Ahkam-ul-Quran - An-Nisaa : 29
یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لَا تَاْكُلُوْۤا اَمْوَالَكُمْ بَیْنَكُمْ بِالْبَاطِلِ اِلَّاۤ اَنْ تَكُوْنَ تِجَارَةً عَنْ تَرَاضٍ مِّنْكُمْ١۫ وَ لَا تَقْتُلُوْۤا اَنْفُسَكُمْ١ؕ اِنَّ اللّٰهَ كَانَ بِكُمْ رَحِیْمًا
يٰٓاَيُّھَا : اے الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا : جو لوگ ایمان لائے (مومن) لَا تَاْكُلُوْٓا : نہ کھاؤ اَمْوَالَكُمْ : اپنے مال بَيْنَكُمْ : آپس میں بِالْبَاطِلِ : ناحق اِلَّآ : مگر اَنْ تَكُوْنَ : یہ کہ ہو تِجَارَةً : کوئی تجارت عَنْ تَرَاضٍ : آپس کی خوشی سے مِّنْكُمْ : تم سے َلَا تَقْتُلُوْٓا : اور نہ قتل کرو اَنْفُسَكُمْ : اپنے نفس (ایکدوسرے) اِنَّ : بیشک اللّٰهَ : اللہ كَانَ : ہے بِكُمْ : تم پر رَحِيْمًا : بہت مہربان
مومنو ! ایک دوسرے کا مال ناحق نہ کھاؤ ہاں اگر آپس کی رضامندی سے تجارت کا لین دین ہو (اور اس سے مالی فائدہ ہوجائے تو وہ جائز ہے) اور اپنے آپ کو ہلاک نہ کرو۔ کچھ شک نہیں کہ خدا تم پر مہربان ہے
تجارت اور خیار بیع کا بیان قول باری ہے (یا یہا الذین امنوا لاتأکلو اموالکم بینکم بالباطل الا ان تکون تجارۃ عن تراض منکم) اے ایمان والو ! آپس میں ایک دوسرے کا مال ناجائز طریقوں سے نہ کھاؤ۔ البتہ اگر باہمی رضامندی سے تجارت کی صورت ہوجائے، ( تو اس میں کوئی حرج نہیں) ۔ ابوبکر جصاص کہتے ہیں کہ اس عموم میں ناجائز طریقے سے دوسروں کا مال کھانے نیز اپنا مال کھانے، دونوں کی کی نہیں شامل ہے۔ اس لیے قول باری (اموالکم) کا اطلاق غیر کے مال نیز اپنے مال دونوں پر ہوتا ہے جیسا کہ ایک اور مقام پر ارشاد باری ہے (ولا تقتلوا انلسکم، اپنے آپ کو قتل نہ کرو) ۔ یہ آیت اپنے آپ کو قتل کرنے نیز کسی اور کو قتل کرنے دونوں سے روک رہی ہے اسی طرح قول باری (لاتأکلوا اموالکم بینکم بالباطل، میں ہر شخص کو ناجائز طیقے سے اپنا مال کھانے نیز کسی اور کا مال کھانے سے روکا گیا ہے۔ اپنا مال باطل طریقوں سے کھانے کا مفہوم یہ ہے کہ اسے اللہ کی نافرمانی کی راہوں میں صرف کیا جائے اور گناہ کمایا جائے۔ باطل طریقوں سے دوسروں کا مال کھانے کی دو صورتیں بیان کی گئی ہیں۔ پہلی صور مفسر سدی نے بیان کی ہے اور وہ یہ ہے کہ بدکاری اور قمار بازی کے اڈوں کی کمائی کھائے یا ناپ تول میں کمی کر کے یا ظلم و ذبردستی کے ذریعے کمایا ہوا مال کھائے۔ دوسری صورت حضرت ابن عباس ؓ اور حسن سے منقول ہے کہ معاوضہ کے بغیر کوئی مال کھائے۔ جب اس آیت کا نزل ہوا تو اس کے بعد لوگوں کی یہ حالت ہوگئی کہ ہر شخص دوسرے کے ہاں جاکر کھانا کھا لینے کو گناہ کی بات سمجھنے لگا یہاں تک کے سورة نور کی ییت (لیس علی الاعمی حرج، نابینا پر کوئی گناہ نہیں) تا قول باری (ولا علی انفسکم ان تأکلوا من بیوتکم، اور نہ ہی تم پر کوئی گناہ ہے کہ تم اپنے ت گھروں میں جاکر کھالو) تا آخر ییت ، نازل ہوئی اور پہلا حکم منسوخ ہوگیا۔ ابوبکر جصاص کہتے ہیں کہ حضرت ابن عباس ؓ اور حسن کے اس قول سے ان کی مراد یہ معلوم ہوتی ہے کہ درج بالا آیت کے نزول کے بعد لوگ ایک دوسرے کے گھروں میں جاکر کھانے کو گناہ کی بات سمجھنے لگے ت ہے، یہ مراد نہیں کہ آیت نے یہ بات لوگوں پر واجب کردی تھی کیونکہ اس آیت کی بنا پر ہبہ اور صدقہ کی صورتوں پر کبھی کوئی پابندی نہیں لگی تھی اس طرح کسی کے ہاں جا کر کھانے پر بھی پابندی نہیں لگی تھی۔ البتہ اگر یہ مراد لی جیئے کہ کسی کے ہاں اس کی اجازت کے بغیر جاکر کھا لینا تو آیت میں نہی کا حکم یقینا اس صورت کو شامل ہے۔ شعبی نے علقمہ سے اور انہوں نے حضرت عبداللہ بن مسعود ؓ سے سے روایت کی ہے کہ یہ آیت محکم ہے اور منسوخ نہیں ہوئی ہے اور نہ ہی قیامت تک منسوخ ہوسکتی ہے۔ ربیع نے حسن سے روایت کی ہے کہ اس آیت کو قرآن کی کسی آیت نے منسوخ نہیں کیا آیت میں نہی کا حکم غیر کے مال کونہ کھانے کا مقتضی ہے اس کی نظیر یہ قول باری ہے۔ (ولاتأکلوا اموالکم بینکم بالباطل و تدلوبہا الی الحکام، تم آبس میں اپنے اموال باطل طریقوں سے نہ کھاؤ اور نہ ہی انہیں حاکموں تک پہنچاؤ) ۔ اس طرح حضور اکرم ﷺ کا ارشاد ہے (یحل مال امرئ مسلم الا بطیبۃ من نفسہ، کسی مسلمان کا مال کسی کے لیے حلال نہیں ، الا یہ کہ وہ خوش دلی سے اسے دے دے) علاوہ ازیں غیر کا مال کھانے کی نہی ایک صفت کے ساتھ مشروط ہے اور وہ صفت یا کیفیت یہ ہے کہ باطل اور ناجائز طور پر کسی کا مال کھالیا جائے۔ اس نہی کے ضممن میں فاسد عقود کے بدل کے طور پر ملنے والے مال کی نہی بھی موجود ہے۔ مثلا فاسد بیوع سے حاصل شدہ قیمت فروخت جیسے کوئی شخص کوئی خوردنی شئ خرید لے لیکن وہ کھانے کے قابل نہ ہو مثلا انڈے اور اخروٹ وغیرہ۔ اب فروخت کنندہ کے لیے ان سے حاصل شدہ پیسوں کو اپنے استعمال ا میں لانا باطل طریقے سے دوسرے کا مال کھالینے کے مترادف ہے۔ اس طرح ان اشیاء سے حاصل شدہ پیسے بھی اس حکم میں داخل ہیں جن کی قیمت لگائی نہیں جاسکتی اور نہ ہی ان سے کسی طرح کا فائدہ اٹھانا حلال ہے۔ مثلا خنزیر ، بندر، مکھی اور بھڑ وغیرہ جن میں منفعت کا کوئی پہلو موجود نہیں ہے۔ اس لیے ان کی قیمت کے طور پر حاصل شدہ مال باطل طریقے سے غیر کا مال کھانے کے ضمن میں آئے گا۔ اسی طرح نوحہ کرنے والی اور گانے والی کی اجرت نیز مردار، سؤر اور شراب کی قیمت کا بھی یہی حکم ہے۔ یہ چیز اس پر دلالت کرتی ہے کہ اگر کسی نے بیع فاسد کی اور مبیع کی قیمت وصول کرلی تو اس کے لیے اس قیمت کو اپنے استعمال میں لانا ممنوع ہے بکلہ اس پر اسے خریدار و واپس کردینا واجب ہے۔ اسی طرح ہمارے اصحاب کا قول ہے کہ بیع فاسد کے تحت حاصل شدہ قیمت فروخت میں اگر فروخت کنندہ نے تصرف کر کے منافع کما لیا ہو مثلا سود کی صورت ہو کہ اس نے خریدار کے ہاتھوں ایک مقررہ مدت تک مبیع کی مقررہ قیمت فروخت ادا کردینے کی شرط پر وہ چیز اسے فروخت کردی ہو اور پھر وہ چیز مقررہ قیمت فروخت سے کم قیمت پر خریدار سے خود خرید لی ہو اور اس پر قبضہ بھی کرلیا ہو تو اس پر واجب ہوگا کہ اس طرح کے سودے میں کمایا ہوا منافع صدقہ کر دے اور اپنے استعمال میں نہ لائے اس لیے کہ اسے یہ منافع ناجائز طریقے سے حاصل ہوا تھا۔ قول باری (ولا تأکلوا اموالکم بینکم بالباطل ) ان تمام صورتوں اور عقود کی ان جیسی تمام شکلوں کو شامل ہے۔ اگر یہ کہا جائے کہ ظاہر آیت اس کا مقتضی ہے کہ ہبہ اور صدقہ کے تحت حاصل ہونے وال مال اور مال کے مالک کی طرف سے مباح ہوا مال سب کا کھانا حرام ہے تو اس کے جواب میں کہا جائے گا کہ اللہ تعالیٰ نے جن عقود کو مباح کردیا ہے اور اباحت کے تحت دوسرے کا مال کھانے کی اجازت دے دی ہے وہ آیت کے اس حکم سے خارج ہیں۔ کیونکہ غیر کا مال کھانے کی ممانعت ایک شرط کے ساتھ مشروط ہے اور وہ شرط یہ ہے کہ باطل طریقے سے کسی کا مال کھایا جائے۔ اس لیے جن طریقوں کو اللہ تعالیٰ نے حلال کردیا ہے اور انہیں مباح قرار دیا ہے وہ باطل طریقے نہیں کہلاتے بلکہ وہ جائز طریقے ہوتے ہیں اس لیے ہمیں اس سبب پر غور کرنا ہوگا جو غیر کے مال کو کھا لینا مباح کردیتا ہے اگر وہ سبب باطل اور غلط نہیں ہوگا تو مال کا کھانا بھی باطل نہیں ہوگا اور آیت کے حکم میں شامل نہیں ہوگا۔ لیکن اگر سبب مباح نہیں ہوگا بلکہ ممنوع ہوگا تو اس مال کا کھانا آیت کے اقتضاء کے عین مطابق ممنوع ہوگا۔ قول باری (الا ان تکون تجارۃ عن تراض منکم) تجارت کی ان تمام صورتوں کی اباحت کا مقتضی ہے جو باہمی رضامندی سے اختیار کی جائیں۔ تجارت کے اسم کا اطلاق ان تمام عقود پر ہوتا ہے جن کی بنیاد معاوضوں پر ہوتی ہے اور جن میں منافع کمانا مقصد ہوتا ہے۔ قول باری ہے (ہل ادلکم علی تجارۃ تنجیکم من عذاب الیم تؤمنون باللہ ورسلہ، کیا میں تمہیں ایک ایسی تجارت کا پتہ نہ بتاؤں جو تمہیں درد ناک عذاب سے نجات دلانے والی ہے وہ تجارت یہ کہ تم اللہ اور اس کے رسول پر ایمان لاؤ) اللہ تعالیٰ نے ایمان کو مجازا تجارت کا نام دیا اور اسے ان عقود کے ساتھ تشبیہ دی گئی جن میں منافع کمانا مقصود ہوتا ہے۔ قول باری ہے (ترجون تجارۃ لن تبور، تم نہ برباد ہونے والی تجارت کی امید رکھتے ہو) اسی طرح خدا کے دشمنوں کیخلاف جہاد کرتے ہوئے اپنی جان کی بازی لگا دینے کو شِری یعنی فروخت کا نام دیا ۔ چنانچہ فرمایا (ان اللہ اشتری من المؤمنین انفسہم و اموالہم بان الہم الجنۃ یقاتلون فی سبیل اللہ) اللہ تعالیٰ نے اہل ایمان کی جان و مال کو اس بات کے بدلے خرید لیا ہے کہ ان کے لیے جنت ہے وہ اللہ کے راستے میں قتل کرتے ہیں) یہاں جان کی بازی لگادینے کو مجازا فروخت کا نام دیا۔ نیز قول باری ہے (ولقد علمو لمن اشترہ مالہ فی الاخرۃ من خلاق ولبئس ما شروا بہ انفسہم لو کانوا یعلمون) انہیں اچی طرح معلوم تھا کہ جس شخص نے اسے خریدا اس کے لیے آخرت میں کوئی حصہ نہیں ہوگا۔ اور انہوں نے بہت بری چیز کے بدلے اپنی جانیں فروخت کردیں، کاش کہ انہیں اس کا علم ہوتا) ۔ اللہ تعالیٰ نے اسے بیع و شراء یعنی خرید و فروخت کے نام سے مجازا موسوم کیا اسے خرید اور فروخت کے ان عقود کے ساتھ تشبیہ دی گئی جن کے ذریعے معاوضے حاصل ہوتے ہیں ٹھیک اسی طرح اللہ پر ایمان لانے کو تجارت کا نام دیا گیا کیونکہ اس کے بدلے میں ثواب عظیم کا استحقاق ہوتا ہے اور اس کے بڑے بڑے بدلے عطاط کیئے جاتے ہیں۔ اس لیے قول باری (الا ان تکون تجارۃ عن تراض منکم) میں خرید و فروخت، اجارہ کے تمام عقود نیز ہبہ کی وہ تمام صورتیں داخل ہیں جن میں معاوضے کی شرط رکھی گئی ہو کیونکہ لوگوں کے عام چلن اور رواج کے مطابق عقود کی درج بالا صورتوں میں معاوضہ اور بدلہ حاصل کرنا مقصد ہوتا ہے۔ نکاح کو عرف عام میں تجارت کا نام نہیں دیا جاتا کیونکہ اکثر حالات اور عام رواج کے مطابق عوض یعنی مہر کا حصول مطلوب نہیں ہوتا بلکہ اس میں شوہر کی صفات یعنی اس کی نیکی ، سمجھداری ، دینداری ، مرتبہ کی بلندی اور جاہ و منزلت مطلوب ہوتی ہیں۔ اس بنا پر نکاح کو تجارت کے نام سے موسوم نہیں کیا جاتا۔ اسی طرح خلع اور مال کے بدلے آزاد کرنے کو بھی تقریبا اس نام سے موسوم نہیں کیا جاتا تجارت کا اسم اس مفہوم کے ساتھ مخصوص ہے جس کا ہم نے اوپر ذکر کیا یعنی معاوضے کا حصول۔ اسی لیے امام ابوحنیفہ (رح) اور امام محمد (رح) کا قول ہے کہ جس غلام کو اس کے آقا نے اپنی طرف سے تجارت کرنے کی اجازت دے رکھی ہو وہ اپنے آقا کے نہ کسی غلام کا اور نہ کسی لونڈی کا نکاح کرا سکتا ، نہ کسی غلام کو مکاتب بنا سکتا ہے اور نہی ہی مال کے بدلے کسی غلام کو آزادی دے سکتا ہے اور نہ ہی خود نکاح کرسکتا ہے اور اگر غلام کی جگہ لونڈی ہو جسے تجارت کرنے کی اجزت ملی ہو وہ بھی اپنا نکاح نہیں کر اسکتی ہے۔ کیونکہ اس قسم کے غلام یا لونڈی کے تمام تصرفات تجارت تک محدود ہوتے ہیں اور درج بالا عقود تجارت کے ضمن میں نہیں آتے، تاہم ان حضرات کا قول ہے کہ ایسا غلام اپنی ذات اور آقا کے غلاموں نیز اپنے زیر تصرف سامان تجارت کو اجارے پردے سکتا ہے۔ کیونکہ اجارہ تجارت کے ضمن میں آتا ہے مضاب کے متعلق بھی ان حضرات کا یہی قول ہے نیز شریک العنان (اپنی مخصوص رقم یا سرمایہ کے ساتھ دوسرے کے ساتھ شریک) کا بہی یہی مسئلہ ہے اس لیے کہ ان دونوں کے تصرفات کا انحار تجارت پر ہوتا ہے، اور کسی چیز پر نہیں ہوتا۔ بیع کی تمام صورتیں تجارت میں داخل ہیں اس پر لوگوں کا اتفاق ہے۔ اہل علم کا اس بارے میں اختلاف رائے ہے کہ بیع کا انعقاد کن الفاظ سے ہوتا ہے۔ ہمارے اصحاب کا قول ہے کہ جب ایک شخص دوسرے سے یہ کہے ” اپنا یہ غلام میرے ہاتھ ہزار درہم میں فروخت کردو “ اور دوسرا شخص جواب میں یہ کہے ” میں نے فروخت کردیا “ تو بیع اس وقت تک مکمل نہیں ہوگی جب تک پہلا شخص اسے قبول نہ کرلے۔ ان حضرات کے نزدیک بیع کا ایجاب و قبول صرف ماضی کے لفظ کے ساتھ درست ہوتا ہے۔ زمانہ مستقبل پر دلالت کرنے والے لفظ کے ذریعے درست نہیں ہوتا۔ اس لیے کہ خریدار کا یہ کہنا کہ ” میرے ہاتھ یہ چیز فروخت کر دو “ درحقیقت مول تول کرنا اور بیع کا حکم دینا ہوتا ہے، عقد بیع کو واقع کرنا نہیں ہوتا۔ اور ظاہر ہے کہ بیع کا حکم دینا بیع نہیں کہلاتا۔ اسی طرح اس کا یہ کہنا کہ ” میں تم سے یہ چیز خریدوں گا “ خرید کرنا نہیں ہوتا بلکہ یہ بتانا ہوتا ہے کہ وہ یہ چیز خرید لے گا۔ کیونکہ لفظ ” اشتری “ (میں خریدوں گا) میں الف زمانہ آئندہ پر دلالت کرتا ہے۔ اسی طرح فروخت کنندہ کا یہ کہنا کہ ” مجھ سے یہ چیز خرید لو “ یا میں یہ چیز تمہیں فروخت کروں گا “ عقد بیع کے الفاظ نہیں ہیں بلکہ یہ اطلاع ہے کہ وہ عقد بیع کرلے گا۔ ان حضرات کا قول ہے کہ نکاح کی صورت میں بھی قیاس کا تقاضہ یہی ہے کہ اس کے انعقاد کا حکم بھی بیع کی طرح ہو لیکن ان حضرات نے اس معاملے میں استحسان کا طریقہ اپنایا ہے چناچہ انہوں نے یہ کہا ہے کہ اکر کوئی شخص کسی سے یہ کہے کہ ” اپنی بیٹی کا نکاح مجھ سے کر دو “ اور دوسرا شخص جواب میں یہ کہے کہ ” میں نے تمہارے ساتھ اس کا نکاح کردیا “ تو نکاح کا انعقاد ہوجائے گا اور ہونے والے شوہر کو قبول کے الفاظ کہنے کی ضرورت نہیں ہوگی۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ حضرت سہل بن سعد ؓ سے ایک روایت مروی ہے جس میں اس عورت کا واقعہ بیان کیا گیا ہے جس نے اپنے آپ کو حضور اکرم ﷺ کے لیے ہبہ کردیا تھا لیکن آپ نے اسے قبول نہیں کیا تھا، پاس ہی موجود ایک شخص نے عرض کیا تھا کہ اس خاتون کا میرے ساتھ نکاح کر دیجئے۔ آپ ﷺ نے اس شخص سے استفسار کیا تھا کہ اس کے پاس اس خاتون کو دینے کے لیے کیا کچھ ہے۔ اس سلسلے میں میں گفتگو چلتی رہی حتی آپ آپ ﷺ نے فرمایا ” میں تمہارے ساتھ اس کا نکاح قرآن کی ان آیات کے بدلے کردیا جو تمہیں یاد ہیں “ حضور اکرم ﷺ نے اس شخص کے قول ” میرا اس کے ساتھ نکاح کر دیجئے “ اور اپنے قول ” میں نے تمہارے ساتھ اس کا نکاح کردیا “ کو وقوع پذیر ہونیوالا عقد نکاح قرار دیا۔ اس سلسلے میں کئی اور روایات بھی ہیں ایک وجہ یہ بھی ہے کہ نکاح کے الفاظ ادا کرنے کا یہ مقصد نہیں ہوتا کہ سودے کی صورت میں مول تول کے ذریعے بات آگے بڑہائی جائے عرف عام میں لوگ نکاح کے معاملے میں پہلے شخص کے قول ” میرا نکاح کر دو “ اور دوسرے شخص کے قول ” میں نے تمہارا نکاح کردیا “ کے درمیان فرق نہیں کرتے۔ جب نکاح کے معاملے میں عرف عام یہی ہے جس کا ہم اوپر ذکر کیا تو ایک شخص کا کسی عورت سے کہنا ” میں نے تجھ سے نکاح کرلیا “ اور یہ کہنا ” اپنا نکاح میرے ساتھ کرلے “ دونوں فقروں کی حیثیت یکساں ہے اور ان میں کوئی فرق نہیں۔ اس کے مقابلہ میں خرید و فروخت کے اندر عرف عام یہ ہے کہ مول تول اور بھاؤ لگانے کے ذریعے بات کی ابتداء کی جاتی ہے اس لیے اس قسم کا کلام مول تول توکہلاسکتا ہے عقد نہیں کہلاسکتا۔ اس لیے فقہاء نے اس صورت کو قیاس پر محمول کرتے ہوئے اس کے متعلق وہ قول اختیار کیا جس کی گذشتہ سطور میں وضاحت کی کئی ہے ہمارے اصحاب نے تو یہ بھی کہا ہے کہ عرف عام میں تملیک کے ایجاب اور عقد کی تکمیل کا جو طریقہ رائج ہو اس سے عقد بیع وقوع پذیر ہوجاتا ہے۔ مثلا ایک شخص فروخت کنندہ سے ایک چیز کا بھاؤ معلوم کرتا ہے پھر اسے پیسے گِن کر دے دیتا ہے اور مبیع کو اپنے قرضے میں کرلیتا ہے تو ان حضرات کے قول کے مطابق بیع کی تکمیل ہوجاتی ہے۔ کیونکہ اس عقد یا سودے پر طرفین رضامند ہوگئے تھے اور ہر ایک نے دوسرے کی مطلوبہ چیز اس کے حوالے کردی تھی۔ اس عقد کی صحت کی وجہ یہ ہے کہ عادت اور عرف عام میں ایک چیز کا رائج ہونا اس طرح ہوتا ہے گویا الفاظ کے ذریعے اسے بیان کر یدا کیا ہے ۔ کیونکہ زبان سے ادائیگی کا مقصد اپنے مافی الضمیر کا اظہار ہوتا ہے۔ جب یہ عادت اور عرف عام کے تحت معلوم اور عقدے بیع کے تحت آنے والی چیز حوالے بھی کردی جائے تو فقہاء نے اسے عقد کی صورت قرار دیا ہے۔ ۔ ایک اور مثال سے ای کی مزید وضاحت ہوجاتی ہے۔ ایک شخص کسی کو کوئی چیز تحفے کے طور پر بھیجتا ہے اور وہ شخص اس چیز کوا پنے قبضے میں لے لیتا ہے تو یہ بات سا تحفے کو قبول کرلینے کے مترادف ہے حضور اکرم ﷺ نے قربانی کے کئی اونٹ اپنے دست مبارک سے ذبحکیئے اور پھر فرمایا (ومن شاء فلیقتطع) جوش خص چاہے ان جانوروں سے ٹکڑے کاٹ لے۔ اس میں ٹکڑے کاٹنا تملیک کے ایجاب کے لحاظ سے ہبہ قبول کرنے کے مترادف تھا۔ جن صورتوں کا ہم نے اب تک ذکر کیا ہے وہ اس باہمی رضامندی کی شکلیں ہیں جس کی اس قول باری (الا ان تکون تجارۃ عن تراض منکم) میں شرط عائد کردی گئی ہے۔ امام مالک (رح) کا قول ہے کہ جب کوئی شخص کسی سے کہے ” یہ چیز اتنے میں مجھے فروخت کر دو “ اور دوسرا شخص جواب میں کہے ” میں نے فروخت کردیا “ تو بیع کی تکمیل ہوگئی۔ امام شافعی (رح) کا قول ہے کہ نکاح اس وقت تک درست نہیں ہوسکتا جب تک ایک شخص یہ نہ کہے ” میں نے تمہارے ساتھ اس کا نکاح کردیا “ اور دوسرا یہ نہ کہے ” میں نے اس کے ساتھ قبول کرلیا “ یا پیغام نکاح دینے والا یہ نہ کہے ” میرے ساتھ اس کا نکاح کر دو “ اور جواب میں ولی یہ نہ کہے ” میں نے تمہارے ساتھ اس کا نکاح کردیا “ اس صورت میں شوہر کو یہ کہے کی ضرورت باقی نہیں رہے گی کہ ” میں نے قبول کیا۔ “ اگر کوئی یہ کہے کہ آپ نے احناف کا یہ قول بیان کیا ہے کہ بائع اور مشتری اگر ایک چیز کے متعلق مول کرلیں ، پھر خردیدار قیمت نقد گن کر فروخت کنندہ کے حوالے کر دے اور وہ خریدار کو کو چیز حوالے کر دے تو یہ بیع ہوجائے گی اور یہ باہمی رضامندی سے تجارت کی صورت بن جائے گی۔ لیکن ہمارے خیال میں یہ بیع نہیں ہوسکتی کیونکہ عقد بیع کے لیے مقررہ صیغے ہیں اور وہ صیغے الفاظ میں ایجاب و قبول کے الفاظ موجود نہیں ہیں اس لیے یہ بیع درست نہیں ہوگی۔ حضور اکرم ﷺ سے مروی ہے کہ آپ نے بیع منابذہ، بیع ملامسہ اور بیع حصاۃ سے منع فرمایا دیا تھا۔ آپ کی بیان کردہ صورت میں ان ہی ممنوعہ بیوع کا مفہوم پایا جاتا ہے کیو کہ اس صور میں سود ا منہ سے کچھ کہے بغیر طے کیا جاتا ہے۔ اس کے جواب میں کا کہا جائے گا کہ یہ بات ایسی نہیں ہے جس طرح آپ نے بیان کی ہے ہمارے اصحاب نے بیع کی کسی ایسی صورت کے جواز میں فتوی نہیں دیا ہے۔ جسے حضور ﷺ نے اختیار کرنے سے روک دیا ہو۔ کیونکہ بیع ملامسہ کی صورت یہ ہوتی ہے کہ بکاؤ چیزپر ہاتھ لگاتے ہی عقد بیع کی تکمیل ہوجاتی ہے اسی طرح بیع منابذہ کی یہ صورت ہے کہ فروخت کنندہ اگر اپی چیز خریدار کی طرف پھینک دے تو بیع مکمل ہوجاتی ہے۔ یہی صورت بیع حصاۃ کی ہے اگر خریدار مال پر کوئی پتھرکا ٹکڑا رکھ دے تو سودا طے سمجھ لیا جاتا ہے۔ زمانہ جاہلیت ان افعال کو بیع کے انعقاد کا موجب سمجھا جاتا تھا۔ خرید و فروخت کی یہ تمام صورتیں ایسی ہیں کہ انہیں اسباب و شرائط کے ساتھ مقید کردیا گیا ہے حالانکہ عقد بیع کے ساتھ ان اسباب کا کوئی تعلق نہیں ہوتا۔ اس کے برعکس ہمارے اصحاب نے جس صورت کے جواز کا فتویٰ دیا ہے تو یہ ہے کہ پہلے طرفین مول تول کریں اور ایک قیمت خرید پر بات آکر رک جائے پھر خریدار قیمت کی ادائیگی کر دے اور فروخت کنندہ خریدی ہوئی چیز اس کے حوالے کر دے۔ مبیع اور ثمن کی حوالگی بیع کے لوازم اور اس کے احکام میں سے ہے۔ جب طرفین کی طرف سے مبیع اور ثمن کی حوالگی عملی میں آگئی جو عقد کی موجب ہے تو یہ گویا اس بھاؤ پر سودا کرلینے کے لیے عملی طور پر باہمی رضامندی کا مظاہرہ تھا جس پر بات جاکر ختم ہوئی تھی۔ اس کے برعکس کپڑے کو چھولینا یا پتھر رکھ دینا یا مال کو خریدار کی طرف پھینک دینا عقد بیع کو واجب کردینے والی صورتیں نہیں ہیں اور نہ ہی بیع کے احکام سے ان کا کوئی تعلق ہے اس طرح ان صورتوں میں گویا عقد بیع کو خطرہ یعنی مستقبل کی کسی شرط کے ساتھ مشروط کردیا جاتا ہے اس لیے اس کا جواز نہیں ہوتا۔ یہی چیز بیع مخاطرہ کے امتناع کے لیے بنیاد اور اصل قرار پائی ہے۔ بیع مخاطرہ کی صورت یہ ہوتی ہے کہ فروخت کندہ خریدار سے یہ کہے کہ میں یہ چیز تمہارے ہاتھ فروخت کرتا ہوں جب زید کی آمد ہوجائے یا کل کا دن شروع ہوجائے یا اسی طرح کی اور شرطیں جن کا آئندہ زمانے سے تعلق ہو۔ قول باری (الا ان تکون تجارۃ عن تراض منکم) میں تجارت کی تمام صورتوں کے اطلاق و اباحت کے لیے عموم ہے اور یہ اس قول باری کی طرح ہے (و احل اللہ البیع اللہ تعالیٰ نے بیع حلال کردی ہے) اس میں بیع کی تمام صورتوں کی اباحت کے لیے عموم ہے البتہ وہ صورتیں اس عموم سے خارج ہیں جن کی تحریم کردی گئی ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ تجارت کا اسم بیع کے اسم سے زیادہ عام ہے کیونکہ تجارت کے اسم کے تحت اجارے کی تمام صورتیں نیز معاوضہ کے بالمقابل کی جانے والی ہبہ کی تمام شکلیں اور خرید و فروخت کے تمام سودے ہیں اس لیے قول باری (ولاتأکلوا اموالکم بینکم بالباطل) دو باتوں کو متضمن ہے۔ اول یہ اس میں مذکورہ نہیں ایک ایسی شرط کے ساتھ مشروط ہے جسے نہیں کے اس حکم کو واجب کرنے کے لیے آگے خود بیان کی ضرورت ہے کیونکہ قول باری (ولاتأکلوا اموالکم بینکم بالباطل) میں اس بات کو ثابت کرنے کی ضرورت باقی رہتی ہے کہ اس نے باطل طریقے سے مال کھایا ہے تاکہ نہی کے لفظ کے حکم کا اس پر اطلاع کیا جاسکے۔ دوسری بات تجارت کی تمام صورتوں کے لیے اطلاق و عموم ہے اس سلسلے میں آیت کے اندر نہ کوئی اجمال ہے اور نہ ہی کوئی شرط۔ اگر ہم لفظ کو اس کے ظاہر پر رہنے دیں تو ہم ان صورتوں کو جائز قرار دے دیں جن پر تجارت کے اسم کا اطلاق ہوتا ہے لیکن اللہ تعالیٰ نے ان میں کچھ صورتوں کی نص کتاب اور سنت رسول اللہ ﷺ کے ذریعے تخصیص کردی ہے۔ اس لیے شراب، مردار ، خون ، سور کا گوشت اور کتاب اللہ میں حرام کی ہوئی تمام اشیاء کی بیع جائز نہیں ہے۔ کیونکہ تحریم کے لفظ کا اطلاع انتفاع کی تمام صورتوں کی تحریم کا مقتضی ہے اور حضور اکرم ﷺ کا ارشاد ہے (لعن اللہ الیہود حرمت علیہم الشحوم فباعوہا و اکلوا اثمانہا) یہود پر اللہ کی لعنت ہو، ان پر جانوروں کی چربی حرام کردی تھی لیکن انہوں نے اس کی خرید و فروخت شروع کردی اور اس سے حاصل شدہ پیسوں کو اپنے استعمال میں لے آئے) آپ نے شراب کے متعلق ارشاد فرمایا (ان الذ ی حرمہا حرم بیعہا و اکل ثمنہا ولعن بائعہا و مشتریہا، جس ذات نے شراب کی حرمت کا حکم دیا ہے اس نے ہی اس کی خرید و فروخت اور اس سے حاصل شدہ رقوم کو استعمال میں لانے کی حرمت کا حکم دیا ہے۔ اور اس نے ہی اس کے فروخت کنندہ اور خریدار دونوں کو لعنت کا مستوجب قرار دیا ہے۔ ) حضور اکرم ﷺ نے بیع غرر (ایسا سودا جس میں ثمن یا مبیع کے عدم تعین کی بنا پر دھوکے کا پہلو موجود ہو) بھاگے ہوئے غلام کی بیع اور قبضے نہ لی ہوئی چیز کی بیع نیز ایسی چیز کی بیع سے منع فرما دیا ہے جو انسان کے پاس موجود نہ ہو۔ غرض بیع کی ان تمام صورتوں کی ممانعت ہوگئی ہے جن میں عدم تعین کا کوئی پہلو موجود ہو یا دھوکے کی کوئی گنجائش ہو ان تمام صورتوں کی قول باری (إلا ان تکون تجارۃ عن تراض منکم) کے ظاہر سے تخصیص کردی گئی ہے۔ اس قول باری کی قرأ ت نصب اور رفع دونوں صورتوں سے کی گئی ہے۔ اگر لفظ ” تجارۃ کو منصوب پڑھا جائے تو عبارت کی ترتیب یہ ہوگی ”إلا ان تکون الاموال تجارۃ عن عراض “ إلا یہ کہ یہ اموال باہمی رضامندی کی بنیاد پر تجارت کی صورت میں ہوں) اس صورت میں باہمی رضامندی کی بنیاد پر کی جانے والی تجارت اکل مال کی نہی سے مستثنی ہوگی۔ کیونکہ آیت میں مذکورہ اکل بالباطل کبھی تجارت کے ذریعے ہوتا ہے اور کبھی غیر تجارت کے ذریعے ہوتا ہے۔ اس لیے باہمی رضامندی والی تجارت کو پورے جملے سے مستثیٰ کر کے واضح فرمادیا کہ تجارت اکل بالباطل کے ضمن میں ہے۔ جن حضرات نے اس لفظ کو رفع کے ساتھ پڑھا ان کے نزیک عبارت کی ترتیب یہ ہوگی ”إلا ان تقع تجارۃ “ (إلا یہ کہ تجارت کی صورت واقع ہو) جیسا کا شاعر کا قول ہے۔ فدی لنبی شیبان رحلی و ناقتی اذا کان یوم ذوکواکب اشہب بنو شیبان پر میرا کجاوہ اور میری اونٹنی قربان ہوجائیں جب ایسا دن پیش آئے جو بہت سخت ہو اور اس میں ستارے نکلے ہوئے ہوں ( اشارہ جنگ کے دن کی طرف ہے) شاعر کی مراد یہ ہے کہ جب ایسا دن پیش یئے جس کی یہ صفات ہوں۔ اگر آیت کو اس معنی پر محمول کیا جائے گا تو آیت میں وارد نہیں کا تعلق علی الاطلاق اکل مال بالباطل سے ہوگا اور اس سے کوئی صورت مستثنی نہیں ہوگی۔ اس شکل میں حرف إلا استثنا منقطع کے معنوں میں ہوگا۔ آیت کا مفہوم یہ ہوگا ” لیکن اگر باہمی رضامندی کی بنیاد پر تجارت کی صورت بن جائے تو اکل مال مباح ہوجائے گا “ آیت ان لوگوں کے قول کے بطلان پر دلالت کرتی ہے جو یہ کہتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے چونکہ باہمی رضامندی کی بنیاد پر تجارت مباح کردی گئی ہے اس لیے مکاسب یعنی پیشہ ورانہ کمائی اور ہنر مندی کی بنیاد پر حاصل ہونے والی روزی حرام ہے۔ درجِ بالا آیت کی طرح یہ آیات ہیں (و احل اللہ البیع، اللہ تعالیٰ نے بیع کو حلال کردیا) نیز ) فاذا قضیت الصلوۃ فانتشرو فی الارض وابتغوا من فضل اللہ، جب جمعہ کی نماز ادا ہوجائے تو زمین میں پھیل جاؤ اور اللہ کا فضل تلاش کرو۔ ) نیز (و اٰخرون یضربون فی الارض یبتفون من فضل اللہ و اٰخرون یقاتلون فی سبیل اللہ، کچھ دوسرے ایسے ہیں جو زمین پر چل پھر کر اللہ تعالیٰ کا فضل تلاش کر رہے ہیں اور کچھ دوسرے وہ ہیں جو اللہ کے راستے میں قتال کر رہے ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے جہاد فی سبیل اللہ ، کچھ دوسرے ایسے ہیں جو زمین پر چل پھر کر اللہ تعالیٰ کا فضل تلاش کر رہے ہیں۔ اور کچھ دوسرے وہ ہیں جو اللہ کے راستے میں قتال کر رہے ہیں) اللہ تعالیٰ نے جہاد فی سبیل اللہ کے ساتھ تجارت اور طلب معاش کی غرض سے زمین میں چلنے پھرنے کا ذکر فرمایا جو اس پر دلالت کرتا ہے کہ طلب معاش پسندیدہ امر ہے اور اس کی ترغیب دی گئی ہے۔ واللہ اعلم۔ بائع اور مشتری کا خیار فروخت کنندہ اور خریدار کو عقد بیع میں اپنی بات سے پلٹ جانے کا اختیار ہوتا ہے یا نہیں اس بارے میں اہم علم کے درمیان اختلاف رائے ہے۔ امام ابوحنیفہ (رح) ، امام ابویوسف (رح) ، امام محمد (رح) ، زفر (رح) ، حسن بن زیاد اور امام مالک (رح) کے نزدیک اگر دونوں نے کلام کے ذریعے عقد بیع کیا ہے یعنی ایک نے ایجاب کیا اور دوسرے نے اسے قبول کرلیا تو پھر انہیں اپنی بات سے پلٹ جانے کا اختیار نہیں ہوتا خواہ وہ جسمانی طور پر علیحدہ نہ بھی ہوئے ہوں۔ حضرت عمر ؓ سے اسی قسم کی روایت منقول ہیں۔ سفیان ثوری، لیث بن سعد، عبیداللہ بن الحسن اور امام شافعی (رح) کا قول ہے کہ بائع اور مشرتی جب عقد بیع کرلیں تو انہیں اس وقت تک اختیار ہوتا ہے جب تک جسمانی طور پر وہ ایک دوسرے سے علیحدہ نہ ہوجائیں۔ اوزاعی (رح) کا قول ہے کہ انہیں اختیار ہوتا ہے جب تک وہ ایک دوسرے سے علیحدہ نہ ہوجائیں۔ البتہ تین قسم کی بیع میں انہیں یہ اختیار نہیں ہوتا۔ اول بھیڑ بکریوں کی بیع میں بولی دے کر سودا طے کیا جاتا ہے، دوم میراث میں شراکت ۔ سوم تجارت میں شراکت۔ جب سودا طے ہوجائے تو بیع واجب ہوجائے گی اور انہیں اختیار نہیں رہے گا۔ ایک دوسرے سے علیحدگی کے وقت کا یہ پیمانہ یہ ہے کہ ہر ایک دوسرے کی نظروں سے اوجھل ہوجائے۔ لیث بن سعد کا قول ہے کہ اگر مجلس بیع سے ایک اٹھ کھڑا ہو تو تفرق ہوجائے گا جو لوگ خیار بیع کو ضروری سمجھتے ہیں ان کا قول ہے کہ جب طرفین میں سے ایک نے مجلس میں دوسرے کو سودا قبول کرنے کا اختیار دے دیا اور اس نے اختیار کرلیا تو بیع واجب ہوگئی حضرت ابن عمر ؓ سیخیار مجلس کا قول منقول ہے۔ ابوبکر جصاص (رح) کہتے ہیں قول باری تعالیٰ (ولا تأکلوا اموالکم بینکم بالباطل إلا ان تکون تجارۃ عن تراض منکم) اس بات کا مقتضی ہے کہ جب باہمی رضامندی سے بیع کا معاملہ طے ہوجائے تو دونوں کی ایک دوسرے سے علیحدگی سے پہلے اکل کا جواز ہے کیونکہ عقد بیع میں ایجاب و قبول کا نام ہی تجارت ہے۔ تفرق اور اجتماع کا تجارت سے کوئی تعلق نہیں ہے اور نہ اسے شرع اور لغت میں تجارت کے نام سے موسوم کیا جاتا ہے جب اللہ تعالیٰ نے باہمی رضامندی سے واقع ہونے والی تجارت میں خریدی ہوئی چیز کو کھا لینا مباح کردیا ہے تو خیار کے ایجاب کے ذریعے اس میں رکاوٹ ڈالنے والا ظاہر آیت سے باہر نکل جانے والا اور دلالت کے بغیر آیت کی تخصیص کرنے والا قرار پائے گا۔ اس پر یہ قول باری بھی دلالت کرتا ہے۔ (یایہا الذین امنوا اوفوا بالعقود، اے ایمان والو ! عقود کو پورا کرو) اللہ تعالیٰ نے عقد کرنے والے ہر شخص پر اس امر کو پورا کرنا لازم کردیا جس کی اس نے اپنی ذات پر گرہ باندھ لی ہو۔ اور یہ عقد بیع بھی ایسا امر ہے جس کی گرہ بائع اور مشتری میں سے ہر ایک نے اپنی ذات پر باندھ لی ہے اس لیے ہر ایک پر اسے پورا کرنا بھی لازم ہے۔ اب خیار کا اثبات کر کے گویا اس عقد کو پورا کرنے کے لزوم کی نفی کردینا ہے اور یہ چیز ییت بکے مقتضیٰ کے خلاف ہے ۔ اس پر یہ قول باری بھی دلالت کرتا ہے (اذا تداینتم بدین الی اجل مسمی فاکتبوہ، جب کسی مقررہ مدت کے لیے تم آپس میں قرض کالین دین کرو تو اسے لکھ لیا کرو) گواہ دستیاب نہ ہونے کی صورت میں رہن رکھنے کا حکم دیا جو ثمن یعنی فروخت شدہ چیز کی قیمت کے لیے وثیقہ اور ضمانت کا کام دے گا۔ عقدبیع کرنے کی صورت میں اسے علیحدہ ہونے سے پہلے اس کام کا حکم دیا گیا ہے کیونکہ قول باری ہے ( (اذا تداینتم بدین الی اجل مسمی فاکتبوہ، آپس میں قرض کا لین دین کرتے وقت اسے لکھ لینے کا حکم دیا نیز لکھنے میں انصاف کو مدنظر رکھنے کا حکم دیا اور لکھوانے کا اسے حکم جس کے ذمے قرض ہو۔ یہ اس بات کی دلیل ہے کہ اس نے قرض کا جو لین دین کیا ہے اس کی وجہ سے اس کے ذمے اس ارشاد باری (ولیملل الدی علیہ الحق ولیتق اللہ ربہ و لایبخس منہ شیئا، اور املا وہ شخص کرائے جس پر حق آتا ہے یعنی قرض لینے والا، اور اسے اللہ، اپنے رب سے ڈرنا چاہیئے کہ جو معاملہ طے ہوا ہو اس میں کوئی کمی بیشی نہ کرے) کی رو سے قرض کا ثبوت ہوگیا ہے۔ اگر قرض کا یہ لین دین علیحدگی سے قبل ہی اس پر حق کو واجب نہ کردیتا تو اللہ تعالیٰ یہ فرماتا کہ (والیملل الذی علیہ الحق) نیز اسے کمی بیشی نہ کرنے کی تلقین بھی نہ کی جاتی جبکہ ابھی اس پر کسی چیز کا ثبوت ہی نہیں ہوا ہے اس لیے کہ اس کے حق میں خیار کا ثبوت اسے قرض کے ثبوت سے مانع ہے جو فروخت کنندہ کے لیے اس کے ذمے لازم ہوچکا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے اپنے ارشد (والیملل الذی علیہ الحق) میں قرض کے لین دین کی صورت میں اس برحق ثابت کر کے خایر کی نفی اور معاملہ کی قععیت کے اثبات کی دلیل مہیا کردی ہے۔ پھر فرمایا (وستشہدوا شہیدین من رجالکم، اور اپنے مردوں میں دو گواہ بنالو) تاکہ مال کی پوری پوری حفاظت ہوجائے اور فروخت کنندہ کو مقروض کے انکار یا ادائیگی سے قبل اس کی موت کی صورت میں تحفظ حاصل ہوجائے۔ پھر فرمایا (ولا تسأموا ان تکتبوہ صغیر او کبیرا الی اجلہ ۔ ذلکم اقسط عند اللہ و اقوم لشہادۃ و ادنی الا ترتابوا، معاملہ خواہ چھوٹا ہو یا بڑا میعاد کے تعین کے ساتھ اس کی دستاویز لکھوا لینے میں تساہل نہ کرو۔ اللہ تعالیٰ کے نزیک یہ طریقہ تمہارے لیے زیادہ مبنی بر انصاف ہے۔ اس سے شہادت قائم ہونے میں زیادہ سہولت ہوتی ہے اور تمہارے شکوک و شبہات میں مبتلا ہونے کا امکان کم رہ جاتا ہے) اگر دونوں کے لیے علیحدگی سے قبل خیار ہوتا تو گواہ بنانے میں احتیاط کا کوئی پہلو نہ رہ جاتا اور نہی ہی اس سے شہادت قائم ہونے میں زیادہ سہولت ہوتی کیونکہ اس صورت میں گواہ کے لیے مال کے ثبوت کی گواہی دینا ممکن نہ ہوتا۔ پھر ارشاد ہوا ( واشہدا اذا تبایعتم، اور جب آپس میں تجارتی لین کرو توگواہ کرلیا کرو) اس میں وقت کا لحاظ رکھا گیا ہے اس لیے یہ اس بات کا مقتضی ہے کہ آپس میں لین دین کے وقت گواہی قائم کرنے کا حکم ہے علیجدگی کا اس میں کوئی ذکر نہیں ہے۔ پھر حالت سفر میں رہن رکھنے کا حکم دیا گیا ہے جو حالت حضر میں گواہی کے ذریعے احتیاطی تدبیر کا بدل ہے۔ اس لیے خیار کے اثبات سے رہن کا ابطال لازم آتا ہے کیونکہ ایسے قرض کے بدلے جو ابھی تک واجب الذمہ نہیں ہوا رہن رکھوانا درست نہیں ہے۔ اس لیے آیت کے ضمن میں موجود امور یعنی ادھار لین دین اور تجارتی لین دین پر گواہ بنانے کا حکم نیز مال کی حفاظت کے لیے کبھی گواہی قائم کر کے اور کبھی رہن رکھ کر احتیاطی اقدام کی بناپر آیت کی اس پر دلالت ہو رہی ہے کہ عقد نے خریدار کے لیے مبیع کی ملکیت اور فروخت کنندہ کے لیے ثمن کی ملکیت واجب کردی ہے۔ اور اب ان کے لیے خیار باقی نہیں رہا۔ کیونکہ خیار کا اثبات گواہی قائم کرنے، رہن رکھنے اور قرض کے اقرار کی صحت کے منافی ہے۔ اگر یہ کہا جائے کہ گواہ بنانے اور رہن رکھنے کا حکم دو میں سے ایک صورت پر محمول ہوگا یا تو یہ کہ گواہ عقد کے موقع پر موجود ہوں اور ان کے سامنے عقد کرنے والے دونوں فریق ایک دوسرے سے علیحدہ ہوجائیں اس صورت میں عقد بیع کی صحت اور ثمن کے لزوم سے متعلق ان کی گواہی درست ہوسکتی ہے یا یہ کہ دونوں فریق آپس میں قرض کا لین دین کریں اور پھر علیحدہ ہوجائیں اور اس کے بعد گواہوں کے سامنے اس کا اقرار کرلیں اور پھر ان کے اقرار کی بنیاد پر گواہ عقد بیع یا قرض کے بدلے رہن کی گواہی دیں اور اس طرح یہ درست ہوجائے۔ اس کے جواب میں یہ کہا جائے گا کہ پہلی بات تو یہ ہے کہ تمہاری بیان کردہ دونوں وجہیں نہ صرف آیت کے خلاف ہیں بلکہ ان سے آیت کے ضمن میں موجود بات کا ابطال لازم آتا ہے جس کے تحت گواہی قائم کرنے اور رہن رکھنے کے احتیاطی اقدام کا حکم دیا گیا اس لیے کہ ارشاد باری ہے (اذا تداینتم بدین الی اجل مسمی فاکتبوہ) تا قول باری (واستشہدوا شہیدین) ادھار لین دین کی صورت میں فوری طور پر کسی وقفہ کے بغیر گواہ قائم کرنے کا حکم طرفین کے لیے احتیاطی تدبیر کے طور پر دیا گیا ہے اور معترض کا خیال یہ ہے کہ علیحدگی کے بعد گواہی قائم کی جائے گی جبکہ اس بات کی گنجائش ہوتی ہے علیحدگی سے پہلے ہی مال ہلاک ہوجائے اور اس طرح قرض ڈوب جائے یا یہ کہ مقروض اس وقت تک انکار کرتا رہے جب تک یہ دونوں ایک دوسرے سے علیحدہ ہوکر گواہ نہ بنالیں اس صورت میں یہ گنجائش ہے کہ اس کی موت واقع ہوجائے اور فروخت کنندہ کو گواہی قائم کرنے کے ذریعے اپنے مال کو محفوظ کرلینے کا موقع ہی نہ ملے جبکہ ارشاد باری ہے (واشہدوا اذا تبایعتم) اللہ تعالیٰ نے باہمی لین دین کے انعقاد پر گواہی قائم کرنے کی ترغیب دی ہے۔ اللہ تعالیٰ نے یہ نہیں فرمایا کہ ” جب تم باہمی لین دین کرو اور ایک دوسرے سے علیحدہ ہوجاؤ تو گواہی قائم کرو۔ “ اس لیے خیار کو واجب کرنیوالا آیت میں ایسے تفرق کا اثبات ہے جو آیت میں موجود نہیں ہے۔ آیت کے حکم میں ایسا اضافہ کسی طرح جائز نہیں ہے جو آیت ی میں موجود نہ ہو اور اگر فریقین علیحدگی کے بعد تک کے لیے گواہی قائم کرنے کے معاملے کو مؤخر کر یدں تو اس صورت میں وہ احتیاط نظر انداز ہوجائے گی جس کی خاطر گواہی قائم کرنے کی ترغیب دی گئی ہے۔ اور عین ممکن ہے کہ گواہی قائم ہونے سے پہلے ہی خریدار کی موت ہوجائے یا وہ انکار کر بیٹھے۔ اس صورت میں خیار کا ایجاب احتیاط کے مفہوم کو ساقط کر دے گا اور گواہوں کے ذریعے مال کے تحفظ کا معاملہ بھی ختم ہوجائے گا۔ یہ پوری وضاحت اس بات کی دلیل ہے کہ ایجاب وقبول کے ذریعے حتمی طور پر بیع کا انعقاد ہوجاتا ہے اور طرفین میں سے کسی کے لیے بھی خیار باقی نہیں رہتا۔ اگر یہ کہا جائے کہ اگر بائع اور مشتری عقد بیع میں تین دنوں تک خیار کی شرط لگا دیں تو خیار شرط کے باوجود گواہی قائم کرنا درست ہوتا ہے اور اس صورت میں آیت مداینہ میں مذکورہ احکام یعنی دستاویز کی تحریر، گواہی کا قیام اور رہن رکھنے کا اقدام شرط خیار کے ساتھ اس بیع کے انعقاد پذیر ہونے اور اس پر گواہی قائم کرنے کی صحت کی راہ میں رکاوٹ نہیں بنتے۔ اسی طرح خیار مجلس کا اثباب بھی گواہی اور رہن کی صحت کی منافی نہیں ہے۔ اس کے جواب میں کہا جائے گا کہ آیت گواہی قائم کرنے کے ذکر کے ساتھ شرط خیار والی بیع کے ذکر کو متضمن نہیں ہے اور یہ حتمی صورت والی بیع کو متضمن ہے۔ ہم نے خیار کی شرط کو ایک دلالت کی بنا پر جائز قرار دیا ہے جس کے ذریعے ہم نے عقود مداینت کی ان تمام صورتوں میں سے جو آیت کے مدلول ہیں خیار کی شرط کی صورت کی تخصیص کردی ہے اور آیت کے حکم کو بیع کی ان تمام صورتوں میں جاری کردیا ہے جو خیار کی شرط سے خالی ہیں۔ اس لیے ہم نے شرط خیار والی بیع کی جن صورتوں کو جائز قرار دیا ہے وہ آیت کے حکم پر عمل کی راہ میں رکاوٹ نہیں بنتی ہیں اور آیت میں گواہی قائم کرنے، رہن رکھنے اور دستاویز لکھانے نیز خیار کی شرط سے خالی بیع کی صورتوں میں عقد بیع کرنے والے کے اقرار کی صحت کیک جن احتیاطی اقدامات کا ذکر ہے ان پر عمل ہوتا ہے۔ باقی رہی بیع کی وہ صورت جس میں خیار کی شرط لگا دی گئی ہو وہ آیت کے حکم کے دائرے سے باہر ہے اور آیت میں مراد بھی نہیں ہے جب تک خیار کا سقوط ہوکر بیع کی تکمیل نہ ہوجائے اس کی وجوہات ہم گذشتہ سطور میں بیان کر آئے ہیں۔ پھر اس صورت میں بائع اور مشتری کو اقرار پر گواہی قائم کرنے کی ترغیب ہوگی، آپس کے سودے اور بیع پر گواہی قائم کرنے کی ترغیب نہیں ہوگی۔ اگر ہم بیع کی ہر صورت میں خیار کا اثبات کردیتے اور بیع ہمارے مخالفین کے مسلک کے مطابق اتمام کے مراحل طے کرلیتی تو پھر کوئی ایسی صورت باقی نہ رہ جاتی جس میں آیت کے حکم پر اس کے مقتضیٰ اور مراد کے مطابق عمل ہوسکتا۔ ایک اور پہلو سے غور کیجئے بیع میں خیار کے اثبات کی ضرورت صرف اس صورت میں پیش آتی ہے۔ جہاں بیع پر پوری آمادگی نہ ہو تاکہ طرفین میں سے ہر ایک کو مزید سوچنے اور بیع کو قطعی صورت دینے یا ختم کرنے کے فیصلے تک پہنچنے کے لیے مہلت مل جائے۔ اس کے برعکس اگر طرفین نے باہمی رضامندی سے کوئی عقدِ بیع کرلیا ہو اور اس میں خیار کی شرط بھی لگائی ہو تو اس صورت میں طریفین میں سے ہر ایک سودے کی روشنی میں فریق آخر کو ملنے والی چیز کی تملیک پر رضا مندی کی موجودگی میں خیار کا اثبات ایک بےمعنی سی بات ہوگی بلکہ رضامندی کا وجود خیار کے لیے مانع بن جائے گا۔ آپ دیکھ سکتے ہیں کہ خیار مجلس کا اثبات کرنے والوں کے نزدیک اس میں کوئی اختلاف نہیں ہے کہ جب عقد بیع کی مجلس میں طرفین میں سے ایک دوسرے فریق سے کہے کہ پسند کرلو تو اگر وہ پسند کرلے اور رضامند ہوجائے تو اس کی وجہ سے دونوں کا خیار باقی نہیں رہے گا حالانکہ اس صورت کے اندر اس سے زیادہ اور کچھ نہیں ہوتا کہ دونوں کی طرف سے بیع کے نفاذ پر رضامندی کا اظہار ہوتا ہے۔ لیکن چونکہ نفس عقد کی بنا پر دونوں کی رضامندی موجود ہوتی ہے اس لیے انہیں دوبارہ رضامندی کے حصول کی ضرورت نہیں رہتی۔ اس لیے کہ اگر عقد کی بنا پر ابتدا ہی سے دونوں کی رضامندی کے بعد ایک اور رضامندی کی شرط درست ہوتی تو پھر دوسری اور تیسری رضامندی کی شرط بھی جائز ہوجاتی اور یہ بھی ہوتا کہ دونوں کی رضامندی تیسری اور چوتھی دفعہ خیار کے لیے مانع نہ ہوتی جب یہ صورت درست قرار نہیں پائی تو یہ بات درست ہوگئی کہ بیع پر ان کی رضامندی ان کے خیار کو باطل کردیتی ہے اور بیع کی تکمیل ہوجاتی ہے۔ اب رہی یہ بات کہ بیع میں خیار شرط کیوں درست ہے تو اس کی وجہ یہ ہے کہ جس فریق کی طرف سے خیار کی شرط لگائی گئی ہے اس کی طرف سے اپنی ملکیت سے کسی چیز کے اخراج رضامندی کا اس وقت اظہار نہیں ہوا تھا جب اس نے اپنے لیے خیار کی شرط رکھی تھی اس بنا پر ایسے عقد بیع میں خیار کا اثبات درست ہوگیا تھا۔ اگر یہ کہا جائے کہ آپ نے بیع پر رضامندی کے اظہار کے باوجود خیار رویت اور خیار عیب کو اثبات کردیا اور اس طرح بیع پر ان دونوں کی رضامندی خیار کے اثبات کی راہ میں حائل نہیں ہوئی تو اسی طرح بیع پر ان دونوں کی رضامندی کو خیار مجلس کے اثبات کی راہ یمں حائل نہیں ہونا چاہیئے۔ اس اعتراض کا یہ جواب ہے کہ خیار رویت اور خیار عیب کا خیار مجلس سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ خیار رویت عقد بیع میں طے شدہ معاملے کے مطابق مبیع اور ثمن کو مشتری اور بائع کی ملکیت میں چلے جانے کی راہ میں حائل نہیں ہوتا کیونکہ بیع پر طرفین کی رضامندی موجود ہوتی ہے۔ اس لیے اس خیار کو ملکیت کی نفی میں کوئی عمل دخل نہیں ہوتا بلکہ اس خیار کے ہوتے ہوئے بھی طرفین کی رضامندی کی بنا پر مبیع اور ثمن پر ملکیت ثابت ہوجاتی ہے جبکہ خیار مجلس کے قائلین کے نزدیک اس حقیقت کے باوجود کہ طرفین میں سے ہر ایک متعلقہ شئ یعنی مبیع یا ثمن کو دوسرے کی ملکیت میں دینے پر رضامند ہوتا ہے پھر بھی خیار مجلس دونوں کے لیے متعلقہ شئ کو اپنی ملکیت میں لینے کی راہ میں رکاوٹ بنا رہتا ہے۔ اس لیے اگر ابتدا ہی سے رضامندی کا یوں اظہار ہوجائے کہ ایک فریق دوسرے فریق کے بیے بیع واجب کر دے یا رضامندی کا اظہار ان الفاظ میں کر دے کہ ” میں تو راضی ہوں اب تم بھی پسند کرلو “ اور اس کے جواب میں دوسرا شخص بیع پر راضی ہوجائے تو ان دونوں صورتوں میں کوئی فرق نہیں ہے۔ ملکیت کے ثبوت کے لحاظ سے خیار رویت اور خیار عیب والی بیع میں اور اس بیع میں کوئی فرق نہیں جس میں ان دونوں میں سے کوئی خیار موجود نہ ہو فرق صرف اس لحاظ سے ہوتا ہے کہ ایک صورت کے اندر ملکیت کے لیے غیر مانع خیار یعنی خیار رویت یا خیار عیب موجود ہوتا ہے۔ اور دوسری صورت کے اندر موجود نہیں ہوتا۔ اور اس خیار کا وجود بھی صرف اس لیے ہوتا ہے کہ مشتری کو مبیع کی صفات کا علم نہیں ہوتا جس کی بنا پر خیار رویت کی گنجائش رکھی جاتی ہے یا مبیع کو کسی ایسے جز کی عدم موجودگی کی بنا پر جس کا عقد بیع کی رو سے موجود ہونا ضروری ہوتا ہے خیار عیب کی گنجائش پیدا کی جاتی ہے۔ عقدبیع پر راضی ہوجانا ملکیت کا موجب بن جاتا ہے اس پر یہ بات دلالت کرتی ہے کہ تمام لوگوں کا اس پر اتفاق ہے کہ اگر بائع اور مشتری ایک دوسرے سے علیحدہ ہوجائیں تو ہر ایک کو اپنی متعلقہ چیز یعنی مبیع یا ثمن کی ملکیت حاصل ہوجاتی ہے اور خیار باطل ہوجاتا ہے۔ ادھر ہم یہ جانتے ہیں کہ علیحدگی نہ تو رضامندی پر دلالت کرتی اور نہ ہی عدم رضاپر اس لیے کہ مجلس عقد سے چلے جانے اور وہاں موجود رہنے کا حکم اس لحاظ سے یکساں ہے کہ دونوں صورتوں میں رضامندی یا عدم رضا کے ساتھ اس کی دلات کا کوئی تعلق نہیں ہوتا۔ جس سے ہمیں یہ بات معلوم ہوگئی کہ ابتدا ہی سے عقد پر رضامندی کی بنا پر ملکیت واقع ہوئی، ایک دوسرے سے علیحدگی کی بنا پر ملکیت واقع نہیں ہوئی۔ نیز ایک وجہ یہ بھی ہے کہ اصول میں ایسی کوئی علیحدگی نہیں ہے کہ جس کے ساتھ عقد کی تصیح و تملیک کا تعلق ہو بلکہ اصول میں یہ بات موجود ہے کہ علیحدگی بہت سے عقود کے فسخ میں مؤثر ہوتی ہے اس کی ایک صورت سونے چاندی کی بیع میں قبضے سے پہلے علیحدگی ہے، اسطرح بیع سلم میں راس المال پر قبضہ کرنے سے پہلے ایک دوسرے سے علیحدہ ہوجانا بھی اس میں شامل ہے۔ اس کی ایک مثال دین کے بدلہ دین کی بیع ہے جس میں ثمن اور مبیع میں سے کسی ایک کی تعیین سے قبل اگر علیحدگی ہوجائے تو بیع فسخ ہوجاتی ہے۔ جب ہم نے اصول میں علیحدگی کو بہت سے عقود کے ابطال میں مؤثر پایا جو از میں مؤثر نہ پایا، اور ساتھ ہی ساتھ ہمیں اصول میں کوئی ایسی علیحدگی نظر نہیں آئی جو عقد کی تصحیح اور جواز میں کردار ادا کرتی ہو۔ تو اس سے یہ بات ثابت ہوگئی کہ عقد کو درست قرار دینے میں خیار مجلس اور بائع و مشتری کی ایک دوسرے سے علیحدگی کا اعتبار نہ صرف اصول سیخارج ہے بلکہ ظاہر کتاب اللہ کے بھی مخالف ہے۔ ایک وجہ یہ بھی ہے کہ سنت اور اتفاق سے یہ بات ثابت ہوچکی ہے کہ بیع صرف کی ایک شرط یہ ہے کہ درست قبضے کے بعد بائع اور مشتری کی ایک دوسرے سے علیحدگی ہو اگر عقد صرف میں ثمن اور مبیع پر طرفین کے قبضے کے ساتھ ساتھ خیار مجلس کا بھی ثبوت ہو تو دوسری طرف جب تک خیار مجلس باقی رہتا ہے اس وقت تک عقد بیع کی تکمیل نہیں ہوتی۔ ۔ تو اس کا نتیجہ یہ نکلے گا کہ جب بائع اور مشتری ایک دوسرے سے جدا ہوجائیں گے اس عقد کا درست ہونا جائز نہ قرار دیا جائے کیونکہ اس عقد کی خصوصیت یہ ہے کہ اس درست ہوجانے سے قبل طرفین کی علیحدگی اسے باطل کردیتی ہے۔ جب یہ صورت ہو کہ عقد ابھی درست نہیں ہوا ہے اور طرفین ایک دوسرے سے علیحدہ ہوگئے ہیں تو یہ جائز نہیں ہوگا کہ طرفین کی علیحدگی کی بنا پر یہ عقد درست ہوجائے کیونکہ اس صورت میں اس عقد کی صحت کا موجب بھی وہی سبب بنے گا جو اس کے بطلان کا موجب ہے۔ خیار مجلس کی نفی پر حضور اکرم ﷺ کا یہقول بھی دلالت کرتا ہے کہ (لا یحل ما امرئ سلم الا بطیبۃ من نفسہ، کسی مسملان کا مال لے لینا حلال نہیں ہے اِلّا یہ کہ وہ خوش دلی کے ساتھ خود کچھ دے دے) اس حدیث میں آپ ﷺ نے خوش دلی کی شرط کے ساتھ مال کی حلت کا حکم لگا دیا ہے اور یہ خوش دلی عقد بیع کے ساتھ وجود میں آجاتی ہے۔ اس لیے حدیث کے مقتضی کے مطابق ہر ایک کے لیے دوسرے کے مال کی ثمن اور مبیع کی صورت میں حلت ہوجانی چاہیئے۔ اس پر حدیث کی دلالت اس قول باری (الا ان تکون تجارۃ عن تراض منکم) کی دلالت کی طرح ہے۔ اس پر حضور اکرم ﷺ کی وہ حدیث بھی دلالت کرتی ہے جس میں آپ ﷺ نے طعام یعنی خوردنی شئ کی بیع سے منع فرمایا ہے جب تک اس کا گذر دو صاعوں سے نہ ہوجائے پہلے وہ فروخت کنندہ کے صاع (ناپ کا ایک پیمانہ) سے گذرے اور پھر خریدار کے صاع سے گذر جائے۔ آپ ﷺ نے اس کی بیع کے جواز کا حکم دے دیا۔ جب یہ دو صاعوں میں سے گذر جائے اور اس میں بائع اور مشتری کی ایک دوسرے سے علیحدگی کی شرط نہیں رکھی اس بنا پر یہ ضروری ہوگیا کہ مشتری جب اس کے بائع سے اسے ناپ تول کر اپنے قبضے میں کرلے تو اسی مجلس میں آگے اس کی بیع بھی جائز ہوجائے۔ جبکہ حضور اکرم ﷺ کا ارشاد ہے کہ (ومن ابتاع طعاما فلایبعہ حتی یقبضہ، جو شخص کوئی طعام خریدے توا سے اپنے قبضے میں لیے بغیر آگے فروخت نہ کرے) جب آپ نے قبضے میں لینے کے بعد اس کی فروخت کی اباحت کا حکم دے دیا اور اس میں بائع اور مشتری کی علیحدگی کی شرط نہیں لگائی تو اس حدیث کے مقتضی کے مطابق اگر مشتری نے مجلس عقد میں اس پر قبضہ کرلیا ہو تو اسی مجلس میں اس کی آگے فروخت درست ہوجائے گی۔ یہ بات فروخت کنندہ کے خیار کی نفی کرتی ہے۔ کیونکہ جس مال میں ابھی بائع کے لیے خیار موجود ہو اس میں مشتری کا تصرف جائز نہیں ہوسکتا۔ اس پر حضور اکرم ﷺ کا یہ ارشاد بھی دلالت کرتا ہے کہ (من باع عبدا ولہ مال فمالہ للبائع الا ان یشترط المبتاع و من باع نخلا ولہ ثمرۃ فثمرتہ للبائع الا ان یشترط المبتاع) ۔ جس شخص نے کوئی غلام فروخت کیا تو اس غلام کے پاس اگر کوئی مال ہوگا تو وہ فروخت کنندہ کا ہوگا الا یہ کہ خریدار عقد بیع میں اس مال کی بھی شرط لگا چکا ہو، اس طرح جس شخص نے کسی کے ہاتھ کھجور کے درخت فروخت کیے ہوں تو ان درختوں میں لگا ہوا پھل فروخت کنندہ کا ہوگا الا یہ کہ خریدار نے اس کی شرط لگا دی ہو) ۔ آپ ﷺ نے شرط کی بنا پر درخت کے پھل اور غلام کے مال کو خریدار کے قبضے میں دے دیا۔ اور ایک دوسرے سے علیحدگی کا ذکر نہیں فرمایا جبکہ یہ بات محال ہے کہ خریدار اصل شئ کی ملکیت کے بغیر جس پر عقد بیع ہوا ہے ان چیزں کا مالک بن جائے۔ یہ بات اس پر دلالت کرتی ہے کہ نفس عقد کے ساتھ مبیع پر خریدار کی ملکیت واقع ہوجاتی ہے۔ اس پر حضور اکرم ﷺ کا یہ ارشاد مبارک بھی دلالت کرتا ہے کہ جس کی رویات حضرت ابوہریرہ ؓ نے کی ہے۔ کوئی بیٹا اپنے باپ کو اس کے احسانات کا بدلہ نہیں چکا سکتا۔ ایک صورت میں ایسا ہوسکتا ہے کہ وہ اپنے باپ کو کسی غلامی کے اندر پائے اور پھر اسے خرید کر کے آزاد کر دے۔ فقہاء کا اس پر اتفاق ہے کہ بیٹے کو نئے سرے اپنے باٹ کو آزاد کرنے کی ضرورت نہیں ہے کیونکہ باپ پر بیٹے کی ملکیت کی صحت کیساتھ ہی باپ کو خود بخود آزادی مل جائے گی اس طرح حضور اکرم ﷺ نے باپ کی خریداری کیساتھ ہی اس کی آزادی واجب کردی اور اس عمل کے لیے مشتری یعنی بیٹے اور بائع کی ایک دوسرے سے علیحدگی کی کوئی شرط نہیں لگائی۔ عقلی طور پر اس طرح دلالت ہو رہی ہے کہ عقد بیع کی مجلس کبھی طویل ہوجاتی ہے اور یہی مختصر اگر ہم خیار مجلس پر ملکیت کے وقوع کو موقوف کردیں تو یہ بات اس عقد کے بطلان کی موجب بن جائے گی۔ کیونکہ اس صورت میں خیار کی وہ مدت مجہول ہوتی ہے جس پر ملکیت کے وقوع کو موقوف رکھا جاتا ہے۔ آپ نہیں دیکھتے کہ اگر کسی نے کسی کے ساتھ قطعی طور پر سوا مکمل کرلیا ہو لیکن دونوں نے مجلس میں کسی ایک خاص شخص کی نشت کی مدت تک خیار کی بھی شرط لگا دی ہو تو یہ بیع باطل ہوجائے گی کیونکہ اس صورت میں وہ مدت مجہول ہے جس کے ساتھ عقد بیع کی صحت کو معلق کردیا گیا تھا۔ خیار مجلس کے قائلین نے اس حدیث سے استدلال کیا ہے جو حضرت ابن عمر ؓ، حضرت ابوبرزہ ؓ اور حضرت حکیم بن حزام ؓ کے واسطے سے حضور اکرم ﷺ سے مروی ہے۔ آپ ﷺ نے فرمایا (المتبایعان بالخیار مالم یفترقا، بیع کرنے والے طرفین یعنی بائع اور مشتری دونوں کو اس وقت تک اختیار ہوتا ہے جب تک ایک دوسرے سے علیحدہ نہ ہوجائیں۔ نافع نے حضرت ابن عمر ؓ سے اور انہوں نے حضور اکرم ﷺ سے رویات کی ہے کہ آپ ﷺ نے فرمایا (اذا تبایع المتبایعان بالبیع فکل واحد منہما بالخیار من بائعہ مالم یفترقا او یکون بیعہما ہن خیار فاذاکان عن خیار فقد وجب، جب دو شخص آپ میں عقد بیع کریں تو ان میں سے ہر شخص کو دوسرے کیساتھ (اسے باقی رکھنے یا رد کرنے) کا اختیار ہوتا ہے جب تک یہ ایک دوسرے سے علیحدہ نہ ہوجائیں) ۔ ہاں اگر ان کا یہ عقد بیع خیار کے ساتھ کیا گیا ہو تو ایسی صورت میں خیار واجب ہوجائے گا حضرت عمر ؓ کا طریقہ کار یہ تھا کہ جب آپ کسی سے سودا کرتے اور اسے اختیار نہ دیتے اور نہ ہی سودے کز ختم کرنے کا ارادہ کرتے تو مجلس عقد سے اٹھ کھڑے ہوتے تو تھوڑی دیر تک قدموں سے چلنے کے بعد واپس آجاتے۔ خیار مجلس کے قائلین نے حضور اکرم ﷺ کے ظاہر قول (المتبایعان بالخیار مالم یفترقا) سیاستدلال کیا ہے۔ حضرت ابن عمر ؓ جو اس حدیث کے راوی ہیں انہوں نے بھی حضور اکرم ﷺ سے جسمانی طور پر ایک دوسرے سے علحدگی مراد سمجھی تھی۔ ابوبکر جصاص کہتے ہیں کہ حضرت ابن عمر ؓ کے اپنے فعل کی جس رویت کا ذکر کیا گیا ہے تو اس کی اس بات پر دلالت نیہں ہے کہ حضرت ابن عمر ؓ کا مسلک بھی یہی تھا۔ کیونکہ اس میں اس بات کا امکان ہے کہ حضرت ابن عمر ؓ یہ سمجھتے ہوں کہ ان کا فروخت کنندہ خیار مجلس کا قائل ہے جس کی بنا پر انہیں اس شخص سے اسی بات کا خطرہ در پیش ہو جو مبیع کی تمام عیوب سے برأ ت کے سلسلے میں ایک دفعہ پیش آچکی تھی۔ حتی کہ معاملہ حضرت عثمان غنی ؓ کے سامنے پیش ہوا تھا اور حضرت عثمان غنی ؓ نے حضرت ابن عمر ؓ کی رائے کیخلاف فیصلہ دیا تھا اور برأت کو اسی صورت میں قابل قبول قرار دیا تھا جب خریدار کے سامنے حضرت ابن عمر ؓ کی طرف سے اس کی وضاحت کردی جاتی۔ حضرت ابن عمر ؓ سے ایسی روایت بھی منقول ہے جس اس بات کی موافقت پر دلالت کرتی ہے۔ یہ روایت ابن شہاب نے حمرہ بن عبداللہ بن عمر ؓ سے اور انہوں نے اپنے والد سے کی ہے کہ جس مبیع پر سودا ہوجائے جبکہ مبیع موجود اور زندہ ہو تو وہ خریدار کا مال بن جاتا ہے۔ یہ قول اس بات پر دلالت کرتا ہے کہ حضرت ابن عمر ؓ کی رائے یہ تھی کہ سودا ہوجانے کے ساتھ ہی مبیع خریدار کی ملکیت میں آجاتا ہے اور فروخت کنندہ کی ملکیت سے نکل جاتا ہے یہ بات خیار کی نفی کرتی ہے۔ رہ گیا حضور اکرم ﷺ کا یہ قول کہ (المتبایعان بالخیار مالم یفترقا) اور بعض روایات کے الفاظ میں (البائعان بالخیار ما لم یفرتقا) تو اس قول کا حقیقی مفہوم یہ ہے کہ طرفین کو سودا طے کرتے ہوقت یعنی مول تول کرنے کی حالت میں اختیار ہوتا ہے۔ لیکن جب سوا قطعی طور پر طے ہوجائے اور بیع پر طرفین کی رضامندی کا اظہار ہوجائے تو بیع کی تکمیل ہوجاتی ہے اور پھر سا حالت میں حقیقت کے لحاظ سے طرفین متبایع نہیں رہتے جس طرح ایسے دو شخصوں کو اسی وقت متضارب اور متقابل کا نام دیا جاتا ہے جب وہ ایک دوسرے کو ضرب لگانی اور ایک دوسرے کا مقابلہ کرنے کی حالت میں ہوتے ہیں۔ لیکن اس حالت کے ختم ہوجانے پر انہیں علی الاطلاق ان ناموں سے موسوم نہیں کیا جاتا بلکہ یہ کہا جاتا ہے کہ یہ دونوں شخص متضارب و متقابل تھے جب حدیث کے لفظ کے معنی کی حقیقت وہ ہے جو ہم نے بیان کردی تو اختلافی نکتے پر اس لفظ سے استدلال درست نہیں رہا۔ اگر یہ کہا جائے کہ آپ کی اس تاویل سے حدیث کا فائدہ ساقط ہوجاتا ہے کیونکہ کسی شخص کو اسے بارے میں کوئی اشکال نہیں ہے کہ بائع اور مشتری عقد پر رضا مندی سے قبل جب بھاؤ لگانے اور مول تول کرنے کے مرحلے میں ہوتے ہیں تو دونوں کو اس سودے کے قبول کرنے یا ترک کردینے کا اختیار ہوتا ہے۔ اس لیے حدیث میں ایسے خیار کے ذکر کا کوئی فائدہ نہیں۔ اگر یہ اعتراض کیا جائے تو اس کے جواب میں کہا جائے گا کہ معترض کے قول کے برعکس حدیث کے اندر ایک بڑا فائدہ موجود ہے۔ ۔ اس بات کا امکان تھا کہ کوئی یہ خیار نہ کر بیٹھے کہ جب فروخت کنندہ خریدار سے کہہ دے ” میں نے فلاں چیز تمہارے ہاتھ فروخت کردی “ تو خریدار کی طرف سے اسے قبول کرلینے سے پہلے پہلے فروخت کنندہ اپنے اس قول سے رجوع نہیں کرسکتا۔ جس طرح مال کے بدلے آزادی دینے یا خلع کرنے کی صورت میں آقا اور شوہر غلام اور بیوی کی طرف سے اسے قبول کرنے سے پہلے پہلے اپنے قول سے رجوع نہیں کرسکتے۔ حضور اکرم ﷺ نے اپنے درج بالا قول کے ذریعے بیع کے اندر خیار کے اثبات کا حکم واضح فرمادیا یعنی فریق آخر کے قبول کرلینے سے پہلے پہلے دونوں میں سے ہر ایک کو رجوع کرلینے کا اختیار ہے اور خیار کے سلسلے میں بیع کا معاملہ عتق اور خلق کے معاملے سے مختلف ہے۔ اگر یہ کہا جائے کہ مول تول اور بھاؤ کرنے والے دو اشخاص عقد بیع کے انعقاد سے پہلے کس طرح بائع اور مشتری کہلا سکتی ہیں تو اس کے جواب میں کہا جائے گا کہ انہیں بائع اور مشتری کہنا درست ہوگا جب وہ مول تول اور بھاؤ کرنے کے ذریعے بیع کا قصد کرلیں جس طرح ایک دوسرے کو قتل کرنے کا ارادہ کرنے والوں کو متقابل کہا جاتا ہے۔ اگرچہ ابھی ان سے قتل کا فعل سرزد نہیں ہوا ہے یا جس طرح حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کے اس بیٹے کو ذبیح کہا گیا تھا جس کے ذبح کا اللہ تعالیٰ کی طرف انہیں حکم آیا تھا۔ کیونکہ وہ ذبح کے قریب پہنچ گئے تھے اگرچہ ذبح نہیں ہوئے۔ اسیس طرح قول باری ہے (فاذان بلغن اجلہن فامسکوہن بمعروف او فارقو ہن بمعروف، جب یہ عورتیں اپنی مدت کو پہنچ جائیں تو پھر انہیں یا تو بھلے طریقے سے روکے رکھو یا بھلے طریقے علیحدہ کر دو ) آیت کا مفہوم یہ ہے کہ ” جب یہ عورتیں مدت کو پہنچنے کے قریب ہوجائیں “۔ آپ نہیں دیکھتے کہ اللہ تعالیٰ نے دوسری آیت میں فرمایا ( واذا طلتم النساء فبلغن اجلہن فلا تعضلوہن، اور جب تم عورتوں کو طلاق دے دو اور وہ اپنی مدت کو پہنچ جائیں تو انہیں نہ روکو) اس آیت میں مدت کو پہنچنے کے حقیقی معنی مراد ہیں۔ اس بنا پر بھاؤ اور مول تول کرنے والے فریقین کو متبایع یعنی فروخت کنندہ اور خریدار کا نام دینا درست ہے جبکہ یہ دونوں اس طریقے پر عقد بیع کی تکمیل کا ارادہ رکھتے ہوں جو ہم پہلے بیان کر آئے ہیں۔ البتہ ایک بات جس کے سمجھنے میں کسی کو کوئی دقت پیش نہیں آسکتی وہ یہ ہے کہ بیع کے انعقاد کے بعد حقیقت کے اعتبار سے ان دونوں کو متبایع یعنی بائع اور مشتری کا نام نہیں دیا جاسکتا۔ جس طرح تمام افعالن میں ہوتا کہ جب یہ افعال اختتام پذیر ہوجاتے ہیں تو انہیں سر انجام دینے والوں سے وہ نام بھی مٹ جاتے ہیں جو ان افعال سے مشتق ہوئے تھے۔ البتہ مدح و ذم کے اسماء اس قاعدے کے ذیل میں نہیں آتے جیسا کہ ہم اپنی اس کتاب کی ابتدا میں بیان کر آئے ہیں۔ افعال کے اختتام پذیر ہوجانے پر انہیں سرانجام دینے والوں کو ماضی کے الفاظ سے موسوم کیا جائے گا۔ مثلا ایسے دو افراد جو عقد بیع کرچکے ہوں یا ایک دوسرے کی پٹائی اور مقابلے سے فارغ ہوچکے ہیں انہیں ان الفاظ میں یاد کیا جائے گا ” کان متبایعین “ یہ دونوں بائع اور مشتری رہے تھے) اسی طرح کانا متضاربین نیز کانا متقابلین عقد بیع کے وقوع پذیر ہوجانے کے بعد ان دونوں پر اس اسم کا اطلاق حقیقی معنوں میں میں نہیں ہوسکتا اس پر یہ چیز دلالت کرتی ہے کہ بعض دفعہ عقد بیع کے بعد ان دونوں کے لیے اسے فسخ کردینا اور توڑ دینا درست ہوتا ہے۔ اقالہ یعنی فسخ کرنے کی حالت میں یہ دونوں حقیقی معنوں میں متقابل یعنی بیع فسخ کرنے والے ہو تو یہیں جبکہ ان دونوں کا ایک ہی حالت کے اندر بیع کرنے والے اور بیع فسخ کرنے والے بن جانا کسی طرح بھی درست نہیں ہوسکتا۔ یہ چیز اس پر دلالت کرتی ہے کہ ان دونوں ” متبایعان “ کیا اسم کا اطلاق حقیقی معنوں میں اس وقت ہوتا ہے جب یہ مول تول اور بھاؤ کرنے نیز عقد بیع کی تکمیل کے مرحلی میں ہوتے ہیں ۔ عقد بیع کے اختتام پذیر ہوجانے کی بعد ان دونوں پر اس اسم کا اطلاق ان معنوں میں ہوتا ہے کہ انہوں نے کبھی آپس میں بیع کیا تھا۔ یہ اطلاق بطور مجاز ہوتا ہے جب یہ بات واضح ہوگئی تو اس لفظ کو حقیقی معنوں پر محمول کرنا ضروری ہوگیا۔ یعنی وہ حالت جس میں خریدار سے فروخت کنندہ یہ کہے :” میں نے یہ چیز تمہارے ہاتھ فروخت کردی “ فروخت کنندہ نے یہ کہہ کر اپنی طرف سے بیع کے اسم کا اطلاق کردیا جبکہ خریدار نے ابھی اسے قبول نہیں کیا۔ یہی وہ حالت ہے جس میں یہ دونوں ” متبایعان “ کہلاتے ہیں اور اسی حالت میں ان دونوں میں سے ہر ایک کے لیے خیار کا ثبوت ہوتا ہے۔ فروخت کنندہ کو خریدار کی طرف سے اسے قبول کرنے سے پہلے پہلے اس کے فسخ کا اختیار ہوتا ہے اور خریدار کو علیحدگی سے پہلے اسے قبول کرلینے کا اختیار ہوتا ہے۔ حدیث میں یہی حالت مراد ہے اس پر یہ بات دلالت کرتی ہے کہ حضور اکرم ﷺ نے ” المتبایعان ، کا لفظ استعمال فرمایا جس کے معنی ہیں ” ایک دوسرے کے ساتھ بیع کرنے والے حالانکہ بائع ان میں ایک ہوتا ہے یعنی وہ شخص جو بکاؤ سامان کا مالک ہوتا ہے۔ گویا آپ نے یوں فرمایا : ” جب فروخت کنندہ یہ کہہ دے کہ میں نے تمہیں یہ چیز فروخت کردی تو دونوں کو اس معاملے میں اس وقت تک خیار یعنی اختیار ہوتا ہے جب تک ایک دوسرے سے علیحدہ نہ ہوجائیں “ کیونکہ یہ بات تو واضح ہے کہ خریدار فروخت کنندہ نہیں ہوتا۔ اس لیے یہ بات ثابت ہوگئی کہ اس حدیث میں مراد یہ ہے کہ جب فروخت کنندہ خریدار کی طرف سے قبول ہونے سے پہلے چیز کو فروخت کر دے۔ حضور اکرم ﷺ کے ارشاد (المتبایعان بالخیار ما لم یفترقا) کی تاویل میں فقہاء کی درمیان اختلاف رائے ہے۔ محمد بن الحسن سے اس کا یہ مفہوم مروی ہے کہ جب فروخت کنندہ خریدار سے یہ کہہ دے کہ ” میں نے یہ چیز تمہارے ہاتھ فروخت کردی “ توا سے اپنے قول سے اس وقت تک رجوع کرنے کا اختیار ہے جب تک خریدار یہ نہ کہہ دے کہ ” میں نے قبول کرلیا “۔ امام محمد (رح) نے فرمایا کہ امام ابوحنیفہ (رح) کا بھی یہی قول ہے۔ امام ابویوسف (رح) سے مروی ہے کہ اس سے کسی چیز کا بھاؤ لگانے والے طرفین مراد ہیں جب فروخت کرنے والے نے یہ کہہ دیا ” میں نے تمہیں یہ چیز دس میں فروخت کردی “ توخریدار کو اسی مجلس میں اسے قبول کرلینے کا اختیار ہے اور اسی مجلس میں خریدار کی طرف سیا سے قبول کرلینے سے قبل فروخت کنندہ کو اپنے فول سے رجوع کرلینے کا بھی اختیار ہے۔ بیع قبول کرنے سے پہلے ان دونوں میں سے جو بھی جس وقت مجلس سے اٹھ کھڑا ہوگا اسی وقت وہ خیار باطل ہوجائے گا جو ان دونوں کو حاصل تھا۔ اور اب ان دونوں میں سے کسی کو بھی اس کی اجازت نہیں ہوگی۔ عقد بیع کے اختتام پذیر ہوجانے کی بعد ان دونوں پر اس اسم کا اطلاق ان معنوں میں ہوتا ہے کہ انہوں نے کبھی آپس میں بیع کیا تھا۔ یہ اطلاق بطور مجاز ہوتا ہے جب یہ بات واضح ہوگئی تو اس لفظ کو حقیقی معنوں پر محمول کرنا ضروری ہوگیا۔ یعنی وہ حالت جس میں خریدار سے فروخت کنندہ یہ کہے :” میں نے یہ چیز تمہارے ہاتھ فروخت کردی “ فروخت کنندہ نے یہ کہہ کر اپنی طرف سے بیع کے اسم کا اطلاق کردیا جبکہ خریدار نے ابھی اسے قبول نہیں کیا۔ یہی وہ حالت ہے جس میں یہ دونوں ” متبایعان “ کہلاتے ہیں اور اسی حالت میں ان دونوں میں سے ہر ایک کے لیے خیار کا ثبوت ہوتا ہے۔ فروخت کنندہ کو خریدار کی طرف سے اسے قبول کرنے سے پہلے پہلے اس کے فسخ کا اختیار ہوتا ہے اور خریدار کو علیحدگی سے پہلے اسے قبول کرلینے کا اختیار ہوتا ہے۔ حدیث میں یہی حالت مراد ہے اس پر یہ بات دلالت کرتی ہے کہ حضور اکرم ﷺ نے ” المتبایعان ، کا لفظ استعمال فرمایا جس کے معنی ہیں ” ایک دوسرے کے ساتھ بیع کرنے والے حالانکہ بائع ان میں ایک ہوتا ہے یعنی وہ شخص جو بکاؤ سامان کا مالک ہوتا ہے۔ گویا آپ نے یوں فرمایا : ” جب فروخت کنندہ یہ کہہ دے کہ میں نے تمہیں یہ چیز فروخت کردی تو دونوں کو اس معاملے میں اس وقت تک خیار یعنی اختیار ہوتا ہے جب تک ایک دوسرے سے علیحدہ نہ ہوجائیں “ کیونکہ یہ بات تو واضح ہے کہ خریدار فروخت کنندہ نہیں ہوتا۔ اس لیے یہ بات ثابت ہوگئی کہ اس حدیث میں مراد یہ ہے کہ جب فروخت کنندہ خریدار کی طرف سے قبول ہونے سے پہلے چیز کو فروخت کر دے۔ حضور اکرم ﷺ کے ارشاد (المتبایعان بالخیار ما لم یفترقا) کی تاویل میں فقہاء کی درمیان اختلاف رائے ہے۔ محمد بن الحسن سے اس کا یہ مفہوم مروی ہے کہ جب فروخت کنندہ خریدار سے یہ کہہ دے کہ ” میں نے یہ چیز تمہارے ہاتھ فروخت کردی “ توا سے اپنے قول سے اس وقت تک رجوع کرنے کا اختیار ہے جب تک خریدار یہ نہ کہہ دے کہ ” میں نے قبول کرلیا “۔ امام محمد (رح) نے فرمایا کہ امام ابوحنیفہ (رح) کا بھی یہی قول ہے۔ امام ابویوسف (رح) سے مروی ہے کہ اس سے کسی چیز کا بھاؤ لگانے والے طرفین مراد ہیں جب فروخت کرنے والے نے یہ کہہ دیا ” میں نے تمہیں یہ چیز دس میں فروخت کردی “ توخریدار کو اسی مجلس میں اسے قبول کرلینے کا اختیار ہے اور اسی مجلس میں خریدار کی طرف سیا سے قبول کرلینے سے قبل فروخت کنندہ کو اپنے فول سے رجوع کرلینے کا بھی اختیار ہے۔ بیع قبول کرنے سے پہلے ان دونوں میں سے جو بھی جس وقت مجلس سے اٹھ کھڑا ہوگا اسی وقت وہ خیار باطل ہوجائے گا جو ان دونوں کو حاصل تھا۔ اور اب ان دونوں میں سے کسی کو بھی اس کی اجازت نہیں ہوگی۔ امام محمد (رح) نے فرمایا کہ امام ابوحنیفہ (رح) کا بھی یہی قول ہے۔ امام ابویوسف (رح) سے مروی ہے کہ اس سے کسی چیز کا بھاؤ لگانے والے طرفین مراد ہیں جب فروخت کرنے والے نے یہ کہہ دیا ” میں نے تمہیں یہ چیز دس میں فروخت کردی “ تو خریدار کو اسی مجلس میں اسے قبول کرلینے کا اختیار ہے اور اسی مجلس میں خریدار کی طرف سے اسے قبول کرلینے سے قبل فروخت کنندہ کو اپنے قول سے رجوع کرلینے کا بھی اختیار ہے۔ بیع قبول کرنے سے پہلے ان دونوں میں سے جو بھی جس وقت مجلس سے اٹھ کھڑا ہوگا اسی وت وہ خیار باطل ہوجائے گا جو ان دونوں کو حاصل تھا۔ اور اب ان دونوں میں سے کسی کو بھی اس کی اجازت نہیں ہوگی۔ امام محمد (رح) نے خیار کو افتراق بالقول پر محمول کیا ہے یعنی ان دونوں کو خیار حاصل رہتا ہے جب تک قول کے ذریعے یہ ایک دوسرے سے علیحدہ نہیں ہوجاتے۔ اس معنی پر اسے محمول کرنے کی گنجائش ہے۔ قول باری ہے (وما تفرق الذین اوتوا الکتاب الا من بعد ما جاء تہم البینۃ ، مگر جو لوگ اہل کتاب تھے وہ تو اس دلیل کے آنے بعد کے بعد ہی مختلف ہوئے۔ اسی طرح محاورہ ہے ” تشاور القوم فی کذا فافترقوا عن کذا “ (لوگوں نے فلاں معاملے میں باہمی مشاورت کی پھر فلاں بات پر اتفاق ہوگیا اور مجلس برخاست ہوگئی) اس محاورے میں مراد یہ ہے کہ فلاں بات پر اتفاق ہوگیا اور سب کی رضامندی حاصل ہوگئی پھر اس کے بعد خواہ مجلس باقی کیوں نہ رہی ہو۔ حدیث میں افتراق کے لفظ سے افتراق بالقول مراد ہے اس پر وہ روایت دلالت کرتی ہے جسے ہمیں محمد بن بکر البصری نے روایت کی ہے، انہیں ابوداؤد نے ، انہیں قتیبہ نے انہیں اللیث نے محمد بن عجلان سے، انہوں نے عمرو بن شعیب سے ، انہوں نے اپنے والد سے ، انہوں نے حضرت عبداللہ بن عمر بن العاص سے کہ حضور اکرم ﷺ نے فرمایا ۔ (المتبایعان بالخیار ما لم یتفرقا الا ان تکون صفۃ خیار ولا یحل لہ ان یفارق صاحبہ خشیۃ ان یقیلہ۔ بائع اور مشتری دونوں کو خیار حاصل ہوتا ہے جب تک وہ ایک دوسرے سے علیحدہ نہ ہوجائیں الا یہ کہ یہ سودا خیار والا ہو یعنی اس صورت میں خیار ختم نہیں ہوتا اور کسی کے لیے یہ حلال نہیں ہے کہ وہ اس ڈر سے اپنے ساتھی سے علیحدہ ہوجائے کہ کہیں وہ اسییہ سودا توڑ دینے کے لیے نہ کہے) ۔ حضور اکرم ﷺ کا ارشاد (المتبایعان بالخیار مالم یتفرقا) افتراق بالقول کے معنوں پر محمول ہے۔ آپ نہیں دیکھتے کہ اس کے بعد حضور اکرم ﷺ نے فرمایا (ولا یحل لہ ان یفارقہ خشیۃ ان یستقیلہ) یہ افتراق بالا بدان کے معنی پر محمول ہے جبکہ پہلا افتراق بالقول کے معنی دے رہا ہے۔ نیز اس سے افتراق بالقول کے ساتھ عقد کی صحت پر بھی دلالت ہو رہی ہے استقالہ کا مفہوم یہ ہے کہ ایک فریق دوسرے کو بیع توڑ دینے کی تجویز پیش کرے۔ یہ چیز عقد ہوجانے کے بعد خیار کی نفی پر دو طرح سے دلالت کر رہی ہے اول یہ کہ اگر اسے خیار مجلس حاصل ہوتا تو پھر فریق آخر سے بیع توڑ دینے کی تجویز پیش کرنے کی ضرورت اسے نہ پڑتی بلکہ وہ اپنے خیار کے حق کو استعمال کرتے ہوئے خود بیع کو فسخ کردیتا ۔ دوم اقالہ یعنی بیع کو توڑ دینا اسی وقت درست ہوتا ہے جب عقد درست ہوجائے اور اس عقد کی بنا پر طرفین میں سے ہر ایک کو اس چیز کی ملکیت حاصل ہوجائے جو اس سے متعلق ہے یہ چیز بھی خیار کی نفی اور عقد کی صحت پر دلالت کرتی ہے۔ حضور اکرم ﷺ کا ارشاد (ولا یحل لہ ان یفارقہ) اس پر دلالت کرتا ہے کہ جب تک دونوں مجلس عقد میں موجود رہیں اس وقت تک ایک کی طرف سے اقالہ کی تجویز کو دوسرے کی طرف سے قبول کرلینا پسندیدہ امر ہوگا اور اسے قبول نہ کرنا ناپسندیدہ فعل ہوگا۔ آپ کے درج بالا ارشاد کی اس پر بھی دلالت ہو رہی ہے کہ مجلس عقد سے ایک دوسرے کی علیحدگی کے بعد اقالہ کا حکم درج بالا حکم سے مختلف ہوگا۔ یعنی علیحدگی کے بعد اگر وہ فریق آخر کے اقالہ کی تجویز کو نہ مانے اور اسے رد کردے تو اس کے لیے اس میں کوئی کراہت نہیں ہوگی لیکن علیحدگی سے پہلے اگر وہ ایسا کرے گا تو اس کا یہ اقدام مکروہ متصور ہوگا۔ اس پر وہ روایت دلالت کرتی ہے جو ہمیں عبدالباقی بن قانع نے بیان کی ہے۔ انہیں علی بن احمد ازدی نے، انہیں اسماعیل بن عبداللہ بن زرارہ نے ، انہیں ہیشم نے یحی ین سعید سے ، انہوں نے نافع سے ، انہوں نے حضرت ابن عمر ؓ سے کہ حضور اکرم ﷺ نے فرمایا (البیعان لا بیع بینہما الا ان یفترقا الا بیع الخیار۔ بیع کرنے والے طرفین کے درمیان کوئی بیع اس وقت تک نہیں ہوتی جب تک وہ ایک دوسرے سے علیحدہ نہ ہوجائیں، البتہ خیار اس میں داخل نہیں ہے۔ ہمیں عبدالباقی نے روایت بیان کی ، انہیں معاذ بن المثنی نے ، انہیں قعنبی نے، انہیں عبدالعزیز بن مسلم القسلمی نے عبداللہ بن دینار سے ، انہوں نے حضرت عبداللہ بن عمر ؓ سے کہ حضور اکرم ﷺ نے فرمایا : (کل بیعین لا بیع بینہما حتی یفترقا، عقد بیع کرنے والے ہر جوڑے کے درمیا ن بیع نہیں ہوتی جب تک وہ ایک دوسرے علیحدہ نہ ہوجائیں) حضور اکرم ﷺ نے یہ بتادیا کہ بیع کرنے والے طرفین یعنی بائع اور مشتری کے درمیان علیحدگی کے بعد ہی بیع ہوتی ہے یہ چیز اس پر دلالت کرتی ہے کہ حضور اکرم ﷺ نے مول تول کرنے اور بھاؤ لگانے کے مرحلے میں ان کے درمیان بیع کی نفی مراد لی ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ اگر ان کے درمیان بیع کا عمل پورا ہوجاتا تو حضور اکرم ﷺ صحت عقد اور ان دونوں کے درمیان اس عقد کے انعقاد پذیر ہونے کی صورت میں ان کی اس سودا کاری کی نفی نہ کرتے اس لیے کہ آپ ایک چیز کو ثابت کرنے کے بعد اس کی نفی تو نہیں کرسکتے تھے۔ اس لیے ہمیں اس سے یہ بات معلوم ہوگئی کہ آپ کے اس قول سے مراد مول تول اور بھاؤ لگانے والے طرفین ہیں۔ جنہوں نے آپس میں عقد بیع کا ارادہ کرلیا ہو اور فروخت کنندہ نے خریدار کے بیے بیع کی ایجاب کردی ہو اور خیردار نے بھی اس سے خریدنے کے ارادے سے یہ کہہ دیا ہو :” ٹھیک ہے، اسے میرے ہاتھ فروخت کر دو “ حضور اکرم ﷺ نے قول اور قبول کے ذریعے ایک دوسرے سے علیحدگی تک ان دونوں کے درمیان بیع کے انعقاد کی نفی کردی۔ کیونکہ خریدار کی طرف سے کہا ہوا لفظ ” یعنی “ (مجھے فروخت کر دے) عقد کو قبول کرنے پر دلالت نہیں کرتا اور نہ ہی یہ بیع کے الفاظ میں شمار ہوتا ہے ۔ اس کے ذریعے تو ایک کی طرف سے دوسرے کو حکم دیا گیا ہے۔ اگر دوسرا شخص یہ کہہ دے کہ مجھے قبول ہے تو بیع واقع ہوجائے گی۔ یہی وہ علیحدگی ہے جو قول کے ذریعے ہوتی ہے اور حضور اکرم ﷺ کے ارشاد میں یہی مراد ہے۔ ہم نے عربی زبان کے محاورات میں اس کے استعمال کے بہت سے نظائر کا ذکر پہلے کردیا ہے۔ اگر یہ کہا جائے کہ آپ کو یہ تسلیم کرنے سے کیوں انکار ہے کہ حضور اکرم ﷺ نے اپنے درج بالاارشاد سے ایجاب و قبول کے ذریعے بیع کے انعقاد کی حالت میں اس کی نفی مراد لی ہو، حضور اکرم ﷺ نے تکمیل کے اس مرحلے پر بیع کی اس لیے نفی کی ہے کہ ابھی دونوں کے درمیان خیار مجلس باقی ہے۔ اس کے جواب میں کہا جائے گا کہ یہبات غلط ہے اس کی وجہ یہ ہے کہ خیار کا ثبوت بیع سے اسم بیع کی نفی کا موجب نہیں ہوتا۔ آپ نہیں دیکھتے کہ حضور اکرم ﷺ نے ان دونوں کے درمیان اس صورت میں بیع کا اثبات کردیا جب انہوں نے علحدگی کے بعد بھی خیار کی شرط رکھی ہو اس صورت میں بیع کے اندر خیار کا ثبوت اس عقد سے بیع کے نا م کی نفی کا موجب نہیں۔ اس لیے کہ آپ کا قول ہے (کل بیعین فلا بیع بینہما حتی یفترقا الا بیع الخیار) آپ نے بیع خیار کو بھی بیع کا نام دیا۔ اگر آپ کا اس سے ارادہ یہ ہوتا کہ ایجاب و قبول واقع ہوجانے کی حالت میں بیع کی نفی ہوتی ہے جب تک کہ دونوں کے درمیان علیحدگی نہ ہوجائے تو پھر خیار مجلس کی بنا پر آپ ان دونوں کے درمیان بیع کر ہرگز نفی نہ فرماتے جس طرح بیع کے اندر خیار کی شرط کی موجودگی کی صورت میں آپ نے بیع کی نفی نہیں فرمائی بلکہ اس کا اثبات کر کیا سے بیع کا نام دے دیا۔ یہ چیز اس پر دلالت کرتی ہے کہ حضور اکرم ﷺ کے درج بالا ارشاد میں ” البیعان، سے بیع میں مول تول کرنے والے اور قیمت لگانے والے جانبین مراد ہیں اور اس سے یہ بات معلوم ہوئی کہ بائع کا یہ کہہ دینا کہ ” مجھ سے یہ چیز خرید لو “ یا مشتری کا یہ کہہ دینا کہ ” یہ چیز میرے ہاتھ فروخت کر دو ۔ “ بیع نہیں ہوتی جب تک کہ دونوں میں قول کے ذریعے علیحدگی نہ ہو یعنی بائع یہ کہے کہ میں نے فروخت کردیا اور مشتری یہ کہے کہ میں نے خرید لیا۔ ان فقروں کے کہنے پر علیحدگی عمل میں آئے گی اور بیع کی تکمیل ہوجائے گی۔ اس سییہ بات بھی ضروری ہوگئی کہ اس بیع میں کسی خیار کی شرط نہ رہے اور بیع کی تکمیل ہوجائے ۔ خواہ جسمانی طور پر ایک دوسرے سے علیحدہ نہ بھی ہوں لیکن ایجاب وقبول کے ذریعے قولا علیحدگی ظہور پذیر ہوچکی ہو۔ حضور ﷺ سے مروی اس روایت میں زیادہ احتمال تو ان ہی معنوں کا ہے جو ہم نے اور ہمارے مخالف نے بیان کئے ہیں۔ لیکن احتمال کی بنا پر ظاہر قرآن کے مفہوم میں رکاوٹ ڈالنا جائز نہیں ہوتا بلکہ حدیث کو ظاہر قرآن کے معنوں کی موافقت کا جامہ پہنانا اور اس کے مخالف معنوں پر محمول نہ کرنا واجب ہوتا ہے۔ اگر قیاس اور نظر کی رو سے دیکھا جائے تو حدیث کے جو معنی ہم نے بیان کیئے ہیں اس پر یہ بات دلالت کرتی ہے کہ سب کا اس امر پر اتفاق ہے کہ نکاح اور مال کے بدلے خلع اور عتیق نیز قتل عمد میں صلح کی صورتوں میں جب طرفین کے ایجاب و قبول کے ذریعے بات پکی اور درست ہوجاتی ہے اور طرفین میں سے کسی کے لیے خیار باقی نہیں رہتا۔ اس کی وجہ وہ ایجاب و قبول ہے جس کی بنا پر ان صورتوں میں طے کیا جانے والا معاملہ درست ہوجاتا ہے اور خیار کی کوئی شرط باقی نہیں رہتی۔ قول باری (ولاتقتلوا انفسکم، اور تم اپنی جانوں کو قتل نہ کرو) کی تفسیر میں عطاء اور سدّی کا قول ہے کہ اس کا مفموم یہ ہے کہ ” تم میں سے بعض بعض کو قتل نہ کرے “۔ کہ یہ آیت اس قول باری کی نظیر ہے (ولاتقتلوہم عند المسجد الحرام حتی یقٰتلوکم فیہ، اور انہیں مسجد حرام کے نزدیک قتل نہ کرو جب تک کہ وہ تمہیں اس جگہ قتل نہ کریں) درج بالا آیت کی یہ قرأت حمزہ اور کسائی نے کی ہے۔ باقی قرآء نے اس کی قرأت الف کے ساتھ کی ہے یعنی (ولاتقاتلوہم عند المسجد الحرام حتی یقاتلوکم فیہ) عرب کہتے ہیں ” قتلنا ورب الکعبۃ “ (رب کعبہ کی قسم ہم قتل ہوگئے) ۔ بعض افراد کے قتل ہوجانے کی صورت میں یہ فقرہ کہا جاتا ہے۔ ایک قول یہ بھی ہے کہ قول باری (ولاتقتلوا انفسکم) کا یہ انداز اس لیے خوبصورت ہے کہ مسلمان ایک دین کے کا ننے والے ہیں اس لیے وہ ایک جن کی طرح ہیں اسی لیے فرمایا گیا (فلاتقتلوا انفسکم) اور اس سے مراد یہ لی گئی کہ تم میں سے بعض بعض کو قتل نہ کرے۔ حضور اکرم ﷺ سے بھی مروی ہے کہ آپ نے فرمایا (ان المومنین کالنفس الواحدۃ اذا لم بعضہ تداعی بالحمی والسہر، تمام مسلمان ایک جان کی طرح ہیں کہ اس کے کسی ایک حصے کو کوئی تکلیف لاحق ہوجاتی ہے تو باقی تمام حصے بخار اور بیداری میں مبتلا ہوکر اس کا ساتھ دیتے ہیں) نیز آپ ﷺ کا ارشاد ہے (المؤمنون کالبنیان یشد بعضہ بعضا، تمام مسلمان ایک عمارت کی مانند ہیں کہ اس کا ایک حصہ دوسرے حصے کی تقویت کا باعث ہوتا ہے) ۔ اس بنا پر درج بالا آیت کی عبارت اس طرح مقدر مانی جائے گی ” ولایقتل بعضکم بعضا فی اکل اموالکم بالباطل وغیرہ مما ہو محرم علیکم “ ( ٖباطل یا غیر باطل طریقے سے جو تم پر حرام کردیا گیا ہے ایک دوسرے کا مال کھانے میں تم میں سے بعض بعض کو قتل نہ کرے۔ اس کی مثال یہ قول باری تعالیٰ ہے (فاذا دخلتم بیوتا فسلموا علی انفسکم، جب تم گھروں میں داخل ہو تو اپنے آپ کو سلام کہو) یہاں مراد یہ ہے کہ اپنوں میں سے بعض یعنی گھروالوں کو السلام علیکم کہو۔ آیت میں یہ بھی احتمال ہے کہ اس سے مراد یہ ہو ” مال کی طلب میں اپنی جانوں کو قتل نہ کرو “۔ وہ اس طرح کہ اپنے آپ کو دھوکہ دہی پر کمربستہ کرے اور اس طرح اس کا یہ طریق کار اس کی ہلات کا موجب بن جائے۔ اس میں مفہوم کا بھی احتمال ہے کہ غصے اور اکتاہٹ کی بنا پر اپنی جانیں نہ لے لو یعنی خود کشی نہ کر بیٹھو “۔ آیت کے الفاظ میں چونکہ ان تمام معانی کا احتمال موجود ہے۔ اس لیے یہ معانی مراد لے لینا جائز ہے۔
Top