Ahkam-ul-Quran - Yaseen : 40
لَا الشَّمْسُ یَنْۢبَغِیْ لَهَاۤ اَنْ تُدْرِكَ الْقَمَرَ وَ لَا الَّیْلُ سَابِقُ النَّهَارِ١ؕ وَ كُلٌّ فِیْ فَلَكٍ یَّسْبَحُوْنَ
لَا : نہ الشَّمْسُ : سورج يَنْۢبَغِيْ : لائق (مجال) لَهَآ : اس کے لیے اَنْ : کہ تُدْرِكَ : جاپکڑے وہ الْقَمَرَ : چاند وَلَا : اور نہ الَّيْلُ : رات سَابِقُ : پہلے آسکے النَّهَارِ ۭ : دن وَكُلٌّ : اور سب فِيْ فَلَكٍ : دائرہ میں يَّسْبَحُوْنَ : تیرے (گردش کرتے) ہیں
نہ تو سورج ہی سے ہوسکتا ہے کہ چاند کو جا پکڑے اور نہ رات ہی دن سے پہلے آسکتی ہے اور سب اپنے اپنے دائرے میں تیر رہے ہیں
سورج اور چاند اپنے مدار میں گردش کرتے ہیں قول باری ہے (لا الشمس ینبغی لھا ان تدرک القمر۔ نہ آفتاب کی مجال ہے کہ چاند کو جا پکڑے) ہمیں عبداللہ بن محمد نے روایت کی ہے، انہیں حسن بن ابی الربیع نے، انہیں عبدالرزاق نے، انہیں معمر نے حسن سے اس قول باری کی تفسیر میں نقل کیا ہے کہ ” یہ بات شب ہلال میں ہوتی ہے۔ “ ابوبکر حبصاص کہتے ہیں کہ۔ واللہ اعلم۔ اس سے ان کی مراد یہ ہے کہ سورج چاند کو اس طرح نہیں پکڑتا کہ اسے اپنی شعاعوں سے ڈھانپ لے اور پھر وہ نظرنہ آئے کیونکہ سورج اور چاند دونوں مسخر یعنی تابع فرمان ہیں اور اللہ تعالیٰ نے ان کے لئے جو ترتیب مقرر کردی ہے اس پر چلنے پر مجبور ہیں۔ ان میں سے کسی کو اس ترتیب سے ہٹنے کی مجال نہیں ہے۔ ابوصالح کا قول ہے کہ ان میں سے کوئی دوسرے کی روشنی کو پکڑ نہیں سکتا۔ ایک قول کے مطابق آفتاب کی مجال نہیں کہ وہ چاند کو جاپکڑے یہاں تک کہ سورج کی روشنی کی کمی چاند کی روشنی کی کمی کی طرح ہوجائے۔ ایک اور قول ہے کہ سورج اپنی رفتار کی سرعت کی بنا پر چاند کو نہیں پکڑ سکتا۔ ہمیں عبداللہ بن محمدنے روایت بیان کی ہے، انہیں حسن بن ابی ربیع نے، انہیں عبدالرزاق نے معمر سے، معمر نے کہا ہے کہ مجھے یہ روایت پہنچی ہے کہ عکرمہ کا قول ہے۔” ان دونوں میں سے ہر ایک کی الگ حکمرانی ہے ۔ چاند کے لئے رات کے وقت حکمرانی ہوتی ہے اور سورج کے لئے دن کے وقت، سورج رات کے وقت طلوع نہیں ہوسکتا اور نہ رات دن سے پہلے آسکتی ہے ۔ یعنی جب رات ہوتی ہے تو ایسا نہیں ہوسکتا کہ دن آنے سے پہلے دوسری رات آجائے۔ مہینوں کی ابتدا دن سے نہیں رات سے ہوتی ہے اگر یہ کہا جائے کہ یہ بات اس امر پر دلالت کرتی ہے کہ مہینے کی ابتدادن سے ہوتی ہے رات سے نہیں ہوتی کیونکہ قول باری ہے (ولا الیل سابق النھار۔ اور نہ رات دن سے پہلے آسکتی ہے) جب رات دن سے پہلے نہیں آسکتی اور ان دونوں کا اجتماع بھی محال ہے تو اس سے یہ امر واجب ہوگیا کہ دن رات سے پہلے آئے اور اس طرح مہینے کی ابتداء دن سے ہو رات سے نہ ہو۔ اس کے جواب میں کہا جائے گا کہ آیت کی تاویل وہ نہیں ہے جو معترض نے اختیار کیا ہے بلکہ سلف سے جن اقوال کا پہلے ذکر گزر چکا ہے آیت کی تاویل ان میں سے ایک پر محمول ہوگئی۔ سلف میں سے کسی کا یہ قول نہیں ہے کہ مہینے کی ابتدا دن سے ہوتی ہے۔ اس لئے اجماع کی بنیاد پر معترض کی یہ تاویل ساقط ہے۔ نیز قمری مہینوں کے ساتھ احکام شرع کا تعلق ہے اور بلال کا ظہور سب سے پہلے رات کے وقت ہوتا ہے۔ دن کی ابتدا کے ساتھ اس کا ظہور نہیں ہوتا۔ اس بنا پر ضروری ہے کہ مہینوں کی ابتدا بھی رات سے تسلیم کی جائے۔ اہل علم کے نزدیک اس مسئلے میں کوئی اختلاف نہیں کہ ماہ رمضان کی پہلی رات رمضان کا ہی حصہ ہوتی ہے اور ماہ شوال کی پہلی رات شوال کا حصہ ہوتی ہے ۔ اس سے یہ بات ثابت ہوتی ہے کہ مہینوں کی ابتدا رات سے ہوتی ہے۔ آپ نہیں دیکھتے کہ تراویح کی ابتداء رمضان کی پہلی رات سے ہوجاتی ہے۔ حضور ﷺ سے مروی ہے کہ آپ نے فرمایا (اذا کان اول لیلۃ من رمضان صفدت الشیاطین فیہ۔ جب رمضان کی پہلی رات آجاتی ہے تو اسی رات شیاطین کو جکڑ دیا جاتا ہے) یہ تمام باتیں اس پر دلالت کرتی ہیں کہ مہینوں کی ابتدا رات سے ہوتی ہے۔ ہمارے اصحاب کا یہ قول ہے کہ جو شخص یہ کہتا ہے۔ ” اللہ کے لئے مجھ پر ایک مہینے کا اعتکاف لازم ہے۔ “ وہ اعتکاف کی ابتدا رات سے کرے گا کیونکہ مہینوں کی ابتداء رات سے ہوتی ہے۔
Top