Ahkam-ul-Quran - An-Nisaa : 27
وَ اللّٰهُ یُرِیْدُ اَنْ یَّتُوْبَ عَلَیْكُمْ١۫ وَ یُرِیْدُ الَّذِیْنَ یَتَّبِعُوْنَ الشَّهَوٰتِ اَنْ تَمِیْلُوْا مَیْلًا عَظِیْمًا
وَاللّٰهُ : اور اللہ يُرِيْدُ : چاہتا ہے اَنْ : کہ يَّتُوْبَ : توجہ کرے عَلَيْكُمْ : تم پر وَيُرِيْدُ : اور چاہتے ہیں الَّذِيْنَ يَتَّبِعُوْنَ : جو لوگ پیروی کرتے ہیں الشَّهَوٰتِ : خواہشات اَنْ : کہ تَمِيْلُوْا : پھر جاؤ مَيْلًا : پھرجانا عَظِيْمًا : بہت زیادہ
اور خدا تو چاہتا ہے کہ تم پر مہربانی کرے اور جو لوگ اپنی خواہشوں کے پیچھے چلتے ہیں وہ چاہتے ہیں کہ تم سیدھے راستے سے بھٹک کر دور جا پڑو
قول باری (ویتوب علیکم) فرقہ جبریہ کے عقائد کے بطلان پر دلالت کرتا ہے۔ کیونکہ آیت میں اللہ تعالیٰ نے یہ خبر دی ہے کہ وہ ہماری طرف متوجہ ہونے ا رادہ رکھتا ہے جبکہ ان باطل پرستوں کا عقیدہ ہے کہ اللہ تعالیٰ گناہوں پر اڑے رہنے والوں کے لیے اصرار اور اڑے رہنے کا اراد ہ کرتا ہے اور ان سے توبہ اور استغفار کا ارادہ نہیں کرتا۔ قول باری ہے (ویرید الذین یتبعون الشہوات ان یمیلوا میلا عظیما، مگر جو لوگ اپنی خواہشات نفس کی پیروی کر رہے ہیں وہ چاہتے ہیں کہ تم راہ راست سے ہٹ کر دور نکل جاؤ) ۔ بعض حضرات کا قول ہے کہ اس سے ہر باطل پرست مراد ہے کیونکہ وہ ہر صورت میں اپنی خواہش نفس کی پیروی کرتا ہے خواہ یہ حق کے موافق یا یا مخالف اس کی اسے کوئی پروا نہیں ہوتی اور اپنی خواہش نفس کی مخالفت کرتے ہوئے حق کی پیروی کی اس میں ہمت نہیں ہوتی مجاہد کا قول ہے کہ اس سے مراد زنا ہے۔ سدّی کا قول ہے کہ اس سے مراد یہود ونصاری ہیں۔ قول باری (ان تمیلوا میلا عظیما) سے مراد یہ ہے کہ کثرت سے گناہوں کے ارتکاب کی وجہ سے حق پر استقامت باقی نہ رہے اور قدم لڑکھڑا جائیں۔ باطل پرست جو یہ چاہتے ہیں کہ تم راہ حق سے ہٹ کر دو چلے جاؤ تو اس کی دو وجہیں ہیں یا تو اس عداوت کی بنا پر جو وہ تمہارے خلاف اپنے دلوں میں چھپائے ہوئے ہیں اور یا اس وجہ کی بنا پر کہ گناہ اور معصیت سے انہیں دلی لگاؤ ہے اور اس پر ڈٹے رہنے میں انہیں سکون و اطمینان حاصل ہوتا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے یہ بتادیا کہ جو کچھ وہ ہمارے لیے چاہتا ہے وہ ان باطل پرستوں کے ارادوں سے بالکل مختلف ہے۔ آیت کی اس مفہوم پر دلالت ہو رہی ہے کہ خواہش نفسانی کی پیروی کا ارادہ قابل مذمت ہے لیکن اگر یہ خواہش حق کے موافق ہو تو اصورت میں اس کی پیروی قابل مذمت نہیں ہوتی۔ کیونکہ اس شکل میں اس کا ارادہ دراصل اتباع حق کا ہوتا ہے۔ اور ایسے شخص کے متعلق یہ کہا درست نہیں ہوتا کہ وہ اپنی خواہشات کا پیروکار ہے اس لیے کہ اس طریق کار سے اس کا مقصد اتباع حق ہوتا ہے خواہ یہ اس کی خواہشات کے موافق ہو یا مخالف ۔
Top