Ahkam-ul-Quran - Al-Baqara : 181
فَمَنْۢ بَدَّلَهٗ بَعْدَ مَا سَمِعَهٗ فَاِنَّمَاۤ اِثْمُهٗ عَلَى الَّذِیْنَ یُبَدِّلُوْنَهٗ١ؕ اِنَّ اللّٰهَ سَمِیْعٌ عَلِیْمٌؕ
فَمَنْ : پھر جو بَدَّلَهٗ : بدل دے اسے بَعْدَ : بعد مَا : جو سَمِعَهٗ : اس کو سنا فَاِنَّمَآ : تو صرف اِثْمُهٗ : اس کا گناہ عَلَي : پر الَّذِيْنَ : جو لوگ يُبَدِّلُوْنَهٗ : اسے بدلا اِنَّ : بیشک اللّٰهَ : اللہ سَمِيْعٌ : سننے والا عَلِيْمٌ : جاننے والا
جو شخص وصیت کو سننے کے بعد بدل ڈالے تو اس (کے بدلنے) کا گناہ انہیں لوگوں پر ہے جو اس کو بدلیں (اور) بیشک خدا سنتا جانتا ہے۔
وصیت تبدیل کرنے کا بیان ارشاد باری ہے : فمن بدلہ بعد ما سمعہ فانما اتمہ علی الذین یبدلونہ پھر جنہوں نے وصیت سنی اور بعد میں اسے بدل ڈالا تو اس کا گناہ ان بدلنے والوں پر ہوگا) نیز قول باری : فمن بدلہ میں ہائے ضمیر وصیت کی طرف راجع ہے، اس کے لیے مذکر ضمیر جائز ہے۔ کیونکہ وصیت اور ایصاء دونوں ایک ہی چیز ہیں۔ قول باری : اثمُہ میں ہائے ضمیر تبدیل کی طرف راجع ہے جس پر قول باری : فمن بدلہ سے دلالت ہو رہی ہے۔ قول باری : فمن بدلہ بعد ما سمعہ میں احتمال ہے کہ اس سے مراد وہ شخص ہے جو وصیت پر گواہ ہو۔ اس صورت میں آیت میں اسے وصیت تبدیل کرنے سے روکا گیا ہے۔ جس طرح یہ قول باری ہے : ذلک ادنی ان یا تو باشھادہ علی وجھھا ( اس طریقے سے زیادہ توقع کی جاسکتی ہے کہ لوگ ٹھیک ٹھیک شہادت دیں گے) زیر بحث آیت میں یہ بھی احتمال ہے کہ اس سے وصی مراد ہو کیونکہ وہی اس وصیت کو جاری کرنے کا نگران اور اس کی تنقید کا مال ہوتا ہے اور اسی بنا پر وصیت تبدیل کرنے کا موقعہ اسے میسر ہوتا ہے۔ یہ بات بعید ہے کہ آیت میں تمام لوگ مراد ہوں کیونکہ اس معاملے میں انہیں کوئی دخل نہیں ہوتا اور نہ ہی اس سلسلے میں انہیں کسی تصرف کا حق ہوتا ہے۔ ہمارے نزدیک آیت مذکورہ بالا پہلے دو معنوں، یعنی گواہ اور وصی پر محمول ہے، کیونکہ آیت میں ان دونوں کا احتمال ہے۔ گواہ کی گواہی کی جب ضرورت پڑے تو وہ ٹھیک اسی طرح گواہی دینے کا پابند ہے جس طرح ان سے سنا تھا۔ وہ اس میں کوئی تغیر و تبدل نہیں کرسکتا۔ وصی وصیت کی اسی طرح تنفیذ کا پابند ہے جس طرح اس نے سنا تھا ، بشرطیکہ وصیت کا تعلق ایسی چیز سے ہو جس ک بارے میں وصیت جائز ہے، عطاء اور مجاہد سے مروی ہے کہ انہوں ن کہا : یہی وہ وصیت ہے جو شاہد ولی کو پہنچتی ہو۔ حسن بصری نے کہا ہے : یہی وصیت ہے ، جو شخص وصیت سنے اور سننے کے بعد اسے بدل ڈالے تو اس کا گناہ بدل ڈالنے والے پر ہوگا۔ ابوبکر جصاص کہتے ہیں کہ زیر بحث آیت میں حاکم مراد لینا بھی جائز ہے۔ کیونکہ جب وصیت کا معاملہ اس کے سامنے پیش ہو تو اسے اس پر ولایت حاصل ہوجاتی ہے اور وہ تصرف بھی کرسکتا ہے۔ اس لیے وہ اس وصیت کے نفاذ کا پابند ہوگا اگر یہ جائز ہو اور اسے تبدیل کرنے کی اس کو اجازت نہیں ہوگی۔ آیت میں وصیت کو حق و صداقت کی بنیاد پر جاری اور نافذ کرنے کا حکم دیا گیا ہے۔ قول باری : فمن بدلہ بعد ما سمعہ وصی کی طرف سے وصیت کو اسی طرح جاری کرنے کے جواز کا مقتضی ہے جس طرح اس نے وصی سے یہ وصیت سنی ہو۔ خواہ اس پر گواہ قائم کیے گئے ہوں یا نہ کیے گئے ہوں۔ یہ بات اس امر کی بنیاد اور اصل ہے کہ اگر کوئی شخص ایک بات سنے تو حاکم کے حکم اور گواہوں کی گواہی کے بغیر اس کے لیے عندالامکان اسے اس کے مقتضا اور موجَب کے مطابق جاری کردینا جائز ہے۔ اس میں یہ دلالت بھی موجود ہے کہ اگر مرنے والے نے وصی کے سامنے کسی شخص کے حق دین کا اقرار کیا ہو تو اس کے لیے جائز ہے کہ وارث یا حاکم یا کسی اور کے علم میں لائے بغیر وہ یہ دین ادا کر دے کیونکہ اگر وہ دین کی بات سننے کے بعد اس کی ادائیگی نہیں کرے گا تو اس کی یہ کوتاہی موصی کی وصیت میں تبدیلی کی مترادف ہوگی۔ قول باری : فانما اثمہ علی الذین یبدلونہ کئی معانی کو متضمن ہے۔ ایک معنی تو یہ ہے کہ یہ فقرہ اس فرض شدہ وصیت پر عطف ہے جو والدین اور رشتہ داروں کے لیے تھی اور وہ لا محلہ اس فقرے میں پوشیدہ ہے۔ اگر ایسا نہ ہو تو کلام درست نہیں ہوگا کیونکہ قول باری : فمن بدلہ بعد ما سبعہ فانما اثمہ علی الذین یبدلونہ ایجاب فائدہ کے اعتبار سے مستقل بنفسہ کلام نہیں ہے کیونکہ یہ کنایہ اور ضمیر پر مشتمل ہے جن کے لیے ایک مذکور اور مظہر کا ہونا ضروری ہے ۔ جبکہ آیت میں کوئی مظہر لفظ نہیں ہے سوائے اس کے جس کا ذکر آیت کی ابتدا میں ہے۔ اس وضاحت کے تحت آیت اس امر کا افادہ کرے گی کہ نفس وصیت کے ساتھ موصی کا فرض پورا ہوجاتا ہے اور اگر اس کی موت کے بعد اس وصیت میں کوئی تغیر و تبدل کیا جائے تو اس کا گناہ اسے لاحق نہیں ہوگا۔ آیت میں ان لوگوں کے قول کے بطلان پر دلالت موجود ہے جو اس بات کے قائل ہیں کہ آیا کے گناہوں کی سزا ان کے بچوں کو دی جاسکتی ہے۔ یہ آیت اس قول باری کی نظیر ہے : ولا تکسب کل نفس الا علیھا ولا تزروازرۃ وزرا اخری ( ہر شخص جو بھی کمائے گا اس کی ذمہ داری اس پر ڈالی جائے گی اور کوئی بوجھ اٹھانے والا کسی اور کا بوجھ نہیں اٹھائے گا) آیت میں اس پر بھی دلالت موجود ہے کہ اگر کسی پر قرض کا بوجھ ہو اور وہ اس کی ادائیگی کی وصییت کر جائے تو وہ آخرت کی پکڑ سے بری الذمہ ہوجائے گا۔ اگر اس کے ورثا اس کی موت کے بعد اس کے مذکورہ دین کی ادائیگی نہ کریں تو اسے کوئی گناہ لاحق نہیں ہوگا۔ یہ گناہ اس پر ہوگا جس نے اس وصیت کو بدل ڈالا ہو۔ آیت میں یہ دلالت بھی موجود ہے کہ جس شخص پر اپنے مال میں زکوٰۃ فرض ہو اور پھر اس کی ادائیگی کی وصیت کیے بغیر مرجائے، تو وہ کوتاہی کرنے والا نیز زکوٰۃ نادہندہ شمار ہوگا اور مانعین زکوٰۃ کے حکم کا سزا وار قرار پائے گا۔ اس لیے کہ اگر زکوٰۃ کی ادائیگی اس کے مال میں حلول کر جاتی جس طرح اس کے دیوان ان کے مال میں حلول کر جاتے ہیں تو اس کی حیثیت اس شخص کی طرح ہوجاتی جس نے موت کے وقت زکوٰۃ کی ادائیگی کی وصیت کی ہو۔ پھر وہ زکوٰۃ کی عدم ادائیگی کے گناہ سے بچ جاتا اور وصیت تبدیل کرنے والا اس گناہ کا مستحق قرار پاتا۔ لیکن چونکہ زکوٰۃ کا تحول اس کے مال میں نہیں ہوا اس لیے وہ عدم ادائیگی کے گناہ سے نہیں بچ سکے گا۔ اللہ سبحانہ نے مانع زکوٰۃ کے اس سوال اور التجا کو نقل فرمایا ہے جو وہ موت کے وقت واپسی کے سلسلے میں کرے گا۔ چناچہ ارشاد ہے : وانفقوا مما رزقناکم من قبل ان یاتی احدکم الموت فیقول رب لولا اخرتنی الی اجل قریب فاصدق واکن من الصالحین ( اور ہم نے جو کچھ تمہیں دے رکھا ہے اس میں سے چرچ کرلو قبل اس کے کہ تم میں سے کسی کی موت آ کھڑی ہو، پھر وہ کہنے لگے۔ اے میرے پروردگار مجھے اور کچھ مہلت کیوں نہ دی کہ میں خیر خیرات دے لیتا اور نیک کاروں میں شامل ہوجاتا) اس آیت میں اللہ سبحانہ نے بتادیا کہ اس شخص سے کوتاہی ہوئی ہے اور ادائیگی کا موقعہ اس کے ہاتھ سے نکل گیا ہے۔ کیونکہ اگر میت کی میراث سے زکوٰۃ کی ادائیگی کی ذمہ داری وارث یا وصی پر باقی ہوتی تو ادائیگی نہ کرنے پر وہ اس ملامت اور ڈانٹ کے مستحق قرار پاتے اور مرنے والا اس کی کوتاہی کے حکم سے خارج ہوتا۔ یہ بات ہمارے اس قول کی صحت پر دلالت کرتی ہے کہ مرنے والے کی وصیت کے بغیر اس کے مال اور ترکہ سے زکوٰۃ کی ادائیگی کا وجوب ممتنع ہے۔ اگر پوچھا جائے کو موصی کیی وصیت کی تنفیذ یا تبدیلی کی صورت میں اللہ کے نزدیک موصی کے حکم میں کوئی فرق پڑے گا یا دونوں حالتوں کے اندر وہ یکساں طور پر ثواب کا مستحق ہوگا ؟ تو اس کا جواب یہ ہے کہ موصی کی وصیت دو باتوں کو متضمن ہوتی ہے۔ ایک بات تو یہ ہے کہ اپنی وصیت کی وجہ سے اسے اللہ سبحانہ سے ثواب حاصل کرنے کا استحقاق ہوجائے گا اور دوسری بات یہ کو موصیٰ لہ، تک وصیت پہنچ جانے کی صورت میں وہ اللہ کا شکر کرے گا نیز موصی کے حق میں دعائے خیر کرے گا۔ یہ بات اگرچہ موصی کے لیے ثواب کا باعث نہیں ہوگی، لیکن موصیٰ لہ کی طرف سے اس کے حق میں دعائے خیر اور اللہ کے لیے شکر کی بنا پر وہ ثواب تک رسائی حاصل کرلے گا۔ اس طرح موصی کو دو وجوہ سے فائدہ ہوگا بشرطیکہ اس کی وصیت نافذ کردی گئی ہو۔ لیکن اگر وصیت نافذ نہ کی جائے تو موصی کا فائدہ صرف اس ثواب تک محدود رہے گا جس کا وہ اپنی وصیت کی بنا پر مستحق قرار پائے گا۔ اگر پوچھا جائے کہ جب ایک شخص پر دین ہو، لیکن وہ اس کی ادائیگی کی وصیت نہ کرے اور پھر اس کے ورثا دین کی ادائگی کردیں تو اس صورت میں کیا مرنے والا گناہ سے بری الذمہ ہوجائے گا ؟ اس کا جواب یہ ہے کہ دین کی ادائیگی سے اس کا باز رہنا دو باتوں کی متضمن تھا۔ ایک تو اللہ کا حق اور دسورا آدمی کا حق ۔ جب آدمی اپنا حق وصول کرلے گا تو مرنے والا سزا سے بری ہوجائے گا، تا ہم اس پر آدمی کا وہ حق باقی رہے گا جو دین کی ادائیگی میں تاخیر نیز ظالمانہ رویہ کی بنا پر اس پر لازم ہوگا۔ اگر اس نے اس ظلم اور زیادتی سے توبہ نہ کی ہوگی تو آخرت میں اس سے مواخذہ ہوگا۔ وہ گیا اللہ کا حق یعنی زندگی کے دوران میں اس ظالمانہ رویہ جس کا اظہار اس نے دین کی ادائیگی میں تاخیر کے ذریعے کیا تھا اور جس سے اس نے توبہ نہیں کی تھی، وہ اس پر مواخذہ کا معاملہ اس کے اور اللہ کے درمیان رہے گا۔ آپ نہیں دیکھتے کہ اگر ایک شخص کسی کا مال غصب کرلے اور اسے واپس نہ کرنے پر اڑا رہے تو اپنے اس رویے سے وہ دو وجوہ سے گناہگار ہوگا۔ ایک تو اللہ کے حخق کا گناہ جس کا وہ مرکتب ہوا اور دوسرا آدمی ک حق کا گناہ جس پر اس نے ظلم کیا اور اسے نقصان پہنچایا۔ اگر مغصوب منہ غاصب سے اپنی چیز واپس لے لے جبکہ غاصب کو اس کی واپس یکا ارادہ نہ ہو، تو وہ اس کے حق سے بری الذمہ ہوجائے گا لیکن اللہ کا حق باقی رہے گا جس کے لیے اسے اللہ سے توبہ کی ضرورت ہوگی۔ اگر وہ توبہ کیے بغیر مرجائے گا، تو اس گناہ کا بوجھ اس کے ذمے باقی رہے گا اور یہ گناہ اس کے ساتھ چپکا رہے گا۔ قول باری : فمن بدلہ بعد ما سمعہ فانما اثمہ علی الذین یبدلونہ کا اطلاق اس شخص پر ہے جو ایس وصیت میں تبدیلی کرے جو جائز اور بمنی بر انصاف ہو، لیکن اگر وصیت ظلم اور جور پر مبنی ہو، تو اسے تبدیل کر کے مبنی بر انصاف کرنا واجب ہوگا۔ ارشاد باری ہے : غیر مضار وصیۃ من اللہ ( بشرطیکہ وہ ضرر رساں نہ ہو، یہ حکم ہے اللہ کی طرف سے) وصیت کا نفاذ اسی صورت میں واجب ہے جب وہ جائز اور مبنی بر انصاف ہو۔ اللہ سبحانہ نے یہ بات اگلی آیت میں بیان فرما دی ہے۔
Top