Anwar-ul-Bayan - Ar-Ra'd : 9
عٰلِمُ الْغَیْبِ وَ الشَّهَادَةِ الْكَبِیْرُ الْمُتَعَالِ
عٰلِمُ الْغَيْبِ : جاننے والا ہر غیب وَالشَّهَادَةِ : اور ظاہر الْكَبِيْرُ : سب سے بڑا الْمُتَعَالِ : بلند مرتبہ
وہ دانائے نہاں و آشکار ہے۔ سب سے بزرگ (اور) عالی رتبہ ہے۔
9۔ اس آیت میں اللہ پاک نے اپنے علم کا حال بیان فرمایا ہے کہ لوگ جس چیز کو اپنی آنکھوں سے دیکھتے ہیں اس کو بھی خدا جانتا ہے اور جو چیزیں ان سے غائب ہیں ان کی نظروں کے سامنے نہیں ہیں ان کو بھی خدا جانتا ہے اس پر ظاہر اور پوشیدہ سب یکساں ہے اس کا عمل ہر شے کو چھوٹی ہو یا بڑی نظر سے غائب ہو یا سامنے سب کو گھیرے ہوئے ہے اور اس کی ذات ہر ایک شئی سے بڑی اور ہر چیز پر غالب ہے اوپر ذکر تھا کہ بچہ کے پیدا ہونے سے پہلے اس کی عمر اس کا رزق اس کی نیکی بدی یہ سب ناموجود باتیں اللہ کا فرشتہ اللہ تعالیٰ کے حکم سے لکھ لیتا ہے اس آیت میں اس کی یہ تفصیل فرمائی کہ ناموجود اور موجود سب چیزیں اللہ تعالیٰ کے علم میں موجود ہیں کوئی چیز اس کے علم سے باہر نہیں ہے اس واسطے بچہ کے پیدا ہونے کے پہلے فرشتہ سے ان ناموجود چیزوں کا لکھوا دینا اللہ تعالیٰ کے علم و غیت کے آگے کوئی بڑی بات نہیں ہے۔ منکرین حشر یہ جو کہتے تھے کہ مر نے کے بعد ان کی خاک رواں دواں ہوجاوے گی پھر وہ خاک کیوں کر جمع ہوگی اور اس کا پتلا کیوں کر بنے گا آیت کے اس ٹکڑے میں ان لوگوں کو یہ تنبیہ فرمائی ہے کہ وہ خاک رواں دواں ہو کر انسان کے علم سے باہر ہوجاتی ہے مگر اللہ کے علم سے باہر نہیں ہوسکتی اس لئے وقت مقرر پر وہ خاک جمع کی جاوے گی اور اس کا پتلا بنے گا۔ سورة ق میں اس کی تفصیل زیادہ آوے گی۔ صحیح بخاری، مسلم، نسائی اور موطا میں ابوہریرہ ؓ اور ابو سعید خدری ؓ سے جو روایتیں ہیں ان کا حاصل یہ ہے کہ ایک گنہگار شخص نے اللہ تعالیٰ کے خوف سے اپنی اولاد کو یہ وصیت کی تھی کہ مرنے کے بعد اس کی وصیت کے موافق عمل کیا۔ لیکن اللہ تعالیٰ نے جنگل اور دریا کو اس خاک کے حاضر کرنے کا حکم دیا اور فوراً وہ خاک حاضر ہوگئی اور اللہ کے حکم سے اس کا پتلا بنا اور اس پتلے میں روح پھونکی جا کر اس سے پوچھا گیا کہ وہ وصیت تو نے کس نیت سے کی تھی۔ اس نے جواب دیا یا اللہ کوئی چیز تیرے علم سے باہر نہیں ہے میں نے جو کچھ کیا تھا وہ فقط تیرے خوف سے کیا تھا اللہ تعالیٰ نے اس کا یہ جواب سن کر اس کے قصور کو معاف کردیا 1 ؎ حشر کے دن رواں دواں خاک کے جمع ہوجانے کے یہ حدیث گویا تفسیر ہے۔ 1 ؎ صحیح بخاری ص 959 ج 2 باب الخوف من اللہ۔
Top