Home
Quran
Recite by Surah
Recite by Ruku
Translation
Maududi - Urdu
Jalandhary - Urdu
Junagarhi - Urdu
Taqi Usmani - Urdu
Saheeh Int - English
Maududi - English
Tafseer
Tafseer Ibn-e-Kaseer
Tafheem-ul-Quran
Maarif-ul-Quran
Tafseer-e-Usmani
Aasan Quran
Ahsan-ul-Bayan
Tibyan-ul-Quran
Tafseer-Ibne-Abbas
Tadabbur-e-Quran
Show All Tafaseer
Word by Word
Nazar Ahmed - Surah
Nazar Ahmed - Ayah
Farhat Hashmi - Surah
Farhat Hashmi - Ayah
Word by Word English
Hadith
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Sunan Abu Dawood
Sunan An-Nasai
Sunan At-Tirmadhi
Sunan Ibne-Majah
Mishkaat Shareef
Mauwatta Imam Malik
Musnad Imam Ahmad
Maarif-ul-Hadith
Riyad us Saaliheen
Android Apps
IslamOne
QuranOne
Tafseer Ibne-Kaseer
Maariful Quran
Tafheem-ul-Quran
Quran Urdu Translations
Quran Word by Word
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Mishkaat Shareef
More Apps...
More
Seerat-un-Nabi ﷺ
Fiqhi Masail
Masnoon Azkaar
Change Font Size
About Us
View Ayah In
Navigate
Surah
1 Al-Faatiha
2 Al-Baqara
3 Aal-i-Imraan
4 An-Nisaa
5 Al-Maaida
6 Al-An'aam
7 Al-A'raaf
8 Al-Anfaal
9 At-Tawba
10 Yunus
11 Hud
12 Yusuf
13 Ar-Ra'd
14 Ibrahim
15 Al-Hijr
16 An-Nahl
17 Al-Israa
18 Al-Kahf
19 Maryam
20 Taa-Haa
21 Al-Anbiyaa
22 Al-Hajj
23 Al-Muminoon
24 An-Noor
25 Al-Furqaan
26 Ash-Shu'araa
27 An-Naml
28 Al-Qasas
29 Al-Ankaboot
30 Ar-Room
31 Luqman
32 As-Sajda
33 Al-Ahzaab
34 Saba
35 Faatir
36 Yaseen
37 As-Saaffaat
38 Saad
39 Az-Zumar
40 Al-Ghaafir
41 Fussilat
42 Ash-Shura
43 Az-Zukhruf
44 Ad-Dukhaan
45 Al-Jaathiya
46 Al-Ahqaf
47 Muhammad
48 Al-Fath
49 Al-Hujuraat
50 Qaaf
51 Adh-Dhaariyat
52 At-Tur
53 An-Najm
54 Al-Qamar
55 Ar-Rahmaan
56 Al-Waaqia
57 Al-Hadid
58 Al-Mujaadila
59 Al-Hashr
60 Al-Mumtahana
61 As-Saff
62 Al-Jumu'a
63 Al-Munaafiqoon
64 At-Taghaabun
65 At-Talaaq
66 At-Tahrim
67 Al-Mulk
68 Al-Qalam
69 Al-Haaqqa
70 Al-Ma'aarij
71 Nooh
72 Al-Jinn
73 Al-Muzzammil
74 Al-Muddaththir
75 Al-Qiyaama
76 Al-Insaan
77 Al-Mursalaat
78 An-Naba
79 An-Naazi'aat
80 Abasa
81 At-Takwir
82 Al-Infitaar
83 Al-Mutaffifin
84 Al-Inshiqaaq
85 Al-Burooj
86 At-Taariq
87 Al-A'laa
88 Al-Ghaashiya
89 Al-Fajr
90 Al-Balad
91 Ash-Shams
92 Al-Lail
93 Ad-Dhuhaa
94 Ash-Sharh
95 At-Tin
96 Al-Alaq
97 Al-Qadr
98 Al-Bayyina
99 Az-Zalzala
100 Al-Aadiyaat
101 Al-Qaari'a
102 At-Takaathur
103 Al-Asr
104 Al-Humaza
105 Al-Fil
106 Quraish
107 Al-Maa'un
108 Al-Kawthar
109 Al-Kaafiroon
110 An-Nasr
111 Al-Masad
112 Al-Ikhlaas
113 Al-Falaq
114 An-Naas
Ayah
1
2
3
4
5
6
7
8
9
10
11
12
13
14
15
16
17
18
19
20
21
22
23
24
25
26
27
28
29
30
31
32
33
34
35
36
37
38
39
40
41
42
43
44
45
46
47
48
49
50
51
52
53
54
55
56
57
58
59
60
61
62
63
64
65
66
67
68
69
70
71
72
73
74
75
76
77
78
79
80
81
82
83
84
85
86
87
88
89
90
91
92
93
94
95
96
97
98
99
100
101
102
103
104
105
106
107
108
109
110
111
112
113
114
115
116
117
118
119
120
121
122
123
124
125
126
127
128
129
130
131
132
133
134
135
136
137
138
139
140
141
142
143
144
145
146
147
148
149
150
151
152
153
154
155
156
157
158
159
160
161
162
163
164
165
166
167
168
169
170
171
172
173
174
175
176
177
178
179
180
181
182
183
184
185
186
187
188
189
190
191
192
193
194
195
196
197
198
199
200
201
202
203
204
205
206
207
208
209
210
211
212
213
214
215
216
217
218
219
220
221
222
223
224
225
226
227
228
229
230
231
232
233
234
235
236
237
238
239
240
241
242
243
244
245
246
247
248
249
250
251
252
253
254
255
256
257
258
259
260
261
262
263
264
265
266
267
268
269
270
271
272
273
274
275
276
277
278
279
280
281
282
283
284
285
286
Get Android App
Tafaseer Collection
تفسیر ابنِ کثیر
اردو ترجمہ: مولانا محمد جوناگڑہی
تفہیم القرآن
سید ابو الاعلیٰ مودودی
معارف القرآن
مفتی محمد شفیع
تدبرِ قرآن
مولانا امین احسن اصلاحی
احسن البیان
مولانا صلاح الدین یوسف
آسان قرآن
مفتی محمد تقی عثمانی
فی ظلال القرآن
سید قطب
تفسیرِ عثمانی
مولانا شبیر احمد عثمانی
تفسیر بیان القرآن
ڈاکٹر اسرار احمد
تیسیر القرآن
مولانا عبد الرحمٰن کیلانی
تفسیرِ ماجدی
مولانا عبد الماجد دریابادی
تفسیرِ جلالین
امام جلال الدین السیوطی
تفسیرِ مظہری
قاضی ثنا اللہ پانی پتی
تفسیر ابن عباس
اردو ترجمہ: حافظ محمد سعید احمد عاطف
تفسیر القرآن الکریم
مولانا عبد السلام بھٹوی
تفسیر تبیان القرآن
مولانا غلام رسول سعیدی
تفسیر القرطبی
ابو عبدالله القرطبي
تفسیر درِ منثور
امام جلال الدین السیوطی
تفسیر مطالعہ قرآن
پروفیسر حافظ احمد یار
تفسیر انوار البیان
مولانا عاشق الٰہی مدنی
معارف القرآن
مولانا محمد ادریس کاندھلوی
جواھر القرآن
مولانا غلام اللہ خان
معالم العرفان
مولانا عبدالحمید سواتی
مفردات القرآن
اردو ترجمہ: مولانا عبدہ فیروزپوری
تفسیرِ حقانی
مولانا محمد عبدالحق حقانی
روح القرآن
ڈاکٹر محمد اسلم صدیقی
فہم القرآن
میاں محمد جمیل
مدارک التنزیل
اردو ترجمہ: فتح محمد جالندھری
تفسیرِ بغوی
حسین بن مسعود البغوی
احسن التفاسیر
حافظ محمد سید احمد حسن
تفسیرِ سعدی
عبدالرحمٰن ابن ناصر السعدی
احکام القرآن
امام ابوبکر الجصاص
تفسیرِ مدنی
مولانا اسحاق مدنی
مفہوم القرآن
محترمہ رفعت اعجاز
اسرار التنزیل
مولانا محمد اکرم اعوان
اشرف الحواشی
شیخ محمد عبدالفلاح
انوار البیان
محمد علی پی سی ایس
بصیرتِ قرآن
مولانا محمد آصف قاسمی
مظہر القرآن
شاہ محمد مظہر اللہ دہلوی
تفسیر الکتاب
ڈاکٹر محمد عثمان
سراج البیان
علامہ محمد حنیف ندوی
کشف الرحمٰن
مولانا احمد سعید دہلوی
بیان القرآن
مولانا اشرف علی تھانوی
عروۃ الوثقٰی
علامہ عبدالکریم اسری
معارف القرآن انگلش
مفتی محمد شفیع
تفہیم القرآن انگلش
سید ابو الاعلیٰ مودودی
Ahkam-ul-Quran - Al-Baqara : 189
یَسْئَلُوْنَكَ عَنِ الْاَهِلَّةِ١ؕ قُلْ هِیَ مَوَاقِیْتُ لِلنَّاسِ وَ الْحَجِّ١ؕ وَ لَیْسَ الْبِرُّ بِاَنْ تَاْتُوا الْبُیُوْتَ مِنْ ظُهُوْرِهَا وَ لٰكِنَّ الْبِرَّ مَنِ اتَّقٰى١ۚ وَ اْتُوا الْبُیُوْتَ مِنْ اَبْوَابِهَا١۪ وَ اتَّقُوا اللّٰهَ لَعَلَّكُمْ تُفْلِحُوْنَ
يَسْئَلُوْنَكَ
: وہ آپ سے پوچھتے ہیں
عَنِ
: سے
الْاَهِلَّةِ
: نئے چاند
قُلْ
: آپ کہ دیں
ھِىَ
: یہ
مَوَاقِيْتُ
: (پیمانہ) اوقات
لِلنَّاسِ
: لوگوں کے لیے
وَالْحَجِّ
: اور حج
وَلَيْسَ
: اور نہیں
الْبِرُّ
: نیکی
بِاَنْ
: یہ کہ
تَاْتُوا
: تم آؤ
الْبُيُوْتَ
: گھر (جمع)
مِنْ
: سے
ظُهُوْرِھَا
: ان کی پشت
وَلٰكِنَّ
: اور لیکن
الْبِرَّ
: نیکی
مَنِ
: جو
اتَّقٰى
: پرہیزگاری کرے
وَاْتُوا
: اور تم آؤ
الْبُيُوْتَ
: گھر (جمع)
مِنْ
: سے
اَبْوَابِهَا
: ان کے دروازوں سے
وَاتَّقُوا
: اور تم ڈرو
اللّٰهَ
: اللہ
لَعَلَّكُمْ
: تاکہ تم
تُفْلِحُوْنَ
: کامیابی حاصل کرو
(اے محمد ﷺ لوگ تم سے نئے چاند کے بارے میں دریافت کرتے ہیں (کہ گھٹتا بڑھتا کیوں ہے) کہہ دو کہ وہ لوگوں کے (کاموں کی میعادیں) اور حج کے وقت معلوم ہونے کا ذریعہ ہے اور نیکی اس بات میں نہیں کہ (احرام کی حالت میں) گھروں میں ان کے پچھواڑے کی طرف سے آؤ بلکہ نیکو کار وہ ہے جو پرہیزگار ہو اور گھروں میں ان کے دروازوں سے آیا کرو اور خدا سے ڈرتے رہو تاکہ نجات پاؤ
(آیت 187 کی بقیہ تفسیر) بہر حال اس حدیث پر جس قدر نقد و جوع کی جائے فقہاء کے نزدیک یہ نقد و جرح اسے فاسد قرار نہیں دیتی ۔ اصحاب حدیث کے اعتراضات فقہاء کے نزدیک نہ تو حدیث کو فاسد کرتے ہیں اور نہ ہی اس میں کسی قسم کی کوئی معنوی خرابی پیدا کرتے ہیں ۔ اس حدیث کی روایت خصیف نے عکرمہ سے اور انہوں نے ابن عباس سے کی ہے کہ حضرت عائشہ ؓ اور حضرت حفصہ ؓ ایک روز صبح کے وقت روزے سے تھیں ، ان کے پاس بطور ہدیہ کھانا آگیا اور پھر دونوں روزہ توڑ لیا ۔ حضور ﷺ نے دونوں کو اس کے بدلے ایک روزہ قضا کرنے کا حکم دیا ۔ ہمیں عبد الباقی نے روایت کی ، انہیں عبد اللہ بن احمد بن حنبل نے ، انہیں محمد بن عباد نے ، انہیں حاتم بن اسماعیل نے ابو حمزہ سے ، ابو حمزہ نے حسن سے اور انہوں نے حضرت ابو سعید خدری سے روایت کی ہے کہ حضر ت عائشہ ؓ اور حضر ت حفصہ ؓ دونوں ایک روز صبح کے وقت روزے سے تھیں، ہدیہ کے طور پر انہیں کھانا بھیجا گیا ، دونوں نے روزہ توڑ دیا ، ابھی وہ کھانا ہی ہی تھیں کہ حضور ﷺ تشریف لے آئے۔ آپ ﷺ نے فرمایا کہ کیا تم دونوں کا روزہ نہیں تھا ۔ دونوں نے عرض کیا کہ روزہ تھا ۔ اس پر آپ نے فرمایا کہ اس کی جگہ ایک دن روزہ رکھ کر اس کی قضا کرو اور آئندہ ایسا نہ کرو۔ ایک اور سند سے یہ حدیث مروی ہے ۔ ہمیں عبد الباقی نے ، انہیں اسماعیل بن فضل بن موسیٰ ، انہیں حرملہ نے ، انہیں ابن وہب نے انہیں جریر بن حازم نے یحییٰ بن سعید سے ، انہوں نے عروہ سے اور انہوں نے حضرت عائشہ ؓ سے روایت بیان کی کہ ایک دن میں اور حفصہ دونوں روزے سے تھیں ۔ ہمارے پاس بطور ہدیہ کھانا آیا جو ہمیں بہت اچھا لگا ہم نے روزہ توڑ دیا ۔ جب حضور ﷺ تشریف لائے تو حفصہ ؓ نے سبقت کر کے حضور ﷺ سے مسئلہ پوچھا، اور وہ کیوں نہ سبقت کرتیں جبکہ وہ اپنے باپ کی بیٹی تھیں یعنی حضرت عمر ؓ کی طرح وہ بھی جری تھیں ۔ یہ سن کر حضور ﷺ نے فرمایا کہ اس روزے کے بدلے ایک دن روزہ رکھو۔ حجاج بن ارطاۃ نے زہری سے ، انہوں نے عروہ سے اور انہوں نے حضر ت عائشہ ؓ سے اسی طرح کی روایت کی ہے۔ نیز عبید اللہ بن عمر نے نافع سے ، انہوں نے حضرت عبد اللہ بن عمر ؓ سے اس واقعے کی روایت کی البتہ اس میں تطوع یعنی نفل کا ذکر نہیں کیا ہے۔ یہ ہیں وہ روایات کثیرہ جو کئی طرق یعنی سلسلہ ہائے اسناد سے مروی ہیں جن میں سے بعض میں یہ مذکورہ ہے کہ دونوں صبح کے وقت نفلی روزے سے تھیں اور بعض میں نفل کا ذکر نہیں ہے ، لیکن تمام طرق میں قضا کرنے کے حکم کا ذکر ہے۔ وجوب قضا پر وہ حدیث دلالت کرتی ہے جو ہمیں محمد بن بکر نے ، انہیں ابو دائود نے انہیں مسدد نے انہیں عیسیٰ بن یونس نے ، انہیں ہشام بن حسان نے محمد بن سیرین سے اور انہوں نے حضرت ابوہریرہ ؓ سے روایت کی ۔ آپ نے فرمایا حضور ﷺ نے ارشاد فرمایا من ذرعہ فی وھو صائم فلیس علیہ قضاء وان استقاء فلیقض جس روزہ دار کو ازخود قے آ جائے اس پر قضا نہیں ہے اور جو جان بوجھ کر قے کرے وہ قضا کرے۔ اس حدیث میں یہ بیان ہے کہ نفلی روزہ رکھنے والا جب جان بوجھ کر قے کرے اس پر قضا واجب ہے اس لیے کہ حضور ﷺ نے اپنے اس حکم میں نفلی اور فرض روزہ رکھنے والوں کے درمیان کوئی فرق نہیں کیا ہے اس لیے یہ حکم سب کو عام ہے۔ اس بات پر عقلی طور پر بھی اس طرح دلالت ہورہی ہے کہ تمام لوگوں کا اس مسئلے میں اتفاق ہے کہ اگر نفلی طور پر صدقہ کرنے والا کسی شخص کو صدقہ دے دے اور وہ شخص اس صدقہ پر قبضہ کرلے تو صدقہ کرنے والا اب اپنے صدقہ میں رجوع نہیں کرسکتا کیونکہ اس کی وجہ سے وہ قربت باطل ہوجاتی ہے جو اسے اس صدقہ سے حاصل ہوئی تھی۔ اس طرح نفلی نماز یا نفلی روزہ شروع کرلینے والا شخص اس نماز یا روزے کو تکمیل کے مرحلے تک پہنچائے بغیر اس سے نکل نہیں سکتا کیونکہ اس سے اس حصے کا ابطلال ہوجاتا ہے جو اس سے پہلے ہوچکا ہے۔ اس لیے نفلی نماز یا نفلی روزے کی حیثیت اس صدقہ کی طرح ہے جس پر قبضہ ہوچکا ہو ا۔ اگر یہ اعتراض کیا جائے کہ اس کی حیثیت اس صدقہ کی طرح ہے جس پر ابھی قبضہ نہیں ہوا ہے اس لیے کہ اس صورت میں نفلی نماز یا روزے والا اس نماز یا روزے کے باقی ماندہ حصے کی ادائیگی سے باز رہتا ہے اس لیے اس کی حیثیت اس شخص کی طرح ہوگی جو صدقہ کی ہوئی چیز کو متعلقہ شخص کے حوالے کرنے سے باز رہے۔ اس کے جواب میں کہا جائے گا کہ اگر واقعۃً یہی بات ہو تو پھر تمہاری بات درست ہوگی لیکن اصل بات یہ ہے کہ نفلی نمازیا روزے والا اگر اس نماز یا روزے کو مکمل کرنے سے پہلے نکل آتا ہے تو اس سے ادا شدہ حصہ باطل ہوجاتا ہے اس بنا پر اسے ایسا کرنے کی گنجائش نہیں ہے اور اگر ایسا کرے گا تو اس پر قضا لازم ہوگی ۔ آپ نہیں دیکھتے کہ دن کے بعض حصے میں رکھا ہوا روزہ درست نہیں ہوتا اور جس شخص نے دن کے اول حصے میں کچھ کھالیا ہو تو باقی ماندہ حصے میں اس کا روزہ درست نہیں ہوگا ۔ اسی طرح جس شخص نے دن کے اول حصے میں روزہ رکھ لیا اور پھر باقی حصے میں اسے توڑ دیا تو اس نے گویا اپنے آپ کو اس دن کے روزے سے بالکلیہ نکال لیا اور جو حصہ ادا کیا تھا اسے باطل کردیا ، ایسا آدمی اس شخص کی طرح ہے جو مستحق شخص کے قبضہ میں صدقہ دے کر پھر رکوع کرلے۔ اس لیے اس کی صورت بالکل وہی ہوگی کہ ایک شخص جب صدقہ مقبوضہ میں رجوع کرلے تو اس پر اس صدقہ کو متعلقہ شخص کی طرف لوٹا دینا ضروری ہوگا ۔ اس مسئلے کی صحت پر اس بات سے دلالت حاصل ہوتی ہے کہ تمام لوگوں کا اس پر اتفاق ہے کہ نفلی حج یا عمرہ کا احرام باندھنے والا اگر اس حج یا عمرہ کو فاسدکر دے گا تو اس پر قضا لازم ہوگی اور اس احرام میں دخول کی حیثیت وہی ہوگی جو قول کے ذریعہ اپنے اوپر کوئی چیز واجب کرنے کی ہے۔ احرام کی مثال پر اگر یہ اعتراض کیا جائے کہ فاسد کردینے کی صورت میں اس پر قضا اس لیے واجب ہوتی ہے کہ وہ اس احرام سے خارج نہیں ہوتا ۔ دیگر عبادات مثلاً نماز روزہ وغیرہ میں یہ صورت نہیں ہوتی اس لیے کہ اس عبادت کو فاسد کرتے ہی وہ شخص اس سے خارج ہوجاتا ہے۔ اس کے جواب میں یہ کہا جائے گا کہ اس فرق کی وجہ سے ان دونوں یعنی احرام اور نماز روزہ کی اس یکسانیت پر کوئی اثر نہیں پڑتا کہ ان میں دخول کے ساتھ ہی یہ واجب ہوجاتی ہے۔ یہ محرم جس کا اعتراض میں حوالہ دیا گیا ہے اس کی کیفیت یہ ہوتی ہے کہ احرام میں دخول کی وجہ سے اس پر احرام کا لزوم ہوجاتا ہے اور اس کا اتمام واجب ہوجاتا ہے یا اس کا لزوم نہیں ہوتا ۔ اگر اس کا اتمام اس پر لازم ہوتا ہے تو فساد کی صورت میں اس پر اس کی قضا واجب ہوجاتی ہے ، خواہ وہ حالت احصار میں آ جائے یا اپنے فعل سے اسے فاسد کر دے ، اس لیے کہ جو چیز واجب ہوجائے اس کے حکم میں اس سے کوئی فائدہ نہیں پڑتا اس چیز میں اس کے اپنے فعل یا غیر کے فعل سے فساد ہوگیا ہو جس طرح کہ نذر یا فرض حج کی صورت میں ہوتا ہے ، اب جبکہ ہمارا اس پر اتفاق ہوگیا ہے کہ محرم جب احرام کو فاسد کرے گا اس پر اس کی قضا واجب ہوگی تو یہی حکم وہاں بھی ہونا چاہیے ، جہاں وہ حالت احصار میں آ جائے اور کسی اور جہت سے رکاوٹ کی بنا پر اس کا اپنا فعل متعذر ہوجائے یعنی اس افساد میں اس کے اپنے فعل کا کوئی دخل نہ ہو جیسا کہ دوسرے تمام واجبات کا حکم ہے۔ ادھر سنت کی بنا پر معترض کا قول باطل ہوگیا ہے۔ حضور ﷺ کا ارشاد ہے من کسرا و عررج فد حل و علیہ الحج من قابل جس شخص کی ہڈی ٹوٹ گئی یا لنگڑا ہوگیا اس کا احرام کھل گیا اور اس پر اگلے سال کا حج ہے۔ آپ نے اس محصر پر قضا واجب کردی جبکہ اس کے لیے رکاوٹ اس کی اپنی ذات سے نہیں پیدا ہوئی تھی بلکہ کسی اور کی طرف سے ہوئی تھی ۔ جب یہ بات حج اور عمرہ میں ثابت ہوگئی تو اس کا ثبوت ان تمام عبادات میں ہونا چاہیے جن کی صحت کی شرط ان کا تمام ہے اور ان میں سے بعض بعض کے ساتھ مربوط ہیں ۔ مثلاً نماز روزہ وغیرہ ساتھ ہی ساتھ یہ بھی ضروری ہے کہ دوسرے تمام واجبات کی طرح ان عبادات سے خرو ج کی صورت میں ان کی قضا کے حکم میں کوئی فرق نہیں ہونا چاہیے خواہ یہ خروج اس کے اپنے فعل یا غیر فعل کے تحت عمل میں آیا ہو۔ اس رائے سے اختلاف رکھنے والا حضرت ام ہانی کی حدیث سے استدلال کرسکتا ہے کہ حضور ﷺ نے جب اپنا جو ٹھا پانی انہیں دیا تو حضرت ام ہانی نے اسے پی لیا اور کہا کہ میں اگرچہ روزے سے تھی لیکن میں نے یہ پسند نہ کیا کہ آپ کا جو ٹھا واپس کر دوں ۔ اس پر حضور ﷺ نے فرمایا کہ اگر یہ روزہ رمضان کا قضا کا تھا تو اس کے بدلے ایک دن روزہ رکھو اور اگر یہ نفلی روزہ تھا تو تمہاری مرضی ہے خواہ اس کی قضا کردیا نہ کرو۔ اس حدیث کے متن اور اس کی سند دونوں میں اضطراب ہے۔ سند کے اضطراب کی صورت یہ ہے کہ سماک بن حرب اسے کبھی اس شخص سے روایت کرتے ہیں جس نے ام ہانی سے یہ حدیث سنی تھی اور کبھی یہ کہتے ہیں کہ ہارون بن ام ہانی سے یا ام ہانی کے نواسے سے ، اور کبھی اسے ام ہانی کے دو بیٹوں سے اور کبھی ایک بیٹے سے روایت کرتے ہوئے یہ کہتے ہیں کہ بیٹے نے یہ بتایا ہے کہ مجھے ام ہانی کے بیٹے کو یہ بات ہمارے گھر والوں نے بتائی ہے۔ اسناد میں اس قسم کا اضطراب راویوں کی قلت ضبط پر دلالت کرتا ہے۔ اضطراب متن کی یہ صورت ہے کہ ایک سند سے ہمیں یہ روایت محمد بن بکر نے کی ہے، انہیں ابو دائود نے انہیں عثمان بن ابی شیبہ نے، انہیں جریر بن عبد الحمید نے یزید بن ابی زیاد سے انہوں نے عبد اللہ بن الحرث سے اور انہوں نے حضرت ام ہانی سے روایت کی ہے کہ فتح مکہ کے دن حضرت فاطمہ ؓ حضور ﷺ کی بائیں جانب اور حضرت ام ہانی دائیں جانب آ کر بیٹھ گئیں ۔ ایک لڑکی برتن میں پانی لے کر آئی اور حضور ﷺ کو پکڑا دیا ۔ پھر حضور ﷺ نے پانی پی کر اسے حضرت ام ہانی کو دے دیا ، جسے انہوں نے پی لیا۔ پھر فرمانیل گیں کہ میں روزے سے تھی ، میں نے روزہ توڑ دیا ۔ حضور ﷺ نے ان سے پوچھا کہ قضا کا روزہ تھا۔ ام ہانی نے نفی میں جواب دیا ۔ اس پر آپ نے فرمایا کہ اگر نفلی روزہ تھا تو اس کے توڑ دینے سے تمہیں کوئی نقصان نہیں ہوا ۔ اس حدیث میں حضور ﷺ کے یہ الفاظ فلا یضرک پھر تمہیں کوئی نقصان نہیں نقل ہوئے ہیں ، لیکن اس میں کوئی ایسی بات نہیں ہے جو وجوب قضا کی نفی پر دلالت کرتی ہو ۔ اس لیے کہ ہم بھی یہی کہتے ہیں کہ اس سے انہیں کوئی نقصان نہیں ہوا ، کیونکہ انہیں اس کا علم نہیں تھا کہ روزہ توڑ دینا ان کے لیے جائز نہیں تھا یا انہیں علم تھا لیکن انہوں نے پانی پینے اور روزہ توڑ دینے میں حضور ﷺ کی اتباع کو روزہ جاری رکھنے سے بڑھ کر خیال کیا ۔ ہمیں عبد اللہ بن جعفر احمد بن فارس نے ، انہیں یونس حبیب نے ، انہیں ابو دائود طیالسی نے ، انہیں شعبہ نے ، انہیں قریش کے ایک شخص جعدہ نے ، جو حضرت ام ہانی کے بیٹے تھے، یہ روایت سنائی اور سماک بن حرب نے جو شعبہ کو روایت کرتے تھے بتایا کہ انہیں حضرت ام ہانی کے دو بیٹوں نے خبر دی ۔ شعبہ کہتے ہیں کہ میں ان دونوں میں سے جو بڑے تھے یعنی جعدہ، ان سے ملا ۔ انہوں نے مجھے حضرت ام ہانی سے یہ روایت سنائی کہ حضور ﷺ ایک دفعہ ان کے پاس آئے انہوں نے آپ ﷺ کو پینے کے لیے کچھ دیا ۔ آپ ؐ نے پی کر واپس انہیں پکڑا دیا ۔ انہوں نے حضور ﷺ کا جو ٹھا پانی لیا اور پھر عرض کیا کہ میں روزے سے تھی ۔ یہ سن کر حضور ﷺ نے فرمایا کہ نفلی روزہ اپنی ذات کا امین یا امیر ہوتا ہے۔ چاہے روزہ جاری رکھے اور چاہے توڑ دے، میں نے جعدہ سے پوچھا کہ آیا تم نے یہ روایت ام ہانی ؓ سے سنی ہے۔ جعدہ نے جواب دیا کہ مجھے میرے گھر والوں اور ام ہانی ؓ کے آ زاد کردہ غلام اوابو صالح نے یہ بات بتائی ہے۔ نیز سماک نے شعبہ کو ایسے شخص کے واسطے سے روایت سنائی جس نے حضرت ام ہانی سے یہ روایت سنی تھی کہ حضور ﷺ نے فرمایا کہ نفلی روہ رکھنے والے کو اختیار ہوتا ہے کہ چاہے تو روزہ جاری رکھے اور چاہے تو توڑ دے، نیز سماک نے ہارون ابن ام ہانی سے روایت کی ہے کہ ہارون نے بتایا کہ انہیں حضرت ام ہانی نے خبر دی ہے جس میں حضور ﷺ نے فرمایا کہ اگر یہ رمضان کا قضا روزہ تھا تو اس کی جگہ ایک دن کا روزہ رکھو لو اور اگر نفلی روزہ تھا تو اگر چاہو تو رکھ لو اورچاہو تو نہ رکھو ۔ ان تمام روایات میں ایسی کسی بات کا ذکر نہیں ہے جو قضا کی نفی پر دلالت کرتی ہو ، ان میں تو صرف اس کا ہی تذکرہ ہے کہ روزہ دار کو اختیار ہوتا ہے اور وہ اپنی ذات کا امین ہوتا ہے اور اس کے لئے گنجائش ہوتی ہے کہ نفل روزے کی صورت میں روزہ توڑ دے۔ ان روایات میں حضور ﷺ نے یہ نہیں فرمایا کہ تم ام ہانی پر قضا نہیں ہے۔ پھر اس حدیث کے تین میں الفاظ کا اختلاف اس کے غیر محفوظ ہونے پر دلالت کرتا ہے ۔ اگر یہ الفاظ ثابت بھی ہوجائیں تو ان میں ایسی کوئی بات نہیں ہے جو وجوب قضا کی نفی پر دلالت کرتی ہو اس لیے کہ ان میں زیادہ سے زیادہ جو بات ہے وہ افطار یعنی روزہ تو دڑنے کی اباحت ہے اور افطار کی اباحت سقوط قضا پر دلالت نہیں کرتی ۔ حضور ﷺ کا یہ ارشاد کہ الصائم امین نفسہ روزہ دار اپنی ذات کا امین ہوتا ہے یا الصائم بالخیبار روزہ دار کو اختیار ہوتا ہے۔ اس میں یہ جائز ہے کہ حضور ﷺ نے یہ مراد لی ہو کہ جو شخص روزے کی نیت کے بغیر صبح سے ہی ان باتوں سے باز رہے جن سے ایک روزہ دار باز رہتا ہے اسے اختیار ہے کہ نفلی روزے کی نیت کرے یا رزہ نہ رکھے جو شخص روزہ دار کی طرح کھانے پینے اور ہم بستری سے باز رہتا ہے اسے بھی صائم یعنی روہ دار کہا جاتا ہے جیسا کہ عاشورہ کے دن حضور ﷺ نے فرمایا کہ جس نے صبح کچھ کھالیا ہے وہ باقی ماندہ دن روزہ رکھے۔ آپ ﷺ کی مراد اس سے یہ تھی کہ ان باتوں سے دور رہے جن سے روزہ دار رہتا ہے۔ ٹھیک اسی طرح آپ کے ارشاد کہ روزہ دار اپنی ذات کا امین ہوتا ہے یا روزہ دار کو اختیار ہوتا کے بھی یہی معانی ہیں۔ اس حدیث کے بعض طرق میں یہ الفاظ اگر پائے گئے ہیں کہ فان شئت فاقضی وان شئت فلا تقضی اگر تو چاہے تو روزہ قضا کرلے اور اگر چاہے تو قضا نہ کرے تو یہ راوی کی طرف سے حضور ﷺ کے ارشاد لا یضضرک وان شئت فافطوی والصائم بالخیار کی تفسیر ہے اور اگر بات ایسی ہے تو اس سے قضا کی نفی ثابت نہیں ہوتی ۔ اس کے باوجود بھی اگر حضور ﷺ سے ایجاب قضا کی نفی اس طرح ثابت ہوجائے جس میں تاویل کا کوئی احتمال نہ ہو اور سند بھی درست ہو نیز تین میں اتساق ہو ، یعنی اضطراب نہ ہو، پھر بھی وہ روایات کئی وجوہ سے اولیٰ ہوں گی جو قضا کو واجب کرتی ہیں ۔ پہلی وجہ تو یہ ہے کہ اگر ایک مسئلے کے متعلق دو روایتیں ہوں ۔ ایک اباحت کو اور دوسری ممانعت کو ظاہر کرتی ہو تو ممانعت والی روایت عمل کے لیے اولیٰ ہوگی ، یہاں ہماری روایت ترک قضا کی ممانعت کرتی ہے جبکہ معترض کی روایت اباحت ظاہر کرتی ہے۔ اس لیے ہماری روایت اس روایت کے مقابلہ میں اولیٰ ہوگی ۔ دوسری وجہ یہ ہے کہ قضا کی نفی کرنے والی روایت اصل کے طور پر وارد ہے اور قضا کو واجب کرنے والی اس روات کی نا قل ہے اور جو روایت نا قال ہوتی ہے اس کی حیثیت بڑھ کر ہوتی ہے کیونکہ معنوی طور پر وہ اس اصل روایت کے بعد کی روایت ہوتی ہے گویا اس کے ورود کی تاریخ کا علم ہوجاتا ہے۔ تیسری وجہ یہ ہے کہ ترک واجب پر ایک شخص سزا کا مستحق ہوجاتا ہے جبکہ کسی مباح کام کے کرلینے پر ایسا نہیں ہوتا ۔ اس لحاظ سے وجوب کی روایت پر عمل پیرا ہونا نفی کی روایت پر عمل پیرا ہونے سے بہتر ہوتا ہے۔ اباحت افطار کے سلسلے میں حضرت ام ہانی ؓ عہنا کی روایت کی معارض وہ روایت ہے جو ہمیں محمد بن بکر نے بیان کی ، انہیں ابو دائود نے ، انہیں عبد اللہ بن سعید نے ، انہیں ابو خالد نے ہشام سے ، انہوں نے ابن سیرین سے اور انہوں نے حضرت ابو ہر یہ ؓ سے آپ نے فرمایا کہ حضور ﷺ کا ارشاد ہے اذا اعی احد کم فلیجب ، فان کان مفطرا ً فلیطعم وان کان صائما فلیصل جب تم میں سے کسی کو کھانے کی دعوت پر بلایا جائے تو وہ یہ دعوت قبول کر کے وہاں جائے اگر روزے سے نہ ہو تو کھانا کھالے اور اگر روزے سے ہو تو کھانے کی بجائے نماز پڑھے۔ ابو دائود نے کہا ہے کہ انہیں حفص بن غیاث نے بھی یہ روایت سنائی ہے ۔ ایک اور روایت جو ہمیں محمد بن بکر نے بیان کی ، انہیں ابو دائود نے ، انہیں مسدد نے ، انہیں سفیان نے ابو الزناد سے ، انہوں نے الاعرج سے اور انہوں نے حضرت ابوہریرہ ؓ سے ، آپ نے فرمایا کہ حضور ﷺ کا ارشاد ہے اذا دعی احد کم الی طعام وھو صائم فلیقل الی صائم جب تم میں سے کسی کو کھانے پر بلایا جائے اور وہ روزے سے ہو تو صاف دے کہ میں روزے سے ہوں ۔ یہ دونوں روایتیں بغیر عذر کے روزہ توڑنے کی ممانعت کرتی ہیں ۔ حضور ﷺ نے ان روایتوں میں نفلی روزہ دار اور فرض روزہ رکھنے والے کے درمیان کوئی امتیاز نہیں کیا ہے۔ آپ نہیں دیکھتے کہ پہلی روایت میں آپ کا ارشاد ہے کہ اگر وہ روزے سے ہو تو نماز پڑھے اور نماز روزہ توڑ دینے یعنی افطا ر کے منافی ہیں نیز آپ نے روزہ دار اور مفطر یعنی غیر روزہ دار کے درمیان فرق رکھا ہے اگر روزہ دار کے لیے روزہ توڑ دینا جائز ہوتا تو آپ کا ارشاد یہ ہوتا کہ اسے کھانا کھا لینا چاہیے۔ اگر یہ اعتراض کیا جائے کہ پہلی روایت میں صلاۃ سے مراد دعا ہے اور دعا کھانے کے منافی نہیں ہے۔ اس کے جواب میں کہا جائے گا کہ روایت سے صلاۃ کے مراد علی الاطلاق وہ معلوم صلاۃ ہے جو رکوع اور سجدے کے ساتھ ہوتی ہے ۔ اس سے دعامراد لینا درست نہیں ہے الایہ کہ اس کے لیے کوئی دلالت موجود ہو ۔ اگر اس سے دعا مراد لے بھی لی جائے تو اس کی اس بات پر دلالت قائم رہے گی کہ وہ روزہ نہیں توڑے گا کیونکہ آپ نے روزہ دار اور غیرروزہ دار کے درمیان فرق کردیا تھا جیسا کہ ہم نے اوپر ذکر کیا ۔ نیز حضور ﷺ کا یہ ارشاد فلیقل انی صائم وہ کہہ دے کہ میں روزے سے ہوں اس بات پر دلالت کرتا ہے کہ اسے کھانے سے منع کیا جا رہا ہے جبکہ ہمیں یہ معلوم ہے کہ حضور ﷺ نے دعوت قبول کرنے کو مسلمان کے حقوق مثلاًسلام ، مریض کی عیادت اور جنازے میں شرکت وغیرہ کی طرح ایک حق قرار دیا ہے ۔ جب آپ نے یہ کہہ کر اسے دعوت میں کھانے سے منع کردیا کہ فلیقل انی صائم تو اس سے یہ معلوم ہوا کہ عذر کے بغیر ہر قسم کے روزے میں افطار یعنی روزہ توڑنے کی ممانعت ہے۔ اگر یہ کہا جائے کہ حضرت ابو الدردا اور حضرت جابر ؓ سے مروی ہے کہ آپ دونوں نفلی روزہ توڑ دینے میں کوئی حرج نہیں سمجھتے تھے ، یہ بھی روایت ہے کہ ایک دفعہ حضرت عمر ؓ مسجد میں داخل ہوئے اور ایک رکعت نماز پڑھ کر واپسی کے لیے مڑ گئے۔ ایک شخص نے یہ دیکھ کر آپ سے ایک رکعت پڑھنے کے متعلق سوال کیا تو آپ نے جواب دیا کہ یہ تو نفلی نماز ہے جو شخص چاہے زیادہ پڑھ لے اور جو چاہے کم پڑھ لے۔ اس کے جواب میں کہا جائے گا کہ ہم نے حضرت ابن عباس حضرت ابن عمر ؓ سے نفلی روزہ توڑ دینے والے پر قضا کے وجوب کی رویت کی ہے۔ رہ گئی حضرت ابو الدرداء اور حضرت جابر ؓ کی روایت تو اس میں قضا کی نفی پر دلالت موجود نہیں ہے۔ اس میں تو صرف افطار کی اباحت کا ذکر ہے۔ حضرت عمر ؓ سے جو اثر مروی ہے اس میں یہ احتمال ہے کہ حضرت عمر ؓ کی اس سے مراد یہ ہو کہ جو شخص کوئی نماز اس خیال سے شروع کرلے کہ یہ اس کے ذمہ ہے اور پھر اسے یاد آ جائے کہ یہ اس کے ذمہ نہیں ہے تو پھر اس صورت میں یہ نماز نفل بن جائے گی اور نمازی کے لیے اسے قطع کرنا درست ہوجائے گا اور اس پر قضا بھی واجب نہیں ہوگی ۔ جبکہ حضرت عبد اللہ بن مسعود ؓ سے مروی ہے کہ ایک رکعت نماز بالکل جائز نہیں ہے۔ اگر یہ کہا جائے کہ ارشاد باری فاقروا ما تیسر من القرآن تمہیں جہاں سے آسان ہو قرآن کی تلاوت کرو کی ایک رکعت پر اقتصار کے جواز پر دلالت ہوتی ہے۔ اس کے جواب میں کہا جائے گا کہ ارشاد باری میں قرأت کے متعلق تخیر ہے نہ کہ نماز کی رکعتوں کے متعلق اور قرأت میں تخیر سے ، نماز کے تمام ارکان میں تخییر لازم نہیں آتی ۔ اس لیے آیت مبارکہ میں رکعتوں کے حکم پر کوئی دلالت نہیں ہو رہی ہے۔ امام شافعی کا قول ہے کہ اگر کسی شخص نے قربانی کے لیے حاصل کیے ہوئے جانور کو ذبح کرلیا تو اس پر اس کا بدل لازم ہوجائے گا ، یہی حکم تمام عبادات کا ہے۔ قول باری ہے ثم اتموا الصیام الی اللیل کی جن احکام پر دلالت ہو رہی ہے ان میں سے ایک یہ ہے کہ جو شخص صبح کے وقت حالت اقامت میں ہو اور اس کا روزہ بھی ہو پھر سفر پر روانہ ہوجائے اس کے لیے اس دن روزہ توڑ دینا جائز نہیں ہوگا ۔ ظاہر آیت اس پر دلالت کر رہی ہے اور اس میں روزہ رکھنے کے بعد سفر پر چلے جانے والے اور مقیم رہنے والے کے درمیان کوئی امتیاز قائم نہیں کیا گیا ۔ آیت میں اس پر بھی دلالت موجود ہے کہ جو شخص یہ خیال کرتے ہوئے کہ ابھی رات ہے طلوع فجر کے بعد کھالے یا یہ خیال کرتے ہوئے کہ سورج غروب ہوچکا ہے ، غروب شمس سے پہلے روزہ کھول لے تو ان دونوں صورتوں میں اس پر قضا واجب ہوگی کیونکہ ارشاد خداوندی ہے کہ تم اتموا الصیام الی اللیل اور اس شخص نے روزے کا اتمام نہیں کیا کیونکہ روزہ نام ہے کھانے پینے اور جماع سے باز رہنے کا اور چونکہ باز نہیں رہا اس لیے یہ صائم نہیں ہے۔ اس مسئلے میں سلف کا اختلاف ہے۔ مجاہد ، جابر بن زید اور الحکم کا قول ہے کہ ایسے شخص کا روزہ مکمل ہوجائے گا اور اس پر قضا لازم نہیں آئے گی ۔ یہ مسئلہ اس صورت میں ہے جبکہ سحری کرنے والا یہ سمجھتے ہوئے کہ ابھی رات ہے طلوع فجر کے بعد سحری کرے۔ مجاہد کا قول ہے کہ اگر کسی نے یہ خیال کر کے سورج غروب ہوچکا ہے روزہ کھول لیا پھر معلوم ہوا کہ سورج غروب نہیں ہوا تھا تو وہ یہ روزہ قضا نہیں کرے گا ۔ اسی طرح مجاہد کے قول میں دونوں صورتوں کے درمیان فر ق رکھا گیا ہے اس لیے کہ قول باری ہے حتی یتبین لکم الخیط الابیض من الخیط الاسود من الفجراب جب کہ اس شخص کے لیے اس کا تبین نہیں ہوا یعنی اس کے متعلق قطعی علم نہ ہوسکا تو اس کے لیے کھاتا مباح ہوگا اور اگر طلوع فجر کے یقینی علم سے پہلے اس نے کھا پی لیا ہو تو ایسی صورت میں اس پر قضا بھی لازم نہیں آئے گی ۔ لیکن اگر کسی نے غروب شمس کے خیال سے روزہ کھول لیا جبکہ ابھی سورج غروب نہیں ہوا تھا تو چونکہ اس کا روزہ یقین تھا اس لیے اسے جائز نہ تھا کہ غروب شمس کے متعلق یقین حاصل کرنے سے پہلے روزہ کھول لے۔ ابن سیرین ، سعید بن جبیر اور ہمارے اصحاب ، امام مالک ، سفیان ثوری اور امام شافعی کا قول یہ ہے کہ دونوں حالتوں میں قضا کرے گا ۔ البتہ امام مالک نے یہ فرمایا ہے کہ نفلی روزے کی صورت میں روزہ جاری رکھے گا اور فرض روزے کی صورت میں قضا کرے گا ۔ اعمش نے زید بن وہب سے روایت کی ہے کہ حضرت عمر ؓ اور دوسرے لوگوں نے ایک بادل والے دن میں روزہ کھو ل لیا اس کے بعد سورج نکل آیا تو آپ نے فرمایا کہ نجدا ہم نے گناہ کی طرف جھکائوظاہر نہیں کیا ، ہم اب اس کی قضا نہیں کریں گے۔ آپ سے یہ بھی مروی ہے کہ آپ نے فرمایا یہ معاملہ کوئی سنگین نہیں ہے۔ ہم ایک دن کی قضا کرلیں گے۔ ظاہر آیت ثم اتموا الصیام الی اللیل کا اقتضا یہ ہے کہ عدم اتمام کی صورت میں اس کا روزہ باطل ہوجائے ۔ آیت میں وقت کی عدم معرفت کی بنا پر کھا لینے والے اور اس کا علم رکھتے ہوئے کھا لینے والے کے درمیان کوئی فرق نہیں کیا گیا ہے۔ اگر یہ اعتراض کیا جائے کہ قول باری وکلوا وشربوا حتی یتبین لکم الخیط الابیض من الخیط الاسود من الفجر اب اگر کسی کو اس کاتبین یعنی یقینی علم نہیں ہوتا تو اس کے لیے کھانا پینا مباح ہوگا اسکے جواب میں کہا جائے گا کہ اس قسم کے کھانے پینے میں دو میں سے ایک صورت ضرور ہوگی ۔ اول یہ کہ کھانے والے کے لیے طلوع فجر کے متعلق یقین حاصل کرنا ممکن ہو ۔ اس کی صورت یہ ہوگی کہ وہ طلوع فجر سے روشناس ہو اور درمیان میں کوئی رکاوٹ حائل نہ ہو ، اس کے بعد بھی اگر وہ طلوع فجرکا یقین حاصل نہیں کرتا تو یہ اس کی کوتاہی شمار ہوگی اور یہ کہا جائے گا کہ اس نے طلوع فجر معلوم کرنے کی کوشش نہیں کی اور اس کا لحاظ نہیں رکھا ۔ ایسی صورت حال میں اس کے لیے کھانے کا اقدام درست نہیں ہوگا اور اگر وہ یہ اقدام کر بیٹھے گا تو وہ ایسے فعل کا مرتکب ہوگا جو اسے کرنا نہیں چاہیے تھا۔ اس کے لیے کہ طلوع فجر کے متعلق یقین کرنا اور اس کا علم حاصل کرنا اس کے امکان میں تھا اور یہ چیز اس کے بس سے باہر نہیں تھی ۔ اس نے ایسا نہ کر کے کوتاہی کی اس لیے اس کی کوتاہی اس سے روزے کی فرضیت ساقط نہیں کرسکی ۔ دوم یہ کہ کھانے والے کے لیے طلوع فجر کے متعلق یقین حاصل کرنا ممکن نہ ہومثلاً وہ طلوع فجر کے مفہوم سے نا آشنا ہو یا اس کی درمیان کوئی رکاو ٹ حائل ہوگئی ہو یا چاندنی رات ہو یا اس کی بینائی کمزور ہو یا کوئی اور صورت ہو تو ایسی حالت میں اس کے لیے ظن اور گمان پر عمل کرنا جائز نہیں ہوگا بلکہ یقین تک پہنچنا اس کی ذمہ داری ہوگی اور شک کی حالت میں اس کے کھانے کا عمل درست نہیں ہوگا ۔ جب یہ بات طے ہوگئی تو پھر روزے کے متعلق ترک احتیاط کی وجہ سے اس سے قضا ساقط نہیں ہوگی ۔ اس طرح اگر کسی نے بادلوالے دن چھپنے کے گمان پر روزہ کھول لیا تو ظاہر آیت ثم اتموا الصیام الی اللیل کے مقتضی کے مطابق اس کی بھی حیثیت پہلے شخص کی سی ہوگی۔ اگر یہ اعتراض کیا جائے کہ بندہ طلوع فجر کے متعلق یقین حاصل کرنے کے مکلف نہیں ہے جس کا علم اللہ کو ہے ۔ بندہ تو اس چیز کا مکلف ہے جس ا علم اسے حاصل ہو ۔ اس کے جواب میں کہا جائے گا کہ بندے کے لیے جب طلوع فجر کی معرفت تک جس کا علم اللہ کو ہے پہنچنا ممکن ہو تو پھر اس پر اس کی رعایت لازم ہوتی ہے۔ جس وقت درمیان میں کوئی رکاوٹ حائل نہ ہو تو اس وقت اسکا علم نہ ہونا ایک محال سی بات معلوم ہوتی ہے۔ اس کے باوجود اگر وہ غافل ہو تو غفلت کی حالت میں کھا پی لینا اس کے لیے مباح ہے لیکن کھا پی لینے کی اباحت اس سے قضا کو ساقط نہیں کرسکتی ۔ جس طرح کہ مریض اور مسافر کی کیفیت ہے اور جو اس مسئلے میں اصل کی حیثیت رکھتے ہیں اس لیے کہ انہیں بھی سفر اور بیماری کی معذوری لاحق ہوتی ہے۔ اس لیے جس شخص کو طلوع فجر کے متعلق اشتباہ ہوجائے یا اس کا خیال ہو کہ طلوع فجر نہیں ہوچکا ہے تو وہ کھا پی لینے میں معذور سمجھا جائے گا لیکن ہماری درج بالا وضاحت کی روشنی میں اس کی معذوری اس سے قضا کو ساقط نہیں کرسکتی ۔ ہمارے اس دعوے پر تمام لوگوں کا یہ اتفاق بھی دلالت کرتا ہے کہ اگر لوگوں کو رمضان کی پہلی رات کا چاند بادل وغیرہ کی وجہ سے نظر نہ آئے اور وہ اگلی صبح روزہ نہ رکھیں بعد میں انہیں پتہ لگے کہ آج رمضان کی پہلی تاریخ ہے تو ان پر قضا لازم ہوگی ۔ یہی حکم اس شخص کا بھی ہونا چاہیے جس کا تذکرہ درج بالا سطور میں گزر چکا ہے نیز یہی حکم اس شخص کا بھی ہے جو دارالحراب میں قید ہو اور رمضان گزر جانے کے بعد اسے اس کا علم ہو تو اس پر رمضان کی قضا لازم ہوگی۔ ایسا شخص روزہ نہ رکھنے کی صورت میں مکلف ہی نہیں تھا اور رمضان کے متعلق علم ہوجانے پر مکلف ہوا لیکن وقت کے متعلق اس کی ناواقفیت اس سے قضا ساقط نہیں کرتی ۔ اسی طرح اس شخص سے بھی ساقط نہیں ہوگی جس سے طلوع اور غروب شمس مخفی رہا ۔ اگر یہ کہا جائے کہ طلوع و غروب شمس کے متعلق یقین حاصل نہ کرنے والے کو روزے کے دوران بھول کر کھا لینے والے کی طرح کیوں نہیں سمجھاجاتا اور اس سے قضا کیوں نہیں ساقط کردی جاتی جس طرح بھول کر کھا لینے سے قضا ساقط ہوجاتی ہے کیونکہ کھانے کے دوران روزے کے وجوب کا علم ہی نہیں ہوتا ۔ اس کے جواب میں کہا جائے گا کہ درج بالاشخص کو بھول جانے والے شخص کی طرح قرار دینا ایک فاسد تعلیل ہے۔ اس لیے کہ ایسا شخص ان لوگوں میں ہوتا ہے جنہیں بادل وغیرہ کی وجہ سے چاند نظر نہیں آتا اور ایسے لوگوں کے متعلق سب کا اتفاق ہے کہ ان پر قضا واجب ہوجاتی ہے جب انہیں یہ علم ہوجاتا ہے کہ آج رمضان کی پہلی تاریخ ہے ۔ یہی کیفیت دارالحرب میں قید ہوجانے والے کی ہوتی ہے جب اسے رمضان کی آمد کا علم نہ ہو اور رمضان گزر بھی جائے تو سب کے نزدیک اس پر اس کی قضا واجب ہوتی ہے باوجودیکہ اسے اپنے اوپر روزے کے وجوب کا علم نہیں ہوتا۔ رہ گئی بھول کر کھا لینے والے کی بات تو اس کے متعلق ہمارے اصحاب کا قول ہے کہ قیاس کا تقاضا تو یہ تھا کہ اس پر قضا واجب ہو لیکن انہوں نے حدیث کی بنا پر قیاس کو ترک کردیا اگرچہ ظاہر آیت بھی اس کے روزے کی صحت کی نفی کرتا ہے کیونکہ اس نے روزے کو اتمام تک نہیں پہنچایاجب کہ قول باری ہے ثم اتموا الصیام الی للیل پھر تم رات تک روزے کو پورا کرو اور روزہ نام ہے کھانے پینے اور جماع سے بازرہنے کا جو اس میں پایا نہیں گیا ، آپ نہیں دیکھتے کہ اگر ایسا شخص سے روزہ رکھنا ہی بھول جاتا تو اس پر سب کے نزدیک اسکی قضا ہوتی اور اس کا نسیان اس سے قضا کو ساقط نہیں کرسکتا۔ ایک روایت ہمیں محمد بن بکر نے بیان کی ، انہیں ابو دائود نے ، انہیں ہارون بن عبد اللہ اور محمد بن العلاء المعنی ، ان دونوں کو ابو اسامہ نے ، انہیں ہشام بن عروہ نے فاطمہ بن المنذر سے اور انہوں نے حضرت اسماء بنت ابی بکر سے روایت کی ۔ وہ کہتی ہیں کہ حضور ﷺ کے زمانے میں ایک روز ہم نے بادل والے دن روزہ کھول دیا پھر سورج نکل آیا ۔ ابو اسامہ کہتے ہیں کہ میں نے ہشام سے پوچھا آیا انہیں قضا کرنے کا حکم دیا گیا گیا تھا تو ہشام نے جواب دیا کہ یہ ضروری تھا۔ قوم باری ثم اتموا الصیام الی اللیل اس پر بھی دلالت کرتا ہے کہ اگر کسی شخص کا روزہ زبردستی کھلادیا جائے تو اس کا روزہ باطل ہوجائے گا کیونکہ اس نے اپنا روزہ مکمل نہیں کیا جیسا کہ ہم پہلے بیان کر آئے ہیں ۔ اسی طرح وہ شخص جو دیوانہ ہوگیا اور دیوانگی کے عالم میں کھا پی گیا ہو ، اس لیے کہ اللہ تعالیٰ نے اس شخص کے روزے کی صحت کا حکم دیا ہے جو اسے رات تک پورا کرے اس بنا پر جس شخص سے روزے کی ممنوعات میں سے کوئی فعل سر زد ہوجائے وہ روزہ رات تک مکمل کرنے والا نہیں کہلائے گا اس لیے اس پر قضا لازم ہوگی۔ رہ گیا وہ وقت جبروزے کی انتہا ہوتی ہے اور فطار کرنا واجب ہوتا ہے اس کے متعلق ہمیں محمد بن بکر نے روایت بیان کی ، انہیں ابو دائود نے ، انہیں مسدد نے ، انہیں عبد اللہ بن دائود نے ہشام بن عرو ہ سے ، انہوں نے اپنے والد عروہ سے ، انہوں نے عاصم بن عمر سے اور انہوں نے اپنے والد حضرت عمر ؓ سے کہ حضور ﷺ نے فرمای اذا جاء اللیل من ھھنا وفھب النھار من ھھنا وغامبت الشمس فقد افطر الصائم جب رات اس جگہ یعنی مشرق سے آ جائے اور دن یہاں سے گزر جائے اور سورج غروب ہوجائے تو روزہ دار کا روزہ کھل جاتا ہے۔ اس روایت محمد بن بکر نے ہمیں سنائی ، انہیں ابو دائود نے ، انہیں مسدد نے ، انہیں عبد الواجد نے انہیں سلیمان الشیبانی نے یہ بتایا کہ میں نے حضرت عبد اللہ بن ابی اوفی ؓ کو یہ فرماتے ہوئے سنا تھا کہ حضور ﷺ نے ارشاد فرمایا اذا اریتم اللیل قد اقبل من ھھنا فقد افطرالصائم جب تم دیکھو کہ رات اس طرف سے، یہ کہتے ہوئے حضور ﷺ نے مشرق کی طرف اشارہ کیا ، آ گئی ہے تو سمجھ لو کہ روزہ دار کا روزہ کھل گیا ۔ حضرت ابوسعید خدری ؓ نے حضور ﷺ سے روایت کی ہے کہ آپ نے فرمایا اذا سقط القوص افطر جب سورج کی ٹکیہ گرجائے یعنی ڈوب جائے تو روزہ کھول لو اس میں کوئی حرج نہیں ہے کہ جب سورج غروب ہوجائے تو روزے کا وقت ختم ہوجاتا ہے اور روزے کی تمام پابندیاں ختم ہوکر اس کے لیے کھانا اور ہم بستری کرنا جائز ہوجاتا ہے۔ حضور ﷺ کا یہ ارشاد اذا غابت الشمس فقد افطرالصائم یہ واجب کرتا ہے کہ غروب آفتاب کے ساتھ ہی روزہ کھل جائے خواہ روزہ دار کچھ کھائے یا نہ کھائے کیونکہ روزہ رات کے وقت نہیں ہوتا ۔ اس لیے حضور ﷺ نے صوم و صال سے منع فرمایا ہے اس لیے کہ اس صورت میں وہ روزہ نہ ہونے کے باوجود کھانے پینے سے پرہیز کرتا ہے۔ صوم وصال کا مفہوم یہ ہے کہ دو یا تین دن لگاتار کچھ نہ کھائے پئے ۔ اگر کسی وقت بھی اس نے کچھ کھا پی لیا تو وہ وصال سے خارج ہوجائے گا ۔ ابن الہاد نے عبد اللہ بن جناب سے اور انہوں نے حضرت ابو سعید خدری ؓ سے روایت کی ہے کہ حضور ﷺ نے صوم وصال سے منع فرما دیا، لوگوں نے عرض کیا کہ آپ تو ایسے روزے خود رکھتے ہیں۔ یہ سن کر حضور ﷺ نے فرمایا انکم لستم کھیتی انیابیت لی مطعم یطعمنی و ساق یسقینی ذالکم واصل فمن السحو الی السحرتم میری طرح نہیں ہو مجھے تو رات کے وقت ایک کھلانے پلانے والا کھلاتا پلاتا ہے یعنی اللہ کی ذات ، اس لیے تم میں سے جو مواصلت کرنا چاہے تو بس سحر سے سحر تک کرے ۔ اس طرح آپ نے یہ ارشاد فرما دیا کہ جو شخص سحری کھالے گا وہ صوم وصال کا مرتکب نہیں ہوگا۔ نیز حضور ﷺ نے یہ بھی بتادیا کہ آپ صوم وصال نہیں رکھتے تھے اس لیے کہ اللہ تعالیٰ آپ کو کھلاتا پلاتا ہے۔ حضرت ابوہریرہ ؓ کی روایت میں ہے کہ جب آپ سے پوچھا گیا کہ آپ صوم وصال رکھتے ہیں تو آپ نے فرمایا کہ رات کے وقت میرا رب مجھے کھلاتا پلاتا ہے۔ بعض لوگوں کا قول ہے کہ حضور ﷺ کو تخصیص کے طور پر صوم و وصال کی اجازت تھی امت کو اس کی اجازت نہیں تھی حالانکہ حضور ﷺ نے یہ بتادیا کہ اللہ تعالیٰ آپ کو کھلاتا پلاتا ہے اور ظاہر ہے کہ جس شخص کی یہ کیفیت ہو اس کے متعلق نہیں کہا جاسکتا کہ وہ صوم و صال رکھتا ہے۔ واللہ اعلم بالصواب۔ اعتکاف کا بیان ارشاد باری ہے ولا تبا شروھن وانتم عاکفون فی المساجد اور تم مساجد میں اعتکاف کے دوران اپنی بیویوں کے ساتھ مباشرت نہ کرو لغت میں اعتکاف کے معنی ہیں لبث یعنی ٹھہرے رہنا ۔ قول باری ہے ما ھذہ التماثیل التی انتم لھا عاکفون یہ مجسمے یا بت کیسے ہیں جن کے قدموں سے تم چمٹے بیٹھے ہو اسی طرح ارشاد باری ہے فنظل لھا عاکفین ہم تو ان سے چمٹے ہی رہیں گے طرماح کا ایک شعر ہے۔ ؎ فباتت بنات اللیل حولی عکفا عکوف البوا کی بینھن صریع بنات اللیل یعنی ستارے میرے ارد گرد رات بھر اس طرح جمے بیٹھے رہے ہیں جس طرح کسی منقول آنسو بہانے والی عورتیں اس کے گرد جم کر بیٹھی رہتی ہیں یعنی رات کٹتی نظر نہیں آرہی تھی ۔ پھر لبث کے معنی کے ساتھ ساتھ یہ لفظ شریعت میں کچھ اور معافی کی طرف منتقل ہوگیا جو اس لفظ کے لغوی مدلول نہیں تھے۔ ان میں سے ایک معنی مسجد میں ہونا ، دوسرا معنی روزہ دار ہونا ، تیسرا ہم بستری سے مکمل طور پر پرہیز کرنا اور تقرب الٰہی کی نیت کرنا ۔ جب تک اس لفظ کے تحت یہ تمام معانی نہیں پائے جائیں گے اس وقت تک اس فعل کا کرنے والا متعکف نہیں کہلا سکتا ۔ بالکل ایسی ہی بات ہم روزہ کے سلسلے میں کہہ آئے ہیں کہ لغت میں امساک کو صوم کہتے ہیں ۔ پھر اس میں چند اور معانی کا اضافہ کردیا گیا اور اب ان معافی کے بغیر امساک شرعی روزہ نہیں کہلا سکتا ۔ جہاں تک مسجد میں ٹھہرنے کا تعلق ہے تو یہ صرف مردوں کے لیے شرط ہے ۔ عورتوں کے لیے یہ شرط نہیں ہے۔ مسجد میں اعتکاف کرنے کی اصل اللہ تعالیٰ کا یہ قول ہے ولا تباشروھن وانتم عاکفون فی المساجد اس آیت میں مسجد میں ہونے کا اعتکاف کی شرط قرار دے دیا گیا ۔ سلف کا اس مسجد کے متعلق اختلاف رائے ہے جس میں اعتکاف درست ہوتا ہے۔ ابو وائل کے واسطے سے حضرت حذیفہ ؓ سے یہ مروی ہے کہ آپ نے حضرت عبد اللہ ؓ سے کہا کہ تم دیکھتے ہو کہ لوگوں نے تمہارے گھر اور دار اشعری کے درمیان اعتکاف کر رکھا ہے۔ کیا اس سے تمہیں غصہ نہیں آتا جبکہ تمہیں معلوم ہے کہ اعتکاف صرف تین مسجدوں یا مسجد حرام میں ہوسکتا ہے۔ اس پر حضرت عبد اللہ ؓ نے حضرت حذیفہ ؓ سے فرمایا کہ شاید لوگوں نے ٹھیک کیا ہے اور تمہیں غلطی لگ گئی ہے اور لوگوں نے بات یاد رکھی ہے اور تم بھول گئے ہو ابراہیم نخعی سے مروی ہے کہ حضرت حذیفہ ؓ کہا کرتے تھے کہ اعتکاف صرف تین مسجدوں میں ہوتا ہے ۔ یعنی مسجد حرام ، مسجد اقصیٰ اور مسجد نبوی ۔ قتادہ کے واسطے سے سعید بن المسیب سے مروی ہے کہ اعتکاف صرف مسجد نبوی میں ہوتا ہے یہ بات حضرت حذیفہ ؓ کے مسلک کے مطابق ہے کیونکہ یہ تینوں مسجدیں انبیاء (علیہم السلام) کی مسجدیں ہیں ۔ ایک قول اور بھی ہے کہ جس کی روایت اسرائیل نے ابو اسحاق سے اور انہوں نے الحرث سے اور انہوں نے حضرت علی ؓ سے کی ہے کہ مسجد حرام یا مسجد نبوی کے سوا اور کہیں اعتکاف درست نہیں ہے۔ حضرت عبد اللہ بن مسعود ؓ ، حضرت عائشہ ؓ ، ابراہیم نخعی، سعید بن جبیر ، ابو جعفر اور عروہ بن الزبیر سے مروی ہے کہ اعتکاف صرف اسی مسجد میں ہوسکتا ہے جہاں با جماعت نماز ادا ہوتی ہے۔ اس طرح تمام سلف کا اس پر اتفاق ہوگیا کہ اعتکاف کی ایک شرط مسجد میں ہونا ہے اگرچہ ان کے درمیان عموم و خصوص مساجد کے متعلق اختلاف رائے ہے جس کا ذکر ہم سطور بالا میں کر آئے ہیں ۔ فقہاء امصار کا اس پر اتفاق ہے۔ اعتکاف ایسی تمام مساجد میں درست ہے جہاں با جماعت نمازیں ہوتی ہوں ۔ البتہ امام مالک سے ایک روایت ہے جس کا ابن الحکم نے ذکر کیا ہے کہ کوئی شخص ایسی مسجد کے سوا اور کہیں اعتکاف نہ کرے جہاں جمعہ کی نماز ہوتی ہو یا مساجد کے صحنوں میں جہاں نماز پڑھنا جائز ہو ظاہر آیت وانتم عاکفون فی المساجد تمام مساجد میں اعتکاف کو مباح قرار دیتا ہے اس لیے کہ لفظ المساجد میں عموم ہے اور جو شخص اسے بعض مساجد کے ساتھ خاص کرے گا اسے اس پر دلیل قائم کرنا ہوگا ۔ اسی طرح اسے ایسی مساجد کے ساتھ مخصوص کرنے کی بھی کوئی دلیل نہیں ہے جہاں با جماعت نماز ہوتی ہو جس طرح اسے مساجد انبیاء کے ساتھ خاص کرنا بےدلیل بات ہے اور عدم دلیل کی بنا پر اس قول کا اعتبار بھی ساقط ہوجاتا ہے۔ اگر یہ کہا جائے کہ حضور علیہ الصلوٰۃوالسلام کا قول ہے لا بشد الرحال الا الی ثلاثۃ مساجد المسجد الحرام و مسجد بیت المقدس و مسجدی ھذا کجاوے صرف تین مسجدوں کی طرف سفر کے لئے کسے جائیں ، مسجد حرام ، مسجد بیت المقدس اور میری اس مسجد کی طرف ان تین مساجد کی تخصیص پر دلالت کرتا ہے۔ اسی طرح آپ کا قول صلاۃ فی مسجدی ھذا افضل من الف صلاۃ فی غیرہ الاالمسجد الحرام میری اس مسجد میں ایک نماز دوسری کسی مسجد میں ، مسجد حرام کے سوا ، ہزار نمازوں سے بہتر ہے ۔ ان دو مساجد کی فضلیت کے اختصاص پر دلالت کرتا ہے۔ اس کے جواب میں کہا جائے گا کہ بخدا حضور ﷺ کا تین مساجد کی ایک صفت اور دو مساجد کی ایک صفت کے متعلق یہ قول تمام دوسری مساجد پر ان کی افضلیت پر دلالت کرتا ہے اور ان کے متعلق ہمارا بھی وہی قول ہے جو حضور ﷺ کا ہے۔ البتہ حضور ﷺ کے اس ارشاد میں کوئی ایسی بات نہیں ہے جو دوسری مسجدوں میں اعتکاف کی نفی پر دلالت کرتی ہو ۔ جس طرح کہ دوسری مسجدوں میں جمعہ اور جماعت کے جواز کی نفی پر اس میں کوئی دلالت موجود نہیں ہے اس بنا پر عموم آیت کی ایسی چیز کے ساتھ تخصیص درست نہیں ہے جس کے لیے آیت میں کوئی دلالت موجو د نہیں ہے۔ امام مالک سے وہ روایت بےمعنی ہے جس میں اعتکاف کے لیے صرف جمعہ والی مسجدوں کو خاص کردیا گیا ہے اور جماعت والی مسجدوں کو نظر انداز کردیا گیا ہے ۔ جس طرح جمعہ کی نماز تمام مسجدوں میں درست ہوسکتی ہے اور اس میں کوئی امتناع نہیں اسی طرح ان مساجد میں اعتکاف میں بھی کوئی امتناع نہیں ہے تو پھر اعتکاف کو جماعت والی مسجدوں کو نظر انداز کرتے ہوئے صرف جمعہ والی مسجدوں کے ساتھ کیسے مخصوص کیا جاسکتا ہے۔ عورتوں کے اعتکاف کی جگہ کہاں ہو ؟ عورتوں کے اعتکاف کی جگہ کے متعلق فقہاء میں اختلاف رائے ہے ۔ امام ابوحنیفہ ، ابو یوسف محمد اور امام ظفر کا قول ہے کہ عورت صرف اپنے گھر کی مسجد میں اعتکاف کرے گی اور جماعت والی مسجد میں اعتکاف نہیں کرے گی ۔ امام مالک کا قول ہے کہ عورت مسجد جماعت میں اعتکاف کرسکتی ہے۔ آپ کو عورت کا اپنے گھر کی مسجد میں اعتکاف کرنا اچھا نہیں لگتا ہے۔ امام شافعی کا قول ہے کہ غلام ، عورت اور مساجد جس جگہ چاہیں اعتکاف کرسکتے ہیں ۔ اس لئے کہ ان پر جمعہ فرض نہیں ہوتا ۔ ابوبکر جصاص کہتے ہیں کہ حضور ﷺ سے مروی ہے کہ آپ نے فرمایا لا تمنعوا ماء اللہ مساجد اللہ وبیوتھن خیر لھن اللہ کی لونڈیوں کو اللہ کی مسجدوں میں جانے سے نہ روکو اور ان کا گھران کے لیے سب سے بہتر ہے آپ نے یہ بتادیا کہ عورتوں کا گھر ان کے لیے سب سے بہتر ہے۔ آپ نے اعتکاف اور نماز کے درمیان ان کے حکم میں کوئی فرق نہیں رکھا۔ جب باتفاق فقہاء عورت کے لیے اعتکاف جائز ہوگیا تو یہ واجب ہوگیا کہ اس کا اعتکاف اس کے گھر میں ہو ۔ اس لیے کہ حضور ﷺ کا قول ہے کہ وبیوتھن خیر لھن ان کا گھر ان کے لیے سب سے بہتر ہے اگر عورت ان میں سے ہوتی جن کے لیے مسجد میں اعتکاف کرنا مباح ہے تو مسجد میں اس کا اعتکاف افضل ہوتا اور ان کے گھر ان کے لیے سب سے بہتر نہ ہوتا ۔ اس لیے کہ مسجد میں اعتکاف کرنا ان لوگوں کے لیے شرط ہے جن کے لیے وہاں اعتکاف کرنا مباح ہے۔ اس پر حضور ﷺ کا یہ قول بھی دلالت کرتا ہے کہ صلاۃ المراۃ فی دار ھا افضل من صلا تھا فی مسجد ھا وصلا تھا فی بیتھا افضل من معلا تھا فی دارھا وصلا تھا فی مخدعھا افضل من ضلا تھا فی بیتھا عورت کا اپنے گھر میں نماز پڑھنا مسجد میں جا کر نماز پڑھنے سے افضل ہے اور اس کا اپنے کمرے میں نماز پڑھنا گھر میں نماز پڑھنے سے افضل ہے اور اس کا اپنے کمرے کے اندر بنی ہوئی کوٹھڑی میں نماز پڑھنا کمرے میں نماز پڑھنے سے بہتر ہے۔ جب اپنے کمرے میں اس کی نماز مسجد کی نماز سے افضل ہے تو اس کے اعتکاف کا بھی یہی حکم ہونا چاہیے۔ عورتوں کے لیے مسجد میں جا کر اعتکاف کرنے کی کراہت پر وہ روایت دلالت کرتی ہے جو ہمیں محمد بن بکر نے بیان کی ، انہیں ابو دائود نے ، انہیں عثمان بن ابی شیبہ نے، انہیں ابو معاویہ اور یعلی بن عبید نے یحییٰ بن سعید سے ، انہوں نے عمرہ سے عمرہ نے حضرت عائشہ ؓ سے کہ جب حضور ﷺ اعتکاف کرنے کا ارادہ فرماتے تو فجر کی نماز پڑھنے کے بعد اعتکاف کی جگہ میں داخل ہوجاتے۔ حضرت عائشہ ؓ فرماتی ہیں کہ آپ نے ایک دفعہ رمضان کے آخری عشرہ میں اعتکاف کرنے کا ارادہ کیا آپ نے اس کے لیے مسجد میں جھولداری کھڑی کرنے کا حکم دیا چناچہ جھولداری کھڑی کردی گئی یہ دیکھ کر میں نے اور دوسری ازواج نبی ﷺ نے بھی اپنے لیے الگ الگ جھولداریاں بنوا لیں۔ جب آپ نے صبح کی نماز ادا کی تو آپ کی نظر ان جھولداریوں پر پڑی آپ ﷺ نے فرمایا :” یہ جھولداریاں کیسی ہیں ، کیا تم نے ان کے ذریعے نیکی کا ارادہ کیا ہے ؟ “ اس کے بعد آپ نے اپنی جھولداری گرانے کا حکم دیا اور ازواج مطہرات کو بھی اپنی اپنی جھولداریاں اکھڑ وا دینے کا حکم دیا ۔ پھر آپ نے یہ اعتکاف شوال کے پہلے عشرے تک موخر کردیا ۔ یہ روایت مسجد میں عورتوں کے اعتکاف کی کراہت پر دلالت کرتی ہے ۔ اس لیے کہ حضور ﷺ نے ازواج مطہرات کی جھولداریاں مسجد میں لگی ہوئی دیکھ کر فرمایا تھا آلبرتردن کیا تم نے اس سے نیکی کا ارادہ کیا ہے۔ اس سے آپ کی مراد یہ تھی کہ یہ کوئی نیکی کی بات نہیں ہے۔ اس چیز کی کراہت کا اس سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ آپ نے اس ماہ اعتکاف ہی نہیں کیا اور اپنی جھولداری گرا دی تا کہ ازواج مطہرات بھی اپنی اپنی جھولداریاں گرا دیں ۔ اگر آپ کے نزدیک ان کا اعتکاف پسندیدہ ہوتا تو آپ ہرگز پختہ عزم کرلینے کے بعد اعتکاف ترک نہ فرماتے اور نہ ہی ازواج مطہرات کے لیے اسے ترک کردینا جائز ٹھہراتے جبکہ اعتکاف تقرب الٰہی کا ایک ذریعہ ہے۔ اس واقعہ میں یہ دلالت موجود ہے کہ آپ نے مسجد میں عورتوں کے اعتکاف کو ناپسند فرمایا۔ اگر یہ کہا جائے کہ اس حدیث کی روایت سفیان بن عینیہ نے یحییٰ بن سعید سے کی ہے ، انہوں نے عمرہ سے اور عمرہ نے حضرت عائشہ ؓ سے ، اس میں حضرت عائشہ ؓ نے فرمایا کہ میں نے حضور ﷺ سے اعتکاف کرنے کی اجازت مانگی ، آپ نے مجھے اجازت دے دی ، پھر زینب نے اجازت مانگی آپ نے انہیں بھی اجازت دے دی ۔ جب آپ نے فجر کی نماز پڑھی تو مسجد میں چار جھولداریاں دیکھیں ۔ استفسار کرنے پر آپ کو بتایا گیا کہ ان میں سے تین زینب ، حفصہ اور عائشہ کی ہیں یہ سن کر آپ نے فرمای آلبرتردن اور پھر آپ نے اعتکاف نہیں کیا ۔ اس روایت میں حضرت عائشہ ؓ نے حضور ﷺ کی اجازت کی خبر دی ہے۔ اس کے جواب میں کہا جائے گا کہ اس روایت میں انہیں مسجد میں اعتکاف کی اجازت کی کوئی بات نہیں ہے بلکہ اس میں یہ احتمال ہے کہ آپ کی طرف سے اجازت کا مقصد یہ تھا کہ یہ ازواج مطہرات اپنے اپنے گھروں میں اعتکاف کریں ۔ یہی وجہ ہے کہ جب آپ نے مسجد میں ان کی جھولداریاں لگی ہوئی دیکھیں تو آپ نے اعتکاف کا ارادہ ہی ترک کردیا تا کہ وہ بھی اپنا اپنا ارادہ ترک کردیں۔ یہ اس بات کی دلیل ہے کہ آپ کی طرف سے ابتدا میں اجازت کا تعلق مسجد میں اعتکاف کا اجازت سے نہیں تھا نیز اگر ابتدا میں اجازت کا تعلق مسجد میں اعتکاف کے جواز سے ہوتا تو آپ کی طرف سے نا پسندیدگی کا اظہار اس اجازت کے منسوخ ہونے پر دلالت کرتا اور اس طرح آپ کا آخری حکم سابقہ حکم سے اولیٰ قرار پاتا ۔ اگر اس استدلال پر یہ اعتراض کیا جائے کہ حضور ﷺ کی ناپسندیدگی آپ کی طرف سے دی ہوئی اجازت کے لیے ناسخ نہیں بن سکتی اس لیے کہ احناف کا یہ کلیہ ہے کہ جب تک کسی فعل پر مکلف کو قدرت حاصل نہ ہوجائے اس فعل پر نسخ وارد نہیں ہوسکتا ۔ اس کے جواب میں کہا جائے گا کہ ازواج مطہرات کو کم سے کم اعتکاف پر تمکن یعنی قدرت حاصل ہوگئی تھی ۔ اس لیے کہ یہ اعتکاف اس دن طلوع فجر سے شروع ہوگیا تھا۔ یہاں تک کہ حضور ﷺ نے فجر کی نماز پڑھ لی اور پھر آپ نے ازواج مطہرات کے اس فعل پر نا پسندیدگی کا اظہار کیا ۔ اس طرح اس مدت میں اگرچہ وہ قلیل ہی سہی ، ازواج مطہرات کو اعتکاف کرنے کی قدرت حاصل ہوگئی تھی ۔ اس لیے اب اس پر نسخ کا ورد و درست ہوگیا ۔ امام شافعی کا یہ قول بےمعنی ہے کہ جس شخص پر جمعہ واجب نہیں وہ جس جگہ چاہے اعتکاف کرسکتا ہے اس لیے کہ اعتکاف کا جمعہ سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ امام شافعی کے ساتھ ہمارا اس امرپر اتفاق ہے کہ جن لوگوں پر جمعہ واجب ہے اور جن پر جمعہ واجب نہیں ہے ان کے لیے تمام مساجد میں اعتکاف جائز ہے ۔ اعتکاف کی جگہ کے لحاظ سے ان دو گروہوں کا حکم یکساں ہے ۔ البتہ عورت کے لیے مسجد میں اعتکاف کو مکروہ سمجھا گیا ہے کیونکہ ایسی صورت میں اسے مسجد میں مردوں کے ساتھ ٹھہرنا پڑے گا اور یہ چیز اس کے لیے مکروہ خواہ وہ حالت اعتکاف میں ہو یا نہ ہو ۔ عورت کے سوا دوسروں کے لیے اعتکاف کے حکم میں کوئی فرق نہیں ہے اس لیے کہ قول باری وانتم عاکفون فی المساجد آیت میں یہ تخصیص نہیں ہے کہ جس پر جمعہ واجب ہو وہی اعتکاف کرے دوسرا نہ کرے۔ اس لیے جس پر جمعہ واجب ہے اور جس پر واجب نہیں ہے۔ دونوں کے لیے اعتکاف کا حکم یکساں ہے کیونکہ اعتکاف ایک نفلی عبادت ہے ، یہ کسی پر فرض نہیں ہے۔ مدت اعتکاف کے متعلق فقہاء میں اختلاف رائے ہے۔ امام ابوحنیفہ ، ابو یوسف ، محمد ، ظفر اور امام شافعی کا قول ہے کہ اعتکاف کرنے والے کو اجازت ہے کہ وہ ایک دن یا جتنے دن چاہے اعتکاف کرسکتا ہے ۔ ہمارے اصحاب سے اس شخص کے متعلق روایت میں اختلاف ہے جو زبان سے ایجاب کئے بغیر اعتکاف میں داخل ہوجائے۔ ایک روایت میں ہے کہ وہ جب تک مسجد میں رہے گا اعتکاف کی حالت میں رہے گا ۔ پھر اسے اجازت ہوگی کہ جب چاہے مسجد میں باہر چلا جائے البتہ جب تک رہے روزہ دار کی طرح رہے یعنی کھانے پینے سے پرہیز کرے۔ دوسری روایت جو حنیفہ کی کتب اصول کی روایت کے علاوہ ہے، یہ ہے کہ وہ ایک دن مکمل کرے۔ ابن وہب نے امام مالک سے روایت کی ہے کہ آپ نے فرمایا میں نے کسی کے متعلق یہ نہیں سنا کہ اس نے دس دنوں سے کم کا اعتکاف کیا ہو ۔ اگر کوئی ایسا کرلیتا ہے تو میرے نزدیک اس پر کوئی چیز عائد نہیں ہوگی ۔ ابن القاسم نے اما م مالک سے یہ نقل کیا ہے کہ آپ فرمایا کرتے ۔ اعتکاف ایک دن ایک رات کا ہوتا ہے ۔ پھر آپ نے اس قول سے رجوع کرلیا اور فرمایا کہ دس دنوں سے کم کا اعتکاف نہیں ہوتا ۔ عبید اللہ بن الحسن کا قول ہے کہ مجھے دس دن سے کم کا اعتکاپسند نہیں ۔ ابو بکر جصاص کہتے ہیں کہ اعتکاف کی مدت کی تحدید یا تو شریعت کی طرف سے اس کے متعلق رہنمائی کی بنیاد پر درست ہوسکتی ہے یا پھر اتفا ق امت کی بنیاد پر اور یہاں یہ دونوں باتیں معدوم ہیں ۔ اس لیے جو شخص اس کی تحدید کو واجب کرتا ہے وہ کسی دلیل کے بغیر اپنی رائے سے فیصلہ کرتا ہے اگر یہ کہا جائے کہ دس دنوں کی تحدید اس لیے ہے کہ حضور ﷺ سے مروی ہے کہ آپ نے رمضان کے آخری عشرہ میں اعتکاف کیا تھا ، نیز یہ روایت بھی ہے کہ آپ نے شوال کے پہلے عشرہ میں اعتکاف فرمایا تھا، آپ سے کوئی ایسی روایت موجود نہیں ہے جو اس سے کم مدت کے اعتکاف کی نشاندہی کرتی ہو ۔ اس کے جواب میں کہا جائے گا کہ فقہاء کا اس میں کوئی اختلاف نہیں ہے کہ حضور ﷺ کے اعتکاف کا یہ فعل وجوب کی بنا پر نہیں تھا اور اس فعل سے کسی پر اعتکاف کا وجوب نہیں ہوتا اب جبکہ آپ کے اعتکاف کا یہ فعل وجوب کی بنا پر نہیں تھا تو آپ کے اس فعل سے دس دنوں کی تحدید نہ کرنا اولیٰ ہے۔ اس کے باوجود آپ نے دس دنوں کے علاوہ کم و بیش دنوں کی نفی نہیں کی ۔ اس لیے ہم یہ کہتے ہیں کہ دس دنوں کا اعتکاف جائز ہے اور اس سے کم دنوں کے اعتکاف کی نفی کے لیے دلیل کی ضرورت ہے۔ اللہ تعالیٰ نے تو اعتکاف کو مطلق رکھا ہے۔ قول باری ہے ولا تبا شو وھن وانتم عاکفون فی المساجد اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے اعتکاف کو نہ تو کسی وقت کے ساتھ محدود کیا ہے اور نہ ہی کسی مدت کے ساتھ مخصوص کیا ہے ۔ اس لیے اعتکاف وقت اور مدت سے آزاد ہے اور بغیر کسی دلالت کے اس کی تخصیص جائز نہیں ۔ واللہ اعلم۔ کیا رو زے کے بغیر اعتکاف درست ہوتا ہے ؟ فرمان الٰہی ہے ولا تباشروھن وانتم عاکفون فی المساجد ہم نے پہلے بیان کردیا ہے کہ اعتکاف ایک شرعی نام ہے اور جو اسم اس قسم کا ہو اس کی حیثیت اس مجمل کی طرح ہوتی ہے جس کی تفصیل اور بیان کی ضرورت ہوتی ہے اس مسئلے میں سلف کا اختلاف ہے۔ عطاء نے حضرت ابن عمر ؓ ، حضرت ابن عباس ؓ اور حضرت عائشہ ؓ سے یہ روایت کی ہے کہ اعتکاف کرنے والے پر روزہ لازم ہے۔ سعید بن المسیب نے حضرت عائشہ ؓ سے روایت کی ہے کہ معتکف کے لیے روزہ رکھنا سنت ہے حاتم بن اسماعیل نے جعفر بن محمد سے اور انہوں نے اپنے والد محمد سے اور انہوں نے حضرت علی ؓ سے روایت کی ہے کہ روے کے بغیر کوئی اعتکاف درست نہیں ہوتا ۔ شعبی ، ابراہیم نخعی اور مجاہد کا یہی قول ہے۔ دوسرے حضرات کا یہی قول ہے کہ روزے کے بغیر بھی اعتکاف درست ہے۔ الحکم نے حضرت علی ؓ اور حضرت عبد اللہ ؓ سے قتادہ نے حسن اور سعید سے اور ابو معشر نے ابراہیم سے یہ روایت کی ہے کہ معتکف اگر چاہے تو روزہ رکھ لے اور اگر چاہے تو نہ رکھے ۔ طائوس نے حضرت ابن عباس ؓ سے بھی اس قسم کی روایت کی ہے۔ اس مسئلے میں فقہاء امصار کا بھی اختلاف ہے۔ امام ابوحنیفہ ، ابو یوسف ، محمد ، زفر ، امام مالک اور سفیان ثوری نیز حسن بن صالح کا قول ہے کہ روزے کے بغیر اعتکاف درست نہیں ہوتا ۔ لیث بن سعد کا قول ہے کہ اعتکاف تو رمضان میں ہوتا ہے اور غیر رمضان میں جوار ہوتا ہے یعنی اللہ کے گھر میں اللہ کا پڑوس حاصل ہوجاتا ہے۔ تا ہم جو شخص جوار حاصل کرے اس پر وہی باتیں لازم ہیں جو معتکف پر لازم ہیں یعنی روزہ وغیرہ ۔ امام شافعی کا قول ہے کہ روزے کے بغیر بھی اعتکاف درست ہے ۔ ابوبکر جصاص کہتے ہیں جیسا کہ ہم بیان کر آئے ہیں اعتکاف ایک مجمل لفظ ہے جس کی تفصیل اور بیان کی ضرورت ہے اس لیے حضور ﷺ نے اپنے اعتکاف کے دوران جو افعال کئے وہ سب کے سب اس شرعی اعتکاف کا بیان ہیں اور ان پر عمل پیرا ہونا واجب ہے اس لیے کہ حضور ﷺ کا کوئی فعل اگر مورد بیان آ جائے تو اسکا حکم وجوب کا ہوتا ہے۔ البتہ اگر اس کے خلاف کوئی دلیل قائم ہوجائے تو وہ دوسری بات ہے جب حضور ﷺ سے روزے کے بغیر کسی اعتکاف کا ثبوت نہیں تو یہ ضروری ہوگیا کہ روزہ اس کی وہ شرط بن جائے جس کے بغیر وہ درست نہ ہو جس طرح حضور ﷺ کے افعال صلاۃ مثلاً تعداد رکعات قیام ، رکوع ، سجود جب مورد بیان میں آ گئے تو وہ واجب ہوگئے۔ سنت کی جہت سے اس سلسلے میں ایک روایت ہے جو ہمیں محمد بن بکر نے سنائی ، انہیں ابو دائود نے ، انہیں احمد بن ابراہیم نے ، انہیں عبد اللہ بن بدیل بن ورقاء لیثی نے عمرو بن دینار سے انہوں نے حضرت ابن عمر ؓ سے کہ حضرت عمر ؓ نے زمانہ جاہلیت میں اپنے اوپر کعبہ کے نزدیک ایک دن یا ایک رات کا اعتکاف لازم کرلیا تھا۔ حضرت عمر ؓ نے حضور ﷺ سے مسئلہ پوچھا تو آپ نے جواب دیا کہ روزے کے ساتھ اعتکاف کرلو ۔ ایک اور طریق سے یہ روایت جو ہمیں محمد بن بکر نے سنائی ، انہیں ابو دائود نے ، انہیں عبد اللہ بن عمر ؓ ، بن محمد ابان بن صالح قرشی نے ، انہیں عمرو بن محمد نے عبد اللہ بن بدیل سے اپنی سند کے ساتھ اسی طرح کی حدیث سنائی اور حضور ﷺ کا حکم چونکہ وجوب کی حیثیت رکھتا ہے۔ سنت کی جہت سے اس سلسلے میں ایک روایت ہے جو ہمیں محمد بن بکر نے سنائی ، انہیں ابو دائود نے ، انہیں احمد بن ابراہیم نے ، انہیں عبد اللہ بن بدیل بن ورقاء لیثی نے عمرو بن دینار سے انہوں نے حضرت ابن عمر ؓ سے کہ حضرت عمر ؓ نے زمانہ جاہلیت میں اپنے اوپر کعبہ کے نزدیک ایک دن یا ایک رات کا اعتکاف لازم کرلیا تھا۔ حضرت عمر ؓ نے حضور ﷺ سے مسئلہ پوچھا تو آپ نے جواب دیا کہ روزے کے ساتھ اعتکاف کرلو ۔ ایک اور طریق سے یہ روایت جو ہمیں محمد بن بکر نے سنائی ، انہیں ابو دائود نے ، انہیں عبد اللہ بن عمر ؓ بن محمد ابان بن صالح قرشی نے ، انہیں عمرو بن محمد نے عبد اللہ بن بدیل سے اپنی سند کے ساتھ اسی طرح کی حدیث سنائی اور حضور ﷺ کا حکم چونکہ وجوب کی حیثیت رکھتا ہے۔ اس سے یہ ثابت ہوگیا کہ روزہ اعتکاف کی شرط ہے ۔ اس پر حضرت عائشہ ؓ کا یہ قول بھی دلالت کرتا ہے کہ معتکف کے لیے روزہ رکھنا سنت ہے۔ عقلی جہت سے بھی اسکی دلیل یہ ہے کہ تمام لوگوں کا اس پر اتفاق ہے کہ نذر کے اعتکاف میں روزہ لازما ہوتا ہے۔ اس لیے اگر روزہ اعتکاف کے مفہوم میں داخل نہ ہوتا تو نذر کی صورت میں یہ لازم نہ ہوتا ۔ اس لیے کہ قاعدہ یہ ہے کہ جس چیز میں اصل کے لحاظ سے وجوب نہیں ہوتا وہ چیزنذر کی وجہ سے لازم نہیں ہوتی اور واجب نہیں بنتی ۔ جس طرح کہ ایک چیز میں اگر اصل کے لحاظ سے تقرب الٰہی کا مفہوم نہ ہو وہ قربت یعنی عبادت نہیں بنتی ۔ چاہے کوئی اسے تقرب کا ذریعہ ہی کیوں نہ بنا لے۔ اس کی ایک اور دلیل بھی ہے وہ یہ کہ اعتکاف کا مفہوم ہے ایک جگہ ٹھہرے رہنا ۔ اس لیے یہ وقوف عرفات اور منیٰ میں ٹھہرنے کے مشابہ ہوگیا ۔ اب اگر یہ دونوں باتیں ایک جگہ ٹھہرے رہنے کے مفہوم میں داخل ہیں لیکن یہ اس وقت تک تقرب الٰہی کا ذریعہ نہیں بنیں گی جب تک کہ اس میں ایک اور معنی شامل نہ ہوجائے جو فی نفسہٖ ایک قربت یعنی عبادت ہے ۔ یعنی وقوف عرفات کے ساتھ احرام اور منیٰ میں قیا م کے ساتھ رمی جمار کا ہونا ۔ اگر کوئی یہ اعتراض کرے کہ اگر اعتکاف کے لیے روزہ شرط ہوتا تو پھر اعتکاف رات کے وقت درست نہ ہوتا کیونکہ رات کے وقت روزہ نہیں ہوتا ۔ اس کے جواب میں کہا جائے گا کہ سب کا اس پر اتفاق ہے کہ اعتکاف کی ایک شرط مسجد میں ٹھہرنا ہے اگر معتکف انسانی ضرورت کے تحت یا جمعہ پڑھنے کے لیے مسجد سے نکلے تو اس سے اس کے اعتکاف پر کوئی اثر نہیں پڑتا اور یہ بات مسجد میں ٹھہرنے کی شرط پر اثر انداز نہیں ہوتی۔ یہی بات اعتکاف کو روزے کے ساتھ مشروط کرنے میں بھی پائی جاتی ہے کہ رات کے وقت روزے کا نہ ہونا اعتکاف کے لیے روزے کی شرط پر کوئی اثر نہیں ڈالتا ۔ اسی طرح منیٰ میں قیام رمی جمار کی وجہ سے عبادت ہے اور اگلے دن کی رمی کے لیے منیٰ میں رات کا قیام بھی عبادت ہے۔ ٹھیک اسی طرح اگلے دن کے روزے کی وجہ سے رات کے وقت کا اعتکاف روزے کے بغیر بھی درست ہے۔ واللہ اعلم۔ معتکف کے لیے کون کون سے کام جائز ہیں ؟ قول باری ہے ولا تبا شروھن وانتم عاکفون فی المساجد اس میں یہ احتمال ہے کہ مباشرت کے حقیقی معنی مراد ہوں یعنی جلد کے اوپر والے حصے کو دوسرے کی جلد کے اوپر والے حصے سے چپکایا لگا دینا خواہ یہ عمل جسم کے کسی بھی حصے میں کیوں نہ ہو۔ نیز یہ بھی احتمال ہے کہ لفظ المسیس کی طرح یہ جماع کے مفہوم کے لیے کنایہ ہو ، جبکہ المسیس کے حقیقی معنی ہاتھ اور دوسرے تمام اعضا کے ذریعے مس کرنا ہیں اور جیسا کہ قول باری ہے فالان باشروھن وابتغوا ما کتب اللہ لکم اب تم ان کے ساتھ ہم بستری کرو ۔ اور جو چیز اللہ نے تمہارے لیے لکھ دی ہے اسے تلاش کرو یہاں مباشرت سے مراد ہم بستری ہے جب سب اس کا اس پر اتفاق ہوگیا کہ اس آیت نے معتکف کے لیے جماع کی ممانعت کردی ہے اور یہاں مباشرت سے مراد جماع ہے تو اب یہ ضروری ہو یا کہ اس سے ارادہ مباشرت کے معنی منتفی ہوجائیں ۔ اس لیے کہ مباشرت اس کے حقیقی معنی اور جماع اس کے مجازی معنی ہیں اور ایک لفظ سے بیک وقت اس کے حقیقی اور مجازی معنی مراد لینا درست نہیں ہے۔ تا ہم فقہاء کا اس مسئلے میں اختلاف ہے۔ ہمارے اصحاب کا قول ہے کہ اگر مباشرت شہوت کے تحت نہ ہو تو اس میں کوئی حرج نہیں ہے بشرطیکہ معتکف کو اپنے اوپر پورا قابو ہوتا ہم اس کے لیے یہ مناسب نہیں کہ رات یا دن کسی وقت بھی شہوت کے ساتھ مباشرت یعنی ہم آغوشی وغیرہ کرے اگر اس مباشرت کے دوران انزال ہوگیا تو اس کا اعتکاف فاسد ہوجائے گا اور انزال نہ ہوا تو فاسد نہیں ہوگا ۔ تا ہم یہ عمل برا عمل کہلائے گا ۔ ابن القاسم نے امام مالک سے روایت کی ہے کہ اگر معتکف نے بوسہ لے لیا تو اس کا اعتکاف فاسد ہوجائے گا ۔ المزنی نے امام شافعی سے یہ نقل کیا ہے کہ اگر معتکف نے مباشرت کی تو اس کا اعتکاف فاسد ہوجائے گا ۔ ایک دوسری جگہ امام شافعی ہے کہ ایسی ہم بستری سے اعتکاف فاسد نہیں ہوتا جس سے حد واجب ہوتی ہو یعنی اپنی بیوی یا لونڈی سے ہم بستری کی صورت میں اعتکاف فاسد نہیں ہوگا ۔ ابوبکر جصاص کہتے ہیں کہ آیت میں مباشرت سے مراد اس کے مجازی معنی یعنی ہم بستری ہیں ۔ ہاتھ سے لمس یا بوسہ وغیرہ مراد نہیں ہے۔ اسی طرح امام ابو یوسف کا قول ہے کہ قول باری ولا تباشروھن وانتم عاکفون فی المساجد میں مباشرت جماع پر محمول ہے۔ جن بصری سے مروی ہے کہ مباشرت سے مراد نکاح یعنی جماع ہے ۔ حضرت ابن عباس ؓ کا قول ہے کہ جب معتکف جماع کرلے گا تو اس کا اعتکاف فاسد ہوجائے گا ۔ ضحاک کا قول ہے کہ لوگ اعتکاف کی حالت میں بھی بیویوں سے ہم بستری کرلیتے تھے حتیٰ کہ آیت نازل ہوئی ولا تباشروھن وانتم عاکفون فی المساجد قتادہ کہتے ہیں کہ لوگ جب اعتکاف کرتے تو کوئی نہ کوئی آدمی مسجد سے نکل کر گھر پہنچ جاتا اور ہم بستری سے فارغ ہوکر واپس مسجد آ جاتا ۔ اللہ تعالیٰ نے درج بالا آیت کے ذریعے لوگوں کو اس سے منع فرمایا۔ درج بالا اقوال کی روشنی میں یہ بات کہی جاسکتی ہے کہ سلف نے آت سے معنی مراد جماع ہی سمجھا ہے۔ لمس یا مباشرت بالیدد نہیں سمجھا بغیر شہوت کے مباشرت کی اباحت پر زہری کی حدیث دلالت کرتی ہے جو انہوں نے عروہ کے واسطے سے حضرت عائشہ ؓ سے روایت کی ہے کہ جب حضور ﷺ اعتکاف میں ہوتے تو آپ حضور ﷺ کے بالوں میں کنگھی کردیتیں کنگھی کرنے کی صورت میں لا محالہ حضرت عائشہ ؓ کا ہاتھ حضور ﷺ کے جسم مبارک کو لگتا ہوگا ۔ اس سے یہ معلوم ہوا کہ شہوت کے بغیر مباشرت معتکف کے لیے ممنوع نہیں ہے۔ نیز جب یہ ثابت ہوگیا کہ جماع کی ممانعت کے لحاظ سے اعتکاف روزے کے معنی میں ہے اور چونکہ روزے میں شہوت کے بغیر لمس بالید اور بوس و کنار کی اجازت ہے بشرطیکہ اپنے جذبات پر قابو ہو اور حضور ﷺ سے بہت سی روایات کے ذریعے اس کا ثبوت ہے تو یہ روری ہوگیا کہ معتکف کے لیے بھی شہوت کے بغیر بوس و کنار کی اجازت ہو اور چونکہ روزے کی حالت میں شہوت کے تحت بوس و کنار اور ہم آغوشی کی ممانعت ہے اس لیے اعتکاف کی صورت میں بھی ان دونوں کا یہی حکم ہونا چاہیے۔ اسی طرح چونکہ روزے کی صورت میں مباشرت کی وجہ سے شہوت کے تحت انزال سے روزہ ٹوٹ جاتا ہے اس لیے اعتکاف کی صورت میں شہوت کے تحت انزال کا بھی یہی حکم ہونا چاہیے۔ اس لیے کہ روزہ اور اعتکاف دونوں کا اس لحاظ سے یکساں درجہ ہے کہ دونوں میں جماع پر پابندی ہے لیکن جماع کے دواعی یا آمادہ کرنے والی باتوں مثلاً خوشبو اور لباس وغیرہ پر پابندی نہیں ہے۔ اگر یہ کہا جائے کہ محرم اگر بوسہ لے لے تو اس پر دم یعنی قربانی واجب ہوجاتی ہے خواہ اسے انزال نہ بھی ہو تو یہی رویہ معتکف کے لیے کیوں نہیں اپنایا گیا ۔ اس کے جواب میں کہا جائے گا کہ احرام اعتکاف کے لیے اصل نہیں ہے ۔ آپ دیکھ سکتے ہیں کہ احرام میں جماع اور اس کے دواعی مثلاً خوشبو وغیرہ ممنوع ہیں ۔ اس طرح سلے ہوئے کپڑے ، سر ڈھانپنا اور شکار کرنا سب ممنوع ہیں ، لیکن جماع کے سوا باقی باتیں اعتکاف کی حالت میں ممنوع نہیں ہیں۔ اس سے یہ ثابت ہوگیا کہ احرام اعتکاف کے لیے اصل نہیں ہے اور جہاں تک احکام کا تعلق ہے احرام میں ممانعت کے احکام زیادہ ہیں ۔ چونکہ محرم کے لیے بیوی کے ساتھ اختلاط اور ہم آغوشی کی ممانعت تھی اور اس نے مباشرت کے ذریعے اس کا ارتکاب کرلیا اس لیے اس پر طریقے سے استمتاع کیا یعنی حظ جنسی اٹھایا اس لیے یہ خوشبو اور لباس سے لطف اندوز ہونے کے مشابہ ہوگیا اس بنا پر اس پر دم کا وجوب ہوگیا ۔ اگر یہ کہا جائے کہ پھر مباشرت کی بنا پر خواہ انزال ہوجائے اس کا اعتکاف فاسد نہیں ہونا چاہیے جس طرح احرام فاسد نہیں ہوتا ۔ اس کے جواب میں کہا جائے گا کہ ہم نے جو کچھ کہا اسے ہم نے اعتکاف کے فاسد ہونے کی علت قرار نہیں دی کہ ہم پر اس کی علت کا لزوم ہوجائے اور جہاں یہ علت پائی جائے وہ حکم بھی ضرور پایا جائے ہم نے تو معتکف کے اعتکاف کو مباشرت کی وجہ سے انزال کی بنا پر فاسد قرار دیا جس طرح کہ ایسی صورت میں ہم اس کے روزے کو بھی فاسد قرار دیتے ہیں ۔ جہاں تک احرام کے فاسد ہوجانے کا تعلق ہے تو اس کی صورت صرف یہ ہے کہ عورت کے اندام نہانی میں جنسی عمل کیا جائے اس کے سوا احرام کے باقی تمام ممنوعہ افعال کے ارتکاب سے احرام فاسد نہیں ہوتا ۔ آپ نہیں دیکھتے کہ لباس ، خوشبو اور شکار یہ تمام باتیں احرام میں ممنوع نہیں لیکن اگر ان کا ارتکاب ہوجائے تو اس سے احرام فاسد نہیں ہوتا ۔ اس بنا پر احرام اس لحاظ سے اعتکاف اور روزے سے بڑھ کر ہے کہ اس میں ممانعات کی موجودگی میں باقی رہنے کے مواقع زیادہ ہیں۔ آپ دیکھ سکتے ہیں کہ بع چیزیں جو روزے میں ممنوع ہیں وہ روزے کو فاسد بھی کردیتی ہیں مثلاً اکل و شرب وغیر اسی طرح اعتکاف کے بعض محظورات اسے فاسد کردیتی ہیں ۔ اس بنا پر ہم کہتے ہیں کہ اگر یہ اعتکاف کی حالت میں مباشرت کی وجہ سے انزال ہو یا تو روزے کی طرح اعتکاف بھی فاسد ہوجائے گا اور اگر مباشرت سے انزال نہ ہو تو ایسی مباشرت کا اعتکاف کو فاسد کرنے میں کوئی دخل نہیں ہوگا جس طرح روزہ فاسد کرنے میں اس کا کوئی اثر نہیں ہوتا ۔ فقہائے امصار کا معتکف کے متعلق بہت سے مسائل میں اختلاف ہے۔ ہمارے اصحاب کا قول ہے کہ اعتکاف واجب کی صورت میں معتکف رات اور دن کسی وقت بھی حاجات ضروریہ مثلاً بول و براز اور جمعہ کی نماز وغیرہ کے سوا مسجد سے باہر نہیں جائے گا ۔ مریض کی عیادت یا جنازہ میں شمولیت کے لیے بھی نہیں جائے گا ۔ ان کا قول ہے کہ خریدو فروخت ، گفتگو اور ایسے مشاغل میں کوئی حرج نہیں جو گناہ کے نہ ہوں ۔ اسی طرح وہ شادی بھی کرسکتا ہے ، گفتگو سے پرہیز کرتے ہوئے خاموشی اختیار کرلینا ضروری نہیں ہے ، یہی امام شافعی کا بھی قول ہے۔ ابن وہب نے امام مالک سے نقل کیا ہے کہ معتکف تجارت وغیرہ نہیں کرے گا بلکہ اپنے اعتکاف میں مشغول رہے گا ۔ البتہ اس میں کوئی حرج نہیں اگر وہ اپنے پیشے ، اپنے خاندان والوں کی فلاح و بہبود ، اپنے مال کی فروخت وغیر ہ کے متعلق ہدایات دے ، یا خفیف طور پر مشغول کردینے والا کوئی کام کرلے۔ امام مالک نے فرمایا کہ کوئی شخص اس وقت تک معتکف نہیں کہلائے گا جب تک وہ ان امور سے اجتناب نہ کرے جن سے ایک معتکف کو اجتناب کرنا چاہیے ، اگر معتکف حالت اعتکاف میں شادی کرلے تو اس میں کوئی حرج نہیں البتہ ہم بستری نہیں کرسکتا ۔ ابن القاسم نے اما م مالک سے یہ نقل کیا ہے کہ معتکف کسی مصیبت زدہ کی تعزیت کے لیے نہیں کھڑا ہوگا اور مسجد میں ہونے والی شادی کی محفل میں شریک نہیں ہوگا ۔ لیکن اگر شادی کی محفل اس کے اعتکاف کے لیے مخصوص جگہ منعقد ہو تو مجھے اس میں کوئی حرج نظر نہیں آتا ۔ البتہ وہ شادی کرنے والے کو مبارک باد دینے کے لیے کھڑا نہیں ہوگا ۔ اسی طرح علمی مجلس میں شرکت کی مشغولیت اختیار نہیں کرے گا اور نہ ہی علمی مجلس میں کسی علم کو ضبط کتابت میں لائے گا ۔ آپ نے اسے مکروہ سمجھا ہے ۔ خفیف انداز میں خرید و فروخت کرسکے گا ۔ سفیان ثوری کا قول ہے کہ معتکف مریض کی عیادت کرے گا ، جمعہ کی نماز کے لیے جائے گا اور ایسے کام جنہیں مسجد میں سر انجام دینا اچھا نہیں لگتا وہ اپنے گھر جا کر سر انجام دے گا ۔ وہ کسی چھت کے نیچے نہیں جائے گا یعنی کسی گھر میں داخل نہیں ہوگا الایہ کہ اس کی گزر گاہ چھت کے نیچے سے ہو ، گھرجا کر اہل خانہ کے ساتھ نہیں بیٹھے گا بلکہ کھڑے کھڑے یا چلتے پھرتے انہیں ان کی ضروریات کے متعلق ہدایات دے گا۔ خرید و فروخت نہیں کرے گا ، اگر کسی چھت کے نیچے چلا گیا تو اس کا اعتکاف باطل ہوجائے گا ۔ حسن بن صالح کا قول ہے کہ اگر معتکف کسی ایسے گھر میں داخل ہوگیا جو اس کی گزر گاہ نہ ہو یا جماع کرلیا تو اس کا اعتکاف باطل ہوجائے گا ۔ وہ جنازہ میں شامل ہوسکتا ہے ۔ مریض کی عبادت کرسکتا ہے اور جمعہ کی نماز کے لیے جاسکتا ہے ۔ وضو کرنے کے لیے بھی مسجد سے باہر جاسکتا ہے اور مریض کے گھر میں بھی داخل ہوسکتا ہے البتہ خرید و فروخت مکروہ ہوگی۔ ابو بکر جصاص کہتے ہیں کہ زہری نے سعید بن المسیب اور عروہ بن الزبیر کے واسطے سے حضرت عائشہ ؓ سے روایت کی ہے کہ معتکف کے لیے یہ سنت ہے کہ وہ صرف انسانی ضرورت کے لیے مسجد سے باہر نکلے ۔ وہ جنازہ میں شریک نہیں ہوگا نہ ہی مریض کی عیادت کرے گا اور نہ ہی عورت کو ہاتھ لگائے گا یا مباشرت یعنی ہم آغوشی اختیار کرے گا ۔ سعید بن المسیب اور مجاہد سے منقول ہے کہ معتکف مریض کی عیادت نہیں کرے گا ، کسی دعوت میں نہیں جائے گا اور جنازے میں شریک نہیں ہوگا ۔ مجاہد نے حضرت ابن عباس ؓ سے روایت کی ہے کہ معتکف کے لیے مریض کی عیادت اور جنازے میں شرکت رضروری نہیں ہے۔ یہ وہ روایتیں ہے جو معتکف کے متعلق سلف اور تابعین سے منقول ہیں ۔ ان حضرات کے سوا دوسرے حضرات سے ان کے برعکس روایتیں منقول ہیں ۔ ابو اسحاق نے عاصم بن ضمرہ کے واسطے سے حضرت علی ؓ سے یہ روایت نقل کی ہے کہ معتکف جمعہ کی نماز، مریض کی عیادت اور جنازے میں شرکت کے لیے جاسکتا ہے ۔ اسی قسم کی روایت حسن ، عامر اور سعید بن جبیر سے بھی منقول ہے۔ سفیان بن عینیہ نے عمار بن عبد اللہ بن یسار سے ، انہوں نے اپنے والد سے اور انہوں نے حضرت علی ؓ سے روایت کی ہے کہ آپ معتکف کے باہر جانے اور خرید و فروخت کرنے میں کوئی حرج نہیں سمجھتے تھے۔ ایک روایت ہے جو ہمیں بکر بن بکر نے سنائی ہے ، انہیں ابو دائود نے انہیں القعنبی نے مالک نے ، انہوں نے ابن شہاب سے ، انہوں نے عروہ بن الزبیر سے ، انہوں نے عمرہ بنت عبد الرحمن سے اور انہوں نے حضرت عائشہ ؓ سے کہ حضور ﷺ جب اعتکاف کرتے تو میری طرف سرکر دیتے اور میں آپ کے بالوں میں کنگھی کردیتی ۔ آپ گھر میں قضائے حاجت کے سواداخل نہیں ہوتے تھے۔ یہ حدیث اس بات کی مقتضی ہے کہ معتکف کو انسانی حاجت کے سوا باہر نکلنے کی ممانعت ہے ۔ جیسا کہ ہم بیان کر آئے ہیں کہ حضور ﷺ کا اعتکاف اور اعتکاف کے افعال مورد بیان میں وارد ہوئے ہیں اور آپ کا جو فعل مورد بیان میں وارد ہو وہ وجوب کے طور پر ہوتا ہے ۔ ہم نے یہاں حضور ﷺ کا جو فعل بیان کیا ہے وہ معتکف کو باہر نکلنے کی ممانعت کرتا ہے الایہ کہ انسانی حاجت لاحق ہوجائے جس سے مراد بول و براز کی حاجت ہے۔ اب جبکہ اعتکاف کی شرط مسجد میں قیام ہے جسے اللہ تعالیٰ نے اعتکاف کے ذکر کے ساتھ اپنے اس قول میں مقرون کردیا ہے کہ ولا تبا شروھن وانتم عاکفون فی المساجد تو اب یہ واجب ہوگیا کہ وہ حاجت انسانی مثلاً بول وبراز کی ضرورت اور فرض جمعہ کی ادائیگی کے سوا اور کسی کام کے لیے مسجد سے باہر نہ نکلے اور یہ بات تو واضح ہے کہ اس نے اپنے اوپر اعتکاف کی نفلی عبادت لازم کرکے ترک جمعہ کا ارادہ کیا ہو جو کہ اس پر فر ض ہے اس لیے شہود جمعہ اس کے اعتکاف سے مستثنیٰ سمجھا جائے گا ۔ اگر یہ کہاجائے کہ قول باری وانتم عاکفون فی المساجد میں اس پر دلالت نہیں ہو رہی ہے کہ اعتکاف کی شرط میں مستقل قیام ہے ۔ اس لیے کہ آیت صرف اس حالت کا ذکر ہے جس میں اعتکاف کرنے والوں کو ہونا چاہیے اور اسی حیثیت کے ساتھ جماع کی ممانعت کو متعلق کردیا گیا ہے لیکن آیت میں حالت اعتکاف میں مسجد سے باہر جانے کی ممانعت پر کوئی دلالت موجود نہیں ہے۔ اس کے جواب میں کہا جائے گا کہ یہ استدلال دو وجوہ سے درست نہیں ہے۔ اول یہ کہ یہ بات واضح ہے کہ معتکف کے لیے جماع کی ممانعت کا تعلق اس کے مسجد میں ہونے کے ساتھ نہیں ہے۔ اس لیے کہ اہل علم کے درمیان اس امر میں کوئی اختلاف نہیں ہے کہ اعتکاف کی حالت میں کوئی شخص گھر پر بھی اپنی بیوی کے ساتھ ہم بستری نہیں کرسکتا ۔ ہم نے سلف سے یہ بات نقل کی ہے کہ آیت کا نزول ان لوگوں کے متعلق ہوا تھا جو اعتکاف کی حالت میں مسجد سے نکل کر گھرچلے جاتے اور بیویوں کے ساتھ ہم بستری کرلیتے۔ جب یہ بات معلوم ہوگئی تو اس سے یہ ثابت ہوگیا کہ اس مقام پر مسجد کا ذکر جماع کی ممانعت کے سلسلے میں نہیں ہوا بلکہ یہ بیان کرنے کے لیے ہوا کہ یہ اعتکاف کی شرط ہے اور اس کا ایک وصف ہے جس کے بغیراعتکاف درست نہیں ہوتا ۔ دوم یہ کہ لغت میں اعتکاف کے معنی کسی جگہ ٹھہرے رہنے کے ہیں پھر اس کا ذکر اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں فرمایا۔ اس بنا پر لبث یعنی ٹھہرے رہنا لا محالہ اس کے مفہوم میں داخل ہے اگرچہ اس کے ساتھ اور معانی کا بھی اضافہ کردیا گیا جن کے لیے یہ لفظ لغت میں بطور اسم استعمال نہیں ہوتا تھا جس طرح کہ صوم ہے جس کا لغوی معنی امساک ہے پھر اس لفظ کو شریعت میں دوسرے معانی کی طرف منتقل کردیا گیا جس سے یہ بات ختم نہیں ہوئی کہ امساک صوم کی ایک شرط نہ ہو اور اس کی ایک وصف نہ ہو جسکے بغیر روزہ درست نہیں ہوتا ۔ درج بالا بیان سے یہ بات ثابت ہوگئی کہ اعتکاف مسجد میں ٹھہرنے کا نام ہے جس کی بنا پر یہ واجب ہوگیا کہ معتکف قضائے حاجت یا شہود جمعہ کے سوا اور کسی کام کے لیے مسجد سے باہرنہ جائے چونکہ جمعہ فرض ہے اس لیے وہ اس کی خاطر نظر سکتا ہے اس استدلال کی توثیق سنت سے بھی ہوتی ہے جو ہم پہلے ذکر کر آئے ہیں ۔ رہ گئی بیمار کی عیادت یا جنازے میں شمولیت تو چونکہ ان دونوں کی فرضیت متعین نہیں ہے اس لیے معتکف کے لیے ان کی خاطر مسجد سے باہر جانا جائز نہیں ہے۔ عبد الرحمن بن القاسم نے اپنے والد کے واسطے سے حضرت عائشہ ؓ سے روایت کی ہے کہ حضور ﷺ حالت اعتکاف میں مریض کے پاس سے گزر جاتے لیکن اس کی طرف مڑ کر نہیں ٹھہرتے بلکہ چلتے چلتے اس کا حال پوچھ لیتے۔ زہری نے عمرہ کے واسطے سے حضرت عائشہ ؓ سے بھی ان کے اسی قسم کے طریق کار کی روایت کی ہے۔ ہم نے جن حضرات کے اقوال نقل کئے ہیں ان سب کا جب اس پر اتفاق ہے کہ معتکف کے لیے مسجد سے باہر نکلنا جائز نہیں ہے کہ باہر نکل کر وہ نیکی کے کاموں مثلاً دوسروں کی ضروریات پوری کرنے اور اپنے اہل و عیال کے لیے تگ و دو کرنے میں جو کہ خود ایک نیکی ہے۔ مصروف ہوجائے تو اس سے یہ واجب ہوگیا کہ مری کی عیادت کا بھی یہی حکم ہو۔ نیز جس طرح اسے دعوت میں شرکت نہیں کرنا چاہیے اسی طرح اسے مریض کی عیادت بھی نہیں کرنی چاہیے اس لیے کہ باہمی حقوق کے لحاظ سے ان دونوں باتوں کو یکساں حیثیت حاصل ہے آخری پر ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ کتاب اللہ ، سنت رسول اور عقلی استدلال سے ہماری بات کی تائید ہوتی ہے۔ اگر کوئی شخص اس روایت سے استدلال کرے جو الھیاج خراسانی نے بیان کی ہے، انہیں عنسبہ بن عبد الرحمن نے عبد الخالق سے اور انہوں نے حضرت انس ؓ سے کہ حضور ﷺ نے فرمایا المعتکف یتبع الجنازۃ ویعود المریض واذا خرج من المسجد قنع راسہ حتی یعود الیہ معتکف جنازے کے ساتھ چلے گا اور مریض کی عیادت کرے گا اور جب مسجد سے باہر نکلے گا تو واپس مسجد آنے تک اپنا سر ڈھانپے رکھے گا ۔ اس کے جواب میں کہا جائے گا کہ اس روایت کی سند مجہول ہے اور یہ روایت زہری کے بوابطہ عمرہ حضرت عائشہ ؓ سے روایت کی معارض قرار نہیں دی جاسکتی جن لوگوں کا یہ قول ہے کہ معتکف اگر چھت کے نیچے جائے گا یعنی کسی مکان میں داخل ہوگا تو اس کا اعتکاف باطل ہوجائے گا تو اس قول میں چھت کی تخصیص ایسی بات ہے جس کی تائید میں کوئی دلیل موجود نہیں ہے۔ چھت اور کھلی جگہ دونوں میں کوئی فرق نہیں ہے ۔ جس طرح معتکف کا کھلی جگہ اور صحرا میں ہونا اس کے اعتکاف کو باطل نہیں کرتا اسی طرح چھت کے نیچے ہونا بھی اس کے اعتکاف کو باطل نہیں کرتا ، اگر ترازو اور اشیائے فروخت اپنے پاس منگوائے بغیر خرید و فروخت کرے تو اس میں فقہاء کے نزدیک کوئی حرج نہیں ہے۔ دراصل فقہاء کی اس اجازت کا مقصد زبانی طور پر خرید و فروخت ہے نہ کہ اشیائے فروخت اور نقدی وغیرہ اپنے پاس لا کر رکھ لینا ہے۔ زبانی خرید و فروخت کا جواز اس لیے ہے کہ یہ مباح ہے اور دوسرے مباح امور میں گفتگو اور کلام کی طرح ہے حضور ﷺ سے مروی ہے کہ آپ نے پورے دن سے رات تک خاموشی اختیار کرنے سے منع فرمایا ہے۔ اب جب خاموشی ممنوع ہے تو وہ لا محالہ گفتگو کرنے پر مامورہو گا ۔ اس لیے اس لفظ کے تحت وہ تمام جائز گفتگو آ جائے گی جو خاموشی کو توڑ نے والی ہو۔ ہمیں ایک روایت محمد بن بکر نے بیان کی ، انہیں ابودائود نے ، انہیں احمد بن محمد المروزی نے ، انہیں عبد الرزاق نے ، انہیں معمر نے زہری سے ، انہوں نے علی ؓ بن الحسین ؓ سے اور انہوں نے حضرت صفیہ ؓ سے کہ حضور ﷺ اعتکاف میں تھے ، میں رات کے وقت آپ سے ملاقات کے لیے آئی۔ میں نے آپ سے باتیں کیں اور پھر کھڑی ہوگئی اور جانے کے لیے واپس مڑی ، حضور ﷺ بھی مجھے رخصت کرنے کے لیے میرے ساتھ اٹھ کھڑے ہوئے۔ حضرت صفیہ ؓ کا گھر اسامہ بن زید کے احاطے میں تھا۔ اسی دوران دو انصاری آپ کے پاس سے گزرے ، حضور ﷺ نے انہیں دیکھ کر رکنے کے لیے کہا اور فرمایا کہ یہ خاتون صفیہ بنت حییی ہے۔ یہ سن کر دونوں بول اٹھے اللہ کے رسول ، سبحان اللہ یعنی آپ کو اس وضاحت کی کیا ضرورت تھی ؟ کیا نعوذ باللہ ہمارے دل میں آپ کے متعلق کوئی خیال گزر بھی سکتا تھا ! یہ سنکر آپ نے ان دونوں کو تسلی دیتے ہوئے فرمایا : اصل بات یہ ہے کہ تمہارے دل و دماغ میں شیطان کا گزر اس طرح ہوتا ہے جیسے دوران خون کا ، اس لیے مجھے یہ خدشہ پیداہو گیا کہ کہیں شیطان تم دونوں کے دلوں میں کوئی وہم یا شر نہ پیدا کر دے۔ ( اسی لیے میں نے یہ وضاحت کی) معتکف دوسروں سے گفتگو کرسکتا ہے اس حدیث کی روشنی میں یہ بات معلوم ہوئی کہ حضور ﷺ اعتکاف کے دوران حضرت صفیہ ؓ سے گفتگو میں مشغول رہے۔ پھر مسجد کے دروازے تک ان کے ساتھ تشریف لے گئے۔ یہ چیز ان لوگوں کے قول کو باطل کردیتی ہے جو یہ کہتے ہیں کہ معتکف دوسروں کے ساتھ گفتگو میں مشغول نہیں ہوگا اور نہ ہی اپنی جگہ سے اٹھ کر مسجد میں منعقد ہونے والی شادی کی محفل میں شریک ہوگا ۔ ایک روایت ہے جو ہمیں محمد بن بکر نے سنائی، انہیں ابو دائود نے ، انہیں سلیمان بن حرب اور مسدد نے ، انہیں حماد بن زید نے ہشام بن عرو ہ سے، انہوں نے اپنے والد سے اور انہوں نے حضرت عائشہ ؓ سے کہ حضور ﷺ مسجد میں معتکف ہوئے ، پھر حجرے کے درمیان سے اپنا سرمجھے پکڑا دیتے اور میں آپ کا سر اور پیر دھو دیتی جبکہ میں خود حیض کی حالت میں ہوتی ۔ (آیت 187 کی بقیہ تفسیر اگلی آیت کے ذیل میں)
Top