Ahkam-ul-Quran - An-Nisaa : 28
یُرِیْدُ اللّٰهُ اَنْ یُّخَفِّفَ عَنْكُمْ١ۚ وَ خُلِقَ الْاِنْسَانُ ضَعِیْفًا
يُرِيْدُ : چاہتا ہے اللّٰهُ : اللہ اَنْ : کہ يُّخَفِّفَ : ہلکا کردے عَنْكُمْ : تم سے وَخُلِقَ : اور پیدا کیا گیا الْاِنْسَانُ : انسان ضَعِيْفًا : کمزور
خدا چاہتا ہے کہ تم پر سے بوجھ ہلکا کرے اور انسان (طبعا) کمزور پیدا ہوا ہے
قول باری ہے (یرید اللہ ان یخفف عنکم وخلق الانسان ضعیفا، اللہ تعالیٰ تمہارا بوجھ ہلکا کرنا چاہتا ہے اور انسان تو کمزور بنا کر پیدا کیا گیا ہے) تخفیف سے یہاں تکلیف یک تسہیل مراد ہے یعنی ہمیں جن باتوں کا مطلف بنایا گیا ہے ان میں آسانی اور سہولت کی راہیں پیدا کردی گئی ہیں۔ تخفیف تثقیل (بوجھل بنادینا) کی ضد ہے۔ اس قول باری کی نظیر یہ قول باری ہے (ویضع عنہم اصرہم ولاغلال التی کانت علیہم ، اور وہ ان سے ان کا بوجھ اور طوق اتار دیتا جو ان پر پڑے ہوئے تھے۔ نیز فرمایا (یرید اللہ بکم الیسر ولایرید بکم العسر، اللہ تعالیٰ تم سے آسانی کا ارادہ کرتا ہے اور وہ تم سے سختی کا ارادہ نہیں کرتا، نیز فرمایا (وماجعل علیکم فی الدین من حرج، اللہ تعالیٰ نے دین کے معاملے میں تمہارے لیے کوئی تنگی پیدا نہیں کی) ۔ نیز ارشاد ہے (مایریدلیجعل علیکم من حرج ولکن یرید لیطہرکم، اللہ تعالیٰ نہیں چاہتا کہ تم پر کوئی تنگی مسلط کر دے وہ تو صرف یہ چاہتا ہے کہ تمہیں پاک کر دے) ۔ ان آیات میں اللہ تعالیٰ نے ہمارے لیے تنگی پیدا کرنے ، ہم پر بوجھ ڈالنے اور ہمیں سختی میں مبتلا کرنے کی نفی فرمادی ہے۔ اس کی مثال حضور اکرم ﷺ کا وہ ارشاد مبارک ہے جس میں آپ ﷺ نے فرمایا (جیئتکم بالحنیفیۃ السمحاء، میں تم لوگوں کے پاس ایسی شریعت لے کرے یا ہوں جو بالکل سیدھی اور جس میں بڑی گنجائش ہے) ۔ وہ اس طرح کہ اگرچہ اللہ تعالیٰ نے ہم پر وہ عورتیں حرام کردیں جن کا ذکر سابقہ آیات میں گذر چکا ہے لیکن ان کے سوا باقی ماندہ تمام عورتیں ہمارے لیے مباح ہیں کہ انہیں ہم نکاح یا ملک یمین کے ذریعے حاصل کرسکتے ہیں۔ اسی طرح دوسری تمام حرام کردہ اشیاء کی کیفیت ہے کہ جتنی چیزیں حلال کردی گئی ہیں وہ ان حرام شدہ چیزوں کے مقابلے میں کئی گنا ہیں اس لیے حلال کردہ اشیاء کی طرف جانے کی ہمیں ضرورت ہی نہیں۔ حضرت عبداللہ بن مسعود ؓ سے اسی مفہوم کا ایک قول منقول ہے کہ ” اللہ تعالیٰ نے تمہاری شفا ان چیزوں میں نہیں رکھی جو اس نے تم پر حرام کردی ہیں “ حضرت ابن مسعود ؓ کی اس قول سے مراد یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے شفا کو حرام شدہ چیزوں میں منحصر نہیں کردیا بلکہ ہمارے لیے جو غذائیں اور دوائیں حلال کردی ہیں ان میں اتنی وسعت اور گنجائش ہے کہ ہم ان کے ذریے حرام شدہ اشیاء سے مستغنی ہوسکتے ہیں تاکہ دنیاوی امور میں ہمارے لیے جو چیزیں حرام کردی گئی ہیں ان سے دامن بچانے کی بنا پر ہمیں کوئی نقصان نہ پہنچے حضور اکرم ﷺ سے مروی ہے کہ آپ ﷺ کو جب کبھی دو باتوں میں سے ایک کے انتخاب کا اختیار دیا گیا تو آپ ﷺ نے ہمیشہ وہی بات پسند کرلی جو زیادہ آسان تھی۔ ان آیات سے ان مسائل میں تخفیف کے حق میں استدلال کیا جاتا ہے جو فقہاء کے نزدیک مختلف فیہ ہیں اور انہوں نے ان میں اجتہاد کی گنجائش نکال لی ہے۔ اس میں فرقہ جبریہ کے مذہب کے بطلان کی دلالت موجود ہے۔ ان کا قول ہے کہ اللہ تعالیٰ اپنے بندوں کو ایسے امور کا مکلف بنا دیتا ہے جن کے کرنے کی ان کے اندر طاقت نہیں ہوتی۔ اس عقیدے کے بطلان کی وجہ یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ تو اپنے بندوں پر تخفیف کرنا چاہتا ہے جبکہ تکلیف مالا یطاق یعنی ایسی بات کا مکلف جو اس کی طاقت سے بالا ہو، تثقیل کی انتہا ہوتی ہے۔ اللہ تعالیٰ اپنی کتاب کے معانی کو زیادہ جاننے والا ہے۔
Top