Ahkam-ul-Quran - An-Noor : 48
وَ اِذَا دُعُوْۤا اِلَى اللّٰهِ وَ رَسُوْلِهٖ لِیَحْكُمَ بَیْنَهُمْ اِذَا فَرِیْقٌ مِّنْهُمْ مُّعْرِضُوْنَ
وَاِذَا : اور جب دُعُوْٓا : جب وہ بلائے جاتے ہیں اِلَى اللّٰهِ : اللہ کی طرف وَرَسُوْلِهٖ : اور اس کا رسول لِيَحْكُمَ : تاکہ وہ فیصلہ کردیں بَيْنَهُمْ : تاکہ وہ فیصلہ کردیں اِذَا : ناگہاں فَرِيْقٌ : ایک فریق مِّنْهُمْ : ان میں سے مُّعْرِضُوْنَ : منہ پھیر لیتا ہے
اور جب ان کو خدا اور اس کے رسول کی طرف بلایا جاتا ہے تاکہ (رسول خدا) ان کا قضیہ چکا دیں تو ان میں سے ایک فرقہ منہ پھیر لیتا ہے
جس شخص کو حاکم کی عدالت میں طلب کیا جائے اسے وہاں جانا لازم ہے قول باری ہے : (واذا دعوا الی اللہ ورسولہ لیحکم بینھم اذا فریق منھم معرضون) جب ان کو بلایا جاتا ہے اللہ اور رسول کی طرف تاکہ رسول ان کے آپس کے مقدمے کا فیصلہ کریں تو ان میں سے ایک فریق کترا جاتا ہے۔ یہ آیت اس پر دلالت کرتی ہے کہ اگر کوئی شخص کسی دوسرے پر ……اپنے کسی حق کے سلسلے میں دعویٰ دائر کردے اور اسے حاکم کی عدالت میں پیش ہونے کے ۔۔۔۔۔۔۔ پر اس کے ساتھ حاکم کی عدالت میں پیش ہونا لازم ہوگا۔ اس لئے کہ قول باری : (فاذادعوا الی اللہ۔ ) کے معنی ” الی حکم اللہ “ کے ہیں یعنی جب انہیں اللہ کے حکم اور فیصلے کی طرف بلایا جاتا ہے، یہ چیز اس پر دلالت کرتی ہے کہ جو شخص حاکم کی عدالت میں پہنچ کر کسی دوسرے پر اپنے حق کا دعویٰ دائر کردے تو حاکم پر مدعا علیہ کو بلوانا اور عدالت میں حاضر کرنا لازم ہوگا۔ حاکم مدعا علیہ کے کام کاج اور مصروفیتوں میں حائل ہوکر اسے پہلے مقدمے کی پیروی کرنے کے لئے کہے گا۔ ہمیں عبدالباقی بن قانع نے روایت بیان کی، انہیں ابراہیم الحرنی نے، انہیں عبداللہ بن شبیب نے انہیں ابوبکر بن شیبہ نے، انہیں فلیح نے، انہیں محمد جعفر نے یحییٰ بن سعید اور عبیداللہ بن عمر سے، انہوں نے نافع سے ، انہوں نے حضرت ابن عمر ؓ سے کہ اغرجہنی نے کہا ۔ میں نے حضور ﷺ کی خدمت میں آکر ایک شخص کے خلاف کھجوروں کے آدھے حصے کے سلسلے میں دعویٰ دائر کیا۔ آپ نے حضرت ابوبکر ؓ سے فرمایا : ان کے ساتھ چلے جائو اور مدعا علیہ سے ان کا حق لے کر انہیں دے دو ۔ “ ہمیں عبدالباقی نے روایت بیان کی ، انہیں حسین بن اسحق التستری نے، انہیں رجاء الحافظ نے، انہیں شاہین نے، انہیں روح بن عطاء نے اپنے والد سے، انہوں نے حسن سے، انہوں نے حضرت سمرہ ؓ سے کہ حضور ﷺ نے فرمایا (من دعی الی سلطان فلم یجب فھو ظالم لا حق لہ) جس شخص کو سلطان کی طرف سے بلاوا آیا اور وہ حاضر نہ ہو تو ایسا شخص ظالم ہوگا اور اس کا کوئی حق نہیں ہوگا۔ ہمیں عبدالباقی نے روایت بیان کی، انہیں محمد بن عبدوس بن کامل نے، انہیں عبدالرحمن بن صالح نے ، انہیں یحییٰ نے ابو الا شہب سے اور انہوں نے حسن سے کہ حضور ﷺ نے فرمایا (من ۔۔۔ الی حاکم من حکام المسلمین فلم یجب فھو ظالم لاحق لہ) جس شخص کو کسی مسلمان حاکم کی طرف سے بلاوا آیا اور وہ حاضر نہ ہوا تو ایسا شخص ظالم ہوگا اور اس کا کوئی حق نہیں ہوگا۔ ہمیں عبدالباقی نے روایت بیان کی، انہیں خطاب کے بھائی محمد بن بشر نے، انہیں محمد بن عباد نے، انہیں حاتم نے عبداللہ بن محمد سجل سے، انہوں نے اپنے والد سے اور انہوں نے حضرت ابوحدرد ؓ سے وہ کہتے ہیں کہ مجھ پر ایک یہودی کے چار درہم قرض تھے۔ یہودی نے میرے خلاف حضور ﷺ کے پاس جاکر دعویٰ دائر کردیا اور کہا کہ ا س شخص کے ذمہ میرے چار درہم ہیں جو یہ دبا گیا ہے۔ آپ نے یہ سن کر مجھ سے فرمایا : ” اس کا حق اسے دے دو ۔ “ میں نے عرض کیا : ” قسم ہے اس ذات کی جس نے آپ کو حق کے ساتھ مبعوث کیا، مجھے اس رقم کی ادائیگی کی استطاعت نہیں ہے۔ “ آپ نے یہ سن کر فرمایا : ” اسے اس کا حق دے دو ۔ “ میں نے پھر اپنا جملہ دہرایا۔ آپ نے پھر مجھے اسکا حق اسے دینے کا حکم دیا۔ میں اس یہودی کو ساتھ لے کر بازار کی طرف نکل گیا۔ اس وقت میری سر پر پگڑی تھی اور بدن پر ایک چادر تھی جسے میں نے ازار کے طور پر باندھ رکھا تھا۔ میں نے پگڑی کو ازار کے طو ر پر باند لیا۔ یہود ینے کہا کہ اس چادر کا میں خریدار ہوں، چناچہ اس نے چار درہم میں وہ چادر مجھ سے خرید لی۔ یہ روایات آیت کے مضمون پر یکساں طور پر دلالت کرتی ہیں۔
Top