Ahkam-ul-Quran - An-Noor : 27
یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لَا تَدْخُلُوْا بُیُوْتًا غَیْرَ بُیُوْتِكُمْ حَتّٰى تَسْتَاْنِسُوْا وَ تُسَلِّمُوْا عَلٰۤى اَهْلِهَا١ؕ ذٰلِكُمْ خَیْرٌ لَّكُمْ لَعَلَّكُمْ تَذَكَّرُوْنَ
يٰٓاَيُّهَا : اے الَّذِيْنَ : جو لوگ اٰمَنُوْا : تم نہ داخل ہو لَا تَدْخُلُوْا : تم نہ داخل ہو بُيُوْتًا : گھر (جمع) غَيْرَ بُيُوْتِكُمْ : اپنے گھروں کے سوا حَتّٰى : یہانتک کہ تَسْتَاْنِسُوْا : تم اجازت لے لو وَتُسَلِّمُوْا : اور تم سلام کرلو عَلٰٓي : پر۔ کو اَهْلِهَا : ان کے رہنے والے ذٰلِكُمْ : یہ خَيْرٌ : بہتر ہے لَّكُمْ : تمہارے لیے لَعَلَّكُمْ : تاکہ تم تَذَكَّرُوْنَ : تم نصیحت پکڑو
مومنو ! اپنے گھروں کے سوا دوسرے (لوگوں کے) گھروں میں گھر والوں سے اجازت لئے اور ان کو سلام کئے بغیر داخل نہ ہوا کرو یہ تمہارے حق میں بہتر ہے (اور ہم یہ نصیحت اس لئے کرتے ہیں کہ) شاید تم یاد رکھو
گھروں میں داخلے پر اجازت طلب کرنے کا بیان قول باری ہے : (یا ایھا الذین امنوا لا تدخلوا بیوتا غیر بیوتکم حتی تستانسوا وتسلموا علی اھلھا) اے لوگوں جو ایمان لائے ہو اپنے گھروں کے سوا دوسرے گھروں میں داخل نہ ہوا کرو جب تک کہ گھر والوں کی رضا نہ لے لو اور گھر والوں پر سلام نہ بھیج لو۔ حضرت ابن عباس ؓ ، حضرت ابن مسعود ؓ ، ابراہیم نخعی اور قتادہ سے مروی ہے کہ استیناس کے معنی استئذان یعنی اجازت طلب کرنے کے ہیں اس صورت میں معنی یہ ہوں گے ” جب تک اجازت طلب کرکے گھر والوں کی رضا نہ لے لو۔ “ شعبہ نے ابو بشر سے ، انہوں سعیدبن جبیر سے اور انہوں نے حضرت ابن عباس ؓ سے روایت کی ہے کہ وہ اس لفظ کی قرات ” حتی تستاذنوا “ کرتے تھے ، وہ کہتے تھے کہ اس لفظ کے لکھنے میں کاتب سے غلطی ہوگئی ہے قاسم بن نافع نے مجاہد سے روایت کی ہے کہ اس کا مفہوم یہ ہے کہ کھنکارنے اور گلا صاف کرنے کی آواز کے ذریعے گھر والوں کی رضا حاصل کی جائے۔ “ نسق تلاوت میں ایسی بات موجود ہے جو اس پر دلالت کرتی ہے کہ یہاں استیذان یعنی اذن طلب کرنا مراد ہے۔ وہ یہ قول باری ہے : (واذا بلغ الاطفال منکم احلم فلیستاذنوا کما استاذن الذین من قبلھم) اور جب تمہارے بچے بلوغت کی عمر کو پہنچ جائیں تو وہ اس طرح اجازت طلب کریں جس طرح ان سے پہلے لوگ طلب کرتے تھے۔ استیناس کبھی گفتگو کے سلسلے میں استعمال ہوتا ہے جس طرح یہ قول باری ہے (ولا مستانسین لحدیث) اور باتوں میں جی لگا کر نہ بیٹھے رہا کرو۔ اور جس طرح حضرت عمر ؓ سے مروی روایت میں ذکر ہے کہ حضور ﷺ نے جب ازواج مطہرات سے کنارہ کشی کی تو پانی والے کمرے میں سکونت اختیار کرلی۔ حضرت عمر ؓ کہتے ہیں کہ ” میں نے اندر آنے کی اجازت طلب کی، تو آپ نے فرمایا : ” کانوں میں تمہاری آواز پڑگئی ہے۔ “ اس کے بعد آپ ﷺ نے اندر بلالیا۔ پھر حضرت عمر ؓ نے دیگر باتوں کے علاوہ یہ بیان کیا۔ میں نے عرض کیا ” اللہ کے رسول ﷺ ! میں بیٹھا باتیں کرتا رہوں۔ “ آپ ﷺ نے اس کا جواب اثبات میں دیا۔ یہاں حضرت عمر ؓ نے استیناس سے باتوں میں لگا رہنا مراد لیا ہے۔ یہ صورت کمرے میں داخل ہونے کے بعد پیش آئی تھی۔ جس استیناس کا ذکر آیت (حتیٰ تستانسوا) میں ہوا ہے اس سے گفتگو میں لگا رہنا مراد لینا درست نہیں ہے کیونکہ باتوں تک رسائی اذن دخول کے بعد ہوتی ہے بلکہ اس سے داخل ہونے کی اجازت طلب کرنا مراد ہے۔ استئذان کو استیناس کا نام اس لئے دیا گیا ہے کہ جب آنے والا داخل ہونے کی اجازت طلب کرتے ہوئے اہل خانہ کو اسلام علیکم کہے گا تو اس کی وجہ سے اہل خانہ میں آنے والے سے دل چسپی پیدا ہوجائے گی، اگر آنے والا اجازت کے بغیر گھر میں داخل ہوجائے گا تو اس سے اہل خانہ پریشان ہوجائیں گے اور یہ چیز ان پر شاق گزرے گی۔ اجازت طلب کرنے کے ساتھ سلام کرنے کا بھی حکم دیا گیا کیونکہ سلام مسلمانوں کا طریقہ ہے جسے اپنانے کا انہیں حکم دیا گیا ہے۔ نیز سلام گویا آنے والے کی طرف سے گھر والوں کے لئے امان کا پیغام ہوتا ہے۔ یہ اہل جنت کی تحیت سے اس سے آپس میں محبت پیدا ہوتی ہے اور حسد نیز کینہ دور ہوتا ہے۔ ہمیں عبدالباقی بن قانع نے روایت بیان کی، انہیں یوسف بن یعقوب نے، انہیں محمد بن بکر نے، انہیں صفوان بن عیسیٰ نے، انہیں الحارث بن عبدالرحمن بن ابی رباب نے سعید بن ابی سعید سے اور انہوں نے حضرت ابوہریرہ ؓ سے کہ حضور ﷺ نے فرمایا : ” اللہ تعالیٰ نے جب حضرت آدم (علیہ السلام) کی تخلیق فرمائی اور ان کے جسم میں روح پھونکی تو انہیں چھینک آئی اور انہوں نے ” الحمد للہ “ کہا، اس طرح انہوں نے اللہ کے اذن سے اللہ کی تعریف کی۔ اللہ تعالیٰ نے ان سے فرمایا : ” آدم تیرے رب نے تجھ پر رحم کیا، ان فرشتوں کے گروہ کی طرف جائو جو یہاں بیٹھا ہے اور انہیں السلام علیکم کہو۔ “ چناچہ حضرت آدم نے ان کے پاس جا کر انہیں سلام علیکم کہا اور پھر اپنے رب کی طرف لوٹ آئے۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا : یہ تمہاری تحیت ہے تمہاری اولاد کی آپس کی بھی یہی تحیت ہے۔ “ ہمیں عبدالباقی ابن قانع نے روایت بیان کی، انہیں علی بن اسحاق بن راحلیہ نے، انہیں ابراہیم بن سعید نے، انہیں یحییٰ بن نصر بن حاجب نے، انہیں ہلال بن حماد نے ذاذان سے، انہوں نے حضرت علی ؓ سے کہ حضور ﷺ کا ارشاد ہے۔ ایک مسلمان کے دوسرے مسلمان پر چھ حقوق ہیں۔ جب اس سے اس کی ملاقات ہو تو وہ اسے السلام علیکم کہے۔ جب اسے کھانے پر بلائے تو اس کی دعوت قبول کرے اور غائبانہ طور پر اس کے لئے اپنے دل میں خیرخواہانہ جذبات رکھے جب اسے چھینک آئے تو جواب میں ” یرحمک اللہ (خدا تجھ پر رحم کرے) کہے، جب وہ بیمار پڑجائے تو اس کی بیمار پرسی کرے اور جب اس کی وفات ہوجائے تو جنازے کے ساتھ جائے۔ “ ہمیں عبدالباقی بن قانع نے روایت بیان کی، انہیں ابراہیم بن اسحق الحربی نے، انہیں ابوغسان النہدی نے انہیں زبیر نے، انہیں اعمش نے حضرت ابوبردہ ؓ سے کہ حضور ﷺ نے فرمایا۔ قسم ہے اس ذات کی جس کے قبضہ قدرت میں میری جان ہے تم جنت میں داخل نہیں ہوسکتے جب تک ایمان نہیں لاتے، اور ایمان والے نہیں بن سکتے جب تک آپس میں ایک دوسرے سے محبت نہیں کرتے ، کیا میں تمہیں وہ بات نہ بتائو جسے تم اگر اپنالو تو آپس میں ایک دوسرے سے محبت کرنے لگو، آپس میں سلام کو رواج دو ۔ “ ہمیں عبدالباقی بن قانع نے روایت بیان کی، انہیں اسماعیل بن الفضل نے، انہیں محمد حمید نے ، انہیں محمد بن معلی نے انہیں زیاد بن خیثمہ نے ابویحییٰ القتات سے، انہوں نے مجاہد سے، انہوں نے حضرت ابن عمر ؓ سے اور انہوں نے حضور ﷺ سے کہ آپ نے فرمایا : (ان سرکم ان یخرج الغل من صدورکم فافشو ا السلام بینکم) اگر تمہیں یہ بات پسند آئے کہ تمہارے سینوں سے کینہ دور ہوجائے تو آپس میں سلام کو رواج دو ۔ استیذان کی تعداد اور اس کا طریقہ دہیم بن قرآن نے یحییٰ بن کثیر سے، انہوں نے عمرو بن عثمان سے اور انہوں نے حضرت ابوہریرہ ؓ سے کہ حضور ﷺ نے فرمایا (الاستیذان ثلاث فالاولیٰ یستنصتون والثانیۃ یستصلحون والثالثۃ یاذنون اویردون۔ ) اجازت تین دفعہ طلب کی جانی ہے۔ پہلی بار پر گھر والے غور سے آواز سنتے ہیں دوسری بار پر صلاح کرتے ہیں اور تیسری بار پر اجازت دے دیتے یا واپس کردیتے ہیں۔ یونس بن عبید نے ولید بن مسلم سے اور انہوں نے حضرت جندب ؓ سے روایت کی ہے انہوں نے کہا کہ میں نے حضور ﷺ کو یہ فرماتے ہوئے سنا تھا کہ (اذا استاذن احدکم ثلاثا فلم یودن لہ فلیرجع) جب تم میں سے کوئی شخص تین دفعہ اجازت طلب کرے اور پھر بھی اسے اجازت نہ ملے تو وہ واپس چلا جائے۔ ہمیں محمد بن بکر نے روایت بیان کی، انہیں ابودائود نے، انہیں احمدبن عبدہ نے، انہیں سفیان نے یزید بن خصیفہ سے، انہوں نے بسر بن سعید سے، انہوں نے حضرت ابو سعید خدری ؓ سے، وہ کہتے ہیں کہ میں ایک دن حضرات انصار کے ایک مجلس میں بیٹھا تھا کہ اتنے میں ابو موسیٰ گھبرائے ہوئے آئے، میں نے وجہ پوچھی تو کہنے لگے کہ مجھے عمر ؓ نے طلب کیا گیا۔ میں ان کے پاس گیا۔ اندر آنے کے لئے تین دفعہ اجازت طلب کی لیکن اجازت نہ ملنے پر واپس ہوگیا، پھر جب دوبارہ ان کے پاس گیا تو انہوں نے مجھ سے جواب طلبی کی۔ میں نے کہا کہ میں آیا تھا اور تین مرتبہ اجازت بھی مانگی تھی لیکن اجازت نہ ملنے پر واپس چلا گیا کیونکہ حضور ﷺ کا ارشاد ہے کہ : (اذا استاذن احد کو ثلاثاً فلم یوذن لہ فلیر جع۔ ) یہ حدیث سن کر انہوں نے مجھ سے ثبوت پیش کرنے کے لئے کہا۔ میں نے ان کی بات سن کر کہا کہ اس حدیث کی گواہی دینے کے لئے اس مجمع کا سب سے کم انسان آپ کے ساتھ جائے گا۔ “ ان کا اشارہ اپنی طرف تھا۔ چناچہ حضرت ابوسعید ؓ ان کے ساتھ گئے اور اس حدیث کے سماع کی گواہی دی۔ ایک روایت کے الفاظ یہ ہیں کہ حضرت عمر ؓ نے حضرت ابوموسیٰ ؓ سے فرمایا تھا کہ ا س حدیث کے متعلق میں تم پر کذب بیانی کی تہمت نہیں لگاتا ہوں لیکن حضور ﷺ سے منقول حدیث کا معاملہ بڑا نازک ہوتا ہے۔ بعض روایات میں یہ الفاظ منقول ہیں۔” لیکن مجھے خطرہ ہے کہ لوگ اپنی طرف سے باتیں گھڑ کر حضور ﷺ کی طرف منسوب کرنا شروع کردیں۔ “ ابوبکر حبصاص کہتے ہیں کہ حضرت عمر ؓ نے حضرت ابوموسیٰ ؓ کی روایت کو اس وقت قبول کیا جب وہ ان کے نزدیک حد استفاضہ کہ پونچ گئی۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ استیذان کا معاملہ ایسا تھا جس سے ہر انسان کو سابقہ پڑتا تھا اور عمومی طور پر لوگوں کو اس کی ضرورت پیش آتی تھی۔ حضرت عمر ؓ کو یہ بات کچھ اوپری لگی کہ عمومی حاجت کے باوجود استیذان کی صرف تین مرتبہ اجازت ہے اور اجازت کے اس حکم کو نقل کرنے والے بھی چند افراد ہیں۔ یہ اس بات کی اصل ہے کہ جس حکم کی لوگوں کو عمومی طور پر ضرورت پیش آتی ہو اس کے متعلق وہی روایت قابل قبول ہوگی جو حد استفاضہ کو پہنچ چکی ہو۔ ہمیں محمد بن بکر نے روایت بیان کی، انہیں ابودائودنے، انہیں ہاروں بن عبداللہ نے انہیں ابودائود الحضری نے سفیان سے، انہوں نے اعمش سے، انہوں نے طلحہ بن مصرف سے، انہوں نے ایک شخص سے اور انہوں نے حضرت سعد ؓ سے کہ ایک شخص حضور ﷺ کے دروازے پر آکر کھڑا ہوگیا اور اس کی طرف رخ کرکے اجازت طلب کی۔ آپ نے اس سے فرمایا (ھکذا عنک او ھکذا فانما جعل الاستئذان للنظر) اس طرح کھڑے ہوکر……اجازت مانگو یعنی تمہارا رخ دروازے کی طرف نہیں ہونا چاہیے۔ اجازت طلب کرنے کا حکم اس لئے دیا گیا کہ اس کی نظر گھر کے اندر نہ پڑے۔ ہمیں محمد بن بکر نے روایت بیان کی، انہیں ابودائود نے ، انہیں ابن بشار نے، انہیں ابو عاصم نے، انہیں ابن جریج نے، انہیں عمرو بن ابی سفیان نے کہ انہیں عمروبن عبداللہ بن صفوان نے کلاہ سے روایت کرتے ہوئے بتایا کہ حضرت صفوان ؓ بن امیہ نے انہیں کچھ دودھ ، ہرن کا ایک بچہ، اور کچھ لکڑیاں دے کر حضور ﷺ کی طرف بھیجا تھا آپ اس وقت مکہ کے بالائی حصے میں مقیم تھے ۔ میں آپ کے گھر میں داخل ہوگیا لیکن میں نے سلام نہیں کیا، آپ نے مجھے واپس جانے اور سلام کرکے اندر داخل ہونے کا حکم دیا۔ یہ واقعہ حضرت صفوان ؓ کے اسلام لانے کے بعد کا ہے۔ ہمیں محمد بن بکر نے روایت بیان کی، انہیں ابودائود نے ، انہیں ابوبکر بن ابی شیبہ نے، انہیں ابوالاحوص نے منصور سے، انہوں نے ربعی سے ، انہیں بنو عامر کے ایک شخص نے بتایا کہ اس نے حضور ﷺ سے اندر آنے کی اجازت طلب کی۔ اس وقت آپ ایک کمرے میں بیٹھے ہوئے تھے، اس شخص نے پوچھا : ” میں اندر گھس آئوں ؟ “ یہ سن کر آب نے ایک خادم سے کہا کہ باہر جائو اور اس شخص کو اجازت طلب کرنے کا طریقہ بتائو۔ اس سے کہو کہ پہلے السلام علیکم کہے اور پھر پوچھے کہ کیا میں اندر آسکتا ہوں۔ اس شخص نے آپ کی یہ بات سن لی اور السلام علیکم کہنے کے بعد پوچھا کہ کیا میں اندر آسکتا ہوں ؟ اس کی زبان سے یہ بات سن کر آپ نے اسے اجازت دے دی چناچہ وہ اندرچلا گیا۔ ہمیں محمد بن بکر نے روایت بیان کی، انہیں ابودائود نے ، انہیں موئل بن فضل الحرانی نے دوسرے راویوں کے ساتھ، ان سب کو بقیہ نے ، انہیں محمد بن عبدالرحمن نے عبداللہ بن یسر سے، انہوں نے کہا کہ جب حضور ﷺ کسی کے دروازے پر تشریف لاتے تو اپنا چہرہ مبارک دروازے کی طرف نہ رکھتے بلکہ دروازے کے دائیں یا بائیں رکھتے اور فرماتے ” السلام علیکم “ آپ ﷺ اس لئے ایسا کرتے کہ ان دنوں گھروں کے دروازوں پر پردے لٹکے نہ ہوتے تھے۔ ابوبکر حبصاص کہتے ہیں کہ ظاہر قول باری : (لا تدخلوا بیوتا غیر بیوتکم حتی تستانسوا) اذن طلب کرنے کے بعد گھر میں داخل ہوجانے کے جواز کا مقتضی ہے خواہ گھر والے کی طرف سے اجازت نہ بھی ملے۔ اسی بنا پر مجاہد کا قول ہے کہ استیناس کے معنی کھنکھارنے اور گلا صاف کرنے کے ہیں۔ گویا مجاہد کی مراد یہ ہے کہ آنے والا گھر والوں کو اپنے داخل ہونے کے بارے میں آگاہ کردے۔ یہ حکم ان لوگوں کے لئے ثابت ہے جن کے اندر اذن کے بغیر داخل ہوجانے کا طریقہ مروج ہوتا ہم یہ بات واضح ہے کہ آیت سے اذن فی الدخول مراد ہے لیکن مخاطبین کو چونکہ اس مراد کا علم تھا اس لئے اسے حذف کردیا گیا۔ ہمیں محمد بن بکر نے روایت بیان کی ہے، انہیں ابودائود نے، انہیں موسیٰ بن اسماعیل نے، انہیں حماد نے حبیب اور ہشام سے، انہوں نے محمد سے اور انہوں نے حضرت ابوہریرہ ؓ سے کہ حضور ﷺ نے فرمایا : رسول الرجل الی الرجل اذنہ۔ ایک آدمی کے پیغمبر کا دوسرا آدمی کی طرف پیغام لے کر جانا اس کی طرف سے اذن ہوتا ہے۔ ہمیں محمد بن بکر نے روایت بیان کی، انہیں ابودائود نے انہیں حسین بن معاذ نے، انہیں عبدالاعلیٰ نے، انہیں سعید نے قتادہ سے، انہوں نے ابورافع سے اور ہاتھوں نے حضرت ابوہریرہ ؓ سے کہ حضور ﷺ نے فرمایا (اذادعی احدکم الی طعام مجاء مع الرسول فان ذلک لہ اذن جب تم میں سے کسی کو کھانے پر مدعو کیا جائے اور وہ پیغام لانے والے کے ساتھ چلا آئے تو یہی اس کے لئے اذن ہوگا) یہ روایت دو معنوں پر دلالت کرتی ہے۔ ایک تو یہ کہ قول باری (حتی تستانسوا) میں لفظ اذن محذوف ہے لیکن آیت میں مراد ہے۔ دوم یہ کہ کسی کو بلوا بھیجنا اذن ہوتا ہے اگر مدعو شخص پیغام لانے والے کے ہمراہ آجائے تو اسے دوبارہ اذن طلب کرنے کی ضرورت نہیں رہتی ۔ یہ قول باری اس پر بھی دلالت کرتا ہے کہ جن لوگوں میں گھر کے اندر داخل ہونے کی اباحت کا طریقہ مروج ہوا نہیں اذن طلب کرنے کی ضرورت نہیں ہوتی۔ ابوہریرہ ؓ کا واقعہ اگرکہا جائے کہ ابونعیم نے عمر بن زر سے اور انہوں نے مجاہد سے روایت کی ہے کہ حضرت ابوہریرہ ؓ بیان کیا کرتے تھے کہ بخدا میں بھوک کے مارے اپنے کلیجے کے سہار زمین پر ٹیک لگادیتا تھا کبھی میں بھوک کی وجہ سے اپنے پیٹ پر پتھر باندھ لیتا تھا۔ ایک دن میں بھوکا تھا، میں آکر اس راستے پر بیٹھ گیا جہاں سے صحابہ کرام ؓ کا گزر ہوتا تھا، حضرت ابوبکر ؓ آئے میں نے ان سے کتاب اللہ کی ایک آیت پوچھی حالانکہ میرے سوال کا مقصد یہ تھا کہ وہ میری بھوک کا احساس کرکے مجھے پیٹ بھر کھانا کھلادیں، لیکن وہ گزر گئے اور میری طرف دھیان نہیں کیا۔ پھر حضرت عمر ؓ گزرے۔ میں نے ان سے بھی کتاب کی آیت پوچھی انہوں نے میری طرف دھیان نہیں کیا اور چلے گئے۔ پھر حضور ﷺ کا گزر ہوا۔ آپ مجھے دیکھ کر مسکرائے اور میری حالت کا احساس کرلیا۔ پھر آپ نے فرمایا : ” اے ابوہریرہ “ میں نے جواب دیا۔ لبیک یارسول اللہ فرمایا : ” میرے ساتھ چلو “ چناچہ میں آپ ﷺ کے پیچھے پیچھے چل پڑا۔ آپ گھر میں داخل ہوگئے۔ میں نے اندر آنے کی اجازت طلب کی۔ آپ نے اجازت دے دی۔ میں اندر داخل ہوگیا۔ میں نے ایک پیالے میں دودھ دیکھا، آپ نے گھر والوں سے پوچھا کہ دودھ کہاں سے آیا ہے۔ انہوں نے جواب دیا کہ فلاں شخص یا فلاں عورت نے آپ کو ہدیہ بھیجا ہے۔ آپ نے فرمایا : ” ابوہریرہ “ میں نے عرض کیا۔ ” اللہ کے رسول لبیک آپ ﷺ نے فرمایا۔” اہل صفہ مسلمانوں کے مہمان تھے، وہ نہ تو اہل وعیال والے تھے اور نہ مال والے، حضور ﷺ کے پاس اگر صدقہ کی کوئی چیز آتی تو آپ ﷺ اسے ان کی طرف بھیج دیتے اور خود نہ کھاتے لیکن جب کوئی چیز بطور ہدیہ آتی تو انہیں بلوالیتے اور ان کے ساتھ مل کر اسے تناول کرتے۔ جب آپ ﷺ نے اہل صفہ کو بلانے کے لئے کہا تو یہ بات مجھے اچھی نہ لگی۔ میں نے عرض کیا۔ ” اتنا سا دودھ اہل صفہ کے کیا کام آئے گا۔ “ میں دراصل یہ چاہتا تھا کہ یہ دودھ مجھے مل جائے تاکہ اسے پی کر میرے جسم میں کچھ توانائی آجائے، لیکن آپ نے میری یہ بات تسلیم نہ کی۔ میں سوچ رہا تھا کہ جب وہ حضرات آجائیں گے تو آپ ﷺ مجھے یہ دودھ انہیں بلانے کا حکم دیں گے، میں انہیں یہ دودھ دے دوں گا اور شاید ہی اس کا کچھ حصہ میرے لئے بچے گا۔ بہرحال میں ان کے پاس گیا اور انہیں بلالایا۔ وہ سب آگئے اور اندر آنے کی اجازت طلب کی۔ آپ نے اجازت دے دی، اور کمرے میں آکر بیٹھ گئے پھر آپ نے مجھے پکارا ” ابوہریرہ “ میں نے جواب میں لبیک کہا ۔ آپ ﷺ نے فرمایا : ” یہ پیالہ پکڑو اور انہیں دودھ پلائو۔ “ میں نے پیالہ اٹھالیا۔ میں وہ پیالہ ایک شخص کو پکڑا دیتا یہاں تک کہ وہ دودھ پی کر سیر ہوجاتا۔ پھر دوسرے کو پکڑا دیتا اور وہ سیر ہونے کے بعد پیالہ مجھے واپس کردیتا۔ میں اسی طرح ایک ایک کو پلاتے پلاتے حضور ﷺ کے پاس پہنچ گیا، تمام اہل صفہ دودھ پی کر سیر ہوچکے تھے۔ آپ ﷺ نے پیالہ لے کر اپنے ہاتھ پر رکھا اور میری طرف دیکھ کر مسکرانے لگے پھر فرمایا ” ابوہریرہ “ میں نے جواب میں لبیک کہا۔ آپ نے فرمایا : ” اب صرف میں اور تم باقی رہ گئے ہیں۔ “ میں نے عرض کیا کہ آپ ﷺ ٹھیک فرماتے ہیں۔ یہ سن کر آپ نے فرمایا : ” اچھا بیٹھ جائو اور دودھ پیو۔ “ آپ کہتے جاتے ” اور پیو “ اور میں پیتا جاتا یہاں تک کہ میں بول اٹھا۔” اس ذات کی قسم جس نے آپ کو حق کے ساتھ مبعوث کیا ہے اب تو دودھ کے لئے اندر جانے کی بھی گنجائش باقی نہیں رہی۔ “ اس پر آپ ﷺ نے فرمایا : ” مجھے دکھائو “۔ میں نے پیالہ آپ کو پکڑا دیا۔ آپ نے الحمد للہ کہتے ہوئے بچا ہوا دودھ نوش جان کرلیا۔ حضرت ابوہریرہ ؓ نے اس روایت میں یہ بات بتائی کہ اصحاب صفہ نے حضور ﷺ سے اندر آنے کی اجازت طلب کی تھی حالانکہ یہ حضرات آپ کو پیامبر کے ساتھ آئے تھے آپ ﷺ نے ان کی طرف سے اجازت طلب کرنے کو برا نہیں جانا۔ یہ روایت حضرت ابوہریرہ ؓ کی اس روایت کے خلاف ہے جس میں انہوں نے حضور ﷺ سے نقل کیا تھا : ان رسول الرجل الی الرجل اذنہ۔ اس کے جواب میں کہا جائے گا کہ یہ دونوں روایتیں ایک دوسری کے خلاف نہیں ہیں اس لئے کہ حضور ﷺ نے تو پیغام لے جانے والے شخص کے ساتھ آنے والے کے لئے گھر میں داخل ہونے کی اباحت کو دی ہے لیکن اس میں اجازت طلب کرنے کی کراہت کی بات نہیں ہے بلکہ آنے والے شخص کو اس صورت میں یہ اختیار ہوتا ہے کہ چاہے تو اجازت طلب کرلے اور چاہے ت ایسانہ کرے لیکن اگر وہ پیغام لے جانے والے شخص کے ہمراہ نہ آئے تو اس صورت میں اذن طلب کرنا واجب ہوگا۔ قول باری (حتیٰ تستانسوا) میں اذن کی شرط ہے اس پر سلسلہ تلاوت میں یہ قول باری : (فان لم تجدوا فیھا احدا فلا تدخلوھا حتی یوذن لکم) اگر اس گھر میں کسی کو نہ پائو تو پھر جب تک تمہیں اجازت نہ ملے اس میں داخل نہ ہو۔ دلالت کرتا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے اذن کے بغیر داخل ہونے کی ممانعت کردی۔ یہ بات اس پر دلالت کرتی ہے کہ پہلی آیت میں دخول کی اباحت کے اندر اذن کی شرط لگی ہوئی ہے۔ نیزحضور ﷺ نے ایک روایت میں جس کا ہم پہلے ذکر کرچکے ہیں فمایا کہ استیذان حکم اس لئے دیا گیا ہے کہ گھر کے اندر نظر نہ پڑے۔ “ یہ ارشاد اس پر دلالت کرتا ہے کہ کسی کے گھر کے اندر اس کی اجازت کے بغیر نظر ڈالنا جائز نہیں ہے۔ اس بارے میں تغلیظ کی کئی صورتیں مروی ہیں۔ ایک حدیث تو وہ ہے جو ہمیں محمد بن بکر نے بیان کی ہے، انہیں ابودائود نے، انہیں محمد بن عبید نے، انہیں حماد عبیداللہ بن ابی بکر سے، انہوں نے حضرت انس بن مالک سے کہ ایک شخص نے حضور ﷺ کے ایک حجرے میں جھانکنے کی کوشش کی۔ آپ فورا چوڑے پھل کا ایک یا کئی تیر لے کر کھڑے ہوگئے۔ حضرت انس ؓ کہتے ہیں کہ مجھے یوں نظر آرہا تھا کہ گویا آپ ﷺ اس شخص کو تیر چبھونے کے لئے موقعہ کی تلاش میں تھے۔ ہمیں محمد بن بکر نے روایت بیان کی، انہیں ابودائود نے ، انہیں الربیع بن سلیمان الموذن نے، انہیں ابن وہب نے سلیمان بن بلال سے، انہوں نے کثیر سے انہوں نے ولید سے اور انہوں نے حضرت ابوہریرہ ؓ سے کہ حضور ﷺ نے فرمایا : (اذا دخل الیصرفلا اذن) جب گھر کے اندر نظر پڑجائے تو پھر اذن کی کیا ضرورت باقی رہے گی ہمیں محمد بن بکر نے روایت بیان کی، انہیں ابودائود نے ، انہیں موسیٰ بن اسماعیل نے، انہیں حماد نے سہیل سے، انہوں نے اپنے والد سے، انہیں حضرت ابوہریرہ ؓ نے کہ انہوں نے حضور ﷺ کو فرماتے ہوئے سنا تھا کہ (من اطلع فی دارقوم بغیر ذنھم ففقاء واعینہ فعدھدرت عینہ۔ جو شخص کسی قوم کی چار دیواری میں ان کی اجازت کے بغیر جھانکے اس کی آنکھیں پھوڑ دو ، اس کی آنکھیں رائیگاں ہوگئیں) یعنی اگر اس کی آنکھیں پھوڑ دی جائیں تو اس سلسلے میں کوئی تاوان عائد نہیں ہوگا۔ ابوبکر حبصاص کہتے ہیں کہ فقہاء کا مسلک اس حدیث کے ظاہری معنی کے خلاف ہے اس لئے کہ ان کے نزدیک اگر کوئی شخص ایسا کرے گا تو اسے اس کا تاوان بھرنا پڑے گا۔ یہ روایت بھی حضرت ابوہریرہ ؓ کی ان روایات میں سے ایک ہے جو قابل تسلیم نہیں ہیں کیونکہ ان میں اصول شریعت کی مخالفت موجود ہے۔ جس طرح ایک روایت یہ ہے کہ ” ولدزنا تین افراد (زانی، زانیہ، ولدزنا) میں سب سے برا ہوتا ہے۔ “ یا یہ کہ ” ولد زنا جنت میں داخل نہیں ہوگا۔ “ یا یہ کہ ” جو شخص وضو کرتے ہوئے بسم اللہ نہیں پڑھے گا اس کا وضو نہیں ہوگا “ یا ” جو شخص کسی میت کو غسل دے اسے غسل کرلینا چاہیے “ یا ” جو شخص میت کو اٹھائے یعنی اس کے جنازے کو کندھا دے اسے وضو کرلینا چاہیے۔ “ یہ سب روایات شاذہ ہیں جن کے ظاہری معنوں کے خلاف فقہاء کا اتفاق ہے۔ امام شافعی کا خیال ہے کہ جو شخص کسی کے گھر میں جھانکے اور گھر والا اس کی آنکھیں پھوڑ دے تو یہ ہدر ہوگا یعنی اس پر کوئی تاوان عائد نہیں ہوگا۔ امام شافعی نے اس حدیث کے ظاہر ی معنی سے استدلال کیا ہے۔ اس مسئلے میں کوئی اختلاف نہیں ہے کہ اگر کوئی شخص کسی کے گھر میں بلا اجازت داخل ہوجائے اور گھر والا اس کی آنکھیں پھوڑ دے تو وہ ضامن ہوگا یعنی اگر اس نے عمداً یہ حرکت کی ہوگی تو اس پر قصاص واجب ہوگا اور اگر خطا ً ایسا کیا ہوگا تو اس پر ارش یعنی دیت واجب ہوگی۔ اب یہ بات تو واضح ہے کہ غیر کے گھر میں داخل ہونے والا شخص نہ صرف گھر میں جھانکنے کا مرتکب ہوا بلکہ اس نے اس سے زائد کام بھی کیا ہے یعنی دخول کا کام۔ ظاہر حدیث اس حکم کے خلاف ہے جس پر سب کا اتفاق ہوچکا ہے۔ اگر یہ روایت درست تسلیم کرلی جائے تو ہمارے نزدیک اس کی توجیہ یہ ہوگی کہ جس شخص نے کسی قوم کی چاردیواری سے جھانک کر ان کی خواتین ومستورات پر نظر ڈال دی، پھر اسے روکا گیا لیکن وہ اس نظر بازی سے باز نہ آیا تو روکنے کے دوران اس کی آنکھ کے ضیاع کا کوئی تاوان نہیں ہوگا۔ اسی طرح اگر کوئی شخص کسی قوم کی چاردیواری میں داخل ہوگیا یا داخل ہونے کے ارادے سے گیا اور گھر والوں کی طرف سے اسے روکا گیا جس کے دوران اس کی آنکھ ضائع ہوگئی یا جسم کا کوئی عضو بےکار ہوگیا تو ایسی صورت میں اس نقصان کا کوئی تاوان نہیں ہوگا۔ اس سلسلے میں داخل ہوجانے والے اور دخول کے بغیر جھانکنے والے کے حکم میں کوئی فرق نہیں ہوگا۔ لیکن اگر صورت ایسی ہو کہ صرف نظر اندر گئی ہو اور کسی نے اسے روکا بھی نہ ہو اور نہی بھی نہ کی ہو پھر کوئی شخص آکر اس کی آنکھ پھوڑ دے تو وہ جنایت یعنی جسمانی نقصان پہنچانے کا مرتکب قرار پائے گا اور اس پر ظاہر قول باری : والعین بالعین آنکھ کے بدلے آنکھ تا قول باری (والجدوح قصاص اور تمام زخموں کے لئے برابر کا بدلہ) کے تحت جنایت کا حکم واجب وگا۔
Top