Ahkam-ul-Quran - An-Nisaa : 39
وَ مَا ذَا عَلَیْهِمْ لَوْ اٰمَنُوْا بِاللّٰهِ وَ الْیَوْمِ الْاٰخِرِ وَ اَنْفَقُوْا مِمَّا رَزَقَهُمُ اللّٰهُ١ؕ وَ كَانَ اللّٰهُ بِهِمْ عَلِیْمًا
وَمَاذَا : اور کیا عَلَيْهِمْ : ان پر لَوْ اٰمَنُوْا : اگر وہ ایمان لاتے بِاللّٰهِ : اللہ پر وَالْيَوْمِ الْاٰخِرِ : یوم آخرت پر وَاَنْفَقُوْا : اور وہ خرچ کرتے مِمَّا : اس سے جو رَزَقَھُمُ : انہیں دیا اللّٰهُ : اللہ وَكَانَ : اور ہے اللّٰهُ : اللہ بِهِمْ : ان کو عَلِيْمًا : خوب جاننے والا
اور اگر یہ لوگ خدا پر اور روز قیامت پر ایمان لاتے اور جو کچھ خدا نے ان کو دیا تھا اس میں سے خرچ کرتے تو ان کا کیا نقصان ہوتا اور خدا ان کو خوب جانتا ہے
قول باری ہے (وماذاعلیھم لوامنوا بااللہ والیوم الاخر وانفقوا ممارزقھم اللہ ، آخر ان لوگوں پر کیا آفت آجاتی ہے اگر یہ اللہ اور روز آخرت پر ایمان رکھتے اور جو کچھ اللہ نے دیا ہے اس میں سے خرچ کرتے ۔ یہ آیت فرقہ جبریہ کے مذہب کے بطلان پر دلالت کرتی ہے کیونکہ اگر یہ لوگ اللہ پر ایمان لانے اور اپنامال اس کی راہ میں خرچ کرنے کی استطاعت نہ رکھتے تو ان کے متعلق آیت میں کہی ہوئی بات درست نہ ہوتی اس لیے کہ ان کا عذر واضح ہے اور وہ یہ کہ جس بات کی طرف انہیں بلایاجارہا ہے اس کی نہ انہیں استطاعت ہے اور نہ ہی قدرت۔ جس طرح کسی اندھے کے متعلق یہ کہنا درست نہیں کہ اگر وہ دیکھ لیتا تو اس پر کیا آفت آجاتی، یامریض کے متعلق یہ کہنا کہ اگر وہ تندرست ہوتاتو اس کا کیا بگڑ جاتا۔ اس میں اس بات کی واضح ترین دلیل موجود ہے کہ اللہ تعالیٰ نے لوگوں کو ایمان لانے اور تمام دوسری عبادات بجالانے کا جومکلف بنایا ہے تو اس سلسلے میں ان کے تمام عذر کو ختم کردیا ہے اور یہ بتادیا ہے کہ انہیں عبادات کے بجالانے کی قدرت حاصل ہے۔
Top