کو پوری سختی کے ساتھ جھنجوڑ کر سنا دو کہ اگر انہوں نے اپنی روش نہ بدلی تو وہ اپنا ٹھکانہ جہنم ہی میں بنائیں گے اور وہ نہایت برا ٹھکانہ ہے۔ آخر میں کفار کے سامنے حضرت نوح ( علیہ السلام) و حضرت لوط ( علیہ السلام) کی بیویوں کی مثال اور مسلمانوں کے سامنے فرعون کی بیوی اور حضرت مریم ( علیہ السلام) کی مثالیں پیش کر کے یہ حقیقت واضح فرمائی ہے کہ اللہ تعالیٰ کے ہاں کام آنے والی چیز آدمی کا اپنا ایمان و عمل ہے۔ اگر یہ چیز موجود نہ ہو تو حضرت نوح ( علیہ السلام) و حضرت لوط ( علیہ السلام) جیسے جلیل القدر نبیوں کی بیویاں ہونا بھی کوئی نفع پہنچانے والی چیز نہیں ہے اور اگر یہ چیز موجود ہو تو فرعون کی بیوی ہو کر بھی ایک عورت آخرت کے بلند سے بلند جرجات کی حق دار ہو سکتی ہے۔
Top