Home
Quran
Recite by Surah
Recite by Ruku
Translation
Maududi - Urdu
Jalandhary - Urdu
Junagarhi - Urdu
Taqi Usmani - Urdu
Saheeh Int - English
Maududi - English
Tafseer
Tafseer Ibn-e-Kaseer
Tafheem-ul-Quran
Maarif-ul-Quran
Tafseer-e-Usmani
Aasan Quran
Ahsan-ul-Bayan
Tibyan-ul-Quran
Tafseer-Ibne-Abbas
Tadabbur-e-Quran
Show All Tafaseer
Word by Word
Nazar Ahmed - Surah
Nazar Ahmed - Ayah
Farhat Hashmi - Surah
Farhat Hashmi - Ayah
Word by Word English
Hadith
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Sunan Abu Dawood
Sunan An-Nasai
Sunan At-Tirmadhi
Sunan Ibne-Majah
Mishkaat Shareef
Mauwatta Imam Malik
Musnad Imam Ahmad
Maarif-ul-Hadith
Riyad us Saaliheen
Android Apps
IslamOne
QuranOne
Tafseer Ibne-Kaseer
Maariful Quran
Tafheem-ul-Quran
Quran Urdu Translations
Quran Word by Word
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Mishkaat Shareef
More Apps...
More
Seerat-un-Nabi ﷺ
Fiqhi Masail
Masnoon Azkaar
Change Font Size
About Us
View Ayah In
Navigate
Surah
1 Al-Faatiha
2 Al-Baqara
3 Aal-i-Imraan
4 An-Nisaa
5 Al-Maaida
6 Al-An'aam
7 Al-A'raaf
8 Al-Anfaal
9 At-Tawba
10 Yunus
11 Hud
12 Yusuf
13 Ar-Ra'd
14 Ibrahim
15 Al-Hijr
16 An-Nahl
17 Al-Israa
18 Al-Kahf
19 Maryam
20 Taa-Haa
21 Al-Anbiyaa
22 Al-Hajj
23 Al-Muminoon
24 An-Noor
25 Al-Furqaan
26 Ash-Shu'araa
27 An-Naml
28 Al-Qasas
29 Al-Ankaboot
30 Ar-Room
31 Luqman
32 As-Sajda
33 Al-Ahzaab
34 Saba
35 Faatir
36 Yaseen
37 As-Saaffaat
38 Saad
39 Az-Zumar
40 Al-Ghaafir
41 Fussilat
42 Ash-Shura
43 Az-Zukhruf
44 Ad-Dukhaan
45 Al-Jaathiya
46 Al-Ahqaf
47 Muhammad
48 Al-Fath
49 Al-Hujuraat
50 Qaaf
51 Adh-Dhaariyat
52 At-Tur
53 An-Najm
54 Al-Qamar
55 Ar-Rahmaan
56 Al-Waaqia
57 Al-Hadid
58 Al-Mujaadila
59 Al-Hashr
60 Al-Mumtahana
61 As-Saff
62 Al-Jumu'a
63 Al-Munaafiqoon
64 At-Taghaabun
65 At-Talaaq
66 At-Tahrim
67 Al-Mulk
68 Al-Qalam
69 Al-Haaqqa
70 Al-Ma'aarij
71 Nooh
72 Al-Jinn
73 Al-Muzzammil
74 Al-Muddaththir
75 Al-Qiyaama
76 Al-Insaan
77 Al-Mursalaat
78 An-Naba
79 An-Naazi'aat
80 Abasa
81 At-Takwir
82 Al-Infitaar
83 Al-Mutaffifin
84 Al-Inshiqaaq
85 Al-Burooj
86 At-Taariq
87 Al-A'laa
88 Al-Ghaashiya
89 Al-Fajr
90 Al-Balad
91 Ash-Shams
92 Al-Lail
93 Ad-Dhuhaa
94 Ash-Sharh
95 At-Tin
96 Al-Alaq
97 Al-Qadr
98 Al-Bayyina
99 Az-Zalzala
100 Al-Aadiyaat
101 Al-Qaari'a
102 At-Takaathur
103 Al-Asr
104 Al-Humaza
105 Al-Fil
106 Quraish
107 Al-Maa'un
108 Al-Kawthar
109 Al-Kaafiroon
110 An-Nasr
111 Al-Masad
112 Al-Ikhlaas
113 Al-Falaq
114 An-Naas
Ayah
1
2
3
4
5
6
7
8
9
10
11
12
13
14
15
16
17
18
19
20
21
22
23
24
25
26
27
28
29
30
31
32
33
34
35
36
37
38
39
40
41
42
43
44
45
46
47
48
49
50
51
52
53
54
55
56
57
58
59
60
61
62
63
64
65
66
67
68
69
70
71
72
73
74
75
76
77
78
79
80
81
82
83
84
85
86
87
88
89
90
91
92
93
94
95
96
97
98
99
100
101
102
103
104
105
106
107
108
109
110
111
112
113
114
115
116
117
118
119
120
Get Android App
Tafaseer Collection
تفسیر ابنِ کثیر
اردو ترجمہ: مولانا محمد جوناگڑہی
تفہیم القرآن
سید ابو الاعلیٰ مودودی
معارف القرآن
مفتی محمد شفیع
تدبرِ قرآن
مولانا امین احسن اصلاحی
احسن البیان
مولانا صلاح الدین یوسف
آسان قرآن
مفتی محمد تقی عثمانی
فی ظلال القرآن
سید قطب
تفسیرِ عثمانی
مولانا شبیر احمد عثمانی
تفسیر بیان القرآن
ڈاکٹر اسرار احمد
تیسیر القرآن
مولانا عبد الرحمٰن کیلانی
تفسیرِ ماجدی
مولانا عبد الماجد دریابادی
تفسیرِ جلالین
امام جلال الدین السیوطی
تفسیرِ مظہری
قاضی ثنا اللہ پانی پتی
تفسیر ابن عباس
اردو ترجمہ: حافظ محمد سعید احمد عاطف
تفسیر القرآن الکریم
مولانا عبد السلام بھٹوی
تفسیر تبیان القرآن
مولانا غلام رسول سعیدی
تفسیر القرطبی
ابو عبدالله القرطبي
تفسیر درِ منثور
امام جلال الدین السیوطی
تفسیر مطالعہ قرآن
پروفیسر حافظ احمد یار
تفسیر انوار البیان
مولانا عاشق الٰہی مدنی
معارف القرآن
مولانا محمد ادریس کاندھلوی
جواھر القرآن
مولانا غلام اللہ خان
معالم العرفان
مولانا عبدالحمید سواتی
مفردات القرآن
اردو ترجمہ: مولانا عبدہ فیروزپوری
تفسیرِ حقانی
مولانا محمد عبدالحق حقانی
روح القرآن
ڈاکٹر محمد اسلم صدیقی
فہم القرآن
میاں محمد جمیل
مدارک التنزیل
اردو ترجمہ: فتح محمد جالندھری
تفسیرِ بغوی
حسین بن مسعود البغوی
احسن التفاسیر
حافظ محمد سید احمد حسن
تفسیرِ سعدی
عبدالرحمٰن ابن ناصر السعدی
احکام القرآن
امام ابوبکر الجصاص
تفسیرِ مدنی
مولانا اسحاق مدنی
مفہوم القرآن
محترمہ رفعت اعجاز
اسرار التنزیل
مولانا محمد اکرم اعوان
اشرف الحواشی
شیخ محمد عبدالفلاح
انوار البیان
محمد علی پی سی ایس
بصیرتِ قرآن
مولانا محمد آصف قاسمی
مظہر القرآن
شاہ محمد مظہر اللہ دہلوی
تفسیر الکتاب
ڈاکٹر محمد عثمان
سراج البیان
علامہ محمد حنیف ندوی
کشف الرحمٰن
مولانا احمد سعید دہلوی
بیان القرآن
مولانا اشرف علی تھانوی
عروۃ الوثقٰی
علامہ عبدالکریم اسری
معارف القرآن انگلش
مفتی محمد شفیع
تفہیم القرآن انگلش
سید ابو الاعلیٰ مودودی
Ahkam-ul-Quran - Al-Maaida : 90
یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْۤا اِنَّمَا الْخَمْرُ وَ الْمَیْسِرُ وَ الْاَنْصَابُ وَ الْاَزْلَامُ رِجْسٌ مِّنْ عَمَلِ الشَّیْطٰنِ فَاجْتَنِبُوْهُ لَعَلَّكُمْ تُفْلِحُوْنَ
يٰٓاَيُّھَا
: اے
الَّذِيْنَ اٰمَنُوْٓا
: ایمان والو
اِنَّمَا الْخَمْرُ
: اس کے سوا نہیں کہ شراب
وَالْمَيْسِرُ
: اور جوا
وَالْاَنْصَابُ
: اور بت
وَالْاَزْلَامُ
: اور پانسے
رِجْسٌ
: ناپاک
مِّنْ
: سے
عَمَلِ
: کام
الشَّيْطٰنِ
: شیطان
فَاجْتَنِبُوْهُ
: سو ان سے بچو
لَعَلَّكُمْ
: تا کہ تم
تُفْلِحُوْنَ
: تم فلاح پاؤ
اے ایمان والو ! شراب اور جوا اور بت اور پا سے (یہ سب) ناپاک کام اعمال شیطان سے ہیں۔ سو ان سے بچتے رہنا تاکہ نجات پاؤ۔
شراب کی تحریم قول باری ہے (انما الخمر والمیسر والا نصاب والا زلام رجس من عمل الشیطان فاجتنبوہ۔ یہ شراب اور جوا اور یہ آستانے اور پانسے یہ سب گندے شیطانی کام ہیں ان سے پرہیز کرو) آیت دو وجوہ سے شراب کی تحریم کی مقتضی ہے ۔ اول قول باری (رجس) اس لئے شرع میں رجس اس چیز کا نام ہے جس سے اجتناب لازم ہوتا ہے۔ نیز رجس کا اسم ہر اس چیز پر واقع ہوتا ہے جو نجس اور گندہ ہو۔ اس سے بھی پرہیز لازم ہے۔ شراب کو رجس کا نام دنیا اس سے پرہیز کے لزوم کا موجب ہے۔ دوم قول باری (فاجتنبوہ) یہ امر کا صیغہ ہے اور امر ایجاب کا مقتضی ہے۔ اس طرح آیت دو وجوہ سے شراب کی تحریم کے حکم پر مشتمل ہے۔ شراب انگور کے اس خام رس کو کہتے ہیں جس میں تیزی آ گئی ہو۔ اس طرح کے رس کے شراب ہونے پر سب کا اتفاق ہے۔ بعض دوسری حرام مشروبات پر بھی تشبیہ کے طور پر شراب کا اسم واقع ہوتا ہے مثلاً فصیح جو گدر کھجور یا خشک کھجور یعنی خرما کو پانی میں بھگو کر بنایا جاتا ہے۔ اگرچہ ان دونوں قسموں کو خمر کے اسم کا اطلاق شامل نہیں ہوتا۔ خمر کے مفہوم کے بارے میں بہت سی روایات منقول ہیں۔ مالک بن مغول نے نافع سے اور انہوں نے حضرت ابن عمر سے روایت کی ہے۔ انہوں نے فرمایا : شراب کی حرمت نازل ہوئی اس وقت مدینہ منورہ میں اس نام کی کوئی چیز نہیں پائی جاتی تھی۔ 1 ؎ تحریم خمر کے بارے میں ابوبکر جصاص کی تحقیق ہے۔ وہ امام ابوحنیفہ کے قول پر مبنی ہے لیکن مفتی بہ قول امام ابو یوسف اور امام محمد کا ہے۔ یہ جمہور کے مطابق ہے۔ مترجم۔ ہمیں یہ معلوم ہے کہ مدینہ منورہ میں تقیع البسر (گدر کھجور کو پانی میں ملا کر بنایا جانے الا مشروب) اور نقیع التمر (خشک کھجور کو پانی میں ملا کر بنایا جانے والا مشروب) اور ا ن سے بنائی جانے والی تمام دوسری مشروبات ہوتی تھیں۔ حضرت ابن عمر ا نلوگوں میں سے نہیں تھے جن سے اشیاء کے ناموں کے لغوی معنی مخفی ہوں۔ یہ امر اس پر دلالت کرتا ہے کہ کھجور سے بنائی جانے والی مشروبات ان کے نزدیک خمر کے نام سے موسوم نہیں ہوتی تھیں۔ عکرمہ نے حضرت ابن عباس سے روایت کی ہے کہ شراب کی تحریم نازل ہوئی اور یہ شراب فضیخ ہے۔ حضرت ابن عباس نے یہ بتایا کہ فضیخ کو شراب کہتے ہیں۔ یہ بھی ممکن ہے کہ حضرت ابن عباس نے اسے شراب کا نام اس لئے دیا تھا کہ حرام مشروب تھا۔ حمید الطویل نے حضرت انس سے روایت کی ہے وہ کہتے ہیں ” میں ابوطلحہ کے گھر میں ابوعبیدہ، ابی بن کعب اور سہیل بن بیضاء کو شراب پلا رہا تھا کہ ہمارے پاس سے ایک آدمی گزرا اس نے کہا کہ شراب حرام کردی گئی ہے۔ خدا کی قسم ! ان لوگوں نے یہ سن کر یہ نہیں کہا کہ ہمیں پتا لگا لینے دو ۔ بلکہ یہ کہا۔ انس ! تمہارے برتن میں جتنا حصہ باقی رہ گیا ہے اسے گرا دو ۔ “ اس کے بعد ان لوگوں نے شراب کو کبھی ہاتھ نہیں لگایا یہاں تک کہ اپنے خلاق حقیقی سے جا ملے، اس زمانے میں مہارے پاس جو شراب ہوتی تھی وہ گدر کھجور اور خشک کھجور سے تیار کی جاتی تھی۔ “ حضرت انس نے یہ بتایا کہ جس دن شراب کی حرمت ہوتی ہے اس دن یعنی اس زمانے میں گدر کھجور اور خشک کھجور سے تیار شدہ مشروب کو شراب کا نام دیا جاتا تھا۔ اس میں یہ گنجائش ہے کہ درج بالا دونوں قسم کے مشروب حرام تھے اس لئے حضرت انس نے انہیں خمر کا نام دیا، اور ان کی مراد یہ تھی کہ لوگ انہیں شراب کا درجہ دیتے تھے اور شراب کی طرح سمجھتے تھے یہ مراد نہیں کہ حقیقت میں بھی ان کا نام شراب تھا۔ اس پر یہ بات بھی دلالت کرتی ہے کہ قتادہ نے حضرت انس سے یہی روایت نقل کی ہے جس میں حضرت انس نے کہا ہے کہ اس زمانے میں ہم لوگ بایں معنی انہیں شراب شمار کرتے تھے کہ انہیں شراب کی طرح سمجھتے تھے۔ ثابت نے حضرت انس سے روایت کی ہے کہ انہوں نے کہا :” ہم پر جب شراب حرام ہوئی توی اس زمانے میں ہمارے ہاں انگوری شراب بہت کم ہوتی تھی عام طور پر گدر کھجور اور خشک کھجور کی بنی ہوئی شراب استعمال کی جاتی تھی۔ اس روایت کے معنی بھی یہی ہے کہ اس زمانے میں یہی دو مشروب ہوتے تھے تاہم لوگ انہیں اس لحاظ سے خمر کا درجہ دیتے تھے کہ پینے پلانے نیز نشہ اور سرور کے حصول کے لئے انہیں استعمال کیا جاتا تھا۔ مختار بن فلفل نے کہا ہے کہ میں نے حضرت انس بن مالک سے مشروبات کے بارے میں پوچھا تو انہوں نے فرمایا :” شراب حرام کردی گئی، یہ انگور کے رس، خشک کھجور، شہد، گندم، جو اور باجرہ کی بنتی ہے۔ ان میں سے جو چیز نشہ آور بن جائے وہ شراب ہے۔ یہ روایت اس پر دلالت کرتی ہے درج بالا چیزوں کو اس وقت خمر کیا جائے گا جب ان کے اندر نشہ آوری کی کیفیت پیدا ہوجائے۔ اگر اس کا یعنی نشہ آوری کی کیفیت نہ پیدا ہو تو وہ خمر نہیں کہلائے گی۔ حضرت عمر سے مروی ہے کہ آپ نے فرمایا :” شراب حرام کردی گئی ہے یہ پانچ چیزوں کی بنتی ہے۔ انگور، خشک کھجور، شہد، گندم اور جو سے ، خمر وہ ہے جو عقل پر پردہ ڈال اور اس پر اثر انداز ہوجائے۔ “ یہ روایت بھی اس پر دلالت کرتی ہے کہ حضرت عمر نے ان چیزوں سے بنی ہوئی مشروبات کو اس وقت خمر کا نام دیا ہے جب زیادہ استعمال کرلینے سے یہ نشہ پیدا کردیں۔ اس لئے کہ آپ نے فرمایا ” والخمر صاخا مرالعقل (خمروہ مشروب ہے جو عقل پر اثر انداز ہوجائے۔ ) سمری بن اسماعیل سے روایت کی گئی ہے، انہوں نے شعبی سے کہ انہوں نے حضرت نعمان بن بشیر کو یہ کہتے ہوئے سنا تھا کہ حضور ﷺ نے یہ فرمایا تھا : گندم کی شراب ہوتی ہے، جو کی بھی شراب ہوتی ہے، زبیب یعنی خشک انگور کی بھی شراب ہوتی ہے، خشک کھجور کی بھ شراب ہوتی ہے اور شہد کی بھی شراب ہوتی ہے۔ “ آپ نے یہ نہیں فرمایا کہ ایسی تمام مشروبات جن کا تعلق درج بالا اصناف سے ہو شراب ہیں۔ بلکہ آپ نے یہ بتایا ہے کہ ان چیزوں کی شراب ہوتی ہے۔ اس میں یہ بھی احتمال ہے کہ آپ نے یہ مراد لی ہو کہ ان میں سے جو چیزیں نشہ آور ہوں وہ شراب ہیں اور اس کیفیت کے پائے جانے کی صورت میں حرام ہیں۔ آپ کی اس سے یہ مراد نہیں ہے کہ یہ ان مشروبات کا نام ہے جو ان اصناف سے تیار کی جاتی ہیں۔ اس لئے کہ اس روایت کی اسناد سے زیادہ صحیح اسناد کے ساتھ وہ روایتیں ہیں جو اس بات کی نفی کرتی ہیں کہ شراب کا تعلق ان اصناف سے ہے۔ ہمیں محمد بن بکر نے روایت سنائی ، انہیں ابو دائود نے، انہیں موسیٰ بن اسمایعل نے، انہیں ابان نے، انہیں یحییٰ بن ابی کثیر نے ابو کثیر سے، (یہ یزید بن عبدالرحمٰن ہیں) انہوں نے حضرت ابوہریرہ سے کہ حضور ﷺ نے فرمایا (الخمر من ھاتین الشجرتین النخلۃ والغب شراب ان دونوں درختوں یعنی کھجور اور انگور کی ہوتی ہے۔ ) ہمیں عبدالباقی بن قانع نے روایت بیان کی، انہیں عبید بن حاتم نے، انہیں ابن عماد الموصلی نے، انہیں عبدہ بن سلیمان نے سعید بن ابی عروبہ سے، انہوں نے عکرمہ بن عمار سے، انہوں نے ابو کثیر سے، انہوں نے حضرت ابوہریرہ سے کہ حضور ﷺ نے فرمایا (الخمر من ھاتین الشجرتین النخلی والعنب۔ یہ روایت اپنی سند کی صحت کی بنا پر ان تمام روایات کا خاتمہ کردیتی ہے جن کا ذکر اس کتاب میں گزر چکا ہے۔ یہ روایت ان تمام مشروبات سے خمر کے اس کی نفی کو متضمن ہے جو ان دو درختوں یعنی کھجور اور انگور کے سوا اور کسی چیز سے تیار کی گئی ہوں اس لئے کہ حضور ﷺ کا قول (الخمر) اسم جنس ہے جو ان تمام مشروبات کا حامل ہے جنہیں خمر کے نام سے موسوم کیا جاتا ہے۔ اس سے یہ بات منتقی ہوگئی کہ ان دو درختوں کے علاوہ کسی اور چیز سے بنے ہوئے مشروب کو خمر کے نام سے موسوم کیا جائے۔ یہ روایت اس امر کیمقتضی ہے کہ خمر کے نام سے صرف وہی مشروب موسوم ہوگا جو ان دو درختوں سے نکلا ہو۔ اس کا اطلاق اس رس پر ہوتا ہے جو ابتدا میں ان سے نکلتا ہے اور نشہ آور ہوتا ہے ۔ یہ وہ خام رس یا شیرہ ہوتا ہے جس میں سختی اور تیزی پید اہو گئی ہو۔ اس میں گدر کھجور اور خشک کھجور سے بنا وہا مشروب بھی شامل ہے جسے ابھی آگ پر پکایا نہ گیا ہو۔ اس لئے کہ حضو ر ﷺ کا قول (منھما) اس امر کا مقتضی ہے کہ اس سے مراد وہ رس ہے جو ابتدا میں ان دونوں درختوں سے نکلا ہو نیز نشہ آور بھی ہو۔ اب اس بحث کا خلاصہ یہ ہے کہ جس مشروب کے خمر ہونے پر سب کا اتفاق سامنے آیا ہے یہ وہ مشروب ہے جس کا ہم نے پہلے ذکر کیا ہے یعنی انگور کا خام رس جس میں تیزی آ گئی ہو اور جھاگ مادر یا ہو۔ جب خمر کے یہی معنی ہیں جو ہم نے بیان کردیئے تو اس صورت میں یہ احتمال ہے کہ حضرت ابوہریرہ کی روایت میں حضور ﷺ کے الفاظ (الخمر من ھاتین الشجرتین) کا یہ مفوہم ہو کہ آپ نے ان دو درختوں میں سے ایک مرادلی ہے۔ یعنی ان دونوں میں سے ایک سے شراب نکلتی ہے۔ جس طرح یہ قول باری ہے (یامعشر الجن والانس الم یاتکم رسل منکم اے گروہ جن و انس ! کیا تمہارے پاس تم میں سے رسول نہیں آئے ؟ حالانکہ رسولوں کی آمد صرف گروہ انس سے ہوئی ہے۔ اسی طرح ایک جگہ ارشاد ہے (یخرج منھما اللولووالمرجان ان دونوں (میٹھے اور نمکین سمندروں) سے موتی اور مونگا برآمد ہوتے ہیں) حالانکہ موتی اور مونگا ان میں سے ایک سے برآمد ہوتے ہیں۔ خمر کے حقیقی معنی وہ ہیں جو ہم نے اوپر بیان کئے ہیں اور اس کے سوا کسی اور چیز پر خمر کا اطلاق نہیں ہوتا۔ جو شخص بلا ضرورت شراب کو حلال سمجھتا ہے وہ کافر ہے اس پر یہ امر دلالت کرتا ہے کہ تمام اہل اسلام کا اس پر اتفاق ہے کہ جو شخص بلا ضرورت شراب کو حلال سمجھتا ہے وہ کافر ہے۔ نیز سب کا اس پر بھی اتفاق ہے کہ خمر کے سوا باقی ماندہ حرام مشروبات کو حلال سمجھنے والا کفر کی علامت یعنی تکفیر کا مستحق نہیں ہوتا۔ اگر یہ دوسری مشروبات بھی خمر ہوتیں تو یقینا ان کو حلال سمجھنے الا کافر ہوتا اور اس شخص کی طرح خارج اسلام ہوتا جو انگور کے خام رس کو حلال سمجھتا جس میں تیزی آ گئی ہو اور وہ جھاگ مار رہا ہو۔ اس بات میں یہ دلیل موجود ہے کہ خمر کا اسم حقیقت میں صرف انگور کے رس کو شامل ہے جس کو ابھی ہم نے بیان کیا ہے۔ کچھ ایسے لوگ بھی ہیں جو تقویٰ اور پرہیز گاری صرف اسی بات میں سمجھتے ہیں کہ نیند کی تحریم ثابت کرنے پر پورا زور علم صرف کریں لیکن یتیموں کا مال کھانے اور حرام خوری سے اپنا دامن نہ بچائیں ان کا گمان یہ ہے کہ اللہ کی کتاب۔ حضور ﷺ سے مروی صحیح احادیث خمر کی تفسیر کے سلسلے میں آثار و روایت، لغت کے مشوہر اقوال، قیاس و نظر اور اہل عقول کے عقلی تقاضے یہ تمام کے تمام اس بات پر دلالت کرتے ہیں کہ ہر وہ چیز جو نشہ آور ہو وہ خمر ہے۔ قرآن مجید کی آیت (تتخذون منہ سکراً تم اس میں سے نشہ کی چیزیں بناتے ہو) سے یہ بات معلوم ہوتی ہے کہ انگور سے بنیہوئی نشہ کی چیز کھجور سے بنی ہوئی نشہ کی چیز کی طرح ہے۔ اس طرح اس قائل نے دعویٰ کیا ہے کہ اللہ کی کتاب اس پر دلالت کرتی ہے کہ وہ چیز جو نشہ آور ہو وہ خمر ہے۔ پھر اس نے اس آیت کی تلاوت کی ہے حالانکہ درج بالا آیت میں نہ یہ بات موجود ہے کہ سکو یعنی نشہ کی چیز کیا ہوتی ہے اور نہ ہی یہ بات کہ نشہ کی چیز خمر ہوتی ہے۔ اگر نشہ کی چیز فی الحقیقت خمر ہے تو پھر یہ وہ خمر ہوگی جو انگور کے رس سے تیا رہوتی ہے۔ اس لئے کہ قول باری ہے (ومن ثمرات النخیل والاعناب اور کھجور اور انگور کے پھلوں سے) اس کے ساتھ یہ بات بھی اپنی جگہ ہے کہ آیت اس سکر کی اباحت کی مقتضی ہے جس کا ذکر آیت میں ہوا ہے۔ اس لئے اللہ تعالیٰ نے آیت کے ذریعے انگور اور کھجور کے منافع اور فوائد گنوائے ہیں جس طرح اس نے چوپایوں اور ان سے پیدا ہونے والے دودھ کے فوائد گنوائے ہیں۔ اس سلئے آیت میں سکر کی تحریم پر کوئی دلالت نہیں ہے اور نہ ہی یہ کہ سکر خمر ہے۔ اگر آیت کی دلالت اس پر ہو بھی جاتی تو اس صورت میں بھی اس بات پر اس کی دلالت نہ ہوتی کہ شراب ہراس چیز کی ہوتی ہے جو نشہ پیدا کرتی ہے۔ اس لئے کہ آیت میں انگوروں کا ذکر ہے جس کے رس سے شراب تیار کی جاتی ہے۔ اس لئے کتاب اللہ کی دلالت کے بارے میں اس قائل کا دعویٰ درست نہیں ہوا۔ اس قائل نے اس سلسلے میں ان احادیث و آثار کا ذکر کیا ہے جن کا ہم اس سے پہلے حضور ﷺ سے روایات اور سلف کے اقوال کے تحت ذکر کر آئے ہیں ہم نے ان احادیث و آثار کی توجیہ بھی وہیں بیان کردی ہے۔ حضور ﷺ سے ان احادیث کا بھی ہم نے ذکر کردیا ہے جن میں آپ نے فرمایا ہے (کل مسکر خمرء کل مسکر حرام، کل شراب اسکرفھو حرام، وما اسکرکثیرہ فقلیلہ حرام۔ ہر نشہ آور چیز شراب ہے، ہر نشہ آور چیز حرام ہے، ہر ایسا مشروب جو نشہ آور ہو وہ حرام ہے۔ نیز ہر وہ چیز جسے زیادہ مقدار میں استعمال کرنے کی بنا پر نشہ پیدا ہوجاتا ہے اس کی قلیل مقدار بھی حرام ہے) اور ان ہی جیسی دوسری روایات۔ ان تمام روایات میں حرمت کا حکم اس حالت پر محمول ہے جن میں مذکورہ چیزوں میں نشہ آوری کی کیفیت پیدا ہوجائے۔ اگر یہ کیفیت موجود نہ ہو تو اس صورت میں ان چیزوں کے ساتھ حرمت کے حکم کا تعلق نہیں ہوگا۔ ہماری یہ تاویل ان روایات کی ان دوسری روایات کے ساتھ تطبیق کر دے گی جو ان چیزوں کے خمر ہونے کی نفی کرتی ہیں، نیز اجماع کی دلالت کے ساتھ بھی ان روایات کی تطبیق ہوجائے گی۔ سلف کی ایک جماعت سے تیز قسم کے نیند پینے کی تواتر کے ساتھ روایات موجود ہیں۔ ان میں حضرت عمر حضرت عبد اللہ، حضرت ابوالدردآء اور حضرت بریدہ اور دیگر حضرات شامل ہیں جن کا ہم نے اپنی تصنیف ” کتاب الاشربۃ میں ذکر کردیا ہے۔ کچھ اور روایات ہیں جن میں مذکور ہے کہ حضور ﷺ نے تیز یعنی گاڑھے نبیذ کا استعمال کیا تھا۔ اگر اس قائل کی بات درست تسلیم کرلی جائے تو اس سے یہ لازم آئے گا کہ مذکورہ بالا حضرات نے (نعوذ باللہ) خمر یعنی شراب کا استعمال کیا تھا۔ ہمیں عبدالباقی بن قانع نے روایت بیان کی، انہیں مطین نے، انہیں احمد بن یونس نے، انہیں ابوبکر بن عیاش نے ابکلی سے، انہوں نے ابو صالح سے اور انہوں نے حضرت ابن عباس سے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا (کل مسکر حرام ہر نشہ آور چیز حرام ہے) راوی کہتے ہیں کہ ہم نے حضرت ابن عباس سے پوچھا :” حضرت یہ نبیذ جو ہم پیتے ہیں ہمارے اندر سکر کی کیفیت پیدا کردیتا ہے۔ “ حضرت ابن عباس نے فرمایا : بات یہ نہیں ہے، اگر تم سے کوئی شخص نوپیالے پی لے اور اسے نشہ نہ آئے تو یہ مشروب حلال ہے۔ اگر دسویں پیالے پر نشہ آ جائے تو وہ حرام ہے۔ “ ہمیں عبدالباقی بن قانع نے روایت بیان کی ہے۔ انہیں بشرین موسیٰ نے، انہیں ہودہ نے انہیں عوف بن سنان نے ابوالحکم سے، انہوں نے اشعری قبیلہ کے ایک شخص سے، انہوں نے الاشعری سے وہ کہتے ہیں :” مجھے اور معاذ کو حضور ﷺ نے یمن کی طرف بھیجا، میں نے عرض کیا :” اللہ کے رسول ! ﷺ آپ ہمیں ایسی سر زمین کی طرف بھیج رہے ہیں جہاں کچھ مشروبات رائج ہیں۔ ایک مشروب یتع ہے جو شہد سے تیار کیا جاتا ہے۔ ایک مزر ہے جو باجرہ اور جو سے تیار ہوتا ہے، اس میں تیزی آ جاتی ہے جس کی بنا پر وہ نشہ آور بن جاتا ہے۔ “ حضرت اشعری کہتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے حضور ﷺ کو مختصر مگر جامع قسم کے الفاظ کہنے کی صفت عطا فرمائی تھی۔ چناچہ میری بات سن کر آپ نے فرمایا (انما حرم المسکر الذی یسکر عن ا لصلوۃ صرف وہی مشروب حرام ہے جو مسکر یعنی نشہ آور ہو، جو پینے والے کو نماز سے مدہوش رکھتا ہو۔ ) حضور ﷺ نے اس حدیث میں یہ بیان فرما دیا کہ صرف وہی مشربو حرام ہے جو نشہ کا موجب ہو۔ جو مشروب اس طرح کا نہ ہو وہ حرام نہیں ہے۔ ہمیں عبدالباقی نے روایت بیان کی، انہیں محمد بن زکریا العلائی نے، انہیں عباس بن بکار نے، انہیں عبدالرحمٰن بن بشیر الغطفافی نے ابواسحق سے، انہوں نے الحارث سے، انہوں نے حضرت علی سے ، وہ فرماتے ہیں : میں نے حجتو الوداع کے سال حضور ﷺ سے مشروبات کے متعلق دریافت کیا تھا۔ آپ ﷺ نے فرمایا : (حرام الخمر بعینھا والسکر من کل شراب شراب بعینہ حرام ہے اور ہر وہ مشروب بھی حرام ہے جو سکر یعنی نشہ کا باعث ہو) اس حدیث میں بھی شراب کے سوا حرام مشروبات کا بھی بیان ہے، یہ وہ مشروبات ہیں جو نشہ کا موجب ہوتی ہیں۔ ہمیں عبدالباقی بن قانع نے روایت بیان کی ہے، انہیں معاذ بن المثنیٰ نے، انہیں مسدد نے، انہیں ابوالاحوص نے، انہیں سماک بن حرب نے قاسم بن عبدالرحمٰن سے، انہوں نے اپنے والد سے، انہوں نے ابوہردہ بن نیار سے وہ کہتے ہیں : میں نے حضور ﷺ کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے (اشربوا فی الظروف ولا تسکروا۔ برتنوں میں ڈال کر پیو لیکن نشہ میں نہ آئو) آپ کا (اشربوا ) کا حکم اس نہی سے تعلق رکھتا ہے جس کے ذریعے آپ نے برتنوں میں ڈال کر پینے سے منع فرما دیا تھا، اس حکم کے ذریعے آپ نے اس کی اباحت کردی۔ یہ تو واضح ہے کہ آپ کی اس سے مراد ہر وہ مشروب ہے جس کی کثیر مقدار مسکر ہوتی ہے۔ آپ نہیں دیکھتے کہ یہ کہنا درست نہیں ہوتا :” پانی پیو لیکن نشہ میں نہ آئو “ اس لئے کہ پانی پینے کی وجہ سے کسی صورت میں بھی نشہ پیدا نہیں ہوتا۔ اس سے یہ بات ثابت ہوگئی کہ اس قول سے آپ کی مراد یہ تھی کہ جس مشروب کی کثیر مقدار نشہ آور ہو اس کی قلیل مقدار کی اباحت ہے۔ صحابہ کرام سے تیز یعنی گاڑھے نبیذ پینے کی جو روایات ہیں ہم نے ان میں سیا کثر کا ذکر اپنی صنیف ” کتاب الاشربہ “ میں کردیا ہے۔ یہاں بھی ہم چند روایات کا ذکر کرتے ہیں۔ ہمیں عبدالباقی بن قانع نے روایت بیان کی ۔ انہیں حسین بن جعفر الفتات نے، انہیں یزید بن مہران الخباز نے، انہیں ابوبکر بن عیاش نے ابوحصین سے اور اعمش نے ابراہیم نخعی سے، انہوں نے علقمہ اور اسود سے، وہ کہتے ہیں کہ ” ہم لوگ حضرت عبداللہ بن مسعود کے گھر جایا کرتے تھے۔ آپ ہمیں تیز یعنی گاڑھا نبیذ پینے کے لئے دیتے تھے۔ “ ہمیں عبداللہ بن حسین کرخی نے روایت بیان کی، انہیں ابوعوان الفرضی نے، انہیں احمد بن منصور الرمادی نے، انہیں نعیم بن حماد نے، وہ کہتے ہیں :” ہم کوفہ میں یحییٰ بن سعید القطان کے پاس موجود تھے۔ وہ ہمیں تحریم نبیذ کے بارے میں بتا رہے تھے، اتنے میں ابوبکر بن عیاش آئے اور آ کر یحییٰ بن سعید کے پاس کھڑے ہوگئے پھر کہا :” اولچے ! خاموش ہو جائو۔ “ ہمیں اعمش بن ابراہیم نے علقمہ سے روایت سنائی ہے جس میں انہوں نے کہا : ہم نے عبداللہ بن مسعود کے پاس گاڑھا نبیذ پیا تھا جس کے آخری حصے میں کسر پیدا کرنے کی خاصیت موجود تھی۔ “ ہمیں ابو اسحق نے عمر و بن میمون سے روایت سنائی ہے وہ کہتے ہیں :” جب حضرت عمر وحشی کے نیزے سے زخمی ہوگئے تھے تو اس وقت میں آپ کے پاس گیا، میری موجودگی میں آپ کے لئے نبیذ کا مشروب لایا گیا جسے آپ نے پی لیا۔ “ وہ کہتے ہیں : ابوبکر بن عیاش نے یحییٰ بن سعید القطان سے جو یہ کہا تھا کہ ” بچے ! چپ ہو جائو “ اس سے ہمیں بڑا تعجب ہوا۔ “ اسرائیل نے ابواسحٰق سے روایت کی ہے، انہوں نے شعبی سے، انہوں نے سعید اور علقمہ سے کہ ایک بدو نے حضرت عمر کے مشروب میں سے پی لیا، حضرت عمر نے حد کے طور پر کوڑے لگائے۔ بدو نے کہا کہ میں نے تو آپ کے مشروب میں سے پیا تھا یہ سن کر حضرت عمر نے اپنا وہ مشروب منگایا اور اس میں پانی ملا کر اس کی تیزی ختم کردی اور پھر اس میں سے پی لیا۔ ساتھ ہی فرمایا : جس شخص کو اپنے مشروب میں تیزی اور سکر کا اندیشہ پیدا ہوجائے وہ اس میں پانی ملا کر اس کی تیزی ختم کر دے۔ ابراہیم نخعی نے حضرت عمر سے اسی قسم کی روایت کی ہے۔ ابراہیم نخعی نے یہ بھی کہا ہے کہ حضرت عمر نے اعربای کو سزا دینے کے بعد اس مشروب میں سے پیا تھا۔ ہمیں عبدالباقی بن قانع نے روایت بیان کی، انہیں العمری نے، انہیں محمد بن عبدالملک بن ابی الشوارب نے، انہیں عمر نے، انہیں عطاء بن ابی میمونہ نے، انہوں نے حضرت انس بن مالک سے، انہوں نے ام سلیم اور ابو طلحہ سے کہ یہ دونوں متقی اور کھجور سے تیار شدہ نبیذ پیا کرتے تھے۔ دونوں پھل ملا کر نبیذ تیار کرتے تھے۔ ابو طلحہ سے کہا گیا کہ حضور ﷺ نے اس قسم کے مشروب سے روکا ہے تو انہوں نے کہا کہ حضو ر ﷺ نے اس سے اس لئے روکا تھا ک ہ اس زمانے میں بڑی غربت اور اشیائے صرف کی کمی تھی اس لئے آپ نے دو پھلوں کو ملا کر بنے ہوئے نبیذ سے بھی منع کردیا تھا۔ اس باب میں حضور ﷺ سے جو روایات منقول ہیں وہ بہت زیادہ ہیں۔ ہم نے ان کا ایک حصہ اپنی تصنیف ” کتاب الاشربۃ “ میں بیان کردیا ہے۔ یہاں ہم نے طوالت کے خوف سے ان کا اعادہ نہیں کیا۔ جہاں تک ہمیں معلوم ہے ہمارے اصحاب جن مشروبات کی حلت کے قائل ہیں ان کی تحریم کے متعلق کسی صحابی یا تابعی سے کوئی روایت منقول نہیں ہے۔ ان حضرات سے صرف نقیع زبیب اور نقیع تمر (منقی یا خشک کھجور کو پانی میں بھگو کر تیار کیا جانے والا مشروب) کی تحریم کی روایت منقول ہے۔ نیز ان حضرات سے اس شیرے کی تحریم بھی منقول ہے جو پکنے یا دھوپ میں رکھنے کے بعد تہائی حصہ نہ رہ جائے۔ یہ سلسلہ اسی طرح چلتا رہا یہاں تک کہ کچھ ایسے لوگ پیدا ہوگئے جو علم سے عاری تھے، انہوں نے عوام الناس کے سامنے نبیذ کی تحریم کے متعلق شدت پسندی کا مسلک گھڑ کر پیش کردیا۔ اگر نبیذ کی حرمت ہوتی تو اس کے متعلق کثرت سے روایات منقول ہوتیں اس لئے عوام الناس کو اس سے شب و روز واسطہ پڑتا تھا کیونکہ اس وقت لوگ عام طور پر خشک اور گدر کھجور کا بنا ہوا نبیذ مشروب کے طور پر استعمال کرتے تھے۔ اگر ان کی تحریم ہوجاتی تو اس بارے میں اسی کثرت سے روایات منقول ہوتیں جس طرح تحریم خمر کے بارے میں منقول ہیں۔ بلکہ نبیذ کے استعمال کے ساتھ لوگوں کا واسطہ خمر کے استعمال کی بہ نسبت بڑھ کر تھا اس لئے کہ اس وقت لوگوں کے لئے شراب کی بڑی قلت تھی۔ اس وضاحت کے اندر ان لوگوں کے قول کے بطلان کی دلیل موجود ہے جو نبیذ کی تحریم کے قائل ہیں۔ ہم نے اپنی تصنیف ’ دکتاب الاشربہ “ میں اس مسئلے کے ہر پہلو پر سیر حاصل بحث کی ہے۔ میسر یعنی جوئے کے متعلق حضرت علی سے مروی ہے کہ شطرنج جوئے کی ایک شکل ہے۔ حضرت عثمان اور صحابہ کرام نیز تابعین عظام کی ایک جماعت سے منقول ہے کہ میسر نرد کو کہتے ہیں (ایک قسم کا کھیل جس کو ارد شیر بابک شاہ ایران نے ایجاد کیا تھا) اہل علم کے ایک گروہ کا قول ہے کہ قمار یعنی جوئے کی تمام صورتیں میسر میں داخل ہیں۔ اس کے اصل معنی اونٹ کے گوشت کی تقسیم کے معاملے کو آسان کرنے کے ہیں جب لوگ اکٹھے ہو کر جوا کھیلتے۔ اس مقصد کے لئے تیروں پر مختلف نشانات لگا کر انہیں ایک تھیلے میں ڈال دیا جاتا۔ پھر تھیلے میں ہاتھ ڈال کر ان تیروں کو پھیرا جاتا اور باری باری ایک ایک شریک کے لئے تیر نکالا جاتا۔ اور تیر پر لگے ہوئے نشان کے مطابق ہر شریک کو گوشت میں سے حصہ مل جاتا۔ بعض دفعہ ایسا ہوتا کہ ایک شریک کا ایک تیر نکلتا جس پر کوئی نشان نہ ہوتا اور اسے کوئی حصہ نہ ملتا اور بعض دفعہ ایک شریک کو تیر پر لگے ہوئے نشان کی بنا پر وافر مقدار میں حصہ مل جاتا۔ یہ دراصل شرط لگا کر ماں کی تملیک کی ایک صورت تھی ۔ تملیک کے ایسے عقود کے بطلان کی یہی بات بنیاد ہے جن میں مستقبل میں پیش آنے والے کسی امر کی شرط لگا دی گئی ہو۔ مثلاً ہبہ کی تمام صورتیں، صدقات نیز خرید و فروخت کے عقود جب انہیں اس قسم کی شرط کے ساتھ مشروط کردیا جائے۔ اس کی مثال یہ ہے کہ کوئی شخص کسی سے کہے۔” میں نے یہ چیز تمہارے ہاتھ فروخت کردی جب زید کی آمد ہوجائے “ یا د ’ میں نے یہ چیز تمہیں ہبہ کردی جب عمرو اپنے گھر سے نکل آئے۔ “ اس لئے کہ اونٹ کے گوشت پر جوئے کی یہی صورت ہوتی تھی کہ ایک شخص کہتا : جس کا تیر نکل آئے گا وہ اونٹ کے فلاں حصے کا حق دار ہوگا۔ “ اس طرح گوشت کے حصے پر اس کا استحقاق ایک شرط کے ساتھ مشروط ہوتا۔ حقوق میں قرعہ اندازی کی دو صورتیں ہیں۔ ایک صورت تو یہ ہے کہ قرعہ اندازی میں حصہ لینے والوں کے حصے یکساں ہوتے ہیں۔ قرعہ اندازی کے ذریعے کسی کے حق کے اثبات یا اس کے حصے میں کمی کا سوال نہیں ہوتا۔ قرعہ اندازی صرف ان حقداروں کے دلوں میں اطمینان پیدا کرنے اور انہیں خوش رکھنے کی خاطر کی جاتی ہے مثلاً کسی چیز کی تقسیم کے سلسلے میں قرعہ اندازی، یا بیویوں کے لئے باری مقرر کرنے کی خاطر قرعہ اندازی یا مثلاً قاضی کے سامنے مقدمہ پیش کرنے کے سلسلے میں متعلقہ افراد کے درمیان قرعہ اندازی وغیرہ قرعہ اندازی کی دوسری صورت وہ ہے جس کے قائل ہمارے مخالفین ہیں۔ یعنی اگر کوئی شخص مرض الموت میں اپنے غلاموں کو آزادی دے دے اور ان غلاموں کے سوا اس کا کوئی اور ترکہ نہ ہو تو اس صورت میں ہمارے مخالفین کے قول کے مطابق ان غلاموں کے تہائی حصے کی آزادی کے لئے ان میں قرعہ اندازی کی جائے گی (یاد رہے کہ ایک شخص مرض الموت میں صرف اپنی تہائی مال کی وصیت کرسکتا ہے) ہمارے مخالفین کا یہ قول اس قمار بازی کی جنس میں سے ہے جس کی اللہ تعالیٰ نے اپنی کتاب میں فصاً ممانعت کردی ہے۔ اس لئے کہ اس قرعہ اندازی سے ایک غلام پر واقع ہوجانے والی آزادی کو دوسرے کی طرف منتقل کردینا لازم آتا ہے۔ نیز اس میں ایک کے حق کا اثبات اور دوسرے کے حق کو گھٹا دینا لازم آتا ہے جس کی وجہ سے ایک تو بالکلیہ اپنے حق سے محروم ہوجاتا ہے اور اس کی بجائے دوسرا شخص اپنے حق کے ساتھ اس کا حق بھی سمیٹ لیتا ہے۔ اگر دیکھا جائے تو مفہوم کے لحاظ سے قرعہ اندازی کی اس صورت الحال میسر کے درماین کوئی فرق نہیں ہے۔ انصاب سے مراد وہ بت یا پتھر ہیں جو پوجا کے لئے کھڑے کردیئے جاتے تھے خواہ ان پر کوئی شکل بنی ہوتی یا نہ نہ بنی ہوتی۔ اس میں وہ تمام چیزیں شامل ہیں جو عبادت اور پوجا کی غرض سے قائم کی جاتی تھیں۔ ازلام سے مراد وہ پانسے یا تیر ہیں جن پر وہ کسی کام کے کرلینے یا نہ کرنے کے نشانات لگا دیتے پھر وہ اپنے تمام کام ان تیروں کے نشانات کے مطابق سر انجام دیتے۔ اگر کسی کام کے متعلق کرلو کے نشان والا تیر نکلتا تو اسے کرنے پر تیار ہوجاتے۔ اگر نہ کرو، کا تیر نکل آتا تو اس کام میں ہاتھ ہی نہ ڈالتے، اسی طرح اثبات یا نفی کے نشانات پر بھی عمل پیرا ہوتے۔ نسب کے اثبات یا نفی کے سلسلے میں بھی وہ ان تیروں کو اپنا ذریعہ بناتے۔ اگر کسی بچے کے نسب کے متعلق شک پڑجاتا تو وہ تیر نکالتے اگر لا یعنی نہیں، والا تیر نکل آتا تو اس کے نسب کی نفی کردیتے اگر نعم یعنی ہاں والا تیر نکل آتا تو نسب کا اثبات کردیتے۔ قمار بازی کے لئے بھی اس قسم کے تیر استعمال ہوتے۔ قول باری (رجس من عمل الشیطان) میں وارد لفظ رجس سے مراد ہر وہ چیز ہے جس سے اس بنا پر اجتناب لازم ہے کہ یا تو وہ نجس ہے یا عبادت یا تعظیم کی وجہ سے وہ قبیح بن چکی ہے اس لئے کہ رجس اور نجس کے الفاظ ہم معنی ہیں، رجس کہہ کر نجس مراد لیا جاتا ہے۔ ان دونوں میں ہر لفظ دوسرے کے ساتھ آتا ہے۔ جس طرح عرب کے لوگ کہتے ہیں ” حسن بسن “ یا ” عطشان، نطشان “ غیرہ۔ یہاں یہ دونوں الفاظ ایک دوسرے کے ساتھ آتے ہیں اور ہم معنی ہیں۔ لفظ (جن کے بارے میں کہا گیا ہے کہ یہ عذاب کے معنوں میں استعمال ہوتا ہے۔ قول باری ہے (لئن کشفت عنا الرجزا اگر تو ہم سے عذاب دور کر دے) رجز سے مراد عذاب ہے کبھی یہ لفظ رجس یعنی نجس کے معنوں میں آتا ہے۔ قول باری ہے (والرجز فاھجر اور نجس سے دامن بچا) نیز فرمایا (ویذھب عنکم الرجز اور تم سے گندگی کو دور کر دے) اللہ تعالیٰ نے زیر بحث آیت میں فرمایا (من عمل الشیطان) تو اس کی وجہ یہ ہے کہ شیطان ان گندے کاموں کی طرف بلاتا اور انہیں عمل میں لانے کا حکم دیتا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے شیطان کی طرف نسبت کر کے ان افعال کی تحریم کی اور بھی تاکید کردی کیونکہ شیطان معاصی، محرمات اور قبیح افعال کو بروئے کار لانے کے سوا اور کسی بات کا حکم نہیں دیتا۔ اس لئے مجازاً ان افعال کی نسبت شیطان کی طرف درست ہوگئی۔ اس لئے شیطان ہی ان افعال کی طرف دعوت دینے والا اور انہیں خوشنما بنا کر پیش کرنے والا ہے۔ آپ نہیں دیکھتے کہ اگر کوئی شخص کسی کو کسی اور شخص کی پٹائی کرنے یا گالی دینے پر ابھارے اور اس عمل کو بہت آراستہ کر کے اسے دکھائے تو اس موقع پر اس شخص سے یہ کہنا درست ہوتا ہے کہ ” یہ سب تمہاری کارستانی ہے۔ “
Top