Aasan Quran - Al-Kahf : 24
اِلَّاۤ اَنْ یَّشَآءَ اللّٰهُ١٘ وَ اذْكُرْ رَّبَّكَ اِذَا نَسِیْتَ وَ قُلْ عَسٰۤى اَنْ یَّهْدِیَنِ رَبِّیْ لِاَقْرَبَ مِنْ هٰذَا رَشَدًا
اِلَّآ : مگر اَنْ : یہ کہ يَّشَآءَ : چاہے اللّٰهُ : اللہ وَاذْكُرْ : اور تو یاد کر رَّبَّكَ : اپنا رب اِذَا : جب نَسِيْتَ : تو بھول جائے وَقُلْ : اور کہہ عَسٰٓي : امید ہے اَنْ يَّهْدِيَنِ : کہ مجھے ہدایت دے رَبِّيْ : میرا رب لِاَقْرَبَ : بہت زیادہ قریب کی مِنْ هٰذَا : اس سے رَشَدًا : بھلائی
ہاں (یہ کہو کہ) اللہ چاہے گا تو (کرلوں گا) (18) اور جب کبھی بھول جاؤ تو اپنے رب کو یاد کرلو، اور کہو : مجھے امید ہے کہ میرا رب کسی ایسی بات کی طرف رہنمائی کردے جو ہدایت میں اس سے بھی زیادہ قریب ہو۔ (19)
18: جب آنحضرت ﷺ سے اصحاب کہف اور ذوالقرنین کے بارے میں سوال کیا گیا تھا، اس وقت آپ نے سوال کرنے والوں سے ایک طرح کا وعدہ کرلیا تھا کہ میں اس سوال کا جواب کل دوں گا، اس وقت آپ انشاء اللہ کہنا بھول گئے تھے اور آپ کو یہ امید تھی کہ کل تک وحی کے ذریعے آپ کو ان واقعات سے باخبر کردیا جائے گا، اس واقعے کی طرف اشارہ کرتے ہوئے اللہ تعالیٰ نے یہ مستقل ہدایت عطا فرمائی کہ کسی بھی مسلمان کو آئندہ کے بارے میں کوئی بات انشاء اللہ کہے بغیر نہیں کہنی چاہیے، بعض روایات سے معلوم ہوتا ہے کہ اس معاملہ میں چونکہ آپ نے انشاء اللہ نہیں فرمایا تھا اس لئے اگلے روز وحی نہیں آئی ؛ بلکہ کئی روز کے بعد وحی آئی اور اس میں یہ ہدایت بھی دی گئی۔ 19:: اگرچہ اصحاب کہف کا واقعہ سوال کرنے والوں نے آنحضرت ﷺ کی نبوت کی دلیل کے طور پر پوچھا تھا، اس آیت میں فرمایا جارہا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے آپ کو نبوت کے اور بھی دلائل عطا فرمائے ہیں جو اصحاب کہف کا واقعہ سنانے سے زیادہ واضح ہیں۔
Top