Home
Quran
Recite by Surah
Recite by Ruku
Translation
Maududi - Urdu
Jalandhary - Urdu
Junagarhi - Urdu
Taqi Usmani - Urdu
Saheeh Int - English
Maududi - English
Tafseer
Tafseer Ibn-e-Kaseer
Tafheem-ul-Quran
Maarif-ul-Quran
Tafseer-e-Usmani
Aasan Quran
Ahsan-ul-Bayan
Tibyan-ul-Quran
Tafseer-Ibne-Abbas
Tadabbur-e-Quran
Show All Tafaseer
Word by Word
Nazar Ahmed - Surah
Nazar Ahmed - Ayah
Farhat Hashmi - Surah
Farhat Hashmi - Ayah
Word by Word English
Hadith
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Sunan Abu Dawood
Sunan An-Nasai
Sunan At-Tirmadhi
Sunan Ibne-Majah
Mishkaat Shareef
Mauwatta Imam Malik
Musnad Imam Ahmad
Maarif-ul-Hadith
Riyad us Saaliheen
Android Apps
IslamOne
QuranOne
Tafseer Ibne-Kaseer
Maariful Quran
Tafheem-ul-Quran
Quran Urdu Translations
Quran Word by Word
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Mishkaat Shareef
More Apps...
More
Seerat-un-Nabi ﷺ
Fiqhi Masail
Masnoon Azkaar
Change Font Size
About Us
View Ayah In
Navigate
Surah
1 Al-Faatiha
2 Al-Baqara
3 Aal-i-Imraan
4 An-Nisaa
5 Al-Maaida
6 Al-An'aam
7 Al-A'raaf
8 Al-Anfaal
9 At-Tawba
10 Yunus
11 Hud
12 Yusuf
13 Ar-Ra'd
14 Ibrahim
15 Al-Hijr
16 An-Nahl
17 Al-Israa
18 Al-Kahf
19 Maryam
20 Taa-Haa
21 Al-Anbiyaa
22 Al-Hajj
23 Al-Muminoon
24 An-Noor
25 Al-Furqaan
26 Ash-Shu'araa
27 An-Naml
28 Al-Qasas
29 Al-Ankaboot
30 Ar-Room
31 Luqman
32 As-Sajda
33 Al-Ahzaab
34 Saba
35 Faatir
36 Yaseen
37 As-Saaffaat
38 Saad
39 Az-Zumar
40 Al-Ghaafir
41 Fussilat
42 Ash-Shura
43 Az-Zukhruf
44 Ad-Dukhaan
45 Al-Jaathiya
46 Al-Ahqaf
47 Muhammad
48 Al-Fath
49 Al-Hujuraat
50 Qaaf
51 Adh-Dhaariyat
52 At-Tur
53 An-Najm
54 Al-Qamar
55 Ar-Rahmaan
56 Al-Waaqia
57 Al-Hadid
58 Al-Mujaadila
59 Al-Hashr
60 Al-Mumtahana
61 As-Saff
62 Al-Jumu'a
63 Al-Munaafiqoon
64 At-Taghaabun
65 At-Talaaq
66 At-Tahrim
67 Al-Mulk
68 Al-Qalam
69 Al-Haaqqa
70 Al-Ma'aarij
71 Nooh
72 Al-Jinn
73 Al-Muzzammil
74 Al-Muddaththir
75 Al-Qiyaama
76 Al-Insaan
77 Al-Mursalaat
78 An-Naba
79 An-Naazi'aat
80 Abasa
81 At-Takwir
82 Al-Infitaar
83 Al-Mutaffifin
84 Al-Inshiqaaq
85 Al-Burooj
86 At-Taariq
87 Al-A'laa
88 Al-Ghaashiya
89 Al-Fajr
90 Al-Balad
91 Ash-Shams
92 Al-Lail
93 Ad-Dhuhaa
94 Ash-Sharh
95 At-Tin
96 Al-Alaq
97 Al-Qadr
98 Al-Bayyina
99 Az-Zalzala
100 Al-Aadiyaat
101 Al-Qaari'a
102 At-Takaathur
103 Al-Asr
104 Al-Humaza
105 Al-Fil
106 Quraish
107 Al-Maa'un
108 Al-Kawthar
109 Al-Kaafiroon
110 An-Nasr
111 Al-Masad
112 Al-Ikhlaas
113 Al-Falaq
114 An-Naas
Ayah
1
2
3
4
5
6
7
8
9
10
11
12
13
14
15
16
17
18
19
20
21
22
23
24
25
26
27
28
29
30
31
32
33
34
35
36
37
38
39
40
41
42
43
44
45
46
47
48
49
50
51
52
53
54
55
56
57
58
59
60
61
62
63
64
Get Android App
Tafaseer Collection
تفسیر ابنِ کثیر
اردو ترجمہ: مولانا محمد جوناگڑہی
تفہیم القرآن
سید ابو الاعلیٰ مودودی
معارف القرآن
مفتی محمد شفیع
تدبرِ قرآن
مولانا امین احسن اصلاحی
احسن البیان
مولانا صلاح الدین یوسف
آسان قرآن
مفتی محمد تقی عثمانی
فی ظلال القرآن
سید قطب
تفسیرِ عثمانی
مولانا شبیر احمد عثمانی
تفسیر بیان القرآن
ڈاکٹر اسرار احمد
تیسیر القرآن
مولانا عبد الرحمٰن کیلانی
تفسیرِ ماجدی
مولانا عبد الماجد دریابادی
تفسیرِ جلالین
امام جلال الدین السیوطی
تفسیرِ مظہری
قاضی ثنا اللہ پانی پتی
تفسیر ابن عباس
اردو ترجمہ: حافظ محمد سعید احمد عاطف
تفسیر القرآن الکریم
مولانا عبد السلام بھٹوی
تفسیر تبیان القرآن
مولانا غلام رسول سعیدی
تفسیر القرطبی
ابو عبدالله القرطبي
تفسیر درِ منثور
امام جلال الدین السیوطی
تفسیر مطالعہ قرآن
پروفیسر حافظ احمد یار
تفسیر انوار البیان
مولانا عاشق الٰہی مدنی
معارف القرآن
مولانا محمد ادریس کاندھلوی
جواھر القرآن
مولانا غلام اللہ خان
معالم العرفان
مولانا عبدالحمید سواتی
مفردات القرآن
اردو ترجمہ: مولانا عبدہ فیروزپوری
تفسیرِ حقانی
مولانا محمد عبدالحق حقانی
روح القرآن
ڈاکٹر محمد اسلم صدیقی
فہم القرآن
میاں محمد جمیل
مدارک التنزیل
اردو ترجمہ: فتح محمد جالندھری
تفسیرِ بغوی
حسین بن مسعود البغوی
احسن التفاسیر
حافظ محمد سید احمد حسن
تفسیرِ سعدی
عبدالرحمٰن ابن ناصر السعدی
احکام القرآن
امام ابوبکر الجصاص
تفسیرِ مدنی
مولانا اسحاق مدنی
مفہوم القرآن
محترمہ رفعت اعجاز
اسرار التنزیل
مولانا محمد اکرم اعوان
اشرف الحواشی
شیخ محمد عبدالفلاح
انوار البیان
محمد علی پی سی ایس
بصیرتِ قرآن
مولانا محمد آصف قاسمی
مظہر القرآن
شاہ محمد مظہر اللہ دہلوی
تفسیر الکتاب
ڈاکٹر محمد عثمان
سراج البیان
علامہ محمد حنیف ندوی
کشف الرحمٰن
مولانا احمد سعید دہلوی
بیان القرآن
مولانا اشرف علی تھانوی
عروۃ الوثقٰی
علامہ عبدالکریم اسری
معارف القرآن انگلش
مفتی محمد شفیع
تفہیم القرآن انگلش
سید ابو الاعلیٰ مودودی
Ahkam-ul-Quran - An-Noor : 7
وَ الْخَامِسَةُ اَنَّ لَعْنَتَ اللّٰهِ عَلَیْهِ اِنْ كَانَ مِنَ الْكٰذِبِیْنَ
وَالْخَامِسَةُ
: اور پانچویں
اَنَّ
: یہ کہ
لَعْنَتَ اللّٰهِ
: اللہ کی لعنت
عَلَيْهِ
: اس پر
اِنْ كَانَ
: اگر ہے وہ
مِنَ
: سے
الْكٰذِبِيْنَ
: جھوٹ بولنے والے
اور پانچویں بار یہ (کہے) کہ اگر وہ جھوٹا ہو تو اس پر خدا کی لعنت
لعان کی کیفیت قول باری ہے (فشھادۃ احدھم اربع شھادات باللہ انہ لمن الصادقین و الخامسۃ ان لعنۃ اللہ علیہ ان کان من اکاذ بین) تو ان میں ایک شخص کی شہادت یہ ہے کہ وہ چار مرتبہ اللہ کی قسم کھا کر گواہی دے کہ وہ (اپنے الزام میں) سچا ہے اور پانچویں بار کہے کہ اس پر اللہ کی لعنت ہو اگر وہ (اپنے الزام میں) جھوٹا ہو۔ بچے کے سلسلے میں اگر لعان نہ ہو تو اس لعان کی کیفیت کے بارے میں اہل علم کے مابین اختلاف رائے ہے۔ امام ابوحنیفہ، امام یوسف، امام محمد اور سفیان ثوری کا قول ہے کہ شوہر چار مرتبہ اللہ کی قسم کھا کر گواہی دے گا کہ اس نے زنا کا جو الزام لگایا ہے اس میں وہ سچا ہے اور پانچویں بار کہے گا کہ اگر وہ زنا کے الزام میں جھوٹا ہے تو اس پر خدا کی لعنت ہو۔ بیوی بھی چار مرتبہ اللہ کی قسم کھا کر گواہی دے گی کہ شوہر نے اس پر زنا کا جو الزام لگایا ہے اس میں وہ جھوٹا ہے اور پانچویں بار یہ کہے گا کہ اگر شوہر اپنے اس الزام میں سچا ہے تو مجھ پر خدا کا غضب ہو۔ اگر مقدمہ بچے کی نفی کا ہو تو اس صورت میں لعان کی کیفیت یہ ہوگی کہ شور چار مرتبہ اللہ کی قسم کھا کر گواہی دے گا کہ اس نے اپنی بیوی پر اس بچے کی نفی کا جو الزام لگایا ہے اس میں وہ سچا ہے۔ ابوالحسن کرخی نے ذکر کیا ہے کہ حاکم شوہر سے کہے گا کہ وہ ان الفاظ میں لعان کرے :” میں خدا کی قسم کھا کر گواہی دیتا ہوں کہ میں نے تجھ پر تیرے اس بچے کی نفی کا جو الزام عائد کیا ہے اس میں میں سچا ہوں۔ “ یہ فقرہ وہ چار مرتبہ دوہرائے گا پھر پانچویں بار وہ کہے گا : ” اس بچے کی نفی کا جو الزام میں نے تجھ پر عائد کیا ہے اگر میں اس میں جھوٹا ہوں تو مجھ پر خدا کی لعنت ہو۔ “ اس کے بعد قاضی بیوی کو ان الفاظ میں لعان کرنے کا حکم دے گا : ” میں خدا کی قسم کھا کر گواہی دیتی ہوں کہ تونے مجھ پر اس بچے کی نفی کا جو الزام لگایا ہے اس میں تو جھوٹا ہے۔ “ یہ فقرہ وہ چار بار دھرائے گا پھر پانچویں بار وہ یہ کہے گی : ” تونے مجھ پر اس بچے کی نفی کا جو الزام لگایا ہے اگر تو اس میں سچا ہے تو مجھ پے خدا کا غضب ہو۔ “ حیان بن بشر نے امام ابویوسف سے روایت کی ہے کہ جب زوجین کے درمیان بچے کی بنا پر لعان ہو تو دونوں کے درمیان علیحدگی کردی جائے گی اور قاضی کہے گا۔” میں نے اس بچے کو ماں کے ساتھ کردیا ہے اور اسے اس کے باپ کے نسب سے خارج کردیا ہے۔ “ ابوالحسن کہتے ہیں کہ امام ابو یوسف سے حیان بن بشر کی روایت کے سوا میری نظر سے کوئی اسی روایت نہیں گزری جس میں ذکر ہو کہ حاکم اپنے قول کے ذریعے بچے کی نفی کرے گا۔ ابوالحسن کہتے ہیں کہ میرے نزدیک درست صورت یہی ہے ۔ حسن بن زیاد نے امام ابوحنیفہ سے روایت کے سیاق میں بیان کیا ہے کہ قاضی کے لئے اس میں کوئی رکاوٹ نہیں کہ وہ میاں بیوی کے درمیان اس حالت میں لعان کرائے جب وہ دونوں کھڑے یا بیٹھے ہوں ، شوہر بیوی کی طرف منہ کرکے کہے گا۔” میں خدا کی قسم کھا کر گواہی دیتا ہوں کہ میں نے تجھ پر زنا کا جو الزام لگایا ہے اس میں سچا ہوں۔ “ اس پورے قول کے دوران وہ اپنا چہرہ عورت کی طرف رکھے گا۔ عورت بھی اس وقت اپنا چہرہ مرد کی طرف رکھے گی۔ ایک دوسرے کی طرف چہرہ رکھنے کے متعلق زفر سے بھی اس قسم کی روایت مروی ہے۔ ابن القاسم کی روایت کے مطابق امام مالک کا قول ہے کہ مرد چار مرتبہ اللہ کی قسم کھا کر ان الفاظ میں گواہی دے گا : ” میں خدا کی قسم کھا کر گواہی دیتا ہوں کہ میں نے اسے زنا کرتے ہوئے دیکھا ہے۔ “ پانچویں بار وہ کہے گا ۔” اگر میں جھوٹاہوں تو مجھ پر خدا کا غضب ہو۔ “ عورت کہے گی میں ” اللہ کی قسم کھا کر گواہی دیتی ہوں کہ اس نے مجھے زنا کرتے ہوئے نہیں دیکھا ہے۔ “ عورت کا فقرہ چار مرتبہ کہے گی اور پانچویں بار یہ کہے گی اگر وہ سچا ہے تو مجھ پر خدا کا غضب ہو۔ لیث بن سعد کا قول ہے کہ مرد چار مرتبہ اللہ کی قسم کھا کر گواہی دے گا کہ وہ سچا ہے اور پانچویں مرتبہ یہ کہے گا کہ اگر وہ جھوٹا ہے تو اس پر خدا کی لعنت ہو۔ عورت چار مرتبہ اللہ کی قسم کھا کر گواہی دے گی کہ وہ جھوٹا ہے اور پانچویں مرتبہ یہ کہے گی کہ اگر وہ سچا ہے تو مجھ پر خدا کا غضب ہو۔ امام شافعی (رح) کا قول ہے کہ مرد کہے گا : ” میں اللہ کی قسم کھا کر گواہی دیتا ہوں کہ میں نے اپنی بیوی فلانہ بنت فلاں پر جو الزام لگایا ہے اس میں میں سچا ہوں۔ “ یہ کہتے ہوئے وہ بیوی کی طرف اشارہ بھی کرے گا۔ اگر وہ وہاں موجود ہو ۔ شوہر چار مرتبہ یہ فقرہ دہرائے گا۔ پھر امام یا حاکم اسے بیٹھنے کے لئے کہے گا اور اسے اللہ سے ڈراتے ہوئے یہ کہے گا کہ مجھے خوف ہے کہ اگر تم نے سچ نہیں کہا ہے تو تم اللہ کی لعنت لے کر لوٹو گے۔ اگر امام یا حاکم اس کے بعد بھی شوہر کو اپنی بات پر مصردیکھے گا تو اپنا ہاتھ اپنے منہ پر رکھتے ہوئے اس سے کہے گا کہ تمہارا یہ کہنا کہ مجھ پر اللہ کی لعنت ہو اگر میں جھوٹا ہوں، اللہ کی لعنت کا موجب بن جائے گا۔ اگر تم جھوٹے ہوگے۔ “ اگر اس کے بعد بھی شوہر اپنی بات پر مصر رہے گا تو اسے چھوڑ دے گا اور شوہر یہ کہے گا۔” اگر میں زنا کے اس الزام میں جھوٹا ہوں جو میں نے اپنی بیوی فلانہ بنت فلاں پر عائد کیا ہے تو مجھ پر خدا کی لعنت ہو۔ “ اگر شوہر نے اپنی بیوی پر کسی متعین شخص کے ساتھ بدکاری کا الزام لگایا ہو تو وہ اس کا نام لے گا خواہ وہ ایک شخص ہو یادو۔ ہر گواہی کے ساتھ وہ یہ کہے گا۔” میں نے اپنی بیوی پر فلاں فلاں کے ساتھ بدکاری کا جو الزام لگایا ہے اس میں میں سچا ہوں۔ “ اگر وہ بچے کی نفی کرے گا تو ہر گواہی کے ساتھ وہ یہ کہے گا : ” میں اللہ کی قسم کھا کر گواہی دیتا ہوں کہ میں نے زنا کا جو الزام اس پر لگایا ہے۔ اس میں میں سچا ہوں، اور یہ بچہ ولد زنا ہے۔ میرے نطفے سے نہیں ہے۔ جب شوہر یہ کہہ لے گا تو وہ لعان سے فارغ ہوجائے گا۔ ابوبکر حبصاص کہتے ہیں کو قول باری :(فشھادۃ احدھم اربع شھادات باللہ انہ لمن الصادقین) کا ظاہر لعان کی گواہیوں میں اس پر اقتصار کے جواز کا مقتضی ہے۔ تاہم دلالت حال سے جب یہ بات واضح تھی کہ میاں بیوی کے درمیان لعان اس بنا پر واقع ہوا تھا کہ شوہر نے بیوی پر زنا کاری کی تہمت لگائی تھی تو اس سے ہمیں یہ بات معلوم ہوگئی کہ آیت میں مراد یہ ہے کہ دونوں میں سے ایک یعنی شوہر کی گواہی ان الفاظ میں ہونی چاہیے : ” میں اللہ کی قسم کھاکر گواہی دیتا ہوں کہ اس میں نے زنا کا جو الزام لگایا ہے اس میں میں سچا ہوں۔ “ اسی طرح عورت کی گواہی اس الزام کی نفی میں ہوگی جو شوہر نے اس پر عائد کیا ہے۔ اسی طرح لعنت ، غضب ، صدق اور کذب سب شوہر کی اس خبر کی طرف راجع ہوں گے جو اس نے اپنی بیوی کی زنا کاری کے متعلق دی ہوگی۔ یہ بات اس پر دلالت کرتی ہے کہ آیت سے مرادیہ ہے کہ میاں بیوی کا آپس میں ایک دوسرے کو لعان کرنا اور گواہیاں دینا ان سب باتوں کا رخ اس الزام کی طرف ہوگا جو شوہر نے بیوی پر عائد کیا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے شوہر کے قول (” فیما رمیٹھا بہ من الزنا “ زنا کا جو الزام میں نے اس پر عائدکیا ہے) کی مراد پر دلالت حال کی بنا پر اکتفا کرلیا اور الفاظ میں اس کا ذکر نہیں کیا اور صرف (انہ لمن الصادقین) فرمانے پر اقتصار کرلیا۔ یہ قول باری اس ارشاد کی طرح : (والحافظین فروجھم والحافظات والذاکرین اللہ کیثرا والذاکرات اور اپنی شرمگاہوں کی حفاظت کرنے والے اور حفاظت کرنے والیاں اور اللہ کو کثرت سے یاد کرنے والے اور یاد کرنے والیاں) یہاں مراد یہ ہے کہ ” اپنی شرمگاہوں کی حفاظت کرنے والیاں اور اللہ کو کثرت سے یاد کرنے والیاں۔ “ لیکن الفاظ میں اسے دلالت حال کی بنا پر محذوف رکھا گیا۔ حضرت عبداللہ بن مسعود ؓ اور حضرت عبدالرحمن بن عباس ؓ کی روایت میں جس کا تعلق حضور ﷺ کے سامنے ایک دوسرے پر لعان کرنے والے میاں بیوی کے واقعہ کے ساتھ ہے یہ مذکور ہے کہ مرد نے چانر مرتبہ اللہ کی قسم کھا کر گواہی دی تھی کہ وہ سچا ہے لیکن اس روایت میں دونوں حضرات نے یہ ذکر نہیں کیا کہ شوہر نے یہ الفاظ بھی کہے تھے کہ ” زنا کے الزام میں جو اس نے اپنی بیوی پر عائد کیا تھا۔ امام مالک کا یہ قول کہ شوہر اللہ کی قسم کھا کر چار مرتبہ گواہی دے گا کہ اس نے اپنی بیوی کو بدکاری کرتے ہوئے دیکھا ہے۔ کتاب وسنت کے ظاہر الفاظ کے خلاف ہے اس لئے کہ کتاب اللہ میں ہے (فشھادۃ احدھم اربع شھادات باللہ انہ لمن الصادقین) حضور ﷺ نے بھی انہی الفاظ میں زوجین کے درمیان لعان کرایا تھا۔ امام شافعی کا یہ قول بےمعنی ہے کہ شوہر عورت کا ذکر اس کے نام ونسب کے ساتھ کرے گا۔ نیز اس کی طرف اشارہ بھی کرے گا۔ اس لئے کہ اشارہ آنے کے بعد اسم ونسب کے ذکر کی ضرورت ہی باقی نہیں رہتی۔ اس لئے اس مقام پر اسم ونسب کا ذکر لغو اور فضول ہے۔ آپ نہیں دیکھتے کہ اگر مقدمہ کے گواہ کسی شخص پر حق کے لزوم کی گواہی دیں اور وہ شخص بھی وہاں موجود ہو تو ان کی گواہی کے یہ الفاظ ہی کافی ہوں گے کہ ” ہم گواہی دیتے ہیں کہ اس شخص کے اس شخص پر ایک ہزار درہم ہیں۔ “ اس موقع پر گواہوں کو مدعیٰ علیہ کے نام ونسب کے ذکر کرنے کی ضرورت نہیں ہوگی۔ نفی ولد کے متعلق بیان امام ابوحنیفہ کا قول ہے کہ جب عورت کے ہاں بچہ پیدا ہو اور باپ اس کی پیدائش کے ساتھ یا ایک دو دنوں کے بعد اس بچے کی نفی کردیے تو وہ لعان کرے گا اور بچے کا نسب اس سے منتفی ہوجائے گا۔ لیکن اگر اس نے بچے کی پیدائش کے وقت اس کی نفی نہیں کی یہاں تک کہ سال دو سال گزر گئے اور پھر اس کی نفی کردی تو اس صورت میں لعان کرے گا اور بچے کا نسب اس کے ساتھ لازم ہوجائے۔ امام ابوحنیفہ نے اس کے لئے کسی وقت کا تعین نہیں کیا۔ امام ابویوسف اور امام محمد نے اس کے لئے وقت کا تعین کردیا ہے۔ جو نفاس کی مدت کی مقدار یعنی چالیس دن ہے۔ امام ابویوسف کا قول ہے کہ اگر شوہر کہیں گیا ہوا ہو اور پھر گھر آجائے تو وہ اپنی آمد کے بعدمدنت نفاس یعنی چالیس دنوں کے اندر اندر بچے کی نفی کرسکتا ہے۔ بشرطیکہ اس کی آمد بچے کی پیدائش کے پہلے دو سالوں کے اندر ہوجائے۔ لیکن اگر پیدائش کے دو سال گزر جانے کے بعد اس کی آمد ہوئی ہو تو وہ پھر کبھی بچے کی نفی نہیں کرسکتا۔ ہشام کہتے ہیں کہ میں نے امام محمد سے ایک شخص کے ام ولد کے متعلق مسئلہ پوچھا جس کے بطن سے آقا کی موجودگی میں بچہ پیدا ہوا تھا۔ آقا نے اس بچے کا نہ تو دعویٰ کیا اور نہ ہی اس کی نفی کی۔ امام محمد نے فرمایا کہ جب بچے کی پیدائش کو چالیس دن گزر جائیں گے تو بچہ آقا کے لئے لازم ہوجائے گا اور اس کی ماں کی حیثیت آزاد عورت جیسی ہوجائے گی۔ ہشام کہتے ہیں کہ میں نے مزید پوچھا کہ اگر آقا کہیں گیا ہوا ہو اور پھر اس کی اس وقت آمد ہوئی ہو جب بچے کی پیدائش کو کئی سال گزر چکے ہوں تو امام محمد نے جواب میں فرمایا کہ اگر بیٹے کی نسبت آقا کی طرف ہوچکی ہو حتیٰ کہ اسے اس کی نسبت سے پہچانا جاتا ہو تو بیٹا اس کے لئے لازم ہوجائے گا۔ اگر بیٹے کی نسبت اس کی طرف نہ ہوئی ہو اور وہ کہے کہ مجھے تو اس کی ولادت کا کوئی علم نہیں۔ اگر آقا اپنی آمد کے بعد چالیس دنوں تک خاموش رہے گا تو بیٹا اس کے لئے لازم ہوجائے گا۔ امام مالک کا قول ہے کہ شوہر جب حمل دیکھ لے اور پیدائش کے وقت اس کی نفی نہ کرے تو اس کے بعد اس بچے کا نسب اس سے متنفی نہیں ہوگا۔ خواہ شوہر اس کی نفی کیوں نہ کرے اور خواہ بیوی آزاد عورت ہو یا لونڈی ہو۔ اگر حمل دیکھ کر شوہر نے اس کی نفی نہ کی ہو اور پھر پیدائش کے وقت اس کی نفی کردے تو اس صورت میں شوہر کو حد میں کوڑے مارے جائیں گے۔ کیونکہ بیوی ایک مسلمان آزاد عورت تھی اور اس کے بطن سے پیدا ہونے والے بچے کی بوقت پیدائش نفی کرکے وہ اس کا قاذف بن گیا۔ اگر استقرار حمل کے وقت شوہر موجود نہ ہ پھر موجود ہوجائے اور اس کے بعد بیوی کے ہاں بچے کی پیدائش ہوئی ہو تو شوہر کو اس کی نفی کا اختیار ہے۔ لیث بن سعد کا قول ہے کہ ایک شخص اپنی بیوی کے حمل کا اقرار کرلے اور اس کے بعد پھر کہے کہ میں نے اسے زنا کرتے ہوئے دیکھا ہے تو اس رویت کے سلسلے میں وہ لعان کرے گا اور حمل اس کے لئے لازم ہوجائے گا۔ یعنی جب بچے کی پیدائش ہوگی تو اس کا نسب اس شخص سے ثابت ہوجائے گا۔ امام شافعی کا قول ہے کہ جب شوہر کو بچے کی پیدائش کا علم ہوجائے اور اس کے بعد حاکم اسے واضح طور پر موقعہ فراہم کردے لیکن وہ لعان کرے تو پھر اس کے لئے اس کی نفی کی کوئی گنجائش نہیں ہوگی جس طرح حق شفعہ کا مسئلہ ہے۔ امام شافعی نے اپنے قدیم فقہی مسلک میں کہا تھا کہ اگر شوہر بچے کی پیدائش کے ایک یا دو دنوں کے اندر اس کی نفی نہیں کرتا تو اس کے بعد اسے نفی کا کوئی حق نہیں ہوگا۔ ابوبکر حبصاص کہتے ہیں کہ بچے کی نفی کا ذکر اللہ کی کتاب میں نہیں ہے۔ البتہ حضور ﷺ سے یہ ثابت ہے کہ جب شوہر اپنی پر نفی ولد کا قذف کرے گا تو لعان کے بعد ولد کی نفی ہوجائے گی۔ ہمیں محمد بن بکر نے روایت بیان کی، انہیں ابودائود نے، انہیں عبداللہ بن مسلمہ القبعنی نے امام مالک سے ، انہوں نے نافع سے اور انہوں نے حضرت ابن عمر ؓ سے روایت کی ہے کہ حضور ﷺ کے زمانے میں ایک شخص نے اپنی بیوی کے ساتھ لعان کیا اور اس کے بطن سے پیدا ہونے والے بچے کو اپنا بچہ تسلیم کرنے سے انکار کردیا۔ آپ نے دونوں کے درمیان علیحدگی کرادی اور بچے کو عورت کے ساتھ لاحق کردیا۔ ہمیں محمد بن بکر نے روایت بیان کی، انہیں ابودائود نے، انہیں الحسن بن علی نے، انہیں یزید بن ہارون نے، انہیں عباد بن منصور نے عکرمہ سے، انہوں نے حضرت ابن عباس ؓ سے کہ ہلال بن امیہ اپنی زمین سے شان کے وقت واپس آئے اور اپنی بیوی کے پاس ایک اجنبی مرد کو موجود پایا، پھر حضرت ابن عباس ؓ نے پوری روایت اس واقعہ کے اختتام اور لعان کے ذکر تک بیان کی۔ پھر کہا کہ حضور ﷺ نے دونوں کے درمیان علیحدگی کرادی اور فیصلہ دیا کہ آئندہ اس بچے کو باپ کی نسبت سے نہ پکارا جائے ۔ ابوبکر حبصاص کہتے ہیں کہ فقہاء کا اس پر اتفاق ہے کہ شوہر جب اپنی بیوی کے پیٹ سے پیدا ہونے والے بچے کو اپنا بچہ تسلیم کرنے سے انکار کردے گا تو پھر وہ لعان کرے گا اور بچے کو ماں کے ساتھ لاحق کردیاجائے گا اور باپ کی طرف سے اس کا نسب منتفی ہوجائے گا ۔ تاہم بچے کی نفی کے وقت کے بارے میں فقہاء کے درمیان اختلاف رائے ہے۔ جیسا کہ ہم نے اس پر روشنی ڈالی ہے۔ حضرت عبداللہ بن عمر ؓ کی روایت میں جس کا ہم اوپر ذکر کر آئے ہیں یہ مذکور ہے کہ ایک شخص نے اپنی بیوی کے بطن سے پیدا ہونے والے بچے کی نفی کردی، حضور ﷺ نے لعان کرادیا اور بچے کو ماں کے ساتھ لاحق کردیا۔ اس میں ہمیں اس بات کی دلیل ملتی ہے کہ اپنی بیوی کے بطن سے پیدا ہونے والے بچے کی نفی کرنا گویا بیوی کو قذف کرنا ہے۔ اگر یہ بات اس طرح نہ ہوتی تو حضور ﷺ لعان نہ کراتے کیونکہ لعان تو قذف کی بنا پر ہی واجب ہوتا ہے۔ رہ گیا اس نفی کے لئے وقت کا تعین تو اس کا دارومدار اجتہاد رائے اور غالب ظن پر ہوگا۔ جب اتنی مدت گزر جائے جس میں شوہر کے لئے بچے کی نفی ممکن ہو۔ لیکن وہ اس مدت میں بچے کی پیدائش پر لوگوں سے تہنیت وصول کرنے میں لگا رہے اور اس کی حرکات سے یہ ظاہر ہورہا ہو کہ اس کے دل میں بچے کی نفی کا کوئی ارادہ نہیں ہے تو امام ابوحنیفہ کے نزدیک اس کے بعد بچے کی نفی کی کوئی گنجائش نہیں ہوگی۔ تحدید وقت پر چونکہ کوئی دلالت نہیں ہے اس لئے اس کا ثبوت نہیں ہوگا۔ جن باتوں کا ہم نے اوپر ذکر کیا ہے یعنی بچے کی پیدائش پر خوشی کا اظہار وغیرہ امام ابوحنیفہ نے انہی کا اعتبار کیا ہے۔ اگر یہ کہا جائے کہ جب حقوق کے معاملات میں ایک شخص کی خاموشی ان حقوق کے اسقاط پر اس کی رضامندی کا اظہار نہیں سمجھی جاتی تو یہی صورت نفی ولد کے سلسلے میں بھی ہونی چاہیے۔ اس کے جواب میں کہا جائے گا کہ جب سب کا اس پر اتفاق ہے اس معاملے میں خاموشی اختیار کیے رہنا ایک مدت گزر جانے کے بعد رضابالقول کی حیثیت اختیار کرلیتا ہے۔ تاہم اس مدت کے بارے میں اختلاف رائے ہے۔ جن حضرات نے اس کے لئے زیادہ سے زیادہ مدت جو مقرر کی ہے وہ چالیس دنوں کی مدت ہے لیکن اس بات کی کوئی دلیل ان کے پاس بھی نہیں ہے۔ جس کے نتیجے میں اس مدت کا اعتبار اس سے کم مدت کے اعتبار سے اولیٰ نہیں ہے۔ امام ابو یوسف اور امام محمد نے یہ مسلک اختیار کیا ہے کہ چالیس دن نفاس کی زیادہ سے زیادہ مدت ہے۔ اور نفاس کی حالت بچے کی ولادت کی حالت ہوتی ہے۔ اس لئے جب تک ماں ولادت کی حالت میں ہوگی تو باپ کی طرف سے بچے کی نفی کی بات قابل قبول ہوگی۔ لیکن یہ بھی کوئی پائیدار بات نہیں ہے اس لئے کہ بچے کی نفی کا نفاس کی حالت سے کوئی تعلق نہیں ہوتا۔ امام مالک کا یہ قول کہ جب شوہر بیوی کو حد قذف میں کوڑے لگائے جائیں گے، کئی وجوہ سے ایک کھوکھلا قول ہے۔ اول تو یہ کہ حمل کا معاملہ غیر یقینی ہوتا ہے اس لئے اس کی نفی کا کوئی اعتبار نہیں ہوگا۔ دوسری وجہ یہ ہے کہ اس شخص کا معاملہ ایسے شخص کے معاملے سے بڑھ کر نہیں ہے جس کی بیوی کے ہاں بچے کی پیدائش ہوجائے اور اسے بیوی کے حاملہ ہونے کا علم نہ ہو ، پھر اسے بچے کی پیدائش کا علم ہوجائے اور وہ ایک عرصے تک خاموش رہے۔ تو بچہ اس کے لئے لازم ہوجائے گا اور اگر اس نے اس کے بعد بچے کی نفی کردی تو لعان کرے گا اور بچے کا نسب اس سے منتفی نہیں ہوگا۔ جب لعان کی صحت کا بچے کے نفی سے تعلق نہیں اور نفی کے بعد شوہر کی طرف سے اپنے جھوٹ کا اقرار بھی نہ ہو تو پھر اسے کوڑے مارنا کیسے جائز ہوگا۔ نیز قول باری ہے : (والذین یرمون ازواجھم) ناآخر آیت۔ آیت کے عموم کے ذریعے اللہ تعالیٰ نے تمام شوہروں پر لعان واجب کردیا تو اب اس عموم میں کسی دلیل کے بغیر کوئی تخصیص نہیں ہوسکتی۔ اور جس صور ت کے ارے میں حد کے وجوب اور لعان کے سقوط کے متعلق ہمارا اختلاف ہے اس پر کوئی دلالت قائم نہیں ہوئی۔ ایک شخص اپنی بیوی کو بائن طلاق دینے کے بعد اسے قذی کرے تو اس کا کیا حکم ہوگا ؟ ہمارے اصحاب کا قول ہے کہ اگر ایک شخص اپنی بیوی کو تین طلاق دے دے اور پھر اس پر زنا کاری کی تہمت لگائے تو اس پر حد واجب ہوگی اسی طرح اگر عدت ختم ہونے سے پہلے اس کے ہاں بچے کی پیدائش ہوجائے اور شوہر اس بچے کی نفی کردیے تو اس پر حدواجب ہوگی اور یہ بچہ اس کا بچہ قرار پائے گا۔ ابن وہب نے امام مالک سے بیان کیا ہے کہ جب عورت بائن ہوجائے اور پھر شوہر اس کے حمل کا انکار کردے اگر اس حمل کا اسی شوہر سے ہونا قرین قیاس ہو تو اس صورت میں شوہر کو حد لگے گی۔ اگر شوہر نے تین طلاق دینے کے بعد اسے قذف کیا ہو۔ طلاق کے وقت اسے حمل بھی ہو اور شوہر کو اس حمل کا اقرار بھی ہو۔ پھر شوہر نے اسے قذی کرنے سے پہلے یہ دعویٰ کیا ہو کہ اس نے اسے زنا کرتے ہوئے دیکھا ہے تو اس صورت میں شوہر کو حد لگے گی اور لعان نہیں کرے گا۔ اگر تین طلاق دینے کے بعد اس کے حمل کا انکار کردیا ہو تو اس صورت میں لعان کرے گا۔ لیث بن سعد کا قول ہے کہ بائن ہونے کے بعد اگر اس کے حمل کا انکار کرے گا تو لعان کرے گا۔ اگر بائن ہونے کے بعد اس نے اس پر ان الفاظ میں زنا کی تہمت لگائی ہو کہ علیحدگی سے پہلے اس نے ایک مرد کو اس پر سوار دیکھا تھا تو اس صورت میں شوہر کو حد لگے گی اور وہ لعان نہیں کرے گا۔ ابن شبرمہ کا قول ہے جب عورت اپنی عدت کے اندر حاملہ ہونے کا دعویٰ کرے اور طلاق دینے والا شوہر اس کا انکار کرے تو اس صورت میں وہ لعان کرے گا۔ اگر غیر عدت میں ایسی صورت حال پیش آجائے تو شوہر کو حد لگے گی اور پیدا ہونے والا بچہ شوہر کے ساتھ لاحق کردیا جائے گا۔ امام شافعی کا قول ہے کہ اگر عورت کا ذہنی توازن درست نہ ہو اور شوہر اس کے ہاں پیدا ہونے والے بچے کی نفی کردے تو لعان کرے گا اور دونوں کے درمیان علیحدگی کردی جائے گی اور باپ کے نسب سے بچے کی نفی ہوجائے گی۔ اگر عورت لعان سے پہلے مرجائے اور اسکے ماں باپ شوہر سے اس کا مطالبہ کریں تو اس صورت میں شوہر کے لئے لعان کرنا ضروری ہوگا۔ اگر بیوی کا انتقال ہوجائے اور اس کے بعد شوہر اسے قذف کرے تو اس صورت میں شوہر کو حد لگائی جائے گی اور لعان نہیں ہوگا۔ ہاں البتہ اگر وہ قذف کے ذریعے حمل کا یا بچے کی نفی کرے گا تو اس صورت میں لعان کرے گا۔ قتادہ نے جابر بن زید سے اور انہوں نے حضرت ابن عباس ؓ سے ایک شخص کے متعلق روایت کی ہے جو اپنی بیوی کو ایک یا دو طلاق دے دیتا ہے اور پھر اس پر زنا کی تہمت لگاتا ہے تو اس صورت میں مرد کو حد لگائی جائے گی۔ حضرت ابن عمر ؓ کا اس صورت کے متعلق فتویٰ ہے کہ لعان ہوگا۔ شیبانی نے شعبی سے روایت کی ہے کہ اگر شوہر اپنی بیوی کو طلاق بائن دے دے اور بیوی حاملہ ہونے کا دعویٰ کرے جس کے جواب میں شوہر اس حمل کا ہی انکار کردیے تو وہ لعان کرے گا۔ شعبی کا قول ہے کہ شوہر دراصل لعان سے بچنا چاہتا تھا۔ اشعث نے حسن سے بھی اسی طرح کی روایت کی ہے۔ لیکن انہوں نے لعان سے فرار کی بات نہیں کی۔ اگر عورت حاملہ نہ ہو اور شوہر طلاق بائن دینے کے بعد اس پر زنا کی تہمت لگادے تو شوہر کو حد لگائی جائے گی۔ ابراہیم نخعی، عطاء، اور زہری کا وقل ہے کہ بیوی کے بائن ہوجانے کے بعد اگر شوہر اسے قذف کرے گا تو اسے حد قذف میں اسی کوڑے لگیں گے۔ عطاء کا قول ہے کہ اس صورت میں بچہ شوہر کا بچہ قرار دیا جائے گا۔ ابوبکر حبصاص کہتے ہیں کہ قول باری ہے : (والذین یرمون المحصنات تم لم یاتوا باربکۃ شھدآء فاجلدوھم ثما نین جلدۃ) یہ حکم بیوی کو قذف کرنے والے نیز کسی اجنبی عورت کو قذف کرنے والے دونوں کے لئے عام تھا جیسا کہ پہلے بیان کر آئے ہیں پھر بیوی کو قذف کرنے والے کا حکم قول باری (والذین یرمون ازواجھم) کے ذریعے منسوخ ہوگیا جو بیوی کہ بائن ہوچکی ہو۔ وہ بیوی نہیں رہتی ۔ اس لئے ظاہر قول باری (والذین یرمون المحصنات) کی بنا پر اس کے سابق شوہر کو حد لگائی جائے گی اگر وہ اسے قذف کرے گا۔ جو حضرات رشتہ زوجیت ختم ہوجانے کے بعد یعنی عورت کے بائن ہوجانے کی صورت میں لعان واجب کرتے ہیں تو وہ آیت زیر بحث کے ایک ایسے حکم کو منسوخ کرنے کو مرتکب ہوتے ہیں جس کے نسخ کے سلسلے میں کوئی توقیف یعنی شرعی دلیل واجب نہیں ہوئی جبکہ قرآن کے کسی حکم کو صرف اسی وقت منسوخ مانا جاسکتا ہے جب نسخ کی کوئی ایسی دلیل موجود ہو جو علم کی موجب بن رہی ہو۔ اسے ایک اور جہت سے دیکھیے، لعان کے اثبات میں قیاس کو کوئی دخل نہیں ہوتا۔ کیونکہ لعان ایک حد ہے جیسا کہ ہم نے اس سلسلے میں حضور ﷺ کے ارشاد کا حوالہ دیا ہے، اور حدود کو قیاس ونظر کے ذریعے ثابت نہیں کیا جاسکتا۔ ان کے اثبات کا صرف ایک ذریعہ توقیف ہے یا پھر اتفاق امت۔ اس میں ایک پہلو یہ بھی ہے کہ فقہاء کا اس میں کوئی اختلاف نہیں کہ اگر شوہر ایسی بیوی کو قذف کرے اور قذف میں بچے کی نفی شامل نہ ہو تو اس صورت میں شوہر کو حد لگائی جائے گی اور لعان نہیں ہوگا۔ اس سے یہ بات ثابت ہوگئی کہ یہ صورت آیت میں داخل نہیں ہے اور نہ ہی مراد ہے کیونکہ آیت میں ولد کی نفی کا ذکر نہیں ہے اس میں تو صرف قذف کا ذکر ہے جبکہ نفی ولد کا حکم سنت سے ماخوذ ہے اور سنت میں عورت کے بائن ہوجانے کے بعد نفی ولد کے لئے لعان کے ایجاب کا کوئی حکم موجود نہیں ہے۔ اگر یہ کہا جائے کہ ایسی صورت میں میاں بیوی کے درمیان نفی ولد کے لئے لعان اس لئے کر ایاجاتا ہے کہ یہ شوہر کا حق ہوتا ہے اور پیدا ہونے والا بچہ صرف لعان کے ذریعے ہی اس سے منتفی ہوسکتا ہے جیسا کہ رشتہ زوجیت کی بقاء کی صورت میں لعان ہی کے ذریعے بچے کی نفی ہوتی ہے۔ زیر بحث صورت کو بقاء زوجیت کی مذکورہ صورت پر قیاس کیا گیا ہے۔ اس کے جواب میں کہا جائے گا کہ یہ صورت دواصل آیت کے حکم کو منسوخ کرنے کے لئے قیاس کے استعمال کی صور ہے وہ آیت یہ ہے : (والذین یرمون المحصنات ) ناآخر آیت۔ قیاس کے ذریعے آیت کے حکم کو منسوخ نہیں کیا جاسکتا اس لئے مذکورہ بالا قیاس درست نہیں ہے۔ نیز اگر رشتہ زوجیت کے ارتفاع کے بعد ولد کی نفی کے لئے لعان کے ایجاب کا جواز ہوتا تو اس کے ارتفاع کے بعد شوہر سے حد کو زائل کرنے کے لئے بھی لعان کے ایجاب کا جواز ہوتا لیکن جب صورت حال یہ ہے کہ اگر ارتفاع زوجیت کے بعد شوہر اسے قذف کرے اور قذف میں ولد کی نفی کا ذکر نہ ہو تو اسے حد لگائی جائے گی اور عدم زوجیت کی بنا پر اس سے حد کی سزا کو دور کرنے کے لئے لعان واجب نہیں ہوگا۔ ٹھیک اسی طرح رشتہ زوجیت کی عدم موجودگی میں ولد کی نفی کے لئے لعان واجب نہیں ہونا چاہیے۔ اگر یہ کہا جائے کہ ارشاد باری ہے : (یایھا النبی اذا طلقتم النسآء) آپ ﷺ ان سے کہہ دیجئے کہ جب تم عورتوں کو طلاق دو ۔ نیز ارشاد ہے (اذا طا عتم النسآء فبلغن اجلھن) جب عورتوں کو طلاق دے چکو اور وہ اپنی مدت کو پہنچ جائیں۔ اللہ تعالیٰ نے عورتوں پر طلاق واقع ہوجانے کا حکم لگادیا اور یہ حکم آپ کے نزدیک عورت کے بائن ہوجانے کے بعد بھی اسے طلاق دینے میں جب تک وہ عدت کے اندر ہو مانع نہیں بنا تو آپ لعان کی صورت میں اس سے کیوں انکاری ہیں۔ اس کے جواب میں کہا جائے گا کہ یہ اعتراض کئی وجوہ سے ساقط ہے۔ ایک وجہ تو یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے جس وقت طلاق دینے والے شوہر کی عورتوں پر طلاق واقع ہوجانے کا حکم لگا دیا تو اس کے ذریعے ایسی عورتوں پر طلاق واقع ہونے کی نفی نہیں کی جو طلاق دینے والے کی بیویاں نہ ہوں بلکہ اس کی بیویوں کے ماسوا ہوں اس لئے وقوع طلاق یا اس کی نفی کے سلسلے میں طلاق کا حکم دلیل پر موقوف اور عدت کے اندر طلاق واقع ہوجانے کی صحت پر دلالت قائم ہوچکی ہے اس لئے عدت کے اندر طلاق دینے کا جواز پیدا ہوگیا جہاں تک لعان کا تعلق ہے تو وہ بیویوں کے ساتھ مخصوص ہے، بیویوں کے ماسوائے اجنبی عورتوں کے سلسلے میں حدواجب ہوتی ہے کیونکہ ارشاد باری ہے : (والذین یرمون المحصنات) اس آیت کے بموجب لعان کی نفی ہورہی ہے۔ اب جو شخص لعان واجب کرکے آیت کے حکم کو ساقط کرے گا تو وہ آیت کو توقیف کے بغیر منسوخ کردینے کا مرتکب ہوگا جب کہ یہ بات سرے سے باطل ہے۔ اسی بنا پر ہم نے لعان کی نفی کردی ہے الا یہ کہ رشتہ زوجیت کی بقا کی صورت ہو نیز اللہ تعالیٰ نے جس طرح عورتوں کو طلاق دینے کا حکم کیا اسی طرح انہیں بائن ہوجانے کے بعد بھی طلاق دینے کا حکم دیا ہے چناچہ ارشاد باری ہے (فلا جناح علیھا فیما افتدت بہ) تو ان دونوں پر بیوی کی طرف سے فدیہ دے کر اپنی جان چھڑالینے میں کوئی گناہ نہیں ۔ پھر اللہ تعالیٰ نے اس پر اپنے اس ارشاد کو عطف کیا : (فان طلقھا فلا تحل لہ حتیٰ تنکح زوجا غیرہ) اگر شوہر اسے طلاق دے دے تو وہ اس کے لئے اس وقت تک حلال نہیں ہوگی جب تک کسی اور مرد سے نکاح نہ کرے۔ یہاں اللہ تعالیٰ نے فدیہ کے بعد طلاق واقع ہونے کا حکم لگا دیا کیونکہ حرف فاء تعقیب کے لئے آتا ہے اس کے برعکس معترض کے پاس کوئی آیت یا کوئی حدیث نہیں ہے جو عورت کے بائن ہوجانے کے بعد لعان کو واجب کرتی ہو۔ نیز یہ پہلو بھی ہے کہ بائن ہوجانے کے بعد قیاس کے ذریعے طلاق کا اثبات جائز ہے لیکن بنیونت کے بعد قیاس کے ذریعے لعان کا اثبات جائز نہیں ہے۔ نیز لعان بعنیونت کا موجب ہوتا ہے اور بنیونت واقع ہوجانے کے بعد اس کا اثبات درست نہیں ہوتا۔ اس لئے ایسے لعان کے ایجاب کے کوئی معنی نہیں جس کے ساتھ بینونت کا تعلق نہ ہو اس لئے کہ لعان کا مقصد ہی یہی ہوتا ہے کہ تعلق زن وشوکا خاتمہ ہوکر بیوی شوہر سے بائن ہوجائے۔ جب لعان کے ساتھ اس کا تعلق نہ ہو تو ایسا لعان بےمعنی ہے اس لئے ہمارے نزدیک لعان اس جہت کے کنایات کی طرح ہے جنہیں بنیونت کے لئے وضع کیا گیا ہے۔ اس لئے زوجیت کا تعلق ختم ہوجانے کے بعد کنایات کے ذریعے کوئی طلاق واقع نہیں ہوتی۔ مثلاً شوہربیوی سے کہ ” انت خلیۃ “ (تو تنہا ہوگئی) انت بائن “ (تو بائن ہوگئی)” انت بتتہ “ (تیرا تعلق منقطع ہوگیا) یا اسی قسم کا کوئی اور فقرہ جس کا تعلق کنایات سے ہو۔ جب یہ بات جائز نہیں کہ بینونت کے بعد بیوی کو ان کنایات کا کوئی حکم لاحق ہوجائے تو اس سے یہ بات بھی واجب ہوگئی کہ علیحدگی واقع ہوجانے اور زوجیت کے ارتفاع کے بعد لعان کا بھی یہی حکم ہو یعنی اس کا حکم بےاثر ہوجائے۔ صریح طلاق کا حکم یہ نہیں ہے کیونکہ ارتفاع بینونت اس کی شرط نہیں ہے۔ آپ نہیں دیکھتے کہ صریح طلاق کے وجود کے ساتھ عدت کے اندر رجوع ثابت ہوجاتا ہے۔ اگر شوہر پہلی طلاق کے بعد عدت کے اندر دوسری طلاق دے دے ۔ تو یہ دوسری طلاق نہ تو بینونت کے اندر کوئی اثر رکھی ہے اور نہ ہی تحریم کے اندر اس سے صرف طلاق کی تعداد میں جو شوہر اپنی بیوی کو دے سکتا ہے کمی واقع ہوجاتی ہے۔ اسی لئے یہ بات جائز ہے کہ بنیونت کے بعد عدل کے اندر اسے طلاق لاحق ہوجائے، عدت کے اندر اس طلاق کا لاحق ہوجانا نہ تو تحریم کے ایجاب کے لئے ہوتا ہے اور نہ ہی بنیونت کے ایجاب کے لئے۔ یہ صرف طلاق کی تعداد میں کمی کے لئے ہوتا ہے۔ نیز یہ بھی جائز نہیں ہوتا کہ وقوع طلاق ، لعان کے وجوب کے لئے اصل نہ بن جائے ۔ اس لئے کہ دیوانی عورت اور نابالغ لڑکی دونوں کو طلاق لاحق ہوجاتی ہے لیکن ان کے اور ان کے شوہروں کے درمیان لعان نہیں ہوتا۔ اگر شوہر اپنی بیوی کو قذف کرنے کے بعد تین طلاق دے دیتا ہے تو اس کے حکم کے بارے میں اہل علم کے مابین اختلاف رائے ہے۔ امام ابوحنیفہ، امام ابویوسف ، امام محمد اور زفر کا قول ہے کہ قذف کرنے کے بعد جب بیوی اس سے طلاق کی وجہ سے یا غیر طلاق کی بنا پر بائن ہوجاتی ہے تو شوہر پر نہ تو حد واجب ہوگی اور نہ ہی لعان ہوگا۔ سفیان ثوری کا بھی یہی قول ہے۔ اوزاعی، لیث بن سعد اور امام شافعی کا قول ہے کہ مرد لعان کرے گا۔ حسن بن صالح کا قول ہے کہ شوہر اگر حاملہ بیوی کو قذف کرے اور لعان کرنے سے پہلے اس کے ہاں بچے کی پیدائش ہوجائے اور پھر بیوی کی موت واقع ہوجائے تو بچہ شوہر کے لئے لازم ہوجائے گا اور شوہر کو حد قذف لگے گی۔ اگر شوہر لعان کرلے اور عورت لعان کرنے سے پہلے مرجائے تو شوہر کو حد قذف لگے گی اور دونوں ایک دوسرے کے وارث بنیں گے۔ اگر شوہر بیوی کو حاملہ ہونے کی حالت میں طلاق دے دے اور وہ اسے قذف بھی کرچکا ہو پھر لعان کرنے سے پہلے ہی وضع حمل ہوجائے تو اس صورت میں شوہر لعان نہیں کرے گا بلکہ اسے حد قذف کی سزا ملے گی۔ ابوبکر حبصاص کہتے ہیں کہ ہم نے پہلے بیان کردیا ہے کہ بنیونت کے بعد لعان کا وجوب ممتنع ہے جب لعان واجب نہیں ہوگا تو پھر صورت یا تو یہ ہوگی کہ اس پر حد بھی واجب نہ ہو جیسا کہ ہمارے اصحاب کا قول ہے یا اس پر حد واجب ہوجائے گی جیسا کہ حسن بن صالح کا قول ہے لیکن شوہر کی طرف سے اگر جھوٹ بولنے کا اقرار نہ ہ وتو اس صورت میں اس پر حد واجب کرنا جائز نہیں ہوگا۔ شوہر سے لعان کا سقوط حکم کی جہت سے ہوا ہے اور اس کی حیثیت بیوی جیسی ہوگئی کہ اگر بیوی قذف کے بارے میں شوہر کی تصدیق بھی کردیتی تو بھی حکم کی جہت سے لعان ساقط نہ ہوتا۔ شوہر پر حد کا وجوب اس وجہ سے نہیں ہوا کہ اس کی طرف سے جھوٹ بولنے کا اقرار نہیں ہوا تھا۔ اگر یہ کہا جائے کہ اگر مرد عورت کو بیوی نہ ہونے کی حالت میں قذف کرتا اور پھر اس سے نکاح کرلیتا تو عورت لعان کی طرف منتقل نہ ہوتی۔ اسی طرح اگر بیوی ہونے کی حالت میں اسے قذف کرتا پھر وہ اس سے بائن ہوجاتی تو لعان باطل نہ ہوتا۔ اس کے جواب میں کہا جائے گا کہ نکاح کی حالت میں کبھی تو لعان واجب ہوتا ہے اور کبھی حد۔ آپ نہیں دیکھتے کہ اگر مرد اپنے جھوٹ کا اقرار کرتا ہے تو نکاح کی حالت میں اس پر حد واجب ہوجاتی ہے لیکن غیر نکاح کی حالت میں کسی طرح بھی اس پر لعان واجب نہیں ہوتا ہے۔ اگر شوہر اپنی بیوی کے حمل کی نفی کردے تو اس کے متعلق اہل علم میں اختلاف رائے ہے۔ امام ابوحنیفہ کا قول ہے کہ شوہر یہ کہے کہ ” یہ حمل میرا نہیں ہے۔ “ تو اس صورت میں وہ بیوی کا قاذف تصور نہیں ہوگا۔ اگر ایک دن کے بعد بچہ پیدا ہوجائے تو شوہر لعان نہیں کرے گا بجب تک بچے کی پیدائش کے بعد وہ اس کی نفی نہ کردے۔ امام زفر کا بھی یہی قول ہے۔ امام ابو یوسف اور امام محمد کا قول ہے کہ اگر شوہر کے اس قول کے بعد چھ ماہ سے کم مدت میں عورت کے ہاں بچہ پیدا ہوجائے تو اس صورت میں شوہر لعان کرے گا۔ امام ابویوسف سے ایک روایت ہے کہ بچے کی پیدائش سے شوہر بیوی کے ساتھ لعان کرے گا۔ امام مالک اور امام شافعی کا قول ہے کہ شوہر حمل کے سلسلے میں لعان کرے گا۔ الربیع نے ان سے روایت کی ہے کہ جب تک بچے کی پیدائش نہ ہوجائے اس وقت تک شوہر لعان نہیں کرے گا۔ امام ابوحنیفہ (رح) نے نفی حمل کے سلسلے میں لعان واجب نہیں کیا تو اس کی وجہ یہ ہے کہ حمل کا معاملہ یقینی نہیں ہوتا اس میں یہ احتمال ہوتا ہے کہ پیٹ میں ہوا بھر جانے کی وجہ سے یا کسی بیماری کی بنا پر پیٹ میں ابھار پیدا ہوگیا ہو۔ جب صورت حال یہ ہو تو شوہر کو قاذف قرار دینا جائز نہیں ہوگا کیونکہ قذف احتمال کی بنا پر ثابت نہیں ہوتا۔ آپ نہیں دیکھتے کہ ایسی تعریض جس میں قذف کا احتمال ہو اور غیر قذف کا بھی اس کی بناء پر نہ تو لعان کا ایجاب جائز ہوتا ہے اور نہ ہی حد کا۔ جب یہ احتمال موجود ہو کہ شوہر نے جس حمل کی نفی کی ہے وہ بچے کی صورت میں ہو یا بچے کے سوا کسی اور چیز کی صورت میں تو ایسی حالت میں بچے کی پیدائش سے پہلے لعان واجب کردینا جائز نہیں ہوگا۔ پھر جب چھ ماہ سے پہلے بچے کی پیدائش ہوجائے تو ہمیں یہ یقین ہوجائے گا کہ حمل کی نفی کے وقت بچہ حمل کی صورت میں موجود تھا تاہم اس صورت میں بھی لعان واجب نہیں ہوگا۔ اس لئے کہ یہ چیز اس امر کی موجب ہوگی کہ قذف کو کسی شرط پر معلق کرنا درست نہیں ہوتا۔ آپ نہیں دیکھتے کہ شوہر اگر بیوی سے یہ کہتا کہ ” جب تیرے ہاں بچہ پیدا ہوگا تو تو زانیہ ہوگی۔ “ تو بچے کی پیدائش کی صورت میں وہ بیوی کا قاذف قرار نہ دیا جاتا۔ جو حضرات حمل کی بنا لعان کے قائل ہیں انہوں نے اس حدیث سے استدلال کیا ہے جسے اعمش نے ابراہیم سے، انہوں نے علقمہ سے اور انہوں نے حضرت عبداللہ بن مسعود ؓ سے روایت کی ہے کہ حضور ﷺ نے حمل کے سلسلے میں لعان کرایا تھا۔ اس روایت کی اصل وہ ہے جسے عیسیٰ بن یونس اور جریر دونوں نے اعمش سے۔ انہوں نے ابراہیم سے، انہوں نے علقمہ سے اور انہوں نے حضرت ابن مسعود ؓ سے نقل کیا ہے کہ ایک شخص نے یہ کہا تھا ” لوگو ! ذرا سوچو تو سہی کہ اگر کوئی شخص اپنی بیوی کے ساتھ کسی غیر مرد کو دیکھ لے اور پھر اسے قتل کردے تو تم لوگ اسے قتل کردیتے ہو اور اگر وہ اس کا ذکر کرے تو تم لوگ اسے کوڑے مارتے ہو اور اگر وہ خاموش رہے تو اپنا غصہ پی کر خاموش رہے۔ “ پھر لعان کی آیت نازل ہوئی۔ وہ شخص حضور ﷺ کے پاس آیا اور آکر اپنی بیوی کے ساتھ لعان کیا۔ اس روایت میں حمل کا ذکر نہیں ہے اور نہ ہی یہ ذکر ہے کہ اس نے حمل کے سلسلے میں لعان کیا تھا۔ ابن جریج نے یحییٰ بن سعید سے روایت کی ہے، انہوں نے القاسم بن محمد سے اور انہوں نے حضرت ابن عباس ؓ سے کہ ایک شخص نے آکر بتایا کہ اس نے اپنی بیوی کے ساتھ ایک غیر مرد کو پایا۔ پھر حضور ﷺ نے میاں بیوی کے درمیان لعان کرادیا اور فرمایا کہ ” اگر عورت کے ہاں بچہ اسی شکل کا پیدا ہو تو وہ اس غیر مرد کے نطفے سے ہوگا۔ “ ہمیں محمد بن بکر نے روایت بیان کی، انہیں ابودائود نے، انہیں محمد بن بشار نے ، انہیں ابن ابی عدی نے، انہیں ہشام بن حسان نے، انہیں عکرمہ نے حضرت ابن عباس ؓ سے کہ ہلال ؓ بن امیہ نے حضور ﷺ کے سامنے اپنی بیوی پر شریک بن سمحاء کے ساتھ بدکاری کا الزام لگایا۔ حضور ﷺ نے ان سے فرمایا کہ یا تو گواہ پیش کردیا پھر اپنی پشت پر کوڑے کھائو۔ اس روایت میں یہ ذکر ہے کہ آپ ﷺ نے سلسلہ کلام جاری رکھتے ہوئے فرمایا،” اس عورت کے ہاں جب بچہ پیدا ہوجائے اور اس کی شکل وصورت اس طرح ہو تو سمجھ لو کہ یہ شریک کے نطفے سے پیدا ہوا ہے “ عباد بن منصور نے عکرمہ سے اور انہوں نے حضرت ابن عباس ؓ سے اسی طرح کی روایت کی ہے۔ ان روایات میں یہ ذکر ہے کہ ہلال ؓ نے اپنی بیوی پر زنا کی تہمت لگائی تھی۔ امام ابوحنیفہ بھی قذف کی بنا پر لعان واجب قرار دیتے ہیں خواہ بیوی حاملہ ہی کیوں نہ ہو۔ اگر قذف کے بغیر شوہر حمل کی نفی کردیتا ہے تو اس صورت میں امام ابوحنیفہ لعان واجب نہیں کرتے۔ اگر یہ کہا جائے کہ قول باری ہے : (وان کن اولات حمل فانفقوا علیھن حتی یضعن حملھن) اور اگر وہ حاملہ ہوں تو ان پر خرچ کرو یہاں تک کہ وضع حمل ہوجائے۔ لونڈی کے بارے میں اگر عورتیں کہہ دیں کہ یہ حاملہ ہے تو حمل کے عیب کی بنا پر لونڈی واپس ہوجاتی ہے یعنی سودا منسوخ ہوجاتا ہے۔ حضور ﷺ کا قتل شبہ عمد کی دیت کے بارے میں ارشاد ہے کہ سواونٹوں میں سے چالیس اونٹنیاں ایسی ہوں جن کے پیٹ میں بچے ہوں۔ اس کے جواب میں کہا جائے گا کہ حاملہ کا نان ونفقہ حمل کی بنا پر واجب نہیں ہوتا یہ تو عدت کی بنا پر واجب ہوتا ہے ۔ جب تک عدت ختم نہیں ہوگی اس کا نام ونفقہ واجب رہے گا ۔ آپ نہیں دیکھتے کہ عدت گزارنے والی عورت اگر حاملہ نہ بھی اس کا نان ونفقہ بھی واجب ہوتا ہے۔ آیت میں حمل کا ذکر صرف اس لئے ہوا ہے کہ وضع حمل کے ساتھ عدت اختتام پذیر ہوجاتی ہے اور نان ونفقہ کا سلسلہ منقطع ہوجاتا ہے۔ عیب کی وجہ سے سودے کی واپسی کا جواز شبہ کی بنا پر بھی ہوجاتا ہے جس طرح ان تمام حقوق کا معاملہ ہے جو شبہ کی بنا پر ساقط نہیں ہوتے جبکہ حد کا اثبات شبہ کی بنا پر جائز نہیں ہوتا اس لئے یہ دونوں صورتیں ایک دوسرے سے مختلف ہوگئیں۔ اسی طرح جو حضرات دیت میں چالیس گابھن اونٹنیاں واجب کرتی ہیں تو وہ ظن غالب کی بنا پر ان کا وجوب کرتے ہیں لیکن ظن غالب کی بنا پر حد کا ایجاب جائز نہیں ہوتا۔ اس کی مثالی عورت کو جاری ہونے والے اس خون جیسی ہے کہ اس کے متعلق غالب ظن یہی ہوتا ہے کہ یہ حیض کا خون ہے لیکن جب تک تین دن نہ گزرجائیں اس کے متعلق قطعیت کے ساتھ یہ بات نہیں کہی جاسکتی۔ اسی طرح جس عورت کو ظاہراً حمل ہوگیا ہو اگر وہ خون دیکھے تو اس کا یہ خون حیض نہیں کہلائے گا لیکن اگر بعد میں یہ امر واضح ہوجائے کہ اسے حمل نہیں تھا تو یہ خون حیض شمار ہوگا۔ حضور ﷺ نے ہلال ؓ بن امیہ کے واقعہ میں یہ فرمایا تھا کہ اگر عورت کے ہاں پیدا ہونے والے بچے کے نقش ونگار اس نوعیت کے ہوں تو وہ شریک بن سمحاء کے نطفے سے ہوگا۔ حضور ﷺ نے جس صورت میں اس بچے کہ ہلال ؓ کی طرف منسوب کیا ہے اسے اس امر پر محمول کیا جائے گا کہ ان سے بچے کے نسب کو حقیقتہً ثابت کردیا گیا ہے۔ یہ بات اس پر دلالت کرتی ہے کہ جب ہلال ؓ نے اپنی بیوی کے حمل کے دوران اس کے ساتھ لعان کیا تو آپ نے حمل کی صورت میں موجود بچے کے نسب کی ہلال ؓ سے نفی نہیں کی۔ حضور ﷺ کا یہ ارشاد کہ ” اگر بچہ فلاں شکل وصورت کا پیدا ہو تو وہ شریک بن سمحاء کے نطفے سے ہوگا۔ “ تو اس سے مراد لینا جائز نہیں ہے کہ آپ ﷺ نے بچے کے نسب کو شریک کے ساتھ لاحق کرنا چاہا تھا بلکہ آپ کی مراد یہ تھی کہ غالب ظن کی بنیاد پر بچہ اس کے نطفے کا ہوگا۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ حضور ﷺ کا ارشاد ہے (الولد للغواش وللعاھرا الحجر بچہ اس کا ہوگا جسے عورت کے ساتھ ہم بستری کا حق ہے یعنی شوہر اور زانی کے لئے پتھر ہوگا) اگر یہ کہا جائے کہ عکرمہ کی حضرت ابن عباس ؓ سے روایت میں یہ ذکر ہے کہ جب ہلال ؓ نے اپنی بیوی کے ساتھ لعان کرلیا تو حضور ﷺ نے یہ فیصلہ سنایا کہ پیدا ہونے والے بچے کو اس کے باپ کی نسبت سے نہ پکارا جائے۔ اس کے جواب میں کہا جائے گا۔ اس امر کا ذکر صرف عباد بن منصور نے عکرمہ سے روایت کرتے ہوئے کیا ہے۔ عباد ایک ضعیف اور کمزور راوی ہے جس کے متعلق حدیث کو کوئی شک نہیں کہ عباد کی اس روایت میں بہت سے الفاظ ایسے ہیں جو حقیقتہً حضور ﷺ کی زبان مبارک سے اور انہیں ہوئے بلکہ بعد میں داخل کیے گئے ہیں۔ عباد بن منصور کے سوا کسی نے بھی درج بالا امر کا ذکر نہیں کیا ہے شبہ کی بنا پر نسب کی نفی کرنا نیز قذف ثابت کرنا جائز نہیں ہے۔ اس پر حضرت ابوہریرہ ؓ کی یہ روایت دلالت کرتی ہے کہ ایک بدوی حضور ﷺ کی خدمت میں آیا اور عرض کیا کہ میری بیوی کے ہاں پیدا ہونے والے بچے کا رنگ کالا ہے اور میں نے اسے اپنا بچہ تسلیم کرنے سے انکار کردیا ہے۔ آپ ﷺ نے اس سے پوچھا۔” آیا تمہارے پاس اونٹ بھی ہیں ؟ “ اس نے اثبات میں جواب دیا۔ پھر پوچھا :” ان کا رنگ کیسا ہے ؟ “ جواب ملا۔ ” سرخ ہے۔ “ آپ ﷺ نے پھر پوچھا۔ ” آیا ان اونٹوں میں خاکستری رنگ کا بھی کوئی انٹ ہے ؟ ” اس نے اثبات میں جواب دیا۔ آپ نے فرمایا : تمہارے خیال میں یہ خاکستری رنگ کا اونٹ کہاں سے پیدا ہوگیا ؟ “ بدوی نے جواب دیا ” کوئی رگ ہوگی یعنی اس کے سلسلہ نسب میں کوئی اس رنگ کا اونٹ ہوگا جس نے اسے اپنی طرف کھینچ لیا ہوگا۔ “ یہ سن کر آپ ﷺ نے فرمایا ” ھپر تمہارے اس بچے کے سلسلے میں بھی یہی بات ہوئی ہے کہ شاید کسی رگ نے اسے اپنی طرف کھینچ لیا ہے۔ “ حضور ﷺ نے بدوی کے ساتھ اس کے بیٹے کی مشابہت میں بعد ہونے کی بنا پر اس بیٹے کے نسب کی نفی کی اجازت نہیں دی۔ یہ بات اس پر بھی دلالت کرتی ہے کہ شبہ کی بنا پر نسب کی نفی جائز نہیں ہوتی۔ فصل ہمارے اصحاب کا قول ہے کہ جب شوہر اپنی بیوی کے ہاں پیدا ہونے والے بچے کے نسب کی نفی کردے گا تو اس پر لعان واجب ہوگا ۔ امام شافعی کا قول ہے اس پر اس وقت تک لعان واجب نہیں ہوگا۔ جب تک وہ یہ نہ کہے کہ اس عورت کے ہاں زنا کے نتیجے میں بچہ پیدا ہوا ہے۔ ابوبکر حبصاص کہتے ہیں کہ ہمیں محمد بن بکر نے روایت بیان کی، انہیں ابودائود نے، انہیں القبعنی نے امام مالک سے، انہوں نے نافع سے اور انہوں نے حضرت ابن عمر ؓ سے کہ ایک شخص نے حضور ﷺ کے زمانے میں اپنی بیوی کے ساتھ لعان کیا اور بچے کے نسب کی نفی کردی۔ حضور ﷺ نے میاں بیوی میں علیحدگی کرادی اور بچے کو عورت کے ساتھ لاحق کردیا۔ حضرت ابن عمر ؓ نے یہ بتایا کہ آپ نے دونوں کے درمیان بچے کی نفی کی بنا پر لعان کرایا تھا جس سے یہ بات ثابت ہوئی کہ بیوی کے ہاں پیدا ہونے والے بچے کی نفی کردینا قذف ہے جس سے لعان واجب ہوجاتا ہے۔ اگر چار آدمی کسی عورت کے خلاف زنا کی گواہی دیں اور ان میں سے ایک اس کا شوہر بھی ہو تو ایسی گواہی کا حکم ہمارے اصحاب کا قول ہے کہ ان کی گواہی جائز ہے اور عورت پر حد زنا قائم ہوجائے گی۔ امام شافعی اور امام مالک کا قول ہے کہ شوہر لعان کرے گا اور باقی تین گواہوں کو حد قذف لگے گی۔ حسن اور شعبی سے بھی ان کے قول کی طرح روایت منقول ہے۔ حضرت ابن عباس ؓ سے مروی ہے کہ شوہر لعان کرے گا اور باقی تین گواہوں کو حد لگے گی۔ ابوبکر حبصاص کہتے ہیں کہ قول باری : (واللاتی یا تین الفاحشۃ من نسآء کم فاستشھدوا علیھن اربعۃ منکم۔ اور تمہاری وہ عورتیں جو بد چلنی کی مرتکب ہوجائیں ان پر اپنوں میں سے چار گواہ قائم کرو) اللہ تعالیٰ نے اس آیت میں یہ فرق نہیں کیا کہ چاروں گواہ شوہر کے سوا دوسرے مرد ہوں یا شوہر بھی ان میں سے ایک ہو۔ ارشاد باری ہے : (والذین یرمون المحصنات ثم لم یاتوا باربعۃ شھدآء فاجلدوھم ثماتین جلدۃ) اگر کوئی غیر مرد کسی عورت کو قذف کرے اور اس پر چار گواہ پیش کردے جن میں شوہر بھی شامل ہو تو ظاہر آیت کا تقاضا ہے کہ ان کی گواہی درست ہوجائے گی اور قاذف سے حد قذف ساقط ہوجائے گی نیز عورت پر حد زنا لازم ہوجائے گی۔ نیز اس میں کوئی اختلاف نہیں ہے کہ تمام حقوق میں، نیز قصاص اور حدود یعنی سرقہ، قذف اور شرب خمر میں بیوی کے خلاف شوہر کی گواہی درست ہوتی ہے۔ اگر یہ کہا جائے کہ شوہر اپنی بیوی کو جب قذف کرتا ہے تو اس پر لعان واجب ہوجاتا ہے۔ اس لئے وہ گواہ نہیں بن سکتا۔ اس کے جواب میں کہا جائے گا کہ شوہر جب تین گواہوں کے ساتھ چوتھا گواہ بن کر آئے گا تو اس وقت وہ قاذف نہیں ہوگا اور نہ ہی اس پر لعان واجب ہوگا۔ لعان تو اس وقت واجب ہوگا جب وہ بیوی کو قذف کرے لیکن اس کے ثبوت میں چار گواہ پیش نہ کرسکے جس طرح اجنبی یعنی غیر مرد اگر کسی عورت کو قذف کرتا ہے تو اس پر حد واجب ہوجاتی ہے الا یہ کہ چار گواہ پیش کردے جو اس کے سوا ہوں اور آکر زنا کی گواہی دیں۔ اگر یہ غیر مرد تین گواہ لائے اور وہ زنا کی گواہی دے دیں تو اس صورت میں یہ قاذف قرار نہیں پائے گا بلکہ گواہ کہلائے گا۔ یہی حکم شوہر کا بھی ہے۔ اگر زوجین میں سے کوئی لعان کرنے سے انکار کرکے تو اس کا حکم امام ابوحنیفہ، امام ابو یوسف ، امام محمد اور زفر کا قول ہے کہ زوجین میں سے جو بھی لعان کرنے سے انکار کرے گا اسے قید کردیا جائے گا اور جب لعان کرلے گا تو اسے رہا کیا جائے گا۔ امام مالک، حسن بن صالح، لیث سن سعد اور امام شافعی کا قول ہے کہ جو بھی لعان کرنے سے انکار کرے گا اسے حد لگائی جائے گی، شوہر کے انکار پر اسے حد قذف لگائی جائے گی اور بیوی کے انکار پر اسے حد زنا لگائی جائے گی۔ معاذ بن معاذ نے اشعت سے اور انہوں نے حسن بصری سے روایت کی ہے کہ اگر شوہر لعان کرلے اور بیوی لعان کرنے سے انکار کرے تو اسے قید میں ڈال دیا جائے گا۔ مکحول، ضحاک اور امام شافعی سے مروی ہے کہ شوہر لعان کرلے اور بیوی انکار کرے تو اسے رجم کردیاجائے گا۔ ابوبکر حبصاص کہتے ہیں کہ قول باری ہے : (واللاتی یاتین الفاحشۃ من نسآء کم فاستشھدو ا علیھن اربعۃ منکم) نیز ارشاد ہے (ثم لم یاتوا باربعۃ شھدآء ) نیز حضور ﷺ نے ہلال بن امیہ سے فرمایا تھا جب انہوں نے اپنی بیوی پر شریک بن سمحاء کے ساتھ زنا کاری کی تہمت لگائی تھی کہ ” چار گواہ لائو ورنہ تمہاری پشت پر حد لگے گی۔ “ نیز آپ نے ماعز اور غامد یہ میں سے ہر ایک کو زنا کے اعتراف پر واپس کردیا تھا حتیٰ کہ ہر ایک نے چار مرتبہ زنا کاری کا اقرار کیا تھا۔ جس پر آپ نے انہیں رجم کردیا تھا۔ ان دلائل سے یہ بات ثابت ہوگئی کہ ترک لعان کی بنا پر عورت پر حدواجب کردینا جائز نہیں ہے۔ اس لئے کہ یہ نہ تو گواہی ہے اور نہ ہی اقرار ہے۔ اس کے ساتھ حضور ﷺ کا ارشاد ہے : (لا یحل دم امری مسلم الا باحدی ثلاث زنا بعد احصان وکفر بعد ایمان وقتل نفس بغیر نفس) کسی مسلمان کا خون تین میں سے ایک بات کی بنا پر حلال ہوتا ہے۔ احصان کے بعد زنا کاری ہو، ایمان لانے کے بعد کفر ہو اور ناحق کسی کا قتل ہو : آپ نے ان تین باتوں کے سوا کسی اور بات پر قتل کے وجوب کی نفی کردی۔ لعان کرنے سے انکار ان تین باتوں سے خارج ہے۔ اس لئے عورت کو رجم کرنا واجب نہیں ہوگا۔ جب عورت پر محصنہ ہونے کی حالت میں رجم واجب نہیں تو غیر محصن ہونے کی صورت میں کوڑے بھی واجب نہیں ہوں گے اس لئے کہ کسی نے بھی ان دونوں کے درمیان فرق نہیں کیا ہے۔ اگر یہ کہا جائے کہ حضور ﷺ کا ارشاد (دم امری مسلم) صرف مرد کو شامل ہے اس میں عورت کا دخل نہیں ہے تو اس کے جواب میں کہا جائے گا کہ بات اس طرح نہیں ہے کیونکہ اس میں کوئی اختلاف نہیں ہے کہ آپ کے اس ارشاد میں عورت بھی مراد ہے اور یہ حکم مرد اور عورت دونوں کے لئے عام ہے۔ نیز یہ لفظ جنس کے لئے ہے جس طرح یہ ارشاد باری ہے : (ان امرء ھلک لیس لہ ولد۔ اگر کوئی شخص مرجائے اور اس کا کوئی ولد نہ ۔ ) نیز ارشاد ہے (یوم یفرالموء من اخیہ۔ اس دن ایک شخص اپنے بھائی سے پیچھا چھڑا کر بھاگے گا) نیز اس میں کوئی اختلاف نہیں ہے کہ عدالتوں میں پیش ہونے والے مقدمات میں مدعیوں کے دعووں سے انکار کی بنا پر فریق مخالف کی جان پر حق ثابت نہیں ہوتا، یہی صورت تمام حدود کے مقدمات کے اندر بھی ہے۔ اس لئے لعان سے انکار پر عورت کی جان پر حق ثابت نہ ہونا بطریق اولیٰ ہوگا۔ اگر یہ کہا جائے کہ جب ارشاد باری ہے (والیشھد عذابھما طائفۃ من المومنین اور مسلمانوں کا ایک گروہ ان دونوں کی سزائوں کے وقت موجود رہے) اس میں سزا سے مراد حد زنا ہے۔ پھر ارشاد ہوا : (وید رء عنھا العذاب ان تشھد ارلج شھادات باللہ) اور عورت سے عذاب یعنی سزا کو یہ بات دور کردے گی کہ وہ چار بار گواہی دے۔ اس آیت میں لفظ عذاب کو الف لام کے ذریعہ معرفہ کی صورت میں ذکر کیا گیا ہے تو ان دونوں آیتوں سے ہمیں یہ بات معلوم ہوگئی کہ عذاب سے وہی عذاب یعنی سزا مراد ہے جس کا ذکر پہلی آیت میں ہوا ہے۔ اس کے جواب میں کہا جائے گا کہ یہ ایک واقعہ اور ایک حکم نہیں ہے کہ اس سے وہ بات لازم آجائے جس کا معترض نے ذکر کیا ہے کیونکہ صورت کی ابتداء میں زنا کاروں کا حکم بیان ہوا ہے پھر قذف کرنے والوں کا۔ بیویوں اور اجنبی عورتوں کو قذف کرنے کی صورت میں یہی حکم نافذ العمل رہا اور اپنے عموم کی حالت میں باقی رہا حتیٰ کہ بیویوں کو قذف کرنے والوں کے سلسلے میں لعان کے حکم کی بنا پر یہ حکم منسوخ ہوگیا۔ ایک مقام پر عذاب کا ذکر کرکے اس سے حدزنا مراد لی گئی ہے پھر دوسرے مقام پر اس عذاب کو الف لام کے ذریعہ معرفہ کی صورت میں ذکر کرنے سے ایسی بات نہیں پیدا ہوئی جو اس امر کی موجب بن جاتی کہ زوجین کے مابین لعان سلسلے میں جس عذاب کا ذکر ہے وہی زناکاروں کے سلسلے میں بھی مذکور ہے کیونکہ عذاب صرف حد کی صورت کے ساتھ مخصوص نہیں ہے بلکہ عذاب اور سزا کی دوسری کئی صورتیں بھی ہیں۔ ارشاد باری ہے : (الا ان یسجن اوعذاب الیم الا ) یہ کہ اس سے قید میں ڈالا جائے یا درد ناک عذاب سے دو چار کیا جائے یہاں سے عذاب سے حد مراد نہیں ہے۔ نیز ارشاد ہے (لا عذبنہ عذابا شدیدا اولاذبحنہ) میں اسے سخت عذاب دوں گا یا اسے ذبح کرڈالوں گا یہاں بھی عذاب سے حد مراد نہیں ہے۔ یہی صورت اس آیت کی بھی ہے :(ومن یظلم منکم نذقہ عذابا کبیرا) تم میں سے جو ظلم کرے گا ہم اسے ایک بڑے عذاب کا مزہ چکھائیں گے۔ یہاں بھی حد مراد نہیں ہے۔ عبید بن الابرص کا شعر ہے۔ والمرء ماعاش فی تکذیب طول الحیاۃ لہ تعذیب انسان جب تک زندہ رہتا ہے تکذیب میں لگا رہتا ہے اور اس طرح ساری زندگی وہ عذاب میں مبتلارہتا ہے۔ حضور ﷺ کا ارشاد ہے : السفر قطعۃ من العذاب۔ سفر عذاب کا ایک ٹکڑا ہے۔ جب عذاب کا اسم کسی خاص نوعیت کی سزا کے ساتھ مخصوص نہیں ہے اور یہ بات بھی واضح ہے اس سے سزائوں کی تمام صورتیں مراد نہیں ہیں تو اب یہ لفظ دو معنوں میں سے ایک پر محمول ہوگا۔ یا تو جنس کے معنی پر محمول ہوگا اس صورت میں اس کا اطلاق سزا کی اس کم سے کم صورت پر ہوگا جسے عذاب کے نام سے موسوم کیا جاسکتا ہو خواہ وہ سزا جس قسم کی بھی ہو۔ یا پھر یہ ایک مجمل لفظ ہوگا جسے بیان اور تفصیل کی ضرورت ہوگی۔ اس سے سزا کی کوئی معہود یعنی متعین صورت مراد لینا جائز نہیں ہوگا کیونکہ معہود اس امر کو کہتے ہیں جس کا خطاب کے اندر ذکر پہلے گزر چکا ہو اور پھر کلام اسی کی طرف راجع ہوجائے۔ اس لئے کہ مخاطبین کے ذہنوں میں اس کے یہی معنی متعین ہوتے ہیں اور مراد یہی ہوتی ہے کہ کلام اس معنی کی طرف راجع ہوجائے۔ آیت میں شوہر کے قذف اور اس کے نتیجے میں لعان کے ایجاب کا جو ذکر ہے اس میں کوئی ایسی بات نہیں ہے جو عورت پر حد کے استحقاق کو واجب کردے۔ اس لئے آیت میں مذکور لفظ عذاب سے حد مراد لینا جائز نہیں ہے۔ ایک طرف تو یہ بات رہی دوسری طرف مدعی علیہ سے قسم اٹھوانا بعض دفعہ مدعی کا حق شمار ہوتا ہے حتیٰ کہ اگر مدعا علیہ اس سے انکار کردے تو اسے اس انکار پر قید کردیاجاتا ہے۔ یہ صورت قسامت کے مقدمے میں پیش آتی ہے کہ متعلقہ پچاس افراد جو درحقیقت مدعا علیہ ہیں اگر قسمیں کھانے سے انکار کردیں تو انہیں قید کردیا جاتا ہے۔ اس طرح لعان سے انکار کرنے والے کا بھی معاملہ ہے۔ اس پر حدواجب کرنے سے اسے قید میں ڈال دینا بہتر ہے۔ کیونکہ اصول شریعت میں انکار پر حد کے ایجاب کی کوئی مثال نہیں ہے جبکہ انکار پر حبس کے ایجاب کی مثال موجود ہے جس کا ابھی ہم نے ذکر کیا ہے ۔ نیز انکار دو معنوں میں سے ایک پر محمول ہوتا ہے یا تو یہ اس چیز کا بدل قرار پاتا ہے جس پر قسم اٹھانے کا مطالبہ کیا جاتا ہے یا یہ اقرار کے قائم مقام ہوتا ہے۔ حدود کا بدل تو کسی صورت میں بھی درست نہیں ہوتا۔ اسی طرح جو چیز کسی اور چیز کے قائم مقام ہو اس کی بنا پر حد کا ایجاب جائز نہیں ہوتا۔ مثلاً گواہی پر گواہی یا قاضی کی تحریر کسی دوسرے قاضی کے نام یا مردوں کے ساتھ عورتوں کی گواہی وغیرہ۔ نیز چونکہ انکار اقرار کی صریح صورت نہیں ہوتی اس لئے اس کی بنا پر حد کا اثبات جائز نہیں ہوتا جس طرح تعریض یا اس لفظ کا حکم ہے جس میں زنا اور غیر زنا دونوں کا احتمال ہو۔ اس کی وجہ سے نہ تو اقرار کرنے والے پر اور نہ ہی قاذف پر حد واجب ہوتی ہے۔ اگر یہ کہا جائے کہ ہلال ؓ بن امیہ کے واقعہ کے سلسلہ میں حضرت ابن عباس ؓ وغیرہ سے مروی روایات میں ذکر ہے کہ حضور ﷺ نے جب میاں بیویں کے درمیان لعان کرانا چاہا تو آپ ﷺ نے عورت کو وعظ کرتے ہوئے اسے یاد دلایا کہ دنیا کی سزا آخرت کے عذاب سے ہلکی ہوتی ہے اسی طرح آپ ﷺ نے مرد کو بھی انہیں باتوں کی تلقین کی۔ اب یہ بات تو واضح ہے کہ آپ ﷺ نے دنیا کے عذاب سے حد زنایا حد قذف مراد لی تھی۔ اس کے جواب میں کہاجائے گا کہ یہ بات غلط ہے اس لئے کہ عذاب دنیا سے آپ ﷺ کی مراد یا تو حبس تھی یا بصورت اقرار حد تھی۔ اگر حبس مراد ہو یہ تو انکار کی صورت میں لازم ہوتا ہے۔ اگر آپ نے حد مراد لی تھی تو یہ اس وقت لازم ہوتی جب عورت اس فعل کا اقرار کرلیتی جو حد کو واجب کردیتا ہے یا مرد جھوٹ بولنے کا اقرار کرلیتا ۔ اس لئے اس روایت میں کوئی ایسی دلالت نہیں ہے جو انکار کی صورت میں حد کو واجب کردیتی ہو۔ حبس کو واجب نہ کرتی۔ اگر یہ کہا جائے کہ عورت پر حد اس صورت میں واجب ہوتی ہے جب اس کی طرف سے انکار ہو اور مرد لعان کے تحت قسمیں کھالے۔ اسی طرح مرد پر حد اس صورت میں واجب ہوگی جب اس کی طرف سے انکار ہو اور عورت قسمیں کھالے۔ اس کے جواب میں کہاجائے گا کہ انکار اور قسمیں ایسے امور ہیں جن کی بنا پر حد کا استحقاق درست نہیں ہوتا۔ آپ نہیں دیکھتے کہ جو شخص کسی قذف کا عویٰ کرتا ہے اس سے اس دعوے پر حلف کا مطالقہ نہیں کیا جاتا اور مدعا علیہ کے انکار کی صورت میں نیز اس کی قسم کی وجہ سے مدعی پر حد واجب نہیں ہوتی۔ تمام حدود کی بھی یہی صورت ہے۔ ان میں حلف اٹھانے کا مطالبہ نہیں کیا جاتا اور نہ ہی مدعا علیہ کے انکار اور قسم کی بات رد کردینے کی بنیاد پر فیصلہ کردیا جاتا ہے۔ اگر زوجین اس امر میں ایک دوسرے کی تصدیق کردیں کہ بچہ شوہر کا نہیں ہے سو اس کا حکم ؟ امام ابوحنیفہ، امام ابویوسف، امام محمد اور امام شافعی کا قول ہے کہ شوہر سے بچے کی نفی صرف لعان کے ذریعے ہی ہوسکتی ہے۔ ہمارے اصحاب کا قول ہے کہ عورت اگر اس کی تصدیق کردیتی ہے کہ بچہ ولد زنا ہے تو اس سے لعان باطل ہوجائے گا اور پھر شوہر سے بچے کے نسب کی کبھی بھی نفی نہیں ہوسکے گی۔ امام مالک اور لیث بن سعد کا قول ہے کہ جب زوجین اس امر میں ایک دوسرے کی تصدیق کردیں کہ بچہ بیوی کے پیٹ سے پیدا ہوا ہے لیکن شوہر کے نطفے سے نہیں ہے تو اس صورت میں بچہ شوہر کے لئے لازم نہیں ہوگا اور عورت کو حد لگے گی۔ ابن القاسم نے امام مالک سے ذکر کیا ہے کہ اگر چار آدمی کسی عورت کے خلاف یہ گواہی دے دیں کہ اس نے چار ماہ ہوئے بدکاری کی ہے۔ وہ عورت حاملہ ہو اور اس کے شوہر کو گھر سے گئے ہوئے بھی چار ماہ ہوچکے ہوں پھر امام المسلمین اس کا مقدمہ وضع حمل تک موخر رکھے اور اس کے بعد اسے رجم کردے۔ رجم کے بعد شوہر بھی آجائے اور پیدا شدہ بچہ کی یہ کہہ کر نفی کر دے کہ میں نے اپنی بیوی کا استبراء رحم کرلیا تھا یعنی جب میں گھر سے گیا تھا اس وقت اسے کوئی حمل نہیں تھا تو اس صورت میں وہ لعان کرکے بچے کے نسب کی نفی کرے گا اس صورت میں لعان ہی بچے کے نسب کی نفی کا ذریعہ بنے گا۔ ابوبکر حبصاص کہتے ہیں کہ حضور ﷺ کا ارشاد ہے : (الولد للفراش وللعاھر الحجر ) بچہ اس کا ہے جو بسر کا حقدار ہے یعنی شوہر اور زنی کے لئے پتھر ہے۔ ظاہر حدیث تو اس امر کی مقتضی ہے کہ صاحب فراش یعنی شوہر سے بچے کا نسب کبھی منتفی نہ ہو لیکن جب حدیث میں یہ حکم وارد ہوگیا کہ ایسے بچے کو لعان کے ذریعے ماں کے حوالے کرکے اس کا سلسلہ نسب ماں سے جوڑ کر باپ سے قطع کردیاجائے اور فقہاء امصار نے اس حکم پر عمل بھی کیا تو ہم نے بھی اسے تسلیم کرلیا لیکن اس کے علاوہ باقیماندہ صورتیں جن کے متعلق سنت میں کوئی حکم موجود نہیں۔ ان میں حضور ﷺ کے ارشاد : الولد للفراش کے ظاہری معنی کی بنا پر بچہ باپ کے ساتھ ملحق کردیاجائے گا۔ ہمیں محمد بن بکر نے روایت بیان کی انہیں ابودائود نے، انہیں موسیٰ بن اسماعیل نے، انہیں ابویحییٰ مہدی بن میمون نے، انہیں محمد بن عبداللہ بن ابی یعقوب نے حسن بن علی بن ابی طالب کے آزاد کردہ غلام حسن بن سعد نے رباح سے، وہ کہتے ہیں کہ میرے گھر والوں نے ایک رومی لونڈی سے میرانکاح کردیا۔ میں نے اس کے ساتھ ہمبستری کی اور میری طرح کالے رنگ کا لڑکا پیدا ہوا۔ میں نے اس کا نام عبداللہ رکھا ۔ پھر اس عورت کے ساتھ ہمارے خاندان کے ایک رومی غلام کی آشنائی ہوگئی جس کا نا یوحنا تھا اور اس نے اسے اپنی زبان میں ورغلاکر بدکاری پر رضا مند کرلیا جس کے نتیجے میں ایک لڑکا پیدا ہوا جو شکل وصورت میں چھپکلی معلوم ہوتا تھا۔ میں نے اپنی بیوی سے پوچھا یہ بچہ کس کا ہے اس نے جواب میں کہا کہ ” یوحنا کا ہے۔ “ اس پر ہم نے یہ مقدمہ امیر المومنین حضرت عثمان ؓ کی عدالت میں پیش کیا۔ آپ نے دونوں سے اس بدکاری کے متعلق پوچھا تو دونوں نے اس کا اعتراف کرلیا۔ پھر آپ نے ان سے کہا کہ اگر میں تمہارے درمیان حضور ﷺ کے فیصلے کے مطابق فیصلہ کردوں تو آیا تم اس کے لئے رضامند ہوجائو گے ؟ پھر آپ نے فیصلہ سنایا کہ بچہ اس کا ہے جو صاحب فراش ہے یعنی شوہر۔ اس کے ساتھ ہی آپ نے میری بیوی اور یوحنا دونوں کو کوڑے لگوائے۔ یہ دونوں مملوک تھے۔ لعان کی بنا پر علیحدگی کا بیان امام ابوحنیفہ، امام ابویوسف اور امام محمد کا قول ہے کہ لعان سے زوجین کی فراغت پر ان کے درمیان علیحدگی واقع نہیں ہوگی جب تک حاکم علیحدگی نہیں کرائے گا، امام مالک، امام زفر اور لیث بن سعد کا قول ہے کہ لعان سے فارغ ہوتے ہی علیحدگی واقع ہوجائے گی خواہ حاکم ان کے درمیان علیحدگی نہ بھی کرائے۔ سفیان ثوری اور اوزاعی سے منقول ہے کہ صرف شوہر کے لعان کی بنا پر علیحدگی واقع نہیں ہوگی۔ عثمان البتی کا قول ہے کہ میرے خیال میں شوہر کا اپنی بیوی کو لعان کرنا کسی چیز کے نقصان کا باعث نہیں بنتا اور مجھے یہ بات پسند ہے کہ لعان کے بعدوہ اسے طلاق دے دے۔ امام شافعی کا قول ہے کہ جب شوہر اللہ کی قسم کھا کر چار مرتبہ اپنی صداقت کی گواہی دے دے اور پانچویں بار جھوٹا ہونے کی صورت میں اپنے اوپر لعنت بھیج کر فارغ ہوجائے تو اس کے ساتھ ہی فراش یعنی بیوی کے ساتھ ہم بستری کا حق ختم ہوجائے گا اور پھر وہ عورت کبھی بھی اس کے لئے حلال نہیں ہوسکے گی خواہ وہ لعان کرے یا نہ کرے۔ ابوبکر حبصاص کہتے ہیں کہ اس سلسلے میں عثمان البتی کا یہ قول متفرد ہے کہ لعان کے بعد میاں بیوی میں علیحدگی نہیں ہوگی۔ ہمیں ہیں معلوم کہ کسی اور اہل علم نے یہ بات کہی ہو۔ اسی طرح امام شافعی کا یہ قول کہ شوہر کی طرف سے لعان کرنے کے ساتھ ہی علیحدگی واقع ہوجاتی ہے فقہاء کے اقوال کیدائرے سے خارج ہے۔ اس سلسلے میں امام شافعی سے پہلے کسی نے قول اختیار نہیں کیا تھا۔ لعان کی بنا پر واقع ہونے والی علیحدگی حاکم کے حکم کے ذریعے ہوگی اس کی دلیل وہ حدیث ہے جس کی محمد بن بکونے روایت کی ہے، انہیں ابودائود نے ، انہیں القعنبی نے امام مالک سے ، انہوں نے ابن شہاب سے کہ حضرت سہل ؓ سن سعد الساعدی نے انہیں بتایا تھا کہ عویمر العجلانی نے حضور ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوکر عرض کیا۔ اگر آپ شخص اپنی بیوی کے ساتھ غیر مرد کو دیکھ لے تو آپ کا کیا خیال ہے کہ وہ اسے قتل کردے اور پھر آپ لوگ اس کے بدلے میں شخص کو قتل کردیں یا پھر وہ کونسا قدم اٹھائے ؟ “ آپ نے ان کی بات سن کر جواب میں فرمایا “۔ اللہ تعالیٰ نے تمہارے اور تمہاری بیوی اس مقدمے کے متعلق قرآن نازل فرما دیا ہے۔ جائو جاکر اپنی بیوی کو لے آئو۔ “ حضرت سہل ؓ فرماتے ہیں کہ دونوں میاں بیوی نے لعان کیا اس وقت میں بھی لوگوں کے ساتھ حضور ﷺ کے پاس موجود تھا۔ جب ہمیں فراغت ہوئی تو عویمر کہنے لگے۔ ” اللہ کے رسول اگر میں اب بھی اسے اپنی بنائے رکھوں تو اس کا مطلب یہ ہوگا کہ میں نے اس کے متعلق جھوٹ کہا ہے اس لئے اب میں اسے تین طلاق دیتا ہوں۔ “ حضور ﷺ کے حکم دینے سے پہلے ہی عویمر نے اپنی بیوی کو تین طلاقیں دے دیں۔ ابن شہاب زہری کہتے ہیں کہ ” لعان کرنے والے زوجین کے متعلق یہی سنت بن گئی۔ “ اس روایت میں یہ دلالت موجود ہے کہ لعان کی وجہ سے علیحدگی واجب نہیں ہوئی کیونکہ عویمر نے یہ کہا تھا کہ اگر میں اسے اپنی بیوی بنائے رکھوں گا تو اس کا مطلب یہ ہوگا کہ میں نے اس کے بارے میں جھوٹ کہا ہے۔ “ اس فقرے کے ذریعے انہوں نے یہ بتایا کہ وہ لعان کے بعد بھی سابقہ نکاح پر اسے اپنی بیوی بنائے رکھیں گے کیونکہ اگر اس سے پہلے علیحدگی واقع ہوچکی ہوتی تو عویمر کا درج بالا فقرہ غلط اور محال ہوتا کیونکہ علیحدگی کی صورت میں وہ اسے اپنی بیوی بنا کر رکھ ہی نہیں سکتے تھے۔ جب انہوں نے لعان کے بعد حضور ﷺ کے سامنے اسے اپنی بیوی بنائے رکھنے کی خبردی اور حضور ﷺ کی طرف سے بھی اس کی تردید نہیں ہوئی تو اس سے یہ دلالت حاصل ہوئی کہ نفس لعان کی بنا پر علیحدگی واقع نہیں ہوئی تھی۔ کیونکہ یہ تو ہو ہی نہیں سکتا تھا کہ حضور ﷺ کسی کو اس کی کذب بیانی پر برقرار رہنے دیتے یا باطل شدہ نکاح کی اباحت کی اجازت دے دیتے۔ اس سے یہ بات ثابت ہوگئی کہ نفس لعان کے ذریعے علیحدگی واقع نہیں ہوئی۔ اس پر وہ روایت بھی دلالت کرتی ہے جو ہمیں عبدالباقی بن قانع نے بیان کی ہے، انہیں احمد بن ابراہیم بن ملحان نے انہیں یحییٰ بن عبدالہل بن بکیر نے، انہیں لیث نے زید بن ابی حبیب سے کہ ابن شہاب زہرب نے ایک تحریر میں ذکر کیا تھا کہ حضرت سہل بن سعد ؓ نے انہیں بتایا تھا کہ عویمر نے حضور ﷺ سے عرض کیا تھا کہ ” آپ کا کیا خیال ہے کہ اگر میں اپنی بیوی کے ساتھ کسی غیر مرد کو دیکھ لوں تو آیا اسے قتل کر دوں ؟ “ یہ سن کر حضور ﷺ نے ان سے فرمایا کہ جائو جاکر اپنی بیوی کو لے آئو، اللہ تعالیٰ نے تمہارے بارے میں حکم نازل فرمادیا ہے۔ “ چناچہ عویمر اپنی بیوی کو لے آئے ، اس کے ساتھ لعان کیا اور کہنے لگے۔ ” اگر میں اس سے علیحدگی اختیار نہ کرلوں تو اس کا مطلب یہ ہوگا کہ میں نے اس پر افتراء کیا ہے اور اس کے متعلق کذب بیانی کی ہے۔ “ اس روایت میں عویمر نے یہ بتادیا کہ لعان کرکے انہوں نے بیوی سے علیحدگی اختیار نہیں کرلی تھی۔ نیز حضور ﷺ نے انہیں لعان کرنے کا جو حکمدیا تھا اس کی بنا پر بھی انہوں نے بیوی سے علیحدگی اختیار نہیں کی تھی۔ پھر جب انہوں نے بیوی کو طلاق دے دی اور حضور ﷺ نے بھی اس پر انہیں کچھ نہیں کہا تو اس سے یہ دلالت حاصل ہوئی کہ یہ طلاق نہ صرف برموقع تھی بلکہ درست بھی تھی۔ اس سلسلے میں امام شافعی کا یہ قول ہے کہ شوہر کے لعان کے ساتھ ہی بیوی بائن ہوجاتی ہے اور بائن ہونے کے بعد اسے طلاق لاحق نہیں ہوتی۔ امام شافعی کا یہ قول اس جہت سے زیر بحث روایت کے خلاف ہے۔ ہمیں محمد بن بکر نے روایت بیان کی، انہیں ابودائود نے، انہیں احمد بن عمرو بن السرح نے، انہیں ابن وہب نے عیاض بن عبداللہ الفہری وغیرہ سے، انہوں نے ابن شہاب سے اور انہوں نے حضرت سہل بن سعد ؓ سے عویمر کے لعان کے واقعہ کے سلسلے میں بیان کیا ہے کہ انہوں نے حضور ﷺ کی موجودگی میں اپنی بیوی کو تین طلاق دے دی اور آپ نے ان کی طلاقوں کو نافذ العمل قرار دیا۔ یہ واقعہ حضور ﷺ کی موجودگی میں پیش آیا۔ حضرت سہل ؓ کہتے ہیں کہ میں اس واقعہ کے وقت حضور ﷺ کے پاس موجود تھا۔ ابن شہاب کہتے ہیں کہ لعان کرنے والے زوجین کے متعلق یہی سنت جاری ہوگئی کہ ان کے درمیان علیحدگی ہوجائے اور پھر وہ کبھی رشتہ ازدواج میں یکجا نہ ہوں۔ حضرت سہل ؓ نے اس روایت میں یہ بات بتادی کہ حضور ﷺ نے عویمر العجلانی کی ان طلاقوں کو نفاذ العمل قرار دیا جو انہوں نے لعان کرنے کے بعد دی تھیں۔ اس پر ابن شہاب کا یہ قول بھی دلالت کرتا ہے کہ ” لعان کرنے والے زوجین کے متعلق یہ سنت جاری ہوگئی کہ ان کے درمیان علیحدگی کردی جائے۔ “ اگر لعان کے ساتھ ہی علیحدگی واقع ہوجاتی تو اس کے بعد پھر ان دونوں کے درمیان علیحدگی کرنے کا اقدام محال ہوتا۔ اس پر وہ روایت بھی دلالت کرتی ہے جو ہمیں محمد بن بکر نے سنائی، انہیں ابودائود نے، انہیں مسدد اور وہب بن بیان نیز دوسرے راویوں نے ، انہیں سفیان نے زہری سے، انہوں نے حضرت سہل بن سعد ؓ سے، انہوں نے بقول مسدد فرمایا۔” میں نے حضور ﷺ کے زمانے میں لعان کرنے والے زوجین کو دیکھا تھا۔ اس وقت میری عمر پندرہ برس تھی۔ جب وہ لعان کرچکے تو حضور ﷺ نے ان دونوں کے درمیان علیحدگی کرادی۔ اس موقع پر مرد نے کہا۔ اللہ کے رسول ! اگر میں اس عورت کو اب بھی اپنی بیوی بنائے رکھوں تو اس کا مطلب یہ ہوگا کہ میں نے اس کے متعلق کذب بیانی کی ہے۔ “ اس رویت میں بھی یہ بات بتائی گئی ہے کہ حضور ﷺ نے لعان کے بعد ان دونوں کے مابین علیحدگی کرادی تھی۔ ہمیں محمد بن بکر نے روایت بیان کی، انہیں ابودائود نے، انہیں احمد بن حنبل نے، انہیں اسماعیل نے، انہیں ایوب نے سعید بن جبیر سے، وہ کہتے ہیں کہ میں نے حضرت ابن عمر ؓ سے پوچھا کہ ایک شخص نے اپنی بیوی کو قذف کیا تھا۔ حضرت ابن عمر ؓ نے یہ سن کر فرمایا کہ حضور ﷺ نے بنوالعجلان کے ایک جوڑے کے درمیان علیحدگی کرادی تھی۔ اس موقعہ پر آپ نے ان سے فرمایا تھا کہ ” اللہ کو علم ہے کہ تم میں سے ایک کاذب ہے، آیا تم میں سے کوئی اپنی بات سے رجوع کرنے والے ہے ؟ “ آپ ﷺ نے اپنی یہ بات تین دفعہ دہرائی، لیکن دونوں میاں بیوی اپنی بات پر اڑے رہے۔ اس پر آپ نے دونوں کے درمیان علیحدگی کرادی۔ اس روایت میں بھی نصاً یہ بات بیان ہوئی کہ آپ نے لعان کے بعد دونوں کے درمیان علیحدگی کرادی تھی۔ ہمیں محمد بن بکر نے روایت بیان کی، انہیں ابودائود نے، انہیں القغبی نے امام مالک سے، انہوں نے نافع ؓ سے اور انہوں نے حضرت ابن عمر ؓ سے کہ ایک شخص نے حضور ﷺ کے زمانے میں اپنی عورت کے ساتھ لعان کیا اور عورت سے پیدا ہونے والے بچے کی نفی کردی۔ حضور ﷺ نے دونوں کے درمیان نفی کرادی اور بچے کو عورت کے ساتھ لاحق کردیا۔ یہ بھی اس بات پر نص ہے کہ حضور ﷺ ایسے جوڑوں کے درمیان علیحدگی کرادیا کرتے تھے۔ نیز اگر شوہر کے لعان کے ساتھ ہی علیحدگی واقع ہوجاتی تو حضور ﷺ اس وقت اس حکم کا ضرورذکر کردیتے جب اس علیحدگی کی بنا پر تحریم اور دوسرے متعلقہ احکام کا ذکر ہوا۔ جب حضور ﷺ نے شوہر کے لعان کے ساتھ علیحدگی واقع ہوجانے کا حکم نہیں سنایاتو اس سے یہ بات ثابت ہوگئی کہ لعان کی وجہ سے علیحدگی واقع نہیں ہوئی۔ نیز امام شافعی کا قول متعلقہ آیت کے خلاف ہے۔ اس لئے کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا : (والذین یومون ازواجھم پھر فرمیا ا : فشھادۃ احدھم : اس کے بعد فرمایا : ویدرء عنھا العذاب) یہاں بیوی مراد ہے اگر شوہر کے لعان کے ساتھ ہی علیحدگی واقع ہوجاتی تو عورت کا لعان اس حالت میں ہوتا جب وہ اجنبی بن چکی ہوتی۔ یہ بات ظاہر آیت کے خلاف ہے کیونکہ اللہ تعالیٰ نے میاں بیوی کے درمیان لعان واجب کیا ہے۔ شوہر اور اجنبی عورت کے درمیان نہیں۔ اسے ایک اور پہلو سے دیکھئے، اس حکم میں کوئی اختلاف نہیں ہے کہ شوہر جب بینونت کے بعد عورت پر زنا کا الزام لگائے جس میں بچے کا ذکر نہ ہو یا اسے قذف کرنے کے بعد طلاق بائن دے دے تو ان دونوں صورتوں میں وہ لعان نہیں کرے گا۔ جب یہ بات جائز نہیں ہوئی شوہر ایسی حالت میں عورت کے ساتھ لعان کرے جب وہ اس عورت کے لئے اجنبی بن چکا ہو تو یہ بات بھی جائز نہیں کہ جب عورت اس کے لئے اجنبی بن چکی ہو وہ اس کے ساتھ لعان کرے کیونکہ اس حالت میں لعان کا مقصد یہ ہوتا ہے کہ شوہر ہونے کی بنا پر عورت کے ساتھ اسے فراش یعنی ہمبستری کا جو حق حاصل ہوتا ہے وہ منقطع ہوجائے ۔ اب جب کہ بینونت کی بنا پر یہ تعلق منقطع ہوگیا تو لعان کی ضرورت بھی ممتنع ہوگئی۔ اس لئے کہ وہ اب اس کی بیوی نہیں رہی۔ اگر یہ کہا جائے کہ جن روایات میں لعان کرنے والے جوڑے کے درمیان حضور ﷺ کی طرف سے علیحدگی کرادینے کا ذکر ہے اس کا مفہوم دراصل یہ ہے کہ علیحدگی تو لعان کے ساتھ ہی واقع ہوگئی۔ حضور ﷺ نے اپنے ارشاد : (لا سبیل لک علیھا) تمہارے لئے اس عورت پر بالادستی حاصل کرنے کا کوئی وسیلہ باقی نہیں رہا۔ اسے صرف یہ بات بتادی کہ عورت اب اس کے لئے حلال نہیں ہوگی۔ اسکے جواب میں کہا جائے گا حضور ﷺ کے ارشاد سے یہ مفہوم اخذ کرکے گویا کلام کو اسکی حقیقت اور اصل مفہوم سے ہٹانے کی کوشش کی گئی ہے۔ اس لئے کہ آپ کے ارشاد : (لا سبیل لک علیھا) کے ذریعہ اگر علیحدگی واقع نہیں ہوئی تو گویا آپ کی طرف سے ان دونوں کے درمیان علیحدگی ہی نہیں کرائی گئی اور صرف آپ کی طرف سے متعلقہ حکم کی اطلاع دی گئی ہے کیونکہ حکم کی اطلاع دینے والا دونوں کے درمیان علیحدگی کرانے والا قرار نہیں پاتا ہے۔ اگر یہ کہا جائے کہ حضور ﷺ سے آپ کا یہ ارشاد منقول ہے : (المتلا عنان لا یحہمان ابدا) لعان کرنے والے میاں بیوی کبھی اکٹھے نہیں ہوسکتے۔ اس میں آپ علیحدگی کے واقع ہوجانے کی اطلاع دی کیونکہ علیحدگی کرانے تک نکاح اگر باقی رہتا تو اس سے یہ لازم آتا کہ اس وقت تک یہ دونوں اکٹھے سمجھے جاتے۔ اس کے جواب میں کہا جائے گا کہ حضور ﷺ سے یہ روایت درست نہیں ہے یہ صرف حضرت عمر ؓ اور حضرت علی ؓ سے مروی ہے کہ دونوں کے درمیان علیحدگی کرادی جائے گی اور یہ دونوں اکٹھے نہیں رہیں گے۔ اس قول سے ان دونوں حضرات کی مراد یہ ہے کہ جب ان کے درمیان علیحدگی کرادی جائے گی تو پھر یہ اکٹھے نہیں ہوں گے جب تک ایک دوسرے کے ساتھ لعان کی حالت میں رہیں گے اس لئے مناسب یہی ہے کہ علیحدگی ہوجائے تاکہ یہ حکم لگایا جائے کہ اب دونوں یکجا نہیں ہوں گے۔ اگر یہ روایت حضور ﷺ سے ثابت ہو بھی جائے تو اسے اس مفہوم پر محمول کیا جائے گا جو ہم نے ابھی بیان کیے ہیں۔ نیز اس کے ساتھ ان روایات کا بھی انضمام ہوجائے گا جو ہم پہلے بیان کر آئے ہیں اور جو لعان کے بعد بھی نکاح باقی رہنے پر دلالت کرتی ہیں نیز یہ کہ حاکم کی طرف سے علیحدگی کرانے پر ہی علیحدگی واقع ہوئی ہے۔ جب ہم مذکورہ بالا روایت اور اس روایت کے درمیان تطبیق کریں گے تو اس سے جو مفہوم اخذ ہوگا وہ یہی ہوگا کہ لعان کرنے والے میاں بیوی علیحدگی ہوجانے کے بعد یکجا نہیں ہوں گے۔ ہم نے جو بات بیان کی ہے اس پر یہ امر بھی دلالت کرتا ہے کہ لعان ایسی گواہی ہے جس کا حکم صرف حاکم کے نزدیک جاکر ثابت ہوتا ہے اس لئے لعان اس گواہی کے مشائہ ہوگیا جس کا صرف حاکم کے پاس جاکر ہوتا ہے۔ اس بنا پر یہ ضروری ہے کہ یہ گواہی صرف حاکم کے حکم کے ذریعہ ہی علیحدگی کی موجب بنے۔ اگر یہ کہا جائے کہ مقدمات میں مذکورہ دعوئوں پر قسموں کے ذریعے صرف حاکم کے پاس جاکر حکم ثابت ہوتا ہے اور جس وقت حاکم کسی شخص سے حلف لے لیتا ہے وہ شخص مقدمہ سے خارج ہوجاتا ہے اور اسے مقدمے سے خارج کرنے کے لئے حاکم کو کوئی نیا حکم جاری کرنے کی ضرورت نہیں ہوتی۔ اس بات سے آپ نے اپنے بیان کے ذریعے جو تعلیل کی ہے اس کا انتقاض ہوجاتا ہے۔ اس کے جواب میں کہا جائے گا کہ ہم نے جو بات بیان کی ہے اسے یہ چیز لازم نہیں ہوتی۔ وہ اس لئے کہ ہم نے یہ کہا ہے کہ لعان ایسی گواہی ہے جس کا صحت کا تعلق حاکم کے ساتھ ہوتا ہے۔ جس طرح حقوق کے مقدمات میں گواہیوں کی حیثیت ہوتی ہے کہ ان کی صحت کا تعلق بھی حاکم کے ساتھ ہوتا ہے۔ حقوق کے مقدمات میں گواہیوں کی حیثیت ہوتی ہے کہ ان کی صحت کا تعلق بھی حاکم کے ساتھ ہوتا ہے۔ حقوق کے مقدمات میں جو قسمیں کھائی جاتی ہیں وہ ان حقوق کے بارے میں گواہیاں شمار نہیں ہوتیں۔ اس بنا پر لعان لفظ شہادت کے بغیر درست نہیں ہوتا جس طرح حقوق کے بارے میں گواہیاں لفظ شہادت کے بغیر درست نہیں ہوتیں۔ جبکہ دعووں پر حلف لینے کی حیثیت یہ نہیں ہوتی نیز لعان کے ذریعہ عورت اپنی ذات کی مالک ہوتی ہے جس طرح مدعی گواہیوں وغیرہ کی صورت میں ثبوت پیش کرنے پر اس چیز کا مالک ہوجاتا ہے جس پر وہ دعویٰ کرتا ہے ۔ جس اس چیز پر حاکم کے حکم کے بغیر مدعی کا استحقاق جائز نہیں ہوتا تو لعان کے ذریعے عورت کا اپنی ذات کی مالک ہونے کے لئے بھی حاکم کا حکم ضروری ہے۔ جہاں تک حقوق کے مقدمات میں استحلاف یعنی سلف لینے کا تعلق ہے تو اس کے ذریعے کسی چیز کا استحقاق ثابت نہیں ہوتا۔ اس سے تو صری وقتی طور پر مقدمہ ختم ہوجاتا ہے اور اور مدعا علیہ پہلے کی طرح بری الذمہ رہتا ہے۔ اس لئے حقوق کے مقدمات میں گواہیوں کے ساتھ لعان کے ذریعے علیحدگی کی مشابہت ان مقدمات میں استحلاف کے ساتھ مشابہت سے بڑھ کر ہے۔ نیز جب لعان علیحدگی کا ایسا سبب ہے جس کا تعلق حاکم کے حکم کے ساتھ ہے تو اس کی مشابہت عنین یعنی قوت مردی سے محروم انسان کو دی جانے والی اس مہلت کے ساتھ ہوگئی جو حاکم کے حکم کی بنا پر عنین اور اس کی بیوی کے درمیان علیحدگی کا سبب بن جاتی ہیں لیکن مہلت کی مدت گزرجانے کے ساتھ ان دونوں کے درمیان حاکم کی طرف سے علیحدگی کرائے بغیر علیحدگی واقع نہیں ہوتی۔ اس لئے لعان کے ذریعہ واقع ہونے والی علیحدگی کا حکم بھی اس چیز کی روشنی میں یہی ہونا چاہیے جو ہم نے ابھی بیان کیا ہے۔ اسے ایک اور پہلو سے دیکھئے، لعان علیحدگی کے مفہوم کے لئے نہ تو کنایہ ہے اور نہ ہی تصریح اس لئے ضروری ہے کہ اس کے ذریعے علیحدگی واقع نہ ہو جس طرح ان الفاظ کے ذریعے علیحدگی واقع نہیں ہوتی جو علیحدگی کے مفہوم کے لئے نہ تو کنایہ ہوتے ہیں اور نہ ہی تصریح۔ اگر اس پر یہ اعتراض کیا جائے کہ ایلاء طلاق کے مفہوم کے لئے نہ تو کنایہ ہے اور نہ ہی تصریح لیکن اس کے باوجود ایلاء کی مدت گزر جانے کے بعد علیحدگی واقع ہوجاتی ہے۔ اس کے جواب میں کہا جائے گا کہ ایلاء میں طلاق سے کنایہ بننے کی صلاحیت ہوتی ہے تاہم یہ کمزور ترین کنایہ ہے۔ اس لئے نفس ایلاء کے ذریعے اس وقت تک علیحدگی واقع نہیں ہوتی جب تک اس کے ساتھ ایک اور چیز بھی شامل نہ ہوجائے اور وہ ہے مدت ایلاء کے اندر ترک جماع۔ آپ نہیں دیکھتے کہ شوہر کا یہ قول (واللہ لا اقربدء “ بخدا میں تجھ سے قربت اختیار نہیں کروں گا) تحریم پر بھی دلالت کرتا ہے کیونکہ تحریم قربت کے لئے مانع ہوتی ہے۔ اس کے برعکس لعان کے اندر کسی بھی حال میں تحریم پر دلالت کرنے کی صلاحیت نہیں ہوتی کیونکہ اس کے اندر زیادہ سے زیادہ جو بات ہوسکتی ہے وہ یہ کہ شور اپنے قذف کے اندر سچا ثابت ہوجائے۔ یہ چیز تحریم کی موجب نہیں ہوتی۔ آپ نہیں دیکھتے کہ اگر عورت کی زنا کاری پر گواہی قائم ہوجائے تو یہ بات بھی تحریم کی موجب نہیں بنتی۔ اگر مرد جھوٹا ہو اور عورت سچی ہو تو یہ صورت تحریم سے اور بھی زیادہ بعید ہوجاتی ہے۔ اس لئے اس سے یہ بات ثابت ہوگئی کہ لعان کے اندر تحریم پر کوئی دلالت نہیں ہوتی۔ ابوبکر حبصاص کہتے ہیں کہ اسی بنا پر تفریق کے عمل کے بغیر علیحدگی کا واقع ہوجانا درست نہیں ہوتا۔ تفریق کا یہ عمل یا تو شوہر کی طرف سے ہوگا یا حاکم کی طرف سے۔ نیز جب لعان کی ابتداء حکم حاکم کے بغیر درست نہیں ہوتی تو اس کے ساتھ تعلق رکھنے والے حکم یعنی علیحدگی بھی حکم حاکم کے بغیر درست نہیں ہونی چاہیے۔ اس کے برعکس جب حاکم کے بغیر ایلاء کی ابتداء درست ہوجاتی ہے تو پھر علیحدگی واقع ہونے کے لئے بھی حکم حاکم کی ضرورت نہیں ہوتی۔ اگر یہ کہا جائے کہ ہم سب کا اس مسئلے پر اتفاق ہے کہ اگر لعان کے بعد زوجین نکاح کے بندھن کو باقی رکھنا چاہیں تو انہیں ایسا کرنے نہیں دیاجائے گا بلکہ دونوں کے درمیان علیحدگی کرادی جائے گی۔ یہ بات اس پر دلالت کرتی ہے کہ لعان علیحدگی کو واجب کردیتا ہے جس سے یہ بات ضروری ہوگئی کہ نفس لعان کے ساتھ علیحدگی واقع ہوجائے اور اس کے لئے کسی اور سبب کی ضرورت پیش نہ آئے۔ اس کے جواب میں کہا جائے گا یہ کلیہ امام شافعی کی بات پر آکر ٹوٹ جاتا ہے۔ اس لئے کہ ان کے خیال میں عورت کا مرتد ہوجانا میاں بیوی کے درمیان علیحدگی کا موجب نہیں ہوتا جب تک ایک اور سبب پیدا نہ ہوجائے اور وہ ہے تین حیض کا گزر جانا۔ جب تین حیض گزر جائیں گے تو علیحدگی واقع ہوجائے گی۔ اگر دونوں نکاح کے بندھن کو باقی رکھنے پر رضامند ہوجائیں گے تو انہیں ایسا کرنے نہیں دیا جائے گا۔ اس طرح امام شافعی کے نزدیک نفس ارتداد علیحدگی کا موجب نہیں بنتا جب تک اس کے ساتھ ایک اور سبب شامل نہیں ہوجاتا جبکہ ہمارے نزدیک مسئلہ یہ ہے کہ اگر کوئی عورت غیر کفو میں نکاح کرلیتی ہے اور رشتہ دار اس سے علیحدگی کا مطالبہ کرتے ہیں تو ایک طرف نکاح باقی رکھنے پر زوجین کی رضا مندی کا کوئی اثر نہیں ہوتا اور دوسری طرف رشتہ داروں کی طرف سے اس نکاح کے خلاف مقدمہ دائر کرنے کی بنا پر علیحدگی واجب نہیں ہوتی بلکہ علیحدگی اس وقت ہوتی ہے جب حاکم علیحدگی کا حکم دے دیتا ہے۔ اس بنا پر معترض کا درج بالا استدلال سب کے مسلک کی روشنی میں فاسد ہے دوسری وجہ یہ ہے کہ معترض نے اپنے استدلال کے لئے کسی اصل کو سہارا نہیں بنایا اس نے صرف ایک دعویٰ پیش کردیا ہے جو دلیل سے عاری ہے۔ اس میں ایک پہلو اور بھی ہے وہ یہ کہ ہمارے نزدیک لعان کے بعد بھی نکاح کا بندھن باقی رہنا جائز ہے۔ وہ اس طرح کہ اگر شوہر علیحدگی واقع ہونے سے پہلے اپنی کذب بیانی کا اقرار کرلے تو اس صورت میں اسے حد لگائی جائے گی اور میاں بیوی کے درمیان علیحدگی نہیں ہوگی۔
Top