Baseerat-e-Quran - Al-Maaida : 114
وَ اِذْ قَالَ اللّٰهُ یٰعِیْسَى ابْنَ مَرْیَمَ ءَاَنْتَ قُلْتَ لِلنَّاسِ اتَّخِذُوْنِیْ وَ اُمِّیَ اِلٰهَیْنِ مِنْ دُوْنِ اللّٰهِ١ؕ قَالَ سُبْحٰنَكَ مَا یَكُوْنُ لِیْۤ اَنْ اَقُوْلَ مَا لَیْسَ لِیْ١ۗ بِحَقٍّ١ؐؕ اِنْ كُنْتُ قُلْتُهٗ فَقَدْ عَلِمْتَهٗ١ؕ تَعْلَمُ مَا فِیْ نَفْسِیْ وَ لَاۤ اَعْلَمُ مَا فِیْ نَفْسِكَ١ؕ اِنَّكَ اَنْتَ عَلَّامُ الْغُیُوْبِ
وَاِذْ : اور جب قَالَ : کہا اللّٰهُ : اللہ يٰعِيْسَى : اے عیسیٰ ابْنَ مَرْيَمَ : ابن مریم ءَاَنْتَ : کیا۔ تو قُلْتَ : تونے کہا لِلنَّاسِ : لوگوں سے اتَّخِذُوْنِيْ : مجھے ٹھہرا لو وَاُمِّيَ : اور میری ماں اِلٰهَيْنِ : دو معبود مِنْ : سے دُوْنِ : سوا اللّٰهِ : اللہ قَالَ : اس نے کہا سُبْحٰنَكَ : تو پاک ہے مَا : نہیں يَكُوْنُ : ہے لِيْٓ : میرے لیے اَنْ : کہ اَقُوْلَ : میں کہوں مَا لَيْسَ : نہیں لِيْ : میرے لیے بِحَقٍّ : حق اِنْ : اگر كُنْتُ قُلْتُهٗ : میں نے یہ کہا ہوتا فَقَدْ عَلِمْتَهٗ : تو تجھے ضرور اس کا علم ہوتا تَعْلَمُ : تو جانتا ہے مَا : جو فِيْ : میں نَفْسِيْ : میرا دل وَ : اور لَآ اَعْلَمُ : میں نہیں جانتا مَا : جو فِيْ نَفْسِكَ : تیرے دل میں اِنَّكَ : بیشک تو اَنْتَ : تو عَلَّامُ : جاننے والا الْغُيُوْبِ : چھپی باتیں
(اللہ تعالیٰ سوال فرمائیں گے) اے عیسیٰ (علیہ السلام) ابن مریم ۔ کیا تم نے لوگوں سے کہا تھا کہ اللہ کو چھوڑ کر مجھے اور میری والدہ کو اپنا معبود بنا لو (تو عیسیٰ (علیہ السلام) کہیں گے) اے اللہ آپ کی ذات پاک ہے۔ یہ کس طرح ممکن ہو سکتا تھا کہ میں ایسی بات کہتا جس کے کہنے کا مجھے حق حاصل نہ تھا اور اگر میں نے ایسی بات کہی ہوگی تو یقیناً آپ کو علم ہوگا۔ جو کچھ میرے دل میں ہے ۔ آپ تمام پوشیدہ حقیقتوں کا ابدی علم رکھتے ہیں ۔
آیت نمبر 116 تا 118 لغات القرآن : ءانت (کیا تو نے) ۔ قلت (تو نے کہا تھا) ۔ اتخذونی (مجھے بنا لو) ۔ امی (میری ماں) ۔ الھین (دونوں معبود ) ۔ سبحنک (تیری ذات پاک ہے۔ بےعیب ہے) ۔ مایکون (نہیں ہے) ۔ لیس (نہیں ہے) ۔ لا اعلم (میں نہیں جانتا) ۔ امرتنی (تو نے مجھے حکم دیا تھا) ۔ مادمت (جب تک میں رہا) ۔ حی (زندہ) ۔ فلما (پھر جب) ۔ توفیت (تو نے اٹھالیا) ۔ الرقیب (نگران، نگہبان) ۔ ان تعذب (اگر تو نے عذاب دیا) ۔ عبادک (تیرے بندے) ۔ ان تغفر (اگر تو نے معاف کردیا) ۔ تشریح : یہ سوالات قیامت کے دن پوچھے جائیں گے جب کہ تمام انبیاء اپنی اپنی امتوں کے ساتھ موجود ہوں گے۔ یہ سوال و جواب حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کے ساتھ اس لئے ہوگا کہ ان کی تمام امت سن لے کہ تثلیث کا عقیدہ حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کی طرف سے نہیں آیا ہے۔ یہ عقیدہ سیکڑوں سال کے بعد گھڑا گیا ہے۔ اور خود وہ جسے لوگوں نے تین معبودوں میں سے ایک اور اللہ کا بیٹا بنا لیا ہے۔ اس قسم کے واہیات خرافات سے صاف انکار کر رہے ہیں۔ اس دھمکی کے بعد جو پچھلی آیت میں خوان نعمت کے سلسلہ میں اللہ نے امت عیسوی کو دی ہے، اب کون سا جواز رہ جاتا ہے کہ وہ سخت ترین عذاب سے بچین گے۔ اس گفتگو میں حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) نے تین طرح سے اپنی براءت ظاہر کی ہے۔ (1) مجھے کس طرح جائز تھا کہ حقیقت کے خلاف بات کہتا کہ اپنے معبود حقیقی کے بجائے اپنے آپ کو معبود قرار دے دیتا۔ ثبوت یہ پیش کیا اگر میں نے ایسی بات کہی ہوتی تو آپ کے علم سے وہ ہرگز پوشیدہ نہ رہتی اور آپ خود جانتے ہیں کہ ایسی بات وجود ہی میں نہیں آئی۔ (2) میں نے یہی کہا اے لوگو ! اللہ کی بندگی کرو جو میرا بھی رب ہے اور تمہارا بھی رب ہئ۔ یعنی ہم تم اللہ کے یکساں بندے ہیں ۔ بندہ الٰہ کیسے ہوسکتا ہے۔ (3) جب تک میں ان کے درمیان رہا میں ان سے باخبر رہا یعنی ایسا کوئی عقیدہ کسی کے دل میں یا زبان پر نہیں آیا۔ یہ عقیدہ تثلیث سینکڑوں سال بعد تصنیف ہوا ہے۔ حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) نے اپنی امت کے لئے معانی کی سفارش بھی کی ہے۔ لیکن تحت اللفظ اور بڑی دانائی سے۔ اس جگہ ایک لفظ آیا ہے۔ ” توفیتنی “ جس کا ترجمہ یہ ہے کہ ” جب تو نے مجھے وفات دی “ ۔ اس لفظ سے قادیانیوں نے اس بات کو ثابت کرنے کی کوشش کی ہے کہ حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) (نعوذ باللہ) آسمانوں پر نہیں ہیں۔ بلکہ ان کی وفات ہوچکی ہے۔ اور وہ کشمیر میں دفن ہیں۔ اس کا جواب یہ ہے کہ قرآن کریم کی آیات اور احادیث اور امت کے عقیدے کے مطابق حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کو اللہ نے اپنی قدرت سے آسمانوں پر اٹھالیا ہے۔ جہاں وہ حیات ہیں اور قیامت کے قریب وہ دنیا میں تشریف لاکر صلیب کو توڑیں گے۔ اور عیسائیوں کے عقیدہ کی گندگی کو دور فرمائیں گے۔ پھر وہ دنیا میں زندہ رہ کر طبعی زندگی گزار کر وفات پائیں گے۔ احادیث سے ثابت ہے کہ حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کو مدینہ منورہ میں نبی مکرم ﷺ کے پہلو میں دفن کیا جائے گا۔ اس کے بعد اللہ کے علم کے مطابق قیامت قائم ہوگی۔ اور پھر قیامت کے دن پر گفتگو ہوگی اور اس وقت آسمان سے نزول کے بعد آپ کو حقیقی موت حاصل ہوچکی ہوگی اس لئے اس سے حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کی موت اور رفع سماء کے انکار پر استدلال بالکل فضول ہے۔ قادیانیوں کے اس عقیدے کی کوئی بنیادی نہیں ہے الحمدللہ ہمارے علماء حق نے اس کے مدلل جوابات پر سینکڑوں کتابیں لکھی ہیں۔ جن کو دیکھا جاسکتا ہے۔ اور قادیانیوں کے جھوٹ کا پردہ چاک ہو سکتا ہے۔ میں تو اس جگہ صرف اتنا ہی عرض کروں گا کہ قرآن کریم کے کسی لفظ کو لے کر اس کا من مانا ترجمہ کرنا جائز نہیں ہے کیونکہ الفاظ قرآن کی وہی تشریح معتبر ہے۔ جس طرح نبی کریم ﷺ نے فرما دی ہے۔ اور اس حقیقت سے انکار ممکن نہیں ہے کہ نبی کریم ﷺ نے کہیں یہ نہیں فرمایا کہ حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) وفات پاچکے ہیں بلکہ سیکڑوں احادیث اس پر گواہ ہیں کہ اللہ نے حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کو آسمان کی طرف اٹھالیا ہے۔ اس پر صحابہ کرام ؓ اور علماء دین کا پختہ عقیدہ ہے جو وفات مسیح کے قائل نہیں ہیں بلکہ رفع عیسیٰ (علیہ السلام) کے قائل ہیں۔
Top