Home
Quran
Recite by Surah
Recite by Ruku
Translation
Maududi - Urdu
Jalandhary - Urdu
Junagarhi - Urdu
Taqi Usmani - Urdu
Saheeh Int - English
Maududi - English
Tafseer
Tafseer Ibn-e-Kaseer
Tafheem-ul-Quran
Maarif-ul-Quran
Tafseer-e-Usmani
Aasan Quran
Ahsan-ul-Bayan
Tibyan-ul-Quran
Tafseer-Ibne-Abbas
Tadabbur-e-Quran
Show All Tafaseer
Word by Word
Nazar Ahmed - Surah
Nazar Ahmed - Ayah
Farhat Hashmi - Surah
Farhat Hashmi - Ayah
Word by Word English
Hadith
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Sunan Abu Dawood
Sunan An-Nasai
Sunan At-Tirmadhi
Sunan Ibne-Majah
Mishkaat Shareef
Mauwatta Imam Malik
Musnad Imam Ahmad
Maarif-ul-Hadith
Riyad us Saaliheen
Android Apps
IslamOne
QuranOne
Tafseer Ibne-Kaseer
Maariful Quran
Tafheem-ul-Quran
Quran Urdu Translations
Quran Word by Word
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Mishkaat Shareef
More Apps...
More
Seerat-un-Nabi ﷺ
Fiqhi Masail
Masnoon Azkaar
Change Font Size
About Us
View Ayah In
Navigate
Surah
1 Al-Faatiha
2 Al-Baqara
3 Aal-i-Imraan
4 An-Nisaa
5 Al-Maaida
6 Al-An'aam
7 Al-A'raaf
8 Al-Anfaal
9 At-Tawba
10 Yunus
11 Hud
12 Yusuf
13 Ar-Ra'd
14 Ibrahim
15 Al-Hijr
16 An-Nahl
17 Al-Israa
18 Al-Kahf
19 Maryam
20 Taa-Haa
21 Al-Anbiyaa
22 Al-Hajj
23 Al-Muminoon
24 An-Noor
25 Al-Furqaan
26 Ash-Shu'araa
27 An-Naml
28 Al-Qasas
29 Al-Ankaboot
30 Ar-Room
31 Luqman
32 As-Sajda
33 Al-Ahzaab
34 Saba
35 Faatir
36 Yaseen
37 As-Saaffaat
38 Saad
39 Az-Zumar
40 Al-Ghaafir
41 Fussilat
42 Ash-Shura
43 Az-Zukhruf
44 Ad-Dukhaan
45 Al-Jaathiya
46 Al-Ahqaf
47 Muhammad
48 Al-Fath
49 Al-Hujuraat
50 Qaaf
51 Adh-Dhaariyat
52 At-Tur
53 An-Najm
54 Al-Qamar
55 Ar-Rahmaan
56 Al-Waaqia
57 Al-Hadid
58 Al-Mujaadila
59 Al-Hashr
60 Al-Mumtahana
61 As-Saff
62 Al-Jumu'a
63 Al-Munaafiqoon
64 At-Taghaabun
65 At-Talaaq
66 At-Tahrim
67 Al-Mulk
68 Al-Qalam
69 Al-Haaqqa
70 Al-Ma'aarij
71 Nooh
72 Al-Jinn
73 Al-Muzzammil
74 Al-Muddaththir
75 Al-Qiyaama
76 Al-Insaan
77 Al-Mursalaat
78 An-Naba
79 An-Naazi'aat
80 Abasa
81 At-Takwir
82 Al-Infitaar
83 Al-Mutaffifin
84 Al-Inshiqaaq
85 Al-Burooj
86 At-Taariq
87 Al-A'laa
88 Al-Ghaashiya
89 Al-Fajr
90 Al-Balad
91 Ash-Shams
92 Al-Lail
93 Ad-Dhuhaa
94 Ash-Sharh
95 At-Tin
96 Al-Alaq
97 Al-Qadr
98 Al-Bayyina
99 Az-Zalzala
100 Al-Aadiyaat
101 Al-Qaari'a
102 At-Takaathur
103 Al-Asr
104 Al-Humaza
105 Al-Fil
106 Quraish
107 Al-Maa'un
108 Al-Kawthar
109 Al-Kaafiroon
110 An-Nasr
111 Al-Masad
112 Al-Ikhlaas
113 Al-Falaq
114 An-Naas
Ayah
1
2
3
4
5
6
7
8
9
10
11
12
13
14
15
16
17
18
19
20
21
22
23
24
25
26
27
28
29
30
31
32
33
34
35
36
37
38
39
40
41
42
43
44
45
46
47
48
49
50
51
52
53
54
55
56
57
58
59
60
61
62
63
64
65
66
67
68
69
70
71
72
73
74
75
76
77
78
79
80
81
82
83
84
85
86
87
88
89
90
91
92
93
94
95
96
97
98
99
100
101
102
103
104
105
106
107
108
109
110
111
112
113
114
115
116
117
118
119
120
121
122
123
124
125
126
127
128
129
130
131
132
133
134
135
136
137
138
139
140
141
142
143
144
145
146
147
148
149
150
151
152
153
154
155
156
157
158
159
160
161
162
163
164
165
166
167
168
169
170
171
172
173
174
175
176
177
178
179
180
181
182
183
184
185
186
187
188
189
190
191
192
193
194
195
196
197
198
199
200
201
202
203
204
205
206
207
208
209
210
211
212
213
214
215
216
217
218
219
220
221
222
223
224
225
226
227
228
229
230
231
232
233
234
235
236
237
238
239
240
241
242
243
244
245
246
247
248
249
250
251
252
253
254
255
256
257
258
259
260
261
262
263
264
265
266
267
268
269
270
271
272
273
274
275
276
277
278
279
280
281
282
283
284
285
286
Get Android App
Tafaseer Collection
تفسیر ابنِ کثیر
اردو ترجمہ: مولانا محمد جوناگڑہی
تفہیم القرآن
سید ابو الاعلیٰ مودودی
معارف القرآن
مفتی محمد شفیع
تدبرِ قرآن
مولانا امین احسن اصلاحی
احسن البیان
مولانا صلاح الدین یوسف
آسان قرآن
مفتی محمد تقی عثمانی
فی ظلال القرآن
سید قطب
تفسیرِ عثمانی
مولانا شبیر احمد عثمانی
تفسیر بیان القرآن
ڈاکٹر اسرار احمد
تیسیر القرآن
مولانا عبد الرحمٰن کیلانی
تفسیرِ ماجدی
مولانا عبد الماجد دریابادی
تفسیرِ جلالین
امام جلال الدین السیوطی
تفسیرِ مظہری
قاضی ثنا اللہ پانی پتی
تفسیر ابن عباس
اردو ترجمہ: حافظ محمد سعید احمد عاطف
تفسیر القرآن الکریم
مولانا عبد السلام بھٹوی
تفسیر تبیان القرآن
مولانا غلام رسول سعیدی
تفسیر القرطبی
ابو عبدالله القرطبي
تفسیر درِ منثور
امام جلال الدین السیوطی
تفسیر مطالعہ قرآن
پروفیسر حافظ احمد یار
تفسیر انوار البیان
مولانا عاشق الٰہی مدنی
معارف القرآن
مولانا محمد ادریس کاندھلوی
جواھر القرآن
مولانا غلام اللہ خان
معالم العرفان
مولانا عبدالحمید سواتی
مفردات القرآن
اردو ترجمہ: مولانا عبدہ فیروزپوری
تفسیرِ حقانی
مولانا محمد عبدالحق حقانی
روح القرآن
ڈاکٹر محمد اسلم صدیقی
فہم القرآن
میاں محمد جمیل
مدارک التنزیل
اردو ترجمہ: فتح محمد جالندھری
تفسیرِ بغوی
حسین بن مسعود البغوی
احسن التفاسیر
حافظ محمد سید احمد حسن
تفسیرِ سعدی
عبدالرحمٰن ابن ناصر السعدی
احکام القرآن
امام ابوبکر الجصاص
تفسیرِ مدنی
مولانا اسحاق مدنی
مفہوم القرآن
محترمہ رفعت اعجاز
اسرار التنزیل
مولانا محمد اکرم اعوان
اشرف الحواشی
شیخ محمد عبدالفلاح
انوار البیان
محمد علی پی سی ایس
بصیرتِ قرآن
مولانا محمد آصف قاسمی
مظہر القرآن
شاہ محمد مظہر اللہ دہلوی
تفسیر الکتاب
ڈاکٹر محمد عثمان
سراج البیان
علامہ محمد حنیف ندوی
کشف الرحمٰن
مولانا احمد سعید دہلوی
بیان القرآن
مولانا اشرف علی تھانوی
عروۃ الوثقٰی
علامہ عبدالکریم اسری
معارف القرآن انگلش
مفتی محمد شفیع
تفہیم القرآن انگلش
سید ابو الاعلیٰ مودودی
Ahkam-ul-Quran - Al-Baqara : 197
اَلْحَجُّ اَشْهُرٌ مَّعْلُوْمٰتٌ١ۚ فَمَنْ فَرَضَ فِیْهِنَّ الْحَجَّ فَلَا رَفَثَ وَ لَا فُسُوْقَ١ۙ وَ لَا جِدَالَ فِی الْحَجِّ١ؕ وَ مَا تَفْعَلُوْا مِنْ خَیْرٍ یَّعْلَمْهُ اللّٰهُ١ؔؕ وَ تَزَوَّدُوْا فَاِنَّ خَیْرَ الزَّادِ التَّقْوٰى١٘ وَ اتَّقُوْنِ یٰۤاُولِی الْاَلْبَابِ
اَلْحَجُّ
: حج
اَشْهُرٌ
: مہینے
مَّعْلُوْمٰتٌ
: معلوم (مقرر)
فَمَنْ
: پس جس نے
فَرَضَ
: لازم کرلیا
فِيْهِنَّ
: ان میں
الْحَجَّ
: حج
فَلَا
: تو نہ
رَفَثَ
: بےپردہ ہو
وَلَا فُسُوْقَ
: اور نہ گالی دے
وَلَا
: اور نہ
جِدَالَ
: جھگڑا
فِي الْحَجِّ
: حج میں
وَمَا
: اور جو
تَفْعَلُوْا
: تم کروگے
مِنْ خَيْرٍ
: نیکی سے
يَّعْلَمْهُ
: اسے جانتا ہے
اللّٰهُ
: اللہ
وَتَزَوَّدُوْا
: اور تم زاد راہ لے لیا کرو
فَاِنَّ
: پس بیشک
خَيْرَ
: بہتر
الزَّادِ
: زاد راہ
التَّقْوٰى
: تقوی
وَاتَّقُوْنِ
: اور مجھ سے ڈرو
يٰٓاُولِي الْاَلْبَابِ
: اے عقل والو
حج کے مہینے (معین ہیں جو) معلوم ہیں تو جو شخص ان مہینوں میں حج کی نیت کرلے تو حج (کے دنوں) میں نہ تو عورتوں سے اختلاط کرے نہ کوئی برا کام کرے اور نہ کسی سے جھگڑے اور نیک کام جو تم کرو گے وہ خدا کو معلوم ہوجائے گا اور زاد راہ (یعنی راستے کا خرچ) ساتھ لے جاؤ کیونکہ بہتر (فائدہ) زادِراہ (کا) پرہیزگاری ہے اور (اے) اہل عقل مجھ سے ڈرتے رہو
(سابقہ آیت کی بقیہ تفسیر) اب ان کے نزدیک دم احصار وہی قربانی ہے جو حج فوت ہونے کی وجہ سے لازم آتی ہے۔ اس لئے وہ عمرہ کے قائم مقام نہیں ہوسکتی جس طرح کہ وہ اس حج کے قائم مقام نہیں ہوسکتی جو فوت ہوچکا ہے۔ اگر یہ اعتراض کیا جائے کہ آپ تو عمرہ کے احرام کے بعد یوم النحر سے قبل تمتع کے تین دنوں کے روزوں کے جواز کے قائل ہیں جبکہ یہ روزے قربانی کا بدل ہیں اور خود قربانی کو یوم النحر سے پہلے ذبح نہیں کیا جاسکتا ہے۔ اس سے یہ لازم آتا ہے کہ روزوں کا جواز بھی نہ ہو۔ اس کے جواب میں کہا جائے گا کہ ان روزوں کا جواز ایک سبب کی وجہ سے ہوا ہے اور وہ ہے تمتع یعنی عمرہ اس بنا پر قربانی کی ذبح کے وقت پر روزوں کو مقدم کرنا جائز ہوگیا۔ دوسری طرف محصر پر عمرہ کے لزوم کا کوئی سبب نہیں ہے جبکہ اس کا حقیقی سبب فوات حج یعنی وقوف عرفہ سے پہلے دسویں تاریخ کی صبح کا طلوع ہوجانا ہے یہی وجہ ہے کہ فوات حج پر لازم ہونے والا عمرہ ایسا ہے کہ دم اس کے قائم مقام نہیں ہوسکتا۔ اس حقیقت پر یہ چیز بھی دلالت کرتی ہے کہ عمرہ کرنے والے پر دم لازم ہوتا ہے حالانکہ اسے فوات عمرہ کا کوئی خطرہ نہیں ہوتا کیونکہ عمرہ کے لئے کوئی مقررہ وقت تو ہوتا نہیں۔ یہ اس بات کی دلیل ہے کہ دم کا فوات کے ساتھ کوئی تعلق نہیں اور اس کا مقصد صرف یہ ہے کہ اس کے ذریعے احرام جلد کھل جائے۔ اس کی دلیل یہ ہے کہ لزوم دم کے لحاظ سے حکم میں کوئی فرق نہیں پڑتا خواہ فوت ہونے کا خطرہ ہو یا نہ ہو۔ اگر یہ کہا جائے کہ حضور ﷺ سے حجاج بن عمرو انصاری کی حدیث میں جس کے الفاظ یہ ہیں (من کسوا و عرج فقد حل و علیہ الحج من قابل) عمرہ کا ذکر نہیں ہے۔ اگر حج کے ساتھ عمرہ بھی واجب ہوتا تو حضور ﷺ اس کا بھی ذکر ضرور کرتے جس طرح کہ آپ نے حج کی قضاء کے وجوب کا ذکر فرمایا۔ اس کے جواب میں کہا جائے گا کہ اس حدیث میں حضور ﷺ نے دم یعنی قربانی کا ذکر نہیں فرمایا اس کے باوجود ایسا شخص قربانی کے بعد ہی اپنا احرام کھول سکتا ہے۔ دراصل یہاں حضور ﷺ صرف مرض کی وجہ سے پیدا ہونے والے احصار اور اس میں احرام کھولنے کی وجہ سے قضا کے لزوم کے متعلق امت کو بتانا چاہتے ہیں۔ حضرت عبداللہ بن مسعود اور حضرت ابن عباس بروایت سعید بن جبیر اس بات کے قائل ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے محصر کے ذکر کے بعد جو یہ فرمایا ہے (فمن تمتع بالمعرۃ الی الحج) تو اس سے مراد وہ عمرہ ہے جو حج کا احرام کھول دینے پر لازم ہوتا ہے اگر اس عمرے کو حج کے مہینں میں اس حج کے ساتھ ادا کرنا چاہے گا جس کا احرام اس نے احصار کی وجہ سے کھول دیا ہے تو اس کا فدیہ واجب ہوگا۔ محصر کے متعلق حضرت ابن عباس سے ایک اور قول منقول ہے جس کی روایت عبدالرزاق نے انہیں سفیان ثوری نے ابن ابی نجیع سے، انہوں نے عطاء اور مجاہد سے اور انہوں نے حضرت ابن عباس سے ، آپ نے فرمایا :” حبس وہ ہوتا ہے جو دشمن کی وجہ سے ہو۔ اگر محرم محبوب ہوگیا اور اس کے پاس قربانی کا جانور نہیں ہے تو وہ حبس کی جگہ میں احرام کھول دے گا اور اگر اس کے پاس قربانی کا جانور ہو تو وہ اس کے ذریعے احرام کھول دے گا لیکن جب تک یہ جانور ذبح نہ ہوجائے اس وقت تک اس کا احرام نہیں کھلے گا۔ اس کے بعد اس پر نہ حج لازم ہوگا اور نہ ہی عمرہ۔ عطاء بن ابی رباح سے درج بالا روایت کا انکار مروی ہے کہ اس روایت کے راوی محمد بن بکر ہیں۔ انہیں ابن جریج نے عمرو بن دینار سے اور انہوں نے حضرت ابن عباس سے روایت کی ہے کہ حضرت ابن عباس نے فرمایا کہ ” جس محرم کو دشمن نے گھیر یا ہو اس کی قربانی نہیں ہے۔ “ عمرو بن دینار کا خیال ہے کہ حضرت ابن عباس نے یہ بھی فرمایا کہ ” اس پر نہ حج ہے اور نہ ہی عمرہ۔ “ ابن جریج کہتے ہیں کہ میں نے یہ بات عطا بن ابی رباح سے بیان کی ۔ میں نے ان سے پوچھا کہ آیا آپ نے حضرت ابن عباس سے یہ سنا ہے کہ محصر پر نہ تو قربانی ہے اور نہ ہی اس کے احصار کی قضاء عطاء نے نفی میں جواب دیتے ہوئے فرمایا کہ میں اس روایت کو تسلیم نہیں کرتا۔ “ ابوبکر جصاص کہتے ہیں کہ یہ روایت ناقابل تسلیم ہے کیونکہ یہ نص قرآنی اور حضور ﷺ سے متواتر روایات سے ثابت شدہ بات کے خلاف ہے۔ ارشاد خداوندی ہے (فان احصرتم فما استیسرمن الھدی ولا تحلقوا رئوسکم حتی یبلغ الھدی محلہ۔ قول باری (فما استیسرمن الھدی) کو دو معنوں میں سے ایک پر محمول کیا گیا ہے۔ اول یہ کہ محصر کے ذمہ ہے کہ اسے جو بھی قربانی میسر آ جائے بھیج دے۔ اس لئے اس ارشاد باری کا مقتضیٰ یہ کہ محصر جب احرام کھول دینے کا ارادہ کرے گا اس پر قربانی واجب ہوگی ۔ اس کے متصل یہ ارشاد ہوا ہے (ولا تحلقوا رئوسکم حتی یبلغ الھدی محلہ) ۔ اس ارشاد کے ہوتے ہوئے کسی کے لئے یہ کہنا کیسے درست ہوسکتا ہے کہ قربانی کے بغیر احرام کھولا جاسکتا ہے جبکہ نص صریح قربانی واجب کر رہا ہے اور حضور ﷺ کی حدیبیہ کے مقام پر حالت احصار بھی منقول ہے جس میں آپ نے صحابہ کرام کو قربانی ذبح کرنے اور احرام کھول دینے کا حکم دیا تھا۔ اس محصر کے متعلق فقہاء میں اختلاف رائے ہے جو احرام نہ کھولے یہاں تک کہ حج اس سے فوت ہوجائے اور پھر وہ بیت اللہ پہنچ جائے۔ ہمارے اصحاب اور امام شافعی کا مسلک یہ ہے کہ وہ عمرہ کرنے کے بعد احرام کھول دے۔ اسی احرام کے ساتھ اس کا حج کرنا درست نہیں ہوگا۔ امام مالک کا مسلک ہے کہ اس کے لئے اگلے حج تک احرام کی حالت میں رہنا درست ہوگا اور اگر وہ چاہے تو عمرہ ادا کر کے احوال کھول بھی سکتا ہے۔ ہمارے مسلک کی دلیل یہ ہے کہ سب کا اس پر اتفاق ہے کہ وہ عمرہ ادا کر کے احرال کھول لے اگر اس کا احرام ایسا نہ ہوجاتا کہ اب اس کے ساتھ وہ کوئی حج نہیں کرسکتا تو اس کے لئے یہ احرام کھول دینا ہرگز درست نہ ہوتا۔ آپ نہیں دیکھتے کہ پہلے سال میں جبکہ اس کے لئے حج کرنا ممکن تھا وہ اپنا احرام کھول نہیں سکتا تھا۔ یہ اس بات کی دلیل ہے کہ اس کے احرام کی ایسی حیثیت ہوگئی ہے کہ وہ اس کے ساتھ کوئی حج نہیں کرسکتا۔ نیز حج فسخ کرنا اس قول باری (واتموا الحج والعمرۃ للہ) سے منسوخ ہوگیا ہے اس سے ہمیں یہ بات معلوم ہوئی کہ حالت احصار میں اس کے لئے جب احرام کھولنا درست ہوگیا تو اس کا موجب عمرہ ادا کرنا ہے نہ کہ حج ادا کرنا۔ اس لئے کہ اگر اس کے لئے حج ادا کرنا ممکن ہوتا اور پھر وہ اسے احرام کھولنے کے ذریعے عمرہ بنا دیتا تو وہ حج کا امکان ہوتے ہوئے اسے فسخ کرنے والا قرار پاتا۔ یہ صورت صرف ایک سال پیش آئی تھی جس میں حضور ﷺ حج کے لئے تشریف لے گئے تھے پھر یہ منسوخ ہوگئی یہی وہ صورت ہے جس پر حضرت عمر کے اس قول کو محمول کیا جائے گا کہ ” حضور ﷺ کے زمانے میں دو طرح کا متعہ جائز تھا۔ ایک عورت کے ساتھ متعہ اور دوسرا حج کا متعہ لیکن اب میں ان دونوں سے روکتا ہوں اور ان کے مرتکب کو سزا دیتا ہوں۔ “ متعہ حج سے حضرت عمر کی مراد اس طریقے سے فسخ حج ہے جس کا حکم حضور ﷺ نے حجتہ الوداع کے موقعہ پر اپنے صحابہ کرام کو دیا تھا۔ فقہاء کا اس محصر کے حکم کے متعلق بھی اختلاف رائے ہے جس نے نفلی حج یا نفلی عمرے کا احرام باندھا ہو۔ ہمارے اصحاب کا قول ہے کہ اس پر قضاء واجب ہے خواہ یہ احصار کسی بیماری کی وجہ سے ہوا ہو یا دشمن کی وجہ سے بشرطیکہ وہ قربانی پیش کر کے اپنا احرام کھول چکا ہو۔ امام شافعی اور امام مالک بیماری کی بنا پر رکاوٹ کو احصار نہیں سمجھتے۔ ان کا قول ہے کہ اگر دشمن کی وجہ سے احصار کی حالت میں آ کر اس نے احرام کھول دیا ہو تو اس پر نہ حج کی قضاء ہوگی نہ عمرے کی۔ قضاء کے وجوب کی دلیل یہ قول باری ہے صواتموا الحج والعمرۃ للہ) اس آیت کا مقتضیٰ یہ ہے کہ اس شخص نے حج یا عمرے میں داخل ہو کر اسے اپنے اوپر واجب کرلیا۔ جب دخول کے ساتھ یہ واجب ہوگیا تو اس کی حیثیت فرض حج اور نذر کی سی ہوگئی۔ اب اس کے تمام سے قبل اس سے خروج کی وجہ سے اس پر قضاء لازم ہوگئی خواہ اس خروج میں وہ معذور تھا یا غیر معذور اس لئے کہ جو چیز اس پر ساقط ہوگئی تھی اسے کوئی عذر ساقط نہیں کرسکتا۔ جب سب کا اس پر اتفاق ہے کہ حج فاسد کردینے کی صورت میں اس پر قضاء واجب ہے تو احصار کی وجہ سے بھی اس پر قضاء لازم ہونی چاہیے۔ سنت سے بھی ہمارے قول کی تائید ہوتی ہے۔ یہ حضرت حجاج بن عمرو انصاری کی حدیث ہے کہ حضور ﷺ نے فرمایا (من کسوائو عرج فقد حلٓ و علیہ الحج من قابل) اس حدیث میں فرض اور نفل یحج کے درمیان کوئی فرق نہیں کیا گیا ہے۔ ایک اور پہلو سے نظر ڈالئے جو شخص احرام کی وجہ سے واجب ہونے والی باتوں کو ترک کرے گا خواہ وہ معذور ہو یا غیر معذور، احرام کے لزوم کا حکم دونوں صورتوں میں یکساں رہے گا۔ اس بنا پر ترک لزوم کے لحاظ سے دونوں یعنی معذور اور غیر معذور کے حکم میں کوئی فرق نہیں پڑے گا۔ اس کی دلیل یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے تکلیف کی وجہ سے سرمنڈانے والے کو معذور قرار دیا یکن فدیہ واجب کرنے سے اسے مستثنیٰ قرار نہیں دیا خواہ اس نے فرض حج کا احرام باندھ رکھا ہو یا نفلی حج کا۔ اس لئے اس محصر کا بھی یہی حکم ہونا چاہیے جس نے فرض حج یا نفلی حج کا احرام باندھا ہو یعنی دونوں صورتوں میں اس پر قضا کا وجوب ہونا چاہیے۔ نیز یہ بھی ضروری ہے اس پر اسی طرح یکساں حکم عائد ہو خواہ اس نے ہمیستری کے ذریعے اپنا حج فاسد کردیا ہو یا احصار کی وجہ سے وہ اس سے نکل آیا ہو، جس طرح حالت احرام میں خلاف احرام افعال کے ارتکاب پر معذور اور غیر معذور دونوں پر یکساں طریقے سے کفارہ واجب کیا جاتا ہے۔ محصر پر وجوب قضاء کی خواہ وہ معذور ہی کیوں نہ ہو، ایک دلیل یہ بھی ہے کہ سب کا اس پر اتفاق ہے کہ مریض سے جب حج فوت ہوجائے تو اس پر اس کی قضاء لازم ہوگی خواہ عذر کی بنا پر اس کا حج فوت ہوا ہو۔ اسی طرح اگر اس نے بغیر کسی عذر کے قصداً حج فوت کردیا ہو تو اس صورت میں بھی اس پر قضا واجب ہوگی۔ اب ان دونوں صورتوں میں جو مشترک سبب یہ وہ یہ ہے کہ احرام میں دخول کی بنا پر جو باتیں لازم ہوجاتی ہیں ان کے لحاظ سے معذور اور غیر معذور دونوں کا حکم یکساں ہوتا ہے۔ یہی سبب محصر میں بھی موجود ہوتا ہے۔ اس لئے یہ ضرو ریہو گیا کہ اس سے قضا کا حکم ساقط نہ ہو۔ ہمارے اس استدلال کی تائید حضرت عائشہ کے واقعہ سے بھی ہوتی ہے۔ آپ حجتہ الوداع میں حضور ﷺ کے ہمراہ تھیں، آپ نے عمرہ کا احرام باندھ رکھا ہے۔ اسی دوران جب آپ کو حیض آگیا تو حضور ﷺ نے فرمایا … … اپنا سر کھول کر کنگھی بالوں میں کرلو، حج کا احرام باندھ لو اور عمرہ ترک کر دو ۔ ) پھر حضرت عائشہ جب حج سے فارغ ہوگئیں تو حضور ﷺ نے ان کے بھائی حضرت عبدالرحمٰن بن ابی بکر کو حکم دیا کہ وہ انہیں تنعیم لے جائیں۔ چناچہ حضرت عائشہ نے وہاں سے عمرے کا احرام باندھ کر عمرہ ادا کیا۔ آپ نے حضرت عائشہ سے فرمایا کہ ” یہ عمرہ تمہارے اس فوت شدہ عمرے کی جگہ ہے۔ “ حضور ﷺ نے حضرت عائشہ کو اس عمرے کی قضاء کا حکم دیا جو انہوں نے عذر کی بنا پر ترک کردیا تھا یہ اس بات کی دلیل ہے کہ اگر کوئی شخص عذر کی بنا پر احرام سے نکل آتا ہے تو اس سے قضاء ساقط نہیں ہوتی۔ ایک اور وجہ سے بھی اس کی تائید ہوتی ہے۔ حضور ﷺ اور آپ کے صحابہ کرام جب حدیبیہ کے مقام پر حالت احصار میں آ گئے تو اس وقت سب نے عمرے کا احرام باندھ رکھا تھا۔ پھر س نے اگلے سال اس کی قضاء کی اور اس کا نام عمرۃ القضاء رکھا گیا۔ اگر دخول کی بنا پر یہ عمرہ لازم نہ ہوتا اور قضاء واجب نہ ہوتی تو اس کا نام عمرۃ القضاء نہ رکھا جاتا بلکہ اسے ایک نئے سرے سے ادا کیا جانے الا عمرہ سمجھا جاتا۔ اس میں احرام کھول دینے کی بنا پر لزوم قضاء کی تائید میں بھی دلیل موجود ہے۔ (واللہ اعلم ! ) ایسا محصر جسے قربانی میسر نہ ہو قول باری ہے (فان احصرتم فما استیسو من الھدی) اہل علم کا اس محصر کے حکم کے متعلق اختلاف ہے جسے قربانی میسر نہ آئے۔ ہمارے اصحاب کا قول ہے کہ وہ اس وقت تک احرام نہیں کھول سکتا جب تک اسے قربانی میسر نہ آ جائے اور اس کی ذبح عمل میں نہ آ جائے۔ عطاء بن ابی رباح کا قول ہے کہ ایسا محصر دس روزے رکھے گا اور احرام کھول دے گا جس طرح کہ حج تمتع کرنے والا شخص قربانی میسر نہ آنے پر دس روزے رکھتا ہے۔ اس بارے میں امام شافعی سے دو قول منقول ہیں۔ پہلا قول یہ ہے کہ اگر وہ قربانی نہیں بھیجے گا تو کبھی بھی احرام سے باہر نہیں آسکے گا۔ دوسرا قول یہ ہے کہ اگر اسے قربانی کی قدرت نہ ہو تو اس کا احرام کھل جائے گا اور جب بھی اسے قربانی کی قدرت ہوگی تو قربانی پیش کر دے گا۔ یہ بھی کہا گیا ہے کہ اگر اسے قربانی کی قدرت نہ ہو تو پھر بھی کام چل جائے گا البتہ اگر اسے قربانی میسر نہ ہو اور اس کی قدرت بھی نہ ہو تو ایسی صورت میں اس پر کھانا کھلانا یا روزہ رکھنا لازم ہوگا۔ ابوبکر جصاص کہتے ہیں کہ اس کے متعلق امام محمد کی دلیل یہ ہے کہ تمتع کی بنا پر قربانی کے لزوم پر منصو ص حکم موجود ہے، اسی طرح حج تمتع کرنے والے پر قربانی میسر نہ آنے کی صورت میں روزے کالزوم بھی منصوص ہے اور منصوص احکام کو ایک دوسرے پر قیاس نہیں کہا جاسکتا۔ ایک اور وجہ بھی اس کی تائید میں ہے وہ یہ ہے کہ کفارات کا اثبات قیاس کے ذریعے نہیں ہوتا۔ اب جب محصر کے لئے دم یعنی قربانی کا حکم موجود ہے تو ہمارے لئے قیاس کی بن اپر اس پر کوئی اور چیز واجب کرنا درست نہیں ہوگا۔ اس لئے کہ یہ دم خلاف احرام فعل کا ارتکاب پر کفارہ کے طور پر واجب ہوا ہے اور قیاس کی بنا پر کسی کفارے کا اثبات ممتنع ہے۔ نیز اس صورت میں بعینہ ایک منصوص حکم کا ترک لازم آ جاتا ہے اس لئے کہ قول باری ہے (ولا تحلق وارئوسکم حتی یبلغ الھدی محلہ) اب جو شخص قربانی کو اس کی ذبح کی جگہ پہنچنے سے پہلے سر منڈانے کی اجازت دے دے گا۔ وہ نص کی خلا فورزی کا مرتکب ہوگا جب کہ یہ جائز نہیں ہے کہ قیاس کی بنا پر نص کو ترک کردیا جائے۔ اہل مکہ کے احصار کا حکم ابوبکر جصاص کہتے ہیں کہ عروہ بن الزبیر اور اور زہری سے منقول ہے کہ اہل مکہ کے لئے حالت احصار نہیں ہوتی۔ ان کا احصار تو صرف یہی ہوتا ہے کہ وہ بیت اللہ کا طواف نہ کرسکیں (جوا ن کے لئے بہر صورت ممکن ہوتا ہے اس لئے ان پر حالت احصار طاری نہیں ہوتی۔ ) ہمارے اصحاب کا بھی یہی قول ہے بشرطیکہ ان کے لئے بیت اللہ تک رسائی ممکن ہو۔ وجہ اس کی یہ ہے کہ مکہ کا باشندہ یا تو حج کا احرام باندھے گا یا عمرے گا۔ اگر اس نے عمرے کا احرام باندھ رکھا ہے تو عمرہ نام ہے طواف اور سعی کا جس میں اس کے لئے کوئی رکاوٹ پیدا نہیں ہوسکتی۔ اس لئے وہ محصر نہیں ہوگا۔ اگر اس نے حج کا احرام باندھ لیا ہے تو اس کے لئے گنجائش ہے کہ وہ محصر نہ ہونے کی صورت میں وہ عرفات کو روانگی آخر وقت تک مئوخر کر دے۔ اگر اس سے وقوف عرفات فوت ہوجائے تو اس کا حج فوت ہوجائے گا اور اس پر لازم ہوگا کہ وہ عمرہ ادا کر کے احرام کھول دے۔ اس صورت میں اس کی حیثیت عمرہ کرنے والے کی طرح ہوگا۔ اور اس طرح وہ محصر نہیں قرار پائے گا۔ واللہ اعلم۔ ایسا مجرم جس کے سر میں تکلیف ہو یا اسے بیماری لاحق ہوگئی ہو قول باری ہے (ولا تحلقوا رئوسکم حتی یبلغ الھدی محلہ فمن کان منکم مریضاً او بہ اذی من راسہ ففدیۃ من صیام اوصدقۃ اونسلک آیت کا مفہوم یہ ہے۔ … واللہ اعلم … کہ تم احرام والوں، خواہ محصر ہو یا غیر محصر، میں سے جسے کوئی بیماری لاحق ہوجائے یا سر میں تکلیف پیدا ہوجائے تو وہ روزوں کا فدیہ دے۔ اس میں یہ دلالت موجود ہے کہ جب تک قربانی اپنی ذبح کی جگہ کو نہ پہنچ جائے اس وقت تک محصر کے لئے حلق کرانا جائز نہیں ہوگا اور اگر وہ مریض ہو یا اس کے سر میں تکلیف ہو اور پھر وہ حلق کرا لے تو اس پر فدیہ واجب ہوگا اور اگر وہ غیر محصر ہو تو وہ اس محصر کے حکم میں ہوگا جس کی قربانی ابھی ذبح کی جگہ کو پہنچی ہو۔ اس بنا پر اس آیت میں محصر اور غیر محصر کے لئے حکم کی یکسانیت کی دلالت موجود ہے کہ ان دونوں میں سے کسی کے لئے احرام کی حالت میں مذکورہ شرط کے بغیر حلق کرانا جائز نہیں ہے۔ قول باری (فمن کان منکم مریضاً ) میں وہ مرض مراد ہے جس میں کپڑے پہننے یا احرام کی وجہ سے ممنعہ اشیاء میں سے کوئی شے استعمال کرنے کی ضرورت پڑجائے۔ وہ تکلیف دور کرنے کی خاطر وہ شے استعمال کرے اور فدیہ ادا کر دے۔ اسی طرح قول باری (اوبہ اذی من راسہ) سے مراد ایسی تکلیف ہے جس میں اسے احرام کی وجہ سے ممنوعہ افعال میں کسی فعل مثلاً حلق کرانے یا سر ڈھانپنے وغیرہ کی ضرورت پیش آ جائے اگر اسے کوئی ایسی بیماری یا سر کی تکلیف لاحق ہو جس میں اسے حلق کرانے یا ممنوعہ شے استعمال کرنے کی ضرورت پیش نہ آئے تو اس کی حیثیت تندرست آدمی کی طرح ہوگی یعنی اسے احرام کی وجہ سے ممنوع اشیا استعمال کرنے یا ممنوعہ فعل کے ارتکاب کی ممانعت ہوگی۔ حضرت کعب بن عجرہ سے ایسی روایات منقول ہیں جو ایک دوسری کی مئوید ہیں کہ حدیبیہ کے موقعہ پر حضور ﷺ کا گزران کے پاس سے ہوا، اور ان کی حالت یہ تھی کہ سر کی جوئیں چہرے پر گر رہی تھیں۔ آپ ﷺ نے ان سے دریافت فرمایا کہ آیا یہ جوئیں تمہاری تکلیف کا باعث تو نہیں ہیں ؟ انہوں نے اثبات میں جواب دیا۔ آپ ﷺ نے انہیں فدیہ ادا کرنے کا حکم دیا۔ اس طرح جو ئوں کی کثرت اس تکلیف کی ایک شکل تھی جو آیت (اوبہ اذی من رأسہ) میں مراد ہے۔ اگر محرم کے سر میں زخم ہوں یا سر سے پیپ یا خون بہہ رہا ہوں اور اسے ان زخموں کی پٹی کرنے یا ان پر کپڑا وغیرہ ڈالنے کی ضرورت پیش آ جائے تو فدیہ کے جواز کے لئے اس کا بھی یہی حکم ہوگا۔ اس طرح وہ تمام امراض ہیں جن کے لاحق ہونے کی صورت میں اسے کپڑے وغیرہ پہننے کی ضروتر پیش آ جائے تو اس کے لئے ایسا کرنا جائز ہوگا اور وہ فدیہ ادا کرے گا۔ اس لئے کہ اللہ تعالیٰ نے آیت میں کوئی تخصیص نہیں کی ہے اس بنا پر یہ حکم تمام صورتوں کو عام ہوگا۔ اگر یہ کہا جائے کہ قول باری (فمن کان منکم مریضاً او بہ اذی من راسہ) کا مطلب ہے۔” اس کے سر میں تکلیف ہو پھر وہ سر کے بال منڈا دے تو روزے کا فدیہ ہے۔ “ جواب میں کہا جائے گا کہ حلق کا یہاں ذکر نہیں ہے اگرچہ وہ آیت مراد ہے۔ اسی طرح کپڑے پہن لینا اور سر ڈھانپ لینا وغیرہ، آیت میں ان کا ذکر نہیں ہے لیکن مراد ہیں۔ اس لئے کہ آیت کا مفہوم یہ ہے کہ عذر کی بنا پر وہ باتیں مباح ہوجاتی ہیں جن پر احرام کی بن اپر بندش لگ گئی تھی۔ اسی طرح اگر کوئی شخص بیمار تو نہ ہو لیکن اسے ایسی جسمانی تکلیف لاحق ہوجائے جس کی وجہ سے اسے بدن کے بال اتروانے کی ضرورت پڑجائے تو فدیہ کے لحاظ سے اس کا حکم بھی حلق راس جیسا ہوگا۔ اس لئے کہ تمام صورتوں میں سمجھ میں آنے والا سبب یہ ہے کہ عذر کی حالت میں احرام کی وجہ سے ممنوعہ امور کی اجازت ہوجاتی ہے۔ قول باری ہے (ففدیۃ من صیام) حضور ﷺ سے یہ ثابت ہے کہ آپ نے تین دن کے روزے رکھے۔ یہ حضرت کعب بن غجرہ کی حدیث ہے۔ یہی سلف اور فقہائے امصار کا قول ہے البتہ حسن بصری اور عکرمہ سے ایک روایت ہے کہ تمتع کے روزوں کی طرح فدیہ کے بھی دس روزے ہیں۔ رہی صدقہ کی مقدار تو اس کے متعلق حضرت کعب بن عجرہ کے واسطے سے حضور ﷺ سے مختلف روایات منقول ہیں۔ ایک روایت وہ ہے جو ہمیں عبدالباقی بن قانع نے بیان کی، انہیں احمد بن سہیل نے، انہیں سہیل بن محمد نے، انہیں ابن ابی زائدہ نے اپنے والد ابوزائدہ سے، انہیں عبدالرحمٰن بن الاصبہانی نے عبداللہ بن مغفل سے کہ حضرت کعب بن عجرہ نے انہیں بتایا کہ وہ حضور ﷺ کے ہمراہ احرام باندھ کر نکلے، ا ن کے سر اور داڑھی میں جوئیں پڑگئیں۔ حضور ﷺ جب اس کی اطلاع ہوئی تو آپ ﷺ نے حلاق کو بلا کر ان کا سرمونڈنے کو کہا، اس کے بعد آپ نے ان سے پوچھا کہ آیا وہ قربانی دینے کی استطاعت رکھتے ہیں۔ انہوں نے نفی میں جواب دیا اس پر آپ نے حکم دیا کہ یا تو تین دن روزے رکھیں یا چھ مسکینوں کو، فی مسکین ایک صاع کے حساب سے طعام دے دیں۔ پھر اللہ تعالیٰ نے تمام مسلمانوں کے لئے یہ آیت نازل فرمائی (فقدیۃ من صیام اوصدقۃ اونسلک) صالح بن ابی مریم نے مجاہد کے واسطے سے حضرت کعب بن عجرہ سے اس قسم کی روایت کی ہے۔ دائود بن ابی ہند نے عامر کے واسطے سے حضرت کعب سے جو روایت کی ہے اس میں ہے کہ تین صاع خرما یعنی خشک کھجور چھ مسکینوں کے درمیانی مسکین نصف صاع کے حساب سے صدقہ کر دو ۔ ایک اور روایت ہے جو ہمیں عبدالباقی نے بیان کی، انہیں عبداللہ بن الحسن بن احمد نے ، انہیں عبدالعزیز بن دائود نے ، انہیں حماد بن سلمہ نے دائود بن ابی ہند سے ، انہوں نے شعبی سے، انہوں نے عبدالرحمن بی ابی لیلیٰ سے اور انہوں نے حضرت کعب بن عجرہ سے کہ حضور ﷺ نے ان سے فرمایا کہ یا تو قربانی دے دو یا تین دن روزے رکھو یا تین صاع طعام چھ مسکینوں میں تقسیم کر دو ۔ پہلی روایت تین صاع اور دوسری میں چھ صاع کا ذکر ہے۔ دوسری روایت بہتر ہے کیونکہ اس میں بیان کردہ مقدار زیادہ ہے۔ پھر تین صاع طعام کا جس روایت میں ذکر ہوا ہے اس سے مراد گندم ہونی چاہیے اس لئے کہ طعام سے ظاہراً مراد گندم ہی ہوتی ہے اور دعادۃ لوگوں کے درمیان یہی متعارف ہے۔ ان تمام روایات کو جمع کر کے یہ نتیجہ نکالا جاسکتا ہے کہ خشک کھجور کی صورت میں چھ صاع اور گندم کی صورت میں تین صاع صدقہ میں دیئے جائیں۔ رہ گئی مساکین کی تعداد تو وہ چھ ہے اس میں کسی کا اختلاف نہیں ہے۔ جہاں تک نسک یعنی قربانی کا تعلق ہے تو اس کے متعلق حضرت کعب بن عجرہ کی حدیث میں مذکورہ ہے کہ حضو ر ﷺ نے انہیں ایک قربانی دینے کا حکم دیا تھا۔ ایک روایت میں ہے کہ بکری کی قربانی کا حکم دیا تھا۔ فقہاء کے درمیان اس بارے میں کوئی اختلاف رائے نہیں ہے کہ نسک کا کم سے کم درجہ بکری ہے اور اگر وہ چاہے تو اونٹ یا گائے بھی دے سکتا ہے۔ نیز اس میں بھی کوئی اختلاف نہیں ہے کہ فدیہ کی یہ تینوں باتیں یعنی روزہ، صدقہ اور نسک یکساں حیثیت رکھتی ہیں۔ ان میں سے جسے بھی وہ اختیار کرے گا درست ہوگا۔ کیونکہ یہی مقتضائے آیت ہے (ففدیۃ من صیام اوصدقۃ اونسک) میں او تخییر کے لئے ہے کیونکہ تحییر یعنی کچھ چیزوں میں سے مساوی طور پر ایک کے انتخاب کا اختیار ہونا حرف اوکے معنی اور اس کی حقیقت ہے۔ ہاں اگر اس کے سوا کسی اور معنی کے لئے کوئی دلالت قائم ہوجائے تو یہ اور بات ہوگی۔ ہم نے کئی مقامات پر اس کی وضاحت کی ہے۔ روزوں کے متعلق تو فقہاء کا اتفاق ہے کہ ان کے رکھنے کے لئے کوئی خاص جگہ مقرر نہیں ہے وہاں جہاں چاہے روزہ رکھ سکتا ہے البتہ صدقہ اور نسلک کے مقام کے متعلق اختلاف رائے ہے۔ امام ابوحنیفہ، ابو یوسف، محمد اور زفر کا قول ہے کہ دم یعنی قربانی تو مکہ میں دی جائے گی، روزہ اور صدقہ جہاں چاہے دے دے۔ امام مالک نے تینوں چیزوں کو قید مقام سے آزاد رکھا ہے۔ اس کی مرضی ہے جہاں چاہے دے دے، امام شافعی کا قول ہے کہ قربانی اور صدقہ تو مکہ میں دیئے جائیں گے۔ روزہ جس جگہ چاہے رکھ سکتا ہے۔ ظاہر آیت (ففدیۃ من صیام او صدقۃ اونسلک) کا تقاضا ہے کہ انہیں مطلق یعنی قید مقام سے آزاد رکھا جائے اور فدیہ جس جگ دینا چاہے دے دے، لیکن دوسری آیتوں کی بنا پر ان میں حرم کی تخصیص ہوگئی۔ ارشاد باری ہے (لکم فیھا منافع الی اجل مسمی) یعنی جن چوپایوں کا پہلے ذکر گزر چکا ہے ان سے تمہارے لئے ایک معین مدت تک فائدہ اٹھانے کی گنجائش ہے۔ پھر ارشاد ہوا (ثم محلھا الی البیت العتیق) یہ الفاظ ان تمام قربانی کے جانوروں کے لئے عام ہیں جنہیں اس مقصد کے لئے بیت اللہ لے جایا جاتا ہے۔ اس آیت کے عموم سے یہ ضروری ہوگیا کہ ہر وہ قربانی جو تقرب الٰہی کی خاطر دی جائے وہ حرم میں دی جائے اور کسی اور جگہ درست نہ ہو۔ اس پر قول باری (ھدیاً بالغ الکعبۃ) بھی دلالت کر رہا ہے۔ یہاں جس قربانی کا ذکر ہے اس کا تعلق شکار کی جزا سے ہے۔ اس لئے کعبہ تک پہنچنا ہر قربانی کی صفت ہوگئی اور حرم کے سوا کسی اور جگہ اس کا جواز نہیں ہوگا۔ نیز اس صفت کے بغیر قربانی قربانی نہیں ہوگی۔ نیز اس ذبح کے وجوب کا تعلق احرام کے ساتھ ہے تو ضروری ہوگیا کہ یہ حرم کے ساتھ مخصوص ہو جس طرح کی شکار کی جزا اور حج تمتع میں قربانی حرم کے ساتھ مخصوص ہوتی ہے۔ اگر یہ کہا جائے کہ حضور ﷺ نے حضرت کعب بن عجرہ کو یہ فرمایا تھا کہ (اوا ذبح شاۃ یا ایک بکری ذبح کرو) تو اس میں قربانی کے لئے کسی خاص جگہ کی شرط نہیں لگائی تھی۔ جس سے یہ ضرویر ہوگیا کہ وہ کسی خاص جگہ کے ساتھ مخصوص نہ ہو۔ اس کے جواب میں کہا جائے گا کہ حضرت کعب بن عجرہ کو جب یہ صورت پیش آئی تھی تو اس وقت وہ حدیبیہ میں تھے جس کا کچھ حصہ حرم کے اندر اور کچھ حصہ حرم سے باہر ہے۔ اس بنا پر مکان کا ذکر اس لئے ضروری نہیں سمجھا گیا کہ حضرت کعب بن عجرہ کو اس کا علم تھا کہ احرام کی وجہ سے ان پر جو دم عائد ہو رہا ہے وہ حرم کے ساتھ مخصوص ہے۔ حضور ﷺ کے صحابہ کرام کو اس حکم کا علم تھا کہ ہدایا یعنی قربانی کے جانوروں کی ذبح حرم کے ساتھ مخصوص ہے کیونکہ وہ حضور ﷺ کو دیکھتے کہ آپ ان جانوروں کو حرم میں ذبح کے لئے لے جاتے۔ رہ گیا صدقہ اور روزہ تو اس پر عمل درآمد کے لئے جگہ کی کوئی قید نہیں ہے اس لئے کہ اللہ تعالیٰ نے ان کا ذکر قید مکان سے آزاد کی اے اس لئے اسے حرم کے ساتھ مقید کرنا جائز نہیں ہوگا کیونکہ مطلق کو اطلاق رکھنا ضرور ی ہے جس طرح مقید کو تقلید ہو۔ اس کی ایک دلیل یہ بھی ہے کہ اصولی طور پر کوئی صدقہ ایسا نہیں ہے جو کسی خاص جگہ کے ساتھ مخصوص ہو کہ اس کے علاوہ کسی اور جگہ اس کی ادائیگی درست نہ ہو۔ یہ بات اصول کی مخالفت کے ضمن میں آتی ہے اور خارج عن الاصول ہے۔ اگر یہ کہا جائے کہ صدقہ حرم میں کیا جانا چاہیے کیونکہ حرم کے مساکین کا بھی اس پر حق ہوتا ہے جس طرح قربانیوں کے گوشت میں وہ حق دار ہوتے ہیں۔ اس کے جواب میں کہا جائے گا کہ ذبح کے جواز کا حرم کے ساتھ تعلق مساکین کے حق کی بن اپر نہیں ہوتا۔ اس لئے کہ اگر کوئی شخص حرم میں قربانی کرنے کے بعد اس کا گوشت حرم سے باہر لے جا کر صدقہ کر دے تو یہ اس کے لئے جائز ہوگا۔ اس لئے نہیں کہا جاسکتا کہ اس پر صرف حرم کے مساکین کا حق ہے، دوسروں کا نہیں ہے۔ اس لئے کہ اگر ایسا ہوتا تو حرم کے مساکین کی طرف سے اس حق کا مطالبہ کیا جاتا۔ اب جبکہ ان کی طرف سے اس قسم کا کوئی مطالبہ نہیں ہوتا تو یہ اس کی دلیل ہے کہ یہ ان کا حق نہیں ہے یہ صرف اللہ کا حق ہے جسے مساکین تک تقرب الٰہی کی نیت سے پہنچانا ضروری ہے۔ جس طرح کہ زکواۃ اور دوسرے صدقات کسی ایک جگہ کے ساتھ مخصوص نہیں ہوتے۔ نیز چونکہ ان صدقات میں خون بہا کر تقرب الٰہی کا حصول نہیں ہوتا اس لئے یہ حرم کے ساتھ مخصوص نہیں ہیں جس طرح کہ روزے حرم کے ساتھ مخصوص نہیں ہوتے۔ تاہم اس مسئلے میں سلف کا اختلاف ہے۔ حسن بصری ، عطاء بن ابی رباح اور ابراہیم نخعی سے منقول ہے کہ دم یعنی قربانی کی جو صورت ہوگی وہ مکہ مکرمہ کے ساتھ خاص ہوگی، اور روزہ یا صدقہ تو متعلقہ شخص کی مرضی پر منحصر ہوگا جہاں چاہے روزہ رکھ لے یا صدقہ کر دے، مجاہد سے یہ منقول ہے کہ فدیہ کی ادائیگی جہاں چاہو کر دو ۔ طائوس کا قول ہے کہ قربانی اور صدقہ مکہ مکرمہ میں کرو اور روزہ جہاں چاہو رکھ لو۔ حضرت علی سے یہ مروی ہے کہ آپ نے اپنے بیٹے حضرت حسین کی طرف سے مقام سقیا میں ایک اونٹ کی قربانی دی اور اس کا گوشت اس چشمے پر آباد لوگوں میں تقسیم کردیا۔ دراصل حضرت حسین احرام کی حالت میں بیمار پڑگئے تھے۔ قربانی کرنے کے بعد آپ نے حضرت حسین کو حلق کرانے کا حکم دیا تھا۔ اس واقعہ میں اس بات کی کوئی دلیل نہیں ہے کہ حضرت علی حرم سے باہر ذبح کے جواز کے قائل تھے کیونکہ یہ ممکن ہے کہ آپ نے صدقہ کے طور پر یہ گوشت تقسیم کیا ہو اور اس طرح کرنا ہمارے نزدیک بھی جائز ہے۔ (واللہ اعلم) حج آنے تک عمرے کا فائدہ حاصل کرلینا قول باری ہے (فمن تمتع بالعمرۃ الی الحج فما استیسر من الھدی پس جو شخص حج کا زمانہ آنے سے پہلے عمرے سے فائدہ اٹھائے تو جو قربانی میسرہو وہ پیش کرے) ابوبکر جصاص کہتے ہیں کہ اس قسم کے تمتع کے دو معنی ہیں۔ اول یہ کہ احرام کھول لیا جائے اور عورتوں سے قربت وغیر ہ کا فائدہ اٹھایا جائے۔ دوم یہ کہ حج کے مہینوں میں حج کا زمانہ آنے سے پہلے عمرہ ک رلیا جائے اور اس طرح عمرہ اور حج دونوں کو اکٹھا کردیا جائے۔ یعنی دونوں کے لئے الگ الگ سفر نہ کیا جائے بلکہ ایک ہی سفر میں دونوں کا فائدہ اٹھا لیا جائے۔ اس اجازت کی وجہ یہ ہے کہ زمانہ جاہلیت میں عرب کے لوگ حج کے مہینوں میں عمرہ کرنے کے قائل نہیں تھے بلکہ سختی سے اس کی تردید کرتے تھے۔ حضرت ابن عباس اور طائوس سے مروی ہے کہ ان کے نزدیک ایسا کرنا انتہائی گناہ کی بات سمجھی جاتی تھی۔ اسی لئے حضور ﷺ نے صحابہ کرام کو حج کا احرام کھول کر اسے عمرہ میں تبدیل کرنے کا حکم دے کر دراصل عربوں کی اس عادت اور رواج کی تردید کردی تھی جو اس سلسلے میں ان میں مروج تھی۔ ہمیں عبدالباقی بن قانع نے روایت کی، انہیں الحسن بن المثنیٰ نے، انہیں عفان نے، انہیں وہب نے، انہیں عبداللہ بن طائوس نے اپنے والد طائوس سے اور انہوں نے حضرت ابن عباس سے کہ عرب کے لوگ حج کے مہینوں میں عمرہ کرنا زمین پر بدترین گناہ سمجھتے تھے۔ وہ لوگ محرم کے مہینے کو صفر کا مہینہ قرار دے کر کہتے کہ جب زخمی پیٹھ والا اونٹ تندرست ہوجائے اس کا نشان مٹ جائے اور صفر کا مہینہ گزر جائے تو عمرہ کرنے الے کے لئے عمرہ کرنا حلال ہوجاتا ہے۔ (اس قول سے ان کی مراد یہ ہوتی کہ حج کے سفر کی وجہ سے اونٹوں کی پیٹھ زخمی ہوجاتی، حج سے واپسی کے بعد جب کچھ وقت گزر جائے، تکان دور ہوجائے اور اونٹوں کی حالت بھی بہتر ہوجائے تو پھر عمرے کے لئے سفر کرنا چاہیے۔ ) جب حضور ﷺ چوتھی تاریخ کی صبح تشریف لے آئے جبکہ صحابہ کرام حج کا تلبیہ پڑھ رہے تھے تو آپ نے انہیں حج کا احرام کھول دینے کا حکم دیا۔ صحابہ کرام کو یہ بات بڑی گراں گزری۔ انہوں نے عرض کیا :” کیسا احرام کھولنا ؟ آپ نے فرمایا :” ہاں پوری طرح احرام کھول دو ۔ “ متعئہ حج ان دونوں معنوں پر مشتمل ہے یا تو احرام کھول کر بیویوں وغیرہ سے قربت وغیرہ کے فائدے اٹھانے کی اباحت یا حج کے مہینوں میں ایک ہی سفر پر انحصار کرتے ہوئے حج اور عمرہ کو اکٹھا کردینے کی منفعت جبکہ زمانہ جاہلیت میں عرب کے لوگ اس طریق کار کو حلال ہی نہیں سمجھتے تھے اور حج اور عمرہ دونوں کے لئے الگ الگ سفر کے قائل تھے۔ یہ بھی احتمال ہے تمتع بالعمرۃ الی الحج سے مراد یہ ہو کہ حج کے مہینوں میں حج اور عمرہ جمع کر کے دونوں عبادتوں کو سر انجام دینے کا فائدہ اٹھایا جائے اور اس طرح دونوں کے ثواب کا مستحق قرار دیا جائے۔ یہ اس بات کی دلیل ہوگی کہ حج اور عمرہ دونوں ادا کرنے والا زیادہ نفع اور زیادہ فضیلت حاصل کرے گا۔ آیت میں مذکور تمتع کی چار صورتیں ہیں۔ اول قارن یعنی وہ شخص جو حج اور عمرہ دونوں کا ایک ساتھ احرام باندھ لے۔ دوم وہ شخص جو حج کے مہینوں میں عمرے کا احرام باندھ لے اور پھر اسی سفر میں اسی سال حج بھی کرے بشرطیکہ وہ ان لوگوں میں سے ہو جن کے گھر بار مسجد حرام کے قریب نہ ہوں۔ تیسرا محصر ان لوگوں کے قول کے مطابق جو اس کے لئے احرام کھول دینے کے قائل نہیں ہیں بلکہ ان کے نزدیک وہ حالت احرام میں رہے گا یہاں تک کہ احصار ختم ہونے کے بعد بیت اللہ پہنچ کر حج فوت ہونے کے بعد عمرہ ادا کرنے کے ذریعے حج کا احرام کھول دے گا۔ چوتھی صورت حج کو عمرہ کے ذریعے فسخ کردینا۔ قول باری (فمن تمتع بالعمرۃ الی الحج فما استیسر من الھدی) تاوی ل میں سلف سے اختلاف منقول ہے۔ حضرت عبداللہ بن مسعود اور علقمہ کا قول ہے کہ اس جملے کا عطف قول باری (فان احصرتم فما استیسر من الھدی) پر ہے۔ یعنی حج کا احرام باندھ کر سفر کرنے والے پر جب احصار کی حالت طاری ہوجائے اور وہ قربانی کے ذریعے اپنا احرام کھول دے تو اس پر حج اور عمرہ دونوں ک قضا لازم ہوگی۔ پھر اگر اس نے ایک ہی سفر میں حج اور عمرہ دونوں کو اکٹھا کردیا تو اس پر تمتع کی بنا پر ایک اور قربانی لازم ہوگی۔ اگر اس نے حج کے مہینوں میں عمرہ کرلیا اور پھر اپنے گھر واپس آگیا اور اس کے بعد اسی سال حج بھی کرلیا تو اس پر کوئی قربانی لازم نہیں آئے گی۔ حضرت عبداللہ بن مسعود کا قول ہے۔ ” دو سفر اور ایک قربانی یا دو قربانیاں اور ایک سفر “ اس قول کے پہلے حصے سے مراد یہ ہے کہ اگر یہ محصر حج کا احرام کھول دینے کے بعد حج کے مہینوں میں عمرہ کرلے اور اپنے گھر واپس آ جائے پھر واپس جا کر اسی سال حج کرے تو اس پر ایک قربانی لازم ہوگی اور وہ احصار کی قربانی ہوگی۔ اس نے دو سفروں میں حج اور عمرے کی ادائیگی کی۔ حضرت ابن مسعود کے قول کے آخری حصے کا مفہوم یہ ہے کہ اگر وہ حج کے مہینوں میں عمرہ ادا کرنے کے بعد گھر واپس نہ آئے اور پھر حج بھی کرے تو اس پر تمتع کی بنا پر قربانی واجب ہوگی۔ اس سے پہلے اس نے جو قربانی دی تھی وہ احصار کی قربانی تھی۔ اس طرح ایک سفر اور دو قربانیاں ہوں گی۔ ابن جریج نے عطاء بن ابی رباح کے واسطے سے حضرت ابن عباس کا جو قول نق لکیا ہے وہ یہ ہے کہ آپ کہا کرتے تھے کہ محصر کی آیت اور قول باری (فمن تمتع بالعمرۃ الی الحج) کو یک جا کردیا جائے پہلی آیت محصر کے متعلق ہے جس کے راستے میں رکاوٹ کھڑی ہوگئی ہو اور دوسری آیت اس شخص کے متعلق ہے جس کے راستے میں کوئی رکاوٹ نہ ہو۔ عطاء کا قول ہے کہ اسے متعہ یا تمتع اس لئے کہا گیا ہے کہ اس نے حج کے مہینوں میں عمرہ کیا ہے اسے تمتع اس لئے نہیں کہا گیا ہے کہ اس کے لئے عورتوں یعنی بیویوں سے لطف اندوزی حلال ہوگئی ہے۔ گویا حضرت ابن عباس کے مسلک کے مطباق یہ آیت دو باتوں پر مشتمل ہے۔ اول محصرین کا معاملہ یعنی یہ لوگ جب اس عمر کے ساتھ حج کی قضا کا بھی ارادہ کرلیں جو حج فوت ہوجانے کی وجہ سے ان پر لازم ہوگیا تھا۔ دوم غیر محصرین کا معاملہ کہ ان میں سے کوئی اگر حج کا وقت آنے سے پہلے عمرہ ادا کرنے کا فائدہ اٹھا لے۔ حضرت عبداللہ بن مسعود کے نزدیک آیت کے اس آخری حصے کا عطف محصرین پر ہے اور اس کا حکم یہ ہے کہ اس سے مراد محصرین ہی ہیں۔ اس صورت میں اس سے یہ مفہوم اخذ کیا جائے گا کہ حج فوت ہونے کی صورت میں عمرہ کرنا واجب ہوگا۔ اس سے یہ حکم بھی اخذ ہوتا ہے کہ اگر محصر ایک ہی سفر میں فوت شدہ حج کی قضا کے ساتھ ساتھ حج کے مہینوں میں عمرہ بھی کرے لے گا تو اس پر قربانی واجب ہوگی اور دو سفروں میں ان دونوں کو ادا کرے گا تو اس پر کوئی قربانی واجب نہیں ہوگی۔ اس سلسلے میں حضرت ابن مسعود کا مسلک حضرت ابن عباس کے قول کے مخالف نہیں ہے۔ صرف اتنی بات ضرور ہے کہ حضرت ابن عباس کہتے ہیں کہ آیت محصرین اور غیر محصرین دونوں کا عام ہے۔ محصرین کے متعلق تو اس آیت سے وہ حکم مستفاد ہوتا ہے جس کا ذکر حضرت ابن مسعود نے کیا ہے اور غیر محصرین کے متعلق یہ مستفاد ہوتا ہے کہ ان کے لئے تمتع جائز ہے اور اگر وہ تمتع کرلیں تو ان کا کیا حکم ہوگا۔ جبکہ حضرت ابن مسعود کا قول یہ ہے کہ آیت اپنے سیاق و سبقا کے لحاظ سے محصرین کے ساتھ مخصوص ہے اگرچہ غیر محصرین بھی تمتع کرنے کی صورت میں محصرین کی طرح ہوں گے۔ قارن اور حج کے مہینوں میں عمرہ کرنے والا شخص جبکہ وہ اسی سفر میں حج بھی کرلے دو وجہ سے تمتع قرار قائیں گے۔ اول ایک ہی سفر میں حج اور عمرہ دونوں ادا کرنے کا فائدہ اٹھانا۔ دوم ان دونوں کو جمع کرنے کی وجہ سے فضیلت حاصل کرنا ۔ یہ اس بات کی دلیل ہے کہ یہ صورت اس صورت سے افضل ہے جس میں ان دونوں کی ادائیگی الگ الگ سفر کے ذریعے ہو یا یہ کہ عمرہ حج کے مہینوں کے علاوہ دوسرے مہینوں میں کیا جائے۔ حضور ﷺ کے صحابہ کرام سے اس تمتع کے متعلق ایسی روایات منقول ہیں جن سے ظاہری طور پر اس کی اباحت میں اختلاف پایا جاتا ہے اور اگر اباحت ہوجائے تو پھر اختلاف افضل صورت کے بارے میں باقی رہے گا۔ ممانعت یا اباحت کے بارے میں نہیں رہے گا۔ جن صحابہ کرام سے تمتع کی نہی منقول ہے ان میں حضرت عمر ، حضرت عثمان، حضرت ابوذر اور حضرت ضحاک بن قیس شامل ہیں۔ ہمیں جعفر بن قیس واسطی نے روایت کی، انہیں جعفر بن محمد بن الیمان نے، انہیں ابو عبید نے ، انہیں ابن ابی مریم نے مالک بن انس سے، انہوں نے ابن شہاب سے کہ محمد بن عبداللہ بن الحارث بن نوفل نے بیان کیا کہ انہوں نے حضرت سعد بن ابی وقاص اور حضرت ضحاک بن قیس کو، حضرت معاویہ کے حج کے سال، آپس میں تمتع بالعمرۃ الی الحج، کے متعلق گفتگو کرتے ہوئے سنا تھا۔ حضرت ضحاک نے فرمایا یہ کام وہی شخص کرے گا جو اللہ کے حکم سے واقف نہیں ہوگا۔ “ یہ سن کر حضرت سعد نے فرمایا :” بھتیجے ! تم نے بہت بری بات کہی۔ “ تم نے بہت بری بات کہی۔ “ ضحاک نے جواب میں کہا کہ حضرت عمر نے بھی تو اس سے روکا تھا، اس پر حضرت سعد نے کہا : حضور ﷺ نے ایسا کیا تھا اور ہم نے بھی آپ کی معیت میں یہی کیا تھا۔ “ ہمیں جعفر بن محمد واسطی نے روایت بیان کی، انہیں جعفر بن محمد بن الیمان نے، انہیں ابوعبید نے ، انہیں حجاج نے شعبہ سے، انہوں نے قتادہ سے، انہوں نے کہا کہ میں نے جری بن کلیب کو یہ کہتے ہوئے سنا ہے کہ حضرت عثمان تمتع سے منع کرتے تھے اور حضرت علی اس کا حکم دیتے تھے ۔ میں حضرت علی کے پاس آیا اور عرض کیا کہ آپ دونوں حضرات کے درمیان ایک بڑا شرپیدا ہوگیا ہے۔ آپ تمتع کا حکم دیتے ہیں اور عثمان اس سے روکتے ہیں۔ یہ سن کر حضرت علی نے کہا :” نہیں ایسی بات نہیں ہے، ہمارے درمیان خیر کے سوا اور کچھ نہیں ہے اور ہم نے اس دین کی خاطر خیر کی پیروی کی ہے۔ “ حضرت عثمان سے مروی ہے کہ آپ کا یہ قول نہی کے طور پر نہیں تھا بلکہ پسندیدگی کے طور پر تھا۔ اس فقرے کے کئی معافی ہیں۔ ایک یہ کہ تمتع نہ کرنے میں فضیلت تھی تاکہ حج اپنے مقررہ مہینوں میں ادا ہوجائے اور عمرہ ان کے علاوہ دوسرے مہینوں میں ادا کیا جائے۔ دوسری یہ کہ آپ نے یہ پسند فرمایا تھا کہ بیت اللہ سارا سال آباد رہے اور حج کے مہینوں کے علاوہ دوسرے مہینوں میں بھی زائرین کی کثرت رہے۔ تیسری یہ کہ آپ چاہتے تھے کہ اہل حرم کو بھی سارا سال لوگوں کی آمد سے فائدہ ہوتا رہے۔ غرض اس کی تفسیر میں مختلف وجوہ سے روایات آئی ہیں، ایک روایت ہمیں جعفر بن محمد المودب نے سنائی، انہیں ابو ا لفصل جعفر بن محمد بن الیمان المئودب نے، انہیں ابوعبید نے، انہیں یحییٰ بن سعید نے عبید اللہ سے، انہوں نے نافع سے، انہوں نے حضرت عبداللہ بن عمر سے کہ حضرت عمر نے فرمایا۔ ” تم حج اور عمرہ الگ الگ کرو حج کے مہینوں میں حج ادا کرو اور دوسرے مہینوں میں عمرہ، اس طریق کار سے تم حج بھی زیادہ مکمل طریقے سے ادا کرسکو گے اور عمرہ بھی۔ “ ابوعبیدہ کہتے ہیں کہ ہمیں عبداللہ بن صالح نے لیث سے۔ انہوں نے عقیل سے، انہوں نے ابن شہاب سے، انہوں نے سالم سے، انہوں نے عبداللہ عمر سے اور انہوں نے اپنے والد سے روایت کی کہ حضرت عمر فرمایا کرتے کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے (واتموا الحج والعمرۃ للہ) اور یہ بھی فرمایا (الحج اشھر معلومات) اس بنا پر حج کے مہینوں کو حج کے لئے خاص کرلو اور ان مہینوں کے سوا دوسرے مہینوں میں عمرہ ادا کرو۔ یہ اس لئے کہ جو شخص حج کے مہینوں میں عمرہ کرے گا اس کا عمرہ قربانی کے بغیر پورا نہیں ہوگا اور جو حج کے مہینوں کے علاوہ دوسرے مہینوں میں عمرہ کرے گا اس کا عمرہ قربانی کے بغیر بھی پورا ہوجائے گا۔ الا یہ کہ وہ رضا کارانہ طور پر قربانی کرے جو اس پر واجب نہیں ہے۔ حضرت عمر نے اس روایت میں حج اور عمرہ الگ الگ ادا کرنے کے متعلق اپنی پسندیدگی کی خبر دی ہے۔ ابو عبید کہتے ہیں کہ ہمیں ابو معاویہ ہشام نے عروہ سے ، انہوں نے اپنے والد سے روای ت کی ہے کہ حضرت عمر اشہر حج میں عمرہ کرنے کو اس وجہ سے ناپسند کرتے تھے کہ دوسرے مہینوں میں بیت اللہ بےآباد نہ ہوجائے۔ اس روایت میں حج اور عمرہ الگ الگ ادا کرنے کے متعلق حضرت عمر کی پسندیدگی کی ایک اور وجہ بیان ہوئی ہے۔ ابوعبید کہتے ہیں کہ ہمیں ہشیم نے انہیں ابوبشر نے یوسف بن مالک سے یہ رایت کی ہے کہ حضرت عمر نے تمتع سے مکہ والوں کی خاطر روکا تھا تاکہ ایک سال میں لوگوں کا دو دفعہ اجتماع ہو۔ ایک حج کے موقعہ پر اور دوسرا عمرہ کے موقع پر اور اس طرح اہالیان مکہ کو اس کا فائدہ پہنچے۔ اس روایت میں یہ ذکر کیا گیا ہے کہ حضرت عمر کو اہالیان شہر کی منفعت کی خاطر دوسرا طریقہ پسند تھا۔ حضرت عمر سے تمتع کو پسند کرنے کی بھی روایت موجود ہے۔ ہمیں محمد بن جعفر نے ، انہیں جعفر بن محمد بن الیمان نے ، انہیں ابو عبید عبدالرحمٰن بن مہدی نے سفیان سے، انہوں نے سلمہ بن کہیسل سے، انہوں نے طائوس سے اور انہوں نے حضرت ابن عباس سے روایت کی ہے کہ میں نے حضرت عمر کو یہ فرماتے ہوئے سنا تھا کہ کاش میں عمرہ کرتا، پھر عمرہ کرتا ، پھر عمرہ کرت ا اور پھر حج کرتا اور اس طرح میں بھی متمتع بن جاتا۔ اس روایت میں تمتع کے متعلق آپ کی پسندیدگی کی خبر دی گئی ہے۔ ان تمام روایات سے یہ بات پایہ ثبوت کو پہنچ گئی ہے کہ تمتع کے متعلق آپ کے اقوا نہی کے طور پر نہیں تھے بلکہ اختیار یعنی پسندیدگی کے طور پر تھے۔ اس پسندیدگی میں کبھی اہالیان مکہ کی بھلائی پیش نظر ہوتی اور کبھی بیت اللہ کی رونق اور گہما گہمی۔ فقہاء کے اس بارے میں اختلاف ہے کہ آیا حج قرآن افضل ہے یا حج تمتع یا حج افراد ؟ ہمارے اصحاب کا قول ہے کہ قرآن افضل ہے پھر تمتع پھر افراد، امام شافعی کا قول ہے کہ افراد افضل ہے اور قرآن و تمتع حسن ہیں۔ عبید اللہ بن نافع سے اور انہوں نے حضرت عبداللہ بن عمر سے ان کا یہ قول نقل کیا ہے کہ مجھے میرا شوال یا ذی قعدہ یا ذی الحج یا کسی ایسے مہینے میں عمرہ کرنا جس میں مجھ پر قربانی واجب ہوجائے اس مہینے میں عمرہ کرنے کی بہ نسبت زیادہ پسندیدہ ہے جس میں مجھ پر قربانی واجب نہ ہو۔ قیس بن مسلم نے طارق بن شہاب سے روایت کی ہے کہ میں نے حضرت ابن مسعود سے اس عورت کے متعلق مسئلہ پوچھا جو اپنے حج کے ساتھ ساتھ عمرہ کرنے کا بھی ارادہ رکھتی تھی، حضرت ابن مسعود نے یہ سن کر فرمایا : اللہ تعالیٰ نے ہمیں یہ سنا دیا ہے کہ (الحج اشھود معلومات) اس لئے میرے خیال میں یہ مہینے صرف حج کے لئے ہیں۔ لیکن روایت میں ایسی کوئی دلالت نہیں ہے جس سے یہ ثابت ہو سکے کہ حضرت ابن مسعود فاراد کو قرآن کو قرآن اور تمتع سے افضل سمجھتے تھے۔ بلکہ اس میں یہ ممکن ہے آپ کی مراد ان مہینوں ک یبارے میں بتانا ہو جن میں حج اور عمرہ کو جمع کر کے تمتع کرنا صحیح ہوتا ہے۔ حضرت علی ؓ نے فرمایا، عمرہ کے اتمام کی یہ صورت ہے کہ تم اپنے گھر سے ہی جہان تمہارے احرام کی ابتدا ہوتی ہے احرام باندھو یہ روایت اس بات پر دلالت کرتی ہے کہ حضرت علی نے یہ کہہ کہ تمتع یا قرآن مراد لی ہے کہ عمرے کی ابتدا گھر سے کی جائے اور حج تک اس طرح باقی رہے کہ اس دوران اس کی گھر واپسی نہ ہو۔ ابو عبید القاسم بن سلام نے اس کی تاویل یہ کی ہے کہ ایک شخص اپنے گھر سے خالص عمرے کی نیت سے نکلے۔ اس میں حج کی نیت شامل نہ ہو۔ اس لئے کہ جب وہ اپنے گھر سے عمرے کا احرام باندھ لے گا۔ تو یہ بات خلاف سنت ہوگی اس لئے کہ حضور ﷺ نے احرام کے لئے مواقیت مقرر کردیئے ہیں لیکن یہ ایک ساقط تاویل ہے اس لئے کہ حضرت علی سے مروی ہے کہ حج اور عمرے کا اتمام یہ ہے کہ تم اپنے گھر سے ہی ان دونوں کا احرام باندھو۔ اس میں حضرت علی نے واضح الفاظ میں ان دونوں کے لئے گھر سے ہی احرام باندھنے کے متعلق فرما دیا۔ ابوعبید نے سنت کی جو بات کی ہے وہ ان کے گمان کے خلاف ہے۔ اس لئے کہ سنت سے تو صرف یہ بات ثابت ہوتی ہے کہ جو شخص مکہ مکرمہ میں داخل ہونے کا ارادہ کرے اس پر یہ پابندی ہے کہ وہ احرام کے بغیر مکہ مکرمہ کے قریب نہ جائے۔ لیکن میقات سے پہلے احرام باندھ لینے کے متعلق فقہاء کے درمیان کوئی اختلاف نہیں ہے۔ اسود سے مروی ہے کہ انہوں نے کہا کہ ہم عمرہ کرنے کے لئے نکل ہمارا گزر حضرت ابوذر کے پاس سے ہوا۔ حضرت ابوذر نے فرمایا :” کیا تم نے اپنے پراگندہ بال حلق کرا لئے اور میل کچیل دور کرلیا ؟ سنو ! عمرہ کی ابتدا تمہارے گھر سے ہوتی ہے۔ “ ابوعبید نے حضرت ابوذر کے اس قول کی وہی تاویل کی ہے جو انہوں نے حضرت علی کے قول کی تھی۔ حالانکہ حضرت ابوذر کی مراد صرف یہ ہے کہ عمرہ میں افضل طریقہ یہ ہے کہ اس کی ابتدا اپنے گھر سے کرو۔ جس طرح کہ حضر تعلی کا قول ہے کہ حج اور عمرہ کا اتمام یہ ہے کہ اپنے گھر سے ہی ان دونوں کے لئے احرام باندھو۔ حضور ﷺ سے متواتر روایات سے یہ ثابت ہے کہ آپ نے حج اور عمرہ کا قران کیا ۔ ہمیں جعفر بن محمد واسطی نے روایت بیان کی، انہیں جعفر بن محمد بن الیمان نے، انہیں ابو عبید نے ، انہیں ابو معاویہ نے اعمش سے، انہوں نے ابو وائل سے، انہوں نے صبی بن معبد سے کہ وہ عیسائی تھے پھر مسلمان ہوگئے اور جہاد پر جانے کا ارادہ کیا۔ ان سے کہا گیا کہ حج سے ابتدا کرو۔ وہ حضرت ابو موسیٰ اشعری کے پاس آئے، آپ نے انہیں حج اور عمرہ دونوں کا احرام باندھنے کے لئے کہا۔ انہوں نے ایسا ہی کیا۔ وہ حج اور عمرہ کا تلبیہ کہہ رہے تھے کہ ان کے پاس سے زید بن صوحان اور سلمان بن ربیعہ کا گزر ہوا۔ ایک نے کہا : یہ شخص اپنے اونٹ سے بھی زیادہ گمراہ ہے۔ “ صبی بن معبد نے جب یہ بات سنی تو اللہ اکبر کہا۔ جب وہ حضرت عمر کے پاس آئے تو ان سے اس کا ذکر کیا، حضرت عمر نے سن کر فرمایا : ان دونوں (زید بن صوحان اور سلمان بن ربیعہ) نے کوئی پائے کی بات نہیں کیے۔ تم بےفکر رہو تمہیں اپنے نبی ﷺ کی سنت کی راہ نصیب ہوئی ہے۔ “ ابو عبید نے کہا کہ ہمیں ابن ابی زائدہ نے الحجا ج بن ) ارطاۃ سے، انہوں نے الحسن بن سعید سے اور انہوں نے حضرت ابن عباس سے روایت کی ہے۔ آپ نے فرمایا کہ مجھے ابو طلحہ نے بتایا ہے کہ حضو ر ﷺ نے حج اور عمرہ کو اکٹھا کردیا تھا۔ ہمیں ابو عبید نے بیان کیا کہ انہیں حجاج نے شعبہ سے روایت کی کہ شعبہ کو حمید بن ہلال نے بیان کیا کہ میں نے مطرف بن عبداللہ بن الشخیر سے سنا کہ حضرت عمران بن حصین نے فرمایا کہ حضور ﷺ نے حج اور عمرہ ایک ساتھ ادا کیا تھا۔ پھر آپ نے اپنی وفات تک اس سے منع نہیں فرمایا اور نہ ہی قرآن میں اس کی حرمت نازل ہوئی۔ ہمیں ابوعبید نے بیان کیا، انہیں ہشیم نے ، انہیں حمید نے بکربن عبداللہ سے روایت کی کہ میں نے انس بن مالک کو یہ فرماتے ہوئے سنا تھا کہ میں نے حضور ﷺ کا حج اور عمرہ دونوں کا تلبیہ کہتے ہوئے سنا ہے ۔ بکر کہتے ہیں کہ میں نے اس کا حضرت ابن عمر سے ذکر کیا۔ حضرت ابن عمر نے فرمایا کہ حضور ﷺ نے صرف حج کا تلبیہ کہا تھا۔ بکر کہتے ہیں کہ میں اس کے بعد حضرت انس بن مالک سے ملا اور انہیں حضرت ابن عمر کی بات بتائی تو انہوں نے فرمایا : ہمارے بچے ہماری بات کاٹ رہے ہیں۔ میں نے خود حضور ﷺ یہ کہتے ہوئے سنا ہے لبیک عمرۃ وجعتہ یعنی آپ حج اور عمرہ دونوں کا تلبیہ کہہ رہے تھے) ابوبکر جصاص کہتے ہیں کہ یہ ممکن ہے کہ حضرت ابن عمر نے حضور ﷺ کو لبیک عجۃ کہتے ہوئے سنا ہو اور حضرت انس نے کسی اور وقت آپ کو لبیک بعمرۃ حجۃ کہتے ہوئے سنا ہو ۔ حضور ﷺ قارن تھے اور قارن کے لئے جازء ہے کہ وہ کبھی لبک بعمرۃ و حجتہ کہہ دے اور کبھی لبیک لبیک بحعتہ اور کبھی لبیک بعمرۃ کہہ دے۔ اس لئے حضرت ابن عمر کی روایت میں کوئی ایسی بات نہیں ہے جس سے حضرت انس کی روایت کی نفی ہوتی ہو۔ حضرت عائشہ نے فرمایا کہ رسول اللہ ﷺ نے چار عمرے کئے۔ ان میں سے ایک عمرہ حجتہ الوداع کے ساتھ کیا تھا یحیٰی بن کثیر نے عکرمہ سے اور انہوں نے حضرت ابن عباس سے روایت کی ہے۔ حضرت ابن عباس نے فرمایا کہ میں نے حضرت عمر کو یہ کہتے ہوئے سنا کہ میں نے حضور ﷺ کو وادی عقیق میں یہ فرمایت ہوئے سنا کہ آج رات میرے رب کی طرف سے ایک آنے اولا میرے پاس آیا اور مجھ سے کہہ گیا کہ اس مبارک وادی میں نماز ادا کرو اور حج اور عمرے کا تلبیہ کہو۔ ایک روایت میں ہے کہ ” عمرۃ فی حجۃ کہو “ حضرت جابر اور ان کے علاوہ دوسرے صحابہ سے مروی حدیث میں ہے کہ حضور ﷺ نے اپنے صحابہ کرام کو حکم دیا کہ وہ اپنے حج کو عمرہ میں تبدیل کرلیں۔ نیز آپ نے یہ فرمایا (لواستقبلت من امری مااستد برت لما سقت الھدی ولجعل تھا عمرۃ) اگر میرے سامنے وہ صورت حال پہلے آ جاتی جو اب آئی ہے تو میں قربانی کے جانور ہرگز اپنے ساتھ نہ لاتا اور میں اسے یعنی حج کو عمرہ بنا دیتا۔ ) آپ نے حضرت علی سے دریافت کیا کہ تم نے کس چیز کا تلبیہ کہا ہے ؟ انہوں نے عرض کیا کہ جو تلبیہ اللہ کے رسول یعنی آپ نے کہا ہے، یہ سن کر حضور ﷺ نے فرمایا : میں قربانی کے جانور ساتھ لایا ہوں اب میں یوم النحر تک احرام نہیں کھولوں گا۔ “ اب اگر حضور ﷺ کے لائے ہوئے قربانی کے جانور حج تمتع یا حج قران میں ذبح کئے جانے الے جانور نہ ہوتے تو احرام کھولنے میں آپ کے لئے کوئی چیز رکاوٹ نہ بنتی۔ اس لئے کہ ان جانوروں کو یوم النحر سے پہلے ذبح کرنا جائز نہیں ہے۔ یہ روایت اس بات کو لازم کردیتی ہے کہ حضور ﷺ قارن تھے جن لوگوں سے یہ روایت ہے کہ آپ نے حج افراد کیا تھا ان کی یہ روایت ان روایات کی معارض نہیں ہے۔ اس کے کئی وجوہ ہیں۔ اول یہ کہ یہ روایت کثرت روایت اور شہرت کے لحاظ سے ان روایات کے ہم پلہ نہیں ہے جن میں قران کا ذکر ہے۔ دوم یہ کہ حج افراد کا راوی زیادہ سے زیادہ یہ بیان کر رہا ہے کہ اس نے حضور ﷺ کو ” لبیک لحجۃ “ کہتے ہوئے سنا تھا اور یہ یہ بات اس کی نفی نہیں کرتی کہ آپ قارن نہیں تھے کیونکہ قارن کے لئے یہ جائز ہے کہ وہ کبھی ” لبیک بعجۃ “ کہے اور کبھی ” لبیک بعمرۃ “ اور کبھی دونوں کا تلبیہ کہے۔ یوم یہ کہ اگر دونوں قسم کی روایتیں نقل اور احتمال کے لحاظ سے یکساں ہوں تو اس صورت میں وہ روایت اولی ہوگی جس میں زائد بات کی خبر دی گئی ہو، جب درج بالا دلائل سے یہ ثابت ہوگیا کہ حضور ﷺ قارن تھے اور آپ کا یہ فرمان بھی ہے (خذواعتی مناسککم جس میں حضور ﷺ کی اقتداء پائی جائے۔ ارشاد ربانی بھی ہے۔ فاتبعوہ رسول کی پیروی کرو) نیز یہ ارشاد بھی ہے (لقد کان لکم فی رسول اللہ اسوۃ حسنۃ اللہ کے رسول کی ذات میں تمہارے لئے بہترین نمونہ موجود ہے) نیز حضو ر ﷺ ہمیشہ اعمال میں افضل ترین کا انتخاب فرماتے تھے۔ اس لئے حضور ﷺ کا یہ عمل اس بات کی دلیل ہے کہ قرآن تمتع اور افراد سے افضل ہے۔ اس کی افضلیت پر یہ بات بھی دلالت کرتی ہے کہ قران کی صورت میں ایک نسک یعنی قربانی کا اضافہ ہے اس لئے کہ قران کی وجہ سے لازم ہونے والی قربانی ہمارے نزدیک دم نسک یعنی عبادت کے طور پر دی جانے والی قربانی اور قربت الٰہی کا ذریعہ ہے۔ اضحیہ کی طرح اس کا گوشت کھایا جاسکتا ہے۔ اس پر یہ قول باری (فکلوا منھا واطعموا البائس الفقیرہ ثم لیقضوا تفثھم ولیوفرائد ورھم ولیطوفوا بالبیت العتیق ان کا گوشت خود کھائو اور بد حال فقیر کو کھلائو پھر وہ اپنا میل کچیل اتاریں، اپنی نذریں پوری کریں اور بیت عتیق یعنی خانہ کعبہ کا خوب خوب طواف کریں) بھی دلالت کرتا ہے کہ جتنی قربانیاں دی جاتی ہیں ان میں صرف تمتع اور قران کی قربانیوں پر یہ افعال مرتب ہوتے ہیں۔ اس کی ا فضیلت پر قول باری (واتموالحج والعمرۃ للہ) دلالت کرتا ہے ہم نے پہلے بیان کر دیاے کہ لفظ تمتع حج کے لئے اسم ہوسکتا ہے کیونکہ حج اور عمرے کو ایک ساتھ ادا کرنے والے کو نفع حاصل ہوتا ہے اور وہ فضیلت کا بھی مستحق قرار پاتا ہے۔ اسی طرح لفظ تمتع اس ارتفاق (نفع اندوز) کے لئے بھی اسم ہوسکتا ہے جس میں کوئی دوسرا سفر کئے بغیر دونوں کی ادائیگی کا نفع حاصل ہوجاتا ہے۔ یہ لفظ تمتع دونوں معنوں پر دلالت کرتا ہے۔ اس لئے اس میں یہ بھی درست ہے کہ آیت میں اس لفظ سے دونوں ہی معنی مراد ہوں اس صورت میں یہ لفظ قارن اور متمتع دونوں پر دو وجہوں سے مشتمل ہوگا۔ اول دونوں کو جمع کرنے کی وجہ سے حاصل ہونے والی فضیلت اور دوم دوسرا سفر کئے بغیر دونوں کی ادائیگی کی ارتفاق کی بنا پر۔ تمتع کی صورت ان لوگوں کے لئے ہے جن کا گھر بار حرم یا حرم کے اردگرد نہ ہو۔ قول باری ہے (ذلک لمن لم یکن اھلہ حاضری المسجد الحرام) یہ تمتع ان لوگوں کے لئے جن کا گھر بار مسجد حرام یا اس کے اردگردنہ ہو) جن لوگوں کا گھر بار میقات پر یا میقات سے مکہ مکرمہ کے اندرونی حصے میں ہوا ان کے لئے بھی یہ تمتع نہیں ہے اور نہ ہی ان کے لئے حج قران ہے۔ یہی ہمارے اصحاب کا قول ہے۔ اگر کسی ایسے شخص نے حج قران یا حج تمتع کا احرام باندھ لیا تو وہ خطار ہوگا۔ اس پر ایک قربانی لازم ہوگی جس کا گوشت اسے کھانے کی اجازت نہیں ہوگی کیونکہ یہ دم تمتع نہیں ہوگا بلکہ دم جنا یۃ ہوگا جو اس پر خلاف ورزی کی بن اپر عائد ہوگا۔ اس لئے کہ ان علاقوں میں رہنے والوں کے لئے تمتع نہیں ہے۔ اس کی دلیل ارشاد باری ہے (ذلک لمن لم یکن اھلہ حاضری المسجد الحرام) حضرت ابن عمر سے یہ مروی ہے کہ آپ نے فرمایا کہ ” جو لوگ مسجد حرام یا اس کے اردگد کے رہنے والے نہ ہوں ان کے لئے تمتع ایک رخصت ہے۔ “ بعض کا قول ہے کہ اس قول کے معنی یہ ہیں کہ جو لوگ ان علاقوں کے رہائشی نہ ہوں اگر وہ تمتع کرلیں تو ان پر قربانی لازم نہیں ہوگی انہیں یہ اجازت ہے کہ وہ قربانی کے بغیر تمتع کریں۔ لیکن ظاہر آیت ان کے اس قول کی تردید کرتا ہے اس لئے کہ ارشاد باری ہے (ذلک لمن لم یکن اھلہ حاضر المسجد الحرام) یہاں ذلک سے مراد تمتع ہے۔ اگر یہاں قربانی مراد ہوتی تو قرآن کے الفاظ یوں ہوتے۔” ذلک علی من لم یکن الخ “ اگر کوئی کہے کہ آیت سے یہی مراد ہے کیونکہ بعض دفعہ لام حرف علی کے قائم مقام ہوجاتا ہے جیسے کہ ارشاد باری ہے (ولھم اللعنۃ ولھم سواء الدار ان پر لعنت ہے اور ان کے لئے برا ٹھکانہ ہے) یہاں معنی یہ ہے کہ ” وعلیھم اللعنۃ “ اس کے جواب میں کہا جائے گا کہ کسی لفظ کو اس کے حقیقی معنی سے ہٹا کر مجازی معنی کی طرف اسی وقت لے جایا جاتا ہے جب اس کے لئے کوئی دلالت موجود ہو۔ ان حروف میں سے ہر حرف کا ایک حقیقی معنی ہے جس کے لئے یہ حرف وضع کیا گیا ہے۔ اس بناء پر علی کا حقیقی معنی لام کے حقیقی معنی سے مختلف ہے۔ اب لام کو علی کے معنی پر محمول کرنا اسی وقت جائز ہوگا جب اس کی تائید میں کوئی دلیل موجود ہو۔ نیز تمتع تمام آفاقیوں (حرم کے حدود سے باہر جن کا گھر بار ہوا نہیں آفاقی کہا جاتا ہے) کے لئے اللہ تعالیٰ کی طرف سے تخفیف کی ایک صورت ہے جس کے ذریعے انہیں ایک نئے سفر کی مشقت سے بچایا گیا ہے اور حج اور عمرہ دونوں کی ادائیگی کے لئے ایک ہی سفر پر انحصار کیا گیا ہے۔ اس لئے کہ اگر انہیں اس کی اجازت نہ ہوتی تو اس کی وجہ سے انہیں بڑی مشقت اٹھانا پڑتی اور انہیں ضرر لاحق ہوجاتا۔ اس کے برعکس اہالیان مکہ کے لئے اشہر حج کے ماسوا دوسرے مہینوں میں عمرہ ادا کرنے میں کوئی مشقت اور ضرر نہیں ہے۔ اس حقیقت پر بات دلالت کرتی ہے کہ تمتع کا لفظ اس امر کا متقاضی ہے کہ حج اور عمرہ دونوں کو جمع کر کے فائدہ اٹھایا جائے اور عمرہ کے لئے ایک نئے سفر کی مشقت کو دور کردیا جائے جیسا کہ ان لوگوں سے مروی اقوال میں اس کی یہ تاویلی کی گئی ہے جن کا ذکر ہم گزشتہ سطور میں کر آئے ہیں۔ یہ صورت اس صورت کے مشابہ ہے کہ کوئی شخص بیت اللہ تک پیدل جانے کی نذر مان لے اگر وہ راستے میں کہیں بھی سوار ہوگیا اس پر قربانی لازم آ جائے گی کیونکہ اس نے سواری کا فائدہ اٹھا لیا جو اس کی نذر کے خلاف ہے ۔ اتنی بات ضرور ہے کہ اس قربانی کا گوشت وہ خود نہیں کھا سکے گا۔ جبکہ تمتع کی قربانی کا گوشت خود کھا سکتا ہے۔ لیکن اس نکتے پر ان دونوں صورتوں کا اختلاف ۔ اس نکتے پر ان دونوں کے اتفاق سے مانع نہیں جس کا ہم اوپر کی سطور میں ذکر کر آئے ہیں۔ طائوس سے یہ منقول ہے کہ مکہ والوں کے لئے تمتع نہیں ہے۔ اگر انہوں نے حج تمتع کرلیا تو ان کے ذمہ بھی وہی چیز عائد ہوگی جو دوسرے لوگوں پر عائد ہوتی ہے۔ طائوس کے اس قول سے یہ مراد لینا جائز ہے کہ اس صورت میں ان پر بھی قربانی لازم ہوگی لیکن یہ قربانی جنایت یعنی خلاف ورزی کی قربانی ہوگی، نسک کی قربانی نہیں ہوگی۔ تمام اہل علم از سلف تاخلف اس پر متفق ہیں کہ ایک شخص اس صورت میں متمتع قرار پائے گا جب وہ حج کے مہینوں میں عمرہ کرے اور پھر اسی سال حج بھی کرلے۔ اگر اس نے ایک سال حج کے مہینوں میں عمرہ کرلیا اور اسی سال کی بجائے اگلے سال حج کیا تو وہ متمتع قرار نہیں پائے گا اور نہ ہی اس پر قربانی لازم آئے گی۔ اہل علم کا اس میں اختلاف ہے کہ اگر کوئی شخص حج کے مہینوں میں عمرہ کرلے پھر گھر واپس آ جائے اور اسی سال جا کر حج کرلے، آیا وہ متمتع کہلائے گا یا نہیں۔ اکثر اہل علم کا قول ہے کہ وہ متمتع نہیں کہلائے گا۔ ان قائلین میں سعید بن المسیب، عطاء بن ابی رباح، طائوس ، مجاہد، ابراہیم نخعی اور حسن بصری شامل ہیں۔ یہی ہمارے اصحاب اور عام فقہاء کا قول ہے۔ اشعت نے حسن بصری سے ایک روایت یہ کی ہے کہ جس شخص نے حج کے مہینوں میں عمرہ ادا کیا پھر اسی سال حج بھی کرلیا تو وہ متمتع ہے خواہ اس دوران وہ اپنے گھر واپس آیا ہو یا نہ آیا ہو۔ پہلے قول کی صحت کی دلیل یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اہل مکہ کے لئے تمتع کی سہولت نہیں پیدا کی اور ان کے علاوہ بقیہ تمام آفاقیوں کے لئے یہ سہولت پیدا کردی۔ اس کا سبب یہ تھا کہ اہل مکہ عمرہ کرنے کے بعد اپنے اہل خانہ کے پاس جاسکتے تھے اس لئے کہ عمرہ کرنے کے بعد احرام کھول دینے کا جواز موجود تھا۔ یہی سبب وہاں بھی موجود ہوتا ہے جب کہ ایک شخص عمرہ کرنے کے بعد اپنے اہل خانہ کے پاس چلا جاتا ہے۔ اس لئے اس شخص کی حیثیت مکہ والوں جیسی ہوجاتی ہے۔ نیز اللہ تعالیٰ نے متمتع پر قربانی لازم کردی۔ یہ قربانی اس ایک سفر کے بدلے میں لازم ہوتی ہے جس سے یہ شخص بچ جاتا ہے اور ایک ہی سفر پر انحصار کر کے دونوں کام سر انجام دے دیتا ہے۔ اگر ایک شخص نے دونوں سفر کر لئے تو پھر قربانی کسی چیز کی قائم مقام نہیں بنے گی اس لئے یہ واجب ہی نہیں ہوگی۔ فقہاء کا اس شخص کے متعلق بھی اختلاف ہے جو عمرہ ادا کرنے کے بعد مکہ سے نکل کر میقات پار کر جائے لیکن اپنے گھر نہ جائے۔ امام ابوحنیفہ کا قول ہے کہ اگر وہ شخص اسی سال حج کرلے تو وہ متمتع کہلائے گا اس لئے کہ جب وہ عمرہ کرنے کے بعد اپنے اہل خانہ کے پاس نہیں گیا تو اس کے متعلق یہی تصور کیا جائے گا کہ وہ مکہ مکرمہ ہی میں رہا۔ امام ابو یوسف سے مروی ہے کہ ایسا شخص متمتع نہیں کہلائے گا اس لئے کہ حج کے لئے اس کا میقات اب وہ ہوگا جو اس جگہ کے لوگوں کے لئے ہے جہاں وہ جا کر ٹھہرا تھا۔ اس صورت میں اس کا میقات اس کے اور اہل مکہ کے درمیان والا میقات ہوگا اس لئے اس کی حیثیت اس شخص کی طرح ہوجائے گی جو اپنے گھر لوٹ آیا ہو۔ لیکن پہلا قول اس دلیل کی بنا پر جو ہم نے بیان کی درست قول ہے۔ اہل علم کا اس شخص کے متعلق بھی اختلاف ہے جس نے رمضان میں عمرہ کا احرام باندھ لیا ہو اور پھر شوال میں یا اس سے قبل مکہ میں داخل ہوا۔ قتادہ نے ابو عیاض سے روای ت کی ہے کہ اس کا عمرہ اسی مہینے میں شمار ہوگا جس میں اس نے عمرہ کا تلبیہ کہا ۔ حسن بصری اور الحکم کا قول ہے کہ اس کا عمرہ اس مہینے میں شمار ہوگا جس میں وہ احرام کھولے گا ابراہیم نخعی سے اسی طرح کی روایت ہے۔ عطاء بن ابی رباح اور طائوس کا قول ہے کہ اس کا عمرہ اس مہینے میں شمار ہوگا جس میں وہ حرم میں داخل ہوگا۔ حسن بصری اور ابراہیم نخعی سے ایک اور روایت بھی ہے کہ اس کا عمرہ اس مہینے میں شمار ہوگا جس میں وہ بیت اللہ کا طواف کرے گا۔ مجاہد کا بھی یہی قول ہے۔ ہمارے اصحاب کا بھی یہی قول ہے کہ بیت اللہ کے طواف کا اعتبار کیا جائے گا۔ اگر اس نے طواف کا اکثر حصہ رمضان میں کرلیا تو وہ متمتع شمار نہیں ہوگا۔ اکثر حصہ شوال میں کیا تو متمتع شمار ہوگا۔ اس لئے کہ ان کے ہاں یہ ایک اصول ہے کہ کسی فعل کے اکثر حصے کی ادائیگی کل کی ادائیگی کے مترادف ہے۔ یعنی اگر کسی فعل کا اکثر حصہ درست طریقے سے کرلیا تو اب اس فعل پر فساد کا درود متمنع ہوجائے گا۔ وہ فعل فاسد ہونے سے بچ جائے گا۔ اس بنا پر اگر اس کا عمرہ رمضان میں پایہ تکمیل کو پہنچ گیا تو وہ شخص حج اور عمرے کو حج کے مہینوں میں جمع کرنے والا نہیں قرار پائے گا۔ رہا احرام کا باقی رہنا تو اس کا کوئی اعتبار نہیں ہے۔ آپ نہیں دیکھتے کہ اگر کسی شخص نے عمرہ کا احرام باندھ کر عمرہ فاسد کردیا اور پھر احرام کھول لیا اور اسی سال حج بھی کرلیا تو وہ متمتع نہیں کہلائے گا کیونکہ اس کا عمرہ حج کے مہینوں میں مکمل نہیں ہوا تھا۔ باوجودیکہ حج اور عمرہ دونوں کے احرام کا حج کے مہینوں میں اجتماع ہوگیا تھا۔ اسی طرح اگر کسی نے قرآن کرنے کے لئے حج اور عمرہ دونوں کا احرام باندھ لیا پھر عمرے کا طواف کرنے سے پہلے وقوف عرفات کرلیا تو وہ متمتع نہیں کہلائے گا۔ اس لئے حج کے مہینوں میں دونوں احراموں کے اجتماع کا کوئی اعتبار نہیں ہوگا۔ جس چیز کا اعتبار واجب ہے وہ یہ ہے کہ حج کے مہینوں میں حج کے ساتھ عمرہ کے افعال بھی ادا کرے۔ اسی طرح جن اہل علم کا یہ قول ہے کہ اس کا عمرہ اس مہینے میں شمار ہوگا جس میں وہ عمرے کا تلبیہ کہے گا۔ یہ ایک بےمعنی قول ہے کیونکہ ہم نے ابھی بیان کیا ہے کہ احرام کا اعتبار نہیں ہوگا بلکہ افعال کا اعتبار ہوگا۔ واللہ اعلم بالصوات ۔ حاضری المسجد الحرام کے متعلق اہل علم کے اختلاف کا ذکر ابوبکر جصاص کہتے ہیں کہ اس مسئلے میں اہل علم کے اختلاف کی چار صورتیں ہیں۔ عطاء اور مکحول کا قول ہے کہ جو لوگ مواقیت کے حدود سے لے کر مکہ مکرمہ تک کے علاقوں میں رہتے ہیں وہ حاضری المسجد الحرام یعنی مسجد حرام کے رہائشی ہیں۔ یہی ہمارے اصحاب کا قول ہے البتہ ہمارے اصحاب یہ بھی کہتے ہیں کہ جو لوگ مواقیت پر آباد ہیں وہ بھی ان کی طرح ہیں۔ ابن عباس اور مجاہد کا قول ہے کہ یہ اہل حرم ہیں۔ حسن ، طاوس، نافع اور عبدالرحمٰن اعرج کا قول ہے کہ یہ اہل مکہ میں یہی امام مالک کا قول ہے۔ امام شافعی کہتے ہیں کہ اس سے مراد وہ لوگ ہیں جن کے گھر بار دونوں کم مسافت پر واقع ہوں۔ اس طرح یہ فاصلہ مواقیت میں سب سے کم ہے۔ اس سے ماوراء جو لوگ ہوں گے ان پر متعہ ہے یعنی وہ آفاقی ہونے کی وجہ سے حج تمتع کرسکتے ہیں۔ ابوبکر جصاص کہتے ہیں کہ جب میقاتوں پر آباد لوگ اور مواقیت کے حدود کے اندر مکہ مکرمہ تک کے علاقوں میں رہائشی لوگ مکہ مکرمہ میں بغیر احرام کے داخل ہوسکتے ہیں۔ اس لئے انہیں اہالیان مکہ کی طرح قرار دینا ضروری ہے۔ آپ نہیں دیکھتے کہ جو شخص مکہ مکرمہ سے نکل کر میقات کے حدود کے اندر رہتا ہے تو اسے مکہ مکرمہ کی طرف لوٹنے اور وہاں احرام کے بغیر جانے کی اجازت ہوتی ہے۔ ایسے لوگوں کے میقات میں یا میقات کے حدود کے اندر تمام تصرفات اور سرگرمیوں کی وہی حیثیت ہوتی ہے جو مکہ مکرمہ میں کی جانے والی سرگرمیوں کی جاتی ہے۔ اس لئے ضروری ہے کہ تمتع کے حکم میں وہ بمنزلہ اہل مکہ ہوں۔ حرم اور حرم کے قرب و جوار میں رہنے والے ان لوگوں میں سے ہیں جن کے گھر بار مسجد حرام کے قریب ہیں اس کی دلیل قرآن مجید کی یہ آیت ہے الا الذین عاھد تم عند المسجد الحرام بجز ان لوگوں کے جن کے ساتھ تم نے مسجد حرام کے پاس معاہدہ کیا تھا) ان لوگوں میں اہل مکہ شامل نہیں ہیں اس لئے کہ وہ فتح مکہ کے ساتھ ہی اسلام لا چکے تھے جبکہ یہ آیت فتح مکہ کے بعد اس سال نازل ہوئی جس سال حضرت ابوبکر امیر حج بن کر مکہ مکرمہ حج کے لئے گئے تھے، ان لوگوں سے مراد بنو مدلج اور بنو الدئل ہیں۔ ان کے گھر بار مکہ سے باہر حرم اور سا کے قرب و جوار میں تھے۔ اگر یہ کہا جائے کہ ذوالحلیفہ والے ان لوگوں میں سے کس طرح ہوں گے جن کے گھر بار مسجد حرام کے قریب ہیں جبکہ ا ن کے اور مکہ مکرمہ کے درمیان دس دنوں کی مسافت ہے، اس کے جواب میں کہا جائے گا کہ اگرچہ یہ لوگ مسجد حرام کے قریب و جوار والے نہیں ہیں لیکن وہ اس لحاظ سے مسجد حرام کے قرب و جوا میں رہنے والے لوگوں کے حکم میں داخل ہیں کہ انہیں احرام کے بغیر مکہ مکرمہ میں داخل ہونے کی اجازت ہے۔ نیز جب وہ احرام باندھنا چاہیں تو اہل مکہ کی طرح اپنے گھروں سے احرام باندھ سکتے ہیں۔ یہ اس بات کی دلیل ہے کہ آیت کا مفہوم یہے کہ ایسے لوگ جن کے گھر بار مسجد حرام کے قریب نہ ہوں اور ایسے لوگ جو ان کے حکم میں داخل ہوں۔ اللہ تعالیٰ نے قربانی کے اونٹوں کے متعلق فرمایا (ثم محلھا الی البیت العتین پھر ان کی ذبح کی جگہ بیت عتیق یعن قدیم گھرکے پاس ہے۔ ) حضور ﷺ کا ارشاد ہے (منیٰ متحرو فجاج مکۃ منحر منیٰ قربانی کی جگہ ہے مکہ کی گھاٹیاں اور کشادہ راستے قربانی کی جگہیں ہیں) بیت عتیق کے ذکر سے اللہ تعالیٰ کی مراد مکہ کے قرب و جوار کے علاقے ہیں اگرچہ یہ علاقے مکہ مکرمہ سے باہر ہیں۔ ارشاد باری ہے (والمسجد الحرام الذی جعلناہ للناس سواء ن العاکف قیہ والباد اور اس مسجد حرام کی زیارت سے روک رہے ہیں جسے ہم سے سب لوگوں کے لئے بنایا ہے جس میں مقامی باشندوں اور باہر سے آنے والوں کے حقوق برابر ہیں) یہ مکہ کے قرب و جوار کے علاقے ہیں۔ یہاں تک ہم نے دو متعہ یعنی قران اور تمتع کے احکام بیان کردیے۔ رہی تمتع کی تیسری صورت تو وہ حضرات عبداللہ بن الزبیر اور عرو بن الزبیر کے قول کے مطابق یہ ہے کہ حج افراد کا احرام باندھنے والا کسی بیماری یا کسی اور رکاوٹ کی وجہ سے حالت احصار میں آجائے۔ پھر وہ مکہ معظمہ پہنچ جانے اور اس حج کو عمرہ میں تبدیل کر دے اور اگلے سال حج کی ادائیگی کا فائدہ اٹھا لے۔ یہ شخص آیت (فمن تمتع بالعمرۃ الی الحج) کے زمرے میں آئے گا اور متمتع کہلائے گا۔ ان کا مسلک یہ تھا کہ محصر احرام نہیں کھولے گا بلکہ اپنے احرام کو باقی رکھے گا یہاں تک کہ دسویں ذی الحجہ کو اس کی طرف سے قربانی دے دی جائے گی اس دن وہ حلق کرے گا لیکن اس کا احرام بحالہ باقی رہے گا یہاں تک کہ وہ مکہ معظمہ پہنچ جائے گا اور وہاں عمرہ ادا کرنے کے ذریعے اپنے حج کا احرام کھول دے گا۔ لیکن یہ مسلک اللہ تعالیٰ کے اس قول کے مخالف ہے کہ (واتموا الحج والعمرۃ للہ فان احصرت م فما استیسرمن الھدی) پھر فرمایا (ولا تحلقوا رئوسکم حتی یبلغ الھدی محلہ) اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے حلق کے ذریعے احرام کھولنے کی جو اجازت عطا کی ہے اس میں حج اور عمرے میں کوئی فرق نہیں کیا ہے۔ دوسری طرف اس میں کوئی اختلاف نہیں ہے کہ یہ حلق عمرے کا احرام کھولنے کے لئے تھا۔ چناچہ حج کے احرام کا بھی یہی حکم ہے اور حضور ﷺ اور آپ کے صحابہ کرام جب حدیبیہ میں حالت احصار میں آ گئے تو آپ ﷺ نے خود حلق کر کے احرام کھول دیا اور صحابہ کرام کو بھی حلق کرنے اور احرام کھولنے کا حکم دیا۔ بایں ہمہ حج فوت ہونے کی وجہ سے لازم ہونے والا عمرہ درحققیت عمرہ نہیں ہوتا بلکہ یہ تو صرف حج کا احرام کھولنے کے لئے ادا کیا جاتا ہے۔ جبکہ اللہ سبحانہ نے یہ فرمایا (فمن تمتع بالعمرۃ الی الحج) اب جس شخص کا حج فوت ہوچکا ہو وہ عمرہ ادا کرنے والا نہیں کہلا سکتا۔ نیز ارشاد باری ہے (فمن تمتع بالعمرۃ الی الحج مما استیسر من الھدی) جبکہ اس شخص پر قربانی اس لئے واجب کی گئی کہ وہ اس کے ذریکعے دسویں ذی الحجہ کو حلق کرا سکے خواہ اس کے بعد حج کرے یا نہ کرے۔ آپ نہیں دیکھتے کہ اگر ایسا شخص دس سال کے بعد بھی حج کرے تو اس کے ذمہ قربانی اسی طرح لازم رہے گی۔ یہ اس بات کی دلیل ہے کہ آیت میں جس متمتع کا ذکر ہے یہ وہ نہیں ہے جو ابن الزبیر کے ہاں مراد ہے۔ اس لئے کہ آیت میں جس تمتع کا ذکر ہے اس میں قربانی کا تعلق حج اور عمرہ کی ادائیگی سے ہے اور دم احصار کا تعلق عمرہ کے بعد حج کی ادائیگی سے نہیں ہے۔ اس تمتع سے مراد احرام کھول کر عورتوں سے قربت ہے۔ البتہ یہ قربت صرف اسی طریقے پر ہو جس کا اشہر حج میں حج اور عمرہ کو جمع کرنے کے سلسلے میں ہم ذکر کر آئے ہیں۔ تمتع کی چوتھی صورت یہ ہے کہ کوئی شخص یوم النحر سے پہلے حج کا طواف کرنے کے بعد حج فسخ کر دے۔ ہمارے علم میں نہیں ہے کہ حضرت ابن عباس کے سوا کوئی اور صحابی بھی اس کا قائل ہے۔ ہمیں جعفر بن محمد واسطی نے بیان کیا، انہیں جعفر بن محمد الیمان نے، انہیں ابو عبید نے ، انہیں یحییٰ بن سعید نے ابن جریج سے، انہوں نے کہا کہ مجھے عطاء نے حضرت ابن عباس سے خبر دی ہے کہ آپ نے فرمایا : ” جو شخص بھی بیت کا طواف کرے گا اس کا احرام کھل جائے گا۔ “ میں (ابن جریج) نے کہا : ” یہ تو وقوف عرفات کے بعد ہوتا ہے۔ “ یہ سن کر عطاء نے جواب دیا کہ ابن عباس وقوف عرفات سے قبل اور بعد دونوں صورتوں میں اس کے قائل تھے۔ میں نے عطا سے پھر پوچھا کہ حضرت ابن عباس نے یہ مسلک کہاں سے اختیار کیا تھا۔ انہوں نے جواب دیا۔” یہ مسلک حجتہ الوداع کے موقعہ پر حضور ﷺ کے اس حکم سے اخذ کیا تھا جب آپ نے صحابہ کرام کو احرام کھول دینے کے لئے کہا تھا۔ نیز اس ارشاد باری (ثم محلھا الی البیت العتیق) سے بھی انہوں نے استدلال کیا تھا۔ ابوعبید کہتے ہیں کہ ہمیں حجاج نے شعبہ سے، انہوں نے قتادہ سے یہ نقل کیا کہ میں نے ابوحسان اعرج کو یہ کہتے ہوئے سنا تھا کہ ایک شخص نے حضرت ابن عباس سے عرض کیا کہ آپ کے اس فتوے سے لوگوں میں تفرقہ پڑگیا ہے کہ جس نے بیت اللہ کا طواف کرلیا اس کا احرام کھل گیا۔ حضرت ابن عباس نے یہ سن کر جواب دیا کہ یہ تمہارے نبی ﷺ کی سنت ہے خواہ یہ تمہیں بری کیوں نہ لگے۔ ابوبکر جصاص کہتے ہیں کہ متواتر روایات سے یہ بات معلوم ہوتی ہے کہ حضور ﷺ نے حجتہ الوداع کے موقع پر صحابہ کرام کو حج فسخ کرنے کا حکم دیا تھا اور صحابہ کرام میں سے کوئی بھی قربانی کے لئے اپنے ساتھ جانور لے کر نہیں آیا تھا۔ حضور ﷺ نے خود احرام نہیں کھولا تھا اور یہ فرمایا تھا کہ میں قربانی کے لئے جانور اپنے ساتھ لایا ہوں اس لئے میں دسویں تاریخ تک احرام نہیں کھولوں گا۔ پھر آپ نے صحابہ کرام کو یوم الترویہ یعنی آٹھویں ذی الحجہ کو اس وقت حج کا احرام باندھنے کا حکم دیا جب منیٰ کی طرف جانے کا وقت آگیا۔ یہ صورت متعہ کی ان دو صورتوں میں سے ایک ہے جس کے متعلق حضرت عمر نے فرمایا تھا کہ حضور ﷺ کے زمانے میں دو متعہ ایسے تھے جن سے اب میں روکتا ہوں اور اگر کوئی باز نہ آئے تو اسے سزا بھی دیتا ہوں۔ ایک ہی متعہ حج اور دوسرا عورتوں سے متعہ طارق بن شہاب نے ابو موسیٰ سے حضرت عمر کی نہی کے سلسلے میں یہ نقل کیا ہے کہ میں (ابو موسیٰ ) نے عرض کیا کہ امیر المومنین ! آپ نے متعہ حج کے متعلق یہ نئی بات کیا بیان کی ہے ؟ حضرت عمر نے جواب میں فرمایا : اگر ہم کتاب اللہ کو لیں تو اس میں اللہ کا یہ حکم ہے کہ (واتموا الحج والعمرۃ للہ) اور اگر سنت رسول اللہ ﷺ کو اختیار کریں تو آپ نے قربانی کا جانو ذبح کرنے سے پہلے احرام نہیں کھولا تھا۔ حضرت عمر نے یہ بتادیا کہ یہ متعہ قرآن مجید کی آیت سے منسوخ ہوگیا ہے اور حضرت عمر کا یہ قول اس بات کی دلیل ہے کہ قرآن کی وجہ سے سنت منسوخ ہوسکتی ہے۔ حضور ﷺ سے یہ بھی مروی ہے کہ فسخ حج کی یہ صورت صرف حجتہ الوداع کے موقع پر موجود صحابہ کے ساتھ خاص تھی۔ ہمیں جعفر بن محمد نے ، انہیں جعفر بن محمد بن الیمان نے، انہیں ابو عبید نے، انہیں نعیم نے عبدالعزیز بن محمد سے، انہوں نے ربیعہ بن عبدالرحمٰن سے، انہوں نے حرث بن بلال بن حرث سے، انہوںں نے اپنے والد بلال بن حرث مزنی سے روایت کی کہ انہوں نے کہا : میں نے حضور ﷺ سے عرض کیا کہ فسخ حج صرف ہمارے لئے ہے اور ہمارے بعد آنے والے لوگوں کے لئے بھی ؟ حضور ﷺ نے یہ سن کر فرمایا :” نہیں، یہ صرف ہمارے لئے ہے۔ “ حضرت ابوذر کا قول ہے : حج کو عمرہ کے ذریعے فسخ کرنا صرف حضور ﷺ کے صحابہ کرام کے ساتھ مخصوص تھا۔ حضرت علی اور صحابہ کی ایک جماعت سے یہ منقول ہے کہ انہوں نے حضور ﷺ کے بعد فسخ حج کے جواز کو تسلیم کرنے سے انکار کردیا تھا۔ حضرت عمر کے اس قول سے کہ حضور ﷺ کے عہد میں دو متعہ تھے۔ نیز ان کے متعلق صحابہ کے علم کی بنا پر یہ بات پایہ ثبوت کو پہنچ جاتی ہے کہ حضرت عمر کی طرح صحابہ کرام کو بھی ان کے منسوخ ہونے کا علم تھا۔ اگر ایسا نہ ہوتا تو صحابہ کرام حضور ﷺ کی اس سنت پر عمل درآمد کی ممانعت کو کبھی تسلیم نہ کرتے۔ انہیں اس کے منسوخ ہونے کا علم تھا جس کی بنا پر حضرت عمر کی نہی کو انہوں نے تسلیم کرلیا۔ حضرت جابر سے صحیح روایات کے ذریعے یہ منقول ہے کہ حضرت سراقہ بن مالک نے حضور ﷺ سے عرض کیا کہ یہ ہمارا عمرہ صرف اسی سال کے لئے یا ہمیشہ کے لئے، آپ نے جواب میں ارشاد فرمایا کہ ” یہ ہمیشہ ہمیشہ کے لئے ہے، عمرہ قیامت کے لئے حج میں داخل ہوگیا۔ “ اس حدیث میں یہ بتایا گیا ہے یہ عمرہ جس کے ذریعے صحابہ کرام نے حج فسخ کردیا تھا وہ صرف اسی حالت کے ساتھ مخصوص تھا۔ اب دوبارہ ایسا نہیں ہوگا۔ رہا حضور ﷺ کا یہ ارشاد کہ (دخلت العمرۃ فی الحج الی یوم القیامۃ، قیامت تک کے لئے عمرہ حج میں داخل ہوگیا) تو ہمیں اس کی روایت محمد بن جعفر واسطی نے کی ہے۔ انہیں محمد بن جعفر بن الیمان نے، انہیں ابو عبید نے ، انہیں یحییٰ بن سعید نے جعفر بن محمد سے، انہوں نے اپنے والد سے، انہوں نے حضرت جابر سے اور انہوں نے حضور ﷺ کا یہ قول کہ (دخلت العمرۃ فی الحج الی یوم السامۃ اس کی دو طرح سے تشریح کی گئی ہے۔ اول یہ کہ عمرہ کا حج میں داخل ہونے کا مطلب فسخ حج ہے۔ اس کی صور تیہ ہے کہ محرم حج کا تلبیہ پڑھے پھر بیت اللہ کا طواف کر کے عمرہ ادا کرنے کے ذریعے حج کا احرام کھول دے۔ دوم یہ کہ اس سے مراد متعہ حج ہے۔ اس کی صورت یہ ہے کہ کوئی شخص اشہر حج میں پہلے تنہا عمرہ کرے پھر احرام کھول دے اور پھر اسی سال حج کرے۔ ابوبکر جصاص کہتے ہیں کہ ان دونوں تشریحوں میں ایسا التباس ہے جو الفاظ حدیث سے مناسبت نہیں رکھتا۔ حدیث کے الفاظ کا ظاہر جس مفہوم کا تقاضا کرتا ہے وہ یہ ہے کہ حج عمرہ کا قائم مقام ہے اور عمرہ حج میں داخل ہے۔ اس لئے جس شخص نے حج ادا کرلیا تو اس کی یہ ادائیگی عمرہ کے لئے بھی کافی ہوگئی۔ ٹھیک اسی طرح جیسے کہ کوئی شخص احرام باندھ لیتا ہے اور حج یا عمرے کا نام نہیں لیتا ہے تو اسے یہی کہا جائے گا کہ اگر وہ چاہے تو اسے عمرہ قرار دے۔ اگرچہ صحابہ کرام کا اسے حج کا نام دینا درست نہیں تھا کیونکہ انہیں حضور ﷺ کے معاملے کا اتنظار کرنے کے لئے کہا گیا تھا کہ آپ کیا کرتے ہیں اس لئے ان صحابہ کرام کی خصوصیت کی وجہ یہ تھی کہ انہوں نے حج کا احرام باندھ لیا تھا جبکہ ان کے لئے حج کی تعیین درست نہیں تھی۔ اس بنا پر ان کی حیثیت اس شخص کی طرح تھی جو احرام باندھ لے لیکن کسی معین شے یعنی حج یا عمرے کی نیت نہ کرے۔ وجہ سا کی یہ تھی کہ صحابہ کرام کو یہ حکم ملا تھا کہ وہ حضور ﷺ کے معاملے کا اتنظار کریں کہ آپ کیا کرتے ہیں۔ اس بنا پر یہ کیفیت صحابہ کرام کے ساتھ مخصوص ہوگئی تھی۔ اس کے برعکس بقیہ تمام لوگوں کے لئے یہ قاعدہ ہے کہ جو شخص بھی کسی معین شے یعنی حج یاعمرے کی نیت کے ساتھ احرام باندھے گا اس کا حکم اس پر لازم ہوجائے گا اور اسے اس بات کی اجازت نہیں ہوگی کہ وہ اسے چھوڑ کر کوئی چیز اختیار کرے۔ کچھ لوگوں نے سرے سے یہ بات تسلیم کرنے سے انکار کردیا ہے کہ حضور ﷺ نے کسی طرح بھی فسخ حج کا حکم دیا تھا۔ انہوں نے اس روایت سے استدلال کیا ہے جو زید بن ہارون نے بیان کی ہے انہیں محمد بن عمر نے یحییٰ بن عبدالرحمٰن بن حاطب سے کہ حضرت عائشہ نے فرمایا کہ ہم حضور ﷺ کے ساتھ جب نکلے تو ہم تلبیہ کہنے کے لحاظ سے مختلف گروہوں میں بٹے ہوئے تھے۔ ہم میں سے کچھ ایسے تھے جو صرف حج کا تلبیہ کہتے تھے۔ کچھ عمرے کا تلبیہ کہتے تھے اور کچھ حج اور عمرہ دونوں کا جن لوگوں نے صرف حج کا تلبیہ کہا تھا وہ مناسک حج ادا کرنے تک احرام سے باہر نہیں آئے اور جن لوگوں نے عمرے کا تلبیہ کہا تھا وہ طواف اور صفا و مروہ کے درمیان سعی کرنے کے بعد احرام سے باہر آ گئے اور حج کا انتظار کرنے لگے۔ (آیت 196 کی بقیہ تفسیر اگلی آیت کے ذیل میں)
Top