Ahkam-ul-Quran - An-Nisaa : 25
وَ مَنْ لَّمْ یَسْتَطِعْ مِنْكُمْ طَوْلًا اَنْ یَّنْكِحَ الْمُحْصَنٰتِ الْمُؤْمِنٰتِ فَمِنْ مَّا مَلَكَتْ اَیْمَانُكُمْ مِّنْ فَتَیٰتِكُمُ الْمُؤْمِنٰتِ١ؕ وَ اللّٰهُ اَعْلَمُ بِاِیْمَانِكُمْ١ؕ بَعْضُكُمْ مِّنْۢ بَعْضٍ١ۚ فَانْكِحُوْهُنَّ بِاِذْنِ اَهْلِهِنَّ وَ اٰتُوْهُنَّ اُجُوْرَهُنَّ بِالْمَعْرُوْفِ مُحْصَنٰتٍ غَیْرَ مُسٰفِحٰتٍ وَّ لَا مُتَّخِذٰتِ اَخْدَانٍ١ۚ فَاِذَاۤ اُحْصِنَّ فَاِنْ اَتَیْنَ بِفَاحِشَةٍ فَعَلَیْهِنَّ نِصْفُ مَا عَلَى الْمُحْصَنٰتِ مِنَ الْعَذَابِ١ؕ ذٰلِكَ لِمَنْ خَشِیَ الْعَنَتَ مِنْكُمْ١ؕ وَ اَنْ تَصْبِرُوْا خَیْرٌ لَّكُمْ١ؕ وَ اللّٰهُ غَفُوْرٌ رَّحِیْمٌ۠   ۧ
وَمَنْ : اور جو لَّمْ يَسْتَطِعْ : نہ طاقت رکھے مِنْكُمْ : تم میں سے طَوْلًا : مقدور اَنْ يَّنْكِحَ : کہ نکاح کرے الْمُحْصَنٰتِ : بیبیاں الْمُؤْمِنٰتِ : مومن (جمع) فَمِنْ : تو۔ سے مَّا : جو مَلَكَتْ اَيْمَانُكُمْ : تمہارے ہاتھ مالک ہوجائیں مِّنْ : سے فَتَيٰتِكُمُ : تمہاری کنیزیں الْمُؤْمِنٰتِ : مومن۔ مسلمان وَاللّٰهُ : اور اللہ اَعْلَمُ : خوب جانتا ہے بِاِيْمَانِكُمْ : تمہارے ایمان کو بَعْضُكُمْ : تمہارے بعض مِّنْ : سے بَعْضٍ : بعض (ایک دوسرے سے فَانْكِحُوْھُنَّ : سو ان سے نکاح کرو تم بِاِذْنِ : اجازت سے اَھْلِهِنَّ : ان کے مالک وَاٰتُوْھُنَّ : اور ان کو دو اُجُوْرَھُنَّ : ان کے مہر بِالْمَعْرُوْفِ : دستور کے مطابق مُحْصَنٰتٍ : قید (نکاح) میں آنے والیاں غَيْرَ : نہ کہ مُسٰفِحٰتٍ : مستی نکالنے والیاں وَّلَا : اور نہ مُتَّخِذٰتِ : آشنائی کرنے والیاں اَخْدَانٍ : چوری چھپے فَاِذَآ : پس جب اُحْصِنَّ : نکاح میں آجائیں فَاِنْ : پھر اگر اَتَيْنَ : وہ کریں بِفَاحِشَةٍ : بےحیائی فَعَلَيْهِنَّ : تو ان پر نِصْفُ : نصف مَا : جو عَلَي : پر الْمُحْصَنٰتِ : آزاد عورتیں مِنَ : سے الْعَذَابِ : عذاب (سزا) ذٰلِكَ : یہ لِمَنْ : اس کے لیے جو خَشِيَ : ڈرا الْعَنَتَ : تکلیف (زنا) مِنْكُمْ : تم میں سے وَاَنْ : اور اگر تَصْبِرُوْا : تم صبرو کرو خَيْرٌ : بہتر لَّكُمْ : تمہارے لیے وَاللّٰهُ : اور اللہ غَفُوْرٌ : بخشنے والا رَّحِيْمٌ : رحم کرنے والا
اور جو شخص تم میں سے مومن آزاد عورتوں (یعنی بیبیوں) سے نکاح کرنے کا مقدور نہ رکھے تو مومن لونڈیوں میں ہی جو تمہارے قبضے میں آگئی ہوں (نکاح کرلے) اور خدا تمہارے ایمان کو اچھی طرح جانتا ہے تم آپس میں ایک دوسرے کے ہم جنس ہو تو ان لونڈیوں کے ساتھ ان کے مالکوں سے اجازت حاصل کر کے نکاح کرلو اور دستور کے مطابق ان کا مہر بھی ادا کردو بشرطیکہ عفیفہ ہوں۔ نہ ایسی کہ کھلم کھلا بدکاری کریں اور نہ درپردہ دوستی کرنا چاہیں۔ پھر اگر نکاح میں آ کر بدکاری کا ارتکاب کر بیٹھیں تو جو سزا آزاد عورتوں (یعنی بیبیوں) کے لئے ہے اس کی آدھی انکو (دی جائے) یہ (لونڈی کیساتھ نکاح کرنے کی) اجازت اس شخص کو ہے جسے گناہ کر بیٹھنے کا اندیشہ ہو۔ اور اگر صبر کرو تو یہ تمہارے لئے بہت اچھا ہے اور خدا بخشنے والا مہربان ہے
(سابقہ آیت کی بقیہ تفسیر) اسی طرح قول باری ہے (ولکم نصف ماترک ازواجکم، اور تمہاری بیویوں کے چھوڑے ہوئے ترکہ میں تمہارے لیے نصف ہے جبکہ قائلین متعہ کے نزدیک ایسے مرد اور عورت کے مابین کوئی توارث نہیں ہوتا۔ یہ ہیں نکاح کے وہ احکام جو اس کے ساتھ مختص ہیں البتہ غلامی اور کفر نکاح کی صورت میں توارث کے درمیان حائل ہوجاتا ہے جبکہ متعہ کے اندر جانبین میں ایک کی غلامی یا کفر دوسرے کی میراث سے مانع نہیں ہوتا، اونہ ہی کوئی ایساسبب ہوتا ہے جو علیحدگی کا موجب بن سکتا ہو اورنہ ہی نسب کے ثبوت کی راہ میں کوئی رکاوٹ ہوتی ہے حالا کہ مرد فراش کی اہلیت رکھتا ہے اور فراش کی بنا پر اس سے نسب کا الحاق ہوسکتا ہے تو ان تمام باتوں سے یہ چیز ثابت ہوگئی کہ متعہ نکاح نہیں ہوتا۔ جب یہ نکاح یا ملک یمین کے دائرے سے خارج ہوگیا تومن جانب اللہ تحریم کی بنا پر یہ حرام ہوگا، جس کا ذکر اللہ تعالیٰ نے اپنے اس قول میں فرمایا ہے (فمن ابتغی وراء ذالک فاولئک ھم العادون) ۔ اگریہ کہاجائے کہ مدت جو علیحدگی کی موجب ہوتی ہے اس کا گذرجانا بھی توطلاق ہے تو اس کے جواب میں کہاجائے گا کہ طلاق یاتوصریح لفظ یاکنایہ کی بنا پر واقع ہوتی ہے اور متعہ کی صورت میں ان میں سے کوئی صورت پیش نہیں آئی توپھریہ طلاق کیسے ہوسکتی ہے۔ اس کے باوجود متعہ کے قائل کے اصول کے مطابق اگر حیض کے دوران مدت گزرجائے تو عورت بائن قرار نہ دی جائے کیونکہ قائلین متعہ حائضہ کی طلاق کو جائز نہیں سمجھتے اس لیے اگر مدت گزرنے کے ساتھ واقع ہونے والی علیحدگی طلاق بن جاتی توپھریہ ضروری ہوجاتا کہ حیض کی حالت میں طلاق کا وقوع نہ ہو۔ لیکن جب ان لوگوں نے مدت گزرنے کے ساتھ واقع ہونے والی علیحدگی کو حیض کی حالت میں واقع کردیا تو یہ اس کی دلیل بن گئی کہ یہ طلاق نہیں اور اگر عورت طلاق کے بغیر بائن ہوگئی جبکہ شوہر کی طرف سے کوئی ایسی حرکت نہیں ہوئی جو علیحدگی کی موجب ہو تو اس سے یہ ثابت ہوگیا کہ متعہ نکاح نہیں۔ اگریہ کہاجائے کہ ہم نے نسب، عدت اور میراث کی نفی کا ذکر کیا ہے لیکن ان احکام کامنتفی ہوجانامتعہ کو نکاح بننے سے مانع نہیں ہے کیونکہ نابالغ کے ساتھ نسب کا الحاق نہیں ہوتا لیکن اس کا نکاح درست ہوتا ہے اسی طرح غلام وارث نہیں ہوتا اور مسلمان کافر کا وارث نہیں بنتا لیکن ان احکام کی انتفاء اس کے نکاح کو نکاح کے دائرے سے خارج نہیں کرتا۔ تو اس کے جواب میں کہاجائے گا کہ نابالغ کے نکاح کے ساتھ نسب کے ثبوت کا تعلق ہوجاتا ہے جب اس میں فراش جنسی ملاپ کی اہلیت پیدا ہوجاتی ہے جبکہ تم اس کے ساتھ عورت کے بطن سے پیدا ہونے والے بچے کے نسب کا الحاق نہیں کرتے حالانکہ وہ ہمبستری بھی پائی جاتی ہے جس کی بنا پر نکاح کی صورت میں اس کے ساتھ نسب کا الحاق جائز ہوتا ہے۔ غلام اور کافر توغلامی اور کفر کی بنا پروارث نہیں قرار پائے اور یہی دو باتیں مرد اور عورت کے درمیان توارث کے لیے مانع ہیں لیکن متعہ میں یہ دونوں باتیں موجود نہیں ہوتیں، اس لیے کہ طرفین میں سے ہر ایک کے اندر دوسرے سے وارث ہونے کی اہلیت ہوتی ہے۔ اب جبکہ ان دونوں میں میراث کو منقطع کرنے والی کوئی بات نہیں ہوتی اور پھر متعہ کی صورت میں وارثت نہیں پائی جاتی تو اس سے ہمیں یہ معلوم ہوجاتا ہے کہ متعہ نکاح نہیں ہے کیونکہ اگر یہ نکاح ہوتاتوسبب کی موجودگی اور مانع کی غیرموجودگی کی بنا پر یہ میراث کا موجب بن جاتا نیز اس کے متعلق حضرت ابن عباس نے یہ فرمایا دیا تھا کہ نہ یہ نکاح ہے اور نہ سفاح۔ جب حضرت ابن عباس نے اس سے اسم نکاح کی نفی کردی تو ضروری ہوگیا کہ یہ نکاح نہ کہلائے گاکیون کہ حضرت ابن عباس سے شرع اور لغت کے لحاظ سے اسماء کے احکام مخفی نہیں تھے۔ جب صحابہ میں سے تنہاحضرت ابن عباس ہی متعہ کے قائل تھے اور وہی خود اسے نکاح نہیں تسلیم کرتے بلکہ اس سے نکاح کے اسم کی نفی کرتے ہیں تو اس سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ متعہ نکاح نہیں ہوتا۔ سنت کی جہت سے متعہ کو حرام قرار دینے والی وہ روایت جسے ہمیں عبدالباقی نے بیان کیا، انہیں معاذ بن المثنی نے ، انہیں القعنبی نے ، انہیں مالک نے ابن شہاب سے انہوں نے محمد بن علی کے دو بیٹوں عبداللہ اور حسن سے ان دونوں نے اپنے والد سے انہوں نے حضرت علی سے کہ حضور نے عورتوں سے متعہ کرنے اور پالتوگدھوں کا گوشت کھانے سے منع فرمادیا تھا۔ اس روایت میں امام مالک کے سوادوسرے راوی کے الفاظ یہ ہیں کہ حضرت علی حضرت ابن عباس سے فرمایا تھا کہ تم تو ایک دل پھینک انسان ہومتعہ کی رخصت تو اسلام کے ابتدائی زمانے میں تھی حضور نے غزوہ خیبر کے دنوں میں اس سے اور پالتوگدھوں کے گوشت سے منع فرمادیا تھا۔ یہی روایت کئی طرق سے زہری سے بھی مروی ہے اسے سفیان بن عیینہ اور عبیداللہ بن عمر اور کچھ دوسرے حضرات نے روایت کی ہے، عکرمہ بن عمار نے سعید المقبری سے ، انہوں نے حضرت ابوہریرہ سے روایت کی ہے کہ حضور نے غزوہ تبوک میں فرمایا، ان اللہ حرم المتعۃ باالطلاق والنکاح والعدۃ والمیراث۔ اللہ تعالیٰ نے طلاق ، نکاح ، عدت اور میراث کے احکامات بھیج کرمتعہ کو حرام کردیا ہے ) ۔ عبدالواحد بن زیاد نے ابوعمیس سے روایت کی ہے ، انہیں ایاس بن سلمہ بن الاکوع نے اپنے والد حضرت سلمہ بن الاکوع سے کہ حضور نے جنگ اوطاس کے سال متعہ کی اجازت دے دی تھی پھر اس سے منع فرمادیا۔ ہمیں عبدالباقی بن القانع نے روایت بیان کی، انہیں اسماعیل بن الفضل بلخی نے ، انہیں محمد بن جعفر بن موسیٰ نے انہیں محمد بن الحسن نے ، انہیں امام ابوحنیفہ نے نافع سے ، انہوں نے حضرت ابن عمر سے کہ حضور نے غزوہ خیبر کے دن عورتوں کے ساتھ متعہ کرنے سے منع فرما دیا تھا۔ حالانکہ ہم شہوت رانی نہیں کرتے تھے۔ ابوبکر جصاص کہتے ہیں کہ حضرت ابن عمر ؓ کا یہ قول ” وماکنا مسافحین “ (ہم لوگ شہوت رانی نہیں کرتے تھے) کئی احتمالات رکھتا ہے۔ اول یہ کہ جس وقت متعہ کی اباحت ہوئی۔ اس وقت بھی لوگ شہورت رانی نہیں کرتی تھے۔ یعنی اگر اس کی اباحت نہ بھی ہوتی تو پھر بھی لوگ شہوت رانی نہ کرتے اس کے ذریعے ان لوگوں کے قول کی تردید ہوگئی کہ اس کی اباحت ضرروت کے تحت ہوئی تھی جس طرح مردار اور خون کی اباحت تھی اور پھر اس سے روک دیا گیا۔ دوم یہ کہ متعہ کی نہیں آنے کے بعد لوگ ایسا ہرگز نہ کرتے کہ ان کا شمار شہورت رانی کرنے والوں میں ہوجاتا۔ اس میں یہ بھی احتمال ہے کہ لوگ اباحت کی حالت میں بھی متعہ کے ذریعے جنسی آسودگی حاصل کرنے کی روادار نہیں تھے۔ ہمیں محمد بن بکر نے رویات بیان کی، انہیں ابوداؤد نے، انہیں مسددنے، نہیں عبدالوارث نے اسماعیل بن امیہ سے ، انہوں نے زہری سے کہ انہوں نے کہا :” ہم لوگ حضرت عمر بن عبدالعزیز کے پاس بیٹھے ہوئے تھے اور عورتوں کے ساتتھ متعہ کرنے کے مسئلے پر گفتگو ہو رہی تھی۔ ایک شخص جس کا نام ربیع بن سبرہ تھا کہنے لگا ” میں اپںے والد کے متعلق یہ گواہی دیتا ہوں کہ انہوں نے یہ روایت بیان کی کہ حضور اکرم ﷺ نے حجۃ الوداع کے موقع پر متعہ سے لوگوں کو روک دیا تھا۔ “ عبدالعزیز بن الربیع بن سبرہ نے اپنے والد کے واسطے سے اپنے دادا سے روایت یک یہ ہے کہ نہیں کا حکم فتح مکہ کے سال دیا گیا تھا۔ اسماعیل بن عیاش نے عبدالعزیز بن عمر بن عبد العزیز سے، انہوں نے ربیع بن سبرہ سے ، انہوں نے اپنے والد سے اسی طرح کی روایت کی ہے اور یہ بھی ذکر یکا ہے کہ یہ واقعہ فتح مکہ کے سال پیش آیا تھا۔ انس بن عیاض اللیثی نے عبدالعزیز بن عمرو سے ، انہوں نے ربیع بن سبرہ سے، انہوں نے اپنے والد سے اس قسم کی روایت کی ہے اور یہ کہا ہے کہ نہی کا حکم حجۃ الوداع کے موقع پر دیا گیا تھا۔ متعہ کی تحریم میں راویوں کا اختلاف نہیں ہے، البتہ تحریم کی تاریخ میں اختلاف ہے، اس لیے تاریخ کا معاملہ ساقط ہوگیا اور یوں سمجھ لیا گیا کہ تحریم تاریخ کے بغیر وارد ہوئی ہے اور راویوں کے اتفاق کی بنا پر تحریم ثابت ہوگئی ہے۔ امام ابوحنیفہ نے زہری انہوں نے محمد بن عبداللہ سے ، انہوں نے سبرہ جہنی سے روایت کی ہے کہ حضور اکرم ﷺ نے فتح مکہ کے دن عورتوں سے متعہ کرنے سے منع فرمادیا۔ ہمیں عبدالباقی بن قانع نے رویت بیان کی، انہیں ابن ناجیہ نے ، انہیں محمد مسلم زازی نے، انہیں عمرو بن ابی سلمہ نے، انہیں صدقہ نے عبیداللہ بن علی سے، انہوں نے اسماعیل بن امیہ سے ، انہوں نے محمد بن المنکدر سے ، انہوں نے حضرت جابر بن عبداللہ ؓ سے، ان کا کہنا ہے کہ ہمارے ساتھ وہ عورتیں بھی چل پڑیں جن سے ہم نے متعہ کیا تھا، اس موقع پر حضور اکرم ﷺ نے فرمایا کہ ” یہ عورتیں قیامت تک کے لیئے حرام ہیں “۔ اگر یہ کہا جائے کہ یہ متضاد روایتیں ہیں اس لیے کہ سبرہ جہنی کی روایت میں ہے کہ حضور اکرم ﷺ نے حجۃ الوداع میں لوگوں کے لیے متعہ مباح کردیا تھا اور بعض کا قول ہے کہ فتح مکہ کے ساتل ایسا ہوا تھا، جبکہ حضرت علی اور حضرت ابن ؓ کی روایت میں ہے کہ حضور اکرم ﷺ نے خیبر کی جنگ میں اس کی تحریم کردی تھی، حالانکہ خیبر کی جنگ فتح مکہ سے پہلے ہوئی تھی۔ ایک قول ہے کہ یہ تحریم حجۃ الوداع کے موقع پر ہوئی تھی اب یہ فتح مکہ کے سال یا حجۃ الوداع کے موقعہ پر کس طرح مباح ہوسکتی تھی جبکہ اس کی تحریم اس سے قبل ہی غزوئہ خیبر کے سال ہوچکی تھی۔ اس اعتراض کا جواب دو طرح سے دیاجاتا ہے۔ اول یہ کہ سبرہ کی روایت کی ترایخ مختلف فیہ ہے۔ بعض کا قول ہے یہ فتح مکہ کا سال تھا، بعض کا کہنا ہے کہ یہ حجۃ الوداع کا موقعہ تھا۔ ان دونوں روایتوں میں یہ کہا گیا ہے کہ حضور اکرم ﷺ نے اس سفر میں متعہ کو مباح کردیا تھا پھر اسے حرام کردیا۔ جب تاریخ کے متعلق راویوں میں اختلاف ہوگیا تو یہ ساقط ہوگئی اور روایت تاریخ کے بغیر وارد سمجھ لی گئی۔ اس لیے یہ حضرت علی اور حضرت ابن عمر ؓ کی روایت کے متضاد نہیں رہی جس کی تاریخ کے متعلق دونوں حضرات کا اتفاق ہے کہ حضور اکرم ﷺ نے خیبر کی جنگ کے موقعہ پر اسے حرام کردیا تھا۔ دوم یہ ممکن ہے کہ آپ نے جنگ خیبر کے موقع پرا سے حرام کردیا ہو پھر حجۃ الوداع یا فتح مکہ کے موقع پر اس کی اباحت کا حکم دے دیا ہو اور پھر تحریم کا حکم نافذ کردیا ہو۔ اس طرح حضرت علی اور حضرت ابن عمر ؓ کی روایت میں مذکورہ تحریم سبرہ جہنی کی روایت کی بنا پر منسوخ ہو کئی ہو اور پھر یہ اباحت سرہ ہی کی روایت کی بنا پر منسوخ ہوگئی ہو اس لیے کہ ایسا ہونا ممتنع نہیں ہے۔ اگر یہ کہا جائے کہ اسماعیل بن ابی خالد نے قیس بن ابی حاتم سے اور انہوں نے حضرت ابن مسعود ؓ سے رویت کی ہے کہ ” ہم حضور اکرم صلی الل علیہ وسلم کی معیت میں غزوہ پر نکلے تھے، ہمارے ساتھ بیویاں نہیں تھیں۔ ہم نے آپ ﷺ سے فوطے نکولانی یعنی نامرد بن جانے کی اجازت چاہی لیکن آپ ﷺ نے ہمیں اس سے روک دیا اور ایک کپڑ کے کے بدلے محدود مدت تک کے لیے نکاح کی اجازت دے دی پھر فرمایا (لا تحرموا طیبات ما احل اللہ لکم) ۔ ان پاکیزہ چیزوں کو حرام نہ کروں جنہیں اللہ تعالیٰ نے تمہارے لیے حلال کردیا ہے) اس سوال کے جواب میں کہاجائے گا کہ یہی تو وہ متعہ ہے جسے حضور اکرم ﷺ نے ان تمام روایت میں حرام قرار دیا ہے جن کا ہم نے ذکر کیا۔ ہم اس سے انکا ر نہیں کرتے کہ ایک وقت متعہ کی اباحت تھی پھر اس یک حرمت ہوگئی۔ حضرت ابن مسعود ؓ کی روایت میں تاریخ کا ذکر نہیں ہے اس لیے ممانعت پر مشتمل روایات اس روایت کے بےاثر کردیں گی کیونکہ ان روایات میں اباحت کے بعد ممانعت کا ذکر ہے۔ اگر ان روایات اور حضرت ابن مسعود ؓ کی روایت کو مساوی مان لیں پھر بھی ممانعت کی روایات اولی ہوں گی جیسا کہ ہم کئی جگہوں پر اس کی وضاحت کرتے ہئے ہیں۔ متعہ کی اباحت کا حکم دیتے ہوئے حضور اکرم ﷺ نے مذکورہ بالا آیت کی تلاوت فرمائی تھی تو اس میں احتمال ہے کہ آپ ﷺ نے اس سے فوطے نکلوا کرنا مرد بن جانی اور مباح نکاح کو حرام کرلینے کی نہی مراد لی ہو اور یہ بھی احتمال ہے کہ اس سے متعہ مراد ہو اور یہ زمانہ متعہ کی اباحت کا زمانہ ہو۔ حضرت عبداللہ بن مسعود ؓ سے مروی ہے کہ طلاق ، عدت اور میراث کے احکام کی بنا پر متعہ کی اباحت کا حکم منسوخ ہوگیا ۔ یہ چیز اس پر دلالت کرتی ہے کہ حضرت ابن مسعود ؓ کو اس کا علم تھا کہ یہ ایک وقت مباح تھا۔ اب اگر اس کی اباحت بحالہ باقی رہتی تو اس کی روایت بڑے وسیع پیمانے پر تواتر کی شکل ہوتی کیونکہ عام طور اس روایت کی ضرورت موجود تھی اور تمام لوگوں لوگوں کو اس کا اسی طرح علم تھا جس طرح شروع میں تھا اور پھر سا یک تحریم پر صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم کا اجماع نہ ہوتا۔ جب ہم یہ دیکھتے ہیں کہ صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم کو اس کی اباحت سے انکار ہے بلکہ وہ اس کی ممانعت کے قائل ہیں حالانکہ ان سب کو ابتدا سے اس کی اباحت کا علم تھا تو ہمارے لیے یہ چیز اس پر دلالت کرتی ہے کہ اباحت کے بعد پھر ممانعت ہوگئی تھی۔ آپ دیکھ سکتے ہیں کہ جب نکاح کی اباحت قائم رہی تو اس کی اباحت کے متعلق ان حضرات کے درمیان کوئی اختلاف رائے پیدا نہیں ہوا۔ اور یہ تو واضح ہے کہ اگر متعہ کی اباحت ہوتی تو اس سے ان کو اتنا ہی سابقہ پڑتا جتنا کہ نکاح سے پڑا تھا اور اس صورت میں یہ ضروری ہوتا کہ متعہ کی اباحت کے باقی رہ جانے کے متعلق اس کثرت سے روایات ہوتیں کی اصول رویات کے مطابق یہ حد استفاضہ کو پہنچ جاتیں۔ متعہ کے بارے میں ابن عباس ؓ کا رجوع۔ جبکہ ہمیں حضرت ابن عباس ؓ کے سوا اور کسی صحابی کے متعلق یہ علم نہیں کہ انہوں نے متعہ کی اباحت کی کھلم کھلا بات کی ہو اور اس کی تحریم کے متعلق صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم سے تواتر کیساتھ تقل ہونے والی روایتوں سے آکاہ ہونے کے بعد حضرت ابن عباس ؓ نے بھی اپنے قول سے رجوع کرلیا تھا۔ یہی بات بیع صرف یعنی سونے چاندی کی خرید و فروخت کے متعلق بھی پیدا ہوئی تھی کہ آپ ایک درہم کے دلے دو درہم کی نقد خرید و فروخت کی اباحت کے قائل تھے لیکن جب آپ کو یقین ہو کیا کہ حضور اکرم ﷺ نے ایسی بیع کو حرام قرار دیا ہے اور اس کی تحریم کے متعلق آپ کے پاس ہر طرف سے متواتر وایتیں پھنچیں تو آپ نے اپنے قول سے رجوع کر کے جمہور صحابہ کا قول اختیار کرلیا۔ ٹھیک یہی صورت متعہ کے متعلق بھی پیش آئی تھی۔ صحابہ کرام رضو ان اللہ علیہم کو متعہ کی اباحت کے منسوخ ہوجانے کی خبر تھی اس پر حضرت عمر ؓ کا وہ قول دلالت کرتا جو آپ نے اپنے ایک خطبے کے دوران فرمایا تھا کہ ” حضور اکرم ﷺ کے زمانے میں دو قسم کے متعہ جائز تھے لیکن اب میں ان سے روکتا ہوں اور ان کے مرتکب کو سزا دیتا ہوں۔ “ ایک روایت کے الفاظ یہ ہیں۔” اگر تمہاری طرف سے اس طرف قدم اٹھتے تو میں سنگسار کردیتا “۔ آپ کی اس بات کی کسی نے تردید نہیں کی خاص طور پر جبکہ سامعین کو حضرت عمر ؓ کی زبانی حضور اکرم ﷺ کے عہد میں اس کی اباحت کی اطلاع بھی دے دی گئی تھی۔ صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم کی رف سے اس قول کی تردیدنہ ہونے کی دو میں سے ایک وجہ ہوسکتی ہے یا تو یہ کہ انہیں اس کی اباحت کا علم تھا لیکن حضرت عمر ؓ کی وجہ سے ممانعت کے اس قول میں وہ سب ان کے ساتھ ہوگئے تھے۔ صحابہ کرام کے بارے میں اس کا تصور بھی بعید ہے کیونکہ یہ رویہ حضور اکرم ﷺ کے ایک حکم کی کھلم کھلا خلاف وزری کا موجب ہے جبکہ اللہ تعلایٰ نے ان حضرات کی شان میں یہ فرمایا ہے کہ زمین میں پیدا ہونے والی تمام امتوں میں ان کی جماعت سب سے بہتر ہے، یہ نیکی کا حکم کرتے اور برائی سے روکتے ہیں اس لیے حضور اکرم ﷺ کے ایک کی مخا الفت پر ان حضرات کا اکٹھا ہونا امر محال ہے اور بعید از قیاس بات ہے اور اس لیے بھی کہ یہ رویہ طرز عمل کفر تک پہنچانے والا ہے اور اسلام سے اپنا ناطہ توڑ لینے کا موجب ہے کیونکہ جس شخص کو اس بات کا علم ہو کہ حضور اکرم ﷺ نے متعہ کی اباحت کا حکم دیا تھا پھر وہ اس کے منسوخ ہوجانے کے متعلق کچھ جانے بغیر اس کی ممانعت کا حکم جاری کر دے تو ایسا شخص ملت سے ہی خارج ہے۔ اسی بنا پر ہمیں یہ معلوم ہوگیا کہ صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کو اباحت کے بعد اس کی ممانعت کے بارے میں علم ہوچکا تھا اس لیے انہوں نے حضرت عمر ؓ کے قول کی تردید نہیں کی۔ اگر حضرت عمر ؓ کی کہی ہوئی بات غلط ہوتی اور صحابہ کرام کے نزدیک اس کا نسخ ثابت نہ ہوتا تو وہ حضرت عمر ؓ کی تردید کیئے بغیر انہیں جانے نہ دیتے۔ یہی وہ بات ہے جو متعہ کے نسخ پر صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کے اجماع کی دلیل طے طور پر ہمارے سامنے آئی ہے کیونکہ حضور اکرم ﷺ کی مباح کی ہوئی چیز کو نسخ کے علم کے بغیر حرام قرار دے کر اس کی ممانعت کردینا سرے سے جائز ہی نہیں ہے۔ حرمت متعہ پر عقلی دلیل عقلی طور پر اس کی تحریم پر یہ چیز دلالت کرتی ہے کہ ہم یہ جانتے ہیں کہ عقد نکاح سے اگرچہ منافع بضع مباح ہوجاتے ہیں لیکن عقد نکاح کی بنا پر منافع کے استحقاق کی وہی حیثیت ہے جو اعیان یعنی اشیاء کی ملکیت میں عقود کی ہے۔ نیز یہ کہ عقد نکاح اجارے کے عقود سے مختلف ہے جن میں اعیان کے منافع پیش نظر ہوتے ہیں۔ آپ دیکھ سکتے ہیں کہ عقد نکاح اس وقت درست ہوتا ہے جب اس میں کسی خاص مدت کی شرط نہ ہو اس کے برعکس اجارے کے عقود اس وقت درست ہوتے ہیں جب ان کی مدت معلوم ہو یا کام کی نوعیت معلوم ہو۔ اب جبکہ منافع بضع کے عقد کا حکم بیوع کے عقود یا اعیان پر ہونے والے ان جیسے عقود کے مشابہ قرار پیا تو اس حکم کا وقت کی شرط کے ساتھ نافذ العمل ہونا درست نہیں ہوگا۔ جس طرح مملوکہ اشیاء میں تملیک کا عمل خاص وقت تک کے لیے نہیں ہوتا۔ اس لیے جب منافع بضع کے عقد میں توقیت پائی جائے گی اور ایک خاص وقت کی شرط لگادی جائے گی تو یہ عقد ، عقدنکاح نہیں بن سکے گا اور پھر اس کے ذریعے بضع کو اپنے لیے مباح کرلینا درست نہیں ہوگا۔ جس طرح ملکیت کی توقیت کی شرط کے ساتھ عقد بیع درست نہیں ہوتا۔ ہبہ کی تمام صورتوں اور صدقات کی شکلوں کا بھی یہی حکم ہے کہ ان میں سے کسی عقد کے ذریعے ایک خاص وقت تک کے لیے ملکیت حاصل نہیں ہوتی۔ اب منافع بضع چونکہ اعیان مملوکہ جیسی کیفیت کے حامل ہیں اس لیے ان میں بھی توقیت درست نہیں ہوتی۔ متعہ کی اباحت کے قائلین اپنے حق میں یہ استدلال پیش کرسکتے ہیں کہ کم از کم اس پر تو سب کا اتفاق ہے کہ متعہ ایک زمانے میں مباح تھا پھر اس کی ممانعت کے متعلق اختلاف رائے ہوگیا۔ اس لیے ہم تو متفق علیہ امر پر جمے رہیں گے اور اختلاف کی وجہ سے اس سے دست بردار نہیں ہوں گے۔ انہیں یہ جواب دیا چائے گا کہ جن روایات کی بنا پر متعہ کی اباحت کا ثبوت ملتا ہے ان ہی روایات میں اس کی ممانعت کی بات بھی موجود ہے کیونکہ جس روایت میں متعہ کی اباحت کا ذکر ہے اسی روایت میں اس کی ممانعت بھی مذکورہ ہے۔ اس لیے جس بنا پر اس اس کی اباحت ثاب ہوتی ہے اسی بنا پر اس کی ممانعت کا بھی ثبوت ملتا ہے۔ اگر ممانعت ثاتب نہیں ہوستی تو اباحت بھی ثابت نہیں ہوسکتی کیونکہ جس جہت سے اباحت کا ثبوت ہے اسی جہت سے ممانعت کا بھی قوبت ہے۔ نیز یہ کہنا کہ کسی بات پر اگر ہمارا اتفقا ہوجائے تو اس کے متعلق اختلاف رائے پیدا ہوجانے پر ہم اس اختلاف کی وجہ سے اجماع کا دامن نہیں چھوڑیں گے۔ ایک فاسد قول ہے اس لیے کہ جس نکتے میں اختلاف ہے اس پر اجماع نہیں ہے۔ جب سرے سے اجماع ہی نہیں ہوا تو اس صورت میں قائل کے دعوے کی صحت کو ثابت کرنے کے لیے کسی دلالت کا قیام ضروری ہوگیا۔ اس میں ایک پہلو یہ بھي ہے کہ کسی چیز کا ایک وقت میں مباح ہونا اس کی اباحت کی بقاء کا موجب نہیں ہے جبکہ وہ چیز ایسی ہو جس میں نسخ کا درود ممکن ہو اور ہم نے کتاب و سنت اور اجماع سلف سے اباحت کے بعد اس کی ممانعت پر دلیل قائم کردی ہے۔ ابوبکر جصاص کہتی ہیں کہ متعہ اور اس کی تحریم کے حکم کے متعلق ہم نے جو کچھ بیان کردیا ہے اس کے ذریعے ہر اس شخص تک اس مسئلے کی حقیقت کا ابلاغ ہوگیا ہے جو اپنے نفس کا خیر خواہ ہو۔ اس مسئلے کے متلعق صدر اول میں کوئی اختلاف رائے نہیں جیسا کہ ہم بیان کر آئے ہیں اس کے باوجود فقہاء امصار کا اس کی تحریم پر مکمل اتفاق ہے اور کسی قسم کا اخلاف رائے نہیں ہے۔ فقہاء کا اس مسئلے میں اختلاف رائے ہے کہ ایک شخص چند دنوں کے لیے کسی عورت سے نکاح کرلیتا ہے۔ امام ابوحنیفہ، امام شافعی، امام مالک، امام ابویوسف ، امام محمد سفیان ثوری اور اوزاعی رحمہم اللہ تعالیٰ علیہ کا قول ہے کہ اگر کوئی شخص دس دنوں کے لیے کسی عورت سے نکاح کرلیتا ہے تو اس کا یہ عقد باطل ہوگا۔ اور دونوں کا سرے سے نکاح ہی نہیں ہوگا۔ زفر (رح) کا کقول ہے کہ نکاح جائز اور شرط باطل ہوگی۔ اوزاعی کا قول ہے کہ جب مرد کسی عورت یس نکاح کرلے لیکن اس کی نیت شروع ہی سے طالق دینے کی ہو تو اگر چھ ظاہری طور پر اس عقد میں کوئی شرط نہیں ہے پھر بھی ایسے نکاح میں خیر کا پہلو نہیں ہے اس لیے یہ متعہ ہے۔ ابوبکر جصاص کہتے ہیں کہ ان حضرات اور امام زفر کے مابین اس بارے میں کوئی اختلاف نہیں ہے کہ عقد نکاح متعہ کے لفظ کے ذریعے درست نہیں ہوتا اور اگر کوئی شخص کسی عورت سے یہ کہے کہ ” میں تجھ سے دس روز کے لیے متعہ کرتا ہوں “ تو یہ نکاح نہیں ہوگا۔ اختلاف صرف اس صورت میں ہیجب کہ وہ اس عورت سے چند دنوں کے لیے لفظ نکاح کے ذریعے عقد کرلے مثلا یوں کہے ” میں دس دنوں کے لیے تجھے عقد زوجیت میں لیتا یعنی نکاح کرتا ہوں۔ “ زفر (رح) نے اسے ناکح قرار دیا ہے اور دس روز کی شرط کو باطل ٹھہرایا ہے اس لیے کہ نکاح کو فاسد شرطیں باطل نہیں کرتیں مثلا یوں کہے ” میں تجھ سے اس شرط پر نکاح کرتا ہوں کہ دس دنوں کے بعد تجھے طلاق دے دوں گا “ اس صورت میں نکاح درست ہوگا اور شرط باطل ہوگی۔ ان حضرات اور امام زفر (رح) کے مابین صرف اس بارے میں اختلاف ہے کہ آید درج بالا صورت نکاح ہے یا متعہ۔ جمہور کی نزدیک یہ متعہ ہے نکاح نہیں ہے۔ جمہور کے سا قول کی ایک مدت تک کے لیے نکاح متعہ ہوتا ہے۔ اگرچہ لفظ میں متعہ کا ذکر نہ بھی موجود ہو۔ صحت کی دلیل وہ رویات ہے جو ہمیں عبدالباقی بن قانع نے بیان کی ، انہیں اسحاق بن حسن بن میمون نے ، انہیں ابو نعیم نے ، انہیں عبدالعزیز بن عمر بن عبد العزیز نے ربیع بن سبرہ جہنی سے کہ انہیں ان کے والد سبرہ نے بتایا تھأ کہ لوچ حجۃ الوداع کے موقع پر حضور اکرم ﷺ کے ہمراہ اپنے اپنے گھروں سے چل پڑے اور عسفان میں پڑاؤ کیا۔ رویت کے اگلے حصے میں حضرت سبرہ ؓ بیان کرتے ہیں کہ حضور اکرم ﷺ نے لوگوں کو طواف کر کے احرام کھول دینے کا حکم دیا البتہ جو لوگ اپنے ساتھ قربانی کے جانور لے گئے تھے انہیں اس کی اجازت نہیں ملی۔ ہم لوگ جب احرام کھول چکے تو حصو اکرم ﷺ نے فرمایا کہ ان عورتوں سے استمتاع کرلو۔ ہمارے نزدیک استمتاع نکاح کرنے کو کہتے ہیں۔ ہم نے یہ تجویز عورتوں کے سامنے پیس کی انہوں نے اس شرط پر اسے منظور کیا کہ ہم کے لیے مدت مقرر کردیں۔ ہم اس بات کا ذکر جب حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلے سے کیا تو آپ ﷺ نے فرمایا ایسا ہی کرلو۔ اس کے بعد میں اور میرا چچا زاد بھائی ہم دونوں اس مقصد کے لیے نکل پڑے، میں اس کے مقابلے میں زیادہ جوانتھأ، میرے پاس ایک یمنی چادر تھی اور اس کے پاس بھی ایک یمنی چادر تھی۔ جب ہم ایک عورت کے پاس یئے تو اسے میری جوانی اور میرے چچازاد بھائی کی چادر پسند آگئی۔ کہنے لگی : ” ایک چادر تو دوسری چادر کی طرح ہے لیکن یہ زیادہ جوان ہے۔ “ اشارہ میری طرف تھا۔ چناچہ میرے اور اس عورت کے درمیان دس دنوں کی مدت طے ہوگئی۔ میں نے اس کے ساتھ ایک رات گذاری۔ صبح کے وقت جب میں مسجد میں گیا تو حضور اکرم ﷺ کو مقام ابراہیم اور رکن کے درمیان ایستادہ پایا۔ آپ اس وقت فرما رہے تھے : ” لوگو ! میں نے تمہیں ان عورتوں سے استمتاع کی اجزت دے دی تھی لیکن سنو، اللہ تعالیٰ نے قیامت تک کے لیے اسے حرام کردیا ہے۔ اس لیے طے شدہ شرطوں کے مطابق ان سے استمتاع کا اگر کوئی حصہ باقی رہ بھی گیا ہے تو بھی انہیں چھوڑ دو اور علیحدگی اختیار کرلو اور جو کجھ تم انہیں دے چکے ہو اس میں سی کوئی چیز واپس نہ لو۔ “ اس رویت مین حضرت سبرہ ؓ نے بتایا کہ استمتاع نکاح کو کہتے ہیں اور یہ کہ حضور اکرم صلی الل عیہ وسلم نے اس میں مدت مقرر کنے کی رخصت دے دی تھی اور اس اباحت کے بعد پھر اس سے منع فرمادیا تھا۔ اس سے یہ بات ثابت ہوگئی کہ ایک خصا مدت کے لیے نکاح کرنا متعہ کہلاتا ہے۔ اس پر اسماعیل بن ابی خالد کی وہ رویت بھی دلالت کرتی ہے جو انہوں نے قیس بن بی حاتم سے اور انہوں نے حضرت عبداللہ بن مسعود ؓ سے نقل کی ہے کہ ہم حضور اکرم ﷺ کیمعیت میں غزوہ پر نکلے تھے۔ ہمارے ساتھ بیویاں نہیں تھیں۔ ہم نے جب آپ ﷺ سے عرض کیا فوطے نکلوا کرنا مرد بن جائیں تو آپ ﷺ نے اس سے منع فرمادیا اور ایک مدت تک کے لیے ایک کپڑے کے بدلے نکاح کرلینے کی اجازت دے دی۔ آپ نے اس وقت یہ آیت بھی تلاوت فرمائی تھی (لاتحرموا طیبات ما احل لکم) حضرت ابن مسعود ؓ نے یہ بھی بتایا کہ متعہ ایک محدود مدت تک کے لیے نکاح کا نام تھا۔ اس بر حضرت جابرؓ کی یہ روایت بھی دلالت کرتی ہے جو انہوں نے حضرت عمر ؓ سے نقل کی ہے۔ اس روایت کی سند متعہ کے بات میں بیان ہوچکی ہے۔ اس رویات کے مطابق حضرت عمر ؓ نے فرمایا تھا کہ ” اللہ تعالیٰ اپنے رسول ﷺ کے لیے جو چاہتاحلال کردیتا تھا اب تم لوگ حج اور عمرے کی اسی طرح تکمیل کرو جس طرح اللہ نے حکم دیا ہے اور ان عورتوں سے نکاح کرنے سے پرہیز کرو، سنو ! میرے پاس اگر کوئی ایسا شخص لایا گیا جس نے ایک محدود مدت کے لیے کسی عورت سے نکاح کرلیا ہ۔ گا تو میں اسے سنگسار کردوں گا۔ “ حضرت عمر ؓ نے یہ بتایا کہ ایک محدود مدت کے لیے نکاح متعہ ہوتا ہے۔ جب ایسے نکاح کے لیے متعہ کا اسم ثابت ہوگیا اور حضور اکرم ﷺ نے متعہ سے روک دیا ہے تو اس میں محدود مدت کے لیے نکاح بھی شامل ہوگیا۔ کیونکہ ایسا نکاح اس اسم کے تحت داخل ہے۔ نزی جب متعہ نفع قلیل کے لیے اسم ہے جیسا کہ ارشاد باری ہے (انما ہذہ الحیوۃ الدنیا متاع، یہ دنیاوی زندگی نفع قلیل کے سو اکچھ نہیں) یعنی یہ دنیاوی زندگی نفع قلیل کا نام ہے۔ نیز طلاق کے بعد شوہر پر واجب ہونے والی چیز کو اپنے قول (فمتعوہن) سے متعہ کا نام دیا۔ ایک جگہ اور ارشاد ہے (وللمطلقات متاع بالمعروف) طلاق پانے والی عورتوں کے لیے دستور کے مطابق متاع ہے) ۔ اسے متاع یعنی نفع قلیل اس لیے کہا کہ یہ مہر سے کم ہوتا ہے۔ اس سے ہمیں یہ بات معلوم ہوئی کہ جس چیز پر متعہ یا متاع کے اسم کا اطلاق ہوا ہے اس میں اس کے ذریعے تقلیل مراد لی گئی ہے اور یہ کہ عقد جس چیز کا مقتضی اور موجب ہے یہ متعہ اسکے مقابلہ میں بہت معمولی ہے طلاق کے بعد جو چیز دی جاتی ہے اور جس کا نفس عقد نکاح موجب نہیں ہوتا۔ اس کا نام متعہ یا متاع اسے لیے رکھا گیا کہ یہ اس مہر کے مقابلے میں بہت کم ہوتی ہے جس کا عقد نکاح کے ساتھ عورت کو حق حاصل ہوجاتا ہے۔ حضرت ابن مسعود ؓ نے یہ بھی بتایا کہ متعہ ایک محدود مدت تک کے لیے نکاح کا نام تھا۔ اس بر حضرت جابرؓ کی یہ روایت بھی دلالت کرتی ہے جو انہوں نے حضرت عمر ؓ سے نقل کی ہے۔ اس روایت کی سند متعہ کے بات میں بیان ہوچکی ہے۔ اس رویات کے مطابق حضرت عمر ؓ نے فرمایا تھا کہ ” اللہ تعالیٰ اپنے رسول ﷺ کے لیے جو چاہتاحلال کردیتا تھا اب تم لوگ حج اور عمرے کی اسی طرح تکمیل کرو جس طرح اللہ نے حکم دیا ہے اور ان عورتوں سے نکاح کرنے سے پرہیز کرو، سنو ! میرے پاس اگر کوئی ایسا شخص لایا گیا جس نے ایک محدود مدت کے لیے کسی عورت سے نکاح کرلیا ہ۔ گا تو میں اسے سنگسار کردوں گا۔ “ حضرت عمر ؓ نے یہ بتایا کہ ایک محدود مدت کے لیے نکاح متعہ ہوتا ہے۔ جب ایسے نکاح کے لیے متعہ کا اسم ثابت ہوگیا اور حضور اکرم ﷺ نے متعہ سے روک دیا ہے تو اس میں محدود مدت کے لیے نکاح بھی شامل ہوگیا۔ کیونکہ ایسا نکاح اس اسم کے تحت داخل ہے۔ نزی جب متعہ نفع قلیل کے لیے اسم ہے جیسا کہ ارشاد باری ہے (انما ہذہ الحیوۃ الدنیا متاع، یہ دنیاوی زندگی نفع قلیل کے سو اکچھ نہیں) یعنی یہ دنیاوی زندگی نفع قلیل کا نام ہے۔ نیز طلاق کے بعد شوہر پر واجب ہونے والی چیز کو اپنے قول (فمتعوہن) سے متعہ کا نام دیا۔ ایک جگہ اور ارشاد ہے (وللمطلقات متاع بالمعروف) طلاق پانے والی عورتوں کے لیے دستور کے مطابق متاع ہے) ۔ اسے متاع یعنی نفع قلیل اس لیے کہا کہ یہ مہر سے کم ہوتا ہے۔ اس سے ہمیں یہ بات معلوم ہوئی کہ جس چیز پر متعہ یا متاع کے اسم کا اطلاق ہوا ہے اس میں اس کے ذریعے تقلیل مراد لی گئی ہے اور یہ کہ عقد جس چیز کا مقتضی اور موجب ہے یہ متعہ اسکے مقابلہ میں بہت معمولی ہے طلاق کے بعد جو چیز دی جاتی ہے اور جس کا نفس عقد نکاح موجب نہیں ہوتا۔ اس کا نام متعہ یا متاع اسے لیے رکھا گیا کہ یہ اس مہر کے مقابلے میں بہت کم ہوتی ہے جس کا عقد نکاح کے ساتھ عورت کو حق حاصل ہوجاتا ہے۔ نکاح موقت کو اس لیے متعہ کا نام دیا گیا کہ عقد نکاح کا مقتضی یہ ہوتا ہے کہ یہ اس وقت تک باقی رہے جب تک موت یا علیحدگی کا موجب بننے والا کوئی واقعہ پیش نہ آجائے اس سے مقابلے میں نکاح موقت یعنی متعہ میں مدت بھی مختصر ہوتی ہے اور انتفاع بھی قلیل ہوتا ہے۔ اس لیے یہ ضروری ہوگیا کہ اگر نکاح میں توقیت کی شرط لگا دی جائے تو خواہ الفاظ میں متعہ کا ذکر ہو یا نکاح کا دونوں صورتوں پر متعہ کے اطلاق کے لحاظ سے کوئی فرق نہیں ہونا چاہیئے۔ اس لیے کہ ان دونوں صورتوں کو متعہ کا مفعوم ان وجوہات کی بنا پر شامل ہے جن کا ہم نے پہلے ذکر کردیا ہے۔ اس میں ایک اور پہلو بھی ہے کہ دس دن کی مدت کے لیے عقد نکاح کرنے والا انسان اس عقد کو یا تو شرط کے مطابق موقتا قرار دے گا یا شرط باطل کر کے سا کی توقیت ختم کر دے گا اور اسے مؤبد قرار دے گا۔ اگر پہلی صورت ہو تو یہ متعہ ہوگی اور اس میں سب کا اتفاق ہوگا لیکن دوسری صورت میں اس کا اسے مؤبد قارر دینا اس لیے درست نہیں ہوگا کہ وقت گذر جانے کے بعد عقد باقی نہیں رہے گا اور اس صورت میں بضع کو اپنے لیے عقد کے بغیر مباح کرلینا جائز نہیں ہوگا۔ آپ دیکھ سکتے ہیں کہ اگر کوئی شخص غلے کا ایک ڈھیر اس شرط پر خریدتا ہے کہ اس کی مقدار دس قفیز (غلہ ناپننے کا یک پیمانہ ہے) یا وہ شخص اس ڈھیر کے مالک سے یوں کہے :” میں تم سے غلے کے اس ڈھیر میں سے دس قفیر خریدتا ہوں۔ “ تو ان دونوں صورتوں میں یہ عقد بیع صرف دس قفیز پر واقع ہوگا اس سے زائد غلہ اس میں داخل نہیں ہوگا۔ اسی طرح اگر کسی نے دس دنوں کے لیے عقد نکاح کرلیا تو دس دنوں کے بعد ان دونوں کے درمیان عقد نکاح باقی نہیں رہے گا سا لیے اس مدت کے بعد سابقہ عقد کی بناء پر بضع کو اپنے لیے مباح قرار دینے کا اقدام اس کے لیے جائز نہیں ہوگا وہ اسے موقت بھی قرار نہیں دے سکتا کیونکہ اس صورت میں وہ صریحا متعہ ہوگا اس لیے درج بالا دوسری صورت میں بھی عقد کا افساد لازم ہوگیا۔ تاہم یہ صورت نکاح کرنے والے کے نکاح کی اس صورت کی طرح نہیں ہے جس میں وہ یہ کہے کہ ” میں تجھ سے اس شرط پر نکاح کرتا ہوں کہ دس دنوں کے بعد تجھے طلاق دے دوں گا، اس صورت میں نکاح درست ہوجائے گا اور شرط باطل ہوجائے گی اس کی وجہ یہ ہے کہ زیر بحث صورت میں نکاح کا عقد ہمیشہ باقی رکھنے کے لیے کیا گیا ہے۔ لیکن اس نے طلاق کے ذریعے اس عقد کو ختم کرنے کی شرط لگا دی ہے۔ آپ نہیں دیکھتے کہ اگر وہ اسے طلاق نہ دے تو نکاح باقی رہے گا اس سے یہ بات معلوم ہوئی کہ عقد نکاح کا وقوع ہمیشہ باقی رہنے کے لیے ہوا ہے صرف طلاق کے ساتھ اسے ختم کردینے کی شرط لگائی گئی ہے یہ شرط فاسد ہے اور یہ بات معلوم ہے کہ شرطیں نکاح کو فاسد نہیں کرسکتیں اس لیے شرط باطل ہوجائے گی اور عقد درست ہوجائے گا۔ لیکن دس دنوں کے لیے نکاح کی یہ صورت نہیں ہے کہ کیونکہ ان کے بعد کے ایام میں عقد باقی نہیں رہے گا آپ نہیں دیکھتے کہ اگر کوئی شخص دن دن کے لیے کوئی گھر کرایے پر لیتا ہے تو اسے کا یہ عقد اجارہ دس دنوں کے لیے ہوگا اور بعد کے ایام میں عقد کا کوئی وجود نہیں ہوگا۔ اگر دس دن گزجانے کے بعد وہ گھر خالی نہیں کرے گا تو وہ غاصب قرار پائے گا اور عقد اجارہ سے ہٹ کر سکونت پذیر شمار ہوگا۔ اس پر زائد دنوں کا کوئی کرایہ بھی عائد نہیں ہوگا۔ اگر مالک مکان کرایہ دار سے یہ کہے کہ ۔” میں تمہیں مکان اس شرط پر کرایہ پر یدتا ہوں کہ دس دنوں کے بعد میں اس عقد کو فسخ کر دوں گا تو یہ اجارہ ہمیشہ کے لیے فاسد ہوجائے گا اور دس یا اس سے زائد دن سکونت پذیر رہنے کی بنا پر کرایہ دار پر وہ کرایہ لازم ہوگا جو اس جیسے مکان کا ہوسکتا ہے۔ نکاح کی بھی یہی صورت ہے کہ اگر دس دنوں کے لیے کیا گیا ہو تو ان دنوں کے گزر جانے کے بعد کسی عقد کا وجود باقی نہیں رہے گا۔ مشروط نکاح کے لیے کیا حکم ہے اگر یہ کہا جائے کہ ایک شخص کسی عورت سے یہ کہے کہ ” میں تجھ سے اس شرط پر نکاح کرتا ہوں کہ تجھے دس دن کے بعد طلاق ہوجائے گی۔ “ تو ایسی صورت میں یہ نکاح موقت ہوگا کیونکہ دس دن گزر جانے کے بعد یہ باطل ہوجائے گا تو اس کے جواب میں یہ کہا جائے گا کہ درج بالا صورت نکاح موقت کی صورت نہیں ہے بلکہ یہ نکاح مؤبد کی صورت ہے۔ اس نے تو اسے طلاق کے ذریعہ ختم کیا ہے۔ عقد کے ساتھ طلاق کے ذکر اور مدت گذر جانے کے بعد طلاق دینے کے درمیان کوئی فرق نہیں ہے کیونکہ نکاح تو بنیادی طور پر مؤبد ہوا تھا شوہر نے آنے والے زمانے میں اس پر طلاق واقع کردی اس لیے عقد کی یہ صورت توقیت نکاح کی موجب نہیں بنتی ہے۔ قول باری (فاتوہن اجورہن فریضۃ) اس کے معنی ہیں مہر ادا کردو۔ اللہ تعالیٰ نے مہر کو اجر کا نام دیا کیونکہ بضع کے منافع کا بدل ہے۔ اس سے مہر مراد ہے۔ اس پر یہ بات بھی دلالت کرتی ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اس مہر کا ان لوگوں کے لیے ذکر کیا ہے جو نکاح کے ذریعے محصن بن جانے والے ہوں۔ چنانچہ ارشاد ہے (واحل لکم ما وراء ذلک ان تبتغوا بالموالکم محصنین غیر مسافحین) یا جس طرح یہ ارشاد ہے (فانکحوہن باذن اہلہن و اتوہن اجورہن بالمعروف محصنات غیر مسافحات) اللہ تعالیٰ نے نکاح کے ذکرکے بعد احصان کا ذکر فرمایا اور مہر کو اجر کا نام دیا اور فریضۃ) کا لفظ مہر کے وجوب کی تاکید اور اس کی ادائیگی کے متعلق وہم و گمان کا اسقاط ہے کیونکہ فرق وہ ہوتا ہے جو ایجاب کے سبب سے اونچے مقام پر ہو۔ واللہ اعلم بالصواب۔ مہر میں اضافہ کردینا اللہ تعالیٰ نے مہر کا ذکر کرنے کے بعد فرمایا (ولا جناح علیکم فیما تراضیتم بہ من بعد الفریضۃ ۔ البتہ مہر کی قرار داد ہوجانے کے بعد آپس کی رضامندی سے تمہارے درمیان اگر کوئی سمجھوتہ ہوجائے تو اس میں کوئی حرج نہیں) ۔ یہاں ” الفریضۃ “ مہر مقرر ہوجانے اور اس کی مقدار متعین ہوجانے کے معنوں میں ہے۔ جس طرح میراث اور زکوۃ میں مقررہ حصوں اور نصابوں کو فرائض کا نام دیا جاتا ہے۔ ہم نے گذشتہ ابواب میں اس کی وضاحت کردی۔ مذکورہ بالاآیت کی تفسیر میں حسن سے مروی ہے کہ اس سے مراد مہر کی مقدار مقرر ہونے کے بعد باہمی رضامندی سے اس میں کمی یا اس کی ادائیگی میں تاخیر یا پوری مقدار کا ہبہ ہے اس آیت میں مقدار میں اضافے پر دلالت موجود ہے کیونکہ قول باری ہے (فیما تراضیتم بہ من بعد الفریضۃ) آیت کیا لفاظ میں اضافے ، کمی ، تاخیر اور ابراء (بری الذمہ کردینے کے معنوں کے لیے عموم ہے بلکہ دوسرے معانی کی بہ نسبت اضافے کے معنوں کے ساتھ یہ زیادہ خاص ہے۔ کیونکہ اللہ تعالیٰ نے آیت کے عموم کو طرفین کی باہمی رضامندی کے ساتھ معلق کردیا ہے اور یہ بات ظاہر ہے کہ مقدار میں کمی، ادائیگی میں تاخیر اور بری الذمہ قرار دینے کے سلسلے میں مرد کی رضامندی کی ضرورت نہیں ہوتی جبکہ اضافے کی تجویز میاں بیوی دونوں کیلیے قابل قبول ہونے کے بغیر درست نہیں ہوتی۔ اس لیے اس عموم کو صرف تاخیر، کمی اور ابراء کے معنوں تک محدود کردینا درست نہیں ہے کیونکہ الفاظ کا عموم ان تمام معانی کا متقاضی ہے اس لیے کسی دلالت کے بغیر اس کی تخصیص نہیں ہوسکتی۔ نیز درج بالاتین امور کیا ندر اسے منحصر کردینے کی صورت میں میاں بیوی دونوں کی رضامندی کے ذکر اور ان دونوں کی طرف اس کی نسبت کا فائدہ ساقط ہوجائے گا جبکہ لفظ کے حکم کو ساقط کرنا اور اسے اسطرح منحصر کردینا جس سے اس کا وجود اور عدم برابر ہوجائے کسی طرح درست نہیں ہوتا۔ مہر میں اضافے پر اختلاف ائمہ مہر میں اضافے کے متعلق فقہاء کی درمیان اخلاف رائے ہے امام ابوحنیفہ، امام ابویوسف اور امام محمدرحمہم اللہ کا قول ہے کہ نکاح کے بعد مہر میں اضافہ جائز ہے۔ اور أکر شوہر کی موت واقع ہوجائے یا ہمبستری ہوجائے تو یہ اضافہ برقرار رہے گا لیکن اگر دخول یعنی ہمبستری سے قبل ہی طلاق ہوجائے تو یہ اضافہ باطل ہوجائے گا اور اسے عقد نکاح میں مقرر شدہ مقدار کا نصف ملے گا۔ زفر بن الہذیل اور امام شافعی رحمہما اللہ کا قول ہے کہ اضافے کی حیثیت نئے سرے سے کئے ہوئے ہبہ کی ہوگی جب عورت اس پر قبضہ کرلے گی تو ان دونوں حضرات کے قول کے مطابق یہ اضافہ درست ہوجائے کا اور اگر قبضہ نہیں کرے گی تو یہ باطل ہوجائے گا۔ امام مالک بن انس کا قول ہے ہے کہ اضافہ درست ہوتا ہے اگر دخول سے پہلے ہی مرد طلاق دیدے گا تو اضافی مہر کا نصف حصہ اسے لوٹ آئے گا۔ اس اضافے کی حیثیت اس مال کی ہوتی ہے جو مرد نے بیوی کو ہبہ کر دیاہو اس کا وجود مرد کی ذت کیساتھ ہوتا ہے اور اس کی ذمہ داری بھی اس پر ہوتی ہے اس لیے اس پر عورت کیقابض ہوجانے سے قبل اگر مرد کی وفت ہوجائے تو اسے اسے میں سے کچھ نہیں ملے گا۔ کیونکہ یہ ایک عطیہ تھا جس پر قبضہ نہیں ہوسکا تھا۔ ابوبکر جصاص کہتے ہیں کہ ہم نے مہر میں اضافے کے جواز پر ییت کی دلالت کی وجہ بیان کردی ہے۔ اس کے جواز پر یہ بات بھی دلالت کرتی ہے کہ عقد نکاح پر ان دونوں کی ملکیت ہوتی یعنی دونوں اس میں تصرف کے مالک ہوتے ہیں اس کی دلیل یہ ہے کہ مرد کے لیے عورت سے بضع کے عوض خلع کرلینا جائز ہے۔ اس صورت میں وہ عورت سے بضع کا بدل وصول کرے گا اس طرح یہ دونوں بضع میں تصرف کے مالک قرار پائیں گے جب عقد نکاح ان کی ملکیت میں داخل ہوتا ہے تو پھر یہ ضروری ہے کہ اس میں اضافہ بھی جائز ہوجائے جس عقد نکاح کی ابتدا میں اس حیثیت سے اضافہ جائز تھأ کہ یہ دونوں عقد کے مالک تھے کیونکہ ملکیت تصرف کا دوسرا نام ہے اور عقد میں ان دونوں کا تصرف جائز ہے۔ اضافے کے جواز پر یہ بات بھی دلالت کرتی ہے کہ اگر عورت زائد مہر پر قبضہ کرلے تو سب کے نزدیک یہ اضافہ جائز ہوجائے گا۔ عورت کے قبضے میں اسے دینے کے بعد اس کی حیثیت یا تو نئے سرے سے کیئے جانے والے ہبہ کی ہوگی جیسا کہ زفر اور امام شافعی رحمہما اللہ کا قول ہے یا مہر میں اضافے کی ہوگی جو عقد نکاح کو بعد میں لاحق ہوگیا تھا۔ جیسا کہ ہم نے بیان کیا ہے اسے نئے سرے سے یکا جانے والا ہبہ قرار دینا ردست نہیں ہے اس لیے کہہ میاں بیوی دونوں نے اس حیثیت سے اسے قبول نہیں کیا تھا کہ یہ ہبہ ہیبل کہ انہوں ننے اسے اپنے اوپر اس حیثیت سے واجب کرلیا تھا کہ یہ بضع کا بدل ہے۔ جو بعد میں عقد نکاح کو لاحق ہو کیا تھا۔ اس صورت میں ہمارے لییان دونوں پر ایسا عقد لازم کردینا درست نہیں ہوگا جسے انہوں نے اپنے اوپر خودلازم نہیں کیا تھا کیونکہ قول باری ہے (واوفوا بالعقود، عقود و پورا کرو) نیز حضور اکرم ﷺ کا ارشاد مبارک ہے (المسلمون عند شروطہم، مسلمان اپنی شرطوں کی پاسداری کرتے ہیں) اس لیے جب میاں بیوی اپنے درمیان ایک عقد طے کر لین تو ہمارے لیے ان پر اسن کے سوا کوئی اور عقد لازم کردینا درست نہیں ہوگا۔ کیو کہ ان پر کوئی اور عقد لازم کرنے سے وہ عقد پورا نہیں ہوسکے گا جو انہوں نے خود کیا تھا۔ نیز حضور اکرم ﷺ کا ارشاد (المسلمون عند شروطہم) شرط پوری کرنے کا م مقتضی ہے اور اصل شرط کو ساقط کر کے ن پر کسی اور چیز کو لازم کردینا شرط پوری کرنے کے مترادف نہیں ہے اس طرح آیت اور سنت دونوں کی اس پر دلالت ہو رہی ہے کہ ہمارے مخالف کا قول باطل ہے۔ اس بطلان کی دو وجوہ ہیں۔ اول یہ کہ آیت اور سنت دونوں کا عموم عقد اور شرط کی ایجاب کا مقتضی ہے۔ دوم یہ کہ آیت اور سنت دونوں میاں بیوی کے درمیان طے شدہ عقد کے سوا ان پر کسی اور عقد یا شرط کو لازم کردینے کے امتناع کو متضمن ہیں۔ جب زائد مہر پر عورت کے قبضے کے اور میاں بیوی پر عقد ہبہ لازم کردینا باطل ہوگیا اور تملیک درست ہوگئی تو یہ اس بات کی دلیل بن گئی کہ مہر میں اضافے کی جہت سے عورت اس کی مالک ہوئی تھی۔ اس اضافے کو ہبہ قرار دینا درست نہیں ہے۔ اس پر یہ بات دلالت کرتی ہے کہ اس اضافے کو مہر پر اضافہ قرار دینے کی صورت میں قبضے کی بنا پر عورت کو اس کے تاوان کا ذمہ دار ٹھہرایا جائے گا۔ کو ین کہ یہ بضع کا بدل ہے لیکن اسے ہبہ قرار دینے یک صورت میں عورت پر اس کے تاوان کی ذمہ داری عائد نہیں ہوگی۔ اسی طرح پہلی صورت میں دخول سے قبل طلاق ہوجانے پر اس اضافے کا سقوط ہوجائے گا اور دوسری صورت میں اس پر طلاق کسی طرح اثر انداز نہیں ہوگی۔ جب اس اضافے کے سلسلے میں میاں بیوی عقد کی کوئی ایسی صورت اپنا لیں جو تاوان کی موجب بنتی ہو تو ہمارے لیے ان پر ایسا عقد لازم کردینا درست نہیں ہوگا جس میں تاوان نہ ہو۔ آپ نیہں دیکھتے کہ اگر طرفین بیع کا کوئی عقد کرلیں تو ان پر ہبہ کا عقد لازم کرنا درست نہیں ہوگا اسی طرح اگر اقالہ یعنی عقد بیع ختم کرنا طے کرلیں تو ان پر کوئی نیاعقد بیع لازم نہیں آئے گا۔ اس میں اس بات کی دلیل موجود ہے کہ مہر میں اضافے کے عقد کی صورت میں عقد ہبہ کا اثبات درست نہیں ہے جب یہ ہبہ نہیں بن سکتا اور دوسری طرف تملیک بھی درست ہوچکی ہے تواب یہی کہا جائے گا یہ اضافہ بضع کے بدل کے طور پر مقررہ مہر کے ساتھ عقد نکاح کو لاحق ہو کیا تھا۔ امام مالک کے قول کے مطابق یہ اضافہ ہبہ ہے اور اگر دخول سے پہلے طلاق مل جائے تو اس اضافے کا نصف مرد کو واپس ہوجائے گا۔ بظاہر امام مالک کا قول بےربط معلوم ہوتا ہے کیونکہ یہ اضافہ اگر ہبہ ہے تو اس کا نہ عقد نکاح کے ساتھ کوئی تعلق ہے اور نہ مہر کے ساتھ اور نہ ہی اس کے کسی حصے کی واپسی میں طلاق کسی طرح اثر انداز ہوسکتی ہے اور اگر مہر میں اضافہ ہے تو موت کی بنا پر اس کا بطلان درست نہیں ہے۔ ہمارے اصحاب کا قول یہ ہے کہ اگر دخول سے پہلے اسے طلاق مل جائے تو اضافہ باطل ہوجائے گا اس کی وجہ یہ ہے کہ یہ اضافی مقدرا عقد نکاح میں موجود نہیں تھی بلکہ بعد میں اس کے ساتھ ملحق کردی گئی تھی اس لیے یہ ضروری تھا کہ اس اضافی مقدار کی بقاء عقد نکاح یا تعلق زن و شوہر یعنی دخول پر موقوف رہے۔ آپ نہیں دیکھتے کہ بیع میں اضافہ عقد کی بقا کی شرط پر اس کیساتھ ملحق کردیا جاتا ہے اور جب عقد بیع باطل ہوجاتا ہے یہ ہی حکم مہر میں اضافے کا بھی ہے۔ اگر یہاں یہ نقطہ اٹھایاجائے کہ عقد میں موجود مقررہ مہر کا بعض حصہ بھی تو طلاق قبل الدخول کی صورت میں باطل ہوجاتا ہے۔ تو مہر میں اضافے کی صورت حال بھی ایسی کیوں نہیں ہوسکتی کیونکہ جب یہ اضافہ درست ہے اور عقد کے ساتھ ملحق بھی کردیا گیا ہے تو اس کی حیثیت یہ ہوگئی ہے کہ گویا عقد میں یہ پہلے سے موجود تھا اس لیے مقررہ مہر اور اس اضافہ مہر کے درمیان کوئی فرق نہیں ہے۔ اس کے جواب میں کہا جائے گا کہ ہمارے نزدیک بھی عقد میں مقرر شدہ سارا مہر طلاق قبل الدخول کی صورت میں باطل ہوجاتا ہے کیو کہ اس شکل میں اس عقد کا ہی بطلان ہوجاتا ہے جس میں اس مہر کا تعین ہوا تھا جس طرح قبضہ میں لینے سے پہلے فروخت شدہ چیز کی ہلاکت سے عقد بیع باطل ہوجاتا ہے۔ باقی رہا نصف مہر کا وجوب تو وہ نکاح ٹوٹ جانے پر عورت کو پہنچنے والے نقصان کی تلافی کے طور پر متعہ یعنی کچھ نہ کچھ دینے کی صورت میں ہوتا ہے ۔ ابراہیم نخعی (رح) سے مروی ہے کہ جس شخص نے دخول سے پہلے بیوی کو طلاق دے دی ہو لیکن مہر مقرر ہوچکا ہو تو مقرر شدہ مہر کا نصف اس عورت کا متعہ ہے۔ ابوالحسن کرخی بھی یہی فرمایا کرتے تھے۔ اسی بنیاد پر ان دو گواہوں کے متعلق فقہاء کا قول ہے جن ہوں نے کسی کے خلاف کے یہ گواہی دی ہو کہ اس نے دخول سے پہلے اپنی بیوی کو طلاق دے دی ہے۔ لیکن شوہر اس بات کو تسلیم کرنے انکار کرتا ہو پھر یہ دونوں گواہ اپنی گواہی سے رجوع کرلیں تو یہ شوہر کو نصف مہر کا تاوان ادا کریں گے جو اس نے اپنی بیوی کو دی ہوگی۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ دخول سے پہلے طلاق واقع ہوجانے کی بناء پر سارا مہر ساقط ہوگیا تھا لیکن مقررہ مہر کا نصف جو اس پر لازم آیا تھا وہ گویا نئے سرے سے ایک دین تھا جو ان گواہوں نے اپنی گواہی کے ذریعے شوہر کے ذمے لگادیا تھا۔ اس بنا پر دخول سے پہلے طلاق واقع ہوجانے کی صورت میں مقررہ مہر اور اس پر اضافے کے سقوط کا حکم یکساں ہے اور اس لحاظ سیان دونوں میں کوئی فرق نہیں۔ اگر یہ کہا جائے کہ درج بالا تاویل سے قول باری (وان طلقتموہن من قبل ان تمسوہن و قد فرضتم لہن فریضۃ فنصف ما فرضتم) اور تم انہیں ہاتھ لگانے سے پہلے طلاق دے دو اور تم نے ان کے لیے مہر بھی مقرر کردیا ہو تو تمہارے مقرر کردہ مہر کا نصف انہیں ملے گا) کی مخالفت لازم آتی ہے اس لیے کہ آب کا کہنا ہے کہ سارا مہر ساقط ہوجاتا ہے اور آدھے کا وجوب نئے سرے سے ہوتا ہے۔ اس کے جواب میں کہا جائے گا کہ آیت میں اس بات کی نفی نہیں ہے کہ طلاق کے بعد واجب ہونے والا نصف نئے سرے سے مہر بن جائے۔ آیت میں تو صرف مقرر شدہ مہر کے نصف کا وجوب ہے اور یہ کسی وصف یا شرط کے ساتھ مشروط نہیں ہے ہم بھی نصف کے وجوب کے قائل ہیں اسی لیے ہمارے اس تاویل سے آیت کی مخالفت نہیں ہوتی کہ مقدار مقرر کرنے کا نئے سرے سے وجوب اس پر محمول ہے کہ وہ مطلقہ کے لیے متعہ کا حکم رکھتا ہے۔ دخول سے قبل طلاق کی بناپر سارا اضافی مہر ساقط ہوجاتا ہے ۔ اس بر یہ بات دلالت کرتی ہے کہ عقد نکاح اگر مہر کے تعین سے خالی ہو تو وہ مہر مثل کا موجب ہوتا ہے کیونکہ بدل کے بغیر بضع پر تصرف جائز نہیں ہوتا پھر دخول سے قبل طلاق کا ورود اسے ساقط کردیتا ہے کیونکہ عقد میں اس کا ذکر اور تعین نہیں ہوا تھا۔ اسی طرح مہر میں اضافے کا چونکہ عقد میں ذکر اور تعین نہیں ہوا تھا اس لیے دخول سے پہلے طلاق کی بنا پر اس کا سقوط بھی واجب ہوگیا اگرچہ عقد کے ساتھ ملحق ہونے کی بنا بر یہ واجب ہوچکا تھا۔ واللہ اعلم آیت 24 کی تفسیر ختم ہوئی۔ ۔۔۔۔۔ آیت 25: لونڈیوں کے نکاح کا بیان قول باری ہے (و من لم یستطع منکم ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ الی ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ فتیاتکم المؤمنات) اور جو شخص تم میں سے اتنی مقدرت نہ رکھتا ہو کہ خاندانی مسلمان عورتیں (محصنات) سے نکاح کرسکے اسے چاہیئے کہ تمہاری ان لونڈیوں میں سے کسی کے ساتھ نکاح کرلے جو تمہارے قبضہ میں ہوں اور مومنہ ہوں) ابوبکر جصاص (رح) کہتے ہیں کہ اس آیت کا مقتضیٰ یہ ہے کہ آزاد مسلمان عورتوں سے نکاح کی عدم استطاعت کی صورت میں مسلمان لونڈیوں سے نکاح کی اباحت ہے اس لیے کہ اس میں کسی کا اختلاف نہیں ہے کہ یہاں محصنات سے مراد آزاد عورتیں ہیں۔ اور اس میں غیر آزاد عورتوں سے نکاح کی ممانعت نہیں ہے اس لیے کہ اباحت کے ذکر کے ساتھ اس حالت کی تخصیص اس کے سوا دوسری حالتوں کی ممانعت پر دلالت نہیں کرتی۔ جس طرح کہ قول باری ہے (لاتقتلوا اولادکم خشیۃ املاق ) محتاجی کے خوف سے اپنی اولاد کو قتل نہ کرو) اس میں ہرگز یہ دلالت موجود نہیں ہے کہ اس حالت کے زائل ہوجانے پر اولاد کا قتل مباح ہوجاتا ہے۔ اسی طرح قول باری تعالیٰ ہے (لاتأکلو الربوا اضعافا مضاعفۃ، )( یہ بڑھتا اور چڑھتا سود کھانا چھوڑ دو ) یہ اس پر دلالت نہیں کرتا کہ سود اگر بڑھتا اور چڑھتا نہ ہو اس کا کھانا مباح ہے۔ نیز قول باری ہے (ومن یدع مع اللہ الہا آخر لابرہان لہ ) اور جو شخص اللہ کے ساتھ کسی دوسرے الہ کو پکارے جس کی اس کے پاس کوئی دلیل نہ ہو) اس کی اس پر ہرگز دلالت نہیں ہے کہ ہم میں سے کسی کے لیے اس قول کی صحت پر کہ اللہ کے ساتھ کوئی اور الٰہ بھی ہے کسی دلیل اور برہان کے قیام کا جواز ہے۔ اصول فقہ میں ہم نے اس امر کی وضاحت کردی ہے اس لیے قول باری (و من لم یستطع منکم طولا) تا آخر آیت میں صرف ان لوگوں کے لیے لونڈیوں سے نکاح کی اباحت نہیں ہے جن کی یہ حالت ہو یعنی ان میں آزاد عورتوں سے نکاح کرنے کی استطاعت نہ ہو۔ آیت میں ان لوگوں کے متلعق حکم پر اباحت یا ممانعت کی صورت میں کوئی دلالت نہیں ہے۔ جنہیں آزاد عورتوں سے نکاح کی استطاعت حاصل ہو۔ لفظ ” طول “ کی تشریح طَول کے مفہوم کے متعلق سلف کے درمیان اختلاف رائے ہے۔ حضرت ابن عباس ؓ سعید بن جبیر ؓ ، قتادہ ؓ ، اور سدّی سے قول مروی ہے کہ غِنٰی یعنی فراخی اور مقدرت کو طول کہتے ہیں عطاء ، جابر بن زید ور ابراہیم (رح) نخعی سے مروی قول کے مطابق جب کوئی شخص کسی لونڈی کی محبت میں گرفتار ہوجائے تو خوش حال ہونے کے باوجود اس لونڈی سے اسے نکاح کرلینے کی اجازت ہے جبکہ یہ خطرہ بی ہو کہ محبت میں اندھا ہو کر کہیں اس ساتھ منہ کالانہ کر بیٹھے۔ گویا ان حضرات کے نزدیک اس صورت میں طول کے معنی یہ ہیں کہ لونڈی کی طرف قلبی میلان اور دلی محبت کے ہوتے ہوئے وہ آزاد عورت سے نکاح کر کے اپنا دل اس کی طرف نہ پھیرے ۔ چناچہ اس خاص صورت میں ان حضرات نے لونڈی سے نکاح کی اسے اجازت دے دی ہے۔ طَول میں غِنی اور مقدرت کے معنوں کے ساتھ ساتھ فضل کے معنوں کا بھی احتمال ہے۔ ارشاد باری تعالیٰ (شدید العقاب ذی الطول) سخت سزا دینے والا اور صاحب فضل) ایک قول کے مطابق اس کے معنی فضل والا، اور دوسرے قول کے مطابق قدرت والا، ہیں فضل اور غنی معنی کے لحاظ سے متقارب الفاظ ہیں۔ اس لیے آیت یمں مذکورہ لفظ طول میں غِنی اور مقدرت نیز فضل اور وسعت کے معانی کا احتمال ہے۔ اگر اس لفظ کو غنی کے معنیں میں لیا جائے گا تو اس میں دو احتمال ہوں گے۔ اوّل : عقد میں آزاد یعنی خاندانی عورت ہونے کی صورت میں اسے غنی حاصل حو جاتا ہے۔ دوم : مالی لحاظ سے فراخی اور آزاد سے نکاح کی مقدرت اور اگر اسے فضل کے معنی میں لیا جائے تو اس میں ارادئہ غنی کا احتمال ہوگا کیونکہ فضل اس بات کو واجب کردیتا ہے۔ اس میں دوسرا احتمال یہ ہوگا کہ آزاد عورت سے نکاح کرنے کے لیے اس کے دل کی کشادگی اور لونڈی کی طرف سے منہ پھیرلینا مراد ہے، اگر ایک طرف اس کے دل میں اس بات کے لیے گنجائش نہ ہو اور دوسری طرف گناہ میں مبتلا ہوجانے کا اندیشہ ہو تو اس صورت میں مالداری اور فراخی کے باوجود لونڈی سے نکاح کرلینے کی اجازت ہے۔ جیسا کہ عطاء ، جابر بن زید اور ابراہیم نخعی (رح) سے مروی ہے۔ آیت میں ان تمام وجوہ کا احتمال موجود ہے۔ اس سلسلے میں سلف سے اختلاف رائے منقول ہے، حضرت ابن عباس ؓ ، حضرت جابر ؓ ؓ ، سعید بن جبیر ؓ ، شعبی اور مکحول سے مروی ہے کہ لونڈی سے نکاح نہیں کرے البتہ اکر آزاد عورت ینی حُرہ سے نکاح کی مقدرت نہ رکھتا ہو تو پھر نکاح کرسکتا ہے۔ مسروق اور شعبی سے منقول ہے کہ لونڈی کے ساتھ نکاح کی حیثیت وہی ہے جو مردار، خون اور سور کے گوشت کی ہے کہ صرف اضطراری حالت میں ان کے استعمال کی اجازت ہے، حضرت علی ؓ ، ابوجعفر ؓ ، مجاہد، سعید بن المسیب، سعید بن جبیر ( ایک روایت کے مطابق ( ابراہیم نخعی (رح) ، حسن (ایک رویت کے مطابق) اور زہری سے منقول ہے کہ ایک انسان خوشحال ہونے کے باوجود لونڈی سے نکاح کرسکتا ہے۔ عطاء اور جابر بن زید سیمروی ہے کہ اگر کسی شخص کو کسی لونڈی سے اتنی دل بستگی ہو کہ نکاح نہ ہونے کی صورت میں اسے زنا کے ارتکاب کا خطرہ پیدا ہوجائے تو ایسی کیفیت میں وہ نکاح کرلے۔ عطاء سے یہ بھی مروی ہے کہ حرّہ عقد میں ہوتے ہوئے بھی وہ لونڈی سے نکاح کرسکتا ہے۔ حضرت عبداللہ بن مسعود ؓ سے مروی ہے کہ حرّہ عقد میں ہوتے ہئوے لونڈی سے کوئی نکاح نہیں کرسکتا۔ البتہ مملوک یعنی غلام کو ایسا کرنے کی اجازت ہے۔ حضرت عمر ؓ ، حضرت علی ؓ سعید بنالمسیب اور مکحول نیز دوسرے تابعین سے منقول ہے کہ آزاد عورت اگر عقد میں ہو تو لونڈی سے نکاح نہیں کرسکتا۔ ابراہیم کا قول ہے کہ اگر حرّہ کے بطن سے کوئی بیٹا ہو تو اس صورت میں لونڈی سے نکاح کرسکتا ہے۔ ابراہیم کا یہ بھی قول ہے کہ ایک ایک عقد میں ایک آزاد عورت اور لونڈی سے نکاح کرلیا تو دونوں سے اس کا یہ نکاح باطل ہوجائے گا۔ حضرت ابن عباس ؓ اور مسروق کا قول ہے کہ جب کوئی شخص کسی حرّہ سے نکاح کرے گا تو اس کا یہ نکاح عقد میں موجود لونڈی کے لیے طلاق متصور ہوگا ابراہیم نخعی (رح) سے ایک روایت کے مطابق لونڈی اور اس کے شوہر کے درمیان علیحدگی کرادی جائے گی اِلّا یہ کہ اس کے بطن سے شوہر کے ہاں کوئی بچہ پیدا ہوچکا ہو۔ شعبی کا قول ہے کہ جس وقت اس میں آزاد عورت کے ساتھ نکاح کی استطاعت پیدا ہوجائے گی لونڈی کے ساتھ اس کا نکاح باطل ہوجائے گا۔ امام مالک نے یحییٰ بن سعید سے ، انہوں نے سعید بن المسیب سے روایت کی ہے کہ عقد میں حرّہ کے ہوتے ہوئے لونڈی سے نکاح نہیں کرے گا البتہ اگر حرّہ جا ہے تو وہ ایسا کرسکتا ہے ۔ پھر آزاد عورت کے لیے دو دنوں اور لونڈی کے لیے ایک دن کی باری مقرر کرے گا۔ ابوبکر جصاص اس پر تبصرہ کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ امام مالک حرّہ پر لونڈی کو عقد میں لے آنا جائز نہیں سمجھتے تھے۔ حرّہ کی رضامندی کے بغیر وہ ایسا کر نہیں سکتا ہے۔ عقد نکاح میں بیک وقت کتنی لونڈیاں رکھ سکتا ہے۔ اس کے متعلق بھی اختلاف ہے۔ حضرت ابن عباس ؓ سے مروی ہے کہ ایک سے زائد لونڈی سے نکاح نہیں کرسکتا۔ ابراہیم، مجاہد اور زہری سے منقول ہے کہ وہ بیک وقت چار لونڈیاں نکاح میں رکھ سکتا ہے۔ لونڈی سے نکاح کے متعلق سلف کے درمیان اختلاف آراء کی یہ صورتیں ہیں جن کا ہم نے ذکر کردیا ہے۔ فقہاء امصار کے درمیان بھی اس معاملے میں اختلاف رائے ہے۔ امام ابوحنیفہ، امام ابویوسف، امام محمد اور حسن بن زیاد کا قول ہے کہ اگر اس کے عقد میں حرّہ نہ ہو تو وہ لونڈی سے نکاح کرسکتا ہے خواہ اسے حرّہ سے نکاح کی استطاعت کیوں نہ ہو لیکن اگر اس کے عقد میں پہلے سے آزاد خاتون موجود ہو تو لونڈی سے نکاح نہیں کرسکتا۔ سفیان ثوری (رح) کا قول ہے کہ اگر اسے لونڈی کے متعلق زنا کے ارتکاب کا خدشہ ہو تو خوشحال ہونے کے باوجود اس کے ساتھ نکاح کرلینے میں کوئی حرج نہیں ہے، امام مالک، لیث بن سعد ، اوزاعی اور امام شافعی (رح) کا قول ہے کہ طول سے مراد مال ہے۔ جب کسی کو آزاد خاتون سے نکاح کرنے کا طول حاصل ہو یعنی مالدار ہو تو وہ لونڈی سے نکاح نہ کرے اگر مال نہ ہو تو بھی لونڈی سے نکاح نہیں کرے گا جب تک اسے اپنے بند تقوی کے ٹوٹ جانے کا اندیشہ پیدا نہ ہوجائے۔ ہمارے اصحاب اور سفیان ثوری نیز اوزاعی اور امام شافعی (رح) کا اس پر اتفاق ہے کہ اگر کسی کے عقد میں آزاد عورت ہو تو اس کے لیے کسی لونڈی سے نکاح کرنا جائز نہیں ہے۔ ان حضرات کے نزدیک اس صورت میں آزاد عورت کی اجازت یا عدم اجازت سے کوئی فرق نہیں پڑتا۔ ابن وہب نے امام مالک سے نقل کیا ہے کہ اگر ایک شخص عقد میں آزاد عورت کے ہوتے ہوئے کسی لونڈی سے نکاح کرلے تو اس میں کوئی حرج نہیں ۔ اس صورت میں آزاد عورت کو اختیار دیا جائے گا۔ ابن القاسم نے امام مالک (رح) سے نقل کرتے ہوئے کہا ہے کہ آزاد عورت پر لونڈی سے نکاح کی صورت میں ان دونوں کے درمیاں علیحدگی کرادی جائے گی۔ پھر اس قول سے رجوع کر کے کہا کہ آزاد بیوی کو اختیار دیا جائے گا کہ اگر چاہے تو اس کے ساتھ رہے اور چاہے تو اس سے جدا ہوجائے۔ ابن القاسم کہتے ہیں کہ ” امام مالک سے ایک شخص کے متعلق دریافت کیا گیا جو آزاد عورت سے نکاح کرنے کی استطاعت رکھنے کے باوجود لونڈی سے نکاح کرلیتا ہے ۔ آب سے اس کے جواب یمں فرمایا :” میرا خیال ہے کہ ان دونوں کے درمیان علیحدگی کرادی جائے گی “ اس پر سوال کیا گیا ” اس شخص کو اپنے بند تقویٰ کے ٹوٹ جانے کا خطرہ محسوس ہوتا ہے ۔ ” تو فرمایا ” اسے کوڑے لگائے جائیں گے “۔ لیکن آپ نے اس کے بعد میں تخفیف کردی۔ “ ابن القاسم نے مزید کہا :۔ امام مالک (رح) کا قول ہے کہ اگر کوئی غلام کسی لونڈی سے نکاح کرلیتا ہے جبکہ آزاد عورت اس کے عقد میں پہلے سے موجود ہو تو اس صورت میں آزاد عورت کو کوئی اختیار نہیں دیا جائے گا کیونکہ لونڈی بھی اس کی عورتوں میں شمار ہوتی ہے۔ عثمان البتی کا قول ہے کہ اگر کوئی شخص آزاد بیوی کے ہوتے ہوئے کسی لونڈی سے نکاح کرلیتا ہے تو اس میں کوئی حرج نہیں۔ آزاد عورت کے ساتھ نکاح کرنے کی قدرت رکھنے کے باوجود لونڈی سے نکاح کے جواز کی دلیل، بشرطیکہ آزاد عورت اس کے عقد میں نہ ہو، یہ قول باری ہے (فانکحو ماطاب لکم ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ الی ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ایمانکم) تو جو عورتیں تمہیں پسند آئیں ان میں سے دو ، دو ، تین ، تین ، چار، چار سے نکاح کرلو لیکن اگر تمہیں اندیشہ ہو کہ ان کے ساتھ دل نہ کرسکو گے تو پھر ایک ہی بیوی کردیا ان عورتوں کو زوجیت میں لاؤ جو تمہارے قبضے میں آئی ہیں) ۔ اس آیت میں آزاد عورت سے نکاح کرنے کی قدرت رکھنے کے باوجود لونڈی سے نکاح کرلینے کے جواز پر دو جوہ کی بنا پر دلالت موجود ہے۔ اوّل آیت میں علی الاطلاق تمام عورتوں سے نکاح کی اباحت ہے۔ آزاد عورت یا لونڈی کی کوئی تخصیص نہیں ہے۔ البتہ اس نکاح کا چار تک محدود رہنا ضروری ہے۔ دوم خطاب کے تسلسل میں اللہ تعالیٰ کا یہ قول (اوماملکت ایمانکم) اور یہ بات واضح ہے کہ یہ قول افادئہ حکم میں خود مکتفی نہیں ہے بلکہ کسی ضمیر یعنی پوشیدہ لفظ کی اسے ضرورت ہے یہ پوشیدہ وہ ہے جس کا ذکر اس خطاب میں لفظًا گزر جکا ہے یعنی عقد نکاح۔ اس طرح کلام کی عبارت یوں ہوگی ” فاعقد وانکاحا علی ما طاب لکم من النساء ، او علی ماملک ایمانکم “ ( ان عورتوں سے عقد نکاح کرلو جو تمہیں پسند آئیں یا ان سے جو تمہارے قبضے میں آئی ہیں) کلام کی عبارت میں لفظ وطی کو پوشیدہ ماننا دررست نہیں ہے کیونکہ اس کا پہلے ذکر نہیں گذرا ہے۔ اس لیے آیت کی دلالت سے یہ بات ثابت ہوگئی کہ مرد کو اختیار ہے کہ جا ہے تو آزاد عورت سے نکاح کرلے اور چاہے تو لونڈی کو عقد زوجیت میں لے آئے۔ اگر یہ کہا جائے کہ قول باری (فانکحوا ماطاب لکم من النساء) میں مذکورہ اباحت ایک شرط کے ساتھ مشروط ہے اور وہ شرط یہ ہے کہ ان عورتوں سے نکاح کیا جائے جو ہمیں پسند آئیں۔ یہ اس پر دلالت کرتا ہے کہ جو از عقد کے لیے پسند کی عورتیں ہونا ضروری ہے جب یہ بابت ثابت ہوگئی تو اس صورت میں آیت کی حیثیت اس مجمل فقرے جسی ہوگی جسے وضاحت اور بیان کی ضرورت ہے۔ اس کے جواب میں کہا جائے گا کہ قول باری (ماطاب لکم) میں دو احتمال ہیں۔ اوّل یہ کہ اس کے معنی یہ ہوں ” مااستطبتموہ “ (جیسی تمہاری پسند ہو) اس صورت میں آیت سے تخییر کا حکم ثابت ہو کا یعنی مرد کو اس معاملے میں اپنی پسد کی عورتوں سے نکاح کرنے کا اختیار مل جائے گا جس طرح کوئی شخص کسی سے یہ کہے ” اجلس ما طاب لکم فی ہذہ الدار “ یا ” کل ماطاب لک من ہذا الطعام “ (اس گھر میں جب تک تمہیں پسند آئے بیٹھو یا اس طعام میں سے جو تمہیں پسند آئے کھاؤ) اس کلام میں مخاطب کو اپنی پسند کے مطابق کام کرنے کا ختیار دیا گیا ہے۔ دوم یہ کہ جو تمہارے لیے حلال ہو اگر آیت میں پہلے صورت مراد ہو تو اس کا مقتضی یہ ہوگا کہ مرد کو جس عورت سے چاہے نکاح کرنے کا اختیار ہے۔ اس میں آزاد عورتوں اور لونڈیوں کے متعلق عموم ہوگا۔ اگر دوسری صورت مراد ہو تو اس فقرے کے فورا بعد اس کا بیان قوری باری (مثنی وثلاث ورباع۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ الی او ماملکت ایمانکم) کی صورت میں وارد ہوا ہے جس کے ذریعے آیت اجمال کے درجے سے نکل کر عموم کے درجے میں پہنچ گئی ہے اور صورت حال جو بھی ہو عموم پر عمل واجب ہوتا ہے۔ اگر بالفرض آیت میں اجمال اور عموم دونوں کا احتمال ہوتا تو پھر بھی اسے عموم کے معنی پر محمول اولی ہوتا کیونکہ اس صورت میں اس پر عمل کرنا ممکن ہوتا ہوتا۔ ہمارے لیے جب لفظ کے حکم پر ایک صورت میں عمل کرنا ممکن ہو تو ہم پر ایسا کرنا لازم ہوجاتا ہے۔ زیر بحث مسئلہ پر قول باری (و احل لکم ما وراء ذلک ان تبتغوا باموالکم) بھی دلالت کرتا ہے کیونکہ اس میں آزاد عورتوں اور لونڈیوں کے متعلق عموم ہے اس پر یہ آیت بھی دلالت کرتی ہے۔ (الیوم احل لکم الطیبات ، وطعام الذین ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ الی اوتوا الکتاب من قبلکم) آج تمہارے لیے ساری پاک چیزیں حلال کردی گئی ہیں اہل کتاب کا کھانا تمہارے لیے حلال ہے اور تمہارا کھانا ان کے لیے اور محفوظ عورتیں بھی تمہارے لیے حلال ہیں خواہ وہ اہل ایمان کے گروہ سے ہوں یا ا ن قوموں میں سے جن کو تم سے پہلے کتاب دی گئی تھی۔ ) احصان کے اسم کا اطلاق اسلام اور عقد پر ہوتا ہے اس پر قول باری (فاذا احصن) دلالت کرتا ہے۔ بعض سلف سے اس کے یہ معنی منقول ہیں ” جب وہ مسلمان ہوجائیں “ بعض کا قول ہے۔” جب وہ نکاح کرلیں “ یہ بات تو واضح ہے کہ اس مقام پر اس لفظ سے نکاح کرنا مراد نہیں ہے۔ جس سے یہ ثابت ہوا کہ اس سے مراد عفاف اور پاکس دامنی ہے اور یہ چیز آزاد عورتوں اور لونڈیوں دونوں کے لیے عموم کا حکم رکھتی ہے۔ نیز قول باری (والمحصنات من الذین اوتوا الکتاب من قبلکم) میں بھی کتابیہ لونڈیوں سے نکاح کے متعلق عموم ہے۔ اس پر قول باری (وانکو الایامی منکم والصالحین من عبادکم و إمائکم ) اور تم اپنے بےنکاحوں کا نکاح کرو اور تمہارے غلام اور لونڈیوں میں جو اس کے (یعنی نکاح کے) لائق ہوں ان کا بھی) ۔ اس میں جو عموم ہے وہ لونڈیوں سے نکاح کے جواز کا اسی طرح موجب ہے جس طرح یہ آزاد عورتوں سے نکاح کے جواز کا مقتضی ہے۔ اس پر قول باری (ولامۃ مؤمنۃ خیر من مشرکۃ ولو اعجبتکم، اور ایک مومن لونڈی ایک مشرک عورت سے بہتر ہے اگرچہ وہ تمہیں بھلی کیوں نہ لگے) بھی دلالت کر رہا ہے۔ یہ خطاب صرف ایسے شخص کو ممکن ہے جو آزاد مشرک عورت سے نکاح کرنے کی استطاعت رکھتا ہو۔ جس شخص کو آزاد مشرک عورت سے نکاح کی استطاعت ہوگی اسے آزاد مسلمان عورت سے نکاح کی استطاعت رکھتے ہوئے بھی لونڈی سے نکاح کرلینا جائز ہے جس طرح آزاد مشرکت عورت سے نکاح کی استطاعت رکھتے ہوئے لونڈی سے نکا جائز ہے۔ عقلی طور پر بھی اس کے جواز پر یہ بات دلالت کرتی ہے کہ ایک عورت سے نکاح کی استطاعت کسی دوسری عورت سے نکاح کو حرام نہیں کرتی۔ جس طرح ایک عورت کی بیٹی کے ساتھ نکاح کی استطاعت اس کی ماں سے نکاح کو حرام نہیں کرتی یا کسی عورت سے نکاح کی مقدرت اس کی بہن سے نکاح کو حرام نہیں کرتی۔ اس بنا پر یہ ضروری ہے کہ آزاد عورت سے نکاح کی استطاعت لونڈی سے نکاح کی راہ میں حائل نہ ہو بلکہ اس بارے میں لونڈی کا معاملہ دو بہنوں اور ماں بیٹی کے معاملے سے بھی زیادہ آسان ہے۔ اس کی دلیل یہ ہے کہ تمام فقہاء امصار کے نزدیک ایک شخص کے عقد میں بیک وقت لونڈی اور آزاد عورت کا اکٹھا ہوجانا جائز ہے جبکہ دو بہنوں اور ماں بیٹی کی صورت میں یہ ممتنع ہے۔ اس لیے جب کسی عورت کی بیٹی سے نکاح کا امکان اس کی ماں سے نکاح کے لیے مانع نہیں بنتا جبکہ ان دونوں کو بیک وقت عقد میں رکھنے کا حکم آزاد عورت اور لونڈی کو بیک وقت عقد میں رکھنے کے حکم سے زیادہ شدید اور زیادہ سخت ہے تو اس سے یہ واجب ہوگیا کہ آزاد عورت سے نکاح کے امکان کا لونڈی سے نکاح کی ممانعت پر کوئی اثر نہ ہو۔ جن لوگوں کو اس سے اختلاف ہے ان کا استدلال قول باری (و من لم یستطع منکم طول ان ینکح المحصنات المؤمنات فمما ملکت ایمانکم من فتیاتکم المؤمنات) تا قول باری (ذلک لمن خشی العنت منکم و ان تصبروا خیر لکم) سے ہے۔ کیونکہ اس میں لونڈیوں کے ساتھ نکاح کی اباحت کو دو شرطوں کے ساتھ مشروط کردیا گیا ہے۔ آزاد عورت سینکاح کی عدم استطاعت اور بند تقویٰ ٹوٹ جانے کا خطرہ اس لیے ان دونوں شرطوں کے وجود کے بغیر لونڈیوں کے ساتھ نکاح کی اباحت درست نہیں ہوگی۔ یہ آیت آپ کی تلاوت کردہ تمام آیات پر فیصلہ کن حیثیت رکھتی ہے۔ کیونکہ اس میں نکاح کے سلسلے میں لونڈی کا حکم بیان ہوا ہے۔ اس کے جواب میں کہا جائے گا کہ اس آیت میں آزاد عورت کے ساتھ نکاح کی استطاعت کی موجودگی میں لونڈی کے ساتھ نکاح کی ممانعت نہیں ہے۔ آیت میں تو صرف عدم استطاعت کی صورت میں لونڈی کے ساتھ نکاح کی اباحت کا ذکر ہے۔ ہم نے جو آیات حوالے کے طور پر تلاوت کی ہیں ان میں تمام صورتوں میں لونڈیوں کے ساتھ نکاح کی اباحت کا ذکر ہے۔ اس لیے ان دونوں قسموں کی آیتوں میں سے کسی قسم کے اندر کوئی ایسی بات موجود نہیں ہے جو دوسری قسم کی آیتوں کے حکم کی تخصیص کرنے والی ہو اس لیے کہ ان کا ورود اباحت کے حکم کے سلسلے میں ہوا ہے۔ ان میں سے کسی ایک کے اندر بھی ممانعت کا تذکرہ نہیں ہے۔ اس لیے یہ کہنا درست نہیں ہوگا کہ یہ آیت دوسری آیات کی تخصیص کر رہی ہے کیونکہ ان کا ورود ایک ہی حکم کے سلسلے میں ہوا ہے۔ اگر یہ کہا جائے کہ یہ قول باری (فمن لم یجد فصیام شہرین متتابعین من قبل ان یتماسا فمن لم یستطع فاطعام ستین مسکینا) پھر جس کو یہ میسر نہ ہو تو قبل اس کے کہ دونوں باہم اختلاط کریں اس کے ذمے دو متواتر مہینوں کے روزے ہیں پھر جس سے یہ بھی نہ ہوسکے تو اس کے ذمے ساٹھ مسکینوں کو کھانا کھلانا ہے) ۔ پورے سلسلہ کلام کا مقتضیٰ یہ ہے کہ ماقبل کے وجود کے ساتھ اس کا جواز ممتنع ہے اس کے جواب میں کہا جائے گا کہ اس کی وجہ یہ ہوئی کہ کفارئہ ظہار کے سلسلے میں ابتدائی طور پر ایک مملوک کو آزاد کرنا فرض قرار دیا کیا تھا اس کے سوا کوئی چیز نہیں تھی۔ لیکن مملوک موجود نہ ہونے کی صورت میں جب اللہ تعالیٰ نے اس فرض کو روزں کی طرف منتقل کردیا تو اس کا اقتضاء یہ ہوگیا کہ مملوک کی عدم موجودگی میں روزوں کے سوا اور کوئی چیز کفارہ نہ بنے پھر جب فرمایا (فمن لم یستطع فاطعام ستین مسکینا) تو کفارے کا حکم آیت میں مذکورہ باتوں میں اسی ترتیب سے منحصر ہوگیا جس کی آیت مقتضی ہے۔ اب معترض کے پاس کوئی ایسی آیت نہیں ہے جو لونڈیوں سے نکاح کی ممانعت کرتی ہوتا کہ یہ کہا جسکے کہ جب لونڈیوں کی اباحت کا ذکر شرط اور حالت کے ساتھ مشروط ہے تو اس شرط یا حالت کی عدم موجودگی ان کی ممانت کی موجب ہے، اس کے برعکس صورت حال یہ ہے کہ نکاح کی اباحت کے سلسلے میں وارد ہونے والی تمام آیتیں آزاد عورتوں اور لونڈیوں کے درمیان کوئی فرق نہیں کرتی ہیں۔ اس لیے قول باری (ومن لم یستطع منکم طول ان ینکح المحصنات المؤمنات ) میں آزاد عورتوں کے ساتھ نکاح کی استطاعت کی صورت میں لونڈیوں کی ممانعت پر کوئی دلالت نہیں ہے۔ اسماعیل بن اسحاق نے اس آیت اور اس کی تفسیر میں سلف کے اختلاف آراء کا ذکر کرنے کے بعد ہمارے اصحاب کے اس مسلک کا تذکرہ کیا کہ ہمارے ہاں آزاد عورت سے نکاح کی قدرت ہوتے ہوئے لونڈی سے نکاح جائز ہے پھر اس پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا ” اس قول کا فاسد اور غلط ہونا حد سے تجاوز کر گیا ہے۔ اس میں تاویل کا کوئی احتمال نہیں ہے کیونکہ یہ کتاب اللہ کی رو سے ممنوع ہے اس کے جواز کی صرف وہی صورت ہے جس کی اباحت کا کتاب اللہ میں ذکر ہوا ہے۔ “ ابوبکر جصاص اسماعیل بن اسحاق کے اس تبصرے پر تبصرہ کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ اسماعیل کا یہ کہنا کہ ” اس میں تاویل کا احتمال نہیں ہے۔ “ اجماع کے خلاف ہے کیونکہ اس کے متعلق صحابہ کرام کے درمیان اختلاف رائے ہے۔ ہم نے ان کے اقوال بھی نقل کردیئے ہیں۔ اگر طوالت کا خوف نہ ہوتا تو ہم ان اقوال کی روایات کی اسناد کا بھی ذکر کردیتے۔ اگر اس میں تاویل کا احتمال نہ ہوتا تو اس بارے میں سلف کی آراء مختلف نہ ہوتیں کیونکہ کسی کے لیے یہ جائز نہیں ہوتا کہ وہ کسی آیت کی تاویل ایسے معنوں میں کرے جن کا آیت میں سرے سے احتمال نہ ہو۔ سلف میں اس کے متعلق اختلاف رائے ظاہر ہوچکا تھا لیکن کسی نے کسی کی تردید نہیں کی اگر اس قول میں احتمالات نہ ہوتے اور تاویل کی گنجائش نہ ہوتی تو اس صورت میں ا س قول کے قائلین ضرور ان لوگوں کی تردید کرتے جو اس کے قائل نہ تھے۔ جب سلف کے درمیان یہ قول شائع و ذائع تھا اور اس کے قائلین کی تردید بھی نہیں ہورہی تھی تو ان کے اس اجتماعی رویے کی بنا پر اس میں اجتہاد کی گنجائش اور آیت میں اس تاویل کا احتمال پیدا ہوگیا جس مختلف صورتیں ان حضرات سے منقول ہیں ہمارے اس بیان سے یہ بات وضاح ہو کئی کہ اسماعیل کا یہ کہنا غلط ہے کہ اس میں تاویل کا احتمال نہیں ہے۔ رہ گئی اسماعیل کی یہ بات کہ ” یہ کتاب اللہ کی رو سے ممنوع اور صرف اسی جہت اور صورت میں اس کی اباحت ہے جس کا ذکر کتاب اللہ میں ہوا ہے “ تو اس سے ان کی مراد یہ ہوسکتی ہے کہ اس کی ممانعت نص قرآنی کی بناپر ہے یا دلیل کی بنا پر اگر وہ نص قرآنی کا دعوی کریں تو ان سے اس کی تلاوت اور اس کے اظہار کا مطالبہ کیا جائے گا جو ظاہر ہے کہ ان کے بس کی بات نہیں اور اگر وہ دلیل کا دعوی کریں توا سے پیش کرنے کا ان سے مطالبہ کیا جائے گا۔ ان کے پاس ایسی کسی دلیل کا وجود نہیں ہے۔ اس طرح ان کے کلام سے صرف یہی بات معلوم ہوئی کہ وہ جس چیز کا دعوی کر رہے ہیں اس کی صحت کا تیقن صرف ان کی اپنی ذات تک محدود ہے۔ نیز اس تبصرے کے ذریعے انہوں نے فریق مخالف کے قول پر صرف تعجب کا اظہار کیا ہے۔ اس کے قول کی تردید نہیں کر سے ہیں البتہ وہ یہ دعوی کرسکتے ہیں کہ اس شرط اور حالت کے ساتھ لونڈیوں سے نکاح کی اباحت باقی ماندہ تمام حالتوں میں اس کی ممانعت کی دلیل ہے اگر اسماعیل نے اسی طرح استدلال کیا ہے تو پھر اس دلیل کی اثبات کے لیے ایک اور دلیل کی ضرورت پیش آئے گی۔ ہمیں نہیں معلوم کہ امام شافعی (رح) سے پہلے کسی نے یہ استدلال کیا ہو۔ اگر مذکورہ بالا بات دلیل ہوتی تو اس مسئلے میں صحابہ کرام ؓ اس سے استدلال کرنے میں سب سے بازی لے جاتے نیز اس طرح کے اور دوسرے مسائل جن کے متعلق نئے احکام معلوم کرنے میں ان حضرات کے درمیان آراء کا اختلاف کوئی ڈھکی چھپی بات نہیں ہے جبکہ ان مسائل میں بہت سے ایسے تھے جن میں اس طرح کے استدلال کی بڑی گنجائش تھی۔ ان حضرات نے مسائل کے احکام معلوم کرنے کے لیے قیاس اجتہاد نیز دلائل کی تمام قسموں سے استدلال کیا تھا لیکن مذکورہ بالاقسم کے استدلال کو انہوں نے قبول نہیں کیا تھا۔ جو اس بات کی دلیل ہے کہ ان کے نزدیک یہ طرز استدلال کسی بات کے حق میں دلیل کا کام نہیں دے سکتا۔ اسی طرح اسماعیل کو اپنے قول کی تائید میں نہ کوئی دلیل مل سکی اور نہ ہی کوئی شبہ پیدا ہوسکا۔ داؤد اصفحانی نے نقل کیا ہے کہ اسماعیل سے جب نص کا مفہوم پوچھا گیا تھا تو انہوں نے جواب میں کہا تھا کہ ” جس بات پر سب متفق ہوجائیں وہ نص ہے۔ “ ان سے سوال کیا گیا :” اسکے معنی یہ ہیں کہ کتاب لالہ میں جہاں کہیں اختلاف رائے پیدا ہوجائے وہ نص نہیں ہے۔ “ اسماعیل نے جواب میں کہا :” قرآن سارے کا سارا نص ہے ۔ “ ان سے سوال کیا گیا :” جب قرآن سارے کا سارا نص ہے تو پھر اصحاب رسول ﷺ میں اختلاف رائے کیوں پیدا ہوا “ ؟ اس مکالمے کے ناقل داؤد کہتے ہیں :” سائل نے اسماعیل سے یہ سوال پوچھ کر ان پر ایک طرح سے ظلم کیا۔ اس جیسے شخص سے ایسے مسئلوں کے متلعق سوال نہیں پوچھنا چاہیے کیونکہ ان کا مبلغ علم کے اس مقام سے فروتر ہے۔ “ ابوبکر جصاص کہتے ہیں کہ اگر اسماعیل سے داؤد کی یہ رویت درست ہے تو ان کی یہ بات آزاد عورت سے نکاح کی استطاعت رکھتے ہوئے لونڈی سے نکاح کی اباحت کے قائلین کے قول کی ان کی طرف سے کی گئی تردید سے مناسبت نہیں رکھتی کیونکہ داؤد نے ان سے یہ نقل کیا کہ ایک مرتبہ تو انہوں نے یہ کہا کہ جس پر سب کا اتفاق ہوجائے وہ نص ہے اور ایک مرتبہ کہا کہ قرآن سارے کا سارا نص ہے۔ جبکہ قرآن میں کوئی ایسا حکم نہیں ہے جو ہمارے اس قول کے خلاف جاتا ہو اور نہ ہی اس قول کیخلاف امت کا اتفاق عمل میں آیا ہے۔ داؤد نے اسماعیل سے اس مکالمے کی جو روایت کی ہے اس میں ضعف کا پہلو موجود ہے۔ داؤد اپنی روایت اور نقل میں غیر ثقہ سمجھا جاتا ہے۔ اور اس کی دیانتداری بھی مشکوک ہے۔ خاص طور پر اسماعیل سے اس کی نقل کردہ باتوں کی تصدیق نہیں کی جاتی اور انہیں درست تسلیم نہیں کیا جاتا ہے۔ کیونکہ اسماعیل نے اسے بغداد سے نکلوا دیا تھا اور اس پر بڑے الزامات عائد کیئے تھے۔ میرا گما اس طرف جاتا ہے کہ اسماعیل کو زیر بحث مسئلے میں ہمارے قول پر اس وجہ سے تعجب ہوا ہے کہ ان کے خیال میں اس جیسے مسئلے میں مذکورہ صورت اپنے ماسوا تمام صورتوں کی ممانعت کی خود دلیل ہوتی ہے۔ ہم نے گذشتہ سطور میں واضح کردیا ہے کہ یہ کوئی دلیل نہیں ہوتی اس بارے میں ہم نے اصول فقہ کے اندر پوری شرح و بسط کے ساتھ گفتگو کی ہے۔ ہمارے قول کی صحت پر ایک یہ بات بھی دلالت کرتی ہے کہ بند تقویٰ ٹوٹ جانے کے خوف اور عدم استطاعت کو ضرورت کا نام نہیں دیا جاسکتا اس لیے کہ ضرورت اس کیفیت کا نام ہے جس کے تحت جان کو خطرہ در پیش ہو اور ظاہر ہے کہ جماع نہ کرنے کی صورت میں جان کو کوئی خطرہ درپیش نہیں ہوتا جبکہ لونڈی کے ساتھ نکاح کی اباحت بھی موجود ہو۔ اس لیے جب ضرورت کی غیر موجودگی میں لونڈی کے ساتھ نکاح جائز ہوگیا تو استطاعت کی موجودگی یا عدم استطاعت کی صورت میں اس حکم کے اندر کوئی فرق نہیں پڑے گا۔ کیونکہ عدم استطاعت کی موجودگی یا عدم استطاعت کی صورت میں اس حکم کے اندر کوئی فرق نہیں پڑے گا۔ کیونکہ عدم استطاعت نکاح کی ضرورت نہیں بن سکتی۔ کیونکہ نکاح کی ضرورت صرف اسی صورت میں پیش آسکتی ہے جس اسے اس کام پر اس طریقے سے مجبور کیا جائے جو اس کی جان یا بعض اعضاء کے تلف ہوجانے کا موجب بن جائے۔ آیت میں لونڈیوں کے ساتھ نکاح کی اباحت کا ذکر ضرورت کی شرط کے ساتھ مشروط نہیں ہے اس پر سلسلہ خطاب میں یہ قول باری دلالت کرتا ہے (و ان تصبروا خیر لکم، لیکن اگر تم صبر کرلو تو یہ تمہارے لیے بہتر ہے۔ ) ۔ جس یک صورت یہ ہے کہ اگر کوئی شخص اضطراری حالت میں شراب پینے یا مردار یا خنزیر کا گوشت کھانے پر مجبور ہوجائے تو اس کیفیت میں اس کا بھوک پیاس پر صبر کرلینا اس کے لیے بہتر نہیں ہوگا کیونکہ اگر بھوک پیاس برداشت کرتے ہوئے اس کی جان جلی جائے تو وہ گنہگار قرار پائے گا۔ ایک اور پہلو سے غور کیجئے نکاح فرض نہیں ہے اس میں ضرورت کا اعتبار کیا جائے اس کی اصل ترغیب و تہذیب ہے کہ اس سے انسان میں شائستگی پیدا ہوجائے جس کی بنا پر وہ زنا کے گناہ سے اپنا دامن بچاتا رہے جب صورت حال یہ ہو اور عدم ضرورت میں اس کا جواز موجود ہو تو پھر یہ بھی ضروری ہے کہ استطاعت کی موجودگی میں اس کا اس طرح جواز ہو جس طرح استطاعت کی عدم موجودگی میں اس کا جواز ہوتا ہے۔ سلسلہ آیات میں قول باری (بعضکم من بعض ، تم سب ایک ہی گروہ کے لوگ ہو) کی تفسیر کے بارے میں ایک قول ہے کہ ” تم سب آدم سے ہو “ اور ایک قول یہ ہے کہ ” تم سب اہل ایمان ہو “ یہ مفہوم اس پر دلالت کرتا ہے کہ نکاح کے معاملے میں سب برابر ہیں اور یہ بات نکاح کے معاملے میں آزاد عورت اور لونڈی کے درمیان برابری کے وجوب پر دلالت کرتے ہے۔ اس سے صرف وہ صورت خارج ہے جہاں برتری اور فضیلت پر کوئی دلالت قائم ہوجائے۔ جو لوگ اس بات کے قائل ہیں کہ آزاد عورت سے نکاح عقد میں پہلے سے موجود لونڈی کی طلاق ہے تو ان کا یہ قول بہت کمزور اور کھوکھلا ہے جس کی عقلی طور پر کوئی گنجائش نہیں ہے اس لیے کہ اگر حقیقت میں صورت حال یہی ہو تو اس سے یہ لازم آتا ہے کہ آزاد عورت کے ساتھ نکاح کی استطاعت کا وجود لونڈی کے نکاح کو فسخ کر دے جیسا کہ شعبی (رح) کا قول ہے جس طرح تیمم کرنے والے کو اگر پانی مل جائے تو اس کا تیمم ختم ہوجاتا ہے۔ خواہ وضو کرے یا نہ کرے۔ امام ابویوسف (رح) سے یہ مروی ہے کہ انہوں نے قول باری (ومن لم یستطع من طولا) سے یہ مفہوم لیا ہے کہ کوئی آزاد عورت اس کے عقد میں نہ ہو، اگر کوئی آزاد عورت اس کیعقد میں ہو تو طول یعنی استطاعت کا وجود ہوجائے گا۔ آیت میں اس تاویل کی گنجائش موجود ہے اس لیے کہ جش شخص کے عقد میں آزاد عورت نہیں ہوگی اسے استطاعت حاصل نہیں ہو کی کیونکہ اس صورت میں اس تک اس کی رسائی نہیں ہوگی اور نہ ہی اس سے ہمبستری کی اسے قدرت حاصل ہوگی۔ گویا امام ابویوسف (رح) کے نزدیک طول کے وجود کا مفہوم یہ ہے کہ آزاد عورت سے ہمبستری کا وہ مالک ہو۔ ان کی یہ تاویل ان حضرات کی تاویل کے مقابلے میں ییت کے مفہوم کے زیادہ مناسب ہے جن کا قول ہے کہ طول سے مراد آزاد عورت سے نکاح کرنے کی قدرت ہے۔ اس لیے کہ مال پر قدرت کسی شخص کے لیے نکاح کے بعد ہی ہمبستری پر مالکلانہ حق کی موجب ہوتی ہے۔ اس لیے ہمبستری پر مالکنہ تصرف کی حالت میں طول کا وجود مال کے وجود کے مقابلے میں اخص ہوگا کیونکہ مال کا وجود اس کے لیے صرف نکاح تک رسائی کا ذریعہ بن سکتا ہے اس پر یہ یات بھی دلالت کرتی ہے کہ ہمیں ایسی صورتیں ملتی ہیں جن میں بیوی سے ہمبستری کی ملکیت کسی دوسری عورت سے نکاح کی ممانعت میں مؤثر ہوتی ہے۔ جبکہ ہم نے یہ خصوصیت مال کے وجود میں نہیں پائی۔ اس لیے لونڈی سے نکاح کی ممانعت میں مال کے وجود کا کوئی اثر نہیں ہوتا۔ اس بناء پر یہ آیت کی جو تاویل امام ابویوسف (رح) نے کی ہے کہ طول سے مراد آزاد عورت کے ساتھ ہمبستری کا مالک ہونا ہے۔ اس تاویل کی بہ نسبت زیادہ صحیح ہے جس کے مطابق طول سے مراد مال کی ملکیت ہے۔ اگر یہ کہا جائے کہ ظہار کی صورت میں کفارہ ادا کرنے کے لیے مملوک کی قیمت خرید کی موجودگی ملکیت میں مملوک کی موجودگی متصور ہوتی ہے۔ اس بنا پر آزاد عورت کے مہر کی موجودگی اس سے نکاح کی موجودگی کیوں متصور نہیں ہوتی ؟ (آیت ھذا کی بقیہ تفسیراگلی آیت میں)
Top