Ahkam-ul-Quran - An-Noor : 58
یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لِیَسْتَاْذِنْكُمُ الَّذِیْنَ مَلَكَتْ اَیْمَانُكُمْ وَ الَّذِیْنَ لَمْ یَبْلُغُوا الْحُلُمَ مِنْكُمْ ثَلٰثَ مَرّٰتٍ١ؕ مِنْ قَبْلِ صَلٰوةِ الْفَجْرِ وَ حِیْنَ تَضَعُوْنَ ثِیَابَكُمْ مِّنَ الظَّهِیْرَةِ وَ مِنْۢ بَعْدِ صَلٰوةِ الْعِشَآءِ١ؕ۫ ثَلٰثُ عَوْرٰتٍ لَّكُمْ١ؕ لَیْسَ عَلَیْكُمْ وَ لَا عَلَیْهِمْ جُنَاحٌۢ بَعْدَهُنَّ١ؕ طَوّٰفُوْنَ عَلَیْكُمْ بَعْضُكُمْ عَلٰى بَعْضٍ١ؕ كَذٰلِكَ یُبَیِّنُ اللّٰهُ لَكُمُ الْاٰیٰتِ١ؕ وَ اللّٰهُ عَلِیْمٌ حَكِیْمٌ
يٰٓاَيُّهَا : اے الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا : جو ایمان لائے (ایمان والو) لِيَسْتَاْذِنْكُمُ : چاہیے کہ اجازت لیں تم سے الَّذِيْنَ : وہ جو کہ مَلَكَتْ : مالک ہوئے اَيْمَانُكُمْ : تمہارے دائیں ہاتھ (غلام) وَالَّذِيْنَ : اور وہ لوگ جو لَمْ يَبْلُغُوا : نہیں پہنچے الْحُلُمَ : احتلام۔ شعور مِنْكُمْ : تم میں سے ثَلٰثَ : تین مَرّٰتٍ : بار۔ وقت مِنْ قَبْلِ : پہلے صَلٰوةِ الْفَجْرِ : نماز فجر وَحِيْنَ : اور جب تَضَعُوْنَ : اتار کر رکھ دیتے ہو ثِيَابَكُمْ : اپنے کپڑے مِّنَ : سے۔ کو الظَّهِيْرَةِ : دوپہر وَمِنْۢ بَعْدِ : اور بعد صَلٰوةِ الْعِشَآءِ : نماز عشا ثَلٰثُ : تین عَوْرٰتٍ : پردہ لَّكُمْ : تمہارے لیے لَيْسَ عَلَيْكُمْ : نہیں تم پر وَلَا عَلَيْهِمْ : اور نہ ان پر جُنَاحٌ : کوئی گناہ بَعْدَهُنَّ : ان کے بعد۔ علاوہ طَوّٰفُوْنَ : پھیرا کرنے والے عَلَيْكُمْ : تمہارے پاس بَعْضُكُمْ : تم میں سے بعض (ایک) عَلٰي : پر۔ پاس بَعْضٍ : بعض (دوسرے) كَذٰلِكَ : اسی طرح يُبَيِّنُ اللّٰهُ : واضح کرتا ہے اللہ لَكُمُ : تمہارے لیے الْاٰيٰتِ : احکام وَاللّٰهُ : اور اللہ عَلِيْمٌ : جاننے والا حَكِيْمٌ : حکمت والا
مومنو ! تمہارے غلام لونڈیاں اور جو بچے تم میں سے بلوغ کو نہیں پہنچے تین دفعہ (یعنی تین اوقات میں) تم سے اجازت لیا کریں (ایک تو) نماز صبح سے پہلے اور (دوسرے گرمی کی دوپہر کو) جب تم کپڑے اتار دیتے ہو اور (تیسرے) عشاء کی نماز کے بعد (یہ) تین (وقت) تمہارے پردے (کے) ہیں ان کے (آگے) پیچھے (یعنی دوسرے وقتوں میں) نہ تم پر کچھ گناہ ہے نہ ان پر کہ کام کاج کے لئے ایک دوسرے کے پاس آتے رہتے ہو اس طرح خدا اپنی آیتیں تم سے کھول کھول کر بیان فرماتا ہے اور خدا بڑا علم والا اور حکمت والا ہے
غلاموں اور لونڈیوں نیز بچوں کا گھروں میں جانے کے لئے اذن طلب کرنے کا بیان قول باری ہے : (یایھا الذین امنوا لیستاذنکم الذین ملکت ایمانکم والذین لم یبلغوا الحلم منکم ثلث مرات۔ ) اے لوگو جو ایمان لائے ہو ، لازم ہے کہ تمہارے مملوک اور تمہارے وہ بچے جو ابھی عقل کی حد کو نہیں پہنچے ہیں، تین اوقات میں اجازت لے کر تمہارے پاس آیا کریں تاآخر آیت۔ لیث بن سلیم نے نافع سے اور انہوں نے حضرت ابن عمر ؓ سے نیز سفیان نے ابوحصین سے اور انہوں نے ابوعبدالرحمن سے روایت کی ہے کہ قول باری : (لیستاذنکم الذین ملکت ایمانکم ) عورتوں یعنی لونڈیوں کے ساتھ خاص ہے ، مرد یعنی غلام دن اور رات کے دوران ہر حال میں اجازت لے کر آئیں گے۔ ابوبکر حبصاص کہتے ہیں کہ بعض حضرات نے اس تاویل پر تنقید کرتے ہوئے کہا ہے کہ اگر عورتیں تنہا ہوں تو ان پر لفظ ” الذین “ کا اطلاق نہیں ہوتا بلکہ ایسے موقعہ پر ” اللائی “ کا لفظ استعمال ہوتا ہے جس طرح یہ قول باری ہے : (واللائی یئسن من المحیض) وہ عورتیں جو حیض سے مایوس ہوچکی ہیں۔ ابوبکر حبصاص کہتے ہیں کہ اگر لفظ ممالیک کے ساتھ تعبیر کی جائے تو یہ استعمال درست ہوتا ہے جس طرح اس وقت بھی یہ استعمال درست ہوتا ہے جب لفظ اشخاص کے ذریعے عورتوں سے تعبیر کی جاتی ہے اسی طرح مونث کے لئے مذکر کا صیغہ لانا درست ہوتا ہے جب ممالیک کے لفظ کے ساتھ عورتوں سے تعبیر کی جائے۔ نساء کے لفظ نیز اماء کے لفظ سے تعبیر کی صورت میں یہ بات درست نہیں ہوتی۔ اس استعمال کے درست ہونے کی وجہ یہ ہے کہ تذکیر وتانیث لفظ کے تابع ہوتی ہے۔ جس طرح آپ کہتے ہیں ” ثلاث مصاحن “ (تین چادریں) لیکن اگر آپ ازار یعنی تہمد سے تعبیر کریں گے تو اس کے لئے عدد اور معدود کے کے اندر تذکیر کے قاعدے کے مطابق ” ثلاثۃ ازر “ (تین تہمد) کہیں گے۔ اس لئے ظاہر بات یہ ہے کہ یہاں لونڈیاں اور غلام دونوں مراد ہیں۔ یہ بات نہیں کہ اس بنا پر غلام مراد نہ ہوں کہ انہیں تو ہر وقت اجازت لے کر اندر آنے کا حکم ہے۔ اس حکم کی یہ صورت تخلیہ کے تین اوقات میں اجازت لے کر اندر آنے کا حکم ہے، اس حکم کی یہ صورت تخلیہ کے تین اوقات میں اجازت لے کر اندر آنے کے حکم کو صرف لونڈیوں تک محدود کرنے کی موجب نہیں ہے۔ بلکہ اس میں غلام بھیداخل ہیں کیونکہ جب انہیں ہر وقت اجازت لینے کا حکم ہے تو ت خلیفہ کے ان تین اوقات میں بطریق اولیٰ اجازت لینے کا حکم ہوگا۔ اس لئے استیذان کے اس حکم میں دونوں شامل ہوں گے۔ ہمیں محمد بن بکر نے روایت بیان کی، انہیں ابودائود نے، انہیں ابن السرح اور صباح بن سفیان اور ابن عبدہ نے، (حدیث کے الفاظ ابن عبدہ کی روایت کے مطابق ہیں) ، انہیں سفیان نے عبیداللہ بن ابی یزید سے، انہوں نے حضرت ابن عباس ؓ سے، وہ کہتے ہیں کہ میں نے حضرت ابن عباس ؓ کو یہ کہتے ہوئے سنا تھا کہ اکثر لوگ اپنے غلاموں اور لونڈیوں کو استیذان کی آیت پر عمل پیرا ہونے کا حکم نہیں دیتے لیکن میں تو اپنی اس لونڈی کو بھی اجازت لے کر اندر آنے کا حکم دیتا ہوں۔ “ ہمیں محمد بن بکر نے روایت بیان کی، انہیں ابودائود نے، انہیں القعنبی نے، انہیں عبدالعزیز بن محمد نے ، عمرو ابی عمرو سے، انہوں نے عکرمہ سے کہ عراق کے چند لوگوں نے حضرت ابن عباس ؓ سے پوچھا کہ آیت استیذان کے متعلق آپ کا خیال ہے۔ ہمیں اس میں جو حکم ملا ہے وہ تو اپنی جگہ ہے لیکن اس پر عمل کوئی نہیں کرتا۔ پھر ان لوگوں نے قول باری : (یا یھا الذین امنو لیستاذنکم الذین ملکت ایمانکم) تا (علیم حکیم) کی تلاوت کی، ان کی بات سن کر حضرت ابن عباس ؓ نے فرمایا : ” اللہ بڑا حلیم ہے اہل ایمان پر بڑا رحیم ہے، وہ پردہ پوشی چاہتا ہے۔ ایسا وقت بھی آیا تھا کہ گھروں میں نہ پردے تھے اور نہ ہی کوئی آڑ، پھر کوئی نوکر، یا بچہ یا کوئی رشتہ دار یتیم بچی گھر میں ایسے وقت داخل ہوجاتی جب میاں بیوی ہم بستری میں مشغول ہوتے۔ اس لئے اللہ تعالیٰ نے تخلیہ کے ان اوقات میں اجازت لے کر اندر آنے کا حکم دیا۔ پھر اللہ تعالیٰ کی طرف سے عطا کردہ فراخی کی بنا پر گھروں میں پردے بھی لگ گئے۔ اس کے بعد پھر مجھے اس آیت پر عمل کرتا ہوا کوئی نظر نہیں آیا۔ “ ابوبکر حبصاص کہتے ہیں کہ اسی روات کے بعض طرق میں جس کے راوی سلیمان بن بلال ہیں، انہوں نے عمرو بن ابی عمرو سے روایت کی ہے، حضرت ابن عباس ؓ کے یہ الفاظ مذکور ہیں، ” جب اللہ تعالیٰ نے فراخی اور خوش حالی عطا کردی اور لوگوں نے اپنے گھروں میں پردے لگالیے اور آڑ کھڑے کردیے تو انہوں نے یہ سمجھ لیا کہ آیت استیذان میں اللہ تعالیٰ نے جو حکم دیا تھا اس پر اب عمل کرنے کی ضرورت باقی نہ رہی۔ “ حضرت ابن عباس ؓ نے یہ بات بتائی ہے کہ آیت میں اجازت طلب کرکے اندر آنے کا حکم ایک سبب کے ساتھ تعلق رکھتا تھا جب سبب زائل ہوگیا تو حکم بھی ختم ہوگیا۔ یہ بات اس امر پر دلالت کرتی ہے کہ حضرت ابن عباس ؓ کے نزدیک آیت منسوخ نہیں ہوئی ہے اور اگر یہ سبب پھر پیدا ہوجائے تو حکم دوبارہ لوٹ آئے گا۔ شعبی کا قول بھی ہے کہ آیت منسوخ نہیں ہے، اس کی نظیر وہ آیت ہے جس میں اللہ تعالیٰ نے عقد سوالات کی بنا پر میراث کی فرضیت کا حکم دیا تھا چناچہ ارشاد ہے : (والذین عقدت ایمانکم فاتو ھما نصیبھم ) اور جن لوگوں سے تمہارے عہد و پیمان ہیں انہیں ان کا حصہ دو ۔ اس حکم کے تحت عقد موالات کی بنا پر لوگ ایک دوسرے کے وارث ہوتے تھے۔ لیکن جب نسب کی بنیاد پر میراث کی فرضیت ہوگئی تو پھر نسبی رشتہ دار موالات کے تحت تعلق رکھنے والے انسان سے بڑھ کر میراث کے حق دار ہوگئے۔ اس کے معنی یہ نہیں ہیں کہ درج بالا آیت منسوخ ہوگئی بلکہ اب صورت یہ ہوگئی کہ جب نسبی رشتہ دار موجود نہیں ہوں گے تو عقد موالات کے تحت تعلق والا شخص یا اشخاص جائداد کے وارث قرار دیے جائیں گے۔ جابرین یزید نے قول باری (لیستاذنکم الذیر ملکت ایمانکم والذین لم یبلغوا الحلم منکم) کی تفسیر میں کہا ہے کہ اس سے مراد وہ بچے اور بچیاں ہیں جو سمجھدار تو ہیں لیکن ابھی بلوغت کو نہیں پہنچے ہیں وہ اپنے والدین کے پاس اندر آنے کے لئے تین اوقات میں اجازت حاصل کریں گے۔ فجر کی نماز سے پہلے، دوپہر کو قیلولہ کے وقت اور عشا، یعنی عتمہ کی نماز کے بعد۔ پھر یہ بچے جب بالغ ہوجانیں گے تو وہ بھی پہلے لوگوں یعنی اپنے بالغ بھائی بہنوں کی طرح اندر آنے کے وقت اجازت لے کر آئیں گے خواہ کسی وقت بھی آئیں۔ ابن جریج نے مجاہد سے روایت کی ہے کہ (الذین ملکت ایمانکم) سے تمہارے غلام مراد ہیں اور (والذین کم یبلغوا الحلم منکم) سے تمہارے آزاد مراد ہیں۔ عطاء بن ابی رباح سے بھی اس قسم کی تفسیر منقول ہے۔ لیکن بعض حضرات نے اس تاویل پر تنقید کی ہے کیونکہ اپنی مالکن پر نظر ڈالنے کی حرمت کے سلسلے میں بالغ غلام کا وہی حکم ہے جو بالغ آزاد شخص کا ہے۔ پھر وہ استیذان کے حکم میں بچوں کے ساتھ کس طرح شامل ہوسکتا ہے جو سرے سے مکلف ہی نہیں ہیں۔ ان حضرات نے مزید کہا ہے کہ زیادہ ظاہر بات یہ ہے کہ یہاں نابالغ غلام اور لونڈیاں نیز ہمارے وہ چھوٹے بچے مراد ہیں جو ابھی تک بالوغت کی حد کو نہیں پہنچے ہیں۔ حضرت ابن عباس ؓ سے یہ بھی مروی ہے کہ آپ اس آیت کی قرات لیستاذنکم الذین لم یبلغوا الحلم مما ملکت ایمانکم کی ترتیب میں کرتے تھے۔ سعید بن جبیرا اور شعبی کا قول ہے کہ ” اس آیت پر عمل کرنے میں لوگوں نے سستی کا مظاہرہ کیا ہے ورنہ آیت منسوخ نہیں ہوگی۔ “ ابو قلابہ کا قول ہے کہ آیت کا حکم واجب نہیں ہے۔ جس طرح اس قول باری میں ہے : (واشھدوا اذا تبایعتم) اور جب تم آپس میں خریدوفروخت کرو تو گواہ بنالیا کرو۔ قاسم بن محمد کا قول ہے کہ ہر تخلیہ کے وقت اجازت طلب کرے گا اس کے بعد بالا اجازت اس کا آنا جانا ہوگا۔ “ یعنی غلام اور لونڈی تخلیہ کے اوقات نیز کپڑے اتار کر آرام کرنے کے اوقات میں اجازت لے کر اندر آئیں گے۔ کیونکہ یہ پردے اور تخلیہ کے اوقات ہیں۔ ان اوقات کے بعد اگر وہ بلا اجازت آئیں تو اس میں کوئی حرج نہیں کیونکہ ایک دوسرے کے پاس بار بار آنا پڑتا ہے اور نوکر چاکر نیز بچے وغیرہ اندر آنے جانے سے باز نہیں رہ سکتے۔ جس طرح حضور ﷺ نے بلی کے متعلق فرمایا ہے : (انھا من الطوافین علیکم والطوافات) بلی ان مردوں اور عورتوں میں شامل ہے جنہیں تمہارے پاس بار بار آنا پڑتا ہے یعنی بلی کو گھر میں داخل ہونے سے روکنا ناممکن ہے، ایک روایت ہے کہ کسی شخص نے حضرت عمر ؓ سے یہ پوچھا کہ آیا میں اپنی والدہ کے پاس بھی اندر اجازت لے کر جائوں ؟ “ آپ نے فرمایا ” ہاں “ حضرت ابن عباس ؓ اور حضرت ابن مسعود ؓ کا بھی یہی قول ہے۔ فصل قول باری : (والذین لم یبلغوا الحلم منکم) اس قول کے بطلان پر دلالت کرتا ہے کہ اگر ایک نوجوان کو احتلام نہ ہو تو اس کے لئے بلوغت کی حد پندرہ برس ہے۔ بطلان کی وجہ یہ ہے کہ ایک لڑکا جب حد بلوغت کو نہ پہنچا ہو تو اللہ تعالیٰ نے اس سلسلے میں پندرہ برس کی عمر کو پہنچنے والے اور نہ پہنچنے والے درمیان کوئی فرق نہیں کیا۔ حضور ﷺ سے بھی مختلف طرق سے مروی ہے کہ (رفع القلم عن ثلاثۃ عن النائم حتی یستیقظ وعن المجنون حتی یفیق وعن الصبی حتی یحتلم) تین افراد مرفوع القلم ہیں۔ نیند میں پڑا ہوا انسان جب تک بیدار نہ ہوجائے۔ جنون کا مریض جب تک اسے افاقہ نہ جائے اور بچہ جب تک بالغ نہ ہوجائے آپ نے پندرہ برس کی عمر کو پہنچنے والے اور نہ پہنچنے والے کے درمیان کوئی فرق نہیں کیا۔ حضرت ابن عمر ؓ سے ایک روایت منقول ہے جس میں انہوں نے کہا ہے کہ جنگ احد کے موقع پر انہیں حضور ﷺ کے سامنے پیش کہا گیا اس وقت ان کی عمر چودہ برس تھی۔ آپ نے انہیں جنگ میں شرکت کی اجازت نہیں دی۔ پھر غزوہ خندق کے موقعہ پر پیش ہوئے۔ اس وقت عمر پندرہ برس تھی آپ نے انہیں جنگ میں شرکت کی اجازت دے دی۔ لیکن اس روایت میں فنی لحاظ سے اضطراب ہے کیونکہ غزوہ خندق 5 ھ میں اور غزوہ احد 3 ھ میں پیش آیا تھا اس حساب سے ان دونوں کے درمیان ایک سال کا فرق نہیں ہوسکتا ۔ اس کے ساتھ یہ بات بھی ہے کہ جنگ میں شرکت کی اجازت کا بلوغت سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ کیونکہ بعض دفعہ ایک بالغ انسان کو جسمانی کمزوری کی بنا پر شرکت سے منع کردیا جاتا ہے اور ایک نابالغ کو جسمانی قوت کی بنا پر شرکت کی اجازت دے دی جاتی ہے کیونکہ وہ ہتھیار اٹھانے اور دشمن سے دو دو ہاتھ کرنے کے قابل ہوتا ہے۔ جس طرح حضور ﷺ نے حضرت سمرہ بن جندب کو واپس کردیا تھا اور رافع بن خدیج کو لشکر میں شامل کرلیا تھا ۔ جب آپ سے یہ عرض کیا گیا کہ سمرۃ تو رافع کو کشتی میں پچھاڑ دیتے ہیں تو آپ ﷺ نے دونوں میں کشتی کرائی اور حضرت سمرہ ؓ نے حضرت رافع ؓ کو پچھاڑ دیا جس پر آپ نے انہیں جنگ میں شرکت کی اجازت دے دی اور ان سے ان کی عمر کے بارے میں نہیں پوچھا۔ نیز حضرت ابن عمر ؓ کی روایت میں ہے ذکر ہی نہیں ہے کہ آپ نے ان سے جنگ احد یا جنگ خندق کے موقع پر شرکت کے مسئلے میں ان سے ان کی عمر پوچھی ہو بلکہ آپ نے تو جسمانی قوت وضعف کے لحاظ سے ان کی حالت کا اعتبار کیا تھا۔ اس لئے اس پر بنا پر عمر کا اعتبار کرنا غلط ہے کہ حضور ﷺ نے ایک موقعہ پر حضرت ابن عمر ؓ کو واپس کردیا تھا اور دوسرے موقعہ پر شرکت کی اجازت دے دی تھی۔ فقہاء کا اس پر اتفاق ہے کہ احتلام ہوجانا بلوغت کی پکی علامت ہے۔ البتہ اس صورت میں اختلاف رائے ہے جب ایک نوجوان پندرہ برس کی عمر کو پہنچ گیا ہو لیکن اسے ابھی تک احتلام نہ ہوا ہو۔ امام ابوحنیفہ کا قول ہے کہ ایسا لڑکا جب تک اٹھارہ سال مکمل نہیں کرلے گا اس وقت تک وہ بالغ قرار نہیں دیاجائے گا۔ لڑکی کے لئے سترہ سال کی عمر شرط ہے۔ امام ابوسیف ، امام محمد اور امام شافعی کا قول ہے کہ خواہ لڑکا ہو یا لڑکی پندرہ برس کی عمر کو پہنچ کر دونوں بالغ ہوجاتے ہیں۔ انہوں نے استدلال میں حضرت ابن عمر ؓ کی روایت کا حوالہ دیا ہے۔ ہم نے پہلے ہی بیان کردیا ہے کہ اس روایت کی اس امر پر کوئی دلالت نہیں ہے کہ حد بلوغ پندرہ برس ہے۔ اس پر یہ بات دلالت کرتی ہے کہ آپ نے حضرت ابن عمر ؓ سے نہ عمر پوچھی تھی اور نہ ہ یہ سوال کیا تھا کہ تمہیں احتلام ہوا ہے یا نہیں۔ ہماری اس وضاحت سے جب یہ بات ثابت ہوگئی کہ پندرہ برس کی عمر بلوغت کی حد نہیں ہے نیز ظاہر قول باری (والذین لم یبلغا الحلم منکم) بھی اس کی نفی کررہا ہے تو حد بلوغت کو ثابت کرنے کا ایک ہی طریقہ رہ گیا اور وہ یہ ہے ۔ ہم صغر یعنی کم سنی اور کبر یعنی بڑی عمر کے مفہوم سے پوری طرح آگاہ ہیں اور یہ بھی جانتے ہیں کہ ان دونوں کے درمیان بلوغت رابطہ کا کام دیتی ہے۔ اس لئے اجتہاد کے ذریعے اس کا پتہ چلانا درست ہوگا۔ ہماری اس وضاحت کی روشنی میں اجتہاد کے ذریعے بلوغت کے قائل پر کوئی اعتراض بھی وارد نہیں ہوگا جس طرح اس مجتہد پر کوئی اعتراض نہیں ہوتا جو مستہلکات یعنی صرف ہوجانے والی اشیاء کی تقوی نیز مہر مثل اور ایسی دیتوں کی تعیین میں اپنے اجتہاد سے کام لیتا ہے جن کی مقداروں کے سلسلے میں شریعت کی طرف سے کوئی ہدیات اور رہنمائی یا دلیل موجود نہیں ہوتی۔ اگر یہاں یہ کہا جائے کہ اس سے یہ لازم آیا ہے کہ جب مجتہد کسی نوعیت کی ترجیح کی بنیاد پر ایک خاص مقدار کا تعیین کردے تو یہی بات اسکی رائے میں دوسری مقداروں پر اس مقدار کی تغلیب کی موجب قرار دے دی جائے۔ اس کے جواب میں کہا جائے گا کہ ہمیں معلوم ہے کہ عادۃ پندرہ برس کی عمر بلوغت کی حد ہوتی ہے اور ایسے امور جن کے تعین میں عادات کا اعتبار کیا جاتا ہے ان میں کمی بیشی کی گنجائش ہوتی ہے ، ہمیں ایسے افراد بھی ملتے ہیں جو بارہ برس کی عمر میں بالغ ہوجاتے ہیں۔ ہم نے یہ بات واضح کردی ہے کہ پندرہ برس کی عمر جو بلغت کی معتاد عمر ہے اس میں کمی بیشی کی گنجائش ہوتی ہے۔ امام ابوحنیفہ نے بلوغت کے اس معتاد عمر میں اضافہ کو اس میں کمی کی طرح قرار دیا ہے۔ یہ اضافہ تین برس کا ہوتا ہے۔ جس طرح حضور ﷺ نے حمتہ ؓ بنت جحش سے یہ فرما کر کہ ( تخیضین فی علم اللہ ستا اوسبعا کما تحیض النساء فی کل شھر۔ ) اللہ کے علم کے مطابق تم حیض کے چھ یا سان دن گزارو گی جس طرح عورتیں ہر ماہ گزارتی ہیں۔ جب عورتوں کے حیض کے معتاد مقداد چھ یا سات دن مقرر کردی تو یہ حکم اس امر کا مقتضی ہوگیا کہ یہ مدت ساڑھے چھ دنوں کی بن جائے کیونکہ ساتویں دن کا معاملہ مشکوک ہوگیا تھا جس کا اظہار حضور ﷺ نے اپنے قول (ستا وسبعا) کے ذریعے فرمادیا ہے پھر ہمارے نزدیک یہ بات ثابت ہوچکی ہے کہ معتادمدت سے کم کی مقدار ساڑھے تین دن ہوتی ہے کیونکہ ہمارے نزدیک حیض کی کم سے کم مدت تین دن ہے اور زیادہ سے زیادہ دس دن ہے۔ اس طرح معتاد مدت پر اضافہ اس مدت سے کم کے مقابل قرار دیا گیا۔ اس بنا پر ہماری زیر بحث نساد یعنی بلوغت کے بارے میں معتاد مدت پر اضافہ کا اسی طرح اعتبار کرنا واجب ہوگیا۔ لڑکے کی بلوغت کب ہوگی ؟ امام ابوحنیفہ سے لڑکے کی بلوغت کے لئے انیس سال کی روایت بھی منقول ہے اسے ہم اٹھارہ سال پورا کرکے انیسویں سال میں داخل ہونے پر محمول کریں گے۔ انبات یعنی موئے زیر ناف اُگ آنے پر بلوغ یا عدم بلوغ کے حکم کے متعلق اختلاف رائے ہے۔ ہمارے اصحاب نے اسے بلوغت کی نشانی قرار نہیں دیا ہے جبکہ امام شافعی اسے نشانی قرار دیتے ہیں۔ ظاہر قول باری (والذین لم یبلغوا الحلم منکم) احتلام نہ ہونے کی صورت میں انبات کو بلوغت قرار دینے کی اسی طرح نفی کرتی ہے جس طرح پندرہ برس کی عمر کو بلوغت قرار دینے کی نفی کررہا ہے۔ اسی طرح حضور ﷺ کا قول (رفع القلم عن ثلاث……وعن الصبی حستی یحتلم) بھی اس کی نفی کررہا ہے۔ استفاضہ کی بنیاد پر اس حدیث کا درجہ مقبول حدیث کا ہے اس پر سلف اور سب کا عمل رہا ہے کہ نائم، مجنون اور بچہ مرفوع القلم ہوتے ہیں۔ جن حضرات نے انبات کو بلوغت کی نشانی قرار دیا ہے انہوں نے عبدالملک بن عمیر کی روایت سے استدلال کیا ہے۔ انہوں نے یہ روایت عطیہ القرظی سے نقل کی ہے اور عطیہ نے حضور ﷺ سے کہ آپ نے بنوقریضہ کے تمام لوگوں کو قتل کردینے کا حکم دیا تھا جن کے موئے پر زیر ناف اگ آئے تھے اور جن کے نہیں اگے تھے انہیں زندہ رہنے دیا تھا۔ عطیہ قرظی کہتے ہیں کہ لوگوں نے میری تفتیش بھی کی، اور میرے اندار انبات نہ پاکر مجھے زندہ رہنے دیا۔ یہ اسی روایت ہے کہ اس کی بنیاد پر کوئی شرعی مسئلہ ثابت نہیں کیا جاسکتا کیونکہ حدیث کا راوی عطیہ مجہول ہے اور صرف اسی روایت میں اس کا نام آتا ہے۔ خاص طور پر جبکہ یہ روایت آیت سے متصادم ہے نیز حدیث سے بھی جس میں احتلام کے بغیر کی نفی کی گئی ہے۔ اس کے ساتھ یہ حقیقت بھی اپنی جگہ ہے کہ روایت کے الفاظ مختلف ہیں۔ بعض طرق میں یہ الفاظ آتے ہیں کہ آپ ﷺ نے تمام لوگوں کو قتل کرنے کا حکم دے دیا تھا جن کے موئے زبر ناف پر استرا پھر چکا تھا۔ اور بض طرق کے الفاظ یہ ہے کہ جن کے ازارسبز ہوں یعنی ازار کے نیچے موئے زیر ناف اگا ہو۔ یہ بات سب کو معلوم ہے کہ ایک انسان اس حالت کو اسی وقت پہنچتا ہے جب وہ بالغہوچکا ہو۔ اور راستہ کا استعمال اسی وقت ہوتا ہے جب انسان پورا مرد بن جاتا ہے۔ آپ نے انبات اور استہ 7 کے استعمال کی عمر کی اس حد تک پہنچ جانے کے لئے کنایہ قرار دیا جس کا ہم نے عمر کے سلسلے میں ذکر کیا ہے یعنی اٹھارہ برس یا اس سے زائدعقبہ ؓ بن عامر اور ابوبصرہ ؓ غفاری کے متعلق روایت ہے کہ انہوں نے مال غنیمت میں اس شخص کا حصہ بھی رکھا تھا جس کا موئے زیر ناف اگ آیا تھا۔ لیکن اس روایت کی اس امر پر کوئی دلالت نہیں ہے کہ انہوں نے انبات کو بلوغت قرار دیا تھا کیونکہ بچوں کو مال غنیمت میں سے رضح یعنی کچھ تھوڑا سا دے دینا بھی جائز ہوتا ہے ۔ سلف کے ایک گروہ سے طول قامت کے اعتبار کی روایت بھی منقول ہے۔ لیکن فقہاء نے اس اعتبار کو قبول نہیں کیا ہے۔ محمد بن سیرین نے حضرت انس ؓ سے روایت کی ہے کہ حضرت ابوبکر ؓ کے پاس ایک لڑکا چوری کے الزام میں پکڑ کر لایا گیا۔ آپ نے اس کی قد کی پیمائش کا حکم دیا۔ پیمائش ایک پورہ کم نکلی آپ نے اسے چھوڑ دینے کا حکم دیا۔ قتادہ نے خلاص سے اور انہوں نے حضرت علی ؓ سے روایت کی ہے کہ جب ایک لڑکا پانچ بالشت کا ہوجائے تو اس پر حد جاری ہوجائیں گے۔ اس سے قصاص لیا جائے گا اور اس کے قاتل سے بھی قصاص لیا جائے گا اور اگر پانچ بالشت سے کم قد کے لڑکے کو کوئی شخص لڑکے کے گھر والوں کی اجازت کے بغیر اپنے ساتھ جرم میں شریک کرلے گا تو وہ تاوان بھرے گا۔ ابن جریج نے ابن ابی ملیکہ سے روایت کی ہے کہ حضرت عبداللہ بن الزبیر ؓ کے پاس عمر بن ابی ربیعہ کے ایک مزدور کو پکڑ کر لایا گیا جس نے چوری کی تھی۔ آپ نے اس کا ہاتھ کاٹ دیا اور فرمایا کہ حضرت عمر ؓ نے انہیں اہل عراق کے ایک لڑکے کے متعلق چوری کے سلسلے میں لکھا تھا کہ اس کے قد کی پیمائش کی جائے۔ پیمائش کرنے پر وہ ا کی پورہ کم نکلا چناچہ اس کا نام نمیلہ پڑگیا۔ انملہ انگلی کے پورے کو کہتے ہیں۔ ان روایات پر ابوبکر حبصاص تبصرہ کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ یہ اقوال شاذہ ہیں اور ان کی اسانید بھی ضعیف ہیں۔ سلف سے ایسے اقوال کا وجود بعید از قیاس ہے۔ کیونکہ قد کی لمبائی یا کوتاہی نہ تو بلوغت کے ثبوت پر دلالت کرتی ہے اور نہ ہی اس کی نفی پر ۔ اس لئے کہ ایک انسان بیس برس کا ہوکر بھی ٹھگنے قد کا ہوسکتا ہے اور پندرہ برس کی عمر کو پہنچنے سے قبل بلوغت سے پہلے اس کا قداونچا ہوسکتا ہے۔ قول باری (ولذین لم یبلغوا الحلم منکم) اس پر دلالت کرتا ہے کہ جو لڑکا بالغ نہ ہوا لیکن اس میں عقل و شعور پیدا ہوچکا ہوا سے شریعت کے احکام پر عمل کرنے کا حکم دیا جائے گا اور قبائح کے ارتکاب سے روکا جائے گا اگرچہ وہ اہل تکلیف یعنی کلفین میں شمار نہیں ہوگا لیکن تعلیم کے طور پر اسے یہ حکم دیا جائے گا جس طرح اللہ تعالیٰ نے ایسے لڑکوں اور لڑکیوں کو تخلیہ کے اوقات میں اجازت لے کر اندر آنے کا حکم دیا ہے۔ عبدالمالک بن الربیع بن سبرہ الجہنی سے روایت ہے جو انہوں نے اپنے والد اور دادا کے واسطوں سے بیان کی ہے کہ حضور ﷺ کا ارشاد ہے (اذا بلغ انعلام سبع سنین فمروہ بالصلوٰۃ واذا بلغ عشرا فاضبوہ علیھا) جب لڑکا سات برس کا ہوجائے تو اسے نماز پڑھنے کے لئے کہو اور جب اس کی عمر دس برس ہوجائے اور وہ نماز میں کوتاہی کرے تو اس کی پٹائی کرو۔ عمروبن شعیب نے اپنے والد اور دادا کے واسطوں سے حضور ﷺ کا ارشاد نقل کیا ہے۔ (مروا صبیانکم بالصلوٰۃ اذا بلغوا سیعا واضربوھم علیھا اذا بلغوا عشرا وفرقوا بینھم فی المضاجع) جب تمہارے بچے سات برس کی ہوجائیں تو انہیں نماز پڑھنے کے لئے کہو اور جب دس برس کو پہنچ جائیں تو نماز میں کوتاہی پر ان کی پٹائی کرو۔ اس عمر میں ان کے بستر الگ الگ کردو۔ حضرت ابن مسعود ؓ سے مروی ہے کہ نماز کے معاملے میں اپنے بچوں پر کڑی نظر رکھو۔ “ نافع نے حضرت ابن عمر ؓ سے ان کا یہ قول نقل کیا ہے کہ ” بچہ جب اپنے دائیں بائیں میں امتیاز کرنا سیکھ لے تو وہ نماز سیکھنے کے قابل ہوجاتا ہے۔ حاتم بن اسماعیل نے جعفر بن محمد سے روایت کی ہے، انہوں نے اپنے والد سے کہ علی بن الحسین بچوں کو ظہر اور عصر نیز مغرب اور عشاء ایک ساتھ پڑھتے کا حکم دیتے تھے ۔ ان سے جب یہ پوچھا گیا کہ اس طرح بچے کے بغیر نماز ادا کرتے ہیں تو انہوں نے جواب دیا کہ یہ بات ان کے نماز پڑھنے سے بہتر ہے۔ ہشام بن عروہ نے روایت کی ہے کہ عروہ اپنے بچوں کو اس وقت نماز پڑھنے کا حکم دیتے جب ان کے اندر نماز کی سمجھ پیدا ہوجاتی اور روزہ رکھنے کے لئے اس وقت کہتے جب ان میں روزہ رکھنے کی طاقت پیدا ہوجاتی۔ ابواسحاق نے عمرو بن شرجیل سے اور انہوں نے حضرت ابن مسعود ؓ سے روایت کی ہے کہ ” جب بچہ دس برس کا ہوجائے تو اس کے نامہ اعمال میں اس کی نیکیاں لکھی جاتی ہیں اور جب تک بالغ نہ ہوجانے اس وقت تک اس کی بدیاں نہیں لکھی جاتیں۔ “ ابوبکر حبصاص کہتے ہیں کہ لڑکے کو نماز کا حکم تعلیم کے طور پر اور عادی بنانے کی خاطر دیاجاتا ہے تاکہ اسے نماز پڑھنے کی مشق ہوجائے اور بالغ ہونے کے بعد اس کے لئے نماز کی ادائیگی آسان ہوجائے اور طبیعت میں نماز کی طرف سے کم از کم بےرغبتی پیدا ہو، یہی کیفیت شراب نوشی اور دوسری منہیات سے روکنے کی بھی ہے اس لئے کہ اگر اسے بچپن ہی سے نیکیوں کا حکم نہیں دیا جائے گا اور برائیوں سے روکا نہیں جائے گا بلکہ اسے اپنی مرضی کرنے کے لئے آزادچھوڑ دیا جائے گا تو بالغ ہوکر ان برائیوں سے پیچھا چھڑانا اور نیکیوں کی طرف مائل ہونا اس کے لئے مشکل ہوجائے گا۔ قول باری ہے : (قوانفسکم واھلیکم نارا) اپنی جانوں اور اپنے گھر والوں کو آگ سے بچائو۔ اس آیت کی تفسیر میں منقول ہے : ” انہیں ادب سکھائو اور علم پڑھائو۔ “ بچے اگرچہ مکلف نہیں ہوتے لیکن اس کے باوجود انہیں کفر اور شرک کے اعتقاد اور ان کے اظہار سے انہیں روکا جاتا ہے یہی بات احکام شرائع کے سلسلے میں بھی ضروری ہے۔ قول باری : (واذا بلغ الاطفال منکم الحلم) تا آخر آیت کا مفہوم یہ ہے کہ بچے جب سمجھ اور شعور کی عمر کو پہنچ جائیں تو انہیں بھی تمام اوقات میں اجازت لے کر اندر آنا چاہیے جس طرح ان سے پہلے لوگوں کے یہ ضروری ہے جن کا ذکر اس قول باری میں ہے (لا تدخلوا بیوتا غیر بیوتکم حتی تستانسوا وتسلموا علی اھلھا) آیت میں اس امر پر دلالت موجود ہے کہ احتلام بلوغت کی نشانی ہے۔ قول باری ہے : (لیس علیکم ولا علیھم جناح بعدھن طوافون علیکم بعضکم علی بعض) ان کے بعد وہ بلا اجازت آئیں تو نہ تم پر کوئی گناہ ہے نہ ان پر، تمہیں ایک دوسرے کے پاس بار بار آنا ہی ہوتا ہے۔ یعنی تخلیہ اور پردے کے ان تین اوقات کے بعد لونڈیوں کے لئے نیز ان کے لئے جو ابھی عقل اور سمجھ کو حدکو نہ پہنچے ہوں اجازت لئے بغیر آنا درست ہے کیونکہ یہ تین اوقات تخلیہ اور کپڑوں کے بغیر آرام کے اوقات ہیں لیکن ان کے بعد تمام اوقات تن پوشی نیز ان لوگوں کے آنے کے اوقات ہیں جن کے لئے ہر دفعہ اجازت لینا اس بنا پر مشکل ہوتا ہے کہ انہیں بار بار آنا جانا پڑتا ہے۔ قول باری (طوافون علیکم بعضکم علی بعض) کا یہی مفہوم ہے۔ عشاء کی نماز کے نام کے متعلق بیان قول باری ہے (ومن بعد صلوٰۃ العشاء۔ اور عشاء کی نماز کے بعد) حضرت عبدالرحمن بن عوف ؓ نے حضور ﷺ سے روایت کی ہے کہ آپ نے فرمایا : (لا تغلبنکم الاعراب علی اسم صلاتکم فان اللہ قال (ومن بعد صلوٰۃ العشاء) وان الاعراب یسمونھا العتمۃ وانما العتمۃ عتمۃ الابل للحلاب) بدوی لوگ تمہاری نماز کے نام کے سلسلے میں تم پر غالب نہ آجائیں۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے (اور عشاء کی نماز کے بعد) جبکہ بدوی اسے عتمہ کے نام سے پکارتے ہیں۔ حالانکہ عتمہ اونٹوں کا دودھ نکالنے کے لئے رات کی تاریکی یا تہائی رات گزر جانے کا نام ہے۔
Top