Ahkam-ul-Quran - Al-Kahf : 23
وَ لَا تَقُوْلَنَّ لِشَایْءٍ اِنِّیْ فَاعِلٌ ذٰلِكَ غَدًاۙ
وَلَا تَقُوْلَنَّ : اور ہرگز نہ کہنا تم لِشَايْءٍ : کسی کام کو اِنِّىْ : کہ میں فَاعِلٌ : کرنیوالا ہوں ذٰلِكَ : یہ غَدًا : گل
اور کسی کام کی نسبت نہ کہنا کہ میں اسے کل کردوں گا۔
قسم میں استناء کا بیان قول باری ہے (ولا تقولن لشای انی فاعل ذلک غداً الا ان یشآء اللہ اور کسی چیز کے بارے میں کبھی یہ نہ کہا کرو کہ میں کل یہ کام کروں گا (تم کچھ نہیں کرسکتے) الا یہ کہ اللہ چاہے ) ابوبکر جصاص کہتے ہیں کہ اس قسم کا استثناء کلام کے حکم کو رفع کرنے کے لئے کلام میں داخل ہوتا ہے اور پھر کلام کے حکم کا وجود اور عدم دونوں یکساں ہوجاتے ہیں۔ وہ اس طرح کہ اللہ تعالیٰ نے حضور ﷺ کو اللہ کی مشیت کے ساتھ استثناء کرنے کی تلقین فرمائی تاکہ آپ اپنی قسم میں کاذب نہ قرار دیئے جائیں یہ چیز ہماری اس بات پر دلالت کرتی ہے جو ہم نے ایسے کلام کے حکم کے متعلق ابھی بیان کی ہے۔ اس پر وہ قول باری بھی دلالت کرتا ہے جو حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کے قول کو نقل کرتے ہوئے ارشاد ہوا ہے (ستجدنی ان شاء اللہ صابراً اگر اللہ چاہے تو آپ مجھے صابر پائیں گے) حضرت موسیٰ (علیہ السلام) نے صبر نہیں کیا بلکہ حضرت خضر (علیہ السلام) کے ہر فعل پر انہیں ٹوکا لیکن اس کے باوجود آپ کو جھوٹا قرار نہیں دیا گیا کیونکہ آپ کے کلام میں استثناء موجود تھا۔ یہ چیز ہماری درج بالا سطور میں بیان کردہ بات پر دلالت کرتی ہے کہ استثناء کا دخول کلام کے حکم کو رفع کرنے کے لئے ہوتا ہے۔ اس سے یہ بات واجب ہوگئی کہ اس کے حکم میں کوئی فرق نہیں ہونا چاہیے خواہ یہ قسم پر داخل ہوا ہو یا عتاق پر یا ایقاع طلاق پر ایوب نے نافع سے اور انہوں نے حضرت ابن عمر سے روایت کی ہے کہ حضور ﷺ نے فرمایا (من حلف علی یمین فقال ان شاء اللہ فلاح حنث علیہ جس شخص نے اپنی قسم کے ساتھ ان شاء اللہ کہہ دیا نہ وہ حانث نہیں ہوگا) روایت کے بعض طرق میں ہے (فقد استثنیٰ اس نے استثناء کردیا) ابوبکر جصاص کہتے ہیں کہ حضور ﷺ نے اس ارشاد میں یمین یعنی قسم کی مختلف صورتوں میں کوئی فرق نہیں کیا اس لئے اسے ان تمام صورتوں پر محمول کیا جائے گا۔ حضرت عبداللہ بن مسعود سے اس سلسلے میں اسی قسم کا قول منقول ہے ۔ عطاء ، طائوس، مجاہد اور ابراہیم نخعی کا قول ہے ہر چیز میں استثناء ہوسکتا ہے۔ ” انشاء اللہ تجھے طلاق “ والی روایت ضعیف ہے اسماعیل بن عیاش نے حمید بن مالک اللخمی سے، انہوں نے مکحول سے اور انہوں نے حضرت معاذ بن جبل سے روایت کی ہے کہ حضور ﷺ نے فرمایا (اذا قال الرجل لعبدہ انت حران شاء اللہ فھو حر و اذقال لامرأتہ انت طالق ان شاء اللہ فلیست بمطابق ۔ جب کوئی شخص اپنے غلام سے کہے کہ تو آزاد ہے اور ساتھ ہی انشاء اللہ بھی کہہ دے تو غلام آزاد ہوجائے گا اور اگر اپنی بیوی سے کہے کہ انشاء اللہ تجھے طلاق ہے تو اس پر طلاق واقع نہیں ہوگی) ابوبکر جصاص کہتے ہیں کہ یہ ایک شاذ و روایت ہے اس کی سند بھی انتہائی ضعیف اور اہل علم کے نزدیک یہ معمول بہ بھی نہیں ہے۔ استثناء کی صحت پر اہل علم کا اتفاق ہے لیکن اس وقت کے بارے میں اختلاف ہے جس میں استثناء درست ہوتا ہے اس کے متعلق اہل علم کے تین اقوال ہیں۔ حضرت ابن عباس، مجاہد ، سعید بن جبیر اور ابوالعالیہ کا قول ہے کہ اگر ایک شخص ایک سال کے بعد استثناء کرتا ہے تو اس کا استثناء درست ہوگا۔ حسن بصری اور طائوس کا قول ہے کہ جب تک اس جگہ بیٹھا رہے جہاں اس نے فقرہ کہا ہو اس وقت تک اس فقرے میں استثناء کرنا درست ہوگا۔ ابراہیم نخعی، عطاء بن ابی رباح اور شعبی کا قول ہے کہ صرف وہی استثناء درست ہوتا ہے جو کلام کے ساتھ متصل ہو۔ ابراہیم نخعی سے مروی ہے کہ ایک شخص قسم کھا کر کوئی بات کہتا ہے اور اپنے دل میں اس کے اندر استثناء کر لیت ا ہے تو اس کا یہ استثناء درست نہ ہ وگا جب تک وہ اونچی آواز میں اسے نہیں کہے گا جس طرح اس نے اونچی آواز میں قسمیہ فقرہ کہا تھا۔ ہمارے نزدیک ابراہیم نخعی کا یہ قول اس معنی پر محمول ہے کہ اگر یہ شخص یہ دعویٰ کرے گا کہ اس نے استثناء کرلیا تھا تو عدلات اس کے اس دعوے کی تصدیق نہیں کرے گی جب کہ اس کی قسم کو لوگوں نے سنا تھا اور استثناء کسی نے نہیں سنا۔ ہمارے اصحاب اور دوسرے تمام فقہاء کا قول ہے کہ استثناء اسی وقت درست ہوگا جبکہ یہ کلام کے ساتھ متصل ہوگا اس لئے کہ استثناء کی حیثیت شرط جیسی ہوتی ہے اور شرط صرف ایسی صورت میں درست ہوتی اور اس کا حکم اسی وقت ثابت ہوتا ہے جب یہ کسی فصل کے بغیر کلام کے ساتھ ملحق کردی جائے۔ طلاق کہنے کے انداز مثلاً کوئی شخص اپنی بیوی کو کہے ” انت طالق ان دخلت السداد “ (اگر تو گھر میں داخل ہوئی تو تجھے طلاق لیکن اگر اس نے پہلے ” انت طالق “ کہا پھر خاموش ہوگیا اور اس کے بعد ” ان دخلت الداد کیا تو اب طلاق کا تعلق گھر میں داخل ہونے کے ساتھ نہیں ہوگا۔ اگر یہ بات جائز ہوتی تو پھر اپنی بیوی سے یہ کہنا بھی جائز ہوتا ” ان طالق ثلاثاً (تمہیں تین طلاق) پھر ایک سال کے بعد کہتا ” انشاء اللہ “ اس صورت میں طلاق باطل ہوجاتی اور پہلے شوہر کے ساتھ نکاح کی اباحت کے لئے اسے کسی اور مرد سے نکاح کرنے کی ضرورت نہ ہوتی۔ لیکن اللہ تعالیٰ نے تین طلاقوں کی وجہ سے شوہر پر اس کی مطلقہ بیوی کو حرام کردیا اور تحلیل کی صورت یہ رکھی کہ وہ کسی اور مرد سے نکاح کرے اور اس سے طلاق حاصل کرنے کے بعد پھر پہلے شوہر کے عقد میں آئے، اس حکم میں سکوت کے بعد استثناء کے بطلان پر دلالت موجود ہے۔ بیوی کو طلاق دینے کی صورت میں جب یہ بات درست ہوگئی کہ اس میں استثناء صرف اس شکل میں درست ہوتا ہے جب یہ کلام کے ساتھ متصل ہو تو قسم کی صورت میں بھی اس کا یہی حکم ہوگا۔ نیز اللہ تعالیٰ نے حضرت ایوب (علیہ السلام) کے بارے میں یہ ذکر فرمایا ہے کہ انہوں نے اپنی بیوی کے متعلق یہ قسم کھائی تھی کہ اگر بیماری سے صحت حاصل ہوجائے گی تو اس کی پٹائی کروں گا۔ اللہ تعالیٰ نے انہیں حکم دیا کہ گھسا کا ایک مٹھا ہاتھ میں لے کر بیوی کو ماریں اور اپنی قسم نہ توڑیں ۔ اگر قسم کھانے کے بعد وقفہ ڈال کر استثناء کرنا درست ہوتا تو اللہ تعالیٰ حضرت ایوب (علیہ السلام) کو استثناء کرنے کا حکم دے دیتا اور انہیں اپنی بیوی کو گھاس کے میٹھے وغیرہ کے ذریعے مارنے کی ضرورت باقی نہ رہتی۔ قسم توڑنے کا بیان اس پر حضور ﷺ کا یہ ارشاد بھی دلالت کرتا ہے (من حلف علی یمین فرأی غیرھا خیراً منھا قلیات الذی ھو خیرولیکفرعن یمینہ جو شخص کسی چیز کے متعلق قسم کھا بیٹھے اور پھر اسے دوسری صورت بہتر نظر آئے تو اسے چائے کہ دوسری صورت اختیار کرے اور اپنی قسم کا کفارہ ادا کر دے ) اگر قسم کھانے کے بعد وقفہ ڈال کر استثناء کرنا درست ہوتا تو آپ اسے استثناء کرلینے کا حکم دیتے اور پھر اسے کفارہ ادا کرنے کی ضرورت نہ رہتی۔ آپ نے یہ فرمایا ہے (انی ان شاء اللہ لا احلف علی یمین فاری غیرھا خیراً منھا الا اتیت الذی ھو خیرو کفرت عن یمینی، میں انشاء اللہ کسی چیز کے متعلق قسم کھانے کے بعد اگر دوسری صورت کو اسے بہتر دیکھتا ہوں تو یہ صورت اختیار کر کے اپنی قسم کا کفارہ ادا کردیتا ہوں) آپ نے یہ نہیں فرمایا کہ ” دوسری صورت کو بہتر دیکھ کر انشاء اللہ کہہ کے اسے اختیار کرلیتا ہوں۔ “ اگر یہ کہا جائے کہ قیس نے سماک سے اور انہوں نے عکرمہ سے روایت کی ہے کہ حضور ﷺ نے ایک دفعہ فرمایا :” بخدا میں قریش کے خلاف جنگ کروں گا، بخدا میں قریش کے خلاف جنگ کروں گا۔ “ اس کے بعد آپ خاموش ہوگئے اور ایک گھڑی خاموش رہنے کے بعد فرمایا۔” انشاء اللہ “ آپ نے سکوت فرمانے کے بعد استثناء کیا۔ اس کے جواب میں کہا جائے گا ، شریک نے یہی روایت سماک سے کی ہے اور انہوں نے حضور ﷺ سے کہ آپ نے تین دفعہ فرمایا :” بخدا میں قریش کے خلاف جنگ کروں گا تیسری دفعہ یہ فرماتے ہوئے آپ نے انشاء اللہ کہا۔ سماک نے یہ بتایا کہ آپ نے ان فقروں کے آخر میں استثناء کیا اور یہ چیز انشاء اللہ کو قسم کے ساتھ متصل ذکر کرنے کی مقتضی ہے۔ یہ روایت اس وجہ کی بن اپر جس کا ہم نے اپور ذکر کیا ہے اولیٰ ہے۔ اس روایت میں یہ دلالت بھی موجود ہے کہ اگر کوئی شخص بہت سی قسمیں کھائے اور آخری قسم کے ساتھ استثناء کا ذکر کر دے تو یہ استثناء تمام قسموں کی طرف راجع ہوگا۔ حضرت ابن عباس اور آپ کے ہم مسلک حضرات نے قسم کھانے کے بعد وقفہ ڈال کر استثناء کرنے کے جواز پر قول باری صولا تقولن لشای انی فاعل ذلک غداً الا ان یشآء اللہ واذکر ربک اذا نسیت) سے استدلال کیا ہے۔ ان حضرات نے قول باری (واذکر ربک اذا نسیت ) کو استثناء پر محمول کیا ہے لیکن یہ تاویل غیر ضروری ہے اس لئے کہ قول باری (واذکر ربک اذا نسیت) کے متعلق یہ کہنا درست ہے کہ اس کے ذریعے ایک نئے مضمون کی ابتداء کی گئی ہے اور یہ فقرہ ایک نئے کلام کی حیثیت رکھتا ہے اور ماقبل کے ساتھ اس کی تنظمین کے بغیر یہ مستقل بالذات ہے جس کلام کی یہ حیثیت ہو کسی اور کلام کے ساتھ اس کی تظمین جائز نہیں ہے۔ ثابت نے عکرمہ سے اس فقرے کی تفسیر میں روایت کی ہے کہ ” جب تمہیں غصہ آ جائے “ اس تفسیر سے یہ بات ثابت ہوگئی کہ اللہ تعالیٰ نے اس فقرے کے ذریعے یاد الٰہی کے حکم کا ارادہ کیا ہے نیز یہ کہ سہو اور غفلت کی صورت میں یاد الٰہی کے اندر پناہ حاصل کی جائے۔ تفسیر میں یہ بھی مروی ہے کہ قول باری صولا تقولن لشایء انی فاعل ذلک غداً الا ان یشاء اللہ ) کا نزول اس سلسلے میں ہوا تھا کہ قریش نے حضور ﷺ سے اصحاب کہف اور ذوالقرنین کے متعلق سوال کیا تھا اور آپ نے جواب میں فرمایا تھا کہ ” میں ت م لوگوں کو جلد اس بارے میں بتادوں گا۔ “ پھر یہ ہوا کہ حضرت جبرئیل (علیہ السلام) کئی دنوں تک آپ کے پاس وحی سے کر نہیں آئے، کئی دن گزر جانے کے بعد حضرت جبرئیل (علیہ السلام) قریش کے سوال کا جواب بصورت وحی لے کر آئے۔ اس کے بعد اللہ ت عالیٰ نے حضور ﷺ کو یہ حکم دیا کہ آپ مستقبل کے کسی کام کے متعلق علی الاطلاق کوئی بات نہ کہیں۔ اگر کہیں تو اسے اللہ کی مشیت کے ساتھ مشروط و مقرون کر کے ہمیں اسی سلسلے کی ایک اور روایت ہے جسے ہشام بن حسا ن نے ابن سیرین سے اور انہوں نے حضرت ابوہریرہ سے نقل کی ہے کہ حضو ر ﷺ نے فرمایا : سلیمان بن دائود (علیہما السلام) نے ایک دفعہ کہا۔ آج رتا میں سو بیویوں کے ساتھ ہمبستری کروں گا، ہر بیوی کے ہاں ایک لڑکا پیدا ہوگا جو بڑا ہو کر اللہ کی راہ میں شمشیر زنی کے جوہر دکھائے گا۔ “ انہوں نے اس کے ساتھ انشاء اللہ نہیں کہا جس کے نتیجے میں صرف ایکبیوی کے سوا کسی بیوی سے کوئی بچہ پیدا نہیں ہو اور جس بیوی کے ہاں ب چہ پیدا ہو ! وہ بھی آدھا انسان تھا۔ “ یعنی تام الخلقت نہیں تھا۔
Top