Ahkam-ul-Quran - An-Nisaa : 24
وَّ الْمُحْصَنٰتُ مِنَ النِّسَآءِ اِلَّا مَا مَلَكَتْ اَیْمَانُكُمْ١ۚ كِتٰبَ اللّٰهِ عَلَیْكُمْ١ۚ وَ اُحِلَّ لَكُمْ مَّا وَرَآءَ ذٰلِكُمْ اَنْ تَبْتَغُوْا بِاَمْوَالِكُمْ مُّحْصِنِیْنَ غَیْرَ مُسٰفِحِیْنَ١ؕ فَمَا اسْتَمْتَعْتُمْ بِهٖ مِنْهُنَّ فَاٰتُوْهُنَّ اُجُوْرَهُنَّ فَرِیْضَةً١ؕ وَ لَا جُنَاحَ عَلَیْكُمْ فِیْمَا تَرٰضَیْتُمْ بِهٖ مِنْۢ بَعْدِ الْفَرِیْضَةِ١ؕ اِنَّ اللّٰهَ كَانَ عَلِیْمًا حَكِیْمًا
وَّ : اور الْمُحْصَنٰتُ : خاوند والی عورتیں مِنَ : سے النِّسَآءِ : عورتیں اِلَّا : مگر مَا : جو۔ جس مَلَكَتْ : مالک ہوجائیں اَيْمَانُكُمْ : تمہارے داہنے ہاتھ كِتٰبَ اللّٰهِ : اللہ کا حکم ہے عَلَيْكُمْ : تم پر وَاُحِلَّ : اور حلال کی گئیں لَكُمْ : تمہارے لیے مَّا وَرَآءَ : سوا ذٰلِكُمْ : ان کے اَنْ : کہ تَبْتَغُوْا : تم چاہو بِاَمْوَالِكُمْ : اپنے مالوں سے مُّحْصِنِيْنَ : قید (نکاح) میں لانے کو غَيْرَ : نہ مُسٰفِحِيْنَ : ہوس رانی کو فَمَا : پس جو اسْتَمْتَعْتُمْ : تم نفع (لذت) حاصل کرو بِهٖ : اس سے مِنْھُنَّ : ان میں سے فَاٰتُوْھُنَّ : تو ان کو دو اُجُوْرَھُنَّ فَرِيْضَةً : ان کے مہر مقرر کیے ہوئے وَلَا : اور نہیں جُنَاحَ : گناہ عَلَيْكُمْ : تم پر فِيْمَا : اس میں جو تَرٰضَيْتُمْ : تم باہم رضا مند ہوجاؤ بِهٖ : اس سے مِنْۢ بَعْدِ : اس کے بعد الْفَرِيْضَةِ : مقرر کیا ہوا اِنَّ : بیشک اللّٰهَ : اللہ كَانَ : ہے عَلِيْمًا : جاننے والا حَكِيْمًا : حکمت والا
اور شوہر والی عورتیں بھی (تم پر حرام ہیں) مگر وہ جو (اسیر ہو کر لونڈیوں کے طور پر) تمہارے قبضے میں آجائیں۔ (یہ حکم) خدا نے تم کو لکھ دیا ہے اور ان (محرمات) کے سوا اور عورتیں تم کو حلال ہیں اسطرح سے کہ مال خرچ کر کے ان سے نکاح کرلو بشرطیکہ (نکاح سے) مقصود عفت قائم رکھنا ہو نہ شہوت رانی۔ تو جن عورتوں سے تم فائدہ حاصل کرو انکا مہر جو مقرر کیا ہو ادا کردو۔ اور اگر مقرر کرنے کے بعد آپس کی رضامندی سے مہر میں کمی بیشی کرلو تو تم پر کچھ گناہ نہیں بیشک خدا سب کچھ جاننے والا (اور) حکمت والا ہے
شوہروں والی عورتوں سے نکاح کی تحریم قول باری ہے (والمحصنات من النساء الاماملکت ایمانکم، اور جو عورتیں کسی دوسرے کے نکاح میں ہوں (وہ تم پر حرام ہیں) البتہ ایسی عورتیں اس سے مستثنیٰ ہیں جو جنگ میں ہمارے ہاتھ آئیں) اس کا عطف ان عورتوں پر ہے جن کی تحریم کا ذکرقول باری (حرمت علیکم امھاتکم) سے شروع ہوا ہے۔ سفیان نے حماد سے، انہوں نے ابراہیم نخعی سے اور انہوں نے حضرت عبداللہ بن مسعو ؓ د سے روایت کی ہے کہ (والمصنات من النساء ) سے مسلمان اور مشرک شوہروں والی عورتیں مراد ہیں۔ حضرت علی ؓ کا قول ہے کہ اس سے مشرک شوہروں والی عورتیں مراد ہیں۔ سعیدبن جبیرنے حضرت ابن عباس سے روایت کی ہے کہ اس سے مراد شوہروالی ہر وہ عورت ہے جس سے ہمبستری زناکے حکم میں ہے سوائے ان عورتوں کے جو جنگ میں گرفتار ہوئی ہوں۔ ابوبکرجصاص کہتے ہیں کہ ان حضرات کا اس پر اتفاق ہے کہ قول باری (والمحصنات من النساء) سے مراد شوہروں والی عورتیں ہیں اور جب تک ان کے شوہرموجودہوں ان سے نکاح حرام ہے۔ البتہ ان حضرات کا قول باری (الاماملکت ایمانکم) کی تفسیر میں اختلاف ہے۔ ایک روایت کے مطابق حضرت علی ؓ اور حضرت ابن عباس ؓ نے اس آیت کی تاویل میں یہ فرمایا ہے کہ یہ آیت ان شوہروں والی عورتوں کے متعلق ہے جو جنگ میں گرفتارہوگئی ہوں ان کے ساتھ ملک یمین کی بناپرہمبستری مباح ہوجاتی ہے۔ شوہروں کی گرفتاری کے بغیرتہاء ان کی گرفتاری انہیں ان کے شوہروں سے جدا کرنے کی موجب بن جاتی ہے۔ حضرت عمر ؓ ، حضرت عبدالرحمن بن عوف ؓ اور حضرت ابن عمر ؓ کی بھی آیت کی تاویل میں یہی رائے ہے۔ یہ حضرات فرمایا کرتے تھے کہ لونڈی کی فروخت اس کے حق میں طلاق نہیں ہوتی اور نہ ہی اس کا نکاح باطل ہوتا ہے۔ حضرت ابن مسعو ؓ د، حضرت ابی بن کعب، حضرت انس بن مالک ؓ ، حضرت جابربن عبد ؓ اللہ اور حضرت ابن عباس ؓ بروایت عکرمہ نے آیت کی یہ تاویل کی ہے کہ آیت کا حکم شوہروں والی تمام عورتوں کے لیے ہے خواہ وہ قیدی عورتیں ہوں یا غیر قیدی۔ ان حضرات کا قول ہے کہ لونڈی کی فروخت اس کے حق میں طلاق ہوتی ہے۔ ہمیں محمد بن ب کرنے روایت بیان کی ہے، انہیں ابوداؤد نے، انہیں عبداللہ بن عمربن میسرہ نے ، انہیں یزید بن زریع نے، انہیں سعید نے قتادہ سے ، انہوں نے ابوالخلیل سے ، انہوں نے ابوعلقمہ ہاشمی سے اور انہوں نے حضرت ابوسعیدخدر ؓ ی سے کہ اللہ کی نبی ﷺ نے اوطاس کی طرف ایک لشکرروانہ کیا، جس کا دشمن سے آمناسامنا ہوا۔ اور جنگ کے بعد اس پر فتح حاصل ہوئی۔ مجاہدین نے مشرک شوہروں والی عورتوں کو قید ی بنالیا۔ ان عورتوں سے ہمبستری کو مسلمان گناہ کی بات سمجھتے تھے اس پر اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرمائی (والمحصنات من النساء الا ماملکت ایمانکم) یعنی یہ عورتیں عدت کی مدت گذرجانے کے بعد تمہارے لیے حلال ہیں۔ یہ کہاگیا ہے کہ اس روایت کے ایک راوی ایک جلیل القدرصاحب علم انسان تھے ان سے یعلی بن عطاء نے روایت بیان کی ہے خود یعلی بن عطاء نے حضرت ابوسعید خدر ؓ ی سے یہ روایت نقل کی ہے ۔ ابوعلقمہ نے حضرت ابوہریرہ ؓ سے بہت سی روایتیں نقل کی ہیں۔ زیربحث روایت کی سندصحیح ہے اس میں آیت کے نزول کے سبب کی نشاندہی کی گئی ہے اور یہ بتایا گیا ہے کہ آیت جنگ میں گرفتارہونے والی عورتوں کے بارے میں ہے۔ حضرت ابن مسعود اور آپ کے ہم خیال اصحاب نے آیت کی تاویل میں شوہروں والی ایسی تمام عورتیں مراد لی ہیں جو کسی کی ملکیت میں چلی جانے کے بعد ملکیت حاصل کرنے والوں کی ہمبستری کے لیے حلال ہوجاتی ہیں اور شوہروں سے ان کی تفریق عمل میں آجاتی ہے۔ اگریہ کہاجائے کہ آپ لوگوں کا اصول تو یہ ہے کہ آپ سبب کا اعتبار نہیں کرتے بلکہ لفظ کی حالت کا اعتبار کرتے ہیں کہ اگر لفظ میں عموم ہوتوا سے اس کے عموم پر اس وقت تک محمول کیا جائے جب تک اس کی تخصیص کے لیے کوئی دلالت قائم نہ ہوجائے آپ نے اپنے اصول کو اس آیت میں کیوں جاری نہیں کیا اور ان تمام عورتوں پر کیوں نہ محمول کیا جو شوہروں والی ہوں اور ملکیت کے تحت آجائیں اس طرح اس مفہوم میں گرفتارشدہ اور غیر گرفتارشدہ سب عورتیں شامل ہوجائیں گی۔ اس کے جواب میں کہاجائے گا کہ آیت میں یہ دلالت واضح ہے کہ یہ گرفتارشدہ عورتوں کے ساتھ مخصوص ہے۔ وہ اس طرح کہ اللہ تعالیٰ نے فرمادیا (والمحصنات من النساء ا لا ماملکت ایمانکم) اگر ملکیت کا حدوث تفریق کا موجب ہوتاتو پھر اس عورت اور اس کے شوہر کے درمیان اس وقت تفریق واجب ہوجاتی جب اسے کوئی عورت یا خود اس عورت کا رضاعی بھائی خرید لیتا کیونکہ ملکیت کا حدوث ہوچکا تھا۔ اگریہ کہاجائے کہ یہ بات ان تمام عورتوں کے حق میں درست ہے جن پر دوسروں کی ملکیت واقع ہوجائے خواہ پھر اس ملکیت کا آجانا ہمبستری کی اباحت کا سبب بن جائے یا نہ بنے مثلا کوئی عورت ایسی عورت کی مالک بن جائے یا یہ کسی ایسے شخص کی ملکیت میں چلی جائے جس کے لیے اس کے ساتھ ہمبستری حلال نہ ہو۔ اس کے جواب میں کہا جائے گا کہ آیت میں روے سخن ان لوگوں کی طرف ہے جنہیں ان عورتوں کی ملکیت حاصل ہوجائے اور اس بناپران کے ساتھ ہمبستری کی اباحت ہوجائے۔ آیت میں شوہروں والی عورتوں سے ہمبستری کی تحریم کے حکم سے ملک یمین کی بناپراباحت کی یہ صورت استثنا کی ایک شکل ہے۔ اس لیے جب ملک یمین کی بناپر مالک کے لیے اس سے ہمبستری مباح نہ ہوگی تو آیت کی رو سے شوہر کے ساتھ اس کا رشتہ زوجیت برقراررہنا ضروری ہوجائے گا۔ اور جب یہ بات آیت کی رو سے ضروری قرارپائے گی تو قول باری (والمحصنات من النساء الا ماملکت ایمانکم) کا حکم صرف گرفتارشدہ عورتوں کے لیے خاص ہوجائے گا۔ اور ملکیت کا حدوث شوہروں سے ان کی تفریق کا موجب نہیں بنے گا۔ بلکہ اختلاف دارین اس کا سبب بن جائے گا۔ ملکیت کا حدوث تفریق کا موجب نہیں بنتا اس پر وہ روایت دلالت کرتی ہے جسے حمادنے ابراہیم نخعی سے نقل کیا ہے، انہوں نے اسود سے اور انہوں نے حضرت عائشہ ؓ سے کہ بریرہ کو خرید کر حضرت عائشہ ؓ نے آزاد کردیا اور اس کی ولاء اپنے خاندان والوں کے لیے مخصوص کرنے کی شرط لگادی۔ پھرحضرت عائشہ نے یہ بات حضور ﷺ کے گوش گذار کردی آپ نے یہ سن کر فرمایا (الولاء لمن اعتق، ولاء اسے حاصل ہوگی جس نے آزادی دی ہے) آپ نے بریرہ سے فرمایا (یابریرۃ اختاری فالا مرالیک، بریرہ ! اپنے شوہر کے عقد میں رہنے یا نہ رہنے کا تمہیں اختیا رہے یہ معاملہ اب تمہارے ہاتھ میں ہے) ۔ سماک نے عبدالرحمن بن القاسم سے، انہوں نے سیاہ فام غلام تھاج سے مغیث کہتے تھے۔ حضور ﷺ کا اس کے معاملے میں یہ فیصلہ تھا کہ ولاء اسے حاصل ہوگی جس کے پیسے خرچ ہوئے ہیں اور بریرہ کو شوہر کے عقد میں رہنے یا نہ رہنے کا اختیارمل گیا۔ اگریہ کہاجائے کہ حضرت ابن عباس ؓ نے بریرہ کے بارے میں یہ روایت بیان کرنے کے بعد کہا کہ حضور ﷺ کا ارشاد ہے۔ (بیع الامۃ طلاقھا، لونڈی کی فروخت اس کے حق میں طلاق ہوتی ہے۔ ) اس لیے مناسب یہ ہے کہ حضرت ابن عباس ؓ کا یہ قول ان کی روایت کرددہ بات کو ختم کردے اس لیے کہ یہ نہیں ہوسکتا کہ انہوں نے جس بات کی حضور ﷺ سے روایت کی ہے اس کی مخالفت میں کچھ کہیں۔ اس کے جواب میں کہاجائے گا کہ حضرت ابن عباس ؓ سے یہ مروی ہے کہ آیت کا نزول گرفتارشدہ عورتوں کے بارے میں ہے اور لونڈی کی فروخت اس کے شوہر سے اس کی تفریق کی موجب نہیں بنتی اس لیے یہ ممکن ہے کہ معترض نے حضرت ابن عباس ؓ کے جس قول کا ذکر کیا ہے یعنی لونڈی کی فروخت اس کے حق میں طلاق ہوتی ہے۔ آپ اس کے وقت قائل ہوں جب آپ کے سامنے ابھی بریرہ کا واقعہ اور حضور ﷺ کی طرف سے اسے اختیار ملنے کی بات نہ آئی ہو پھر جب آپ کو ان سب باتوں کا علم ہوگیا تو آپ نے اپنے قول سے رجوع کرلیاہو۔ نیز اس میں یہ بھی احتمال ہے کہ اس قول سے مراد آپ کی یہ ہو کہ جب شوہر اپنی بیوی کو لونڈی ہونے کی بناپرخرید لے تو اس صورت میں اس کی فروخت اس کے حق میں طلاق ہوتی ہے۔ اور ملکیت کے وجود کے ساتھ نکاح باقی نہیں رہتا۔ عقلی طورپر یہی بات سمجھ میں آتی ہے کہ لونڈی کی فروخت طلاق نہیں ہوتی اور نہ ہی تفریق کی موجب بنتی ہے یہ اس لیے کہ طلاق کا مالک شوہر کے سوا اور کوئی نہیں ہوتا اور طلاق اس وقت درست ہوتی ہے جب شوہر کی طرف سے دی جائے یا اس کی طرف سے کوئی ایساقدم اٹھایا جائے جو طلاق کا سبب بن جائے۔ جب شوہر کی طرف سے اس سلسلے میں کوئی ایساقدم نہیں اتھایا گیا جو سبب بن جاتا تو پھر یہ ضروری ہوگیا کہ اس کی فروخت اس کے حق میں طلاق نہ بنے۔ اس پر یہ بات بھی دلالت کرتی ہے کہ ملک یمین کا جود تھا اور یہ نکاح کی نفی نہیں کرتا تھا اس لیے خرید ار کی ملکیت کا بھی نکاح کے منافی نہ ہونا ضروری قرارپایا۔ اگریہ کہاجائے کہ جب خریدار کی ملکیت وجود میں آجائے اور اس کی طرف سے اس نکاح کے بارے میں رضامندی کا اظہارنہ ہو تو ایسی صورت میں نکاح کاٹوٹ جانا ضروری قرارپائے گا اس کے جواب میں کہا جائے گا کہ یہ بات غلط ہے۔ کیونکہ یہ بات پایہ ثبوت کو پہنچ چکی ہے کہ ملک یمین نکاح کے منافی نہیں ہے لیکن جو وجہ معترض نے بیان کی ہے اگر اس کا اعتبار کرلیا جائے تو اس سے خرید ارکونکاح فسخ کرنے کا اختیار مل جانالازم ہوجائے گا لیکن یہ کسی کا بھی قول نہیں ہے کیونکہ حضرت ابن مسعو ؓ د آور آپ کے ہمنوا ملکیت کے حدوث کے ساتھ فسخ نکاح کے وجوب کے قائل ہیں۔ اگرمیاں بیوی دونوں جنگ میں گرفتار ہوکر مسلمانوں کے ہاتھ آجائیں تو ان کے متعلق فقہاء میں اختلاف رائے ہے۔ امام ابوحنیفہ، امام ابویوسف، امام محمد اور زفرکاقول ہے کہ جب حربی میاں بیوی ایک ساتھ گرفتارہوجائیں تو ان کا نکاح باقی رہے گا اور اگر ان میں کوئی ایک پہلے گرفتار ہوکرداراسلام پہنچ گیا تو دونوں کے درمیان تفریق ہوجائے گی۔ سفیان ثوری کا بھی یہی قول ہے۔ اور زاعی کا قول ہے کہ اگر دونوں ایک ساتھ گرفتارہوں تو جب تک مال غنیمت کی صورت میں رہیں گے اس وقت تک وہ میاں بیوی ہیں گے۔ مال غنیمت کی تقسیم کے بعد کوئی شخص کسی سے اگر ان دونوں کو خرید لیتا ہے تو خریدار کو اختیار ہوگا چاہے توا نہیں رشتہ زوجیت کے تحت رہنے دے اور چاہے توا نہیں ایک دوسرے سے الگ کردے اور پھر عورت کو اپنی ذات کے لیے مخصوص کرلے یا ایک حیض کے ذریعے استبراء رحم کے بعد اس کا نکاح کسی اور سے کر ادے لیث بن سعد بھی یہی قول ہے۔ حسن بن صالح کا قول ہے کہ جب شوہر والی کوئی عورت گرفتار کی جائے تو ودوحیض کے ذریعے اس کا استبراء رحم کیا جائے گاکیون کہ اگر اس کا شوہراس کی عدت کے دوران آجائے گا تو وہ اس کا سب سے بڑھ کرحقدارہوگا۔ اگر بےشوہر عورت گرفتارہوکرآئی ہو تو ایک حیض کے ذریعے اس کا استبرء رحم ہوگا۔ امام مالک اور امام شافعی کا قول ہے کہ شوہر والی عورت گرفتارہوتے ہی اپنے شوہر سے بائن ہوجائے گی خواہ اس کے ساتھ اس کا شوہر ہو یا نہ ہو۔ ابوبکرجصاص کہتے ہیں کہ یہ بات ثابت ہوچکی ہے کہ ملکیت کا حدوث تفریق کا موجب نہیں ہے۔ اس کی دلیل فروخت شدہ اور وراثت کے تحت حاصل ہونے والی لونڈی کا مسئلہ ہے۔ اس لیے محض گرفتاری پر تفریق ہوجانا ضروری نہیں رہاکیون کہ گرفتاری ہیں حدوث ملکیت سے زائد کوئی چیز نہیں ہوئی۔ ایک اور دلیل یہ ہے کہ عورت پر غلامی کا حدوث نئے سرے سے عقدنکاح کو مانع نہیں ہوتا توبقاء نکاح کو اس کا مانع نہ ہونا بطریق اولی ہوگا۔ کیونکہ ثبوت نکاح کے لیے نکاح کا باقی رہنا نئے سرے سے نکاح کرنے سے بڑھ کرموکدہوتا ہے۔ آپ نہیں دیکھتے کہ بعض صورتیں ایسی ہوتی ہیں جو ابتدائے عقد کے لیے مانع ہوتی ہیں لیکن بقائے عقد کے لیے مانع نہیں ہوتیں مثلاشبہ کی بناپرہمبستری کی وجہ سے عورت پر عدت کالزوم نئے سرے سے عقد نکاح کے لیے مانع ہے لیکن پچھلے عقد کے بقاء کے لیے مانع نہیں ہے۔ اگران حضرات نے ابوسعیدخدر ؓ ی کی روایت سے استدلال کیا جواوطاس کے معرکہ میں ہاتھ آنے والی عورتوں کے متعلق ہے اور جس کی بناپر آیت (والمحصنات من النساء الاما ملکت ایمانکم) کا نزول ہوا اس میں شوہروں کے ساتھ اور شوہروں کے بغیر گرفتارہونے والی عورتوں کے درمیان کوئی فرق نہیں رکھا گیا۔ تو اس کے جواب میں کہاجائے گا کہ حماد نے روایت کرتے ہوئے کہا ہے کہ انہیں حجاج نے سالم المکی کے واسطے سے محمد بن علی سے خبردی کہ جب اوطاس کا معرکہ شروع ہواتودشمن کے مرد بھاگ کر پہاڑوں پر چلے گئے اور عورتیں گرفتارہوگئیں۔ مسلمانوں کے لیے یہ عورتیں ایک مسئلہ بن گئیں کیونکہ ان کے شوہر بھی تھے۔ اللہ تعالیٰ نے ان پر یہ آیت نازل فرمائی اور یہ بتادیا کہ مردبھاگ کر پہاڑوں پر چلے گئے ہیں اور قید ہونے والی عورتیں مردوں سے علحدہ ہوگئی ہیں اور آیت کا نزول ان ہی عورتیں کے متعلق ہوا ہے، نیز غزوات نبی ﷺ کو قلمبند کرنے والوں کے بیان کے مطابق حضور ﷺ نے غزوئہ حنین میں دشمن کا ایک مرد بھی گرفتار نہیں کیا کیونکہ مردوں کی پوری تعدادیاتومیدان جنگ میں کھیت رہی تھی یاشکست کھاکربھاگ کھڑی ہوئی تھی۔ صرف عورتیں گرفتارہوئی تھیں ۔ جب جنگ بندی ہوگئی تو ان کے بچے کھچے مرد حضور ﷺ کی خدمت میں آکردرخواست گزار ہوئے کہ ان کی عورتوں کو رہا کرکے ان پر احسان کردیاجائے۔ یہ سن کر حضور ﷺ نے ارشاد فرمایا تھا کہ جو عورتیں میرے اور بنوعبدالمطلب کے حصے میں آئی ہیں وہ تمہیں واپس کی جاتی ہیں پھر آپ نے لوگوں سے فرمایا کہ جو شخص ملکیت میں آئی ہوئی عورت واپس کردے گا توٹھیک ہے لیکن جو شخص ایسا کرنا نہیں چاہے گا اسے ایک عورت کی رہائی کے بدلے میں پانچ حصے دیئے جائیں گے۔ چناچہ مسلمانوں نے اپنی اپنی قیدی عورتیں رہاکر دیں اس سے یہ بات ثابت ہوگئی کہ ان قیدی عورتوں کے ساتھ ان کے شوہر نہیں تھے۔ اگریہ حضرات قول باری (والمحصنات من النساء الاماملکت ایمانکم) کے عموم سے استدلال کریں اس میں شوہروں کے ساتھ اور شوہروں کے بغیر گرفتار ہونے والی عورتوں کے درمیان کوئی فرق نہیں رکھا گیا۔ تو اس کے جواب میں کہا جائے گا کہ ہم سب کا اس پر اتفاق ہے کہ حکم کا عموم ملکیت کی بناپر تفریق کے ایجاب کے متعلق وارد نہیں ہوا کیونکہ اگر بات اس طرح ہوتی تو لونڈی کی خریداری یا اسے ہبہ کرنے یا میراث میں ہاتھ آجانے کی صورت میں تفریق کا حدوث واجب ہوجاتا اسی طرح نئی پیداشدہ ملکیت کی دوسری صورتوں کا بھی یہی حکم ہوتا۔ لیکن جب ایسا نہیں ہوا توہ میں اس سے یہ معلوم ہوگیا کہ حدوث ملکیت سے تفریق کا کوئی تعلق نہیں ہے۔ اور یہ بات آیت میں اللہ کی مراد کی نشاندہی کرتی ہے ۔ کیونکہ گرفتارشدہ عورت کی اس کے شوہر سے تفریق واجب کرنے والے مفہوم کے اندر اللہ کی مراد دو میں سے ایک بات ہوسکتی ہے یا تو اس سے اختلاف دارین مراد ہے یاحدوث ملکیت۔ لیکن سنت کی دلیل نیز ہمارے ساتھ فریق مخالف کا اتفاق دونوں باتیں ملکیت کے حدوث کی بناپرتفریق کے ایجاب کی نفی کرتی ہیں۔ اس بات نے یہ فیصلہ کردیا کہ آیت میں اختلاف دارین مراد ہے اور سے کوئی تعلق نہیں ۔ ہم نے اس حکم میں اختلاف دارین کو سبب قراردیا ہے اس پر یہ بات دلالت کرتی ہے۔ اگر میاں بیوی دونوں مسلمان ہوکریاذمی بن کردارالحرب سے دارالاسلام چلے آئیں تو ان میں علیحدگی واقع نہیں ہوگی کیونکہ اس صورت میں اختلاف دارین کا مفہوم نہیں پایا گیا۔ یہ اس بات کی دلیل ہے کہ گرفتارشدہ عورت اور اس کے شوہر کے درمیان تفریق کا موجب اختلاف دارین ہے جبکہ عورت کو تنہاگرفتارکرلیاجائے اس پر یہ بات بھی ولالت کرتی ہے کہ حربی عورت جب مسلمان یاذمی بن کردارالاسلام میں آجائے اور اس کے بعد اس کا شوہر بھی اس کے پاس نہ آجائے تو ایسی صورت میں بالاتفاق تفریق واقع ہوجائے گی۔ اللہ تعالیٰ نے دارلحرب سے ہجرت کرکے دارالاسلام میں آجانے والی عورتوں کے متعلق یہی حکم دیا ہے چناچہ ارشاد باری ہے (ولاجناح علیکم ان تنکحوھن اذا اتیتموھن اجورھن، اور تم پر ان عورتوں سے نکاح کرلینے میں اپنے کوئی گناہ نہیں ہے جب تم ان کے مہرا نہیں اداکردو) پھر ارشاد ہوا (ولاتمسکوابعصم الکوافر، اور تم کافرعورتوں کے تعلقات کو مت باقی رکھو) ۔ ابوبکرجصاص کہتے ہیں کہ قول باری (الا ماملکت ایمانکم) ملک یمین کی بناپرہمبستری کی اباحت کا مقتضی ہے کیونکہ ملک کا وجود پایا گیا۔ تاہم نبی کریم ﷺ سے ایک حدیث مروی ہے جسے ہمیں محمد بن ب کرنے بیان کیا، انہیں ابوداؤدنے ، انہیں عمروبن عون نے، انہیں شریک نے قیس بن وہب سے، انہوں نے ابوالوداک سے انہوں نے حضرت ابوسعیدخدری ؓ سے کہ حضور ﷺ نے اوطاس کے معرکے میں گرفتارہونے والی عورتوں کے بارے میں فرمایا کہ (لاطاحامل حتی تضع ولا غیرذات حمل حتی تحیض حیضۃ، کسی حاملہ سے وضع حمل تک اور کسی غیرحاملہ سے ایک حیض گذرجانے تک ہمبستری نہ کی جائے۔ ) ہمیں محمد بنب کرنے روایت بیان کی انہیں ابوداؤدنے، انہیں سدیدبن منصورنے ، انہیں ابومعاویہ نے محمد بن اسحاق سے، انہیں یزید بن ابی حبیب نے ابومرزوق سے، انہیں حنش الصنعانی نے حضرت رویفع ؓ بن ثابت انصاری سے کہ حضرت رویفع ؓ نے ایک دن ہمیں دوران خطبہ یہ فرمایا کہ تم لوگوں سے میں وہی باتیں کہوں گا جو میں نے حضور ﷺ سے سنی ہیں۔ آپ نے معرکہ حنین کے دن ارشاد فرمایا تھا (لایحل مری یومن باللہ والیوم الاخران یسقی ماء ہ زرع غیرہ حتی یستبرئھا بحیضۃ، کسی شخص کے لیے جو اللہ اور یوم آخرت پر ایمان رکھتا ہے یہ حلال نہیں ہے کہ وہ اپنے پانی سے کسی دوسرے کی کھیتی سیراب کرے جب تک کہ ایک حیض کے ذریعے اس کا استبراء رحم نہ کرلے) ۔ ابوداؤدنے اس رائے کا اظہار کیا کہ، یہاں استبراء رحم کے ذکر میں ابومعاویہ کو وہم ہوگیا ہے تاہم ابوسعید خدر ؓ ی سے جو روایت منقول ہے اس میں اس کا ذکردرست ہے۔ ہمیں محمد بن ب کرنے روایت بیان کی ، انہیں ابوداؤدنے ، انہیں النفیلی نے، انہیں مسکین نے، انہیں شعبہ نے یزید بن خمیر سے ، انہوں نے عبدالرحمن بن جبیربن نفیرنے اپنے والد سے، انہوں نے حضرت ابوالدرداء سے کہ حضور ﷺ نے ایک غزوہ میں ایک عورت کو دیکھاجس کے وضع حمل کا وقت قریب آگیا تھا آپ نے اسے دیکھ کر فرمایا 0 لعل صاحبھا الم بھا۔ شاید اس کے مالک نے اس سے ہمبستری کی ہے) صحابہ کرام نے اثبات میں جواب دیاج سے سن کر آپ نے فرمایا (لقد ھمت ان العنہ لعنۃ تد خل معد فی قبراکیف یورثہ وھولایحل لہ وکیف یستخدمہ وھولایحل لہ، میرا ارادہ ہوگیا تھا کہ میں اسے ایسی لعنت کروں جو قبرتک اس کے ساتھ جائے، یہ شخص اس پیدا ہونے والے بچے کو کس طرح اپنا بیٹابناکردوسرے ورثاء کے ساتھ اسے وارث قراردے گا جبکہ یہ بات اس کے لیے حلال نہ ہوگی کیونکہ یہ اس کے نطفے سے نہیں ہوگا۔ نیزیہ شخص اس پیدا ہونے والے بچے کو غلاموں کی طرح اپنی خدمت پر کی سے لگائے گا جب کہ یہ بات اس کے لیے حلال نہیں ہوگی کیونکہ اس کا نطفہ اس میں شامل ہوگیا ہے۔ ) یہ روایت کسی لونڈی کی ملکیت حاصل کرنے والے شخص کو اس کے ساتھ ہمبستری سے روک رہی ہے جب تک کہ وہ اس کا استبراء رحم کرلے اگر غیرحاملہ ہوا ور جب تک وضع حمل نہ ہواگرحاملہ ہو۔ گرفتارشدہ عورت کے استبراء رحم کے متعلق فقہاء امصار کے درمیان کوئی اختلاف نہیں ہے، البتہ حسن بن صالح کا قول ہے کہ اگر اس عورت کا شوہردارالحرب میں موجودہوتو اس پر دوحیض کی عدت گزارنالازم ہے۔ ہم نے حضرت ابوسعیدخدر ؓ ی کی جس روایت کا ذکرکیا ہے اس سے ایک حیض کے ذریعے استبراء رحم کا ثبوت ملتا ہے۔ اس استبراء کو عدت نہیں کہہ سکتے کیونکہ اگر یہ عدت ہوتی تو حضور ﷺ ان گرفتارشدہ عورتوں میں سے جو شوہروں والی ہوتیں اور جو بے شوہرہوتیں دو میں فرق ضرور کرتے۔ اس لیے کہ عدت کا وجوب فراش یعنی ہمبستری کی وجہ سے ہوتا ہے جب حضور ﷺ نے فراش اور غیرفراش والی عورتوں کے درمیان فرق نہیں کیا تو اس سے یہ دلالت حاصل ہوئی کہ ایک حیض کے ذریعے یہ استبراء عدت نہیں کہلاسکتا۔ اگر کوئی یہ کہے کہ حضرت ابوسعیدخدر ؓ ی کی مذکورہ روایت کے الفاظ یہ ہیں (اذانقضت عدتھن، جب ان کی عدت گذرجائے) حضور ﷺ نے اس استبراء کو عدت کا نام دیاتو اس کے جواب میں یہ کہا جائے گا کہ یہ ہوسکتا ہے کہ یہ الفاظ راوی کے کلام کا جزء ہوں جس نے استبراء کے معنی بیان کرتے ہوئے اسے عدت کا نام دیا۔ اور یہ بھی ممکن ہے کہ عدت کی بنیاداستبراء رحم ہوتی ہے اس لیے مجازاعدت کے اسم کو استبراء پر محمول کرلیا گیا۔ ابوبکرجصاص کہتے ہیں کہ قول باری (والمحصنات من النساء الاماملکت ایمانکم) کے ایک اور معنی بیان کیئے گئے ہیں۔ زمعہ نے زہری سے اور انہوں نے سعیدبن المسیب سے روایت کی ہے کہ اس سے مراد شوہروالی عورتوں ہیں۔ سعیدنے اپنے قول کو اس بات کی طرف راجع کردیا کہ اللہ تعالیٰ نے زناکوحرام قراردیا ہے۔ معمرنے طاوس کے ایک بیٹے سے اور اس نے اپنے والد سے مذکورہ بالاآیت کے متعلق روایت کی ہے کہ طاؤس نے کہا : تمہاری بیوی وہ عورت ہے جس کی ملکیت تمہیں حاصل ہوچکی ہو۔ اللہ تعالیٰ نے زنا کو حرام قراردیا ہے اور تمھارے لیے اس عورت کے سوا کسی سے ہمبستری حلال نہیں ہے جس کی ملکیت تمہیں حاصل ہوچکی ہو۔ ابن ابی نجیع نے مجاہد سے زیربحث آیت کی تاویل میں نقل کیا ہے کہ اس میں زنا سے روکاگیا ہے۔ عطاء بن السائب سے منقول ہیے کہ، ہر شوہروالی عورت (محصنہ) تم پر حرام ہے سوائے اس عورت کے جس کی ملکیت نکاح کی بناپرتمھیں حاصل ہوجائے۔ ابوبکرجصاص کہتے ہیں کہ مذکورہ بالاحضرات کے نزدیک آیت کے معنی یہ ہوئے کہ شوہروں والی عورتیں اپنے شوہروں کے سواسب پر حرام ہیں ۔ چونکہ آیت کے الفاظ میں ان معنوں کا احتمال موجود ہے۔ اس لیے یہ کہنا ممتنع نہیں ہے کہ آیت میں اللہ تعالیٰ کی مراد بھی یہی ہو۔ لیکن اس سے ان معانی کو اختیار کرنے میں کوئی رکاوٹ نہیں ہے جو صحابہ کرام نے آیت کی تاویل کے سلسلے میں اختیار کیا ہے۔ یعنی ایسی گرفتارشدہ عورتوں کے ساتھ وطی کی اباحت جن کے شوہردارالحرب میں موجود ہوں ۔ اس طرح آیت کی تاویل کو دونوں معنوں پر محمول کیا جائے گا لیکن زیادہ ظاہر بات یہ ہے کہ ملک یمین کا اطلاق لونڈی پر ہوتا ہے بیویوں پر نہیں ہوتا اس لیے کہ اللہ تعالیٰ نے لونڈیوں اور بیویوں کے درمیان فرق رکھا ہے۔ چنانچہ ارشاد باری ہے (والذین لفروجھم حافظون الاعلی ازواجھم اؤماملکت ایمانھم، مومن وہ ہیں جو اپنی شرمگاہوں کی حفاظت کرتے ہیں مگر اپنی بیویوں یا ان عورتوں سے جن کی ملکیت انہیں حاصل ہو) ۔ اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے ملک یمین کو بیویوں سے علیحدہ قراردیا اور جب ملک یمین کا لفظ علی الاطلاق مذکورہ ہوتویہ ملکیت میں آئی ہوئی لونڈیوں پر محمول ہوتا ہے، بیویوں پر نہیں۔ حقیقت کے لحاظ سے بھی بات یہی ہے۔ کیونکہ شوہرکو اپنی بیوی کی کوئی ملکیت حاصل نہیں ہوتی۔ اسے تو صرف اس کے ساتھ ہمبستری کی اجازت ہوتی ہے اور وہ اس کے بضع سے لطف اندوز ہوسکتا ہے جو عورت کی ملکیت ہوتی ہے، مرد کی نہیں ۔ آپ دیکھ سکتے ہیں کہ اگر کسی عورت کے ساتھ شبہ کی بناپرہمبسترہ ہوجائے تو مہرپر عورت کا حق ہوگا مرد کا حق ن ہیں ہوگا۔ یہ چیز اس پر دلالت کرتی ہے کہ بیویوں کی کوئی چیز اس کی ملکیت میں نہیں ہوتی ۔ اس لیے قول باری (الاماملکت ایمانکم) کو اس عورت پر محمول کرنا واجب ہے۔ جسکی ملکیت اسے حقیقتاحاصل ہوچی ہو اوریہ عورت وہ ہے جو تم پر فرض کیا گیا ہے) عبیدہ سے مروی ہے کہ بیک وقت چار بیویاں رکھنے کا قانون، قول باری (کتاب اللہ علیکم) میں لفظ کتاب منصوب ہے تو اس کی وجہ یہ ہے کہ اہل علم کے قول کے مطابق اس کے معنی یہ ہیں۔ کتب اللہ علیکم ذلک، (اللہ نے تم پر یہ فرض کردیا ہے) ۔ اس کے معنی کے بارے میں ایک قول یہ ہے کہ، حرم ذلک کتابا من اللہ علیکم، (تم پر یہ حرام کردیاگیا ہے اور یہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے تم پر لکھ دیاگیا ہے) اس معنی میں اس حکم کے وجوب کی تاکید ہے اور ہمیں اس کی فرضیت کے متعلق خبردی گئی ہے اس لیے کتاب کے معنی فرض کے ہیں۔ قول باری ہے (واحل لکم ماوراء ذلکم) عبیدہ سلمانی اور سدی سے مروی ہے کہپانچ سے کم عورتیں تمہارے لیے حلال کردی گئی ہیں کہ تم انہیں اپنے اموال کے ذریعے نکاح کی بنا پر حاصل کرلو، عطاء کا قول ہے کہ تمہاری قریبی رشتہ دار عورتوں میں سے محرم خواتین کے سوا سب تم پر حلال کردی گئی ہیں۔ قتادہ کا قول ہے کہ قول باری (ماوراء ذالکم) سے وہ عورتیں مراد ہیں جن کی ملکیت تمہیں حاصل ہوگئی ہو، ایک قول یہ کہ محرم عورتوں اور چار سے زائد عورتوں کے ماسوا بشرطیکہ تم انہیں اپنے اموال کے ذریعے نکاح کی بنا پر یا ملک یمین کی بنا پر حاصل کرو، ابوبکر جصاص کہتے ہیں کہ ان عورتوں کے ماسوا جنہیں آیت میں محرمات قرار دیا گیا ہے نیز سنت نبی ﷺ میں جن کی ممانعت ہے یہ حکم باقی ماندہ عورتوں کے سلسلے میں عام ہے۔ مہرکابیان ارشاد باری ہے (واحل لکم ماوراء ذالکم ان تبتغوا باموالکم، ان عورتوں کے ماسواتمہارے لیے دوسری تمام عورتیں حلال کردی گئی ہیں بشرطیکہ تم اپنے اموال کے ذریعے انہیں حاصل کرو) اللہ تعالیٰ نے محرمات کے ماسوا دوسری عورتوں کی اباحت کو بضع کے بدل کی شرط کے ساتھ مشروط کردیا ہے اور بضع یعنی نسوانی اعضائے جنس کا بدل مال ہے اس کی دو باتوں پر دلالت ہورہی ہے۔ اول یہ کہ بضع کے بدلے کے لیے ضروری ہے کہ وہ ایسی چیز ہو جس کا استحقاق مال حوالے کرنے کی صورت میں ہو، دوم یہ کہ مہر وہ چیز ہے جو اموال کہلاتی ہے کیونکہ محرمات کے ماسوا دوسری عورتوں کی اباحت کے سلسلے میں آیت کے اندر ہر شخص کو خطاب کرکے کہا گیا ہے کہ وہ ایسی چیز کے ذریعے بضع حاصل کرے جو اموال کہلاتی ہو جیسا کہ یہ قول باری ہے (حرمت علیکم امھاتکم وبناتکم) اس میں ماؤں اور بیٹیوں کی تحریم کے سلسلے میں ہر شخص کو خطاب ہے۔ آیت زیر بحث میں یہ دلیل موجود ہے کہ ایسی معمولی چیز کا مہرقرار دیاجاناجائز نہیں ہے جس پر اموال کا اطلاق نہ ہوسکتا ہو۔ مہر کی مقدار میں فقہاء کے درمیان اختلاف رائے ہے ، حضرت علی سے منقول ہے کہ مہر دس درہم سے کم نہیں ہوتا، شعبی، ابراہیم، نخعی ، اور دوسرے تابعین نیز امام ابوحنیفہ ، امام ابویوسف، امام محمد، زفر اور حسن بن زیاد کا یہی قول ہے۔ حضرت ابوسعید خدری، حسن، سعید بن المسیب ، اور عطاء بن ابی رباح، کا قول ہے کہ قلیل وکثیر مہر پر نکاح جائز ہوجاتا ہے حضرت عبدالرحمن بن عورف نے سونے کی ایک ڈلی پر نکاح کیا تھا۔ ایک راوی کا کہنا ہے کہ میں نے اس ڈلی کو، ساڑھے تین درہم میں فروخت کیا تھا، کچھ لوگوں کا قول ہے کہ سونے کی ڈلی دس یاپانچ درہم کی ہوتی ہے امام مالک کا قول ہے کہ مہر کی کم ازکم مقدار چوتھائی دینار کی ہے، ابن ابی لیلی، لیث، سفیان ، ثوری ، حسن بن صالح اور امام شافعی کا قول ہے کہ قلیل اور کثیر مال پر نکاح ہوجاتا ہے خواہ وہ ایک درہم ہی کیوں نہ ہو۔ ابوبکرجصاص کہتے ہیں کہ قول باری (واحل لکم ماوراء ذالکم ان تبتغوا باموالکم) اس پر دلالت کررہا ہے کہ جو چیز اموال نہ کہلاتی ہو وہ مہر نہیں ہوسکتی اور یہ کہ مہر کے لیے شرط ہے کہ اسے اموال کا نام دیا جاسکتا ہو آیت کا مقتضی اور اس کا ظاہری یہی ہے۔ اس لیے جس شخص کے پاس ایک یادودرہم ہوں اس کے متعلق یہ نہیں کہا جاسکتا کہ وہ اموال والا ہے ، اس لیے آیت کے ظاہر کے مقتضی کی رو سے ایک یادودرہم کا مہر قرار پانا درست نہیں ہے۔ اگریہ کہاجائے کہ جس شخص کے پاس دس درہم ہوں اس کے متعلق بھی تو یہ نہیں کہا جاسکتا کہ وہ اموال والا ہے اور آپ نے دس درہموں کو مہرقرار دے دیا، تو اس کے جواب میں یہ کہاجائے گا کہ بلاشبہ ظاہر آیت کا مقتضی یہی ہے کہ دس درہم کی رقم مہر نہیں ہے لیکن ہم نے اجماع کی بنا پر اسے جائز قرار دیا ہے ، کیونکہ اجماع کی بنا پر آیت کی تخصیص جائز ہوتی ہے۔ نیز حرام بن عثمان نے حضرت جابر کے دو بیٹوں سے اور انہوں نے اپنے والد حضرت جابر سے روایت کی ہے حضور نے فرمایا، (لامھر اقل من عشرۃ دراھم، دس درہم سے کم کوئی مہر نہیں ہوتا، حضرت علی کا بھی قول ہے کہ دس درہم سے کم کوئی مہر نہیں ہوتا۔ یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ اجتہاد اور رائے کے حوالے سے اس قسم کی مقادیر کی جو خالص حقوق اللہ میں شمار ہوتی ہیں معرفت حاصل نہیں ہوسکتی ان کی معرفت کا ذریعہ توقیف یعنی شرع کی جانب سے رہنمائی یا اتفاق امت ہے ، حضرت علی کا مہر کی مقدار دس درہم مقرر کرنا اس بات پر دلالت کرتا ہے کہ آپ نے یہ بات توقیف کی بنا پر کہی ہے۔ اس کی نظیر وہ روایت ہے جو حیض کی کم سے کم اور زیادہ سے زیادہ مدت کے متعلق حضرت انس سے مروی ہے یہ بالترتیب تین دن اور دس دن ہے اسی طرح حضرت عثمان بن ابی العاص ثقفی سے نفاص کی زیادہ سے زیادہ مدت کے متعلق روایت ہے کہ یہ چالیس دن ہے۔ ظاہر ہے ان حضرات نے یہ مدتیں توقیف کی بنیاد پر بیان کی ہیں کیونکہ یہ باتیں اجتہاد اور رائے کی بنا پر نہیں کہی جاسکتیں اسی طرح حضرت علی سے مروی ہے کہ نمازی جب آخری قعدہ میں تشہد کی مقدار بیٹھ جائے گا، تو اس کی نماز پوری ہوجائے گی ، حضرت علی نے فرض کی ادائیگی کے لیے تشہد کی جو یہ مقدار مقرر کی ہے وہ اس پر دلالت کرتی ہے کہ آپ نے یہ بات توقیف کی بنیاد پر کہی ہے۔ ہمارے بعض اصحاب نے دس درہم کی مقدار کے لیے یہ استدلال کیا ہے کہ بضع یعنی اندام نہانی ایک ایسا عضو ہے جسے مال کے بدلے ہی اپنے لیے مباح کیا جاسکت ا ہے اس لیے یہ حد سرقہ میں قطع ید کے مشابہ ہوگیا، جب ہاتھ ایک ایساعضو ہے جسے مال کے بغیر مباح نہیں کیا جاسکت ا اور مال کی مقدار جس کی چوری کے بدلے ہاتھ کاٹ ڈالنا مباح ہوجاتا ہے اسے فقہاء کے اصول کے مطابق دس درہم ہے اس لیے مہر کا بھی اسی پر اعتبار کیا جائے گا۔ نیز جب سب کا اس پر اتفاق ہے کہ بضع کو اپنے لیے بدل کے بغیر مباح کرلیناجائز نہیں ہے اور بدل کی مقدار کے بارے میں اختلاف رائے ہے اس لیے بضع کے سلسلے میں ممانعت کا باقی رہنا واجب ہے یعنی اسے اس صورت کے سوا جس میں اس کے جواز کی دلیل قائم ہوجائے کسی اور صورت میں مباح نہیں کیا جاسکتا۔ جواز کی دلیل دس درہم ہے جس پر سب کا اتفاق ہے اور اس سے کم کی مقدار میں اختلاف ہے اس لیے کم کی صورت میں بضع کی ممانعت بحالہ باقی رہے گی۔ نیز جب بدل کے بغیر بضع کو مباح کرلیناجائز نہیں توپھریہ ضروری ہے کہ مہر مثل کی بدل قرار دیاجائے یہی بدل صحیح معنی میں بضع کی قیمت بن سکتا ہے نیز یہ بھی ضروری ہے کہ دلالت کے بغیر اس میں کمی نہ کی جائے۔ آپ دیکھ سکتے ہیں اگر کسی نے کسی عورت سے مہر مقرر کیے بغیر نکاح کرلیا تو بیوی کے لیے واجب ہونے والابدل اس کا مہر مثل ہوگا اسمیں اس بات کی دلیل موجود ہے کہ عقد نکاح مہر مثل کو واجب کردیتا ہے اس بنا پر کہ ی بات کسی طرح جائز نہیں کہ نکاح نے جس چیز کو واجب کردیا ہے اس کا کوئی حصہ دلالت کے بغیرساقط کردیاجائے۔ اب اجماع کی دلالت تو یہ ہے کہ دس درہم سے زائد مقدار کو ساقط کرنا جائز ہے اور اس سے کم کی مقدار کے متعلق اختلاف رائے ہے اس لیے ضروری ہے کہ مہر مثل واجب رہے جسے عقد نکاح نے واجب کردیاکیون کہ مہر مثل کے اسقاط پر کوئی دلیل قائم نہیں ہوتی۔ اگریہ سوال اٹھایاجائے کہ جب اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے (وان ظلمتوھن من قبل ان تمسوھن۔۔ تا۔۔۔ مافرضتم، اگر تم نے انہیں ہاتھ لگانے سے پہلے طلاق دے دی ہو اور ان کے لیے مہر بھی مقرر کیا ہوتومقرر کردہ مہر کا نصف انہیں ادا کرو) تو اس کا تقاضا یہ ہے کہ خواہ مہر تھوڑا ہو یا زیادہ اسکے نصف کی ادائیگی واجب ہے ، تو اس کے جواب میں کہاجائے گا، کہ ہماری مذکورہ بالاوضاحتوں سے جب اس بات کا ثبوت ہوگی ا کہ مہر دس درہم سے کم نہیں ہوتا، تواب دس درہم کے ایک حصے کو مہر کا نام دینااسی طرح ہے جس طرح ان اشیاء میں جن کے حصے اور ٹکڑے نہیں ہوسکتے۔ بعض کو اس نام سے پکارنا گویا کل کو پکارنا ہوتا ہے ، مثلا طلاق ، نکاح، وغیرہ اب چونکہ عقد میں دس کے حصے نہیں ہوسکتے تو اس کے لیے بعض کے لیے جو نام استعمال کیا گیا گویاوہی اس کے کل کے لیے بھی استعمال ہوا۔ اس لیے اگر کوئی شخص اپنی بیوی کو تعلق زن وشوہونے سے پہلے ہی طلاق دے دے گا تو اس سے دس کا آدھا بطور مہر ادا کرنا ضروری ہوگا، کیونکہ دس درہم ہی حقیقت میں فرض یعنی مقررہ مہر تھا۔ آپ دیکھیے اگر کوئی شخص اپنی بیوی کو آدھی طلاق دیتا ہے تو وہ اسے ایک پوری طلاق کے تحت مطلقہ بنادیتا ہے اسی طرح اگر اس نے اپنی بیوی کے آدھے حصے کو طلاق دے دی ہوتوگویا اس نے اس کے پورے جسم کو طلاق دے دی۔ اسی طرح اگر کسی نے قتل عمد میں نصف قتل معاف کردیاتوا سے پورے قتل کو معاف کرنے والاسمجھاجائے گا۔ ٹھیک اسی طرح پانچ درہم کو فرض یا مہر کا نام دیناگویادس درہم کو یہ نام دینا ہے کیونکہ یہ دلالت قائم ہوچکی ہے کہ عقد نکاح میں دس کے ٹکڑے نہیں ہوسکتے اس لیے جب ہم طلاق کے بعد پانچ درہم واجب کریں گے تو یہ فرض یعنی مقررہ مہر کا نصف کہلائے گا۔ نیز ہم مفروض یعنی مقررہ مہر کا نصف واجب کرتے ہیں اس لیے ہمارا یہ طرز عمل آی تکے حکم کے خلاف نہیں جاتا اور ہم کسی اور دلالت کی بنا پر پانچ درہم تک اضافے کو بھی واجب کرتے ہیں ہمارا مسلک ایت کے خلاف اسوقت ہوتا اگر ہم نصف فرض یعنی مہر کا نصف واجب نہ کرتے اب جبکہ ہم نے نصف فرض واجب کردیا اور اس پر کسی اور دلالت کی بنا پر اضافے کو بھی واجب کردیاتو اس میں آیت کی کسی طرح مخالفت نہیں ہوئی۔ جن لوگوں کا یہ قول ہے کہ مہر دس درہم سے کم کا بھی ہوسکتا ہے ان کا استدلال عامر بن ربیعہ کی روایت پر ہے کہ ایک عورت حضور کی خدمت میں پیش کی گئی اس نے ایک جوڑے جوتے کے مہر پر کسی سے نکاح کرلیا تھا، حضور نے اس سے پوچھا توجوتے کے ایک جوڑے کے بدلے اپنی جان اور اپنامال حوالے کرنے پر رضامند ہوگئی، اس نے اثبات میں جواب دیا، حضور نے اس نکاح کو جائز قرار دیا۔ اسی طرح ابوالزبیر کی روایت سے بھی ان حضرات نے استدلال کیا ہے جو انہوں نے حضرت جابر سے اور انہوں نے حضور کی آپ کا ارشاد ہے (من اعطی امرۃ فی نکاح کف دقیق اوسویق اوطعاما فقداستحل، جس شخص نے نکاح میں عورت کو ایک مٹھی آٹایاستویاطعام دے دیاتو اس نے اسے اپنے لیے حلال کرلیا) ۔ اسی طرح حجاج بن ارطاۃ کی روایت سے ان حضرات نے استدلال کیا ہے جو انہوں نے عبدالملک بن المغیرہ الطائفی سے روایت کی ہے انہوں نے عبدالرحمن بن السلمانی سے کہ حضور نے ایک دن دوران خطبہ ارشاد فرمایا (انکحوالایامی منکم، تمہارے خاندانوں میں جو عورتین بیوہ ہیں ان کا نکاح کرادو) ۔ صحابہ نے عرض کیا ، ان کے نکاح کا ذریعہ یعنی مہر کیا ہوگا، آپ نے فرمایا (ماتراضی بہ الاھلون، جس پر طرفین کے کنبے والے رضامند ہوجائیں اس روایت سے بھی ان کا استدلال ہے کہ آپ نے فرمایا، (من استحل بدرھمین فقد استحل، جس شخص نے دودرہم کا مہر دے کر کسی کو اپنے لیے حلال کرلیا اس نے فی الواقع حلال کرلیا، نیز یہ روایت بھی کہ حضرت عبدالرحمن بن عوف نے سونے کی ایک ڈلی پر نکاح کرلیا تھا، اور اس کی اطلاع حضور کو دی تھی ، تو آپ نے فرمایا تھا، اولم ولوبشاۃ، ولیمہ ضرور کروخواہ ایک ہی بکری ہی ذبح کرلو) آپ نے سونے کی ایک ڈلی پر مہر نکاح کے متعلق کسی ناپسندیدگی کا اظہار نہیں فرمایا۔ ایک اور روایت بھ ہے جس کے راوی ابوحازم ہیں انہوں نے حضرت سہل بن سعد سے ایک عورت کا واقعہ بیان کیا کہ وہ حضور کی خدمت میں آکرعرض کرنے لگی کہ ، میں اپنی ذات آپ کو ہبہ کرتی ہوں، آپ نے فرمایا، کہ مجھے اس کی ضرورت نہیں ہے پاس ہی موجود ایک شخص نے عرض کیا، آپ اس کے ساتھ میرانکاح کرادیجئے۔ آپ نے اس سے پوچھا تمہارے پاس اسے مہر میں دینے کے لیے کچھ ہے ، اس نے عرض کیا میرے پاس تو بس میرایہ تہمد ہے آپ نے فرمایا اگر تم اسے اپناازار دے دوگے تو تم تہمد کے بغیر بیٹھ رہو گے۔ پھر آپ نے اس سے فرمایا، مہر کے لیے کوئی چیز تلاش کرو خواہ وہ لوہے کی انگوٹھی کیوں نہ ہو، اس طرح آپ نے مہر کے لیے لوہے کی ایک انگوٹھی کی اجازت دے دی، اور لوہے کی انگوٹھی ظاہر ہے دس درہم کی نہیں ہوتی۔ نعلین کے مہر پر نکاح کی اجازت کا جواب یہ ہے کہ یہ دس یا اس سے زائد درہم کے ہوسکتے ہیں ، اس لیے اختلافتی نکتے پر اس کی کوئی دلالت نہیں ہوسکتی ، کیونکہ اس شخص نے جوتے کے ایک جوڑے پر نکاح کیا تھا، اور پھر حضورکواس کی اطلاع دی تھی۔ یہ بھی ممکن ہے کہ جوتے کے دیے ہوئے جوڑے کی قیمت دس درہم یا اس سے زائد ہو، لفظ کے عموم میں اس بات کی دلالت موجود نہیں کہ جوتوں کا جوڑا چاہے جس قسم کا بھی ہو اس پر نکاح کی اباحت ہوجاتی ہے اس لیے مخالف کے قول پر اس کی دلالت نہیں ہوسکتی، نیز حضور نے نکاح کے جواز کی اسے اطلاع دی اور نکاح کا جواز اس پر دلالت نہیں کرتا کہ جوتوں کا جوڑا ہی مہر ہوسکتا ہے اس کے سوادوسری کوئی چیز مہر نہیں بن سکتی ، کیونکہ اگر وہ مہر کے بغیر بھی نکاح کرلیتا پھر بھی نکاح جائز ہوجاتا۔ نکاح کے جواز سے اس پر بھی دلالت نہیں ہوئی کہ عورت کے لیے کوئی مہر نہیں ٹھیک اسی طرح دس درہم سے کم قیمت والے جوتے کے ایک جوڑے پر نکاح کے جواز میں یہ دلالت موجود نہیں کہ ان کے سوا اور کوئی چیز واجب نہیں ہوتی، رہ گیا حضور کا یہ ارشاد کہ ، جس نے دودرہم یا ایک مٹھی آٹے کے مہر پر کسی عورت کو اپنے لیے حلال کرلیا توفی الواقع اس نے حلال کرلیاتو اس میں ملک بضع کی خبر دی گئی ہے۔ اس میں یہ دلالت موجود نہیں ہے کہ اس کے سوا اور کوئی چیز واجب نہیں ہوتی ، اسی طرح حضرت عبدالرحمن بن عوف کی یہ روایت کہ انہوں نے سونے کی ایک ڈلی پر نکاح کرلیا تھا، جس کی قیمت ایک روایت کے مطابق پانچ یادس درہم تھی، رہ گیا آپ کا یہ قول کہ علائق یعنی لوازم یا ذرائع وہ ہیں جن پر طرفین کے کنبے والے رضامند ہوجائیں تو یہ اس چیز پر محمول ہوگا، جو شریعت کے لحاظ سے جائز قرار دی جاسکتی ہو۔ آپ نہیں دیکھتے کہ اگر طرفین کے خاندان والے شراب یاخنزیر پر رضامند ہوجائیں یا ایک جانب سے یہ شرط لگادی جائے کہ یہ نکاح اس وقت ہوگا جبکہ دوسری جانب والے اپنی بہن یابیٹی کا نکاح مہر کے بغیر ہمارے ساتھ کردیں تو ان تمام صورتوں میں ان کی باہمی رضامندی جائز متصور نہیں ہوگی۔ یہی بات مہر کے تعین میں باہمی رضامندی کے اندر بھی چلے گی یعنی اس مہر کے تعین پر باہمی رضامندی کی درست قرار دیاجائے گا جس کا حکم شریعت میں ثابت ہوچکا ہو اور وہ دس درہم کا تعین ہے ، حضرت سہل بن سعد کی روایت کی تاویل یہ ہے کہ حضور نے اس شخص کو اس عورت کے لیے فوری طور پر کوئی چیز پیش کرنے کا حکم دیا تھا۔ ان ہی معنوں پر آپ کے کلام کو محمول کیا جائے گا، اس لیے کہ اگر آپ کا ارادہ مہر کے تعین کا ہوتا جس کے ذریعے عقد نکاح درست ہوجاتا تو آپ اس سے یہ سوال کرنے کی بجائے کہ فوری طور پر وہ کیا پیش کرسکتا ہے اس کے ذمہ مہر کی وہ مقدار لازم کردینے پر اکتفا کرلیتے جس کے ذریعہ عقد نکاح کی صحت عمل میں آجاتی۔ اس لیے آپ کا یہ قول اس پر دلالت کررہا ہے کہ آپ نے اس سے وہ چیز مراد نہیں لی جس کا مہر بنادرست ہوسکتا ہویہی وجہ ہے کہ جب آپ کو اس کے پاس کوئی چیز نہیں ملی تو آپ نے فرمایا میں اس کے ساتھ تمہار انکاح قرآن کے ان اجزاء پر کردیتا ہوں جو تمہیں یاد ہیں حالانکہ قرآن کے جو اجزاء سے یاد تھے انہیں مہر نہیں کیا جاسکتا اس لیے آپ کے اس قول سے ہمارے ذکر کردہ نکتے کی صحت پر دلالت ہوتی ہے۔ اگر کوئی شخص کسی عورت سے اس شرط پر نکاح کرلیتا ہے کہ وہ اس کی ایک سال تک خدمت کرے گا تو اس نکاح کے حکم کے متعلق فقہاء میں اختلاف رائے ہے۔ امام ابوحنیفہ اور امام ابویوسف کا قول ہے کہ ایک سال تک خدمت کی شرط پر اگر کسی نے نکاح کرلیا توآزاد مرد ہونے کی صورت میں عورت کو مہر مثل ملے گا، اور غلام ہونے کی صورت میں وہ ایک سال تک اس کی خدمت کرے گا۔ امام محمد کا قول ہے کہ اگر وہ شخص آزاد ہوگاتو عورت کو اس کی خدمت کی قیمت ادا کی جائے گی، امام مالک کا قول ہے کہ اگر کوئی شخص کسی عورت سے اس شرط پر نکاح کرتا ہے کہ وہ اپنی ذات کو ایک سال یا اس سے زائد یا اس سے کم عرصے کے لیے اجارے پر عورت کے حوالے کردے گا اور یہی اس کا مہر ہوگاتوتعلق زن وشو نہ ہونے کی صورت میں اس نکاح فسخ ہوجائے گا بصورت دیگر اس کا نکاح ثابت ہوجائے گا۔ اوزاعی کا قول ہے کہ اگر کسی شخص نے کسی عورت سے اس شرط پر نکاح کرلیا کہ وہ اسے حج کرائے گا، پھر تعلق زن وشوہونے سے قبل ہی اسے طلاق دے بیٹھا تو وہ اس عورت کو حج کے سلسلے میں سواری ، لباس اور اخراجات کا نصف بطور تاوان ادا کرے گا۔ حسن بن صالح اور امام شافعی کا قول ہے کہ ایک سال کی خدمت کے عوض نکاح جائز ہے بشرطیکہ ایک سال کے وقت کا تعین کردیاجائے امام ابوحنیفہ ، امام ابویوسف ، اور امام ماھمد کا قول ہے کہ اگر کوئی شخص کسی ورت سے اس شرط پر نکاح کرلے کہ وہ اسے قرآن کی ایک سورت سکھادے گا تویہ مہر نہیں ہوگا اور عورت کو مہر مثل ملے گا۔ امام مالک اور لیث بن سعد کا بھی یہی قول ہے ، امام شافعی کا قول ہے کہ یہی اس کا مہر ہوگا لیکن اگر اس نے تعلق زن وشو ہونے سے قبل اسے طلاق دے دی توسورت کی تعلیم کی تکمیل کی صورت میں تعلیم کی نصف اجرت اس عورت سے وصول کرے گا۔ امام شافعی سے المزنی نے اس قول کی روایت کی ہے لیکن ربیع کی روایت کے مطابق مہر مثل کا نصف اس عورت سے وصول کرے گا۔ ابوبکر جصاص کہتے ہیں کہ قول باری (واحل لکم ماوراء ذالکم ان تبتغوا باموالکم) اس بات کا مقتضی ہے کہ بضع نسوانی اعضائے جنس کا بدل ایسی چیز ہو جس کا استحقاق مال حوالے کرنے کی صورت میں ہو۔ اس لیے قول باری ) (ان تبتغوا باموالکم ) میں دومعنوں کا احتمال ہے ، اول بضع کے بدل کے طور پر مال کی تملیک ، دوم ، مال کے منافع ہوں گے جن کی وجہ سے وہ مال کو عورت کے حوالے کرنے کے قابل سمجھا جائے گا، کیونکہ قول باری (ان تبتغوا باموالکم ) ان دونوں معنوں پر مشتمل اور ان دونوں معنوں کا مقتضی ہے۔ مہر کا حکم یہ ہے کہ وہ مال ہو اس پر یہ قول باری دلالت کرتا ہے (واتوالنساء صدقتھن نحلہ، فان طبن لکم عن شی منہ نفسا فکلوہ ھنیاء مریا، اور عورتوں کے مہر خوش دلی کے ساتھ فرض جانتے ہوئے ادا کرو، البتہ اگر وہ خود اپنی خوشی سے مہر کا کا کوئی حصہ تمہیں معاف کردیں توا سے تم مزے سے کھاسکتے ہو) ۔ یہ دلالت اس طرح ہے کہ قول باری (واتوالنساء صدقاتھن نحلہ) امر کا صیگہ ہے جس کا ظاہر ایجاب کا مقتضی ہے اور اسکے مفہوم کی اس پر دلالت ہورہی ہے کہ مہر مال کی صورت میں ہونا چاہیے یہ دلالت دو وجہ سے ہورہی ہے۔ اول : قول باری (واتو) کے معنی ، اعطوا کے ہیں، اور اعطاء یعنی عطا کرنا اعیان یعنی نقود و اسباب میں ہوتا ہے منافع میں نہیں ہوتا، کیونکہ منافع میں اعطاء کے حقیقی معنی پیدا نہیں ہوسکتے۔ دوم : قول باری (فان طبن لکم عن شئی منہ نفسا فکلوہ ھنیاء مریا) اور یہ صورت منافع میں پیدا نہیں ہوسکتی، یہ صورت صرف اشیائے خوردنی میں یا ایسی چیز میں پیدا ہوسکتی ہے کہ جسے اعطاء کے بعد خوردنی اشیاء میں تبدیل کیا جاسکتا ہو اس لیے آیت کی دلالت اس بات پر ہورہی ہے کہ منافع کو مہر قرار نہیں دیا جاسکتا۔ اگریہ کہاجائے کہ اس وضاحت کی روشنی میں غلام کی خدمت کو بھی مہر قرار د نہیں دیا جاسکتا۔ تو اس کے جواب میں کہاجائے گا کہ ظاہر آیت کا اقتضاء آیت کا اقتضاء یہی ہے ، اور اگر اس کے لیے دلالت قائم نہ ہوجاتی تو یہ ہرگز جائز نہ ہوتی۔ مہر کے سلسلے میں زیربحث مسئلے پر یہ بات بھی دلالت کرتی ہے کہ حضور نے نکاح شغائر سے منع فرمایا ہے ، جس کی صورت یہ ہے کہ کوئی شخص کسی شخص سے اپنی بہن ، بیٹی ، یا لونڈی کا نکاح کردے اور طرفین کے ان دونوں نکاحوں میں کوئی مہر مقررنہ کیا جائے۔ یہ چیز اس بات کی اصل اور بنیاد ہے کہ مہر صرف وہی چیز ہوسکتی ہے جس کا استحقاق مال حوالے کرنے کی صورت میں ہو، جب حضور نے اس چیز کو باطل قرار دیا کہ منافع بضع کو مہر بنادیاجائے کیونکہ یہ مال نہیں ہے تو اس کی اس مفہوم پر دلالت ہوگئی کہ بضع کے بدل کے طور پر ہر ایسی چیز کی شرط جس کا استحقاق مال حوالے کرنے کی صورت میں نہ ہو، مہر قرار نہیں دیا جاسکتی۔ ہمارے اصحاب کا بھی اس سلسلے میں یہ قول ہے کہ اگر قتل عمد میں خون معاف کرنے یافلاں بیوی کو طلاق دینے کی شرط پر کوئی شخص کسی عورت سے نکاح کرلیتا ہے تو یہ بھی اسی طرح مہر نہیں بن سکتی جس طرح منافع بضع مہر نہیں بن سکتے ، امام شافعی نے نکاح شغار کے سلسلے میں یہ کہا ہے کہ اگر طرفین میں سے کسی ایک نکاح کا بھی مہر مقرر کردیاجائے تو نکاح جائز ہوجائے گا، اور دونوں عورتوں میں سے ہر ایک کو مہر مثل ملے گا۔ امام شافعی نے جس صورت میں نکاح کو جائز قرار دیا ہے اس میں بضع کو مہر قرار نہیں دیادوسری طرف حضور نے نکاح شغار سے منع فرمادیا ہے۔ اس صورت حال کی دو باتوں پر دلالت ہوتی ہے اول یہ کہ اگر نکاح شغار دولونڈیوں کی صورت میں ہو توپھر منافع بضع ہی مہر قرار دیاجائے گا، کیونکہ آقا مہر کا حق دار ہوتا ہے حالانکہ حضور نے منافع بضع کو نکاح کا بدل بننے کی ممانعت فرماکر اسے باطل قرار دیا ہے۔ دوم اگر نکاح شغار دوآزاد عورتوں کی صورت میں ہورہا ہو اورطرفین میں سے ایک دوسرے سے یوں کہے ، میں اپنی بہن کا نکاح تیرے ساتھ اس شرط پر کررہاہوں کہ تو اپنی بیٹی کا میرے ساتھ نکاح کردیگا، تو یہ عقد ان دونوں عورتوں میں سے کسی کے لیے مہر کے ذکر سے یکسر خالی ہوگا، اس لیے کہ اس عقد میں منافع کی شرط ایک ایسے فرد کے لیے لگائی گئی ہے جو منکوحہ کے علاوہ کوئی اور ہے اور وہ ولی ہے۔ اس طرح ان دونوں صورتوں میں سے ایک کے اندر شغار کا نکاح منکوحہ کے لیے بدل کے ذکر سے خالی ہوگا، اور دوسری صورت کے اندر بضع کا بدل کسی اور بضع کے منافع کی شکل میں مقرر ہوگا، حالانکہ حضور نے اسے بدل بننے سے روک دیا ہے۔ اس طرح یہ بات بھی اس قاعدے کی اصل اور بنیاد بن جائے گی، کہ بضع کے بدل کی شرط یہ ہے کہ اس کا استحقاق مال کی حوالگی کی صورت میں پایاجائے۔ اگر یہ کہاجائے کہ لونڈی کے بضع کے منافع مال کے اندر ایک حق کی صورت میں ہوتے ہیں تو یہ بات غلام سے خدمت لینے کی شرط پر نکاح کرانے کی صورت کے مشابہ کیوں نہیں قرار دی گئی۔ تو اس کے جواب میں کہاجائے گا کہ مشابہ قرار دینے کی وجہ یہ ہے کہ غلام کی خدمت کی صورت میں مال کی حوالگی کا استحقاق پیدا ہوجاتا ہے اور یہ مال غلام کی گردن یعنی اس کی ذات ہے جو حوالے ہوجاتی ہے جس طرح کہ غلام کو اجارے پر لینے والے شخص کو یہ استحقاق پیدا ہوجاتا ہے کہ خدمت کے لیے غلام اس کے حوالے کردیاجائے ۔ اس کے برعکس لونڈی کے شوہر یہ استحقاق نہیں ہوتا کہ عقد نکاح کی بنا پر لونڈی اس کے حوالے کردی جائے کیونکہ آقا کو یہ اختیار ہوتا ہے کہ وہ لونڈی کو اپنے شوہر کے ساتھ رات گذارنے کی اجازت نہ دے، جبکہ قول باری (ان تبتغوا باموالکم، کا اقتضاء یہ ہے کہ عقد نکاح کی بنا پر بضع کے بدل کے طور پر مال کی حوالگی کا اس پر استحقاق ہوجائے۔ قرآن کی ایک سورت کی تعلیم پر نکاح کرادینے کے مسئلے میں یہ تعلیم دو وجہ سے مہر قرار نہیں دی جاسکتی، اول جیسا کہ ہم ذکر کر آئے ہیں کہ اس کے ذریعے مال کی حوالگی کا استحقاق نہیں ہوتا۔ جس طرح کسی آزاد انسان کی خدمت کو مہر مقرر کرنے کی صورت میں مال کی حوالگی کا استحقاق نہیں ہوتا۔ دوم یہ کہ قرآن کی تعلیم فرض کفایہ ہے اس لیے جو شخص بھی کسی کو قرآن کی تعلیم دے گا وہ اپنا ایک فرض ادا کرے گا۔ حضرت عبداللہ بن عمر نے حضور سے روایت کی ہ یکہ آپ نے فرمایا، بلغواعنی ولوایہ، میری طرف سے لوگوں کو پہنچاؤ خواہ وہ ایک آیت ہی کیوں نہ ہو، اس لیے یہ کیسے جائز ہوسکتا ہے کہ تعلیم قرآن کو بضع کا بدل قرار دے دیاجائے، اگر یہ بات جائز ہوتی تو تعلیم اسلام پر بھی نکاح جائز ہوجاتا۔ حالانکہ یہ باطل ہے اس لیے کہ اللہ تعالیٰ نے انسان پر جس کام کا کرنا واجب قرار دیا ہے ، جب وہ یہ کام کرے گا، تو وہ اپنافرض ادا کرے گا، اس پر وہ کوئی دنیاوی چیز لینے کا مستحق قرار نہیں پائے گا، اگر یہ بات جائز ہوجائے توحکام کے لیے فیصلوں کی بنا پر رشوت خوری جائز ہوجائے، حالانکہ اللہ تعالیٰ نے اسے حرام کی خبیث کمائی قرار دیا ہے۔ اگر کوئی شخص اس سلسلے میں حضرت سہل بن سعد کی حدیث سے استدلال کرتا ہے جس میں اس عورت کا واقعہ بیان کیا گیا ہے ، جس نے اپنی ذات حضور کے لیے ہبہ کردی تھی پھر ایک شخص نے عرض کیا تھا کہ اس کا نکاح میرے ساتھ کردیجئے، آپ نے اس شخص سے دریافت فرمایا تھا کہ کیا تمہیں قرآن کی کوئی سورت یاد ہے ؟ اس نے جواب میں عرض کیا تھا کہ ہاں، فلاں سورت یاد ہے، یہ سن کر آپ نے فرمایا تھا کہ قرآن کے اس حصے پر جو تمہارے پاس ہے میں نے تمہارا اس عورت سے نکاح کرادیا۔ اس طرح اگر استدلال میں وہ حدیث پیش کی جائے جس کی ہمیں محمد بن بکر نے روایت کی ہے انہیں ابوداؤد نے ، انہیں احمد بن حفص بن عبداللہ نے ، انہیں ان کے والد نے انہیں ابراہیم بن طہمان نے حجاج باہلی سے ، انہوں نے عسل سے انہوں نے عطاء بن ابی رباح سے اور انہوں نے حضرت ابوہریرہ سے ۔ یہ روایت بھی عورت کے واقعہ کے متعلق حضرت سہل بن سعد کی روایت سے ملتی جلتی ہے اس میں یہ ذکر ہے کہ حضور نے اس شخص سے دریافت کیا کہ تمہیں قرآن کی کون سی سورت یاد ہے ؟ اس نے جواب دیا، مجھے سورة بقرہ یا اس سے متصل سورت یاد ہے ، اس پر آپ نے فرمایا، جاؤ اس عورت کو بیس آیتیں پڑھادو یہ تمہاری بیوی ہوگئی۔ اگر اس استدلال میں یہ روایتیں پیش کی جائیں تو جواب میں کہاجائے گا، کہ حضور سے مروی حدیث کے الفاظ (قدزوجتکھا بمامعک من القرآن) کے معنی ، لمامعک من القرآن، کے ہیں، یعنی میں نے اس عورت کا تم سے نکاح قرآن کے اس حصے کی بنا پر کرادیا جو تمہارے پاس ہے ، جس طرح کہ قول باری (ذالکم بماکنتم تفرحون فی الارض بغیرالحق وبماکنتم تمرحون، یہ اس وجہ سے ہے کہ تم زمین میں ناحق خوش ہوتے اور اتراتے تھے) ۔ یہاں (بماکنتم) کے معنی، لماکنتم، کے ہیں ، یعنی اس وجہ سے کہ تم خوش ہوتے اور اتراتے تھے ، نیز قرآن کا اس کے پاس ہونا اس کے بدل بن جانے کا موجب نیہں ہے اس روایت میں تعلم کا کوئی ذکر نہیں ہے۔ اس سے ی بات ہمیں معلوم ہوئی کہ آپ اس قول سے یہ مراد تھی کہ عظمت قرآن کی بنا پر نیز اس بنا پر کہ قرآن کا ایک حصہ تمہارے سینے میں ہے میں نے اس عورت سے تمہارا نکاح کرادیا۔ اس کا وہی مفہوم ہے جو اس روایت کا ہے جس کے راوی عبداللہ بن عبداللہ بن ابی طلحہ ہیں ، جنہوں نے حضرت انس سے روایت کی ہے کہ ابوطلحۃ نے ام سلیم کو پیغام نکاح دیا۔ ام سلیم نے کہا کہ میں اس شخص یعنی حضور پر ایمان لے آئی ہوں، اور یہ گواہی دیتی ہوں کہ آپ اللہ کے رسول ہیں ، اگر تم اس معاملے میں میرے نقش قدم پر چلو گے تو میں تم سے نکاح کرلوں گی۔ ابوطلحۃ نے جواب دیا کہ میں بھی اس معاملے میں تمہارے اختیار کردہ طریقے پر ہوں۔ اس پر ام سلیم نے ابوطلحۃ سے ، اسلام کی خاطر نکاح کیا تھا، ورنہ اسلام حقیقت میں کسی کے لیے مہر نہیں بن سکتا۔ یہ تو رہی پہلی روایت کی تاویل، رہ گئی ، ابراہیم بن طہمان کی رویات و اس کی سند ضیعف ہے اس واقعہ کو امام مالک نے ابوحازم سے اور انہوں نے سہل بن سعد سے نقل کیا ہے اس میں یہ ذکر نہیں ہے کہ آپ نے فرمایا، اس عورت کو پڑھادو۔ امام مالک کی یہ روایت ابراہیم بن طہمان کی روایت کے معارض بھی نہیں ہے اگر یہ روایت درست بھی مان لی جائے تو اس میں یہ دلالت موجود نہیں ہے کہ آپ نے تعلیم قرآن کو مہر قرار دیا، کیونکہ اس بات کا امکان موجود ہے کہ آپ نے اسے عورت کو قرآن پڑھانے کا حکم دیا، ہو اورمہراس کے ذمے باقی ہو، آپ نے یہ تو نہیں فرمایا کہ قرآن کی تعلیم اس عورت کے لیے مہر ہے۔ اگریہ کہاجائے کہ ارشاد باری ہے (انی ارید ان انکحک احدابنتی ھاتین علی ان تاجرنی ثمانی حجج، میں اپنی ان دو بیٹیوں میں سے ایک کا تمہارے ساتھ اس شرط پر نکاح کردیناچاہتوں کہ تم آٹھ برسوں تک میرے ہاں کام کرو گے ، اس میں آزاد فرد یعنی حضرت موسیٰ کے منافع کو بضع کا بدل بنادیا گیا۔ تو اس کے جواب میں کہاجائے گا کہ منافع کو عورت کے لیے مشروط نہیں کیا گیا، بلکہ انہیں حضرت شعیب کے لیے مشروط کیا گیا تھا، اور باپ کے لیے مشروط کی ہوئی چیز مہر نہیں ہوتی، اس لیے زیر بحث مسئلہ میں اس سے استدلال غلط ہے۔ نیزاگریہ درست بھی ہوجائے کہ منافع کو حضرت موسیٰ کی بیوی کے لیے مشروط کیا گیا تھا اور حضرت شعیب نے ان کی نسبت اپنی طرف اس لیے کرلی تھی ، کہ عقد نکاح کے متولی اور کارپردازوہی تھے یا اس لیے کہ ولد کے مال کی نسبت والد کی طرف ہوتی ہے ، جیسا کہ حضور کا ارشاد ہے ، انت ومالک لابیک، تو اورتیرامال سب تیرے باپ کا ہے۔ تو یہ کہاجائے گا کہ نکاح شغار کی نہی کے سبب اب یہ حکم منسوخ ہوچکا ہے۔ قول باری (ان تبتغوا باموالکم) اس پر دلالت کرتا ہے کہ لونڈی کو آزاد کردینا اس کے لیے مہر نہیں بن سکتا، کیونکہ آیت کا اقتضاء یہ ہے کہ بضع کا بدل ایسی چیز ہو جس کی بنا پر لونڈی کو مال کرنے کا استحقاق پیدا ہوجائے اور آزادی دینے کی صورت میں کسی مال کی حوالگی عمل میں نہیں آتی بلکہ اس میں صرف ملکیت کا اسقاط ہوتا ہے اور یہ نہیں ہوتا کہ اس کی وجہ سے مال لونڈی حوالے کردینے کا استحقاق ہوجائے۔ آپ دیکھ سکتے ہیں کہ رق، یعنی غلامی، جس کا آقا مالک ہوتا ہے لونڈی کی طرف منتقل نہیں بلکہ عتق کے ذریعے صرف آقا کی ملکیت کا خاتم ہوجاتا ہے اس لیے جب آزادی ملنے کی بنا پر لونڈی کو کوئی مال ہاتھ نہیں آتا یا کوئی مال اس کے حوالے کرنے کا حق اسے حاصل نہیں ہوتا توعتق مہر نہیں بن سکتا۔ حضور سے یہ جو مروی ہے کہ آپ نے حضرت صفیہ کو آزاد کردیا تھا اور اس آزادی کو ان کے لیے مہر مقرر دیا تھا، تو اس کی وجہ یہ تھی کہ آپ کے لیے مہر کے بغیر نکاح کرنا جائز تھا یہ صرف آپ کی خصوصیت تھی ، امت کے لیے یہ حکم نہیں تھا۔ چنانچہ ارشاد باری ہے (وامرۃ مومنۃ ان وھبت نفسھا للنبی ان ارادالنبی ان یستنکحھا خالصہ لک من دون المومنین، اگر ایک مومن خاتون اپنی ذات نبی کریم کے لیے ہبہ کردے اگر (نبی ﷺ ) اسے اپنے نکاح میں لیناچا ہیں یہ حکم خالص آپ کے لیے ہے ، اہل ایمان کے لیے نہیں) ۔ اس طرح حضور کی یہ خصوصیت تھی کہ آپ کسی بدل کے بغیر بضع کے مالک ہوسکتے تھے جس طرح کہ بیک وقت نوازدواج مطہرات کو اپنے عقد میں رکھنا آپ کی خصوصیت تھی، امت کے لیے اس کا جواز نہیں تھا۔ قول باری (واتوالنساء صدقاتھن نحلہ، فان طبن لکم عن شی منہ نفسا فکلوہ ھنیامریا۔ اس پر کئی وجوہ سے دلالت کرتا ہے کہ عتق مہر نہیں ہوسکتا ایک وجہ تو یہ ہے کہ قول باری (واتوھن ) یہ امر کا صیغہ ہے جو ایجاب کا مقتضی ہے اور آزادی عطا کرنے میں ایجاب کا مفہوم موجود نہیں ہے۔ دوسری وجہ یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے ، (فان طبن لکم عن شئی منہ نفسا) اور عتق کے اندریہ نہیں ہوسکتا کہ اگر لونڈی خوش دلی کے ساتھ اس میں سے کچھ واپس کردے تو اس بنا پر اسے فسخ قرار دیاجائے۔ تیسری وجہ یہ ہے کہ ارشاد باری ہے (فکلوہ ھنیا مریا) کھالینے کا مفہوم عتق کے اندر محال ہے۔ قول باری ہے (محصنین غیرمسافحین، بشرطیکہ حصار نکاح میں انہیں محفوظ کرونہ یہ کہ آزاد شہوت رانی کرنے لگو) ابوبکرجصاص کہتے ہیں کہ اس قول باری میں دواحتمالات ہیں اول یہ کہ عقد نکاح کی بنا پر نکاح کرنے والوں کے محص یعنی عفیفبن جانے کا حکم جاری کرکے نکاح کرلینے پر ان کی حالت یعنی صفت احصان وعفت سے متصف ہونے کی انہیں خبر دی گئی ہے ۔ دوم یہ کہ قول باری (واحل لکم ماوراء ذالکم ) میں مذکورہ اباحت کو احصان کی شرط کے ساتھ مشروط کردیا گیا ہے ، اگر اللہ تعالیٰ کے ہاں پہلی صورت مراد ہے تو نکاح کی اباحت کو مطلق یعنی غیر مقید رکھنے میں ایسا عموم ہوگا جس کا ان تمام صورتوں میں اعتبار کرنا درست ہوگا، جو اس کے تحت آتی ہیں۔ البتہ وہ صورتیں اس عموم سے خارج ہوں گی جن کے لیے شرعی دلیل موجود ہوگی اگر دوسری وجہ مراد ہے تو نکاح کی اباحت کو مطلق رکھنا دراصل مجمل ہوگا، کیونکہ اس اطلاق کو اس شرط کے ساتھ مشروط کردیا گیا ہے کہ نکاح کے ذریعے احصان یعنی عفت وپاک دامنی کی صفت پیدا ہوجائے۔ اب لفظ احصان کود مجمل ہے جس کے بیان اور تفصیل کی ضرورت ہے ، اس لیے اس لفظ سے دوسری وجہ پر استدلال درست نہیں ہوگا، بلکہ بہتر یہ ہوگا کہ آیت کو پہلی وجہ پر محمول کرتے ہوئے یہ مفہوم لیاجائے کہ اس کے ذریعے نکاح کرلینے کی بنا پر صفت احصان کے حصول کی خبر دی گئی ہے کیونکہ اس طرح اس پر عمل پیرا ہوناممکن ہوگا۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ جب کوئی ایسالفظ وارد ہوجائے جس میں ایسے عموم کا احتمال موجود ہو، جس کے ظاہر پر ہمارے لیے عمل پیرا ہونا ممکن ہو، اور ساتھ ہی ساتھ اس لفظ میں یہ احتمال بھی پایاجاتاہو کہ یہ مجمل ہو اور اس کا حکم شریعت کی طرف سے بیان اور تفصیل پر موقوف ہو تو اس صورت میں اس لفظ کو اجمال کی بجائے عموم کے معنوں پر محمول کرنا واجب ہوتا ہے کیونکہ اس صورت میں لفظ کے ورود کے ساتھ ہی اس کے حکم پر عمل پیرا ہوجا ناممکن ہوتا ہے۔ اس بنا پر ہمارے لیے اس سی عموم کی طرف رجوع کرنا ضروری ہوجاتا ہے اور لفظ کو اس وجہ پر محمول کرنا درست نہیں ہوتاجس سے اس کے حکم پر عمل ساقط ہوجائے اور جب تک کسی دوسرے لفظ کے ذریعے اس کا مفہوم بیان نہ ہوجائے اس وقت تک اس کے حکم پر عمل کرنا ممکن نہ ہوسکے یہاں تلاوت کے تسلسل و ترتیب اور آیت کے مفہوم میں ایسی بات موجود ہے جو اس چیز کی موجود ہے کہ احصان کا ذکر کرکے دراصل یہ خبر دی گئی کہ ایک شخص نکاح کے ذریعے محصن یعنی عفیف بن جاتا ہے۔ وہ اس طرح کہ ارشاد باری ہے (محصنین غیرمسافحین) اور سفاح زنا کو کہتے ہیں اللہ تعالیٰ نے یہ خبر دی ہے کہ آیت میں مذکورہ احصان کی زنا کی ضد ہے اور اس کے معنی عفت پاک دامنی کے ہیں۔ جب اس جگہ احصان سے مراد عفت لی جائے تو اس صورت میں یہ لفظ ایسے معنوں پر محمول ہوگا جس میں کوئی اجمال نہیں، اس لیے کہ پھر عبارت کا مفہوم یہ ہوگا اور تمہارے لیے ان کے ماسوا دوسری تمام عورتیں حلال کردی گئی ہیں کہ تم اپنے اموال کے ذریعے عفت حاصل کرونہ کہ زنا، اس صورت میں لفظ کے معنی ظاہر اور اس کی مراد واضح ہوگی۔ اوریہ چیز دو باتوں کی موجب ہوگی اول اباحت کے لفظ کے اطلاق اور اس کے عموم کی اور دوم اس اطلاع کی کہ جب لوگ نکاح کریں گے توزنا کے مرتکب نہیں ہوں گے بلکہ عفت کی صفت سے متصف ہوں گے احصان ایک مشترک لفظ ہے ، دوسرے مشترک الفاظ کی طرح جب اس کا اطلاق ہوگاتو اس میں عموم نہیں ہوگا، کیونکہ یہ ایک ایسا اسم ہے جو مختلف معانی پر محمول ہوتا ہے۔ اس کے معانی منع یعنی بچانے اور محفوظ کردینے کے ہیں اسی سے قلعہ کو حصن کا نام دیا گیا ہے کیونکہ قلعہ اپنے اندر آجانے والوں کو ان کے دشنوں سے محفوظ کردیتا ہے ، اسی طرح زرہ کو حصینہ کہاجاتا ہے یعنی مضبوط، اسی طرح اصیل گھوڑے کو حصان کہاجاتا ہے کیونکہ وہ اپنے سوار کو ہلاکت سے بچائے رکھتا ہے ، پاک دامن عورت کو حصان کہتے ہیں کیونکہ وہ اپنی شرمگاہ کو فساد سے بچاتی رہتی ہے، حضرت حسان نے حضرت عائشہ کی تعریف میں یہ شعر کہے، حصان رزان ماتون بریبۃ، وتصبح غرثی من لحوم الغوافل،۔ آپ عفت ماب اور مجمسمہ وقار ہیں، ہر قسم کی تہمت سے آپ کا دامن پاک ہے ، اور بے خبر عورتوں کی غیبت کی بھی آپ کو عادت نہیں۔ قول باری ہے ، ان الذین یرمون المحصنات الغافلات، جو لوگ پاک دامن اور بے خبرعورتوں پر تہمت لگاتے ہیں یعنی عفائف پاک دامن عورتیں ، شرعی لحاظ سے احصان کا اسم مختلف معانی کے لیے استعمال ہوتا ہے جو اس کے لغوی معانی کے ماسوا ہیں، اس کا اطلاق اسلام کے معنوں پر ہوتا ہے۔ قول باری ہے (فاذا احصن) ایک روایت کے مطابق اس کے معنی ہیں، جب یہ عورتیں مسلمان ہوچکیں، اس کے معنی تزوج یعنی نکاح کرانے کے بھی ہیں، چناچہ درج بالاقل باری کی تفسیر میں ایک روایت یہ بھی ہے کہ جب یہ نکاح کرلیں۔ قول باری (والمحصنات من النساء الاماملکت ایمانکم) میں اس کے معنی شوہروں والی عورتیں ہیں۔ قول باری (والذین یرمون المحصنات) میں اس کا اطلاق عفت اور پاک دامنی کے معنوں پر ہوا ہے زنا کی سزا رجم کے سلسلے میں جس احصان کا اعتبار کیا جاتا ہے اس کا اطلاق نکاح صحیح کی بنا پر ہمبستری پر ہوتا ہے۔ تاہم شرعی لحاظ سے احصان کے ساتھ دواحکام متعلق ہیں، ایک تواحصان کی صفت سے متصف انسان پر زنا کی تہمت لگانے والے پر حد قذف کے وجوب کا حکم جو اس قول باری سے ماخوذ ہے ، (والذین یرمون المحصنات) ۔ اس پر احصان میں پاک دامنی ، آزادی، اسلام ، عقل ، اور بلوغ کا اعتبار کیا جاتا ہے ، جب تک ایک شخص میں یہ صفات نہیں پائی جائیں گی اس وقت تک اس پر تہمت زنا لگانے والے پر حد قذف جاری نہیں ہوگی، کیونکہ دیوانے ، نابالغ ، زانی، کافر اورغلام پر زنا کی تہمت عائد کرنے والے پر حدقذف جاری نہیں ہوتی۔ اس پر حد واجب کرنے کے لیے احصان کی ان وجوہ کا اعتبار کیا جاتا ہے۔ دوم۔ احصان کی صفت سے متصف انسان کو زنا کرنے کی صورت میں سنگسار کردینے کا حکم یہ احصان ان اوصاف پر مشتمل ہوتا ہے اسلام، عقل ، بلوغ ، آزادی نیز نکاح صحیح کی بنا پر تعلق زن وشوجب کہ طرفین احصان کے ان ہی صفات کے حامل ہوں ، اگر ان میں سے ایک صفت بھی معدوم ہوتوزنا کے ارتکاب پر سنگسار کردینے کا حکم اس پر عائد نہیں ہوگا۔ سفاح زنا کو کہتے ہیں حضور کا ارشاد ہے ، (انا من نکاح ولست من سفاح) قول باری (غیرمسافحین) کی تفسیر میں مجاہد اور سدی کا قول ہے کہ ، زناکار نہ ہوں، ایک قول کے مطابق سفاح کا لفظ اس محاورے سے ماخوذ ہے ، سفح الماء، اس نے پانی انڈیلا، اسی طرح کہ جاتا ہے ، سفح دمعہ، اس کے آنسو بہہ پڑے) سفح دم فلان (فلاں کا خون بہہ گیا) پہاڑ کے دامن کو سفح الجبل کہتے ہیں، اس لیے کہ پہاڑ کے اوپر سے بہنے والاساراپانی دامن میں آکرگرتا ہے۔ سافح الرجل، مرد نے منہ کالا کیا) زنا کے ارتکاب پر یہ محاورہ اس لیے استعمال کیا جاتا ہے کہ زانی اپناپانی وہاں انڈیلتا ہے جہاں اس عمل پر متعلقہ حکم یعنی نسب کا ثبوت ، وجوب عدت اور دوسرے احکام نکاح لاحق نہیں ہوسکتے، اس لیے زانی کو مسافح کا نام دیا گیا کہ اس نے یہ حرکت کرکے پانی انڈیل دینے کے سو اور کوئی اور کام نہیں کیا۔ اس لفظ کے ذریعے جو احکام معلوم ہوئے وہ یہ ہیں اس عمل کے نتیجے میں پیدا ہونے والے بچے کا نسب اس سے ثابت نہیں ہوگا، اور نہ ہی یہ بچہ اس کے ساتھ ملحق ہوگا، عورت پر عدت واجب نہیں ہوگی، اس مرد کی فراش یعنی اس کے ساتھ ہمبستری کا حق حاصل نہیں ہوگا، مرد پر مہر واجب نہیں ہوگا، اور اس ہمبستری کی بنا پر نکاح کا کوئی حکم بھی لاحق نہیں ہوگا، اس لفظ کے ضمن میں مذکورہ بالاتمام معانی موجود ہیں۔ واللہ اعلم بالصواب۔ متعہ کا بیان قول باری ہے (فمااستمتعتم بہ منھن فاتوھن اجورھن فریضہ۔ پھر جو ازدواجی زندگی کالطف تم ان سے اٹھاؤ اس کے بدلے ان کے مہر فرض کے طور پر ادا کردو) ۔ ابوبکر جصاص کہتے ہیں کہ اس فقرے کا عطف قول باری (واحل لکم ماوراء ذالکم ) میں مذکور محرمات کے ماسوا دوسری عورتوں کے ساتھ نکاح کی اباحت پر ہے یعنی ماقبل کے ارشاد کے بعد یہ فرمایا گیا (فمااستعتم بہ منھن ) یعنی نکاح کی بنا پر جن کے ساتھ تمہاراتعلق زن وشو ہوجائے، (فاتوھن اجورھن) اس کے بدلے ان کے مہر پورے ادا کرو۔ اس کی نظیر یہ قول باری ہے (واتوالنساء صدقاتھن نحلہ۔ اور عورتوں کو ان کے مہر خوش دلی کے ساتھ فرض جانتے ہوئے ادا کرو) نیز ارشاد باری ہے (فلاتاخذوا منہ شیا) میں مہر میں دی ہوئی چیز میں سے کچھ بھی واپس نہ لو) ۔ استمتاع لطف اندوزی کو کہتے ہیں یہ لفظ یہاں تعلق زن وشو کے لیے بطور کنایہ استعمال ہوا ہے، قول باری ہے (اذھبتم طیباتکم فی حیوتکم الدنیا واستمتعتم بھا، تم اپنی لذت کی چیزیں سب دنیا ہی میں حاصل کرچکے اور ان کا خوب مزہ اٹھاچکے ) یعنی دنیا ہی میں زندگی کانفع عاجل تمہیں حاصل ہوگیا۔ نیز ارشاد باری ہے (فاستمتعتم بخلافکم، تم اپنے حصے سے لطف اندوز ہوئے) یعنی دنیا میں سے ملنے والے اپنے حصے سے، جب اللہ تعالیٰ نے ان عورتوں کو حرام کردیا جن کی تحریم کا ذکر اپنے اس قول (حرمت علیکم امھاتکم، میں کیا اور اس سے ماؤں اور ماؤں کے ساتھ مذکورہ خواتین سے نکاح مراد لی پھر اس پر اپنے اس قول (واحل لکم ماوراء ذالکم) کو عطف کیا تویہ عطف اس بات کا مقتضی ہوگیا کہ ان محرمات کے ماسوا دوسری عورتوں سے نکاح مباح ہے۔ پھرارشاد ہوا، (ان تبتغوا باموالکم محصنین) یعنی، واللہ اعلم، ایسا نکاح جس کے ذریعے تم محصن اور عفیف بن جاؤ، شہوت رانی کرنے والے اور زنا کار نہ بنو، پھر اس پر نکاح کے حکم کو عطف کیا جب اس میں تعلق زن وشو یعنی دخول بھی پایاجائے، اور فرمایا (فمااستمتعتم بہ منھن فاتوھن اجورھن) اس کے ذریعے شوہر پر پورا مہرواجب کردیا۔ اللہ تعالیٰ نے اپنے قول (فانکحوھن باذن اھلھن واتوھن اجورھن) ان کے ساتھ ان کے کنبے والوں کی اجازت سے نکاح کرو، اور انہیں ان کے مہرادا کرو) میں مہر کو اجر کا نام دیا۔ اس طرح آیت زیربحث میں مذکورہ اجور بھی مہر ہیں، مہر کو اجر کا نام اس لیے دیا گیا کہ یہ منافع کا بدل ہوتا ہے ، اعیان یعنی قائم بالذات کا بدل نہیں ہوتاجس طرح کہ مکان یا سواری کے منافع کے بدل کو اجرت یا اجر کا نام دیاجاتا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے مہر کو اجر کا نام دیا ہے اس میں امام ابوحنیفہ کے اس قول کی صحت کی دلیل موجود ہے کہ اگر کوئی شخص کسی عورت کو اجارے یاکرایہ پرلے کر اس کے ساتھ منہ کالاکرے تو اس پر حد زناعائد نہیں ہوگی اس لیے کہ اللہ تعایل نے مہرکواجر کا نام دیا ہے ، اس زانی کی حیثیت اس شخص کی طرح ہوگی جو کسی عورت سے یہ کہے کہ میں تمہیں فلاں چیز مہر میں دیتاہوں۔ حضرت عمر سے بھی اس قسم کی روایت ہے اور یہ نکاح فاسد کی صورت میں ہوگی، کیونکہ یہ گواہوں کے بغیرانجام پذیر ہوئی ہے اللہ تعالیٰ نے ایک اور آیت میں ارشاد فرمایا، ہے (ولاجناح علیکم ان تنکحوھن اذا اتیتموھن اجورھن، جب تم ان عورتوں کو ان کے اجور یعنی مہر ادا کروتوان کے ساتھ نکاح کرنے میں تم پر کوئی گناہ نہیں) ۔ حضرت ابن عباس قول باری (فمااستمتعتم بہ منھن فاتوھن اجورھن) کی تاویل عورتوں سے متعہ کرنا، قرار دیتے تھے اس کے متعلق ان سے مختلف اقوال منقول ہیں، ایک روایت کے مطابق وہ اس آیت کو متعہ کی اباحت پر محمول کرتے تھے۔ یہ بھی روایت ہے کہ ابی بن کعب کی قرات میں آیت کے الفاظ یہ ہیں (فمااستمتعتم بہ منھن الی اجل مسمی فاتوھن اجورھن) حضرت ابن عباس سے یہ بھی منقول ہے کہ جب ان سے یہ کہا گیا کہ متعہ کے بارے میں اشعار کہے گئے ہیں تو انہوں نے جواب مین یہ کہاتھا کہ متعہ کی حیثیت یہ ہے کہ جس طرح کوئی شخص اضطراری حالت میں مردار ، خون، یاسور کا گوشت کھالے، اس قول میں انہوں نے ضرورت کے موقع پر متعہ کو مباح کردیا تھا۔ جابر بن زید سے مروی ہے کہ حضرت ابن عباس نے بیع صرف (سونے چاندی کی خرید و فروخت ) اور متعہ کے متعلق اپنے قول سے رجوع کرلیا تھا۔ ہمیں جعفر بن محمد واسطی نے روایت بیان کی، انہیں جعفر محمد بن الیمان نے ، انہیں ابوعبید نے ، انہیں ابن بکیر نے لیث سے ، انہوں نے بکیر بن عبداللہ بن الاشج سے ، انہوں نے شرید کے آزاد کردہ غلام عمار سے کہ میں نے حضرت ابن عباس سے متعہ کے بارے میں یہ پوچھا کہ آیا نکاح ہے یاسفاح یعنی زناء ؟ انہوں نے جواب دیا نہ یہ نکاح ہے نہ سفاح، میں نے پھر سوال کیا، توپھریہ کیا ہے ؟ انہوں نے فرمایا، بس یہ متعہ ہے جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا میں نے پوچھا اس کی وجہ سے عورت عدت گزارے گی، انہوں نے جواب دیا، ہاں اس کی عدت ایک حیض ہے ، میں نے پوچھا کیا یہ مرد اور عورت ایک دوسرے کے وارث ہوں گے انہوں نے اس کا جواب نفی میں دیا۔ ہمیں جعفر بن محمدنے روایت بیان کی، انہیں حجاج نے ابن جریج اور عثمان بن عطاء سے انہوں نے عطاء بن خراسانی سے اور انہوں نے حضرت ابن عباس سے کہ انہوں نے قول باری (فمااستعتم بہ منھن) کے متعلق فرمایا کہ قول باری (یا ایھا النبی اذاطلقتم النساء فطلقوھن لعدتھن، اے نبی ان سے کہہ دیجئے کہ جب تم عورتوں کو طلاق دینے لگوتوا نہیں ان کی عدت پر طلاق دو ) نے اسے منسوخ کردیا ہے۔ یہ بات متعہ کے متعلق اپنے قول سے رجوع کرلینے پر دلالت کرتی ہے ، سلف کی ایک جماعت سے یہ منقول ہے کہ متعہ زنا ہے ہمیں جعفر بن محمد نے روایت بیا کی ، انہیں جعفر بن محمد بن الیمان نے ، انہیں ابوعبید نے انہیں عبداللہ بن صالح نے لیث سے ، انہوں نے عقیل اور یونس سے انہوں نے ابن شہاب زہری سے ، انہوں نے عبدالملک بن مغیرہ بن نوفل سے ، انہوں نے حضرت ابن عمر سے کہ ان سے متعہ کے بارے میں پوچھا گیا تو انہوں نے جواب میں فرمایا، کہ یہ سفاح زنا ہے ہشام بن عروہ نے اپنے والد سے روایت کی ہے کہ متعہ کی صورت میں ہونے والے نکاح کی حیثیت زنا کی ہوتی تھی۔ اگریہ کہاجائے کہ متعہ کو زن اقرار دینا درست نہیں ہے اس لے کہ ناقلین آثار کا اس میں کوئی اختلاف نہیں ہے کہ بعض اوقات متعہ کو مباح قرار دیا گیا تھا، حضور نے اسے مباح قرار دیاتھاجب کہ اللہ تعالیٰ نے زنا کو کبھی مباح نہیں کیا۔ تو اس کے جواب میں کہاجائے گا کہ جب متعہ کو مباح قرار دیا گیا تھا اس وقت یہ زنا نہیں کہلایا لیکن جب اللہ تعالیٰ نے اسے حرام کردیاتو اس پر زنا کے اسم کا اطلاق درست ہوگیا، جیسا کہ حضور سے مروی ہے کہ آپ نے فرمایا (الزانیۃھی التی تنکح نفسھا بغیر بینۃ وایماعبدتزوج بغیراذان مولاہ فھوعاھر۔ وہ عورت زناکار ہے جس نے گواہوں کے بغیر نکاح کرالیا ہو، اور جو غلام اپنے آقا کی اجازت کے بغیر نکاح کرے گا وہ زانی ہوگا، آپ کے اس قول کا مفہوم ایسے نکاحوں کی تحریم ہے حقیقت زنا نہیں ہے ، حضور نے یہ بھی ارشاد فرمایا ہے کہ (العینان تزنیان والرجلان تزنیان فزناالعین النظرورزنا الرجلین المشی ویصدق ذالک کلہ الفرج اویکذبہ۔ آنکھیں زنا کرتی ہیں، اور ٹانگیں زنا کرتی ہیں آنکھ کا زنا غلط نظر اور ٹانگوں کا زنا چل کر جانا ہے اور شرمگاہ ان تمام باتوں کی تصدیق کردیتی ہے یا تکذیب۔ حضور نے ان تمام صورتوں پر زنا کے اسم کا اطلاق مجاز کے طور پر کیا کیون کہ یہ تمام صورتیں حرام ہیں، اسی طرح متعہ پر زنا کے اسم کا اطلاق مجاز کے طور پر ہوتا ہے اور اس سے اس کی تحریم کی تاکید ہوتی ہے۔ ہمیں جعفر بن محمد نے روایت بیان کی انہیں جعفر بن محمد بن الیمان نے ، انہیں ابوعبید نے انہیں حجاج نے شعبہ سے ، انہوں نے قتادہ سے انہوں نے کہا میں نے ابونضرہ سے سنا ہے کہ حضرت ابن عباس متعہ کی اجازت دیتے تھے ، اور حضرت عبداللہ بن زبیر اس سے روکتے تھے میں نے اس بات کا تذکرہ حضرت جابر بن عبداللہ سے کیا، انہوں نے فرمایا، یہ بات میرے سامنے پیش ہوئی ہے ہم نے حضور کے زمانے میں متعہ کیا تھا۔ متعہ کے بارے میں حضرت عمر کا فتوی جب حضرت عمر کا دور آیا تو آپ نے فرمایا، اللہ تعالیٰ اپنے نبی کے لیے جو چاہتا ہے جس طرح چاہتا ہے حلال کردیتا ہے ، اب تم لوگ حج اور عمرہ اسی طرح پورا کرو جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے حکم دیا ہے اور ان عورتوں کے ساتھ نکاح سے باز آجاؤ، اب اگر میرے پاس کوئی ایساشخص لایاگیا جس نے ایک خاص مدت کے لیے کسی عورت سے نکاح کیا ہوگاتو میں اسے سنگسار کردوں گا۔ حضرت عمر نے متعہ کی سزا کے طور پر رجم کا ذکر کیا، اور یہ ممکن ہے کہ آپ نے تہدید اور دھمکی کے طور پر ایساکہا ہوتا کہ لوگ اس سے باز آجائیں، راوی جعفر بن محمد بن الیمان، کہتے ہیں کہ ہمیں ابوعبید نے روایت بیا کی کہ انہیں حجاج نے ابن جریج سے انہوں نے کہا مجھے عطاء نے بتایا کہ انہوں نے حضرت ابن عباس کو یہ کہتے ہوئے سنا تھاک ہ اللہ تعالیٰ عمر پر رحم فرمائے متعہ تو اللہ کی طرف سے ایک رحمت تھی جو اس نے امت محمد پر کی تھی ، اگر عمر اس سے لوگوں کونہ روکتے توتھوڑے ہی لوگ زنا میں مبتلا ہوتے۔ حضرت ابن عباس کے اقوال سے جو بات حاصل ہوئی وہ یہ ہے کہ آپ بعض روایات کے مطابق متعہ کی اباحت کے قائل تھے، اور اس میں ضرورت یاعدم ضرورت کی کوئی قید نہیں تھی، دوسری صورت یہ کہ اس کی حیثیت مردار کی طرح تھی، جس کی ضرورت کے وقت حلت ہوجاتی ہے۔ ابن عباس کا رجوع تیسری یہ کہ متعہ حرام ہے ہم نے اس روایت کی سند کا ذکر پہلے کردیا ہے اور حضرت ابن عباس کے اس قول کا بھی کہ متعہ منسوخ ہوچکا ہے۔ حضرت ابن عباس کا متعہ کی اباحت کے قول سے رجوع کرلینے پر وہ روایت دلالت کرتی ہے جس کے راوی عبداللہ بن وہب ہیں، انہیں عمرو بن الحریث نے اور انہیں بکیر بن الاشج نے کہ بنوہاشم کے آزاد کردہ غلام، ابواسحق نے کہا، ایک شخص نے حضرت ابن عباس کو بتایا کہ میں ایک سفر پر تھا کہ میرے ساتھ میری لونڈی اور کچھ دوسرے لوگ تھے۔ میں نے ان لوگوں کو لونڈی سے جنسی انتفاع کی اجازت دے دی، حضرت ابن عباس نے یہ سن کر فرمایا یہ توسفاح یعنی زنا ہے۔ یہ روایت بھی اباحت متعہ کے قول سے انکے رجوع کرلینے پر دال ہے۔ جن لوگوں نے متعہ کی اباحت پر قول باری (فمااستعتم بہ منھن فاتوھن اجورھن) سے استدلال کیا ہے نیز یہ کہ حضرت ابی بن کعب کی قرات میں (الی اجل مسمی) کے الفاظ بھی ہیں تو اس کے جواب میں کہاجائے گا، کسی بھی مسلمان کے نزدیک تلاوت میں مدت کا اثبات درست نہیں ہے اس لیے قرآن میں اجل یعنی مدت کا ثبوت نہیں ۔ اگر قرآن میں اجل کا ذکر ہو بھی جاتا تو یہ عورتوں سے متعہ پر دلالت نہ کرتا اس لیے کہ اس صورت میں یہ گنجائش ہوتی کہ لفظ اجل پر مہر داخل ہے اس صورت میں جملے کی ترتیب اس طرح ہوتی ، فمادخلتم بہ منھن بمھر الی اجل مسمی فاتوھن فھورھن عندحلول الاجل۔ ان میں سے جن عورتوں کے ساتھ ایک مقررہ مدت تک مہرادا کرنے کے بدلے تمہارے تعلق زن وشوہر ہوجائے تو اس مدت کے گذرجانے پر ان کے مہر انہیں ادا کردو) ۔ آیت کا مضمون تین وجوہ سے ا س پر دلالت کرتا ہے کہ اس سے نکاح مراد ہے ، متعہ نہیں اول یہ کہ اس کا عطف قول باری (واحل لکم ماوراء ذالکم ) کے اندر بیان کردہ اباحت نکاح پر ہے ، اور یہ لامحالہ محرمات کے ماسوا دوسری عورتوں سے نکاح کی اباحت ہے کیونکہ سب کا اس پر اتفاق ہے کہ اس سے نکاح مراد ہے۔ اس لیے یہ ضروری ہے کہ استمتاع کے ذکر کو اس عورت کے حکم کا بیان قرار دیاجائے جس کے ساتھ نکاح کی بنیاد پر تعلق زن وشو ہوچکا ہے یعنی اس کا حکم یہ ہے کہ اب وہ پورے مہر کی حق دار ہوگئی ہے۔ دوم : قول باری (محصنین) ہے احصان کی صفت صرف نکاح صحیح کی بنا پر ہوتی ہے اس لیے کہ متعہ کی بنا پر ہمبستری کرنے والامحصن نہیں بنتا، اور نہ احصان کا اسم ایسے شخص کو شامل ہوتا ہے اس سے ہمیں یہ بات معلو م ہوئی کہ مراد نکاح ہے۔ سوم : قول باری (غیرمسافحین) ہے اس میں زنا کو سفاح کا نام دیا گیا کیونکہ نکاح کے احکام اس سے منتفی ہوتے ہیں یعنی نسب ثابت نہیں ہوتا عدت واجب نہیں ہوتی اور علیحدگی واقع ہونے تک بقاء فراش نیہں ہوتا، یعنی مرد کو اس کے ساتھ ہمبستری کا حق حاصل نہیں ہوتا۔ چونکہ ان تمام باتوں کا متعہ میں وجود ہوتا ہے اس لیے وہ زنا کے معنوں میں قرار دیاجائے گا، اور عین ممکن ہے کہ جس نے متعہ کو سفاح قرار دیا ہے اس کا ذہن اسی بات کی طرف گیا ہے کیونکہ زانی کو مسافح اس لیے کہا گیا ہے کہ اس کی ہمبستری کے نتیجے میں متعلقہ احکام میں سے اس کے سو اور کوئی حکم لازم نہیں ہوا کہ اس نے اپناپانی یعنی مادہ تولید غلط طریقے سے بہادیا اور اس عمل سے نسب کا استحقاق بھی اسے حاصل نہ ہوسکا۔ اس لیے اللہ تعالیٰ نے جب وطی کی حلال صورت سے سفاح کے اسم کی نفی کرکے احصان کا اثبات کردیاتو اس سے یہ ضروری ہوگیا کہ استمتاع سے متعہ مراد نہ لیاجائے کیونکہ یہ سفاح کے معنوں میں ہے بلکہ اس سے مراد نکاح لیاجائے۔ قول باری (غیرمسافحین ) مذکورہ اباحت کی شرط ہے ، اس میں متعہ کی نہی کی دلیل موجود ہے کیونکہ ہماری بیان کردہ وجہ کی بنا پر متعہ سفاح کے معنوں میں ہے۔ ابوبکر جصاص کہتے ہیں کہ متعہ کی اباحت صحابہ میں سے جس صحابی سے مشہور ہے وہ حضرت ابن عباس ہیں، تاہم اس بارے میں ان سے مختلف روایتیں منقول ہیں۔ ایک روایت کے مطابق انہوں نے آیت کی تاویل متعہ کی اباحت کی صورت میں کی ہے، ہم بیان کر آئے ہیں کہ متعہ کی اباحت پر آیت کی کوئی دلالت نہیں ہے بلکہ اس کی ممانعت اور تحریم پر آیت کی دلالتیں ان وجوہ کی بنا پر ظاہر ہیں جن کا ہم نے ذکر کیا ہے پھر حضرت ابن عباس سے یہ مروی ہے کہ آپ نے اسے مردار سور کے گوشت اور خون کی طرح قرار دیا تھا، اور یہ فرمایا تھا کہ اس کی حلت صرف اس شخص کے لیے ہے جو اضطراری حالت میں مبتلا ہو۔ لیکن یہ بات محال ہے کیونکہ حرام شدہ اشیاء کو مباح کردینے والی ضرورت متعہ کے اندر نہیں پائی جاتی کیونکہ خون اور مردار کو حلال کردینے والی ضرورت وہ ہے جس کی موجودگی میں ان چیزوں کونہ کھانے پر جان جانے کا خطرہ پیدا ہوجائے جبکہ ہمیں اچھی طرح معلوم ہے کہ ترک جماع کی وجہ سے انسان کونہ اپنی جان کا خطرہ لاحق ہوتا ہے اور نہ ہی کسی عضو کے تلف ہوجانے کا۔ جب رفاہیت اورفارغ البالی کی حالت میں متعہ حلال نہیں ہے اور اس کی ضرورت بھی پیش نہیں آتی تو اس سے اس کی مخالفت کا ثبوت ہوگیا اور قائل کا یہ قول محال ہوگیا کہ ضرورت کے وقت یہ مردار اور خون کی طرح حلال ہوجاتا ہے۔ یہ ایک متناقض اور محال قول ہے اور زیادہ مناسب بات یہ ہے کہ حضرت ابن عباس سے اس روایت میں راویوں کو وہم ہوگیا ہے اس لیے کہ آپ کی فقاہت اس سے برتر تھی، اس جیسی بات آپ کی نگاہوں سے پوشیدہ رہ جاتی۔ اس لیے درست روایت وہ ہے جو آپ سے متعہ کی ممانعت اور تحریم کے اثبات میں مروی ہے نیز جس نے متعہ کی اباحت کے قول سے آپ کا رجوع نقل کیا ہے اس کی روایت بھی درست ہے۔ قول باری (والذین ھم لفروجھم حافظون الاعلی ازواجھم اوماملکت ایمانھم فانھم غیرملومین۔۔ تا۔۔۔ ھم العادون۔ اور جو لوگ اپنی شرمگاہوں کی نگہداشت رکھنے والے ہیں ہاں البتہ اپنی بیویوں اور لونڈیوں سے نہیں کہ اس صورت میں ان پر کوئی الزام نہیں ، ہاں جو کوئی اس کے علاوہ کا طلب گار ہوگاسوای سے ہی لوگ حد سے نکل جانے والے ہیں) متعہ کی تحریم کی دلیل ہے۔ اللہ تعالیٰ نے ان آیات میں وطی کی اباحت کو مذکورہ دوصورتوں میں سے ایک کے اندر محدود کردیا ہے اور ان دو کے علاوہ بقیہ تمام صورتوں کی ممانعت کردی ہے چناچہ ارشاد ہے (فمن ابتغی وراء ذالک فاو لئک ھم العادون) اور ظاہر ہے متعہ ان دونوں صورتوں کے علاوہ ایک تیسری صورت ہے اس لیے یہ حرام ہے۔ اگریہ کہاجائے کہ آپ کو اس بات سے کیوں انکار ہے کہ جس عورت سے استمتاع کیا جائے وہ بیوی ہو اور متعہ ان دونوں صورتوں سے خارج نہ ہو جن کے اندر وطی کی اباحت کو محدود کردیا گیا ہے تو اس کے جواب میں کہاجائے گا، یہ بات غلط ہے اس لیے کہ عورت پر زوجہ کے اسم کا اطلاق نیز اس اسم کے تحت اس کا اندراج صرف اسی وقت ہوگاجب وہ عقد نکاح کی بنا پر اس کی منکوحہ ہوگی اور متعہ چونکہ نکاح نہیں ہوتا اسلیے وہ زوجہ نہیں کہلاسکتی۔ اگریہ کہاجائے کہ اس کی کیا دلیل ہے کہ متعہ نکاح نہیں ہوتا، تو اس کے جواب میں کہاجائے گا کہ اس کی دلیل یہ ہے کہ نکاح کے اسم کا اطلاق دو باتوں میں سے ایک پر ہوتا ہے وطی یاعقد پر ، ہم نے گذشتہ صفحات میں یہ واضح کردیا ہے کہ وطی نکاح کی حقیقت اور عقد مجاز ہے۔ جب اس اسم کا اطلاق ان ہی دومعنوں میں سے ایک تک محدود ہے اور عقد کو مجازا نکاح کہاجاتا ہے جیسا کہ ہم نے پہلے بیان کردیا ہے اور ہم نے یہ بھی دیکھا کہ اہل زبان مطلق عقد تزویج پر اطلاق کرتے ہیں کہ یہ نکاح ہے لیکن انہیں متعہ پر نکاح کا اطلاق کرتے نہ پایا۔ عرب یہ نہیں کہتے کہ فلاں شخص نے فلاں عورت سے متعہ کی شرط پر نکاح کیا ہے ، تواب ہمارے لیے متعہ پر نکاح کے اسم کا اطلاق جائز نہیں ہوگا۔ کیونکہ مجاز کا اطلاق صرف اسی صورت میں درست ہوتا ہے جب اہل عرب کو ایسا کہتے ہوئے سناگیا ہو یا شرع میں اس ک اورد ہوا ہو۔ جب ہمیں شرع اور لغت دونوں میں متعہ پر نکاح کے اسم کا اطلاق نہیں ملاتو اس سے یہ ضروری ہوگیا کہ متعہ ان دونوں صورتوں کے علاوہ قرار دیاجائے، جن کی اللہ تعالیٰ نے اباحت کردی ہے اور یہ کہ متعہ کا مرتکب حد سے تجاوز کرنے والا، اپنے نفس پر ظلم کرنے والا، اور اللہ کے حرام کردہ فعل کا ارتکاب کرنے والاقرار دیاجائے، نیز نکاح کی کچھ شرائط ہیں جو اس کے ساتھ مختص ہیں کہ جب یہ نہ پائی جائیں تو نکاح نکاح نہیں کہلائے گا۔ ان میں سے ایک شرط یہ ہے کہ وقت کا گزرناعقد نکاح پراثرانداز نہیں ہوتا، اور نہ ہی رفع نکاح کا موجب بنتا ہے ، جبکہ متعہ کے قائلین کے نزدیک وقت کے گزرنے کے ساتھ متعہ رفع نکاح کا موجب بن جاتا ہے۔ ایک شرط یہ بھی ہے کہ نکاح وہ فراش یعنی حق ہمبستری ہے جس کے ذریعے مرد کی طرف سے کسی دعوے کے بغیر پیدا ہونے والے بچے کا نسب ثابت ہوجاتا ہے بلکہ فراش نکاح پر پیدا ہونے والے بچے کے نسب کی نفی نہیں ہوسکتی، صرف لعان کی بنا پر نسب کی نفی ہوسکتی ہے جبکہ متعہ کے قائلین فراش کی بنا پر نسب کا اثبات نہیں کرتے۔ اس سے ہمیں یہ بات معلوم ہوئی کہ متعہ نہ تو نکاح ہے اور نہ ہی فراش، ایک شرط یہ بھی ہے کہ نکاح علیحدگی یا موت کی صور ت میں عدت کا موجب ہے خواہ تعلق زن وشو ہوچکاہویانہ ہواہو۔ چنانچہ ارشاد باری ہے (والذین یتوفون منکم ویذرون ازواجایتربصن بانفسھن اربعۃ اشھر وعشرا، تم میں جو لوگ وفات پاجائیں اور وہ اپنے پیچھے بیویاں چھوڑ جائیں تو یہ بیویاں اپنے آپ کو چار مہینے دس دن تک انتظار میں رکھیں) جبکہ متعہ عدت وفات کا موجب نہیں ہے ۔ (آیت ھذا کی بقیہ تفسیر اگلی آیت کے ذیل میں)
Top