Ahkam-ul-Quran - Al-Kahf : 10
اِذْ اَوَى الْفِتْیَةُ اِلَى الْكَهْفِ فَقَالُوْا رَبَّنَاۤ اٰتِنَا مِنْ لَّدُنْكَ رَحْمَةً وَّ هَیِّئْ لَنَا مِنْ اَمْرِنَا رَشَدًا
اِذْ : جب اَوَى : پناہ لی الْفِتْيَةُ : جوان (جمع) اِلَى : طرف۔ میں الْكَهْفِ : غار فَقَالُوْا : تو انہوں نے کہا رَبَّنَآ : اے ہمارے رب اٰتِنَا : ہمیں دے مِنْ لَّدُنْكَ : اپنی طرف سے رَحْمَةً : رحمت وَّهَيِّئْ : اور مہیا کر لَنَا : ہمارے لیے مِنْ اَمْرِنَا : ہمارے کام میں رَشَدًا : درستی
جب وہ جوان غار میں جا رہے تو کہنے لگے کہ اے ہمارے پروردگار ہم پر اپنے ہاں سے رحمت نازل فرما اور ہمارے کام میں درستی (کے سامان) مہیا کر۔
دین کے معاملے میں فتنے سے بچنا قول باری ہے (اذ اوی الفتیۃ الی الکھف فقالوا ربنا اتنا من لدنک رحمۃ وھتی لنا من امرنا رشداً ۔ ) جب وہ چند نوجوان غار میں پناہ گزین ہوئے اور انہوں نے کہا۔ اے پروردگار ! ہم کو اپنی رحمت خاص سے نوازا اور ہمارا معاملہ درست کر دے) اس میں یہ دلالت موجود ہے کہ اگر کسی انسان کو اپنے دین کے معاملے میں فتنہ کا خوف پیدا ہوجائے تو وہ اپنا دین بچانے کے لئے اس جگہ سے دور چلا جائے اور وہاں جا کر کلمہ کفر کے اظہار کی آزمائش میں اپنے آپ کو نہ پھنسا دے خواہ یہ اظہار تقیہ یعنی جان بچانے کی خاطر ہی کیوں نہ ہو۔ نیز یہ دلالت بھی ہو رہی ہے کہ جب فتنہ سے بچنے کے لئے ایک شخص اپنا دین لے کر نکل جائے تو وہ اللہ سے دعا مانگے جس کی حکایت اللہ تعالیٰ نے اصحاب کہف کے سلسلے میں کی ہے۔ اس لئے کہ اللہ تعالیٰ کو اصحاب کہف کا یہ فعل پسند آگیا تھا اور ان کی دعا قبول کرلی تھی۔ اسی پسندیدگی کی وجہ سے اللہ تعالیٰ نے اصحاب کہف کا سارا واعہ ہم سے بیان فرمایا۔
Top