تفہیم القرآن - سید ابو الاعلیٰ مودودی
سورۃ الفاتحة - تعارف
نام
اس کا نام " الفاتحہ " اس کے مضمون کی مناسبت سے ہے۔ " فاتحہ " اس چیز کو کہتے ہیں جس سے کسی مضمون یا کتاب یا کسی شے کا افتتاح ہو۔ دوسرے الفاظ میں یوں سمجھیے کہ یہ نام " دیباچہ " اور آغاز کلام کے ہم معنی ہے۔

زمانہ ٴنزول
یہ نبوت محمدی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے بالکل ابتدائی زمانہ کی سورت ہے۔ بلکہ معتبر روایات سے معلوم ہوتا ہے کہ سب سے پہلی مکمل سورت جو محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر نازل ہوئی وہ یہی ہے۔ اس سے پہلے صرف متفرق آیات نازل ہوئی تھیں جو سورة علق، سورة مزمل، اور سورة مدثر وغیرہ میں شامل ہیں۔

مضمون
دراصل یہ سورة ایک دعا ہے جو خدا نے ہر اس انسان کو سکھائی ہے جو اس کتاب کا مطالعہ شروع کر رہا ہو۔ کتاب کی ابتدا میں اس کو رکھنے کا مطلب یہ ہے کہ اگر تم واقعی اس ٢٢٢ کتاب سے فائدہ اٹھانا چاہتے ہو تو پہلے خداوند عالم سے یہ دعا کرو۔ انسان فطرةً دعا اسی چیز کی کیا کرتا ہے جس کی طلب اور خواہش اس کے دل میں ہوتی ہے، اور اسی صورت میں کرتا ہے جبکہ اسے یہ احساس ہو کہ اس کی مطلوب چیز اس ہستی کے اختیار میں ہے جس سے وہ دعا کر رہا ہے۔ پس قرآن کی ابتدا میں اس دعا کی تعلیم دے کر گویا انسان کو یہ تلقین کی گئی ہے کہ وہ اس کتاب کو راہ راست کی جستجو کے لیے پڑھے، طالب حق کی سی ذہنیت لے کر پڑھے، اور یہ جان لے کہ علم کا سرچشمہ خداوند عالم ہے، اس لیے اسی سے راہنمائی کی درخواست کرکے پڑھنے کا آغاز کرے۔ اس مضمون کو سمجھ لینے کے بعد یہ بات خود واضح ہوجاتی ہے کہ قرآن اور سورة فاتحہ کے درمیان حقیقی تعلق کتاب اور اس کے مقدمے کا سا نہیں بلکہ دعا اور جواب دعا کا سا ہے۔ سورة فاتحہ ایک دعا ہے بندے کی جانب سے، اور قرآن اس کا جواب ہے خدا کی جانب سے۔ بندہ دعا کرتا ہے کہ اے پروردگار ! میری رہنمائی کر۔ جواب میں پروردگار پورا قرآن اس کے سامنے رکھ دیتا ہے کہ یہ ہے وہ ہدایت و رہنمائی جس کی درخواست تو نے مجھ سے کی ہے۔
Top