Ahkam-ul-Quran - An-Noor : 51
اِنَّمَا كَانَ قَوْلَ الْمُؤْمِنِیْنَ اِذَا دُعُوْۤا اِلَى اللّٰهِ وَ رَسُوْلِهٖ لِیَحْكُمَ بَیْنَهُمْ اَنْ یَّقُوْلُوْا سَمِعْنَا وَ اَطَعْنَا١ؕ وَ اُولٰٓئِكَ هُمُ الْمُفْلِحُوْنَ
اِنَّمَا : اس کے سوا نہیں كَانَ : ہے قَوْلَ : بات الْمُؤْمِنِيْنَ : مومن (جمع) اِذَا : جب دُعُوْٓا : وہ بلائے جاتے ہیں اِلَى اللّٰهِ : اللہ کی طرف وَرَسُوْلِهٖ : اور اس کا رسول لِيَحْكُمَ : تاکہ وہ فیصلہ کردیں بَيْنَهُمْ : ان کے درمیان اَنْ : کہ۔ تو يَّقُوْلُوْا : وہ کہتے ہیں سَمِعْنَا : ہم نے سنا وَاَطَعْنَا : اور ہم نے اطاعت کی وَاُولٰٓئِكَ : اور وہ هُمُ : وہی الْمُفْلِحُوْنَ : فلاح پانے والے
مومنوں کی تو یہ بات ہے کہ جب خدا اور اس کے رسول کی طرف بلائے جائیں تاکہ وہ ان میں فیصلہ کریں تو کہیں کہ ہم نے (حکم) سن لیا اور مان لیا اور یہی لوگ فلاح پانے والے ہیں
مقدمات کے لئے عدالت بلائے تو حاضری واجب ہے قول باری ہے : (انما کان قول المومنین اذا دعوا الی اللہ ورسولہ لیحکم بینھم ان یقولوا سمعنا واطعنا) ایمان لانے والوں کا کام تو یہ ہے کہ جب وہ اللہ اور رسول کی طرف بلائے جائیں تاکہ رسول ان کے مقدمے کا فیصلہ کرے تو وہ کہیں کہ ہم نے سنا اور اطاعت کی۔ اس میں اس مضمون کی تاکید ہے جو پہلے گزرچکا ہے، وہ یہ کہ جب حاکم کی طرف سے مقدمات کے سلسلے میں بلاوا آئے تو حاضری دینا واجب ہے۔ اللہ تعالیٰ نے بلاوے پر حاضری دینے کو اہل ایمان کی صفت گنوایا ہے۔ آیت اس امر پر دلالت کرتی ہے کہ جس شخص کو بلایا جائے اس پر ابتدائی مرحلے میں اپنے قول کے ذریعے اس بلاوے کا جاب دینا واجب ہے۔ جس کی صورت یہ ہے کہ بلاوے کا حکم سن کر ” سمعنا و اطعنا “ کہے اور پھر قاصد کے ساتھ حاکم کی طرف چل دے۔
Top